جون ۲۰۱۳

فہرست مضامین

پاکستان پر امریکی ڈرون حملے اور دفاعِ وطن میاں نوازشریف کے لیے پہلا اور آخری موقع

پروفیسر خورشید احمد | جون ۲۰۱۳ | شذرات

Responsive image Responsive image

امریکی صدر اوباما نے ۲۲مئی ۲۰۱۳ء کو واشنگٹن میں نیشنل ڈیفنس یونی ورسٹی میں اپنی صدارت کے دوسرے دور کا اہم ترین خطاب کیا ہے جس میں  دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگی پالیسی، خصوصیت سے ڈرون حملوں کے بارے میں اپنے آیندہ لائحہ عمل کے خطوطِ کار بیان کیے ہیں۔ اس تقریر کا ایک خاص پس منظر ہے جسے سامنے رکھنا ضروری ہے۔

نائن الیون کے بعد امریکی صدر جارج بش نے کانگریس سے ایک مبہم قانون کے تحت افغانستان میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘کے لیے ہرذریعے کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل کرلی تھی۔ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی صرف افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف اقدام کے لیے چھتری فراہم کی تھی مگر امریکا کی سیاسی اور عسکری قیادت نے اس مبہم اختیار (authorization)  کو دنیا بھر میں خصوصیت سے عراق، پاکستان، یمن اور صومالیہ میں ہرطرح کے بے دریغ فوجی اقدامات کے لیے استعمال کیا۔ اپنی صدارت سے پہلے اوباما نے ایک سینیٹر کی حیثیت سے بش کے ان اقدامات کو چیلنج کیا تھا اور ۲۰۰۷ء میں اپنی انتخابی مہم کے ابتدائی مرحلے میں صاف الفاظ میں اعلان کیا تھا:

دستور کے تحت صدر کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ ایسی صورتِ حال میں جس میں قوم کو درپیش کوئی فوری یا حقیقی خطرہ روکنا پیش نظر نہ ہو، یک طرفہ طور پر فوجی حملے کا اختیار دے۔ تاریخ نے ہم کو بارہا دکھایا ہے کہ فوجی حملہ اسی وقت سب سے زیادہ کامیاب ہوتا ہے جب اس کا اختیار مقننہ نے دیا ہو اور وہ اس کی حمایت کرتی ہو۔

صدربش نے اپنے صدارتی اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پوری دنیا میں فوجی کارروائیوں کی چھوٹ دی اور اپنے ماضی کے سارے دعوئوں کے باوجود صدر اوباما نے بھی اس جارحانہ پالیسی کو جاری رکھا بلکہ جہاں تک ڈرون حملوں کا تعلق ہے، ان میں چند در چند اضافہ کردیا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، بش کے دور میں کُل ۴۵ بار ڈرون حملے ہوئے، جب کہ اوباما کی صدارت کے پہلے ہی سال یہ تعداد ۵۳ ہوگئی اور اب تک ۳۲۰حملے ہوچکے ہیں جن میں ۳ہزار سے زائد افراد   جاں بحق کیے جاچکے ہیں۔ پاکستان سینیٹ کی دفاعی اُمور کی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ان میں  ’عسکریت پسندوں‘ کی تعداد ۵۶۵ تھی، جب کہ عام معصوم شہریوں کی تعداد ۲ہزار۳سو۲۴ تھی جن میں سے متعین طور پر خواتین اور بچوں کی تعداد ۶۴۶ تھی۔ اوباما کے دور میں ڈرون حملوں کا دائرہ دوسرے ممالک تک بھی وسیع کردیا گیا اور یمن اور صومالیہ میں بھی بے دریغ ڈرون حملے کیے جارہے ہیں۔

ویسے تو دہشت گردی کے خلاف امریکا کی ۱۲سالہ جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک کیے جاچکے ہیں لیکن ڈرون حملوں کے باب میں کئی سال سے امریکا اور خود مغربی دنیا میں تنقید اور احتساب کی مؤثر آوازیں اُٹھائی جارہی ہیں جن کا اب کچھ نتیجہ بھی نکلنے لگا ہے۔ اس میں اہم نکات یہ ہیں:

