’پنجاب میں تعلیم کس رُخ پر؟‘ (جنوری ۲۰۱۳ء) سے تازہ تعلیمی المیے کا علم ہوا۔ طارق محمود صاحب نے اپنی تحریر میں حکومت پنجاب کی ذہنی ظلمت کا تذکرہ کیا ہے۔ قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے تصورات کے پیرو اب ملّی علم و اقدار کے انہدام کے لیے بگٹٹ دوڑ لگا رہے ہیں۔ ان کے اقدامات سے خصوصاً انگریزی کو پہلی جماعت سے رائج کرنے کی پالیسی سے واضح ہوگیا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اپنے زیرحکمرانی خطے میں ایسے نوجوان پسند نہیں کرتی جو دستور کے آرٹیکل ۱، یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام کی لاج رکھنے کے لیے اپنے اندر اعمالِ حسنہ کے لیے کوئی تڑپ محسوس کرتے ہوں۔ آرٹیکل۲ کے تحت قرآن و سنت کے خلاف کوئی پالیسی وضع نہ کرنے کا حلف یہ لوگ بھی اُٹھاتے ہیں، اور جب اسلامیات اور مطالعہ پاکستان کو غیراہم شمار کردیا جائے تو نئی نسل کو اس نظریے اور جدوجہد کا کیسے علم ہوگا جو قیامِ پاکستان کا سبب بنی۔اسلامی نظام کا نفاذ جن کا نصب العین ہے ، ان کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ عوام کو ’دوکفِ جو‘ پر بکنے کی ہولناک آفات سے آگاہ کریں۔
’جنسی بے راہ روی: ایک چیلنج‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) میں دورِحاضر کے جن مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے، اس کا سبب اسلامی تعلیمات سے دُوری ہے، اور مغربی تہذیب و تمدن اختیار کرنا ہے۔ مغرب میں مقیم مسلمان خاندان جہاں مغربی تہذیب کا شکار ہوجاتے ہیں، وہاں ہمارا معاشرہ بھی اس سے متاثر ہونے لگا ہے۔ جنسی بے راہ روی سے بچنے کی واحد صورت یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی اولاد کی تربیت کی جائے اور نام نہاد آزادی سے اجتناب کیا جائے۔
’جنسی بے راہ روی: ایک چیلنج‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) جنسیت پر ایک طائرانہ تاریخی جائزہ اور انسانی زندگی میں جنسیت کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے عمدہ تحریر ہے۔ اسلام نے جنسی زندگی کے حوالے سے جن ہدایات و رہنمائی کااہتمام کیا ہے، اس کا مضمون کے آخر میں سرسری ذکر کیا گیا ہے۔ اگر جنس کے بارے میں اسلامی رہنمائی کے حوالے سے مفصل تحریر شائع کی جائے تو یقینا موجودہ دور میں سب کے لیے ہی مفید ہوگی۔
’رسائل ومسائل‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) کے تحت لکھا گیا ہے کہ:شرعی پردے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث نے قیامت تک کے لیے متعین کردیا جس میں آپؐ سیدہ عائشہؓ کو ہدایت فرماتے ہیں کہ جب ایک مسلمان بچی بالغ ہوجائے تو چہرے اور ہاتھ کے سوا تمام جسم ڈھکا ہوا ہو (ص ۱۰۱)۔ ان سطور سے پہلے جملے میں محض سر ڈھانکنے کو حجاب قرار دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہؓ کو نہیں، بلکہ حضرت اسماءؓ کو یہ ہدایت فرمائی تھی۔ حدیث کی راوی خو د حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں۔دوسری گزارش یہ ہے کہ مولانا مودودی سمیت علماے کرام کی ایک بڑی تعداد کی راے میں چہرے کا پردہ احکاماتِ پردہ میں سے ہے۔ لہٰذا کھلے چہرے کے ساتھ پردے کو ’شرعی پردہ‘ قرار دینا مناسب نہیں۔
