۲۰۱۳ فروری

فہرست مضامین

پروفیسر عبدالغفور احمد مرحوم

پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۱۳ فروری | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

۲۶ دسمبر ۲۰۱۲ء کو عزیزی سید طلحہ حسن کے ولیمے میں شرکت کے لیے کراچی گیا اور اس مبارک تقریب سے فارغ ہوکر قصرناز میں قدم ہی اُٹھا تھا کہ یہ دل خراش ایس ایم ایس موصول ہوا کہ برادرم محترم و مکرم پروفیسر عبدالغفور احمد اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں __ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔

کراچی کے سفر کے مقاصد میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کی عیادت سرفہرست تھی۔ تقریب میں ان کے صاحب زادے عزیزی طارق سے ۲۷دسمبر کو ان کے گھر آنے کا پروگرام طے کیا تھا لیکن کیا خبر تھی کہ ۲۷ کو عیادت نہیں، تعزیت کے لیے ان کے گھر جانا ہوگا اور اسی شام ان کے جنازے میں شرکت کرکے ، ان کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہنا ہوگا___  لیکن یہ تو صرف محاورہ ہے، ہمیشہ یہاں کون رہا ہے، جلد یا بدیر، ہر ایک کو اس سفر پر روانہ ہونا ہے، بس دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آنے والی زندگی میں اپنے فضل و کرم سے اپنے ان بندوں کی رفاقت نصیب فرمائے جو اس کے جوارِرحمت میں ہوں۔

پروفیسر عبدالغفور احمد تحریکِ اسلامی کا قیمتی سرمایہ اور ملک و ملّت کا زریں اثاثہ تھے۔  تعلیم و تدریس، دعوت و تبلیغ اور خدمت اور سیاست، ہر میدان میں انھوں نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ ۱۱جون ۱۹۲۷ء کو یوپی کے مشہور علمی اور دینی گہوارے بریلی میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ   یونی ورسٹی سے ۱۹۴۸ء میں ایم کام کی سند حاصل کی اور اسی سال اسلامیہ کالج لکھنؤ میں بطور لیکچرار اپنے تدریسی کردار کا آغاز کیا۔ اگلے ہی سال ہجرت کر کے کراچی آئے اور ایک پرائیویٹ  تجارتی ادارے میں اکاؤنٹ کے شعبے میں ذمہ داری سنبھالی۔ پھر اُردو کالج میں تجارت اور  حسابیات (Accounting) کے لیکچرار کی اضافی ذمہ داری سنبھال لی اور یہ سلسلہ ۱۹۶۱ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس، انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکائونٹس اور     جناح انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکائونٹس میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ یہ سلسلہ ۱۹۷۲ء تک جاری رہا جس کے بعد قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ہمہ وقتی بنیاد پر پارلیمنٹ اور جماعت اسلامی کی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہے۔

مولانا مودودی کے افکار اور جماعت اسلامی کی دعوت سے طالب علمی کے دور ہی میں روشناس ہوئے۔ غالباً ۱۹۴۴ء میں ان کے کالج کے ایک قریب ترین دوست جناب انوریار خاں نے مولانا محترم کی کتاب خطبات ان کو دی جس نے ان کی زندگی کی کایا پلٹ دی۔ مولانا کا   بیش تر لٹریچر پڑھ ڈالا لیکن جماعت سے ان کا باقاعدہ تعلق کراچی میں ۱۹۵۰ء میں قائم ہوا۔ جلد ہی کراچی کی شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۵۸ء میں جماعت اسلامی نے کراچی کارپوریشن کے انتخابات میں شرکت کی۔ ۱۰۰ میں سے ۲۳نشستوں پر جماعت نے انتخاب لڑا اور الحمدللہ ۲۳ کی ۲۳نشستیں جیت لیں۔ غفورصاحب کارپوریشن میں جماعت کے گروپ لیڈر مقرر ہوئے اور اس طرح ملک کے سب سے اہم شہر کے سیاسی اُفق پر ایک روشن ستارے کے طور پر نمودار ہوئے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ مرکزی شوریٰ میں منتخب ہوئے، پھر کراچی کے امیر بنے (۱۹۷۲ء تا۱۹۷۷ء) اور ۱۹۷۹ء سے جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور اس کی سیاسی کمیٹی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ جنرل ایوب کے دور میں ۱۹۶۴ء میں امیرجماعت اور مرکزی شوریٰ کے تمام ارکان کے ساتھ ساڑھے نومہینے جیل میں رہے۔۱۹۷۰ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۷۷ء کے انتخاب میں بھی ساری دھاندلی کے علی الرغم جماعت کے ۹ منتخب ارکان میں شامل تھے، اور ۱۹۷۲ء سے قومی اسمبلی میں دستور سازی، جمہوریت کے تحفظ، ختم نبوت اور نظامِ مصطفی کی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ متحدہ جمہوری محاذ (یو ڈی ایف) اور پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) (۱۹۷۷ء تا ۱۹۷۹ء) کے سیکرٹری جنرل رہے۔ ۱۹۷۸ء تا۱۹۷۹ء میں وفاقی وزیرپیداوار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ۲۰۰۲ء سے ۲۰۰۵ء تک سینیٹ آف پاکستان کے رکن رہے۔ پروفیسر صاحب نے پاکستان کے سیاسی حالات پر آٹھ کتابیں مرتب کیں جو پاکستان کی تاریخ کا ایک مستند ماخذ ہیں۔