۱- امریکی صدر اور انتظامیہ کو امریکی دستور کے تحت اس نوعیت کے حملوں کی اجازت نہیں تھی اور انتظامیہ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

۲- امریکی دستور اور فوجی قانون کے تحت ایک قانونی جنگ میں بھی فوجی قوت کے استعمال کا اختیار صدر اور پینٹاگان کو ہے۔ سی آئی اے ایک جاسوسی اور تجزیہ کرنے والا ادارہ ہے۔ فوجی اقدام کا اسے اختیار نہیں۔ حالیہ ڈرون حملے امریکی فوج نہیں، سی آئی اے کررہی ہے جو امریکا کے دستور اور جنگی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ نیز اس طرح انتظامیہ کے ان اقدامات کے باب میں کانگریس کی نگرانی اور اس کے سامنے جواب دہی سے بچ نکلنے کے چور دروازے بنے ہوئے ہیں۔

۳- ڈرون حملوں کے پورے عمل کو کانگریس اور عوام سے مخفی رکھا گیا ہے۔ حکومت نے بھی مجبوراً اب اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، اور یہ عوام سے دھوکا ہی نہیں،امریکی دستور اور جمہوری اصولوں کی صریح خلاف ورزی بھی ہے۔

۴- ایک ایسے ملک پر ڈرون حملے، جس سے امریکا برسرِ جنگ نہیں بلکہ جسے دوست ملک قرار دیتا ہے، اقوامِ متحدہ کے چارٹر، بین الاقوامی قانون، جنیوا کنونشن اور معروف سفارتی آداب کی صریح خلاف ورزی ہے۔

۵- ڈرون حملوں میں محض مبہم اطلاعات یا اندازوں کی روشنی میں ٹارگٹ کلنگ کی جارہی ہے جو ہر قانون کی خلاف ورزی اور نہ صرف جنگی جرم ہے بلکہ کچھ صورتوں میں نسل کشی (genocide) کے زمرے میں آتی ہے۔ امریکی انتظامیہ کا یہ خودساختہ اصول کہ مخدوش علاقے میں جو بھی مرد اسلحہ اُٹھانے کی عمر میں ہو، وہ متحارب (combatant) شمار کیا جاسکتا ہے اور اسے ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے، ہرقانون اور ضابطے کے منافی ہے اور انسانیت کے قتل کی کھلی چھٹی دینے کے مترادف ہے جو بالکل ناقابلِ قبول ہے۔ اس پر عمل انسانیت کے خلاف جرم ہے۔

۶-ڈرون حملوں کے نتیجے میں نہ صرف حملوں کا نشانہ بننے والے علاقوں میں بلکہ متعلقہ ممالک اور پوری دنیا میں امریکا کے خلاف جذبات فروغ پارہے ہیں جو نفرت کے طوفان کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ اس طرح معروف ’دہشت گرد‘ تو کم مارے جارہے ہیں، نئے دہشت گردوں کی فوج ظفرموج تیار ہورہی ہے اور اس طرح امریکا اپنے جنگی مقاصد میں ناکام ہو رہا ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی اور روز بروز وسعت اختیار کرنے والی جنگ کی آگ میں پھنستا چلا جا رہا ہے۔ PEW کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ڈرون حملوں کی آبادی کے ۹۸ فی صد نے مخالفت کی ہے اور اس کی وجہ سے امریکا دشمنی کے جذبات کو فروغ حاصل ہوا ہے۔

صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ردعمل کی یہی کیفیت ہے۔ PEW ہی کے ایک سروے کے مطابق ان ممالک میں جو امریکا کے دوست ہیں اور اس جنگ میں امریکا کے ساتھ ہیں، وہاں ڈرون حملوں کے خلاف عوامی ردعمل سخت منفی ہے۔ یونان کی آبادی میں ۹۰ فی صد، مصر میں ۸۹ فی صد، اُردن میں ۸۵ فی صد، ترکی میں ۸۱ فی صد، اسپین اور برازیل میں ۷۶ فی صد، جاپان میں ۷۵ فی صد اور میکسیکو میں ۷۳ فی صد ڈرون حملوں کی مخالفت اور مذمت کرتے ہیں۔ امریکا میں ۲۶ فی صد مرد اور ۴۹ فی صد خواتین اس کے خلاف راے کا اظہار کررہی ہیں۔

یہ ہے وہ پس منظر جس میں امریکا کی کانگریس میں بھی اس پالیسی کو چیلنج کیا گیا ہے۔ کانگریس کی کمیٹیاں اس کا جائزہ لے رہی ہیں اور علمی، اور عوامی سطح پر بھی اسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس پس منظر میں اوباما نے پالیسی پر جزوی نظرثانی کی بات کی ہے، یعنی تعداد میں کمی، اہداف کا زیادہ احتیاط سے تعین، اعلیٰ ترین سطح پر فیصلے کا عندیہ، کسی عمومی نگرانی کے نظام کے امکانات کا جائزہ اور چھے ماہ کے بعد سی آئی اے سے لے کر پینٹاگان کی طرف ان اختیارات کے تبادلے کی کوشش۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود صدراوباما نے کہا:

جیسے جیسے ہماری لڑائی ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے، امریکا کا خود اپنے دفاع کا جائز دعویٰ بحث کا آخری نکتہ نہیں ہوسکتا۔ کسی فوجی تدبیرکے قانونی یا مؤثر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دانش مندانہ بھی ہے اور ہرحال میں اخلاقی بھی۔ وہ انسانی ترقی جس نے ہم کو یہ ٹکنالوجی دی ہے کہ ہم نصف دنیا دُور جاکر حملہ کریں، اس نظم و ضبط کا تقاضا بھی کرتی ہے کہ ہم طاقت کے استعمال کو قابو میں رکھیں یا پھر اس کے غلط استعمال کا اندیشہ مول لیں۔

اوباما صاحب نے صاف لفظوں میں اصرار کیا ہے کہ پاکستان پر حملے جاری رہیں گے۔  یہ اعلان ایک ایسے وقت آیا ہے جب ۱۱مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات میں عوام نے ان جماعتوں کو  عبرت ناک شکست دی ہے جو امریکا کی اس جنگ میں اس کے معاون تھے اور پاکستان کی حاکمیت، آزادی اور سالمیت پر ان حملوں میں تعاون کر رہے تھے، یعنی ملوث تھے، یا کم از کم قوم کے مزاحمت کے مطالبے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ جن جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے انھوں نے اپنی انتخابی مہم میں ڈرون حملوں کو رُکوانے اور امریکا کی دہشت گردی کے نام پر اس جنگ میں سے پاکستان کو نکالنے کا وعدہ کیا ہے۔

امریکا کے ڈرون حملوں کے جارحانہ اقدام کو پشاور ہائی کورٹ کے اس تاریخی فیصلے کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے جو ۹مئی ۲۰۱۳ء کو دیا گیا ہے۔ اس میں عدالت نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ:

۱-ڈرون حملے جو قبائلی علاقوں (فاٹا) خصوصاً شمالی اور جنوبی وزیرستان میں سی آئی اے  اور امریکی انتظامیہ کر رہی ہے، بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور یو این جنرل اسمبلی کی متفقہ طور پر منظور کردہ قرارداد اور جنیوا کنونشن سب کے خلاف ہیں، لہٰذا اس کو جنگی جرم قرار دیا جاتا ہے جو عالمی عدالت انصاف یا جنگی جرائم کے خصوصی ٹربیونل ، جو اقوامِ متحدہ نے اس مقصد کے لیے قائم کیا ہو یا قائم کرے، کی حدود میں آتا ہے۔

