پروفیسر خورشید احمد | جون ۲۰۱۳ | شذرات
ایک مہذب معاشرے اور ریاست اور ایک انارکی زدہ معاشرے میں اصل فرق اور وجہِ امتیاز قانون کی حکمرانی یا اس کا عدم وجود ہے۔ قرآن نے ربِ کعبہ کے احسان کو جس شکل میں پیش کیا ہے وہ انسانی معاشرے اور تہذیب کے اصل جوہر کو دو اور دو چار کی طرح واضح کردیتا ہے، یعنی اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ(قریش ۱۰۶:۴) ’’جس نے انھیں بھوک سے بچاکر کھانے کو دیا اور خوف سے بچاکر امن عطا کیا‘‘۔ بھوک اور جان و مال کی پامالی کا خوف ہی معاشرے کو انارکی کی طرف لے جاتے ہیں اور امن و امان، قانون کی حکمرانی اور معاشی و معاشرتی انصاف کا قیام ایک معاشرے کو مہذب معاشرہ اور ترقی پر گامزن انسانی اجتماع بناتے ہیں۔ اسی لیے قرآن نے کہا کہ: وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلط(النساء ۴:۵۸) ’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ نیز یہ کہ ایک بھی معصوم انسان کا بلالحاظ مذہب و نسل قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ حضرت علیؓ نے کتنی سچی بات کہی کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے، ظلم کے ساتھ نہیں‘‘۔
آج ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ عدل و انصاف معدوم ہیں، قانون پابہ زنجیر ہے، اور ظلم و تشدد کا دور دورہ ہے۔ جن کی ذمہ داری ہے کہ قانون کی حکمرانی قائم کریں وہی قانون کے توڑنے والوں میں سرفہرست ہیں۔
ایک مہذب معاشرے میں طاقت کے استعمال کا بلاشبہہ ایک واضح کردار ہے لیکن یہ ریاست کا اختیار ہے۔ جو ریاست طاقت کے استعمال پر اپنی اجارہ داری (monopoly) کو قائم نہیں رکھ سکتی اور جو مختلف سرکاری اور غیرسرکاری اداروں اور شخصیات کو لوگوں کی جان، مال اور عزت سے کھیلنے کو روا رکھتی ہے وہ حکمرانی کا استحقاق کھودیتی ہے۔
لاقانونیت،سیاست میں تشدد کا بے دریغ استعمال اور دہشت گردی کا عفریت پاکستانی قوم کو ایک مدت سے اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ مسئلہ پورے ملک کا ہے مگر کراچی کی صورت حال غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔ کراچی کم از کم ۳۰سال سے کچھ عناصر کا یرغمال بنا ہوا ہے۔ ایک سیاسی گروہ نے اس راستے کو اختیار کر کے پورے شہر کو اپنی جاگیر بنا لیا۔ پھر متبادل قوتیں رُونما ہوئیں اور حکمرانی میں شریک ہوتے ہوئے بھی ہرپارٹی نے اپنی اپنی عسکری طاقت کا مظاہرہ کیا اور بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے سے بڑھ کر گوشت پوست کے انسانوں کو گاجرمولی کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے چلن کو عام کردیا۔ غضب ہے کہ گذشتہ پانچ برسوں میں صرف کراچی میں ۷ہزار سے زیادہ افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ کسی کے ایک اشارے پر یہ گروہ پورے شہر کو جب تک چاہے موت کی نیند سلاسکتا ہے اور کوئی نہیں جو ظالموں کو گرفت میں لاسکے۔
اس میں جہاں سیاسی عناصر کا خونیں کردار ہے وہیں حکومت اور اس کی ایجنسیوں کے ہاتھ بھی خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سندھ اور کراچی کے حالات پر اپنے فیصلے میں جوائنٹ انوسٹی گیشن رپورٹ کی روشنی میں نام لے کر اس دور کی حکمران جماعتوں، ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، اس کی نام نہاد امن کمیٹی، اے این پی اور ان کے ساتھ طالبان، سُنّی تحریک اور چند دوسرے عناصر (صرف تین جماعتیں اس خونیں کھیل میں ملوث نہیں تھیں: جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن) اور تحریکِ انصاف)کی نشان دہی کی مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ لاپتا افراد اور اغوا کے واقعات پر گرفت کرتے ہوئے عدالت نے معاشرے کے دوسرے عناصر کے ساتھ خود سرکاری ایجنسیوں کے احتساب کا بڑی اُونچی آواز میں مطالبہ کیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات!
