جولائی ۲۰۲۳

فہرست مضامین

اسلامی تحریکوں کے داخلی چیلنج-۲

ڈاکٹر یوسف القرضاوی | جولائی ۲۰۲۳ | تحریک اسلامی

Responsive image Responsive image

جذباتیت کے زیراثر آنے کے حوالے سے یہاں پر تین اہم مظاہر کا ذکر کیا جاتا ہے:

(الف) ناکافی غور وخوض اور منصوبہ بندی

اسلام عقل وعلم کو پکارتا اور انھیں کام میں لانے کی دعوت دیتا ہے۔ جادۂ حق پر چلتے ہوئے معروف روایات کا لحاظ رکھنے کی تلقین اور بہت سی جگہوں پر احتیاط وپرہیز کی تاکید کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کل کا سامان فراہم کرو اور مستقبل کے لیے تیاری کرو۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک اسلامی میں عام طور پر اس نوعیت کا اہتمام کرنے کا رجحان کمزور ہے۔

میں نے ایک مرتبہ ایک بڑے عالمِ دین کے سامنے حالات وواقعات کے مطالعے اور اس کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ضرورت کا اظہار کیا۔ جواب میں ان کا ارشاد تھا: ’’کیا اللہ کی طرف بلانے اور لوگوں کو اسلام کی تعلیم دینے کے لیے بھی کسی منصوبہ بندی اور نقشہ گری کی ضرورت ہے؟‘‘

اب ذرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل دیکھیں۔ آپؐ نے مدینہ ہجرت کرکے آنے کے بعد مسلمانوں کی مردم شماری کا حکم دیا تھا۔ بخاری کی روایت ہے کہ آپؐ کے حکم کی تعمیل میں مردم شماری ہوئی اور مسلمانوں کی کل تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔ اس عمل سے جس حقیقت پر دلالت ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ آپؐ افرادی قوت کی اہمیت کا احساس رکھتے تھے۔ آپؐ نے وابستگانِ اسلام کی تعداد کا شمار اس لیے کرایا تاکہ ان کی قوت، احوال اورصورتِ حال سے ٹھیک ٹھیک واقفیت ہوجائے۔

سچی بات یہ ہے کہ مطالعہ اور غور وفکر کو اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے اور تحریک اسلامی کو بھی اسی عمل سے اپنی اور مخالفین کی قوت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ متعلقہ بیانات، ضروری معلومات اور ٹھوس حقائق کو جمع کر کے ان کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی صحیح نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں اور ایسا لائحہ عمل وضع ہو سکتا ہے، جس کو اختیار کر کے نصب العین کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے۔

تحریک سے نسبت رکھنے والے بعض لوگوں کو غور وخوض اور عمل کے لیے نقشہ سازی ناگوار بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ ہمارے ایک ملنے والے صاحب کے نزدیک: ’’غور وفکر کے بعد عمل کے لیے درست راہوں کا تعین کرنا ایک ایسا فریب ہے جس کا مظاہرہ اکثر ماہرین اقتصادیات، معاشی منصوبہ بندی میں نفع کے گوشوارے دکھا کر کرتے رہتے ہیں‘‘۔ ان کا خیال ہے کہ: ’’اصل اہمیت آغازِ کار کی ہے۔ ہمیں کام شروع کر دینے کے بجائے ٹک کر چین سے بیٹھ نہیں جانا چاہیے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’میرا ناقص عمل پر بھی یقین ہے۔ کام ہونا چاہیے خواہ وہ نقص اور خطا کے پہلو اپنے اندر رکھتا ہو۔ آج ہم ناقص عمل کر دکھائیں گے تو کل کوئی اللہ کا بندہ آکر اسے درست کر دے گا۔ نقص رفع اور خطا صحیح ہو جائے گی‘‘۔

ممکن ہے اس نقطۂ نظر کو بھی کچھ سند ِجواز حاصل ہو، اور کسی سطح پر اندھا دھند اور اضطراری عمل کے مثبت نتائج بھی نکل آتے ہوں، لیکن اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ بے سوچے سمجھے اور غلط اعمال اور دعوئوں کی پیوند کاری اور ٹیڑھے میڑھے اور آنکھیں موند کر بنائے جانے والے منصوبوں کے ذریعے سے منزل تک پہنچنا، ایک صحیح اور گہری منصوبہ بندی کے مقابلے میں ہزار گنا دشوار ہوتا ہے۔ بعد میں بڑے مخلص لوگوں کی تھکا دینے والی ساری جدوجہد، ان راہوں کی کج روی درست کرنے میں صرف ہوتی رہتی ہے اور نتیجہ کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ غلط بنیادوں پر استوار ہونے والی سب کوششیں حوصلہ شکن ثابت ہوتی ہیں کیونکہ ایسی کوششوں کی دیوار کی پہلی اینٹ ہی غلط رکھی گئی ہوتی ہے۔

زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور امتیاز وخصوصیت پیدا کرنے کے لیے بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ علمی، قانونی، سیاسی، اقتصادی، اجتماعی، ثقافتی، تربیتی، نشریاتی اور تنظیمی میدانوں میں ترقی کر کے دکھانا اور مہارت بہم پہنچانا جدید معاشرے میں اس لیے بھی ضروری ہے کہ عوامی ضروریات کی تکمیل اور تحریکی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان میں سے کوئی بھی شعبۂ حیات غیر اہم اور نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں ہے۔

چنانچہ ترقی ومہارت اور تخصص وامتیاز کے لیے منصوبہ سازی ناگزیر ہے۔ یہ کمپیوٹر، ایٹمی اسلحے، فضائی جنگوں، طب وریاضی میں زبردست ترقی کا دور ہے۔ دنیا ایجادات کے میدان میں بہت آگے جا چکی ہے۔ یہ سب گہرے غور وخوض اور منصوبے کا نتیجہ ہے۔ لکیر کا فقیر بنے رہنا، آپس میں غیر مفید چیزوں پر الجھتے رہنا اور بے نتیجہ ورد کرتے رہنا وقت، وسائل، صلاحیت اور قوت کو ضائع کرنے کا باعث ہے۔ مختلف شعبہ ہائے حیات میں مہارت وتخصص، شریعت کی نظر میں بھی اُمت مسلمہ پر واجب ہے۔ ایک میدان میں اپنی ساری قوتیں اور توانائیاں کھپا دینا اور دوسرے شعبوں سے غافل رہنا کسی طور پر بھی روا نہیں ہے۔

اسلام میں جہاد کی قدر و منزلت اور اہمیت کا کون اندازہ کر سکتا ہے؟

اس کے باوجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تمام مسلمانوں کے یک بارگی جہاد پر نکل جانے کو بھی ایک موقعے پر قرآن نے خامی بتایا ہے کیونکہ اس وجہ سے مسلمان ایک دوسرے میدان سے غافل ہو گئے تھے جو اہمیت کے اعتبار سے کچھ کم نہیں۔ یعنی دین کے فہم کے سلسلے میں ان کی توجہ وطلب، جہاد میں شرکت کے مقابلے میں کم ہو گئی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّۃً۝۰ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا  اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۝۱۲۲ۧ (التوبہ۹: ۱۲۲) اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تا کہ وہ (غیرمسلمانہ روش سے ) پرہیز کرتے۔

ذرا غور کیجیے، ہمارے کام اٹکل پچو اور ہمارے تیر بے ہدف چل رہے ہیں، جب کہ مخالفینِ اسلام اور دشمنانِ تحریک اسلامی ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری جدوجہد کا پھل ان کی جھولی میں پڑتا ہے۔ پھل پکنے اور توڑنے کے وقت ہم بے خبر ہوتے ہیں کیونکہ منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث ہمیں پھل پکنے کے موسم ہی کی خبر نہیں ہوتی۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مغربی سامراجی طاقتوں کے غلبے کے خلاف آزادی کی تحریکوں میں یا کسی باطل قوت کے خلاف عوامی احتجاج کی لہر اٹھتے وقت، ان تحریکوں کے لیے قوتِ محرکہ اسلام ہی بنتا رہاہے؟ پھر عوامی جذبات کا سرچشمہ اسلام سے وابستگی ہی سے مؤثر ثابت ہوتا رہا، لیکن اسلام کے نام پر جو کھیتی بوئی گئی اور جو پودے لگائے گئے، انھیں کاٹا اور ان کی باغ بانی کا کام آگے چل کر سنبھالا تو ان اسلام دشمن، مکار اور کینہ پرور عناصر نے، جو چپکے سے ہماری صفوں میں گھس آئے تھے!

ایسے عناصر ان تحریکوں میں مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو کر اس تاک میں لگ جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو آپس میں پھاڑا اور لڑا دیا جائے ، آگے بڑھ کر اس پوری جدوجہد کی قیادت سنبھال لی جائے اور عظیم کوششوں کا پکا ہوا پھل اپنے دامن میں سمیٹ لیا جائے۔

ایسا المیہ ہماری بے تدبیری، کم فہمی اور بے فکری ولا پروائی ہی کے باعث ہوتا ہے کہ اسلام دشمن اور فریب کار لوگ ہمارے کندھوں پر سوار ہو کر اور ہمارے نعروں کی گونج میں ہیرو بن بیٹھتے ہیں۔ لوگ اپنا تن من دھن ان کے سپرد کر دیتے ہیں اور وہ نام نہاد ہیرو اطمینان کے ساتھ فتح وکامرانی کا ثمرہ پا لیتے ہیں۔ کتنوں کو دیکھا گیا کہ اسلام کا محض لبادہ اوڑھ لیتے ہیں، ان کی زبانوں پر اسلام، اسلام کا ورد جاری ہو جاتا ہے، مگر اُن کے دل اس کے خلاف سوچ رہے ہوتے ہیں۔ اسلام عملاً ان کی زندگی سے کوئی میل نہیں کھاتا۔ اپنی لچھے دار تقریروں اور دجالانہ تدبیروں کے باعث وہ مسلم عوام کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جب اقتدار کا منصب اور ہیرو کا مرتبہ وہ پالیتے ہیں تو اسلام کا لبادہ اُتار پھینکتے اور اپنے حقیقی روپ میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔

کمال اتاترک [۱۸۸۱ء-۱۹۳۸ء] کو لیجیے۔ اسلام کے جھنڈے کے تحت، اسلام ہی کے نام پر، اس نے ترک عوام کی قیادت سنبھالی۔ عوام نے اپنی جانیں اور مال بخوشی اس کو سونپ دیے، اس کی عظمت کے نعرے لگائے، خوب خوب تعریف وستائش ہوئی، اور وہ ’غازی‘ کہلایا۔ لیکن جب سادہ لوح مسلم عوام کی حمایت اور اسلام کے نام کے استعمال کے ذریعے کامیابی نے اس کے قدم چومے، ’اسلام کی تلوار‘ اور ’غازی‘ کا لقب پانے والا یہ شخص خود اسلام اور مسلمانوں کے لیے زہر میں بجھا ہوا خنجر ثابت ہوا۔ اس نے کمال ہوشیاری سے خلافت کی بساط لپیٹی اور اسلام کا پورا باب خود اس نے مقفل کر دیا۔ ترکیہ کے عوام کے اسلام سے سارے رشتے کاٹنے کے درپے ہو گیا۔

(ب)  عجلت اور بـے صبری

عقل ومنطق اور علم وتدبیر پر جذبات کے غالب آجانے کا ایک اور بڑا اور منفی نتیجہ نکل کر سامنے آتا ہے۔ عجلت کار شخص میں تحمل وبردباری اور صبر اور ٹھیراؤ کی خوبی نہیں ہوتی۔ وہ چاہتا ہے کہ آج بوئے اور کل صبح ہی کاٹ لے، بلکہ صبح پودا لگائے اور شام ہی کو اس کا پھل پا لے۔ یہ چیز نہ تو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق ہے اور نہ دنیا میں ایسا کوئی اصول کارفرما ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا۔ وہ اس بات پر قادر تھا کہ کن کہہ دیتا اور فیکون کی صورت میں نتیجہ سامنے آجاتا، لیکن اللہ نے چاہا کہ وہ اس سنت کے ذریعے سے تحمل کی تعلیم دے۔

ربِّ ذوالجلال اس بات پر بھی قادر تھا کہ اپنے نبی نوح علیہ السلام اور ان کے اہل ایمان ساتھیوں کی غیب سے مدد کر دیتا اور پہلے روز ہی وہ کامیاب قرار پاتے، لیکن اس نے ایسا کرنے کے بجائے حضرت نوح علیہ السلام کو ۹۵۰سال تک شب وروز اور چپکے چپکے بھی اور ہانکے پکارے بھی دعوت دینے پر مامور کر دیا۔ پھر انجام میں بھی نوح علیہ السلام کو نجات سے نوازا تو ان کے اپنے ہاتھ کی بنائی ہوئی کشتی ہی کے ذریعے۔ آسمان سے ان کے لیے کچھ نہ برسایا۔ وہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور آپؐ کے دشمنوں کو کسی آسمانی یا ارضی آفت کے ذریعے سے ہلاک کر دینے پر بھی قادر تھا، لیکن اس کے بجائے اس نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ابتلاؤں اور آزمایشوں سے گزار کر فتح ونصرت سے نوازا۔ یہاں تک کہ ابتدا میں طاغوتی قوتوں کے مقابلے میں جہاد کر کے اپنابچاؤ کرنے کی بھی اجازت نہ دی اور تاکید کر دی:

  • كُفُّوْٓا اَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ (النساء ۴:۷۷) اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو۔

تا آنکہ آپ کا کانٹوں بھری راہوں کا پر عزیمت سفر ختم ہوا ۔ کفار کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت مل گئی اور اللہ کا ارشاد ہوا:

  •  وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۝۳۹ۙ (الحج ۲۲:۳۹) اور اللہ یقیناًان کی مدد پر قادر ہے۔

اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا امر صادر کرنے تک اپنے نبیؐ اور مومنین کو صبر وتحمل کی روش پر قائم رہنے کا حکم دیا:

  • فَاصْبِرْ كَـمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ۝۰ۭ (احقاف۴۶: ۳۵)پس اے نبیؐ، صبر کرو جس طرح اولو العزم رسولوں نے صبر کیا ہے، اور ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو۔
  •  فَاصْبِرْ  اِنَّ  وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِيْنَ لَا يُوْقِنُوْنَ۝۶۰ۧ (الروم۳۰: ۶۰) پس (اے نبیؐ) صبر کرو، یقیناًاللہ کا وعدہ سچا ہے، اور ہرگز ہلکا نہ پائیں تم کو وہ لوگ جو یقین نہیں لاتے۔
  •  وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ اِلَّا بِاللہِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْہِمْ وَلَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ۝۱۲۷ (النحل۱۶: ۱۲۷)اے نبیؐ، صبر سے کام کیے جاؤ اور تمھارا یہ صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ ان لوگوں کی حرکات پر رنج نہ کرو اور نہ ان کی چال بازیوں پر دل تنگ ہو۔
  • يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا ۝۰ۣ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۲۰۰ۧ (اٰل عمرٰن ۳:۲۰۰) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلے میں پامردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمربستہ رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو، اُمید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔

عجلت کاری کے نتیجے میں تحریک اسلامی مکمل تیاری سے قبل ہی سخت معرکوں میں کود پڑی۔ ایسی مشکلات کو بھی اس نے قبل از وقت دعوت دے دی جو اس کی طاقت سے کہیں بڑھ کر تھیں۔ بیک وقت مشرق ومغرب سے ٹکرا گئی اور اپنے آپ کو ایسی مشکل راہوں پر ڈال لیا جن سے ہٹنا اب اس کے بس میں نہیں رہا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جملہ معاملات میں ہماری قدرت وطاقت کے بقدر ہی مکلف بنایا ہے۔ ہمارے لیے ہرگز یہ روا اور درست نہیں کہ اپنے آپ کو ان امور میں بھی مکلف ٹھیرا لیں جن کی سردست ہمارے پاس طاقت نہیں ہے اور فتنوں میں اپنے آپ کو بغیر تیاری کے مبتلا کر دیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن ۶۴:۱۶)’’ اور اللہ سے ڈرتے رہو جہاں تک تمھارے لیے ممکن ہو‘‘۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے: ’’جب تمھیں کسی بات کا حکم دیا جائے تو اپنی استطاعت کے مطابق اسے پورا کرو‘‘۔ پھر فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی برائی دیکھے تو قوتِ بازو سے اسے مٹائے۔ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اس کے خلاف کلمۂ حق بلند کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اسے برا سمجھے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے‘‘۔

تغیر وانقلاب کی کوششوں کے طاقت وقدرت کی نسبت سے درجے مقرر کر دیے گئے ہیں، چنانچہ مسلمان کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کام میں اپنے آپ کو لگائے جس کی ہمت وطاقت رکھتا ہو اور اس کام کو چھوڑ دے جو اس کی طاقت سے باہر ہو۔

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عجلت کی روش کو سخت ناپسند کیا ہے، کیونکہ نتائج کے اعتبار سے یہ بہت بُری روش ہے۔ قرآن پاک میں ایسے اشارے موجود ہیں، جو عجلت پسندی اور بے صبری کے بُرے انجام پر خبردار کرتے ہیں:

وَمَآ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يٰمُــوْسٰى۝۸۳ قَالَ ہُمْ اُولَاۗءِ عَلٰٓي اَثَرِيْ وَعَجِلْتُ اِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضٰى۝۸۴ قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْۢ بَعْدِكَ وَاَضَلَّـہُمُ السَّامِرِيُّ۝۸۵ (طٰہٰ ۲۰:۸۳-۸۵) اور کیا چیز تمھیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی موسٰی؟ اس نے عرض کیا ’’وہ بس میرے پیچھے آ ہی رہے ہیں۔ میں جلدی کر کے تیرے حضور آ گیا ہوں، اے میرے ربّ، تاکہ تو مجھ سے خوش ہو جائے‘‘۔ فرمایا: اچھا،’’ تو سنو، ہم نے تمھارے پیچھے تمھاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا اور سامری نے انھیں گمراہ کر ڈالا‘‘۔

جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کی طرف پلٹے تو وہ قوم کے گمراہ ہونے کی وجہ سے غضب اور تاسف میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنے بھائی کی داڑھی کے بال پکڑ کر غصے سے کہا:

قَالَ يٰہٰرُوْنُ مَا مَنَعَكَ اِذْ رَاَيْتَہُمْ ضَلُّوْٓا۝۹۲ۙ اَلَّا تَتَّبِعَنِ۝۰ۭ اَفَعَصَيْتَ اَمْرِيْ۝۹۳  قَالَ يَبْنَـؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ وَلَا بِرَاْسِيْ۝۰ۚ اِنِّىْ خَشِيْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِيْ۝۹۴ (طٰہٰ۲۰: ۹۲-۹۳)بولا ’’ہارونؑ، تم نے جب دیکھا تھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں تو کس چیز نے تمھارا ہاتھ پکڑا تھا کہ میرے طریقے پر عمل نہ کرو؟ کیا تم نے میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟‘‘ ہارونؑ نے جواب دیا: ’’اے میری ماں کے بیٹے، میری داڑھی نہ پکڑ، نہ میرے سر کے بال کھینچ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ تو آکر کہے گا تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا پاس نہ کیا‘‘۔

بنی اسرائیل میں شرک کے جرم کے پھوٹ پڑنے پر، ہارون علیہ السلام نے صبر وتحمل کا شیوہ اختیار کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بھائی موسٰی کے آنے تک بنی اسرائیل باہمی پھوٹ اور خلفشار سے بچے رہیں۔ موسٰی کے آنے پر ان کے مشورے سے نئی صورت حال کا کوئی حل سوچا جائے گا۔

حدیث نبویؐ میں آیا ہے: ’’صبر وتحمل کی روش کی نسبت اللہ سے ہے،جب کہ عجلت اور اوچھا پن شیطانی خصلتوں میں سے ہے‘‘۔ ایک اور ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’اس بندے کی دعا قبول ہوتی ہے جو جلدی نہ کرے اور کہے کہ میں نے دعا تو کی تھی، ابھی قبول نہیں ہوئی‘‘۔

میری شدید خواہش ہے اور میں نے بارہا اس کا اظہار بھی کیا کہ تحریک اسلامی کو جہدوکاوش کا جتنا موقع ملتا ہے، اسے غنیمت جانتے ہوئے اپنی قوتوں کو مجتمع کرے۔ کسی فریب کا شکار ہو کر محاذآرائی میں نہ اُلجھ جائے۔ نہ تو اپنے اندر کے ناپختہ اور جلد باز عناصر اسے تصادم کی راہ پر ڈال سکیں اور نہ باہر کے مکار اور سازشی گروہ اسے تصادم کے میدان میں کھینچ کر لا سکیں۔

یہ ایک مخصوص عرصے تک حکمت سے اور اچھی اور بھلی زبان میں اسلامی دعوت کو پھیلانے میں سرگرمی دکھائے۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اور اسی کی خدمت کے لیے بلند ہمت نسلوں کی تعمیر وتربیت کا کام کرے۔ نئی نسلوں کو ذہنی، روحانی، جسمانی اور اجتماعی تربیت کے زیور سے آراستہ کرے۔ معاشرے کے اندر جذب ہو کر اس کے مسائل کے حل میں مدد دے، عوام کی مشکلات دُور کرنے میں سعی دکھائے اور معاشرے کی غلط سمت درست کرنے اور لوگوں کی ضروریات کی تکمیل میں کوشاں رہے۔ اپنی قوت اور زور بازو کے مظاہرے کی سوچ کچھ عرصہ ترک رکھے، حکومتوں سے کھلی ٹکر لینے کی پالیسی سے باز رہے۔ اس طرح کا طرزِ عمل اپنانے سے ایک پُرامن انقلاب پورے معاشرے میں برپا ہو سکتا ہے۔ یہ فکر ونظر اور نفس واخلاق کا انقلاب ہوگا، جس کے لیے کسی اسلحے کے استعمال یا اعلان کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی۔

اگرچہ یہ امکان موجود ہے اور اس طرح کے خدشات کا اظہار بھی ہوتا ہے کہ اسلام سے بیزار اور خائف طائفے اور ان کے حامی گروہ تحریک اسلامی کے رسوخ، نشوونما اور اس کے اثرات کے پھیلاؤ کو گوارا نہیں کرتے، اس کے اتحاد کو پارہ پارہ اور اس کی منزل کو کھوٹا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ اس کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لیے سازشوں کا جال پھیلا دیتے ہیں۔ تحریک کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسے اقدامات کو نظر انداز نہ کرے، جو تحریک کو براہ راست مقابلے پر لانے کی سازش کے تحت کیے جاتے ہیں۔ اہل تحریک کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرتے رہیں۔ جب کوئی آزمائش آہی پڑے تو صبر واستقامت سے اس کا مقابلہ کریں۔

(ج) مبالغہ

جب جذبات غالب آجاتے ہیں تو ایک تیسری آفت اندر سے رونما ہوتی ہے۔ وہ ہے مبالغے کا حد سے بڑھ کر معاملات ومکالمات میں شامل ہو جانا۔ اس آفت میں تو صرف تحریک اسلامی نہیں، پوری امت ہی گرفتار ہے۔ ظاہری معاملات میں ہم دو انتہاؤں میں سے کسی ایک پر کھڑے ہوتے ہیں، جس میں تفریط (waste)کا شکار ہوتے ہیں یا پھر افراط (excess) کا،جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی جس صفت سے مدح فرمائی ہے، وہ تو ’الوسط‘ یعنی میانہ روی ہے:

وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (البقرہ ۲:۱۴۳) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے۔

یہ خوبی تحریک اسلامی سے رخصت ہوتی نظر آتی ہے۔ تحریک کی صفوں میں بھی مبالغہ اور حد سے بڑھی ہوئی نمائش، فہمائش اور تعریف ومذمت کا رجحان تقویت پکڑ رہا ہے۔ اپنی تعریف آپ کی جاتی ہے اور خرابیوں کا مجسمہ اپنے مخالفین کو بتایا جاتا ہے۔ ’فراواں مبالغے‘ کے صیغوں میں ہی بات ہوتی ہے۔ زبان وقلم سے ’عظیم ترین‘، ’مضبوط ترین‘، ’اعلیٰ ترین‘، ’بے مثال‘ اور مقابلے میں ’گھٹیا ترین‘، ’بدترین‘، اور ’کمزور ترین‘ جیسی صفات کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم خود پسندی میں حد سے زیادہ فراخ دل ثابت ہو رہے ہیں اور دوسروں کی عیب نمائی میں بھی آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کسی معقول آدمی کو اس سے اختلاف نہیں کہ اپنی تہذیب پر فخر کیا جائے۔

جو قوم سورج کی شعاعوں تلے فروغ وترقی چاہتی ہے، اس میں اپنی ہر چیز سے پسندیدگی فطری امر ہے۔ خاص طور پر جب تہذیبی اور ثقافتی یلغار اور معرکے بپا ہوں، ایک تہذیب دوسری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہو، تو ایسی حالت میں اجتماعی خود پسندی روا ہے۔ لیکن یہاں پر یہ خطرہ بہرحال موجود ہے کہ غرور اور خود پسندی عقل ونظر سے محروم ہو، اس میں اندھا پن پیدا ہو جائے۔ فخر وتکبر ان مہلک ترین بیماریوں میں سے ہیں، جو کسی فرد یا قوم کا مقدر ہو جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کریم یہ اشارہ دیتا ہے:

وَّيَوْمَ حُنَيْنٍ۝۰ۙ اِذْ اَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْــــًٔـا (التوبہ۹: ۲۵) ابھی غزوۂ حنین کے روز تمھیں اپنی کثرتِ تعداد کا غرّہ تھا۔ مگر وہ تمھار ے کچھ کام نہ آئی۔

حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: ’’دو چیزوں میں ہلاکت ہے، غرور اور قنوطیت‘‘۔

ہم غیروں ___خاص طور پر مغربی تہذیب___ کی خرابیاں کثرت سے گنواتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مغربی تہذیب اپنے اندر بعض ایسے فتنے رکھتی ہے، جنھیں اس تہذیب کی اساس کی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں ہزار آفتیں پوشیدہ ہیں، جنھیں اب اس کے مزاج سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ مادیت، نفع اندوزی اور استحصال جیسے اجزا اس کے خمیر میں داخل ہیں۔ لیکن بہ نگاہِ انصاف دیکھا جائے تو یہ تہذیب بعض ایسے نکات بھی رکھتی ہے، جو اس کی قوت کے منابع (springs) ہیں۔ قوت کے ان سرچشموں کا علم واعتراف ہمیں اس لیے بھی ہونا چاہیے کہ یہ عدل کا تقاضا ہے اور اس لیے بھی کہ مخالف کی طاقت کے حقیقی راز کا فہم، معقولیت واحتیاط کے لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اس تہذیب کے قیام میں جہاں ایک بڑا اہم کردار علم وتجربے نے فراہم کیا ہے، وہاں اداروں اور تنظیموں کو محکم بنیادیں بھی فراہم کی ہیں۔ تعاون کی فضا ہے اور جماعتی عمل کو ایک پائیداری وتسلسل حاصل ہے۔ اجتماعی اخلاق کے کچھ اصول موجود ہیں۔ انسان، اس کی جملہ نوع کی آزادی اور ہر طرح کے حقوق کا احترام پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک کے اندر اپنی تہذیب کے شہریوں کے لیے حقوق کی فراہمی کا بھرپور اہتمام ہے۔ ان کے معاملات اصول مشاورت کے مطابق طے ہوتے ہیں۔ حکام کے ظلم اور نا انصافی کے مقابلے میں حقوق کی حفاظت کے لیے مؤثر ادارے موجود ہیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے اسلاف کے آثار میں سے ایسی مثالوں کا ذکر کروں، جن میں دشمنوں کے لیے بھی انصاف اور ان کی بڑائی اور خوبی کا اعتراف ہے۔ یہ انصاف اور اعتراف ان حالات میں بھی برقرار رہا، جب مخالف میدان جنگ میں مقابلے پر اترا ہوتا تھا۔ یہ چیز میں کسی ادبی کتاب کے افسانے یا تاریخ کے واقعات سے ڈھونڈ کر پیش نہیں کر رہا ہوں، بلکہ یہ ایک حدیث ہے جسے امام احمدؒ نے اپنی مسند میں اور امام مسلمؒ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ الفاظ مسلم کے ہیں:

موسیٰ بن علی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عمرو بن العاصؓ کے سامنے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’قیامت برپا ہوگی تو رومیوں (عیسائیوں) کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی‘‘۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے کہا: ’’ذرا غور کرو تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ اس شخص نے کہا: ’’میں تو وہی کچھ کہہ رہا ہوں، جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘‘۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے فرمایا: ’’اگر یہ بات ہے تو پھر ضرور ان میں چار خصائل ہوں گے: ۱- آزمائش کے وقت وہ سب سے زیادہ حلم وبردباری کا مظاہرہ کرتے ہوں گے، ۲- مصیبت سے گزرنے کے بعد بہت جلدی سنبھلنے کی صلاحیت کے مالک ہوں گے، ۳- مسکینوں، یتیموں اور ضعیفوں کے ساتھ بھلائی کرنے والے ہوں گے، اور ۴-حاکموں کے ظلم سے بچانے والے ہوں گے‘‘۔

ممکن ہے کسی کے لیے یہ بات تعجب و حیرانی کا باعث ہو کہ اہل روم کی خوبیوں کی یہ گواہی مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی قیادت سنبھالنے والی ہستی حضرت عمرو بن العاصؓ دے رہی ہے، جس نے مصر، فلسطین اور دیگر کئی مقامات پر رومیوں کے خلاف زبردست معرکے سر کیے، لیکن اس میں تعجب کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ اسلام نے ہمارے بزرگوں کو انصاف پر قائم رہنے، اللہ کے لیے سچ کی گواہی دینے کی تعلیم دی تھی، خواہ اس کی زد خود ان کے اپنے اوپر پڑتی تھی اور کسی قوم سے ان کی دشمنی انھیں عدل سے نہیں روکتی تھی۔

دورِ حاضر کی تحریک اسلامی کے بیش تر تجزیہ کار یہ چیز دیکھتے ہیں کہ کس طرح اپنی قوت کا مبالغہ آمیز تصور پیش کریں، اور دوسری طرف مخالفین کی مفروضہ کمزوری کے بارے میں بھی حددرجہ مبالغہ آمیزی کا شکار رہیں۔ متعلقین تحریک جب اپنی مدح وتعریف کرتے ہیں تو خواہ وہ اپنے عزائم اور کارگزاری کی ہو یا قائدین کی، تعریف میں حد سے بڑھ جاتے ہیں ۔ اور جب مذمت ونفرت کرنے کھڑے ہوتے ہیں، تب بھی آخری انتہا پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے پیش نظر کبھی اس طرح کے قول نہیں رہے کہ ’’جب اپنی پسندیدہ اور ممدوح شخصیت سے محبت کرو تو حد سے آگے نہ بڑھو، ہوسکتا ہے وہی شخصیت کسی روز تمھارے لیے سب سے ناپسندیدہ بن جائے۔ اور جب کسی کے خلاف غضب اور غصے کا اظہار کرو تو اس میں بھی اعتدال برتو۔ بعید نہیں کہ آج کی وہی مغضوب شخصیت کل تمھاری محبوب ہستی قرار پائے‘‘۔

قرآن حکیم نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ کسی سے محبت یا نفرت کے معاملے میں ہمیں عدل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ محبت ولگاؤ خواہ اپنی ذات کے ساتھ ہو یا اپنی جماعت کے ساتھ، اور نفرت اپنے دشمنوں کے ساتھ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

  • يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَاۗءَ لِلہِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۝۰ۚ (النساء۴: ۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو، اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔
  • يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ لِلہِ شُہَدَاۗءَ بِالْقِسْطِ۝۰ۡوَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا۝۰ۭ اِعْدِلُوْا۝۰ۣ ہُوَاَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى۝۰ۡوَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ (المائدہ ۵:۸) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو۔

تجدید و اجتہاد سے گریز

یہ نکتہ بھی تحریک اسلامی کی کمزوریوں میں سے ایک ہے کہ ’اجتہاد‘ سے گریزپا نظر آتی ہے۔ حالات اور وقت کی مناسبت سے دین کے دائرے کے اندر تجدیدی عمل سے جھجک محسوس کرتی ہے اور عمل وفکر کے اعتبار سے جدید انقلابی راہیں اختیار کرنے پر بہت زیادہ اندیشوں میں گھری دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ فقہی معاملات میں کسی قدر اجتہاد کی قائل ہوتے ہوئے بھی یہ تحریک فکر، حرکت اور عمل میں تقلیدی رجحان ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ ہر قدم کوجوں کا توں قائم (status quo) رکھنے پر اصرار کرتی ہے۔ اس نے بعض روایات اور فیصلوں کو گلے سے لگا رکھا ہے، خواہ یہ روایات اور فیصلے اس کی دعوت کے فروغ اور وسعت کی راہ میں ایسا پتھر ثابت ہوں، جن سے مسلسل ٹھوکر لگ رہی ہو، نیز ان کے باعث تحریک کی صفوں میں تھکن، تساہل اور بے دلی کی کیفیات ہی کیوں نہ جنم لے رہی ہوں۔ مگر حیرت ہے کہ ان تمام منفی نتائج سے بے نیاز یہ چلی جا رہی ہے۔

تحریک نے فکر وعمل کے میدان میں ’مقبول‘ اور ’باکمال‘ کی کچھ ایسی حدود قائم کر رکھی ہیں، جو حریتِ فکر اور تجدید ِعمل اور جادۂ نو کے راستے میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اس نے بعض مفکرین کے ساتھ ایسی سخت وابستگیاں استوار کر دی ہیں، جن کے باعث علم وتفکر کے سرچشمے، پتھر کے قالب سے پھوٹنے والے چھوٹے چھوٹے جھرنوں ہی کا رُوپ دھار کر رہ جائیں گے، جس کے نتیجے میں ذہنی اور فکری گھٹن اور نظر کی تنگی پروان چڑھتی رہے گی، اور شاید نوبت یہاں تک پہنچ جائے کہ کسی دوسرے کی کتابیں پڑھنے اور دوسروں کے حلقوں کی بات سننے اور غور کرنے پر ہی پابندیاں عائد ہو جائیں۔ 

خبردار رہنا چاہیے کہ گھٹن کے ماحول میں تعلق وعقیدت کے سوتے خشک ہونے لگتے ہیں، اور زندگی بخشنے والی دل چسپیاں کم ہو جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں حرکت وعمل کی روح سے سرشار افراد آہستہ آہستہ کھسکنے لگیں گے، جیسے انگلیوں کے درمیان سے خشک ریت سرک جاتی ہے۔ اپنے ہدف سے انکار نہ کرنے اور نصب العین کی لگن موجود ہوتے ہوئے بھی عقلیں جامد ہو کر رہ جائیں گی۔ ان دو متوازی بلکہ مخالف رجحانات کے آگے بڑھنے پر تحریک ان کھسک جانے والوں کی علیحدگی پر خود خوشی،اطمینان اور سکون محسوس کرے گی، کیونکہ ساکن کو متحرک کرنے کی ’گستاخی‘ کرنے والے اور تبدیلی وانقلاب کے پرچم اُٹھانے والے یہ عناصر تحریک کی صفوں میں ’ناپسندیدہ عناصر‘ قرار پائیں گے۔

میں نے بعض اسلامی جماعتیں دیکھی ہیں، جو اپنے پیروکاروں پر مخصوص قسم کی تعلیمات اور محدود قسم کا ثقافتی رنگ اختیار کرنے کی پابندی لگا دیتی ہیں۔ یہ بے چارے جماعتوں کی قیادت کی پڑھائی ہوئی پٹی کو اس طرح دُہراتے ہیں، جیسے کوئی مقدس صحیفہ پڑھا جاتا ہے۔ مقرر کردہ وظائف کو بار بار دُہرایا اور پھیلایا جاتا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ پڑھائی ہوئی اس پٹی اور رٹائے ہوئے چنددرچند وظیفوں کے بارے میں اپنی سوچ کو کام میں لائے یا ان پر تبادلۂ خیال کے لیے زبان کھولے۔ ان کے ہاں اختیار کی گنجایش تو ہے، مگر امتیاز وتمیز برتنے کی نہیں۔ ان کے قائد کا ہرفرمودہ، ہر موقف صحیح ترین کا درجہ رکھتا ہے، جس میں خطا کا خفیف سا بھی امکان نہیں بلکہ ایسا حق ہے جس میں باطل کا شائبہ تک نہیں ہو سکتا۔

تحریک اسلامی میں صوفیا کے طریق تربیت سے نظریاتی اختلاف وبراءت کا نقطۂ نظر غالب ہے۔ اس کے باوجود مطلق سمع اور اندھی تقلید وطاعت کے اسی تصور کو اختیار کیا جا تا ہے، جو صوفیہ سے خاص ہے۔ جس میں یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ جس نے اپنے ’شیخ‘ [مرشد]سے ’کیوں‘ کا سوال کر دیا، وہ کبھی نجات نہیں پائے گا۔ ’مرید‘ اپنے ’مرشد‘ کے ہاتھ میں ایسا ہی ہے، جیسے مردہ، غسال کے ہاتھ میں۔ ہم صوفیہ کو اپنے مریدوں کی تربیت اس نہج پر کرتے دیکھتے ہیں کہ ’شیخ‘ کے کہے ہوئے سے ہٹنا محال ہے، اور ’کیوں‘ کا سوال ناقابلِ قبول بغاوت ہے۔ صوفیہ کے حلقوں میں اس نہج پر تربیت سے مریدوں کی فوج میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، لیکن اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ علما ومفکرین کی بھی اسی طرح روایتی تقلید ہونے لگتی ہے۔ اس محدود فکر سے نکلنا محال ہو جاتا ہے، جس سے فکر اور اس کی تعبیر میں کھینچی ہوئی لکیروں سے باہر نکلا نہیں جاسکتا۔ اگر کوئی ایسا کر گزرے تو اسے مخالفت کے شدید حملوں کا نشانہ بننا پڑتاہے۔

آپ کو تعجب ہوگا کہ دعوت اسلامی کے ایک عظیم قائد ڈاکٹر مصطفےٰ السباعیؒ [م: ۳؍اکتوبر ۱۹۶۴ء] کو بھی ایک مرتبہ ایسی ہی شدید صورت حال سے دوچار ہونا پڑا تھا، کیونکہ انھوں نے اپنے زمانے میں ابلاغ کے لیے اجتہاد کرتے ہوئے اسلامی نظام عدل کو ’الاشتراکیۃ الاسلامیۃ‘ کا نام دے دیا تھا۔ عمومی فضا میں بہت سے لوگوں کو لفظ اشتراکیت میں کشش محسوس ہوتی تھی اور بہت سارے اس لفظ سے بوجوہ الرجک تھے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اسلام تو اپنے اندر سرمایہ داری کا رنگ رکھتا ہے۔استاذ السباعی نے اس غلط فہمی کے ازالے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی۔

اسی طرح ایک اور مسلمان مصنف نے ایک رسالے کے پہلے شمارے کے لیے فرمائشی مضمون لکھا، جس میں اس نے ’بائیں بازو کے مسلمانوں‘ کی اصطلاح استعمال کر دی۔ ایسا اس نے اس رجحان کے رد میں کیا تھا کہ لوگ عام طور پر دعوت اسلامی کو ’دائیں بازو‘ کی صف میں گنتے ہیں اور اس کا تعلق سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی افکار کی نیازمندی سے قائم کرتے ہیں۔ چنانچہ ہوا یہ کہ اس صاحب ِقلم کی تحریر پر شدید رد عمل ظاہر کیا گیا۔

میں ذاتی طور پر نہ ’دائیں بازو‘ کی اصطلاح سے اتفاق کرتا ہوں اور نہ ’بائیں بازو‘ کی اصطلاح سے۔ لیکن میراموقف یہ ہے کہ اہل فکر ونظر اور صاحبان علم سے ’اجتہاد‘ کا حق نہ چھینا جائے۔ محض اختلاف رائے کے نتیجے میں انھیں اتہامات اور بُرے بھلے کلمات کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ آج ان کی رائے مسترد کر دی جائے، لیکن آنے والے دور میں وہی رائے مقبول   قرار پائے۔ میرے خیال میں مجتہد، اللہ تعالیٰ کے ہاں مستحقِ اجر ہوتا ہے، خواہ اس کی اجتہادی رائے صحیح ہو یا غلط۔ تاہم اس کے لیے خلوص نیت اور علم و فضل شرط ہے۔

ایک رسالے نے ایک بڑے مسلم مصنف سے کچھ مقالات لکھنے کی درخواست کی۔ انھوں نے ایک مقالہ لکھ کر بھیجا، جس میں یہ رائے درج تھی کہ ’’اسلامی نظام کے تحت ایک سے زیادہ اسلامی جماعتوں کا قیام جائز ہے‘‘۔ مگر مذکورہ ادارے کی رائے اس سے مختلف تھی، چنانچہ ان کا وہ مقالہ شائع نہ ہو سکا، کیونکہ وہ لا حزبیۃ فی الاسلام والے روایتی فلسفے کے علی الرغم رائے کا حامل تھا۔

دعوتی عمل سے منسلک ایک بزرگ کو ایک مرتبہ دعوت کے لیے پانچ سالہ خاکہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انھوں نے اس کی تیاری میں یہ اہتمام کیا کہ مختلف اطراف سے تبادلۂ خیال کیا۔ دعوت اسلامی سے خائف مخالف دھڑوں سے، مغرب کے اہل فکر مستشرقین سے، اہل کتاب کے مذہبی رہنماؤں سے، سیاسی مدبروں اور سفیروں وغیرہ سے مختلف مواقع پر تبادلۂ خیال کر کے کام کا نقشہ وضع کیا۔ اس تبادلۂ خیال سے ان کی غایت اسلام کے بارے میں مخالفین و معاندین کی اس پرانی سوچ کو بدلنا تھا کہ مسلمان کوئی وحشی انسانوں کا غول ہیں اور تحریک اسلامی دہشت گردی اور تشدد کی علامت ہے۔ وہ سوچتے تھے کہ دوسرے آسمانی ادیان کے ساتھ پُرامن طور پر زندگی گزارنے کے لیے مفاہمت کی فضا پیدا کرنا ضروری ہے، تاکہ مسلمان اپنے اپنے وطن میں اپنی شریعت اور عقیدے کے مطابق خود مختارانہ انداز میں رہیں، بسیں اور مختلف مذاہب کے لوگ ایک دوسرے کے معاملات میں مزاحم نہ ہوں۔ لیکن ہوا یہ کہ بزرگ کی جملہ آراء وتجاویز کو نہ صرف رد کردیا گیا، بلکہ بڑے پیمانے پر تضحیک وتمسخر کا نشانہ بنایا گیا اور کہنے والے نے کہا کہ ’’یہ علّامہ صاحب بڑے ’ترقی پسند‘ بن گئے ہیں‘‘۔

موجودہ فضا میں دین دار عوام کی سخت رائے اور سنگین لب ولہجہ کچھ عمومی حیثیت اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے، جس کا فائدہ مخالفین بڑی آسانی سے اُٹھا رہے ہیں۔ اس منفی پہلو کے باوجود دینی حلقوں میں سمجھا جاتا ہے کہ’’ سخت موقف ہی کے ذریعے سے اس منڈی میں سودے طے پاتے ہیں۔ سختی، تیزی، تندی کو قبولیت عامہ حاصل ہو تی ہے‘‘۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ امت میں بگاڑ اور انحراف، علم کی مسندوں کا تنخواہ داری میں چلے جانے اور عالموں کے مقتدر لوگوں اور طبقوں کے اتباع کے باعث پیدا ہوا ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ عوامی خواہشات کا اتباع، اور دبائو میں آنے اور حاکموں یا مقتدر طبقوں کی مرضی کا پابند ہونے سے بھی خطرناک نتائج قسمت میں لکھے جاتے ہیں۔ حاکموں کی پیروی واطاعت کرنے والے کبھی بے نقاب ہو کر رد کر دیے جاتے ہیں، جب کہ عوام کی خواہشات میں تنکے بن کر چلنے والے وہ باطل ہوتے ہیں، جو رائے عامہ کے بہائو میں حسرت اور ماضی میں دفن ہوکر رہ جاتے ہیں۔

بیسیویں صدی کے وسط میں ایسی فکر غالب رہی۔ ان حالات کا نتیجہ تجزیہ نگاروں سے مخفی نہیں ہے۔ دعوت اور معاشرے میں ایک دیوار کھڑی ہو گئی۔ جاہلیت مطلقہ نے اسی تشدد کو جواز بناکر اسے نیچا دکھانے میں اپنا پورا زور صرف کیا۔ اس عرصے میں اسی پُرتشدد اور سخت رجحان کے تحت کفر کے فتوے جاری کرنے میں بڑی فراخ دلی کا ثبوت سامنے آیا۔ مسلم عوام کو لا الٰہ الا اللہ کا مطلب نہ جاننے اور حاکمیت الٰہ کا تصور نہ رکھنے کے باعث کافر ٹھیرایا گیا۔ وقت کے اہم مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے فقہی اجتہاد پر پابندی رہی، اسلامی فقہ کی تجدید کے تصور کا مذاق اڑایا گیا۔ کہا گیا کہ پہلے عقیدے کو قبول کیا جائے، اسلامی نظامِ زندگی کا نقشہ بنانے کی بات بعد میں ہوگی۔ اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی نظام اسلامی کے حقائق پیش کرنا ثانوی امر ہے۔

عصرِحاضر میں تحریک اسلامی کے ضعف کے یہ چند نکات تھے، جو میں نے اللہ کی پکڑ کے احساس کے تحت پیش کیے ہیں۔ مقصد صرف اصلاح وتعمیر ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ تحریک کے بعض متعلقین اس تنقیدی جائزے پر سخت چیں بہ جبیں ہوں گے۔ اسی طرح تحریک کے مخالفین بھی اسے غنیمت سمجھ کر اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے، بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے اور تحریک اسلامی اور اس کے مقاصد کے ہی نہیں، خود اسلام کے بارے میں بھی غلط فہمیوں کا غبار اٹھانے کی سعی کریں گے۔ دشمن کو قائل کرنا کچھ آسان نہیں، مگر اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی سمت چلنا تو ممکن ہے! (مکمل)