انقلابِ ایران کے وقت بھی یہ بتایا گیا کہ یہ خالص اسلامی انقلاب ہے اور آیت اللہ خمینی کے علاوہ سیدمودودی اور علامہ اقبال کی تحریروں سے پھوٹا ہے لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہاں دیوانی، فوجداری، مالیاتی، تجارتی قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے کیا کام ہوا ہے؟ نظامِ تعلیم اور ذرائع ابلاغ کو کس حد تک اسلامی اقدار سے ہم آہنگ کیا گیا ہے؟ پھر سوڈان کے عمرالبشیر کو مردِمومن بنا کر پیش کیا گیا مگر اُس نے وہاں کی اسلامی تحریک کے جناب ڈاکٹر حسن ترابی کو نظربند کردیا اور معاملات بہت دُور تک چلے گئے۔
اب ترکی کی حکومت کو ’رول ماڈل‘ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جسے خود نجم الدین اربکان مسترد کرچکے ہیں۔ کیا صرف گڈگورننس کا نام ہی ’اسلامی حکومت‘ہے؟ اگر یہی تصور ہے تو پھر برٹش انڈیا میں ’اسلامی حکومت‘ کہی جاسکتی ہے۔ مصر کی موجودہ حکومت پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے کے باوجود مصر کو ’اسلامی جمہوریہ‘ قرار نہیں دے سکی۔ اسے عبوری دور کی مجبوریاں تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اسے ’رول ماڈل‘ قرار دے کر اپنانے کی تحریک چلانا سید مودودی کی فکر سے انحراف اور خوداعتمادی میں کمی کی دلیل ہے۔ کیا ہمیں اپنے ’نظریۂ انقلاب‘ پر یقین نہیں رہا؟ پاکستان، ترکی، مصر اور دیگر ممالک کے ’دستوری حالات‘ پاکستان سے یکسر مختلف ہیں۔ عبوری دور کو کس طرح رول ماڈل قرار دیا جاسکتا ہے۔
جن ممالک میں اسلامی نقطۂ نظر سے مثبت تبدیلی آئی ہے، ان کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی تحریکِ اسلامی اپنے لیے درست رہنمائی حاصل کرے۔ ہرملک کے اپنے مخصوص حالات اور پس منظر ہے اور اس کے مطابق طریق کار اپنانا ہی درست حکمت عملی ہے۔ لیکن ہماری معلومات کے لیے ہمارے ’تھنک ٹینکس‘ کے نمایندوں کو وہاں سال چھے ماہ کے قیام کے بعد معروضی مطالعے تیار کروانے چاہییں اور صرف سرخیوں اور اخباری رپورٹوں پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
’جنسی بے راہ روی: ایک چیلنج‘ (دسمبر ۲۰۱۲ء) جنسیت پر ایک طائرانہ تاریخی جائزہ اور انسانی زندگی میں جنس کی اہمیت و ضرورت کے حوالے سے عمدہ تحریر ہے۔ اسلام نے جنسی زندگی کے حوالے سے جن ہدایات و رہنمائی کا اہتمام کیا ہے، اس کا مضمون کے آخر میں سرسری ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے مفصل تحریر شائع کی جائے تو یقینا موجودہ دور میں سب کے لیے ہی مفید ہوگی۔
ملک میں نئے انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے۔ شفاف انتخابات کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سوموٹونوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمشنر اور حکومت کو پابند کریں کہ وہ آئین کی دفعہ ۶۲، ۶۳ کے تحت انتخاب لڑنے والے نمایندوں کی جانچ پڑتال کریں اور ایسے نمایندوں کو الیکشن لڑنے سے روک دیں جو آئین کے مقرر کردہ اصولوں پر پورا نہ اُترتے ہوں۔ نیز پاکستان کے دستور کی اِن دفعات کو عملہ جامہ پہنانے کے لیے مناسب طریقہ کار وضع کریں۔ اس کے علاوہ قرارداد مقاصد حکومت کو پابند کرتی ہے کہ پاکستانی عوام کو اسلام کے احکام سے روشناس کرائے اور اُن کے لیے اسلام پر عمل کرنے کو آسان بنائے۔ پاکستان کے دستور کی ان دفعات پر عمل کرنے پر حکومت کو حکم جاری کیا جائے۔
