انتخابات کا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا اور ان سطور کی اشاعت تک حکومت سازی کا مرحلہ بھی صورت پذیر ہو چکا ہوگا۔ مستقبل کے لیے نیک تمنائیں اپنی جگہ لیکن پاکستان میں انتخابات کے نتائج ہمیشہ لوگوں کے ذہنوں میں اَن گنت سوالات پیدا کر دیتے ہیں اور بعض اصولی مباحث بھی ازسر نو شروع ہوجاتے ہیں۔
سرفہرست بحث یہ ہوتی ہے کہ انتخابات تبدیلی کا ذریعہ ہیں یا نہیں؟ انتخابات جس طرح منعقد ہوتے ہیں، جس طریقے سے نتائج کا اعلان ہوتا ہے اور جس طرح ان میں تبدیلیاں کی جاتی ہیں، کہیں ۲ لاکھ ووٹ بھی لمحوں کے اندر گن کر بتا دیے جاتے ہیں اور کہیں چند ہزار ووٹ بھی حتمی نتائج سے اپنے آپ کو ہم کنار نہیں کر پاتے، توبجا طور پر یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اس انتخابی عمل کی کتنی اصلاح ممکن ہے ؟ اور سیاسی قیادت کو بروے کار لانے کا یہ طریقہ کہاں تک تبدیلی یا انقلاب کے لیے نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے ؟ اس مرتبہ بالخصوص الیکشن کمیشن کے غیر جانب دار ہونے اور انتخابات کو منصفانہ کرانے کی اپنے تئیں تمام تر کوششوں کے باوجود جس نوعیت کے انتخابات ہوئے ہیں، اور عوام کی توقعات کا جس طرح خون ہوا ہے انھوں نے ان تمام سوالات کو مزید تقویت فراہم کردی ہے۔
انتخابات پرتقریباً ہر جماعت نے عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ شکایات کا ایک پلندا بار بار الیکشن کمیشن کا نام لے کر دکھایا اور سنایا جارہا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نہ صرف اس دل خراش داستان سے بھرے ہوئے ہیں بلکہ دستاویزی ثبوتوں کا بھی ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اسکرین اور صفحۂ قرطاس کی زینت بن گیا ہے اور شکوک و شبہات کے نقوش گہرے کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ پنجاب ہو یا سندھ، بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا، لاہور ہو یا کراچی یا دوسرے چھوٹے بڑے شہر، ہرجگہ دھرنے دیے جارہے ہیں اور جماعت اسلامی تو ناقد اورستم زدہ تھی ہی، دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ (ن )، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت سب نے اس احتجاج میں جزوی یا کلی طور پر شرکت کی ہے۔
انتخابات میں الیکشن کمیشن اندھے بہرے کی حیثیت سے کام کرتا ہوا نظر آیا ہے۔ جن معاملات میں اسے فیصلہ صادر کرنا چاہیے تھا بشمول آرٹیکل ۶۲، ۶۳ پر عمل درآمد، امیدواروں کی سکروٹنی، کراچی میں فوج کی معاونت سے ووٹر لسٹ کی تصدیق،نئی حد بندیوں، پولنگ اسٹیشنوں میں فوج کی تعیناتی ، ری پولنگ اور ری الیکشن کے حوالے سے جن مطالبات ودلائل پر توجہ دینی چاہیے تھی، وہ اس کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آئی۔ فخر الدین جی ابراہیم اور ان کی ٹیم سے توقع تھی کہ وہ نئی روایت قائم کرے گی اور منصفانہ ، غیرجانب دارانہ اور شفاف انتخابات کو یقینی بنائے گی، لیکن اس ضمن میں قوم کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔
الیکشن کا عمل شروع ہوا تو آرٹیکل ۶۲، ۶۳ کے نفاذ اور اُمیدواروں کی سکروٹنی کے عمل کو مذاق بنا دیا گیا۔ قومی دولت لوٹنے ، قرضے ہڑپ کرنے ، ٹیکس ادا نہ کرنے ، کرپشن میں ملوث اور جعلی ڈگری والے انتخابی عمل سے باہر نہ کیے جا سکے۔ حد یہ ہے کہ ریٹرننگ افسروں نے جن جعلی ڈگری والوں کو جیل بھجوایا انھیں بھی آزاد کرکے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ پھر سرمایے کے غیر معمولی استعمال کے ذریعے میڈیا میں اشتہاری مہمات سے الیکشن کمیشن نے آنکھیں بند کرلیں اور امیدواروں کی انتخابی مہم میں پیسے کے بے د ریغ استعمال سے بھی نظریں پھیر لی گئیں، اور یوں قرضہ خور، ٹیکس چور، کرپشن میں لتھڑے ہوئے جعلی ڈگریوں والے اپنی دولت و ثروت کے بل بوتے پر عوام کی امنگوں کا خون کرتے اور الیکشن کمیشن اور اس کے ضابطۂ اخلاق کا مذاق اڑاتے نظر آئے ۔
