جواب:میں اپنی تاریخ پیدایش کبھی نہیں بھول سکتی کیونکہ ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو میرے والد کی شہادت ہوئی اوراسی سال ۲۸ستمبر ۱۹۴۹ء کومیری پیدایش ہوئی ۔ ۲۸ستمبر۱۹۶۹ء کو میری والدہ محترمہ کی وفات ہوئی جب میری عمر صرف ۱۹برس تھی۔میںنے قاہرہ یونی ورسٹی سے بی کام کیا۔ پھر الازھر یونی ورسٹی سے ڈاکٹر عبدالعزیز حجازی کی زیر نگرانی ’’اسلامی نقطۂ نظر سے اخراجات، سود اور قیمتوں کے درمیان تعلق‘‘ کے عنوان پر مقالہ لکھ کر ایم فل کی ڈگری حاصل کی اور اسی یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ میرے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا ’’شریعت اسلامی اور جدید فکر کی روشنی میں،افراط زر کا تقابلی مطالعہ‘‘۔
ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حسنی مبارک کی حکومت نے میرے ذرائع آمدنی کومحدود کرنے کے لیے مجھے مصرکی یونی ورسٹیوں میں تدریس کا موقع نہ دیا۔لیکن میںسعودی عرب میں ملک سعودیونی ورسٹی میں اپنے تخصص کے میدان میں پڑھاتی رہی۔ حسنی مبارک کی حکومت کی طرف سے اسلام پسندوںپرعموماً اور ہمارے اوپر خصوصاً سخت سختیاں روا رکھی گئی تھیں، اس لیے میں نے اپنے خاندان کے ہمراہ ۳۲سال سعودی عرب میں گزارے۔
میرے شوہر سرجری کے پروفیسر ہیں۔ میری تین بیٹیاں اور د وبیٹے ہیں۔ بڑی بیٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے اورماڈرن اکیڈمی میں ہیومن ڈویلپمنٹ کا مضمون پڑھاتی ہے۔ درمیان والی بیٹی نے کامرس میں ایم فل کیا۔ اس کے تین بچے ہیں اوروہ خاتون خانہ ہیں۔چھوٹی بیٹی انجینیر ہے۔ اس نے قاہرہ یونی ورسٹی سے ایم فل کیا ہے۔بڑابیٹا محمد الیکٹریکل انجینیر ہے اور اس وقت حرم مکی کی ایک ورکشاپ میں کام کرتا ہے۔ چھوٹا بیٹا حسن البناسویس شہرمیں وکالت کرتا ہے ، اور قانون میں ایم فل کا مقالہ لکھ رہا ہے۔
آپ اپنے والد گرامی کی وفات کے بعد پیدا ہوئیں۔ آپ نے اپنے والدمحترم کے بارے میں بہت کچھ سنا ہو گا۔ اپنے والد محترم کے بارے میں اپنے گھر والوںکی کون سی باتیںآپ کو یاد ہیں؟
میں نے اپنی بہنوں اور اپنے بھائی سیف الاسلام سے والد محترم کے بارے میں بہت سی باتیں سنی ہیں۔میرے والد محترم ایک شفیق باپ، بہترین شوہر اور خاندان کے ذمہ دارسرپرست تھے۔وہ ہر چھوٹی بڑی بات پر غورکرتے تھے۔ گھر اور بچوں کی تمام ضروریات اچھی طرح جانتے تھے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میری امی کے بتانے سے پہلے ہی وہ گھرکی تمام ضروری اشیا لے آتے تھے ۔ میرے بھائی اور بہنوں کے تمام امور کی بہت باریک بینی سے نگرانی کرتے تھے۔انھوں نے ہر ایک کی الگ فائل بنائی ہوئی تھی، جس میں ہر ایک کی صحت کی صورت حال درج ہوتی تھی، اگر کوئی بیمار ہوتا تو اس کی بیماری کی تاریخ ، اس کا مسلسل علاج اور اس کے لیے تجویز کی گئی دوائیاں درج ہوتی تھیں۔ اسی طرح اس فائل میں ہرایک کی تعلیمی صورت حال ،تعلیمی اسناد اورڈگریاںبھی درج ہوتی تھیں۔ اپنے بچوں کی تعلیمی صورت حال اور ہر ایک کی اچھی صفات اورکمزوریوں کاجائزہ لینے کے لیے وہ مسلسل اساتذہ سے ملاقاتیں کرتے رہتے تھے۔اسی طرح جس سکول میںبچے پڑھ رہے ہوتے اس کی انتظامیہ سے بھی رابطہ رکھتے تھے۔
کیا آپ کے والد محترم کا بیٹیوں اور بیٹے کے ساتھ مختلف رویہ تھا؟
