ڈاکٹر تابش مہدی (حال نائب مدیر زندگی نو، دہلی) بھارت کی اُردو دنیا میں ایک شاعر، نقاد اور محقق کی حیثیت سے معروف ہیں۔ علی گڑھ کے ڈاکٹر شجاع الدین فاروقی کے الفاظ میں: ’’انھوں نے اپنی فہم و فراست، لیاقت و ذہانت، دیانت و امانت، محنت اور لگن کی بدولت ادبی حلقوں میں اپنی نمایاں شناخت قائم کرلی ہے‘‘۔ وہ متعدد ادبی اور دینی جرائد سے وابستہ رہے، کالم نگاری بھی کی۔ادبی تحقیق و تنقید کے علاوہ دینی تحقیق پر بھی متعدد کتابیں تحریر کرچکے ہیں۔ انھوں نے چند مضامین مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے دفاع میں بھی لکھے ہیں۔ مختلف موضوعات پر ’’انھوں نے کتابوں، کتابچوں، مضامین، مقالات اور مقدموں اور تبصروں کا [ایک] بڑا انبار لگا دیا ہے‘‘۔ اس وقت ان کی تین کتابیں پیش نظر ہیں۔
یہ کتاب مرکزی رویت ِہلال کمیٹی پاکستان کے چیئرمین و صدر تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان مفتی منیب الرحمن کی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔ مصنف نے ’زکوٰۃ کی حکمت‘ کے عنوان سے کتاب کا آغاز کرتے ہوئے ’عشر‘ اور ’مصارفِ زکوٰۃ‘ کے دو مزید عنوانات کے تحت رواں تبصرے کے انداز میں قدیم و جدیدفقہا و علما کی فقہی آرا کا حوالہ دے کر مسائلِ زکوٰۃ کو نہایت مختصر الفاظ میں قلم بند کردیا ہے۔ کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ مصنف نے جدید معاشی مسائل کے تناظر میں بیش تر مسائلِ زکوٰۃکی وضاحت کی ہے۔ ۴۰صفحات پر زکوٰۃ کی اہمیت و فضیلت کے بیان سے متصل زکوٰۃ کے مسائل کا بیان شروع ہوجاتا ہے۔ صنعت و حرفت، زیورات و زراعت، ملازمت و مزارعت میں زکوٰۃ کے مسائل کی مختلف نوعیتوں کے متعلق گفتگو کی گئی ہے۔ مصارفِ زکوٰۃ کا بیان کتاب کے نصف حصے پر مشتمل ہے۔ دینی مدارس ، رفاہی و فلاحی تنظیمیں، کس حد تک زکوٰۃ کے عامل کے طور پر کام کرسکتی ہیں اور صرف و تقسیمِ زکوٰۃ میں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ایسے بیسیوں چھوٹے چھوٹے مسائل کو اختصار کے ساتھ جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ مصنف نے مختلف فقہا کو حوالے کے طور پر درج کیا ہے لیکن غالب مآخذ اور حوالے حنفی فقہا اور خصوصاً اہلِ سنت، علما اور فقیہان کے درج ہیں۔ ان علما کی متعلقہ عربی عبارتوں کو بھی درج کیا گیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کتاب کی ضخامت مزید سمٹ جاتی اور ۱۸۰ کے بجاے ۱۲۵ صفحات کی کتاب بن جاتی۔
زکوٰۃ مفتی منیب الرحمن صاحب کے دل چسپ اندازِ گفتگو کی آئینہ دار ہے۔ ایک جگہ مصنف رفاہی اداروں کو حکومت کے مقابلے میں زکوٰۃ مستحقین پر خرچ کرنے کی اجازت نہیں دیتے (ص ۱۳۵)، اور دوسری جگہ اپنے دینی ادارے کے اخراجات پورا کرنے کے لیے اہلِ خیر سے زکوٰۃ، صدقات، فطرہ، فدیہ، کفارات و نذر کی رقوم و عطیات کا مطالبہ کرتے ہیں (ص ۱۷۷، ۱۷۸)۔ اسی طرح مفتی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں: زکوٰۃ وکیل کو دینے سے ادا ہوجاتی ہے (ص ۱۲۳)، اور دوسری جگہ لکھتے ہیں: زکوٰۃ محض وکیل کو دینے سے ادا نہیں ہوتی (ص ۱۴۸)۔ زکوٰۃ کی ادایگی میں تملیک کا مختلف مقامات پر ایسا بیان بھی اُلجھائو پیدا کرتا ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ مصنف بہت کم صفحات پر بہت سے اہم مسائل کو سمونے میں کامیاب رہے ہیں۔ (حافظ محمد ارشد)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو شریعت میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ قرآنِ کریم کی تشریح و تفسیر بھی ہمیں احادیث اور سنت ِ رسولؐ کی روشنی میں ملتی ہے۔ اس بنیادی اہمیت کے پیش نظر آپؐ کی احادیث کو محفوظ رکھنے کا فریضہ ہر دور میں سرانجام دیا گیا۔ آپؐ کی طرف جھوٹی روایت کی نسبت کرنے والے کو آگ میں اپنا ٹھکانا بنانے کی وعید سنائی گئی۔
تخریجِ حدیث اہلِ علم اور محققین کی ایک معروف اصطلاح ہے جس میں کسی بھی حدیث کو اُمہات الکتب میں اصل متن کے ساتھ پرکھا جاتا ہے اور تخریج و حوالے کے بعد ہی وہ حدیث مستند متصور ہوتی ہے۔ زیرنظر کتاب علمِ حدیث کے اسی اہم گوشہ ’فن تخریجِ حدیث‘ سے متعلق ہے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب میں عام فہم اسلوب استعمال کیا ہے اور احادیث کی تخریج کے لیے چار طریقے ازروے متن اور چار طریقے ازروے سند احسن انداز میں واضح کردیے ہیں۔ان آٹھ طریقوں کی مثالیں انتہائی آسان انداز میں پیش کردی گئی ہیں۔ مزیدبرآں فنِ حدیث کی کتابوں کی اقسام، جملہ اقسام کی تعریفات اور مشہور کتابوں کا مختصر تعارف بھی شامل کردیا گیا ہے۔ اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے یہ کتاب اہمیت کی حامل ہے۔ (حافظ ساجد انور)
ہمارے اعلیٰ دینی مدارس میں نصاب کی مختلف درسی کتب پڑھاتے ہوئے یقینا نہایت اعلیٰ معیار پرلیکچر دیے جاتے ہیں۔ اب ریکارڈنگ اور طباعت و اشاعت کی سہولیات عام ہوجانے سے یہ علمی خزانے کلاس روم کی چار دیواری سے باہر بھی دستیاب ہونے لگے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب مولانا سمیع الحق کے وہ درس ہیں جو انھوں نے امام ترمذی کی جامع السنن کے ابواب البر والصلۃ پڑھاتے ہوئے مدرسے میں دیے اور ان کے شاگرد مفتی عبدالمنعم نے انھیں ریکارڈ کرکے لکھا اور اس کی بنیاد پر یہ ۴۰۰صفحے کی نہایت مفید کتاب تیار کردی۔ ہمیں ہر انسان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنے اور حسنِ معاشرت کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس کتب میں فضائلِ اخلاق اور رذائل پر وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ والدین اور دیگر رشتہ داروں، پڑوسیوں، یتیموں، بیوائوں، غرض معاشرے کے ہرطبقے سے حُسنِ سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ ایک عام سادہ سا بیان نہیں ہے، بلکہ مولانا سمیع الحق صاحب نے جس موضوع کو لیا ہے اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس کے مختلف پہلو واضح کیے ہیں۔