پھرالیکشن کے دن جس طرح ووٹ کا تقدس پامال کیا گیا، اس نے الیکشن کمیشن کی اہلیت اور انتظامات پربے شمار سوالیہ نشانات لگا دیے۔ اسی لیے فخرالدین جی ابراہیم پر اعتماد کا اظہار کرنے والے بھی چیخ اٹھے کہ کیا ان کی موجودگی میں یہی الیکشن ہونے تھے؟ اور کیا ایسے ہی الیکشن کا ہمیں انتظار تھا؟ یہ الیکشن کہ جن کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ صاف ستھرے اور شفاف ہوں گے، انتخابی عمل میں یہ تمام اصطلاحیں بے معنی ہو کر رہ گئیں ۔ الیکشن نتائج کے حوالے سے جو واقعات سامنے آئے ہیں،ان کو دہرانے کا فائدہ تو نہیں ہے لیکن یہ الیکشن فی الحقیقت اس قابل نہیں ہیں کہ انھیں پوری طرح اور ہراعتبار سے قابلِ قبول قرار دیا جاسکے، نتائج کے حوالے سے تحفظات میں لازماً مزید اضافہ ہوگا۔ انتخابات کو جھرلو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، انجینئرڈ الیکشن کہا جاتا ہے، ان سب اصطلاحوں کا اطلاق اس الیکشن پر ہوتا ہے۔ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ جیت گئی، عوام ہار گئے، اور اس قدر سلیقے سے سارا کام ہوا کہ کم کم اس کا احساس ہے کہ عوام سے ـ’فتح‘ چھن گئی ہے۔
الیکشن سے قبل ایم کیو ایم کے علاوہ تمام جماعتوں نے متفقہ طور پرمطالبہ کیا تھا کہ کراچی میں ووٹرلسٹوں کی فوج کی موجودگی میں ا ز سرنو تصدیق ہونی چاہیے ۔سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ دیا لیکن الیکشن کمیشن نے اس فیصلے پر سرے سے عمل درآمد ہی نہیں کیا ۔ محض ہاتھی کے دانت دکھانے کے لیے کمیشن نے کچھ کاسمیٹک اور نمایشی قسم کی چیزیں ضرور کیں لیکن فیصلے پر عمل ہوتا نظر نہیں آیا۔نہ فوج کی موجودگی میں ووٹرز کی تصدیق ہوسکی اور نہ حدبندیوں کا معرکہ از سر نو انجام دیا جاسکا۔ محض ڈیکوریشن کے لیے دو چارحد بندیا ںکی گئیں جو نہ قابلِ ذکر تھیں اور نہ قابل فہم ۔ اہل کراچی و حیدر آبادیہ مطالبہ بھی زور شور سے اٹھاتے رہے کہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر اور باہر فوج ہونی چاہیے اور اس کے پاس اختیارات ہونے چاہییں تاکہ حسب ضرورت وہ کوئی کارروائی کرسکے۔ اس مطالبے کی حمایت میں جو دلائل دیے جاسکتے تھے اورجو تبادلۂ خیال اور گفتگو الیکشن کمیشن سے کی جاسکتی تھی وہ سب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا اور الیکشن کمیشن نے کوئی ایک مطالبہ بھی نہ مانا۔ اس لیے اہل کراچی کو تمام کوششوں اور کاوشوں اوریہ دیکھنے کے باوجود کہ ایم کیو ایم جیسی تنظیم وہاں دفاعی پوزیشن اختیار کر رہی ہے، یہ خدشہ رہا کہ الیکشن شفاف نہیں ہوسکیں گے اور یہی ہوا۔
بالکل اسی طریقے سے ملک کے دوسرے حصوں بالخصوص فاٹا میں جس طرح پولنگ ختم ہوتے ہی سارے ڈبے ایجنسیوںکے لوگ اٹھا کر لے گئے اور اپنے طور پر گنتی کرکے جگہ جگہ نتائج کا اعلان کیا،اسی طرح بلوچستان میں بھی انتخابی نتائج کی اپنی اپنی مرضی کے مطابق صورت گری کی گئی ، اس نے بھی صاف ستھرے اور شفاف الیکشن کا بھانڈا پھوڑ دیا اور اس کے اندر سے شفافیت کی روح ہی نکال لی ۔ ایک لاکھ ۸۰ ہزار اور ۲لاکھ ووٹ جس طرح لمحوں کے اندر گن کر نتیجہ بیان کر دیا گیا، اور چند ہزار کا رزلٹ کئی دن بعد سامنے آیا، اس نے بھی سوالات کو جنم دیا اور طبیعتوں کے اندر ایک تکدر اور ردعمل کی کیفیت پیدا کی جس کی وجہ سے اب پہلے تو پورے ملک میں اور اب بھی کئی جگہ دھرنے ہو رہے ہیں۔
انتخابی عمل کو پراگندا کرنے اور پراگندا کرنے کے مواقع فراہم کرنے کا بازار یوں تو پورے ملک میں گرم تھا مگر کراچی کا مسئلہ سب سے الگ اور ایک مستقل چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس شہر میں (اور حیدر آباد میں بھی ) اندھیر نگری چوپٹ راج والا معاملہ تھا۔ پولنگ اسٹیشنوںپر قبضہ کر لیا گیا، پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیااور ایم کیو ایم کے لوگ اپنی مرضی سے کارروائی کرتے رہے، ٹھپے لگاتے رہے۔یہ وہ حالات تھے جن میں ایک فوری رد عمل رونما ہوا جس کا کم از کم یہ اثر ضرو ر ہوا ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں اور دنیا بھرمیں اور کراچی میں بھی ان انتخابی دھاندلیوں اور الیکشن کو ہائی جیک کرنے کے گھناؤنے کھیل کا چرچا ہوا اور کراچی کے مسئلے کو الگ کرکے حل کرنے کی ضرورت کا احساس ہر سطح پر رونما ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ کراچی میں انتخابات منعقد ہی نہیں ہوئے اور اس پر ایک خاص گروہ کو حسب سابق مسلط کر دیا گیا۔ تاہم یہ بات اب طے شدہ حقیقت کے طور پر تسلیم کرلی گئی ہے کہ ایم کیو ایم اسٹیبلشمنٹ کی جماعت اور اس کی ضرورت ہے۔ اس کے خیال میںکچھ سیٹیں اس کی جیب میں ایسی پڑی رہنی چاہییں جس کے نتیجے میں کسی بھی حکومت کو گرانے اور بنانے میں اس کا رول موجود رہے اوروہ اپنی مرضی کی پالیسیوں کو پاپولر ، خوش نما اور ہردل عزیز ہونے کے طور پر بیان کرسکے۔