بالکل نہیں۔ میرے والد محترم نے کبھی بھی اپنے بچوں میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیںکیا۔ان کے نزدیک سب برابر تھے۔ میں نے سنا ہے کہ جب میرے بھائی سیف الاسلام پیدا ہوئے تو انھوں نے میری امی کو عرب روایت کے مطابق بڑے بیٹے کی نسبت سے ’ اُم سیف الاسلام‘ پکارنے کے بجاے پہلے کی طرح’اُم وفا‘ کہنے پرہی اصرار کیا کیونکہ ہماری بہن ’وفا‘ بھائی بہنوں میں سب سے بڑی تھیں۔بچوں میں سے کسی نے بھی والد محترم کے رویے میں کوئی فرق نہیں محسوس کیا۔اس لیے سب ان کو خوش کرنے اور ان کے حکم کی تعمیل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔میں سمجھتی ہوں کہ بچوں کا اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا،اللہ تعالیٰ کی نعمت اوراس کی خوشنودی کی دلیل ہے۔ کچھ لوگ اگرچہ خود تو اپنے والدین کے فرمانبردار ہوتے ہیں لیکن ان کی اولاد نافرمان ہوتی ہے۔یہ ایک بڑی آزمایش ہوتی ہے۔ اس پر صبرکرنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے۔
آپ کی والدہ محترمہ دل کی مریضہ تھیں۔ اس صورت حال میں وہ آپ کے والد محترم کے دعوتی اور اصلاحی کام کی ذمہ داریوں میں کیسے ہاتھ بٹاتی تھیں؟
میری امی سمجھتی تھیں کہ میاں بیوی کی خوش حال اور پُرسکون زندگی کے لیے بیوی کا اپنے شوہر کے مشن پریقین اور اس سے ہم آہنگ ہونا بہت ضروری ہے۔ وہ میرے والدمحترم کے اجر و ثواب میںبرابر کی شریک ہونا چاہتی تھیں۔ وہ میرے والد محترم کے ہر چھوٹے بڑے مہمان کابخوشی استقبال کرتی تھیں۔بیماری کے باوجود ان کے لیے ان کی پسند کا کھانا تیارکرتی تھیں۔وہ اللہ تعالیٰ پر بہت زیادہ بھروسا رکھتی تھیں۔امی جان ہر وقت، ہر حال میں خوش رہتی تھیں۔ایک واقعہ مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔ ایک مرتبہ انھوں نے میرے بھائی سیف الاسلام کوقربانی کا جانور خریدنے کے لے کچھ پیسے دے کر ماموں کے ساتھ بھیجا۔ کچھ دیر بعدسیف الاسلام بھائی بکرا خریدے بغیرخالی ہاتھ واپس آگئے اورامی جان کو بتایا کہ ایک شخص کو پیسوں کی سخت ضرورت تھی ۔ اس پر کچھ قرض تھا، اگر وہ نہ دیتا تو اس بے چارے کو جیل میں جانا پڑتا،اس لیے سارے پیسے اسے دے دیے۔ اس موقع پرمیں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ امی جان نے میرے بھائی کو ڈانٹنے کے بجاے مسکراتے ہوئے کہا کہ: ’’بیٹا بہت اچھا کیا‘‘۔ پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک ڈاکیہ حکومت کی طرف سے منی آرڈر لے کر آیا جس میں وہ اضافی پیسے واپس کیے گئے تھے جو ہم نے پائپ لائن بچھانے کے لیے حکومت کوادا کیے تھے۔یہ ایک بالکل عجیب بات تھی ، کیونکہ حکومت لوگوں سے لیے ہوئے پیسے واپس نہیں کرتی تھی۔ لیکن یہ سراسر اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا ثمر تھا۔اللہ تعالیٰ ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جو اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ امی جان ؒ ہمارے گھر میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بھی بہت اچھا سلوک کرتی تھیں۔ انھیں گھر کے افراد ہی کی طرح سمجھتی تھیں۔ اگر بچوں میں سے کوئی کبھی کسی نوکرانی سے کوئی تلخ کلامی کربیٹھتا تو امی جان ایک جملہ کہہ کر ڈانٹتیں۔ وہ کہا کرتی تھیں: ’’ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو جن کا اللہ کے علاوہ کوئی نہیں ‘‘۔اگرچہ امی جان زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھیں لیکن حلال اور حرام کے معاملے میں ہماری تربیت بالکل فطرت سلیمہ کے مطابق کرتی تھیں۔ انھوں نے ایک عالم دین کو ٹیوشن پڑھانے کے لیے رکھا ہوا تھا جو گھروں میں آکر بچوں کو فقہی معاملات اور اسلامی تعلیمات کا درس دیتے تھے۔