۲- ڈرون حملے جو ان مٹھی بھر مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف کیے جائیں جو امریکی حکومت، حکام یا افواج سے حالت ِ جنگ میں نہیں ہیں، اس موضوع پر بین الاقوامی کنونشن اور ضوابط کی خلاف ورزی کے مترادف ہیں۔ اس لیے یہ قرار دیا جاتا ہے کہ یہ کُلی طور پر غیرقانونی ہیں اور ریاست پاکستان کی خودمختاری کی صریح خلاف ورزی ہیں، کیونکہ اس کی حدود اور فضائی حدود میں اس کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کی مرضی کے خلاف باربار مداخلت کی جاتی ہے۔ اس پر امریکا سے حکومت پاکستان کے احتجاج کے باوجود، اس کی اجازت کے بغیر اور مرضی کے خلاف یہ حملے برابر جاری ہیں۔

۳- شہری ہلاکتیں جیساکہ اُوپر بتایا گیا بشمول املاک، مویشی، جنگلی حیات اور ننھے بچے، دودھ پیتے بچے، خواتین اور چھوٹے بچوں کا قتل امریکی حکام بشمول سی آئی اے کا ناقابلِ معافی جرم ہے، اور عدالت یہی قرار دیتی ہے۔

۴-شہری ہلاکتوں، جایداد اور مویشیوں کو پہنچنے والے نقصان کی، ثابت شدہ حقائق اور اعدادوشمار کے پیش نظر، امریکا متاثرین کی امریکی ڈالروں میں مقررہ شرح کے مطابق تلافی کرنے کا پابند ہے۔

۵- حکومت پاکستان اور اس کی سیکورٹی فورسز یہ یقینی بنائیں گی کہ مستقبل میں ایسے ڈرون حملے پاکستان کی خودمختار حدود میں نہ کیے جائیں۔ اس حوالے سے مناسب تنبیہ کردی جائے اور اگر یہ نتیجہ خیز نہ ہو تو حکومت پاکستان اور ریاستی ادارے خصوصاً سیکورٹی فورسز کو یہ حق حاصل ہوگا کہ دستوری اور قانونی تقاضوں کے تحت پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہونے والے ڈرون کو گرا دیں۔

۶- حکومت پاکستان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے جائے اور اگر وہاں کامیابی نہ ہو اور امریکی حکام بغیرجواز ویٹو پاور استعمال کریں تو جنرل اسمبلی کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جائے تاکہ اس خطرناک مسئلے کا مؤثرانداز سے حل ہوسکے۔

۷- حکومت پاکستان ایک مناسب شکایت درج کرائے گی جس میں ڈرون حملوں سے پاکستان کے شہریوں کے جان و مال کا جو نقصان ہوا ہے، اس کی مکمل تفصیل ہوگی۔ اس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو کہا جائے گا کہ ایک آزاد وار کرائم ٹربیونل قائم کرے جس کا یہ مینڈیٹ ہو کہ تمام معاملات کی تحقیق و تفتیش کرے اور یہ حتمی فیصلہ دے کہ آیا یہ جنگی جرم کے مترادف ہے یا نہیں۔ پہلی صورت میں امریکی حکومت یا حکام کو ہدایت کرے کہ پاکستان کی فضائی حدود اور علاقے میں ڈرون حملے فوری طور پر روک دے، اور فوری طور پر متاثرہ خاندانوں کی عالمی معیارات کے مطابق مقررہ شرح اور تناسب کے مطابق جان و مال کی تلافی کی جائے۔

۸- وزارتِ خارجہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ مناسب قرارداد، اپیل اور ریکوزیشن کے لیے عدالت کی دی ہوئی ہدایات کے خطوط کی روشنی میں کم سے کم ممکنہ وقت میں تیاری کرے اور ساتھ ہی سلامتی کونسل سے یا جنرل اسمبلی سے (جو بھی صورت ہو) یہ مطالبہ کیا جائے کہ ایک قرارداد کے ذریعے سی آئی اے اور امریکی حکام کی یو این چارٹر اور یواین کے دیگر مختلف ضابطوں اور روایات کی خلاف ورزی کرنے پر ڈرون حملوں کی مذمت کرے، جیساکہ پہلے بیان کیا گیا ہے۔