خیبر پختونخوا میں جماعت اسلامی نے تحریک انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ویسے تو مخلوط حکومتیں بہت کم نتائج دکھانے کی صلاحیت کامظاہرہ کر پاتی ہیں اور بہت سے خطوط جن کا اظہار کرکے ان پر چلنے کی بات کرتی ہیں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ وہ ان پر چل سکیں۔ مخلوط حکومت کے صبح شام اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ گذشتہ حکومت میں اتحادیوں کا بلیک میلنگ اور دبائو کی سیاست پر مبنی کردار ہمارے سامنے ہے، البتہ خیبر پختونخوا میں جو جماعتیں مل کر حکومت بنانے جا رہی ہیں، ان کے حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہے کہ ان کا تاثر بدعنوان اور کرپٹ پارٹی کا نہیں ہے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن کرپشن بہت زیادہ ہے۔بے پناہ اوربے تحاشا کرپشن اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار کرکے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت بنانے اور اسے بیرون ملک میں جمع کروانے کا سلسلہ عرصے سے جاری ہے۔
اس اعتبار سے صوبے میں کرپشن فری حکومت عوام کے بہت سے دکھوں کا ازالہ کرسکتی ہے۔ ہماری تمنا اور دعا یہی ہے کہ یہ حکومت تسلسل کے ساتھ اپنے حصے کا کام کرے اور ایک اچھے ٹیم ورک کے ساتھ صوبے کے عوام کی خدمت کرے ۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کی بحا لی کا ہے۔ ڈرون حملوں ،ملٹری آپریشن اور خودکش حملوں، نیز گم شدہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے صورت حال خاصی ابتر ہے اور یہ مسئلہ مرکزی ہے، صوبائی نہیں ۔ ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے بارے میں وفاقی حکومت کیا پالیسی اختیار کرتی ہے؟ خارجہ پالیسی کو کس طرح سے دوبارہ ترتیب دیتی ہے؟ اس کی ترجیحات کا کس طرح از سر نو تعین کیا جاتا ہے؟ اس کا صوبے کی صورت حال پر اثر پڑے گا۔ مرکزی اور صوبائی حکومت کے باہمی تعاون سے ہی بہتری کی جانب پیش رفت ہو سکتی ہے اور کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔خیبرپختونخوا سمیت پورے ملک میں ترقی وخوش حالی اسی وقت ممکن ہے جب سرمایہ کاری کے لیے مناسب ماحول فراہم کیا جائے اور سرمایہ کاری کے عمل کو تیز رفتاری سے بڑھایا جائے تاکہ ملکی پیداوار اور بڑھے اور لوگوں کو روزگار ملے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دہشت گردی کا سد باب ہواور معاشرہ پُر امن راستے پر چل سکے۔
حالیہ انتخابات میں تحریک انصاف کی لہر نے خیبر پختونخوا میںاپنا زیادہ اثر دکھایا اور ہم وہاں اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔پنجاب میں ایک نہیں دو لہروں سے مقا بلہ تھا اور نتائج کے اعتبار سے وہاں مسلم لیگ (ن ) کا پلہ بھاری رہا۔ لیکن یہاں بھی ہمیں یہ نقصان ہوا کہ لوگوں کی جوبڑی تعداد آزمائے ہوئے لوگوں کی طرف نہیں جانا چاہتی تھی ، اس نے تحریک انصاف کا انتخاب کیا۔ پیپلز پارٹی کے الیکشن ہارنے کابجا طور پر شور ہے اور اس کی مرکزی اسمبلی اور سندھ کے سوا صوبائی اسمبلیوں میں تعداد نمایاں طور پر کم ہوئی ہے، البتہ یہ کہنا درست نہیں کہ وہ میدان سے بالکل باہر کر دی گئی ہے ۔ قومی سطح پر بھی اس کی پوزیشن دوسری ہے اور صوبہ سندھ میں اس کو اکثریت حاصل ہے خواہ وہ کسی طرح بھی حاصل کی گئی ہو۔اس صوبے کی حد تک وہ کسی کو شامل کیے بغیر حکومت بنا سکتی ہے۔گو، نظر یہی آرہا ہے کہ ایم کیو ایم اپنی تمام بدنامیوں کے باوجود اس کی شریکِ اقتدار ہوگی۔ پیپلز پارٹی نے بدترین پانچ سالہ دور حکومت کے باوجود اتنا نہیں کھویا جتنا لوگ تصور کر رہے تھے اورتجزیہ نگار بتا رہے تھے ۔ گو، ان کی مرکزی مہم کمزور تھی، لیکن اشتہارات کے ذریعے اس نے ماضی قریب و بعید کی مہمات اور پوزیشن کو کیش کروایا۔ بالکل یہی معاملہ اس سے پہلے مسلم لیگ ق کے ساتھ ہوچکا ہے۔
۲۰۰۸ء میں یہ شور بہت مچا کہ مسلم لیگ ق الیکشن جیت ہی نہیں سکتی لیکن اس نے جو سیٹیں لی تھیں،وہ بعد میں حکومت بچانے کے کام آئیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ جبراورظلم کی حکومت ہو یا آئین و قانون کی دھجیاں اڑانے والی حکومت، لوگ ان چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیںاور مسائل میں اضافہ کرنے اور امریکا کی غلامی کرنے والی پارٹی کی جھولی میں بھی کچھ نہ کچھ سیٹیں ضرور ڈال دیتے ہیں۔ یہ پہلے ق لیگ کے ساتھ ہوا اور اب پیپلز پارٹی کے ساتھ۔ جتنا غم و غصہ پریس اور میڈیا یا عوام کی سطح پر نظر آتا دکھائی دیتا تھا،اس کا صحیح معنوں میں کوئی ردعمل یا عکس انتخابی نتائج میں سے دکھائی نہیں دیا۔