جب ہم ٹی وی دیکھ رہی ہوتیں توامی جان ہمیں کہتیں:’’خبردار یہ تمھیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ کر دے‘‘۔ بس اتناکہہ کر چلی جاتیںلیکن ان کا یہ ایک جملہ تمام نصیحتوں سے بڑھ کر ہوتا تھا۔ ہم یاتو خود ہی ٹی وی بند کر دیتے یا کڑا دھیان رکھتے کہ کوئی خلاف شریعت بات نہ دیکھیں۔ یہ امی کا ایسا اسلوب تھا جو آج کل بڑی بڑی ڈگری والیوں کے ہاں بھی نہیں پایا جاتا۔
امام حسن البناشہیدؒ کا یہ امتیاز تھا کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرلیتے تھے اور تمام گروہوں کے ساتھ چل سکتے تھے۔ اگرچہ وہ شہید ہوگئے ہیں لیکن ان کی سوچ ، فکراور ان کی تشکیل کردہ جماعت ابھی تک باقی ہے۔ ہمیںاب ان اقدار کی کتنی ضرورت ہے؟
آپ نے صحیح کہا۔ امام حسن البناؒ اس صدی کے مجدددین میں سے تھے۔ وہ اسلامی فکر کو پھیلانے اور عوام الناس کے دلوںمیں اترجانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس لیے وہ عام مزدور سے لے کر فیکٹری کے مالک تک،محنت کش سے لے کراہم سرکاری ملازمین تک اورکمسن طالب علموں سے لے کر یونی ورسٹی کے پروفیسرتک، غرض تمام لوگوں کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے۔وہ سمجھتے تھے کہ ان سب میں کہیں نہ کہیںخیرموجود ہے جس کو نمایاں کرنے اور صحیح سمت میں رہنمائی دینے کی ضرورت ہے۔آج کے زمانے میں ہمیں اسی سوچ اوررویوں کو پروان چڑھانے کی سخت ضرورت ہے۔کیونکہ ہمیں اپنے وطن عزیز کے مفاد کے لیے تمام گروہوں، طبقات اور تمام مخلص لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔
کہتے ہیں کہ معاشیات کادین سے کوئی تعلق نہیں اور کوئی اقتصادی نظام اسلامی یا غیر اسلامی نہیں ہوتا۔ آپ کی کیا راے ہے؟
یہ بالکل غلط اور بہت خطرناک رجحان ہے۔کیونکہ اس کے ذریعے دینی تعلیمات کو انسان کی معاشی زندگی سے الگ کرنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔ ایساکہنے والوں سے میں کہتی ہوں کہ زندگی کی تمام مشکلات ، مسائل اور اقتصادی بحرانوں کا بہترین حل قرآن وسنت اور فقہ و میراث کی کتابوں میںموجود ہے۔جوشخص معاشیات یا سیاست کو دین سے جداسمجھتا ہے، اس نے قرآن وسنت اور فقہ کوسمجھا ہی نہیں ۔ اسلام نے قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق دنیاوی اُمور اور زندگی کے معاملات میں اجتہاد کی کھلی اجازت دی ہے ۔
ایک اسلامی معاشرے میں حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ سیاسی اور معاشی امور سمیت وہ تمام معاملاتِ زندگی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انجام دے۔ حکومتی قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کے لیے ماہرین، فقہا اور علماے کرام سے مدد لے سکتی ہے۔اسی طرح جدید وسائل اور ٹکنالوجی سے مدد لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ خود رسول کریمؐ نے ہمیںبتایا ہے کہ ’’حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ جہاں بھی ملے، مومن اس کو حاصل کرنے کاسب سے زیادہ حق دار ہے‘‘ ۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے مستقل طور پرکوئی اقتصادی فورم بنانا چاہیے؟
جی ہاں، یہ بالکل درست ہے کہ ہمیں تمام درپیش مسائل اور مشکلات کے حل کے لیے ایک جامع فورم بنانا چاہیے جس میں فقہا، مسلم ماہرین معاشیات اور ان کے ساتھ ساتھ لبرل اور سوشلسٹ نظریات کے حامل افرادبھی شریک ہوں۔ تمام لوگوں کے مطالبات اور نظریات کو زیربحث لا کر انھیں اسلامی منہج پر پرکھا جائے اور ان کا جامع حل تلاش کیا جائے۔مجھے یقین ہے کہ لبرل لوگوں کو بھی اسلام میں معاشی آزادی کے اصولوں میں اپنے مسائل کا حل نظردکھائی دے گا۔ اسی طرح اسلام کے اجتماعی کفالت کے نظام میں سوشلسٹوں کو بھی ایسے اصول مل جائیں گے جن میں تمام اہل وطن کو کافی وسائل فراہم کرنے کی ضمانت موجود ہے۔