مکمل کتاب کا مطالعہ آپ کو اسلام کا ایک نہایت حسین خوش گوار تاثر دیتا ہے۔ کاش! کہ ہم سب مسلمانوں کی زندگیاں اپنے پیارے رسولؐ کی بتائی ہوئی ہدایت کے مطابق ہوں۔ (مسلم سجاد)
مولانا امیرالدین مہر سندھ کی ایک معروف علمی و دعوتی شخصیت ہیں اور تقریباً ۲۵ سے زائد اُردو اور سندھی میں علمی اور دعوتی کتب کے مؤلف ہیں۔ وہ باب الاسلام سندھ کی تحریکی و جماعتی (جماعت اسلامی) سرکردہ شخصیات کی سوانح حیات اور ان کی دعوتِ دین کی سرگرمیاں احاطۂ تحریر میں لائے ہیں۔ کتاب میں ۵۰ شخصیات کا تذکرہ ہے۔
شخصیات کے اُٹھ جانے کے بعد اُن کی سوانح اور حالات و واقعات کو صحیح طور پر تحریر میں لانا بڑی جان جوکھوں کا کام ہے اور اس کے لیے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس کا اظہار خود مؤلف نے کیا ہے کہ اس کتاب کی تالیف میں تقریباً ۱۰سال صرف کیے۔ لاہور، اسلام آباد اور سندھ کے بیش تر علاقوں کے کئی سفر کیے، جاننے والوں اور مرحومین کے عزیز واقارب سے ملاقاتیں کیں، تب کہیں جاکر یہ کتاب مرتب ہوسکی۔ مؤلف نے مرحومین کی دینی و جماعتی سرگرمیاں، سوانح، دعوت کے کام کرنے کا طریقہ اور جذبہ اور دعوت پھیلانے کی تڑپ بڑی خوب صورت اور پُراثرانداز میں قلم بند کی ہیں جس سے مطالعہ کرنے والے کو مہمیز ملتی ہے، اور بحیثیت مجموعی جماعت اسلامی کے کارکنوں او ر ذمہ داران کا جو تاثر اُبھرتا ہے وہ جماعت کا حقیقی اثاثہ ہے۔ اس کتاب سے قبل بھی اسی طرح کی بعض کتب شائع ہوئی ہیں مگر یہ ایک منفرد کتاب ہے اور تحریکی لٹریچر میں مفید اضافہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہو تحریکِ اسلامی کے کارکن اور ذمہ داران اپنی یادداشتیں تحریر میں لائیںتاکہ تحریکی لٹریچر شائع کرنے میں دقتیں کم ہوں، اور بعد میں آنے والے ان کے تجربات سے دعوت کے کام کو آگے بڑھانے میں فائدہ اُٹھا سکیں۔ کتاب خوب صورت اور جاذبِ نظر ہے۔ (شہزاد الحسن چشتی)
یہ حافظ محمد ادریس صاحب کا تیسرا سفرنامہ ہے جس میں انھوں نے اپنے سابقہ اسفارِبرطانیہ کی کچھ جھلکیاں اور واقعات بھی شامل کردیے ہیں (مثلاً: مانچسٹر ہوائی اڈے پر کسی سابقہ سفر میں پیش آمدہ واقعہ جو دل چسپ ہے اور پاکستانیوں سے بُغض رکھنے والے بھارتیوں کی متعصب ذہنیت کی مثال بھی ہے)۔ موصوف نے یہ سفر جولائی اگست ۲۰۱۱ء میں کیاتھا۔ اس کے کچھ حصے ہفت روزہ ایشیا میں شائع ہوتے رہے، اب کچھ ترمیم اور تبدیلیوں کے ساتھ اسے کتابی شکل دی گئی ہے۔ایک ماہ پانچ دن کے اس سفر میں حافظ صاحب نے مانچسٹر،لنکاشائر، لندن، راچڈیل، کیتھلے، بریڈفورڈ، لیڈز، بلیک برن، لوٹن، برنلے، نیلسن، مڈلینڈ، پیٹربرا، وال سال اور برمنگھم میں احباب اور عزیزوں سے ملاقاتیں کیں، خطبے دیے اور تقریریں کیں۔ حافظ صاحب کا مشاہدہ قابلِ داد ہے ۔انھوں معمولی جزئیات تک کا ذکر کردیا ہے۔
جدید ایجادات نے روے زمین کی طنابیں اس طور کھینچ دی ہیں اور انٹرنیٹ نے ہرچیز کو اس قدر طشت ازبام کردیا ہے کہ کوئی بات نئی انوکھی معلوم نہیں ہوستی۔ حافظ صاحب نے اس سفر میں ظاہر کی آنکھ سے بھی تماشا دیکھا اور دل کی آنکھ بھی کھلی رکھی۔ یوں ظاہری و باطنی مشاہدات قلم بند کیے مگر ان کے سفرنامے میں ابن بطوطہ کے بیان کردہ عجائبات قسم کی کوئی چیز نہیں ملے گی جو قاری کو حیران کرے۔ البتہ ان کے مشاہدات قارئین کے لیے معلومات کا سامان ضرور فراہم کرتے ہیں۔ حافظ صاحب یوکے اسلامک مشن کی دعوت پر برطانیہ گئے تھے۔ مختلف شہروں میں مشن کے پروگراموں میں شریک رہے۔ سامعین کو رہنمائی دی۔ ان کے سوالوں کے جواب دے کر انھیں مطمئن کیا۔ اس سفرنامے سے برطانیہ میں مشن کی سرگرمیوں، اجتماعات اور اثرات کا پتا چلتا ہے اور مشن کے ارکان اور مسافرنواز احباب کے محبت آمیز سلوک کی تفصیل معلوم ہوتی ہے۔ اس تفصیل میں دعوتوں، عصرانوں اور ضیافتوں کا ذکر بھی آگیا ہے۔
اگر کوئی شخص برطانیہ جا رہا ہو خصوصاً پہلی بار، تو اس کے لیے یہ کتاب ایک اچھا رہنما (گائیڈبک) بھی ہے۔ مسجدابراہیم برنلے کے امام اور خطیب مولانا محمد اقبال کے بقول ’’یہ سفرنامہ محترم حافظ صاحب کی خوب صورت پھولوں سے بھری ایک زنبیل ہے‘‘۔ طباعت اور پیش کش مناسب اور قیمت بہت مناسب ہے۔ لفظ اللہ کا اِملا تصحیح طلب ہے۔ (ر- ہ )
پروفیسر ارشد جاوید کا نام محتاجِ تعارف نہیں۔ہماری آپ کی زندگیاں بہتر کرنے کے لیے، یعنی بدلنے کے لیے، انھوں نے اب تک ۱۲ نہایت مفید اور عملی کتابیں لکھی ہیں۔ یہ بارھویں زیرتبصرہ ہے۔ اس طرح کے موضوعات پر انگریز ی میں کافی کتب دستیاب ہیں۔ لیکن وہ ان کے اپنے تہذیبی ماحول اور نفسیات سے متعلق ہیں۔ ہمیں زندگی کے ہرمعاملے میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل ہے۔ ارشد جاوید صاحب اس رہنمائی سے پورا فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ اس لیے ان کی باتیں دل کو لگتی ہیں۔ وہ پاکستانی معاشرے کے مسائل کے پس منظر میں لکھتے ہیں، اس لیے کام کی باتیں بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے ۱۳مختلف عنوانات کے تحت خوشیوں کے راستے میں رکاوٹیں اور ان کا حل پیش کیا ہے۔ اس میں ایک مسئلہ ڈپریشن بھی ہے جو ان کی کسی مکمل کتاب کا موضوع بن سکتا ہے۔ پھر انھوں نے ۳۰عنوانات کے تحت خوشیوں کے حصول کے راستے بتائے ہیں۔
آخری نکات سے پہلے لکھتے ہیں:’’ہرفرد اپنی زندگی کو خوش گوار بناسکتا ہے اور ہرفرد بہت حد تک اپنی خوشیوں کا ذمہ دار ہے۔ خوشی خودبخود حاصل نہیں ہوتی، اس کے لیے آپ کو بھرپور کوشش کرنی ہوگی۔ منصوبہ بندی کرنی ہوگی‘‘۔کتاب میں جگہ جگہ مختلف مقاصد کے حصول کے لیے مشقیں بھی بیان کی گئیں کہ کس طرح لیٹیں، کیا جملے دہرائیں یا کیا سوچیں وغیرہ وغیرہ۔سب کچھ بتانے کے بعد، ان کے علاوہ آخری باب میں جو عملی طریقے بتائے ہیں وہ ۱۴۳ ہیں۔ ان میں سے بعض کے ذیلی عنوانات ۲۰،۲۱ بھی ہیں۔ اب آپ خود سوچ لیجیے کہ خوش ہونا کتنا مشکل کام ہے اور اس کے لیے کتنی سخت محنت کرنا پڑے گی۔ میرا جیسا انسان سوچتا ہے کہ اس سے تو مَیں ناخوش ہی بھلا۔(م - س)