صوبہ خیبر پختونخوا سے مرکزی اسمبلی میں تین اور صوبائی اسمبلی میں سات، پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ایک نشست حاصل کرنے (خواتین کی دو نشستیں بھی متوقع ہیں)کے با وجود یہ احساس بجا طور پر پایا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی اس کامیابی سے دُور نظر آتی ہے جو ہمارے پیش نظر تھی اورجو نظم جماعت، امیدواران اور کارکنان کی آرا اور تجزیے کے نتیجے میں محسوس ہوتی تھی۔ بہت چھوٹے دائرے میں کامیابی ہوئی۔ کارکن اگرچہ اس لحاظ سے مطمئن ہوتا ہے کہ ہماری جدوجہد دین کے غلبے کی جدوجہد ہے اور ہمارے ذمے اپنے حصے کا کام کرنا ہے لیکن یہ بات پھر بھی درست ہے کہ ہم الیکشن کو تبدیلی کا ایک ذریعہ سمجھتے رہے اور سمجھتے ہیں، اس لیے یہ کارکردگی اور نتائج کئی سوالات کو جنم دیتے ہیں۔ جن پر سنجیدہ غور و فکر اور ملک کے بدلتے ہوئے سیاسی ، معاشی، تہذیبی اور آبادی کے لحاظ سے منظرنامے کو سامنے رکھ کر مؤثر حکمت عملی اور نقشۂ کار تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا ضرورت کے سلسلے میں کچھ اُمور کی طرف اشارہ کرنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ چند حقائق کو ذہن میں تازہ کر لیں تا کہ ہمارا اصل مقصد اور ہدف سامنے رہے۔
بنیادی بات جس کی تذکیر ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان محض ایک ’سیاسی‘،’مذہبی‘ یا ’اصلاحی‘ جماعت نہیں ہے بلکہ وسیع معنوں میں ایک نظریاتی تحریک ہے جو پوری انسانی زندگی کی اسلام کے جامع اور ہمہ جہتی نظریۂ حیات کی روشنی میں تعمیر نو کرنا چاہتی ہے تاکہ انسانی زندگی، اللہ کی بندگی میں گزاری جا سکے اور انسانوں کے درمیان عدل و احسان کی بنیاد پر یہ تمام معاملات مرتب اور منظم ہو سکیں۔ اس کے لیے جماعت اسلامی تمام ممکن تدابیر سے کام لے رہی ہے، جیسے اسلام کے علم کو پھیلانا، قدیم اور جدید جاہلیتوں کی پیدا کردہ گمراہیوں کو دور کرنا، سوچنے سمجھنے والے طبقوں کو علمی حیثیت سے یہ بتانا کہ اسلام ہمارے تمام مسائل کو کس طرح حل کرتا ہے۔ جماعت کا کام صرف یہ دعوتی خدمت ہی نہیں بلکہ اس نے ان تمام امور کی اصلاح اور مسائل کے حل کے لیے زندگی کے ہر گوشے میں سر گرم جد و جہد برپا کی ہے۔ اقامت دین ہمارا اصل ہدف اور منزل ہے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کی اصلاح کے لیے ہمہ گیر کوشش اس کا ذریعہ ہے۔ سیاست کی اصلاح، اچھی ’قیادت‘ کے بروے کار لانے کی سعی اور نظام حکمرانی کو اسلام کے اخلاقی، سماجی،فلاحی اور اصلاحی مقاصد کے لیے مؤثر طور پر استعمال کرنے کے لیے حالات سازگار کرنا اس کا ہدف ہے۔ پھر جس حد تک اختیارات حاصل ہوں انھیں استعمال کر کے تبدیلی لانا اس جد و جہد کااہم حصہ ہے۔ واضح رہے کہ اسلام کی نگاہ میں یہ جد و جہد بھی عبادت کا ایک حصہ ہے اور اس سے حاصل ہونے والی قوت کو استعمال کرنے کی سعی بھی جوانتخابی عمل میں ہماری شرکت کا سبب ہے، اس ہمہ گیر جد و جہد کا ایک ضروری حصہ ہے۔
جماعت اسلامی کی جد جہد کے اس اہم ترین پہلو کو جماعت کے بانی امیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے چند الفاظ میں یوں ادا کیا تھا کہ:
جماعت جس غرض کے لیے قائم ہوئی ہے وہ ایک اور صرف ایک ہے، اور وہ ہے اللہ کے دین کو عملاً پوری طرح سے پوری زندگی میں نافذ کیا جائے، اس کے سوا اس جماعت کا کوئی مقصد نہیںہے۔ سیاسی کام بھی اگر ہم کرتے ہیں تو سیاسی اغراض کے لیے نہیں کرتے ، محض اقتدار حاصل کرنے کے لیے نہیں کرتے، بلکہ اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے جو دین حق کے قیام میں مانع ہورہی ہیں۔
دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے تبدیلی کے جس راستے کو سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے وہ ہمہ جہتی ہے اور اس کی ہر جہت دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کی مضبوطی کا باعث ہے۔ یہ راستہ ایمان کے احیا، فکر و ذہن کی تبدیلی، اخلاق و کردار کی تعمیر، اصلاحِ معاشرہ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر، انسانوں کی خدمت ، اور ان کو منظم جدو جہد کے لیے اجتماعی تبدیلی کے لیے سر گرم کرنے کا راستہ ہے۔ راے عامہ کی تعمیر اور سیاسی اور دیر پا تبدیلی کے لیے جماعت اسلامی کا مستقل طریقہ کار اس کے دستور میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے:
۱-وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ اللہ اور رسول کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیش نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجایش ہو گی۔