انھیں نظامِ زکوٰۃ کی یہ حکمت بھی سمجھنے میں مددملے گی کہ :’’ تاکہ دولت تمھارے مال داروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتی رہے‘‘ (الحشر ۵۹:۷)۔مشترکات پر اکٹھا ہونے اور اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کے اصول پر عمل کرنے سے ہمیں زندگی کی بہت سی مشکلات کا حل مل جائے گا۔ اب تو خود یورپ کے بعض ممالک بنکوں اوربعض دوسرے اقتصادی معاملات میں اسلامی طریقوں کو استعمال کررہے ہیںتو ہم کیوں ان سے دُور رہیں؟
آئی ایم ایف سے قرض لینے کے معاملے میں لوگوں کابہت اختلاف ہے۔ کچھ لوگ اس کی حمایت کرتے ہیں کچھ اسے پسند نہیں کرتے۔ اس بارے میںآپ کی کیا رائے ہے؟ ہمارے پاس آئی ایم ایف سے قرض کے کیا متبادل راستے ہو سکتے ہیں؟
یہ قرض بذات خود تویقینا حرام ہے۔ اس لیے کہ یہ صریح سودی معاملہ ہے۔ اس سے ملک پر مالی بوجھ پڑتا ہے۔ اسی طرح عوام پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ کیونکہ اس پر بہت زیادہ سود لازم ہوتا ہے جو نص صریح سے حرام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’’اور اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔ اسی طرح اس سے ایک عام شہری پر بھی اثر پڑتا ہے۔ چیزوںکی قیمتیں بڑھ جاتی ہیںاور ٹیکس زیادہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک شرعی اصول ہے کہ الضرورات تبیح المحذورات یعنی ناگزیر ضروریات ممنوعات کوایک حد تک جائز کر دیتی ہیں۔ جب ایک ملک دیکھتا ہے کہ اسے قرض سے بچنے کی بھر پور اور مخلصانہ کوششوں کے باوجود اب کوئی راستہ نہیں مل رہا ،تواس صورت میں یہ قرض مجبوری کے درجے میںآ جائے گا۔لیکن ضرورت بھی ضرورت کی حد تک ہی جائز ہے، اس سے زیادہ حرام ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اسلامی متبادلات کو بھی فروغ دینا چاہیے،مثلاً قومی پیداوار میں حقیقی اضافے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سرمایہ کاری کی جائے۔
مختلف افراد اور اداروں کو بنکوں کے اصل سرمایے یا محنت میں شریک کر کے اصل سرمایے اور محنت کی نسبت سے منافع میں شریک کیا جائے۔افراد اور اداروں میں سے اگرکوئی کسی حصے کا مالک بننا چاہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بتدریج منافع کی شرح کم کر لے تاکہ اس کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہو سکے۔منافع کی شرح کے بارے میں بنک اور افراد یا ادارے مقررہ وقت تک کسی بھی شرح پر اتفاق کر سکتے ہیں۔
حلال متبادلات میں سے ایک زکوٰۃ کے نظام کو فعال بنانا بھی ہے۔ اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے زیر سرپرستی زکٰوۃ کا ادارہ بنائے ۔ اس کے لیے الگ بجٹ ہو، جس میں بنکوں اور افراد کے مال پر سال مکمل ہونے پر اور نصاب پورا ہونے کی شرط سے زکٰوۃ جمع کی جائے۔ماہرین کے مطابق ہمارے ملک میں اس طریقے سے ۱۸؍ارب مصری پاؤنڈ کی سالانہ رقم فراہم ہو سکتی ہے۔
کیا اسلام کے معاشی نظام میںہمارے موجودہ اقتصادی بحران کا حل موجود ہے؟
بالکل، اسلام کے معاشی نظام میں نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا کی تمام مادی اور معاشی مشکلات کا حل موجود ہے۔فرانس کے ایک معروف ماہر معاشیات اور معاشیات میں نوبل انعام یافتہ ’موریس آلیاس‘ کی گواہی کافی ہے۔ اس نے ایک رسالے میں لکھا ’’اسلام کا معاشی نظام ہمارے زمانے کے لیے سب سے زیادہ مناسب نظام ہے۔اس لیے کہ یہ ٹیکس کو ۲فی صد تک کم کردیتا ہے اوراس کی بنکاری سود سے پاک ہے‘‘۔