پروفیسر عبدالغفور صاحب سے میرا پہلا تعلق تو شاگرد اور استاد کے رشتے سے ہے۔ گو مَیں نے بلاواسطہ ان سے پڑھا نہیں لیکن جب میں گورنمنٹ کالج آف کامرس اینڈ اکانومکس میں بی کام کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو وہ اُردو کالج اور کچھ دوسرے پروفیشنل اداروں میں پڑھا رہے تھے اور میرے استاد متین انصاری صاحب کے قریبی دوست تھے جس واسطے سے مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ بی کام میں وہ میرے ممتحن بھی رہے اور اس طرح بلاواسطہ استاد بھی ہوگئے۔ نیز جماعت میں میرے سینیر تھے، اور مَیں نے تحریکی زندگی اور ملکی سیاست دونوں کے سلسلے میں ان سے بہت کچھ سیکھا۔ ۱۹۶۴ء میں ساڑھے نو مہینے ہمیں جیل میں ایک ہی کمرے میں باقی ساتھیوں کے ساتھ رہنے کی سعادت حاصل ہوئی جس کا مفصل ذکر تذکرۂ زنداں میں آیا ہے۔ میرے لیے وہ بڑا قیمتی تجربہ اور پروفیسر عبدالغفور صاحب کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا ایک نادر موقع تھا۔ میں نے ان کو ایک نفیس، باذوق، خداترس، محبت کرنے والا، بے غرض اور راست باز انسان پایا جو اپنے چھوٹوں سے بھی کچھ ایسا معاملہ کرتا ہے کہ یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا۔ مَیں نے ان ۶۰برسوں میں ان سے شفقت، محبت اور عزت کا جو حصہ پایا وہ زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے مقام کو بلند تر کرے کہ ان سے  ہم نے یہ سیکھا کہ انسانوں سے کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔ دوست تو دوست ان کا تو عالم یہ تھا کہ ان کے مخالف بھی ان کو اپنا سمجھتے تھے اور انھوں نے بھی اختلاف کو کبھی ذاتی تعلقات اور باہم محبت و احترام کے رشتوں میں در آنے کا موقع نہیں دیا۔ نفرت اور دشمنی کا تو دُور دُور تک کوئی وجود ہی نہ تھا    ؎

ساز دل توڑ کے بھی، چھیڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا

غفور صاحب کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ان کی سادگی، نفاست، انکسار، محبت اور شفقت تھا۔ تصنع کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی کے کسی پہلو میں مَیں نے کبھی نہیں دیکھا۔ مشکل سے مشکل وقت میں بھی وہ سلیقے اور نرمی سے بات کرنے کا سلیقہ رکھتے تھے۔ اختلاف میں شائستگی اور دوسرے کے موقف کا احترام ان کا طریقہ تھا۔ انھوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد سے بالا ہوکر اپنے اجتماعی تعلقات کو استوار کیا، اور ہرشخص کے ساتھ عزت اور مروت کا رویہ اختیار کیا جس نے ہردل میں   خود ان کے لیے عزت و احترام کا چشمہ رواں کردیا۔

ملک کی سیاسی زندگی میں ان کا کردار بڑا نمایاں ہے۔ جمہوریت کے فروغ اور اسلام کی ترجمانی کا فریضہ انھوں نے بڑی حکمت، بے باکی اور بے غرضی سے انجام دیا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد جو کچھ بھی تھا اس کو سنبھالنے اور ایک نئی زندگی دینے کے لیے جو جدوجہد ۱۹۷۲ء کے بعد قومی اسمبلی میں اور اس کے باہر ہوئی، اس میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سنہری حروف میں لکھے جانے کے لائق ہے۔ ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے نتائج کا جو اثر تحریکِ اسلامی اور اس کے بہی خواہوں پر پڑا تھا، اس کا جس سمجھ داری اور جرأت سے انھوں نے مقابلہ کیا وہ ہماری تحریکی اور  ملکی زندگی کا ایک تابناک باب ہے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور کے بنانے میں ان کا اور اس وقت کی  حزبِ اختلاف کے ارکان کا بڑا تاریخی کردار ہے۔ ۱۹۷۲ء ہی میں ایک پہلے سے بنائے ہوئے مسودۂ دستور کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی گئی اور اسمبلی میں اکثریت کی بنیاد پر ایک قسم کی   سول آمریت کا خطرہ ایک حقیقت بنتا نظر آرہا تھا،لیکن ایک چھوٹی سی اپوزیشن نے جس میں پروفیسر عبدالغفور احمد، مولانا ظفر احمد انصاری ، مولانا مفتی محمود ، خان عبدالولی خان ، جناب شیرباز مزاری، مولانا شاہ احمد نورانی وغیرہم نے بڑی حکمت کے ساتھ اس مجوزہ دستور کو صرف ایک عبوری دستور کے طور پر تسلیم کرکے وقت کے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ ایک دستوری کمیٹی بنا ئیں بلکہ نئے دستور کی تدوین کا کام کریں۔ اس میں جناب ذوالفقار علی بھٹو، جناب محمود علی قصوری اور جناب عبدالحفیظ پیرزادہ کا بھی اہم کردار رہا اور یہ معجزہ رُونما ہوا کہ ۱۹۷۳ء میں ایک متفقہ دستور بن سکا جس نے اب تک پاکستان کے سیاسی نظام کو ساری دراندازیوں اور سیاسی اور عسکری طالع آزمائیوں کی زوردستیوں کے باوجود جمہوریت کی پٹڑی پر قائم رکھا ہے۔ پروفیسر عبدالغفور احمد کا اس پورے عمل میں ایک مرکزی کردار تھا۔