اس سے پہلے کینیڈا کی ایک عدالت نے باقاعدہ طور پر ایم کیو ایم کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ یہ برطانیہ اور عالمی میڈیا میں شائع ہوا، لیکن پاکستانی میڈیا کو اسے شائع کرنے اور اس پر سوال اُٹھانے کی جرأت نہ ہوئی اور برسرِاقتدار پارٹی نے اسے شریکِ اقتدار کیے رکھا۔
صحافیوں کا قتل بھی اس خونیں کھیل کا ایک اہم حصہ ہے جس نے بھی حق بات کہنے کی جرأت کی، خواہ کتنی ہی دبی آواز میں اور اگر مگر کے ساتھ، اسے یا ٹھیک کردیا گیا یا جان سے مار دیا گیا۔ یہ واقعات صرف کراچی تک محدود نہیں۔ بدقسمتی سے ملک کے دوسرے مقامات پر بھی رُونما ہورہے ہیں لیکن کراچی کا حال سب سے زیادہ خراب ہے۔
اس صورت حال کا ایک خاص پہلو، یعنی صحافیوں پر کیا بیتی کے بارے میں ایک بڑی ہی چشم کشا رپورٹ نیویارک کے ایک وقیع عالمی ادارے Committee to Protect Journalists - (CPJ) کی طرف سے شائع ہوئی جس کا نوٹس لینا اور اس میں پیش کردہ حقائق کی روشنی میں ضروری اقدام کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ یہ رپورٹ ۵۱صفحات پر مشتمل ہے۔ اسے نیویارک ٹائمز کی ایک سابقہ صحافی الزبتھ رابن نے مرتب کیا ہے اور مئی ۲۰۱۳ء کے وسط میں یہ امریکا سے جاری کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کا عنوان ہے:Roots of Impunity: Pakistan's Endangered Press and the Perilous Web of Militancy, Security and Politics. (پکڑ سے بے خوفی کی بنیادیں: پاکستان کا خطرات میں گھِرا پریس اور عسکریت پسندی، سیکورٹی اور سیاست کا خطرناک جال)
اس رپورٹ میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ تشدد، اغوا اور دہشت گردی کے ان واقعات میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور ایک سیاسی جماعت ایم کیو ایم کا ہاتھ ہے۔ رپورٹ میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ایک صحافی مکرم خان عاطف کے قتل کا بھی جائزہ لیا گیا ہے جس کے ہلاک کیے جانے کی ذمہ داری بظاہر طالبان نے قبول کی تھی مگر تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آگئی کہ اس سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں تھا، بلکہ اسے سلالہ پر امریکی حملے کی خبر کے اصل حقائق دنیا کے سامنے لانے کی سزا سرکاری ایجنسیوں نے دی۔ رپورٹ کے الفاظ میں:
مکرم نے پاکستانی فوج کی سلالہ پوسٹ پر تباہ کن امریکی حملے کی خبر دی تھی۔اس کی رپورٹ نشر ہونے کے بعد اس کو فوجی اور خفیہ افسران کی جانب سے بار بار دھمکیاں دی گئیں۔ سی پی جے کے ذرائع کو یقین ہے کہ اس قتل کے پیچھے سرکاری افسران ہیں اور فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان رابطوں کا انکشاف وہ سرخ لکیر ہے جسے پار نہیں کیا جاسکتا۔
اس رپورٹ میں ان ۲۳ صحافیوں کے قتل کے بارے میں معلومات جمع کی گئی ہیں جو ۲۰۰۳ء سے ۲۰۱۲ء کے درمیان پاکستان میں موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے ہیں۔ یہ جو دیگ کے ان چند چاولوں کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے حشر کے آئینے میں ان ۵۰ہزار سے زیادہ مظلوموں کی تصویر الم بھی دیکھی جاسکتی ہے جو ۲۰۰۱ء کے بعد لقمۂ اجل بنے ہیں۔