۹- اس صورت میں کہ امریکی حکام اقوام متحدہ کی قرارداد کی تعمیل نہ کریں، خواہ یہ سلامتی کونسل نے منظور کی ہو یا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے، حکومت پاکستان ایک احتجاج کے  طور پر امریکا سے ہرطرح کے تعلقات ختم کردے گی اور بطور احتجاج امریکا کو کسی بھی طرح کی لاجسٹک سہولیات فراہم نہیں کرے گی۔

ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ تو بالکل واضح اور دستور، عالمی قانون اور پاکستان کے مفادات کے عین مطابق ہے لیکن اسے ملک کے میڈیا اور سیاسی قوتوں نے قرارِ واقعی اہمیت نہیں دی۔ عبرت کا مقام ہے کہ جس ملک پر یہ حملے ہورہے ہیں اور جس کی حاکمیت اور عزت کو یوں پامال کیا جا رہا ہے وہاں تو بات صرف تحفظات کی ہے لیکن خود امریکا کا ایک معروف کالم نگار کلائیو اسٹین فورڈ اسمتھ دی گارڈین لندن کی ۱۲مئی ۲۰۱۳ء کی اشاعت میں عدالت کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس کے احکام کی مکمل تائید کرتا ہے اور امریکا کو شرم دلاتا ہے___ یہ اور بات ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘۔

وہ لکھتا ہے:

پھر وہ ایک بالکل سامنے کی بات کہتے ہیں۔ پاکستانی افواج کا اوّلین فریضہ اپنے شہریوں کاتحفظ ہونا چاہیے۔ سیکورٹی فورسز کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ مستقبل میں اس نوعیت کے ڈرون حملے پاکستان کی خودمختار حدود میں نہیں کیے جائیں گے۔ پھر پہلے قدم پر ہی شوٹ کرنے کے بجاے، حکومت کو ’مناسب انتباہ‘ دینے کی ہدایت دی جاتی ہے لیکن اگر  اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو تو پاکستان کی فضائیہ کو ڈرون طیارے فوراً گرا دینے چاہییں۔

گو، کہ مَیں خود ایک امریکی ہوں، اس ناخوش گوار صورت حال کے بارے میں استدلال کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو کہ پاکستان سے کوئی بے پائلٹ ڈرونز کے ذریعے ٹیکساس میں دہشت گردی کرے تو میں یہ اُمید کروں گا کہ اوباما فوراً ہی فوجی طیارے بھیجے۔

یہ عدالتی فیصلہ کُل کا کُل جمہوریت اور قانون کی حکمرانی سے بحث کرتا ہے۔ امریکا ۲۰۰برس سے زائد سے اپنے آپ کو ان نظریات کے علَم بردار کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ سی آئی اے کی ڈرون حملوں کی خفیہ مہم دونوں نظریات سے بُعد کی مظہر ہے اور گوانتاناموبے اور ابوغریب جیسے سابقہ المیوں کو آگے بڑھاتی ہے۔

بات بہت واضح ہے۔ پاکستان کی آزادی اور حاکمیت پر مسلسل حملے ہورہے ہیں، اور امریکا ہمارے خلاف اقدامِ جنگ کا مرتکب ہوا ہے۔ پاکستانی عوام ہرسطح پر اس اقدام کو فوری طور پر رکوانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ تین قراردادوں کی شکل میں انھیں حاکمیت پر حملہ قرار دے چکی ہے اور حکومت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ ان حملوں کو رکوانے کے لیے ہرممکن اقدام کرے۔

