دنیا کے سبھی آسمانی مذاہب نے انسان کو اللہ کی عبادت کرنے، اس کا ذکر کرنے، اس کے حضور نذر ونیاز پیش کرنے اور اس کے نام پر جانور قربان کرنے کی تعلیم دی ہے۔ قرآن پاک میں کہا گیا ہے:
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۰ۭ فَاِلٰـہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا۰ۭ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِيْنَ۳۴ۙ (الحج۲۲:۳۴)ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک طریقہ مقرر کیا، تاکہ لوگ ان جانوروں پر جو اللہ نے ان کو بخشے ہیں اللہ کا نام لیں۔ پس تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے، اسی کی فرماںبرداری کرو اور خوش خبری دو عاجزی اختیار کرنے والوں کو۔
قرآن کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے سارے مذاہب میں قربانی کی روایت پائی جاتی ہے۔ مگر بعض مذہبی گروہ آج بھی ایسے موجود ہیں جو کسی جان دار کے قتل کو جائز نہیں سمجھتے، اس لیے ان کے یہاں قربانی رسمِ عبودیت کا حصہ نہیں ہے۔ ایسے مذاہب کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ انسانی مذاہب ہیں، آسمانی نہیں۔ مذاہب عالم میں سامی مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں قربانی کی روایت بہت مستحکم ہے اور اس کے احکام کی تفصیلات بھی موجود ہیں۔ان کا موازنہ کرنے سے انسانوں کی مذہبی تاریخ کے بہت سے حقائق آشکارا ہوتے ہیں اور عہد بہ عہد قربانی کے ارتقاکے مراحل سے پردہ اُٹھتا ہے۔
قرآن کریم میں بھی قابیل اور ہابیل کی قربانی کا واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ’’اور ان لوگوں کو آدم کے دو بیٹوں کا حال سنادو، جب ان دونوں نے قربانی پیش کی۔ ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی۔ اس نے کہا میں تجھ کو قتل کردوں گا۔ جواب میں دوسرے نے کہا کہ اللہ تو صرف پرہیزگاروں کی قربانی قبول کرتاہے۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا۔ میں تو اپنے اللہ پروردگار عالم کا خوف رکھتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے گناہ کو سمیٹے اور جہنم والوں میں شامل ہوجائے اور یہی ظالموں کا بدلہ ہے‘‘۔(المائدہ۵: ۲۷-۲۹)
بائبل اور قرآن کے بیانات کا موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل میں خدا اور قابیل کے درمیان جو گفتگو ہوئی ہے، اس کی تفصیل ملتی ہے، لیکن ہابیل اور قابیل کی باہمی گفتگو کی تفصیل نہیں ہے۔ جب کہ قرآن پاک میں دونوں بھائیوں یعنی قاتل ومقتول کی باہمی گفتگو کو بھی نقل کیا گیا ہے تاکہ ظالم کی ذہنیت اور نیت کو ظاہر کیا جائے اور مقتول بھائی کی سادگی، سچائی اور خداترسی پر روشنی ڈالی جائے۔ نیز بائبل میں دونوں بھائیوں کے نام کی صراحت ہے، جب کہ قرآن میں نام کی صراحت کے بجائے آدمؑ کے دو بیٹوں کا ذکر کیا گیاہے۔ قرآن میں تاریخ انسانی کے اس پہلے قتل کے اخلاقی اور سماجی نتائج پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