۲- اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳- جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیش نظر ہیں۔
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جد وجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
اس طریق کار کی روشنی میں اور پاکستان کے حالات کو سامنے رکھ کر جماعت اسلامی نے جمہوری عمل میں ہر سطح پر مؤثر شرکت اور انتخابات کے ذریعے قیادت کی تبدیلی اور سیاسی نظام کی نئی صورت گری کا راستہ اختیار کیا ہے۔ مولانا مودودی نے اس جد و جہد کی نوعیت اور حکمت کو یوں واضح کیا ہے:
یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ ہم اس وقت، جس مقام پرکھڑے ہیں، اسی مقام سے ہمیں آگے چلنا ہوگا اور جس منزل تک ہم جانا چاہتے ہیں ، اس کو واضح طور پر سامنے رکھنا ہو گا، تا کہ ہمارا ہر قدم اسی منزل کی طرف اُٹھے، خواہ ہم پسند کریں یا نہ کریں، نقطۂ آغاز تو لا محالہ یہی انتخابات ہوں گے، چوں کہ ہمارے ہاں اسی طریقے سے نظام حکومت تبدیل ہو سکتاہے اور حکمرانوں کو بھی بدلا جاسکتا ہے۔ کوئی دوسرا ذریعہ اس وقت ایسا موجود نہیں ہے ، جس سے ہم پُر امن طریقے سے نظام حکومت بدل سکیں اورحکومت چلانے والوں کا انتخاب کرسکیں۔ اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس ، دھوکے، دھاندلی، علاقائی یا مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہو سکیں، انتخابات دیانت دارانہ ہوں۔
لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کر نے کا موقع دیا جائے ۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول ، مقاصد اور پروگرام پیش کریں اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہو سکتاہے کہ پہلے انتخابات میں ہم عوام کے طرزِ فکر اور معیار انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکیں، لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظام حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظام انتخاب پر نظر ثانی کر سکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخاب کو از سر نو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہر حال آپ یک لخت جست لگاکر اپنے انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔
اس سلسلے میں مولانا محترم نے اپنے تمام کارکنوں کو صاف الفاظ میں یہ ہدایت بھی دی کہ ان کو نہ صرف صبر اور محنت سے جد وجہد جاری رکھنی ہے بلکہ اس کے جو آداب اسلام نے مقرر کیے ہیں ان کے پورے اہتمام کے ساتھ یہ جد و جہد کرنی ہے، اور وقتی نتائج سے بے پروا ہو کر اپنے اصل مقصد کے حصول کے لیے ایمان اور احتساب کے ساتھ سر گرم عمل رہنا ہے:
اگر واقعی آپ چاہتے ہیں کہ یہاں اسلامی نظام زندگی برپا ہو تو پہلے اس خیال کو ذہن سے نکال دینا چاہیے کہ اصل کام بہر حال انتخاب جیتنا ہے خواہ اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے، بلکہ خوب سوچ سمجھ کر یہ طے کر لینا چاہیے کہ انتخاب صحیح طریقے سے جیتنا ہے خواہ اس کی کوشش کرتے ہوئے آپ ایک دو چار نہیں دس انتخاب ہارتے چلے جائیں۔ صحیح مقصد کے لیے صحیح طریقے سے انتخاب جیتنے کے لیے ہمیں عوام میں مسلسل کام کرکے اپنی قوم کی ذہنی سطح کو بلند کرنا پڑے گا۔ اس کے اخلاق کو بلند کرنا پڑے گا، تاکہ وہ اسلامی نظام کو سمجھنے کے قابل ہو سکے۔ اس کی راے کو تیار کرنا ہوگا کہ وہ بھلے اور برے میں تمیز کر کے غلط قسم کی اپیلوں کو رد کر دے۔ اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے وہ پروگرام قبول کر ے جو اسلامی اصول کے مطابق بھی ہو اور معقول و معتدل اور قابلِ عمل بھی۔ نیز ان لوگوں کو اپنے معاملات کی سر براہی کے لیے منتخب کرے جو اپنی اہلیت اور سیرت و کردار کے لحاظ سے قابل اعتماد ہوں۔
تبدیلی کے صحیح اور غلط طریقوں کی نشان دہی کرتے ہوئے مولانا محترم نے اس تحریک اور اس قوم کو یہاں تک متنبہ کر دیا تھا کہ:
خدا کی قسم، اور میں قسم بہت کم کھایا کرتا ہوں، کہ جماعت نے جو مسلک اختیار کیا ہے ، وہ کسی قسم کے تشدد کے ذریعے سے، یا کسی قسم کی دہشت پسنددانہ تحریک کے ذریعے سے یا کسی قسم کی خفیہ تحریک کے ذریعے سے ، یا کسی قسم کی سازشوں کے ذریعے سے انقلاب پربا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ جمہور ی ذرائع سے ہی انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے۔ [ہماری یہ راے] ۔۔۔۔قطعاً کسی سے خوف کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ قطعا ً اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی صفائی پیش کرسکیں کہ ہم دہشت پسند نہیں ہیں اور ہمارے اوپر یہ الزام نہ لگنے پائے ۔