انتخابات میں عوام نے ایک بار پھر اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  عدالت عالیہ کے فیصلے نے دو اور دو چار کی طرح متعین کردیا ہے کہ حکومت اور قوم کو ان حالات میں کیا کرنا ہے۔ اب محترم میاں نواز شریف کا امتحان ہے اور ان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ حلف برداری کے بعد تقریر میں صاف الفاظ میں اعلان کردیں کہ یہ حملے کسی شکل میں بھی قابلِ قبول نہیں۔ اگر امریکا پاکستان کے ساتھ دوستی کا رشتہ رکھنا چاہتا ہے تو اسے ان کو فی الفور بند کرنا ہوگا۔

ایک گروہ میاں صاحب کو ابھی سے یہ سبق پڑھا رہا ہے کہ اصل مسئلہ معاشی اور انرجی کے بحران کا ہے۔ بلاشبہہ معاشی مسئلہ اور انرجی کا یہ بحران اہم ہیں لیکن آزادی، حاکمیت اور سالمیت پر حملوں سے زیادہ نہیں۔ اور اگر دقتِ نظر سے دیکھا جائے تو معاشی بحران کے پیدا کرنے میں امریکا کی اس ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں ہماری شرکت نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی وجہ سے صرف معاشی میدان میں سرکاری تخمینے کے مطابق ۱۱سال میں ۹۷بلین ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور تباہی کا یہ سفر جاری ہے۔ معیشت کی اصلاح اور بحالی اور آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کا  چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ الگ الگ شعبے نہیں ہیں۔ آج میاں نواز شریف جس صورت حال سے دوچار ہیں وہ مئی ۱۹۹۸ء سے مختلف نہیں ہے۔ اس وقت امریکا ایٹمی دھماکے روکنے پر مصر تھا اور رشوت اور دھمکی دونوں حربے استعمال کر رہا تھا لیکن ملک و قوم نے وہی فیصلہ کیا جو آزادی اور حاکمیت کا تقاضا تھا، خواہ اس کے معاشی اثرات منفی ہی کیوں نہ ہوں اور ہوئے، لیکن تھوڑے ہی عرصے میں معاشی حالات تبدیل ہوگئے لیکن جو تحفظ اور دفاعی قوت حاصل ہوئی وہ ملک کی زندگی اور سلامتی کی ضامن بن گئی۔ آج پھر ایک تاریخی موقع ہے، حلف اُٹھانے کے فوراً بعد ذلت اور محکومی کی ان بیڑیوں کو کاٹ پھینکا جائے اور آزادی، حاکمیت اور عزت و وقار کی حفاظت کے راستے کو اختیار کیا جائے۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور پہلا اور آخری موقع ہے۔ معاملہ محض تحفظات کا نہیں ہے، دوٹوک فیصلہ آج وقت کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی اور دوسری دینی جماعتیں پہلے دن سے مضبوطی کے ساتھ اس موقف پر مصر ہیں اور اب تحریکِ انصاف بھی، جو پارلیمنٹ میں سب سے بڑی حزبِ اختلاف ہے، مسلم لیگ کے ووٹر اور ان سب پر مستزاد پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ جسے عدالتی حکم کی حیثیت حاصل ہے، ان سب کا تقاضا ہے کہ پاکستان کے موقف کو دوٹوک انداز میں امریکا اور پوری دنیا کے سامنے واضح کردیا جائے کہ ڈرون حملے ہماری حاکمیت کی خلاف ورزی ہیں اور   ناقابلِ قبول ہے۔ اس پر کسی قسم کا سمجھوتا ممکن نہیں ہے۔

اگر اس موقع پر نئی حکمت عملی کا جرأت کے ساتھ اعلان نہ ہوا تو پھر یہ موقع دوبارہ نہیں آئے گا۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ میاں نوازشریف صاحب اس موقعے پر اپنی دینی اور ملّی ذمہ ادارکریں اور پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ذلت اور محکومی کے اس باب کو بند کریں، اور عزت اور برابری کی بنیاد پر نئے باب کے آغاز کا راستہ اختیار کریں اور تاریخ کا یہ سبق سامنے رکھیں کہ  ع

یک لحظہ غافل بودم و صدسالہ راہ ہم دور شد