’’ابراہیم نے قربانی کو جلانے کے لیے لکڑیاں اسحاق کے کندھوں پر رکھ دیں اور خود چھری اور آگ جلانے کے لیے انگاروں کا برتن اٹھایا۔ دونوں چل پڑے۔ اسحاق بولا: ابو! ابراہیم نے کہا جی بیٹا۔ ابو، آگ اور لکڑیاں تو ہمارے پاس ہیں لیکن قربانی کے لیے بھیڑیا بکری کہاں ہے؟ ابراہیم نے جواب دیا: اللہ خود قربانی کے لیے جانور مہیا کرے گا بیٹا۔ وہ آگے بڑھ گئے۔ چلتے چلتے وہ اس مقام پر پہنچے جو اللہ نے اس پر ظاہر کیا تھا۔ ابراہیم نے وہاں قربان گاہ بنائی اور اس پر لکڑیاں ترتیب سے رکھ دیں۔ پھر اس نے اسحاق کو باندھ کر لکڑیوں پر رکھ دیا اور چھری پکڑی تاکہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے۔ عین اسی وقت رب کے فرشتے نے آسمان سے آواز دی ابراہیم، ابراہیم! ابراہیم نے کہا جی میں حاضر ہوں۔ فرشتے نے کہا: اپنے بیٹے پر ہاتھ نہ چلا، نہ اس کے ساتھ کچھ کر، اب میں نے جان لیا ہے کہ تو اللہ کا خوف رکھتاہے۔ کیوں کہ تو اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی مجھے دینے کے لیے تیار ہے‘‘۔(عہد نامہ عتیق، کتاب پیدائش، باب۲۲، آیت ۱-۱۳)
حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کا یہ واقعہ قرآن کریم میں بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور وہ حسب ذیل ہے:(ابراہیم ؑ نے دعا کی) ’’اے رب مجھ کو نیک اولاد عطا کر، تو ہم نے اسے ایک بُردبار لڑکے کی بشارت دی۔ جب وہ لڑکا دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچا تو ابراہیم نے کہا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھ کو ذبح کررہا ہوں، اب تُو بتا، تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ بیٹے نے کہا کہ ’’اے باپ! آپ کو جس کام کا حکم دیا گیا ہے اسے کرگزرئیے، ان شا ء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے‘‘۔ پھر جب دونوں نے حکم مان لیا اور بیٹے کو باپ نے پیشانی کے بل پچھاڑدیا تو ہم نے پکارا کہ ’’اے ابراہیم! تونے خواب سچ کر دکھایا، ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘۔ اور اس کے بدلے میں ہم نے بڑی قربانی کا فدیہ دیا اور اس پر آنے والوں کو باقی رکھا۔سلامتی ہو ابراہیم پر۔ اسی طرح ہم احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ بے شک وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہے اور ہم نے اس کو اسحاقؑ کی بشارت دی جو صالحین میں سے نبی ہوگا‘‘۔(الصافات۳۷:۱۰۰-۱۱۲)
بائبل اور قرآن میں مذکور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ میں عمومی مماثلت ہے۔ البتہ تین باتوں میں فرق ہے۔
اوّل یہ کہ بائبل میں مذکور ہے کہ اللہ نے ابراہیمؑ کو اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا، جب کہ قرآن میں ہے کہ خواب میں بیٹے کو قربان کرنے کی بشارت دی۔