اصل بات یہ ہے کہ اسلامی انقلاب اس وقت تک مضبوط جڑوںسے قائم نہیں ہوسکتا ، جب تک کہ لوگوں کے خیالات نہ تبدیل کر دیے جائیں۔ اگر کسی قسم کے تشدد کے ساتھ ، یا کسی قسم کی سازش کے یا کسی قسم کی دھوکے بازیوں کے ذریعے اور جھوٹ اور اس طرح کی کسی اور مہم کے ساتھ انتخابات جیت بھی لیے جائیں ، یا کسی طریقے سے انقلاب برپا کر بھی دیا جائے تو چاہے یہ انقلاب کتنی دیر تک رہے یہ اس طرح اکھڑتا ہے جیسے اس کی کوئی جڑ ہی نہ ہو۔
جماعت اسلامی کے مقصد ، اس کی پالیسی اور اس کے طریق کار کے ان بنیادی نکات کی روشنی میں ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تحریک اسلامی کے بے لوث کارکنوں کو ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی تمام بشری کمزوریوں کے با وجود جماعت اسلامی اور اس کے کار کنوں نے حالیہ انتخابا ت میں اپنے بنیادی اصولوں اور اہداف کی روشنی میں پورے اطمینانِ قلب، ذہنی یکسوئی اور عملی انہماک کے ساتھ شرکت کی۔ اس نے قوم کے سامنے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں ایک واضح پروگرام پیش کیا۔ اس کا منشور ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے جس میں پاکستان کے موجودہ حالات کی روشنی میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے اصلاح کار کے واضح خطوط کار پیش کیے گئے ہیں اور تحدیثِ نعمت کے طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مدینہ کے ماڈل کا جو نقشہ جماعت اسلامی کے منشور میں پیش کیا گیا ہے اس کی آواز ِبازگشت دوسری جماعتوں کی انتخابی مہم میں بھی سنی جا سکتی تھی۔
مندرجہ بالا گزارشات کی روشنی میں تین امور بالکل واضح ہیں:
اولاً: جماعت اسلامی محض ایک انتخابی جماعت نہیں وہ اقامت ِدین کے مقصد کے لیے ایک ہمہ جہتی نظریاتی تحریک ہے جس نے دین کا ایک واضح تصور ، امت اور انسانیت کے سامنے پیش کیا ہے اور الحمد للہ اس فکر اور اس نقطۂ نظر کے اثرات ملک اور خطے میں ہی نہیں دنیا کے طول و عرض میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔ ہمار ا اصل ہدف اقامت دین ہے اور سیاسی جد و جہد اس کا ایک حصہ ہے نہ اس سے کم اور نہ اس سے زیادہ۔
دوم: جماعت اسلامی نے انسانی زندگی میں تبدیلی کے لیے جو طریق کار اختیار کیا ہے وہ انفرادی اور اجتماعی زندگی ، قلب کی کیفیات، ذہن کے ادراک، فکر کی تشکیل، کردار کی تعمیر، اداروں کی اصلاح اور معیشت ، معاشرت، ثقافت، قانون اور حکمرانی کے نظام اور آداب کار سب ہی کی نئی صورت گر ی پر محیط ہے۔ یہ طریق کار منہج نبوی ؐ پر مبنی ہے اور ہر دور میں مطلوبہ تبدیلی کے لیے یہی طریق کار مؤ ثر اور کامیاب ہو سکتا ہے۔
سوم: مقصد اور طریق کار کی روشنی میں جو بھی نظام کار ترتیب دیا جائے اور وقتی مصالح، حالات اور چیلنجوں کی روشنی میں جو بھی پالیسیاں ترتیب دی جائیں،نیز مقصد کے حصول کے لیے جو بھی انتظامات اور اقدام کیے جائیں وہ اجتہادی نوعیت کے امور ہیں اور ان پر حالات اور تجربات کی روشنی میں سوچ بچار اور ترک و اختیار کا سلسلہ اصولوں سے وفاداری اور بدلتے ہوئے حالات کے اِدراک کے ساتھ دلیل اور مشاورت سے ہوتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک مستقل عمل ہے اور قرآن کے الفاظ میں اس حکمت کا حصہ ہے جس کی تعلیم نبوت کا ایک اہم وظیفہ تھی۔
جماعت اسلامی نے ملک اور دنیا کے حالات کی روشنی میں جو طریق کار اور جمہوری عمل کے ذریعے تبدیلی کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ اس کے نصب العین کا فطری تقاضا ہے، البتہ ملک میں رائج انتخابی نظام میں کن اصلاحات اور تبدیلیوں کی ضرورت ہے اورپھر انتخابات میں شرکت کی صورت میں سیاسی ایجنڈے کی تشکیل، انتخابی مہم کے طور طریقے، اسلوب اور آداب وغیر ہ میں کیا روش اختیار کی جانی چاہیے اور اس میں کب کس نوعیت کی اور کس حد تک تبدیلیوں کی ضرورت ہے___ یہ وہ اُمور ہیں جن میں تجربات کی روشنی میں مشاورت کے ساتھ غور و فکر ہوتا رہنا چاہیے۔ عملی میدان میں کامیابی کے لیے اس عمل کو سنجیدگی سے جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
