۲۰۱۳ فروری

فہرست مضامین

کلام نبویؐ کی کرنیں

مولانا عبد المالک | ۲۰۱۳ فروری | فہم حدیث

Responsive image Responsive image

بشیر بن یسار حضرت انسؓ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ مدینہ تشریف لائے (شام گئے تھے، وہاں سے واپس آئے تھے)۔ ان سے کہا گیا: آپ نے ہمارے ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مقابلے میں کیا تبدیلی دیکھی ہے ؟ انھوں نے جواب میں کہا: میں نے کوئی تبدیلی نہیں دیکھی سواے اس کے کہ تم صفیں پوری طرح سیدھی نہیں رکھتے۔ (بخاری، کتاب الاذان،ص ۱۰۰)

صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ ہماری دینی حالت ٹھیک اسی طرح ہو    جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھی۔ اسی واسطے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے اور اپنے زمانے کے حالات کا موازنہ کرتے رہتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے حالات کے علم کو تازہ رکھتے تھے تاکہ اسی طرح خطوطِ مستقیم پر گام زن رہیں جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے۔ اسی فکرمندی کی نشان دہی وہ سوال کرتا ہے جو اہلِ مدینہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خادمِ خاص حضرت انسؓ سے اس وقت کیا جب وہ شام سے واپس آئے تھے۔ آپ نے بظاہر ایک معمولی بات کی طرف توجہ دلائی لیکن اس میں ہمارے لیے یہ سبق ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم ضرور بھریں، سیرت کے جلسے بھی کریں اور جلوس بھی نکالیں لیکن یہ بھی سوچیں کہ نبی اکرمؐ کے زمانے میں آپؐ نے جو معاشرہ قائم کیا تھا اس میں نمازوں کی پوری پابندی ہوتی تھی، روزے بھی  تمام مسلمان رکھتے تھے، اسلامی نظام پوری طرح قائم تھا، عدل و انصاف کا دور دورہ تھا، اس سے ہم کتنا قریب ہیں۔ ہماری کوشش ہونا چاہیے کہ وہی معاشرہ قائم کیا جائے ، اور اس دور کو واپس لایا جائے۔


حضرت سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت ایک بنُی ہوئی چادر جس کے کنارے اس کے ساتھ بُنے ہوئے تھے (اسے کسی کپڑے سے کاٹا نہ گیا تھا بلکہ مکمل چادر بنی ہوئی تھی)   پیش کرتے ہوئے عرض کیا: میں نے اسے اپنے ہاتھ سے بُنا ہے تاکہ آپؐ اسے پہنیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ چادر لے لی۔ اس بات کے اظہار کے ساتھ کہ آپؐ کو اس کی حاجت تھی (گویا خاتون کے ہدیے کا شکریہ ادا کیا کہ بروقت اس نے ہدیہ پیش کیا ہے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے گھر سے پہن کر واپس تشریف لائے تو ایک آدمی نے اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا: کس قدر خوب صورت چادر ہے یارسولؐ اللہ! مجھے عطا فرما دیجیے۔ اس پر لوگوں نے اس شخص سے کہا: آپ نے اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چادر کو لیتے ہوئے اظہار فرمایا کہ آپؐ  کو    اس کی حاجت تھی اور تمھیں معلوم ہے کہ آپؐ سوال کو رد نہیں فرماتے۔ اس نے عرض کیا: اللہ کی قسم! میں نے اسے پہننے کے لیے نہیں مانگا بلکہ اس لیے مانگا ہے کہ یہ میرا کفن بنے۔ حضرت سہلؓ کہتے ہیں وہ چادر ان کا کفن بنی تھی۔ (بخاری، کتاب الجنائز)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ  سے منسوب ہر چیز سے محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ آپؐ  کی ذات، آپؐ  کا لباس، آپؐ  کا غُسالہ (وضو کا پانی)، آپؐ  کے صحابہ ؓ، آپؐ کے اہلِ بیتؓ، سب کی محبت مومن کی صفت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اپنے والدین، اپنی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں‘‘ (بخاری)۔ اسی طرح فرمایا: ’’تم میں سے کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش اس دین کے تابع نہ ہوجائے جسے مَیں لے کر آیا ہوں (مشکوٰۃ المصابیح)۔صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ  کے لباس، آپؐ  کی نشست و برخاست، آپؐ  کے چال چلن، آپؐ  کی سیرت اور آپؐ  کے دین کے ساتھ عشق و محبت پوری طرح دکھائی دیتی محسوس ہوتی اور مشاہدے میں آتی ہے جیسے برف کے قریب بیٹھ کر ٹھنڈک اور آگ کے قریب بیٹھ کر حرارت محسوس ہوتی ہے۔   اسی طرح صحابہ کرامؓ کی زندگیوں کے مطالعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت برستی نظر آتی ہے۔