’جنسی تعلیم اسلامی اقدار کی تناظر میں‘(جون ۲۰۱۲ء) بہت ہی اچھا لکھا۔ مگر اس میں بھی ڈاکٹرصاحب کی شانِ اجتہادی نمایاں ہے۔ دو مثالیں ملاحظہ ہوں۔ قرآن کریم جنسی جذبے کو حلال و حرام اور پاکیزگی اور نجاست کے تناظر میں بیان کرتا ہے تاکہ حصولِ لذت ایک اخلاقی ضابطے کے تحت ہو نہ کہ فکری اور جسمانی آوارگی کے ذریعے۔ چنانچہ عقیدۂ نکاح کو ایمان کی تکمیل اور انکارِ نکاح کو اُمت مسلمہ سے بغاوت کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے (ص ۶۴)۔ پتا نہیں یہ کسی آیت کا ترجمہ ہے یا حدیث کا، یا کوئی اجماعی قانون ہے؟ ایک اور جگہ وعن شبا بہ فیما ابلاہ سے درج ذیل نتیجہ اخذ کیا ہے۔ احادیث بار بار اس طرف متوجہ کرتی ہیں کہ یوم الحساب میں جو سوالات پوچھے جائیں گے، ان میں سے ایک کا تعلق جوانی سے ہے اور دوسرے کا معاشی معاملات سے۔ گویا جنسی زندگی کا آغاز شادی کے بعد ہے، اس سے قبل نہیں (ص ۶۶)۔ ایک تو یہ کہ الفاظِ حدیث عام ہیں۔ دوسرے یہ کہ جوانی اور شادی میں کیا نسبتِ مساوات ہے؟
’اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا پہلا قدم___ بیع سلم‘ (جون ۲۰۱۲ء) میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے قانون (۲۰۰۷ء) کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ اسی قانون کو صوبہ سرحد میں بھی نافذ کیا گیا تھا اور اے این پی کی موجودہ حکومت نے اسے غیرمؤثر کردیا ہے۔ (ص ۵۴)
ریکارڈ کی درستی کے لیے میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راقم اُس ٹیم کا حصہ تھا جس نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کی قیادت میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت کے دوران معیشت سے سود کے خاتمے کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ایم ایم اے کی صوبائی حکومت نے پنجاب اسمبلی کے مذکورہ بالا قانون کو اختیار /نافذ (adopt) نہیں کیا تھا بلکہ ایک الگ اور مربوط منصوبہ بندی کے تحت بنک آف خیبر ایکٹ کا ترمیمی بل ۲۰۰۴ء صوبائی اسمبلی سے منظور کروا کر بنک آف خیبر کی تمام سودی شاخوںکو اسلامی بنکاری کی برانچوں میں تبدیل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔ اس ایکٹ کا پنجاب اسمبلی کے منظورکردہ ایکٹ کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم صوبائی معیشت کو اسلامیانے کے لیے ایک الگ کمیشن جسٹس فدا محمد خان ، جج شریعہ کورٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان کی صدارت میں قائم کیا گیا تھا جس کا راقم بھی رُکن تھا۔ اِس کمیشن نے بڑی محنت کے ساتھ رپورٹ مرتب کی کہ کس طرح صوبائی معیشت کو سود سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ کچھ بیوروکریٹک کوتاہیوں اور اعلیٰ سیاسی قیادت کی عدم دل چسپی کے باعث کمیشن کی سفارشات حتمی شکل اختیار نہ کرسکیں اور ایم ایم اے کی حکومت کا دورانیہ مکمل ہوگیا۔
واضح رہے کہ اے این پی کی حکومت نے مکمل طور پر بنک آف خیبر کو دوبارہ سودی کاروبار میں تبدیل نہیں کیا بلکہ بنک کی پرانی سودی برانچوں کو اسلامی برانچیں بننے سے روکنے کے لیے بنک آف خیبرایکٹ میں دوبارہ ترمیم کر کے اللہ کے غضب کو دعوت دی ہے۔ لیکن اس کے باجود وہ بنک آف خیبر میں اسلامی برانچوں کو غیرمؤثر کرنے یا نقصان پہنچانے میں (کوشش کے باوجود) کامیاب نہ ہوسکے۔ لہٰذا ایم ایم اے دور کا کام محفوظ اور intact ہے اور ان شاء اللہ جب دوبارہ ہمیں اقتدار ملے گا تو اسلامی بنکاری اور اسلامی معیشت کے کام کا آغاز وہیں سے ہوگا جہاں اِسے اے این پی اور پیپلزپارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت نے پھیلنے سے روکا ہے۔