۲۰۱۳ء کے انتخابات کے باب میں ایک بڑا اہم سوال انتخابی نظام ، الیکشن کمیشن کے کردار اور اس پورے عمل میں مختلف عناصر اور قوتوں کے کردار کا ہے۔ اس سلسلے میں جن مشکلات اور چیلنجوں کا سابقہ رہا ہے، ان میں سے کچھ کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ اس نظام میں مطلوبہ تبدیلی کی کوششیں پوری دیانت داری اور معاملہ فہمی کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات تبدیلی کا ذریعہ بنیں اور عوام اس نظام سے مایوس نہ ہو جائیں۔جماعت اسلامی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے گی اور تمام سیاسی جماعتوں اورملک کے سوچنے سمجھنے والے افراد اور اداروں کو اس عمل میں بھر پور شرکت کی دعوت دیتی ہے، اس لیے کہ اگر انتخابی نظام کی اصلاح نہ کی گئی اوراسے ان غلطیوں اور خامیوں سے پاک نہ کیا گیا جو کھل کر سامنے آ گئی ہیں تو انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد ختم ہو جائے گا جو ہر اعتبار سے بڑے خسارے کا سودا ہے۔
دوسرا پہلو جماعت کی اپنی انتخابی مہم ، اس کی پالیسیوں، اہداف اور مقاصد کی کماحقہٗ وضاحت، اس کے کارکنوں اور ہمدردوں کی خدمات، اور اس سلسلے میں رونما ہونے والے مثبت اور منفی پہلووں کا ہے۔ نیز یہ سوال بھی بہت سے ذہنوں میںموجود ہے کہ کیا تنظیمی یا سیاسی حکمت عملی کے میدانوں میں کسی بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے یا یہ کہ کیا رائج الوقت اداراتی اور انتظامی ڈھانچے ہی کے بہتر اور مؤثر استعمال سے ان خامیوں اور کمزوریوں کو دور کیا جا سکتا ہے جن کا تجربہ ہوا ہے؟ یہ سب وہ سوال ہیں جن پر ہمیں پوری دیانت داری سے غور کرنا چاہیے۔ اوپر سے نیچے تک ہر سطح پر مشاورت اور اندرونی حلقوں اور بیرونی مخلصین کے ساتھ تبادلۂ خیال کے ذریعے آیندہ کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی نے اسلام کی روشنی میں قوم کے سامنے ایک واضح راہ عمل پیش کی ، اس نے انتخابات میں جو نمایندے قوم کے سامنے پیش کیے وہ اپنی سیرت و کردار، اپنی صلاحیت کار، اور عوامی خدمت کے اعتبار سے بہت نمایاں تھے اور ان پر کسی حلقے سے بھی کسی قسم کی بد عنوانی یا بے قاعدگی کے باب میں انگشت نمائی نہیں کی جا سکی۔ نیز ہمارے کارکنوں نے جس جذبے، اَ ن تھک محنت اور قربانی اور ایثار سے یہ جد وجہد کی وہ بھی اپنی مثال آپ تھی۔ ان سب پر ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں لیکن ان تمام اُمور پر قلبی اطمینان کے علی الرغم یہ سوال اہم ہے کہ نتائج ہماری توقعات کے مطابق کیوں نہ ہوئے؟
اس امر کے اعتراف میں ہرگز کوئی مضائقہ نہیں کہ معاشرے کے بڑے حصے تک ہم اپنی دعوت پہنچا ہی نہیں سکے ہیں۔ اپنے پیغام سے ان کو آگہی دے ہی نہیں سکے ہیں۔ جماعت اسلامی کا پیغام قرآن و سنت کی تعلیم کے علاوہ کسی اور شے کا نام نہیں ہے۔ مختلف علاقوں میں بسنے اور مختلف زبانیں بولنے والے لوگ مختلف سماجی تجربوں سے گزر کر قرآن و سنت سے کچھ نہ کچھ ہم آہنگی ضرور پیدا کر لیتے ہیں مگر دعوت کو مقامی سانچوں کے اندر ڈھال کر پیش کرنے اور اسے پوری بلند آہنگی اور اپنی وسعتوں اور ہمہ جہت مقام کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں اتارنے کے لیے شب و روز محنت کی ضرورت ہے۔ جہاں تک ’دیوانگی‘ اور ’جنون‘ کی کیفیتوںکا تعلق ہے، ہم کہاں تک وہ کیفیات اپنے تمام کارکنوں، معاونین اور ہمدردوں میں کم سے کم مطلوبہ حد تک بھی پیدا کر سکے ہیں؟ بلاشبہہ ہر دور کے اندر کچھ نام، کچھ مثالیں اور کچھ نمونے ضرور دیکھنے میں اور سننے کو ملتے ہیں اور کچھ لوگوں کے رویے واقعی متاثر کن ہوتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی پوری جماعت نے رابطہ عوام کے نتیجے میں عوام کو اپنی دعوت اور پیغام کے ساتھ کہاں تک مکمل طور پرآگاہ اور ہم آہنگ کر لیا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
الیکشن گھر گھر جا کر دستک دینے ، لوگوں کے دکھوں کو بانٹنے اور ان کے مسائل سے آگہی حاصل کرنے کا نام ہے۔ اس میں ہم کتنے کامیاب ہوئے ہیں یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ انتخابات کے موقعے پر جو جوش و خروش پیدا ہوتا ہے ،اس کو منظم طریقے سے استعمال کرنے کے نتیجے میں اس کے کئی رخ سامنے آسکتے ہیں۔بے چین، بے کل اور بپھرے ہوئے لاکھوں لوگ سڑکوں پر اژدہام کرکے انقلاب کی منزل کو قریب کرسکتے ہیں ، لوگوں کو یقین سے سرشار کر کے انھیں بڑی قربانی کے لیے آمادہ کرسکتے ہیں۔ دعوت کے ابلاغ اور لوگوں کو ہم نوا بنانے کے حوالے سے آیندہ کا لائحہ عمل کیا ہو؟ دعوت کو کیسے فروغ دیا جائے؟ اور جو رویے ہم اپناتے رہے ہیں ان کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ اب تک دعوت کو تحریری اور تقریری طریقوں سے پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اس میں جدت کیسے پیدا ہو؟ اس پر بھی سوچنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے میں انتخابات جیتنے کے لیے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں ، جس طرح لائق انتخاب افراد (electables)کو مرکزی کردار دیا جاتا ہے، مقامی سطح پر انتخابی مہم کس طرح چلائی جاتی ہے اور ملکی سطح پر کس طرح لہریں اٹھائی جاتی ہیں، یہ سب امور بھی غور طلب ہیں۔ ان میں سے کون سا طریقہ کس حد تک جائز اور قابل قبول ہے اور کن حدود کا اہتمام ضروری ہے کہ ان کی پامالی سے ساری جدوجہد کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے لیکن ان کے بغیر اگر یہ بازی سر نہیں کی جاسکتی تو پھر ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ بھی بڑا قابلِ غور مسئلہ ہے۔
اسی طرح انتخابات کے حوالے سے بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ لوگ پیسا خرچ کرتے ہیں اور ایک حد تک اس بات کو درست مانا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاس اتنا پیسا نہیں ہے جتنا دیگر لوگوں کے پاس ہے لیکن ہمارے پاس اس کا متبادل موجود ہے۔ ہمارا کارکن مفت کام کرتا ہے،پوسٹر اور جھنڈے لگاتا ہے، بلکہ مہمات میںاپنی جیب سے خرچ کرتا ہے۔ دوسری پارٹیوں میں ایسا نہیں ہے۔ان کا تو ٹکٹ بھی لاکھوں روپے دینے کے بعد ملتا ہے۔ اگر شخصیتوں کو بنایا اور کھڑا کیا جائے اور ان کے حوالے سے پیغام کو لوگوں تک پہنچایا جائے تو ہماری معاشرتی روایت کے مطابق لوگ اس شخصیت کی طرف دیکھتے اوراس کی بات سنتے ہیں، اس طرح بعض رکاوٹوں کو بآسانی عبور کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کہاں احتیاط ضروری ہے اور کہاں نئے تجربات کی ضرورت ہے؟ یہ بھی غور طلب ہے۔
اس پس منظر میں کچھ اور بھی بنیادی سوالات ذہنوں میں کروٹیں لے رہے ہیں۔ خصوصیت سے ترکی، عرب دنیا، ملائیشیا اور دوسرے مسلم ممالک میں اسلامی قوتوں نے جو تجربات کیے ہیں، ان کو بھی غور سے دیکھنے اور ان کے تجربات کی روشنی میں سیکھنے کی ضرورت ہے لیکن اپنے حالات کے مطابق نئی راہوں کی تلاش نہ صرف یہ کہ شجر ممنوعہ نہیںبلکہ وقت کی ضرورت بنتی جا رہی ہے۔ بلاشبہہ یہ راہ مسائل اور مشکلات سے عاری نہیں اور اپنی پیچیدگیاں بھی رکھتی ہے اور امکانات بھی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انمل بے جوڑ پیوندکاری سے اجتناب کیا جائے اور اپنے حالات کے مطابق ایک سوچے سمجھے عمل کے ذریعے تسلسل کو مجرح کیے بغیر تبدیلی اور نئے تجربات کے امکانات کا جائزہ لیا جائے اور مفید اور قابلِ عمل اقدامات سے گریز نہ کیا جائے۔
انتخابات کا مرحلہ گزر جانے کے بعد کارکنان کو از سر نو کمربستہ ہونا چاہیے۔ معاشرے کی قدروں اور ترجیحات، دکھوں اور مسائل اور حالات کو بتدریج ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سمجھنا چاہیے کہ بندوں کا کام بندگی کرنا ہے اور بندوں کے رب کا کام ربوبیت اور خدائی کرنا ہے ۔ بندے اگر بندگی کا کام پورا کر لیں تو ان کا رب بھی اپنی مشیت کے تحت نئے فیصلے نازل کرتا ہے اور تبدیلیوں کا ایک نیا عنوان دُور تک پھیلاتا ہے ۔ اس پس منظر میں کارکنوں کو تازہ دم اور متحرک رہنا چاہیے اور اپنے اطراف کے معاملات میں دل چسپی لے کر منزل کے حصول کی جانب پیش قدمی کرنی چاہیے۔
تحریک اسلامی ایک جد و جہد اور کش مکش کا نام ہے۔ یہ جد وجہد اور کش مکش ہرزمانے میں جاری رہی ہے، آج بھی جاری ہے اور آیندہ بھی جاری رہے گی۔ فی الحقیقت یہ انبیا وصلحا کا راستہ ہے۔ اس راستے میں اپنے پائوں غبار آلود کرنے والے در اصل انبیا ؑکے راستے کے راہ رو ہیں۔ یہ راستہ بہر حال پھولوں کی سیج نہیں لیکن جو اخلاص کے ساتھ اس راستے پر چلنے کا عزم کرتا ہے، اللہ کی مدد و نصرت اور تائید اس کے ہم رکاب ہو جاتی ہے، اس کا دست و بازو ہو جاتی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک اسلامی کا کارکن اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو دُور کرے۔ جذبۂ صادق اور عزمِ صمیم کے ساتھ منزل کے حصول کے لیے جد و جہد کرے اور آگے بڑھے ۔ جتنے جذبے خالص ہوتے جائیں گے، منزل قریب آتی جائے گی۔ نشان منزل یہ ہے کہ دنیا کی بھلائیاں تحریک اور اس کے جلو میں چلنے والوں کا مقد ر بنتی چلی جائیںگی۔چراغ سے چراغ جلے، تاریکیاں چھٹ جائیں اور روشنی اس امت اور انسانیت کا مقدر بن جائے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارا حامی و ناصر بن جائے، آمین!