دوم یہ کہ بائبل میں صراحت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو اللہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا تو انھوں نے یہ بات اپنے بیٹے پر ظاہر نہیں کی، بلکہ جب ابراہیمؑ نے قربان گاہ پر جلانے کی لکڑیاں اپنے بیٹے اسحاقؑ کے کندھوں پر رکھ دیں تو اسحاقؑ نے پوچھا کہ قربانی کے لیے مینڈھا یا بکری کہاں ہے؟ تب بھی ابراہیمؑ نے اپنا ارادہ ظاہر نہیں کیا، جب کہ قرآن میں وضاحت ہے کہ جب ابراہیمؑ کو خواب میں اپنے بیٹے کو قربان کرنے کی بشارت ملی تو ابراہیمؑ نے پورا خواب اپنے بیٹے کو بتایا اور اس سے قربان ہونے کی رضامندی حاصل کی۔ قرآن کے بیان کردہ واقعہ میں باپ بیٹے دونوں کی فضیلت اور عظمت معلوم ہوتی ہے، جب کہ توریت کے بیان سے صرف حضرت ابراہیمؑ کی عظمت اور تقدس کا اظہار ہوتاہے۔
سوم یہ کہ بائبل میں صراحت ہے کہ اللہ نے ابراہیمؑ کو اکلوتے بیٹے اسحاقؑ کو قربان کرنے کا حکم دیا تھا اور انھوں نے اسحاقؑ کو قربان کرنے کے لیے ہاتھ باندھ کر لکڑی پر لٹادیا تھا، جب کہ قرآن میں ذبح ہونے والے بیٹے اسحقؑ نہیں اسماعیلؑ تھے۔ قرآن کے مطابق پہلے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا خواب دکھایاگیا اور اس کی تعبیر پوری ہونے پر حضرت اسحاقؑ کی پیدائش کی بشارت دی گئی۔ قربانی کے وقت حضرت اسماعیلؑ ہی حضرت ابراہیمؑ کے اکلوتے بیٹے تھے۔
’’میں اسماعیل کے سلسلے میں بھی تیری درخواست پوری کروں گا۔ میںاسے بھی برکت دے کر پھلنے پھولنے دوں گا اور اس کی اولاد بہت ہی زیادہ بڑھا دوںگا۔ وہ بارہ رئیسوں کا باپ ہوگا اور میں اس کی معرفت ایک بڑی قوم بنادوں گا۔ لیکن میرا عہد اسحاقؑ کے ساتھ ہوگا جو عین ایک سال کے بعد سارہ کے یہاں پیدا ہوگا۔
اللہ کی ابراہیم کے ساتھ بات ختم ہوئی اور وہ اس کے پاس سے آسمان پر چلا گیا۔ اسی دن ابراہیم نے اللہ کا حکم پورا کیا۔ اس نے گھر کے ہر ایک مرد کا ختنہ کروایا۔ اپنے بیٹے اسماعیلؑ کا بھی اور ان کا بھی جو اس کے گھر میں رہتے لیکن اس سے رشتہ نہیں رکھتے تھے‘‘۔(توریت، کتاب پیدائش، باب ۱۷ ،آیت۲۰تا ۲۴)
اس سے بھی زیادہ واضح ثبوت یہ ہے کہ توریت میں صاف لفظوں میں بیان کیاگیا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ کے ہاں حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے بیٹا پیدا ہوا تو ابراہیمؑ نے اس کا نام اسماعیلؑ رکھا،اس وقت ابراہیمؑ چھیاسی برس کا تھا۔(توریت، کتاب پیدائش، باب ۱۶، آیت ۱۶)
اسی توریت میں یہ بھی صراحت مذکور ہے کہ:’’جب اسحاق پیدا ہوا، اس وقت ابراہیم سوسال کاتھا‘‘۔(توریت، کتاب پیدائش، باب۲۱، آیت ۵)
توریت کے مذکورہ بیانات بتارہے ہیں کہ پہلے حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش ہوئی اور پھر ۱۴سال بعد حضرت اسحاقؑ کی پیدائش ہوئی۔ اللہ نے جب اکلوتے (بلکہ پہلوٹھا) فرزند کو قربان کرنے کا حکم دیا تو وہ فرزند حضرت اسماعیل تھے نہ کہ حضرت اسحاقؑ۔ اس لیے توریت کے ترجموں میں اکلوتے کے بعد اسحاقؑ کا اضافہ علمائے یہود کی تحریف پر مبنی ہے۔ قرآن اور بائبل کے مفسرومحقق علامہ حمیدالدین فراہیؒ نے لکھا ہے کہ یہودیوں نے حضرت اسماعیلؑ کو ذبیح ہونے کے شرف سے محروم کرنے کے لیے توریت کے بیان میں پانچ قسم کی تحریفات کی ہیں۔ (حمیدالدین فراہی، ذبیح کون ہے؟ ترجمہ: امین احسن اصلاحی، دائرہ حمیدیہ ، سرائے میر، اعظم گڑھ، ص۱۳۰)