اسلام کے معاشی نظام میں زکٰوۃ، اوقاف اور صدقات کے نظام کو متحرک کرکے تمام طبقات کے معاشی مسائل یقینی طور پرحل کیے جا سکتے ہیں۔زکٰوۃ کے ذریعے بے سہارا لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی سرمایہ فراہم کیا جاسکتاہے ۔پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے ایسے افراد کہ جن کے پاس مہارت تو ہے لیکن وسائل نہیں ہیں، انھیں ایسے آلات اور وسائل فراہم کیے جا سکتے ہیںجو انھیں ملکی پیداوار بڑھانے میںمدد دیں۔اگر کسی شہری کے پاس سرمایہ کم ہے تو اسے اسلامی بنکوں کے ذریعے ترقیاتی منصوبوں میں شریک کر کے اس کے سرمایے کی نسبت سے منافع دیا جاسکتا ہے۔بڑے سرمایہ داروں کے لیے بھی یہی طریقہ کار ہونا چاہیے کہ ان کو شیئرز کا مالک بنایا جائے اور تجربہ کار اور ماہر لوگوں کوان کے تجربے اور مہارت کی مناسبت سے کمپنیوں کے منافع میں شریک کیا جائے۔
میں یقین سے کہتی ہوں کہ زکٰوۃ کے مصارف میں ہمارے تمام اقتصادی مسائل کا حل موجود ہے۔اس کی واضح مثال ہمیں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی سیرت میں ملتی ہے کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں زکٰوۃ کے ذریعے پوری امت کو خودکفیل بنا دیا۔
اسلامک بانڈ کہاں تک ملکی ترقیاتی پروگراموں کے لیے مددگاراور بیرونی قرضوں کامتبادل بن سکتے ہیں؟
اسلامک با نڈ سرمایہ کاری کے لیے نہایت اہم ذریعہ ہیں، جو مقاصد شریعت کے بالکل مطابق ہے کہ کسی چیز کا ضامن اس منافعے کا مستحق ہوتا ہے۔ حکومت ایسے اسلامی بانڈ جاری کرسکتی ہے جن کی ملکی اور بین الاقوامی سطح پرخرید و فروخت ہو۔ اس طرح سے سرمایہ کاری کے مطلوبہ مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور بیرونی قرضوں سے بھی نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ان بانڈز کے حامل افراد جب چاہیں جہاں چاہیں اپنی مرضی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری بھی کر سکتے ہیں۔ جب چاہیںانھیں دوسرے سرمایہ کاروں کو فروخت کرسکتے ہیں۔کچھ بانڈزرفاہی کاموں کے لیے مخصوص کیے جا سکتے ہیں۔ان کی حیثیت خیراتی طور پر وقف کی ہوتی ہے۔ ملایشیا نے اسلامی بانڈجاری کیے جن کی قیمت۵۴فی صد اضافے کے ساتھ ۱۳۱کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات نے د بئی اسلامی بنک کے ذریعے ایک کروڑ ۷۷۵ملین ڈالر کمائے ہیں۔ یہ پیسہ وہ اقتصادی پروگراموں پر اس شرط کے ساتھ خرچ کرتا ہے کہ ان پروگراموں کی کامیابی کی ضمانت دی جائے۔
یہ توآپ نے اقتصادی مسائل حل کرنے کے لیے ملک اور اداروں کی ذمہ داریاںبتائیں۔ یہ بتائیں کہ حالیہ کٹھن اقتصادی حالات پر قابو پانے کے لیے افراد کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟
عوام ایک خاندان کی حیثیت رکھتے ہیں اورملکی پیداوار کو بڑھانے کے لیے پورے خاندان پربہت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ عوام کو چاہیے کہ وہ ملکی مصنوعات خریدیں۔ غیر ملکی چیزوں کی خریداری پر پابندی لگائی جائے۔ خرید اروں کے تحفظ کے لیے بنائی گئی تنظیموں کے ساتھ رابطے رکھیں۔شکایات کے ازالے کا نظام بہتربنایا جائے۔ فیکٹریوں اور کمپنیوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو سہولتیں دی جائیں تاکہ عوام کے ذوق کے مطابق ان کی پسندیدہ مصنوعات تیار کی جاسکیں۔ تفریحی خریداری کے اعلانات کی نحوست سے بھی بچنا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ دھوکادہی اور فریب سے بھی بچنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی خیالی چیز کا اعلان کر کے خریداروں کو دھوکا نہ دے سکے، اپنی چیز کی موہوم خوبیاں بتا کر عوام کو بے وقوف نہ بنا سکے۔