ایک اسلام، از جناب ڈاکٹر غلام جیلانی برق، پی ایچ ڈی۔ شائع کردہ: کتاب منزل، لاہور، قیمت: (مجلد مع رنگین گرد پوش) چار روپے۔
یہ ’دو اسلام‘ اور ’دو قرآن‘ والے برق صاحب کی نئی پیش کش ہے اور بہت سے عجائبات و لطائف کی حامل۔ اِس کتاب کا اصل ہدف ملّا ہے، جو ڈاکٹر صاحب کے نزدیک تمام ترقیوں میں حائل ہے، حقیقی اسلام سے ہٹاکر عوام کو اپنے پیچھے لگائے ہوئے ہے..... ڈاکٹر صاحب کا یہ اندازہ بالکل غلط ہے۔ آج کی دنیا اور آج کے عوام ملّا کی لیڈرشپ میں نہیں چل رہے ہیں، بلکہ ملحد اور مذہب سے منحرف مسٹروں کے زیرقیادت ہیں۔ خود ہماری سوسائٹی میں محلے کی چودھراہٹ سے لے کر مرکزی وزارت تک ملّا کہیں برسرِاقتدار نہ ملے گا، مسٹر ملے گا( جیسے کہ خود آپ ہی نے لکھا ہے کہ ’ہمارا ملّا اس قدر بے کار ہوچکا ہے کہ تکفین و تدفین کی رسومات کے علاوہ دنیا کے کسی اور میدان میں قیادت کے قابل ہی نہیں رہا، ص ۶۰)۔ ایک تنگ سے گوشے میں ملّاکا محض ذہنی سا اثر باقی ہے مگر اجتماعی عملی زندگی سے وہ مدت ہوئی کہ الگ کیا جاچکا ہے۔ آج وہ سوسائٹی میں اتنا گرا ہوا ہے کہ شاعر، ادیب اور صحافی ہی نہیں، گلی کا ایک لونڈا بھی اُس پر بے تکلف پھبتیاں کسنے کی مشق کرتا رہتا ہے۔ پس اس درجہ گرجانے والے ملّا کے خلاف اتنے فکری لائولشکر سے میدان میں آنا مضحکہ انگیز سی حرکت معلوم ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اصل اسلام پر ناوک اندازی [تیرچلانا]کرنے کے لیے مُلّا کو سامنے رکھنا مفید گردانا گیا ہو ، تاکہ جو گالیاں وہ دراصل اسلام کو دینا چاہتے ہیں وہ بظاہر مُلّا پر برستی نظر آئیں۔
جو کچھ بھی ہو، غریب مرے ہوئے ملّا کو مارنے کے لیے ڈاکٹر صاحب نے شاہ مدار بن کر جس حُسنِ کلام سے کام لیا ہے، وہ کسی ادیب اور مصلح کو تو کیا، اپنی انسانیت کا احساس رکھنے والے ایک اوسط درجے کے شریف آدمی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ ہماری بے لاگ راے یہ ہے کہ اس میدان میں ڈاکٹر صاحب بازاری تقریر بازوں کی سطح پر اُتر آئے ہیں۔ بطور ’تبرک‘ یہاں ہم دو ایک جملے پیش کرتے ہیں: ’’بے شک اگر اعمال کے پارسل باندھنے کا کام حضرت مولانا کے سپرد ہوا تو یہ غیرمسلموں کے ہمالہ جتنے اعمال بھی اُٹھا کر باہر پھینک دیں گے اور اپنا ڈھیلا تک ہمراہ لے جائیں گے‘‘۔
ڈاکٹر صاحب جہاں بھی ملّا پر برسے ہیں ایسی ہی گھٹیا زبان میں برسے ہیں..... بخلاف اس کے جہاں ڈاکٹرصاحب نے اپنے نظریات کو بالکل اثباتی طور پر پیش کیا ہے وہاں ان کا اندازِبیان سنجیدہ بھی ہے اور شگفتہ بھی۔ خاص طور پر جن مواقع پر موصوف اسلام کے عقائد کو اپنی اجتہادی فکر سے مجروح کیے بغیر پیش فرماتے ہیں، وہاں تو تحریر ادبیت اور اثرانگیزی کے لحاظ سے بالکل معیاری ہوگئی ہے۔(’مطبوعات‘نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد ۳۹-۴۰، جمادی الثانی، رجب ۱۳۷۲ھ، مارچ، اپریل ۱۹۵۳ء، ص ۳۹-۴۱)