پوری رپورٹ رونگٹے کھڑے کردینے والی داستان سناتی ہے لیکن چند اقتباسات حالات کی سنگینی اور ظالموں کے چہروں کو پہچاننے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں:
سی پی جے نے معلوم کیا ہے کہ قتل کے کم سے کم سات واقعات میں سرکاری فوجی یا خفیہ پولیس کے افسران کے مرتکب ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ یہ ہدف زدہ افراد بالکل بے دھڑک قتل کردیے گئے۔ گذشتہ ۱۰برسوں میں کسی ایک صحافی کے قتل کا بھی کامیاب مقدمہ نہیں چلایا جاسکا۔ جنوری ۲۰۱۱ء میں ولی خان بابر کے قتل کے بارے میں رپورٹ کہتی ہے کہ پولیس نے ایم کیو ایم سے وابستہ کئی مشتبہ افراد پکڑے لیکن دھمکیوں اور کلیدی افراد کے قتل نے مقدمات کو پٹڑی سے اُتار دیا۔ اس مقدمے کے پانچ گواہ یا قانون نافذ کرنے والے افسران قتل اور دو سرکاری وکیل کوئی وجہ بتائے بغیر برطرف کیے جاچکے ہیں۔
صحافیوں کو ایم کیو ایم کی جانب سے دھمکیاں ملتی ہیں۔ سی پی جے کی رپورٹ میں ایک صحافی نے انٹرویو میں کہا کہ ایم کیو ایم کے بارے میں کوئی خبر شائع کرنے سے پہلے غیرمعمولی طور پر محتاط ہونا پڑتا ہے۔ وہ بات کو بھولتے نہیں ہیں۔ مَیں ۱۵۰رپورٹروں کا نگران ہوں۔ کسی کی بائی لائن لگے تو مجھے محتاط ہونا پڑتا ہے (ایک اخبار کے مدیرنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا)۔
ایک ٹی وی آپریٹر نے کہا کہ ایم کیو ایم کیبل آپریٹر پر بھی دبائو ڈالتی ہے کہ جو پروگرام پارٹی کو پسند نہیں،اسے بند کیا جائے۔ ایک اور آپریٹر نے بتایا کہ ہمیں طالبان سے زیادہ ایم کیو ایم سے دھمکیاں ملتی ہیں۔اگر طالبان کی طرف سے دھمکی ملے تو آپ انتظامیہ سے مدد مانگ سکتے ہیں لیکن اگر ایم کیو ایم دھمکیاں دے تو یہ راستہ بھی نہیں۔ سی پی جے نے کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے پوچھا کہ ولی خان بابر کے قاتل پکڑے کیوں نہیں جاتے؟ ایک صحافی نے کہا کہ ہر کوئی ایم کیو ایم کی طرف انگلی سے اشارہ کرتا ہے۔(دی نیوز، ۲۴ مئی ۲۰۱۳ء)
سرکاری کارندوں کا اس گھنائونے اور خونیں کھیل میں ملوث ہونے کا معاملہ صحافیوں تک محدود نہیں ہے۔ کئی ہزارلاپتا افراد کا مسئلہ اعلیٰ عدالتوں میں کئی سال سے گردش کر رہا ہے اور ڈور کا سِرا ہے کہ مل ہی نہیں پارہا۔ ۲۴ اور ۲۵مئی کے صرف دو روز کے اخبارات سے صرف تین رپورٹیں یہاں دی جاتی ہیں جن سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ لاقانونیت اپنی تمام حدوں کو پھلانگ چکی ہے اور ہرجرم کے لیے طالبان کا نام لے لینا ایک سنگین مذاق بن چکا ہے۔ طالبان یا طالبان کے نام پر جو بھی قتل و غارت گری، اغوا اور دہشت گردی کا مرتکب ہے وہ قابلِ مذمت ہی نہیں، قابلِ گرفت اور قابلِ سزا ہے۔ لیکن آج لاقانونیت اور دہشت گردی کا مسئلہ نہایت پیچیدہ اور مختلف جہتی ہے اور اس کے لیے ہمہ جہتی حکمت عملی اور مؤثر اقدام کی ضرورت ہے۔ بات کہاں کہاں تک پہنچی ہے اس کا اندازہ ان رپورٹوں سے کیا جاسکتا ہے:
بلوچستان کی سیکورٹی ایجنسیوں میں دہشت گردوں کے ہمدردوں، انتہاپسندوں اور عسکریت پسندوں کا نفوذ خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ اس سال جنوری میں سی آئی ڈی کے اعلیٰ افسران ایس پی طارق منظور ، ڈی ایس پی قطب خاں اور ڈی ایس پی بلال کو فرنٹیر کور نے اغوا براے تاوان کے الزام میں گرفتار کیا۔ (دی نیوز، ۲۴ مئی ۲۰۱۳ء)
پاکستان کے فرقہ وارانہ جنگی تھیٹر میں کوئٹہ پولیس کے عملے کے خطرناک ترین دہشت گردوں سے رابطوں کی پریشان کن اطلاعات ملی ہیں۔ پیر کو ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس ریاض احمد سنبل نے دو سپاہیوں کی گرفتاری کا انکشاف کیا۔ (دی نیوز، ۲۵ مئی ۲۰۱۳ء)
پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے۔ اُمت رپورٹ کے مطابق ایسی ہی ایک واردات فیصل آباد میں ہوئی جس میں ایک مسیحی نوجوان بارودی مواد پھٹنے سے مارا گیا اور اس کے دو ساتھی گرفتار کے لیے گئے۔ دورانِ تفتیش معلوم ہوا کہ فیصل آباد میں گرفتار عیسائی گروہ طالبان اور لشکر جھنگوی کا نام استعمال کرتے تھے۔ تین ملزمان نے پادری قیصرشان کو طالبان کے نام سے خط لکھا پھر فون پر قتل کی دھمکی دے کر ۱۰لاکھ روپے طلب کیے۔ خوف زدہ کرنے کے لیے گھر پر دھماکا کرنے جارہے تھے کہ بارودی مواد موٹرسائیکل پر پھٹ گیا۔ دوبرس میں شہر کے تاجروں سے ۲۰کروڑ روپے بھتہ وصول کیا جاچکا ہے۔(نوائے وقت، ۲۵ مئی۲۰۱۳ء)
یہ صرف نمونے کے چند چاول ہیں۔ نئی حکومت نے دہشت گردی اور لاقانونیت سے ملک کو نجات دلانے کا وعدہ کیا ہے۔ کیا حکومت پوری جرأت کے ساتھ ان تمام عناصر کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے تیار ہے جو اس سارے خون خرابے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکا کی جنگ میں شرکت کی جو قیمت اس مظلوم قوم نے ادا کی ہے وہ تاریخ کا ایک المیہ ہے لیکن اب مسئلے کو اس کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر حل کرنا ہوگا۔ نیز جو جو عناصر خود ملک میں اس صورتِ حال کا فائدہ اُٹھا کر اپنے دوسرے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے ایک خونیں کردار ادا کر رہے ہیں اور باربار سرکاری تحفظ میں آکر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں، ان سب پر قانون کی گرفت لاگو ہو۔ سرکاری ایجنسیوں کو بھی لگام دینے کی ضرورت ہے اور ان دوسری تمام قوتوں کو بھی گرفت میں لانا ہوگا جو اب تک اپنے اپنے انداز میں کھل کھیلتی رہی ہیں، اور آج اس کی ڈوریاں ہلانے والے ۴ہزار میل دُور سے آنسو بہابہا کر یہ رونا رو رہے ہیں کہ دوسرے اس کے نام پر بھتہ خوری، زمینوں پر قبضہ، انسانی جانوں کا اتلاف کرتے رہے ہیں حالانکہ اس کے اشاروں کے بغیر اس گروہ کے بام و دَر میں ایک پتّا بھی نہیں ہلتا۔ وقت آگیا ہے کہ ایک ایک معصوم جان کا اس کے قاتلوں سے حساب لیا جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر آج اور کل تمام انسانوں کی جان، مال اور آبرو کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری عمال، ایجنسیاں، سیاسی گروہ، مذہب کے نام پر تشدد کرنے والے، فرقہ پرستی کی آگ بھڑکانے والے___ سب کو قانون کی گرفت میں آنا چاہیے اور اپنے کیے کی سزا بھگتنی چاہیے۔ یہی قرآن کے اس ارشاد کا مطلب ہے: لَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰآُولِی الْاَلْبَابِ (البقرہ ۲:۱۷۹)، ’’عقل و خرد رکھنے والو، تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘۔