جولائی ۲۰۲۳

فہرست مضامین

قرآن اور خاندان -۲

ڈاکٹر کوثر فردوس | جولائی ۲۰۲۳ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

طلاق رجعی

جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں، اور اُن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے اُن کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپائیں۔ اُنھیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں۔ اُن کے شوہر تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں، تو وہ اِس عدت کے دوران اُنھیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں۔ عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں۔ البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے۔ اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔(البقرہ ۲:۲۲۸)

 شوہروں کو حق حاصل ہے کہ وہ عورت کی عدت کے اندر رجوع کرسکتے ہیں۔ اسے رجعیت کہتے ہیں ،لیکن تیسری طلاق کے بعد یہ حق حاصل نہیں رہتا۔ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے ،شوہر کو اس کا اختیار حاصل ہے کہ وہ رجوع کرے ،اس پر بیوی کو انکار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ تم تو مجھے طلاق دے چکے ہو، اب میں تمھاری بات ماننے کو تیار نہیں۔

عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں، ان کی مناسبت سے حقوق بھی ہیں۔ مردوں کے لیے ان پر ایک درجہ فوقیت ہے۔ اسلامی شریعت میں مرد اور عورت کے درمیان یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان مساوات نہیں ہے ۔گھر کے ادارے میں عورت اور مرد برابر نہیں ہیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی ادارے کے اندر دو برابر کے سربراہ نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ کسی ادارے کے دو مینیجنگ ڈائریکٹر بنا دیں تو وہ ادارہ تباہ ہو جائے گا۔ لہٰذا جب ایک مرد اور ایک عورت سے ایک خاندانی ادارہ وجود میں آئے تو اس کا سربراہ کون ہوگا؟ مرد یا عورت؟ مرد اور عورت انسان ہونے کے ناطے برابر ہیں۔ شرفِ انسانیت میں فرد کی حیثیت سے دونوں برابر ہیں لیکن جب وہ دونوں مل کر خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو اب یہ برابر نہیں رہے۔اسی طرح  جیسے ایک دفتر میں چپڑاسی اور افسر برابر نہیں ہیں۔ دونوں کے الگ الگ اختیارات اور فرائض ہیں۔

آج سے تقریباً ۴۰برس قبل طلاق کا لفظ بولنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔اگر کسی کی بیٹی یا کسی عورت کو طلاق ہو جاتی تو وہ منہ چھپائےپھر تے تھے۔ اپنے قریبی عزیزوں کو بھی نہیں بتاتے تھے۔ پھرا س کا چلن اتناعام ہوا کہ عورتیں محفلوں میں بیٹھ کر کہتیں کہ مجھے طلاق ہوچکی ہے، اس بات کو بلاجھجک بیان کیا جاتا ہے۔ دوسر ی با ت یہ کہ آپ کو اپنے حلقۂ احباب میں ، اپنی جائے ملازمت پر، کسی بھی تقریب میں طلاق یافتہ خاتون مل جائے گی۔اعدادو شما ر بتا تے ہیں کہ شرح طلاق میں  اضافہ حیران کن اور پریشان کن ہے۔

تیسری تبدیلی جو معاشرے میں عام ہے، وہ گھروں میں میاں بیوی کی لڑائی اور بحث میں: ’مَیں طلاق دے دوں گا‘اور ’مَیں نے تمھیں طلاق دی‘ جیسے جملے بولے جاتے ہیں۔ اور غصہ کا فورہونے کے بعد دونوں میاں بیوی کمال اطمینان کے ساتھ رشتۂ زوجیت میں منسلک رہتے ہیں۔ بیوی کہتی ہے کہ میاں تو مجھے کئی بار طلاق دے چکا ہے ،پھر بات ختم ہو جاتی ہے، پتہ نہیں ہمارا ساتھ رہنا جائز بھی ہے یا نہیں ؟اس احساسِ گناہ کے ساتھ زندگی گزارتی رہتی ہے ۔تصفیہ نہیں کروایا جاتا، خود علم نہیں ،مولوی نے فتویٰ دے دیا تو کہاں جاؤں گی؟ بچے کیسے پالوں گی ؟وغیرہ۔

طلاقِ رجعی بھی ہو تو عدت کا حساب کتنا رکھا جاتا ہے ؟عدت گزر جائے تو کیا نکاح کیا جاتا ہے؟ اگر تین طلاق ایک وقت میں دے دیں اور غصہ ختم ہوا اور ہوش ٹھکانے آئیں تو پھر ہرعالم سے فتویٰ معلوم کرنا کہ میں نے تو غصے میں کہا تھا، ایک ہی طلاق ہوئی ہے نا؟

 حسب منشا فتویٰ ، جہاں سے مل جائے تو اطمینان ہو جاتا ہے اور بیوی کا ساتھ چلتا رہتا ہے۔ اگر یہ سمجھ آ جائے کہ تین بار طلاق کے بعد ،اس بیوی کے ساتھ نکاح صرف حلالہ ہے یعنی کوئی اور آدمی نکاح کرے، رخصتی ہو اور وہ کسی وجہ سے بیوی کو طلاق دے دے، تو پہلے شوہر کے لیے یہ عورت جائز ہوجائے گی۔ اب حلالہ کے لیے بھی حرام راستے ڈھونڈ لیے جاتے ہیں ۔اپنے آپ کو اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے حیلےکیے جاتے ہیں۔

 یہ سب دین کی تعلیمات سے لاعلمی اور جہالت کی بنا پر ہوتا ہے یا علم کے باوجودخدا اور آخرت کی پیشی سے بے خوفی ہوتی ہے، یا یہ پروانہ کہ ’دین آسان ہے، یہ تو مولویوں نے مشکل بنایا ہوا ہے‘۔

عدت میں شادی کرلینا اللہ نے تو منع کیا ہے لیکن بندوں نے اپنی مجبوریوں کی فہرست بناکر اس کو جائز کر لیا ہے ۔کسی کووزارت اعلیٰ کی اُمید، کسی کو ویزے کے حصول یا تنسیخ کا خطرہ،کسی کی نوکری، خاندان کی شادی وغیرہ مجبور کر لیتے ہیں۔

تین حیض کی مدت سے واضح ہو جاتا ہے کہ عورت حاملہ تو نہیں ہے کہ آنے والے بچے کا نسب مشکوک نہ ہو ۔اس میں بھی اگر حمل ہے تو وضع حمل تک عدت ہے۔اب وہ شوہر اور سسرال جو انتہائی مبغوض ہیں، ان کا بچہ چھ آٹھ ماہ تک اٹھائے اٹھائے پھرے، انکار اور پھر جان خلاصی کا حل بھی نکال لیا جاتا ہے۔ ان سب رویوں سے بچانے والا دین کے احکامات کا علم اور اس پر عمل ہے۔

 اللہ تعالیٰ تو یہ بھی فرماتا ہے کہ دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہو جانے سے پہلے شوہر کو اس کا اختیار حاصل ہے ،کہ وہ رجوع کرے۔ اس پر بیوی کوانکار کا اختیار نہیں۔ وہ را ضی ہوجائے، انکار نہ کرے۔مگر آج کی عورت خود انحصاری و خودمختاری کے نعرے سن سن کر اس مقام پر پہنچ رہی ہے، کہ اس کی اَنا کو پہنچی ہوئی ٹھیس کے زخم کسی طرح مندمل نہیں ہوتے۔ نتیجہ طلاق یا خلع کی صورت میں نکلتا ہے ۔مرد کو بھی اپنے جذبات اور زبان کو قابو میں رکھ کر مردانگی کا ثبوت دینا چاہیے ۔عورت کو بھی تحمل وبرد باری کا رویہ اپنانا چاہیے،اور فریقین کے والدین کو حوصلہ بلند کرکے مفاہمت کی کوشش کرنی چاہیے کہ جائز مگر ناپسندیدہ ترین عمل طلاق سے بچا جاسکے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آج سب رشتوں سے بڑھ کر،دوست اور سہیلیاں ،غم خوار اور قابلِ اعتماد مشیر ہیں۔ ان کو بھی مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ۔ہر ایک کی جنبشِ ابرو ،حالات بگاڑنے یا سنوارنے میں بڑا کردار ادا کرتی ہے۔

خلع

طلاق دو بار ہے۔ پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے۔ اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمھارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انھیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو۔ البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں اگر تمھیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو ۔اور جو لوگ حدودِ الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں۔(البقرہ ۲:۲۲۹)

یعنی ایک مرد رشتۂ نکاح میں اپنی بیوی پر حد سے حد دو ہی مرتبہ رجوع کا حق استعمال کرسکتا ہے ۔جو شخص اپنی منکوحہ کو دو مرتبہ طلاق دے کر اس سے رجوع کر چکا ہو،وہ اپنی عمر میں جب کبھی اس کو تیسری بار طلاق دے گا، عورت اس سے مستقل طور پر جدا ہوجائے گی۔ طلاق کا صحیح طریقہ جو قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے،یہ ہے کہ عورت کو حالت طُہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے ۔اگر جھگڑا ایسے زمانے میں ہوا ہو،جب کہ عورت ایام ماہواری میں ہو تو اسی وقت طلاق دے بیٹھنا درست نہیں، بلکہ ایام سے اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرنا چاہیے۔ پھر ایک طلاق دینے کے بعد اگر چاہے ،تو دوسرے طُہر میں دوبارہ ایک طلاق اور دے دے،ورنہ بہتر یہی ہے کہ پہلی ہی طلاق پر اکتفا کرے ۔اس صورت میں شوہرکو یہ حق حاصل رہتا ہے کہ عدت گزرنے سے پہلے پہلے جب چاہے رجوع کرلے، اور عدت گزر بھی جائے، تو دونوں کے لیے موقع باقی رہتا ہے کہ پھر باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کرلیں۔ لیکن تیسرے طُہر میں تیسری بار طلاق دینے کے بعد نہ تو شوہر کا حق باقی رہتا ہے اور نہ اس کا ہی کوئی موقع رہتا ہے کہ دونوں کا پھر نکاح ہو سکے ۔رہی یہ صورت کہ ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، تو یہ شریعت کی رُو سے سخت گناہ ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی مذمت فرمائی ہے۔ اور حضرت عمرؓ سے یہاں تک ثابت ہے کہ جو شخص بیک وقت اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا ،آپ اس کو درے لگاتے تھے۔ تاہم گناہ ہونے کے باوجود اَئمہ اربعہ کے نزدیک تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور طلاق مغلظ ہوجاتی ہے،یعنی مہر اور وہ زیور اور کپڑے وغیرہ جو شوہر بیوی کو دے چکا ہو، ان میں سے کوئی چیز واپس مانگنے کا اسے حق نہیں ہے۔ یہ بات ویسے بھی اسلام کے اخلاقی اصولوں کی ضد ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کو ،جسے وہ دوسرے شخص کو ہبہ یا ہدیہ یا تحفہ کے طور پر دے چکا ہو،واپس مانگے۔ اس ذلیل حرکت کو حدیث میں اُس کتے کے فعل سے تشبیہ دی گئی ہے، جو اپنی ہی قے کو خود چاٹ لے۔ مگر خصوصیت کے ساتھ ایک شوہر کے لیے تو یہ بہت شرمناک ہے کہ وہ طلاق دے کر رخصت کرتے وقت اپنی بیوی سے وہ سب کچھ رکھوا لینا چاہے جو اس نے کبھی اسے خود دیا تھا ۔اس کے برعکس اسلام نے یہ اخلاق سکھائے ہیں کہ آدمی جس عورت کو طلاق دے، اسے رخصت کرتے وقت کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۰-۲۵۱)

شادی کے موقعے پر عورت کو حق مہر ادا کیا جانا چاہیے جو کہ اس کی ملکیت ہوتی ہے ۔حق مہر میں نقدی بھی ہو سکتی ہے یا کچھ اور مثلاً زیور، طلائی چوڑیاں یا سونے کا سیٹ حق مہر میں لکھا ہے اور اس وقت دلہن کو پہنایا بھی جاتا ہے ۔مگر بعد میں چالاکی سے کچھ نہ کچھ کہہ کر واپس لے لیا جاتا ہے اور اکثر اوقات بعد میں آنے والی بہو کو بھی دیا جاتا ہے۔ حق مہر لینا تو غلط ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ تحفے تحائف جو دلہن کو دیئے جاتے ہیں ،ان کا ذکر کر رہے ہیں، مگر اب تحائف،  زیورات، کچھ جوڑے وغیرہ دے کر واپس لے لینا تو معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا۔ حالانکہ تحفہ دے کر واپس لینا بھلے وہ چھوٹا سا ہی ہو، بُرا عمل ہے۔ جوڑوں اور خاندانوں میں بے اعتمادی کا بیج ، انھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے جڑ پکڑتا ہے۔پھر بعد میں ان باتوں اور دیگر مسائل سے اس کو پانی ملتا رہتا ہے اور آپس کے تعلقات کی خرابی کا درخت ایسا تناور ہو جاتا ہے ،جو شادی کے اس قیمتی رشتے کو لے ڈوبتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں آیت میں اس بات کی بھی وضاحت فرما دی کہ ایسی صورت میں اگر میاں بیوی کو خدشہ ہو کہ وہ حدودِ الٰہی پر قائم نہ رہیں گے ،تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔

’’شریعت کی اصطلاح میں اسے’ خلع‘ کہتے ہیں ۔یعنی ایک عورت کا اپنے شوہر کو کچھ دے دلاکر اس سے طلاق حاصل کرنا۔ اس معاملے میں اگر عورت اور مرد کے درمیان گھر کے گھر میں کوئی معاملہ طے پا جائے، تو جو کچھ طے ہوا ہو، وہی نافذ ہوگا۔

لیکن اگر عدالت میں معاملہ آجائے تو عدالت اس امر کی تحقیق کرے گی کہ آیا فی الواقع یہ عورت اس مرد سے اس حد تک متنفر ہو چکی ہے کہ اس کے ساتھ اس کا نباہ نہیں ہوسکتا۔ اس کی تحقیق ہو جانے پر عدالت کو اختیار ہے کہ حالات کے لحاظ سے جو فدیہ چاہے، تجویزکرے۔ اس فدیے کو قبول کر کے شوہر کو اسے طلاق دینا ہو گی ۔بالعموم فقہا نے اس بات کو پسند نہیں کیا ہے کہ جو مال شوہر نے اس عورت کو دیا ہو، اس کی واپسی سے بڑھ کر کوئی فد یہ اسےدلوایا جائے۔

خلع کی صورت میں جو طلاق دی جاتی ہے، وہ رجعی نہیں ہے، بلکہ با ئنہ ہوتی ہے ۔چونکہ عورت نے معاوضہ دے کر اس طلاق کو گویا خریدا ہے ،اس لیے شوہر کو یہ حق باقی نہیں رہتا کہ اس طلاق سے رجوع کر سکے ۔البتہ اگر یہی مرد و عورت پھر ایک دوسرے سے راضی ہو جائیں اور دوبارہ نکاح کرنا چاہیں، تو ایسا کرنا ان کے لیے بالکل جائز ہے ۔جمہور علما کے نزدیک خلع کی عدت وہی ہے جو طلاق کی ہے‘‘۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۲)

آج سے ۳۰ سال قبل ’خلع‘کی اصطلاح سے کم ہی لوگ واقف تھے ۔طلاق کا تو سن رکھا تھا مگر خلع کا نہیں۔ آج خلع کی اصطلاح اور عمل اتنا ہی عام ہے جتنا طلاق کا۔اس کے کئی عوامل ہیں جن پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ شوہر اور بیوی کے دل نہ ملنا ،مرد کا اپنے حلقۂ دوستی کو بہت وقت دینا ،مال خرچ کرنا ،سیروتفریح کے لیے جانا ،کھانوں پر بلانا ،باہر کھانے کھانا ، بیوی کو بے زار کر دینا اور نہ مرد کو اس میں کوئی عیب محسوس ہوتا ہے بلکہ اُلٹا وہ بیوی کے اس تعلق میں اعتدال کی خواہش کو اپنی آزادی میں رکاوٹ جانتے ہیں اورتعلقات خراب ہوتے جاتے ہیں۔

دوسری صورت یہ ہے کہ عورت کا اپنے میکے میں ہی مگن رہنا، اپنی ملازمت کو اعلیٰ طریقے سے نبھانے کے لیے وقت بے وقت میٹنگز ،فنکشنز ، ٹریننگز، اور دفتر کی طرف سے سیروتفریح کے لیے جانا وغیرہ مرد کو بے زار کر دیتا ہے۔ بیوی کو اپنے تئیں یہ بالکل ضروری وجائز لگتا ہے۔ شوہر کی طرف سے اس بیزاری کا ادنیٰ اظہار اور ردعمل، بیوی کو خلع کا راستہ دکھادیتا ہے۔سسرال والوں کے رویے ،جملے، حجت بازیاں بھی مسائل میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے مشترکہ خاندانی نظام میں بیٹے پڑھ لکھ جاتے ہیں ۔تنخواہ شروع ہوجاتی ہے یا کبھی ملازمت نہیں ہوتی تو ماں باپ بچوں کو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں میں بیاہ دیتے ہیں۔ کُھلا کھانے ،خرچ کرنے والی لڑکی کے لیے یہاں مال کی تنگی بھی مشکل پیدا کرتی ہے، نتیجہ خلع!

ہم سب کے رویوں کی اصلاح( شوہر، بیوی، میکہ ،سسرال ،مشیر خصوصی حلقۂ دوست و احباب وغیرہ) جوڑے کو گھر بسانے میں مدد دے سکتا ہے ۔ لہٰذا ہمیں سوچ سمجھ کرد ار اداکرنا چاہیے۔

طلاق مغلظ

پھر اگر (دو بارہ طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی، تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہو گی، الّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دے دے۔ تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدودِالٰہی پر قائم رہیں گے، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجو ع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جنھیں وہ اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے، جو (اس کی حدوں کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں۔(البقرہ ۲:۲۳۰)

’’احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی مطلقہ بیوی کو اپنے لیے حلال کرنے کی خاطر کسی سے سازش کے طور پر اُس کا نکاح کرائے اور پہلے سے یہ طے کرے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے دے گا، تو یہ سراسر ایک ناجائز فعل ہے ۔ ایسا نکاح، نکاح نہ ہوگا بلکہ محض بدکاری ہوگی‘‘۔(تفہیم القرآن،اوّل، حاشیہ ۲۵۳)

روکنا یا رخصت کرنا

اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو اور ان کی عدت پوری ہونے کو آ جائے، تو یا بھلے طریقے سے انھیں روک لو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو محض ستانے کی خاطر انھیں نہ روکے رکھنا یہ زیادتی ہو گی اور جو ایسا کرے گا، وہ در حقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمھیں سرفراز  کیا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکمت اُس نے تم پر نازل کی ہے، اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے۔(البقرہ ۲:۲۳۱)

یعنی رجوع کرو تو اس نیت سے کرو ،کہ آئندہ حسن سلوک کرنا ہے ۔اگر ایسا نہیں کرنا تو بہتر یہ ہے کہ شریفانہ طریقے سے طلاق دے دو۔(جاری)