اسی طرح سیاسی اختلافات کے باوجود، سیاسی قوتوں کو منظم کرنے اور متعین مقاصد کے لیے اتحاد قائم کرنے اور ان کی بنیاد پر تحریک چلانے کے باب میں پروفیسر عبدالغفور صاحب کاکردار منفرد تھا۔ دستور سازی اور پھر سیاسی تحریکات میں ان کے کردار کو دیکھ کر جناب الطاف گوہر اور جناب خالد اسحق جیسے افراد نے میرے اور دوسرے دسیوں افراد کے سامنے یہ راے ظاہر کی تھی کہ اگر ملک کی سیاسی قیادت پروفیسر عبدالغفور صاحب جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو تو یہ ملک دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرسکتا ہے، بلکہ الطاف گوہر نے تو ڈان کے اپنے ایک مضمون میں ان کو پاکستان کے لیے مطلوب وزیراعظم تک کی حیثیت سے پیش کیا۔

پروفیسر عبدالغفور صاحب کی سیاسی سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی اور شدید اختلافات کے درمیان مشترکہ باتوں پر اتفاق راے پیدا کرنے کی صلاحیت کے دوست اور دشمن سب قائل تھے اور یہی وجہ ہے کہ ہرحلقے میں ان کی عزت تھی۔ جماعت کے اندرونی معاملات میں بھی پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار سیاسی اُمور میں زیادہ نمایاں تھا۔ مَیں ۱۹۵۷ء میں مرکزی شوریٰ میں منتخب ہوا۔  اس وقت تک مرکزی شوریٰ کی قراردادیں خود مولانا مودودی ہی مرتب فرماتے تھے۔ اس کے بعد محترم نعیم صدیقی، محترم صدیق الحسن گیلانی، محترم اسعد گیلانی اور مجھے اس عمل میں شریک کیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ پروفیسر عبدالغفور صاحب کا کردار بڑھتا گیا اور گذشتہ ۳۰برسوں میں سیاسی قراردادوں پر ان کی چھاپ واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ سیاسی قرارداد شوریٰ کی سب سے اہم قرارداد ہوتی ہے اور اس کو شوریٰ کی پوری بحث کو سامنے رکھ کر مرتب کیا جاتا ہے۔ ارکانِ شوریٰ کا بھی اس میں حصہ ہوتا ہے لیکن جس کمیٹی نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ کام کیا ہے اس نے پروفیسر عبدالغفور احمد کی سربراہی میں کام کیا ہے۔ محترم چودھری رحمت الٰہی اور مجھے اس کمیٹی میں کام کرنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔ایک مدت تک اولین مسودہ پروفیسر عبدالغفور صاحب ہی تیار کیا کرتے تھے۔ پھر باقی کمیٹی کے ارکان اپنا حصہ شامل کرتے تھے۔ اس کے بعد امیرجماعت قرارداد کو دیکھتے تھے اور آخیر میں شوریٰ میں ارکان کے مشوروں سے کمی یا اضافہ کیا جاتا تھا۔ گو، یہ ایک اجتماعی عمل تھا لیکن اس میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب کا کردار بہت ہی اہم تھا اور ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔

پروفیسر عبدالغفور صاحب جماعت اسلامی کے ان چند لوگوں میں سے تھے جن کو مولانا مودودیؒ سے براہِ راست استفادے کا موقع ملا، اور پھر جن کو محترم میاں طفیل محمد اور محترم قاضی حسین احمد کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کی خدمات ۶۲سال کی طویل مدت پر پھیلی ہوئی ہیں جن کا احاطہ ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ ان کی قبر کو جنت کا گوشہ بنادے، انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے مقام کو بلند تر فرمائے اور جو خلا ان کے رخصت ہوجانے سے ہوا ہے اسے پُر کرنے کا سامان فرمائے، انسان سب فانی ہیں لیکن یہ دین، اسلامی تحریک، اور خیراور فلاح کی جدوجہد وہ سلسلہ ہے جسے قیامت تک جاری رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دعوت اور اس پیغام کو مضبوط اور مؤثر بنائے تاکہ ظلمتیں چھٹیں اور نورِ حق غالب ہوکر رہے۔ آمین!