مذکورہ حدیث میں جس صحابیؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے چادر مانگ لی یہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ یا عبدالرحمن بن عوفؓ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر کو تھوڑی دیر پہنا تو انھیں اس چادر سے محبت ہوگئی، اس لیے کہ وہ چادر آپؐ  کے جسمِ اطہر کو چھو گئی اور متبرک ہوگئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو کسی عام صحابی کے سوال بلکہ کسی بھی شخص کے سوال کو رد نہ کرتے تھے تو اپنے قریبی ساتھی کی دلی خواہش اور طلب کو کیسے رد فرما دیتے۔ آپؐ  نے وہ چادر اُتار کر انھیں پیش کردی۔ انھوں نے اسے دنیا میں اپنا لباس بنانے کے بجاے اُخروی زندگی کا لباس بنایا کہ آپؐ  کی یہ متبرک چادر قبر میں ان کی شناخت ہو کہ یہ ہے وہ شخص جس نے نبیؐ کے لباس کو اپنا لباس بنا لیا اور اس وجہ سے وہ محترم ہے۔ اس حدیث سے نبیؐ کی سخاوت کی نرالی شان ظاہر ہوتی ہے۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: رسو لؐ اللہ تمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ کیوں نہ ہوں کہ اللہ کے رسولؐ تھے اور اللہ نے انھیں انسانیت کو نوازنے اور ان پر سخاوت کرنے ہی کے لیے بھیجا تھا۔ آپؐ  رحمت للعالمین تھے، آپؐ  کی سب سے بڑی سخاوت قرآن و سنت کا نظام ہے۔ کاش! ہم اس کا شعور پیدا کریں اور قرآن و سنت کے نظام کو تمام نظاموں کے مقابلے میں محبوب جان کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور رحمت للعالمینؐ کا عظیم، بے نظیر و بے مثال تحفہ جان کر اسے محبوب بنالیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و تعلق کا حق ادا کردیں۔


حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قبر کے پاس سے گزر ہوا جس کے پاس ایک عورت بیٹھی رو رہی تھی۔ آپؐ  نے اسے دیکھا تو فرمایا: اللہ کی بندی، اللہ سے تقویٰ اختیار کر اور صبر کر۔ اس نے کہا: اے آدمی! اپنا کام کر، میری مصیبت تجھ پر نہیں آئی۔ وہ آپؐ  کو پہچان نہ سکی تھی۔ اس لیے یہ جملہ اس کی زبان سے نکل گیا۔ کوئی شخص اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے اس عورت سے کہا: تجھے پتا بھی ہے یہ شخصیت کون تھی؟ یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ وہ پریشان ہوکر آپؐ  کے گھر کی طرف دوڑی کہ معذرت کرے۔ دروازے پر پہنچی تو دیکھا کہ یہاں کوئی محافظ نہیں ہے، اندر چلی گئی۔ عرض کیا: یارسولؐ اللہ! غلطی ہوگئی آپؐ  کو پہچان نہ سکی۔ اس پر آپؐ  نے فرمایا: صبر تو اس وقت معتبر ہوتا ہے جب صدمہ تازہ ہو (بعد میں تو خود بخود صبر آجاتا ہے)۔ (بخاری، کتاب الجنائز)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح، تزکیہ و تربیت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ خاتون کو قبر کے پاس روتے ہوئے دیکھا تو موقعے پر نصیحت کا کلمہ کہہ دیا۔ اس نے ناگوار بات کی تو آپؐ  نے اس کا کوئی جواب نہ دیا، اپنا تعارف بھی نہ کرایا، نہ اسے ڈانٹ ڈپٹ ہی کی۔ اس میں دعوت و تربیت اور وعظ و نصیحت کے لیے بڑا عمدہ نمونہ ہے۔ آج واعظین لوگوں سے ناراض ہوجاتے ہیں اور انھیں طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، خصوصاً مخالفین کو۔ نبی کریمؐ کی سیرت کا یہ روشن پہلو دعوتی خطوط کو نمایاں کر رہا ہے کہ ناگوار بات سن کر اسے پی جانا چاہیے۔ ایسا کیا جائے تو زیادہ وقت نہیں گزرے گا کہ بھٹکنے والا سیدھی راہ پر چلتا دکھائی دے گا۔ واعظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ  صبر سے کام لے۔ صبر سے اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے اور معاشرے میں خوش گوار اور اُلفت و محبت کی فضا پیدا ہوتی ہے۔


حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئی (جب کہ وہ مرض الموت میں تھے)، تو انھوں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: تین سحولی (یمن کے بنے ہوئے) سفید کپڑوں میں جس میں قمیص اور پگڑی نہ تھی۔ پھر پوچھا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس دن فوت ہوئے تھے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: سوموار کے دن۔ پھر پوچھا: آج کون سا دن ہے؟ حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: سوموار کا دن۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے کہا: مجھے اُمید ہے کہ شام تک میری روح قبض ہوجائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ سوموار کا دن ختم ہوا، منگل کی رات شروع ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ کی روح قبض ہوگئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک کپڑا جو انھوں نے بیماری کے دوران پہنا ہوا تھا اور اس پر زعفران کا داغ تھا، کو دیکھا تو فرمایا: اسے دھو ڈالنا، دو اور کپڑے ملا کر مجھے ان میں کفن دے دینا۔ حضر ت عائشہؓ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: یہ کپڑا تو پرانا ہے۔ آپؓ نے فرمایا: زندہ لوگ نئے کپڑے کے زیادہ حق دار ہیں۔ پرانا کپڑا قبر میں جسم سے نکلنے والی پیپ کے لیے ہے۔ چنانچہ ایک پرانے کپڑے اور دو نئے کپڑوں میں حضرت ابوبکرؓ کو کفنایا گیا اور منگل کی رات کو ان کا جنازہ ہوا اور رات ہی کو تدفین بھی ہوئی۔ (بخاری، کتاب الجنائز)

 حضرت ابوبکرصدیقؓ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ انھوں نے اپنی بیماری میں اگر کچھ پوچھا تو یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں میں کفنایا گیا اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کس دن فوت ہوئے۔ انھیں طلب اور تڑپ تھی کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کفن دیا جائے اور یہ شوق اور ولولہ تھا کہ اسی دن آپؓ کی وفات ہو جس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی۔ ان کی یہ طلب اور تڑپ اللہ تعالیٰ نے پوری کردی بلکہ اس سے بھی زیادہ آپؓ کو دنیوی زندگی اور موت دونوں حالتوں میں آپؐ کے ’صاحب‘ ہونے کے مقام پر فائز کردیا، اور حضرت عائشہؓ کے حجرۂ مبارکہ میں  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں قبر عطا فرمائی۔کتنی اُونچی شان ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کو عطافرمائی  ع  یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا!