یہ بات ناقابلِ انکار ہے کہ ایک عورت کا شوہر اگر دوسری بیوی لے آئے تو اس عورت کو فطرتاً یہ ناگوار ہوتا ہے اور اس کے ماں باپ، بھائی بہن اور دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس سے اذیت ہوتی ہے۔
شریعت نے ایک سے زیادہ نکاحوں کی اجازت اس مفروضے پر نہیں دی ہے کہ یہ چیز اس عورت کو اور اس کے رشتے داروں کو ناگوار نہیں ہوتی جس پر سوکن آئے، بلکہ اس امرِواقعہ کو جانتے ہوئے شریعت نے اسے اس لیے حلال کیا ہے کہ دوسری اہم تر اجتماعی اور معاشرتی مصلحتیں اس کو جائز کرنے کی متقاضی ہیں۔
شریعت یہ بھی جانتی ہے کہ سوکنیں بہرحال سہیلیاں اور شوہر شریک بہنیں بن کر نہیں رہ سکتیں۔ ان کے درمیان کچھ نہ کچھ کش مکش اور چپقلش ضرور ہوگی اور خانگی زندگی تلخیوں سے محفوظ نہ رہ سکے گی۔ لیکن یہ انفرادی قباحتیں اُس عظیم تر اجتماعی قباحت سے کم تر ہیں ، جو یک زوجی کوبطورِ قانون لازم کردینے سے پورے معاشرے میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شریعت نے تعدّد اَزواج کو حلال قرار دیا ہے۔(’مسئلہ تعدّد اَزواج‘، سیّد ابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، ج۶۰، عدد۴، جولائی ۱۹۶۳ء، ص۴۳)