مولانا فراہی نے بطور خلاصہ لکھا ہے:’’یہود نے ذبح کے واقعے میں حضرت اسماعیل ؑ کے نام کی جگہ حضرت اسحاق ؑکا نام ڈال دیا۔ حالاںکہ خود توریت سے اس امر کی علانیہ تردید ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اس تحریف کی تردید کے لیے صرف یہ کیا کہ اصل واقعہ ٹھیک ٹھیک اس کی صحیح ترتیب کے ساتھ بیان کردیا اور اسی لپیٹ میں متعدد دلائل اس امر کے بیان کردئیے کہ ذبیح حضرت اسماعیلؑ ہی ہوسکتے ہیں، حضرت اسحاقؑ نہیں ہوسکتے‘‘۔(ایضاً، ص ۱۴۴)
حضرت موسیٰ ؑکے بارے میں ہے:’’خصوصیت کے ساتھ سات دن کے بعد موسیٰ نے آٹھویں دن ہارون، اس کے بیٹوں اور اسرائیل کے بزرگوں کوبلایا۔ اس نے ہارون سے کہا، ایک بے عیب بچھڑا اور ایک بے عیب مینڈھا چن کر رب کو پیش کر، بچھڑا گناہ کی قربانی کے لیے اور مینڈھا بھسم ہونے والی قربانی کے لیے ہو۔ پھر اسرائیلیوں کو کہہ دینا کہ گناہ کی قربانی کے لیے ایک بکرا، جب کہ بھسم ہونے والی قربانی کے لیے ایک بے عیب یک سالہ بچھڑا اور ایک بے عیب یک سالہ بھیڑکا بچہ پیش کرو۔ ساتھ ہی سلامتی کی قربانی کے لیے ایک بیل اور ایک میڈھا چنو، تیل کے ساتھ ملائی ہوئی غلہ کی نذر بھی لے کر سب کچھ رب کو پیش کرو کیوں کہ آج ہی رب تم پر ظاہر ہوگا‘‘۔ (عہدنامہ عتیق، کتاب احبار، باب۹، آیت ۱-۵)
بنی اسرائیل کی قربانی کے لیے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو جو احکام دئیے تھے عہد نامہ عتیق میں اس کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے:’’رب نے ملاقات کے خیمے میں سے موسٰی کو بلاکر کہاکہ اسرائیلیوں کو اطلاع دے کہ اگر تم میں سے کوئی رب کو قربانی پیش کرنا چاہے تو وہ اپنے گائے بیلوں یا بھیڑ بکریوں میں سے جانور چُن لے۔
اگر وہ اپنے گائے بیلوں میں سے بھسم ہونے والی قربانی چڑھانا چاہے تو وہ بے عیب بیل چن کر اسے ملاقات کے خیمے کے دروازے پر پیش کرے، تاکہ رب اسے قبول کرے۔ قربانی پیش کرنے والا اپنا ہاتھ جانور کے سر پر رکھے تو یہ قربانی مقبول ہوکر اس کا کفارہ دے گی۔ قربانی پیش کرنے والا بیل کو وہاں رب کے سامنے ذبح کرے۔ پھر ہارون کے بیٹے جو امام ہیں اس کا خون رب کو پیش کرکے اسے دروازہ پر کی قربان گاہ کے چار پہلوؤں پر چھڑکیں۔ اس کے بعد قربانی پیش کرنے والا کھال اتار کر جانور کے ٹکڑے ٹکڑے کرے۔ امام قربان گاہ پر آگ لگاکر اس پر ترتیب سے لکڑیاں چنیں۔ اس پر وہ جانور کے ٹکڑے سر اور چربی سمیت رکھیں۔ لازم ہے کہ قربانی پیش کرنے والا پہلے جانور کی انتڑیاں اور پنڈلیاں دھوئے۔ پھر امام پورے جانور کو قربان گاہ پر جلادے۔ اس جلنے والی قربانی کی خوشبو رب کو پسند ہے‘‘۔(ایضاً، باب۱، آیت۱-۱۰)
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھتیجوں یعنی حضرت ہارونؑ کی اولاد کو امام بنایا تھا اور ان کو قوم کی طرف سے قربانی کرنے کا مجاز قرار دیا تھا۔ توریت میںامام کی صفات اور ذمہ داریوں کے ساتھ قربانی کرنے کی بھی تفصیل ملتی ہے۔ ان میں ایک یہ ہے:
’’اماموں کو مقدس میں میری خدمت کے لیے مخصوص کرنے کا طریقہ یہ ہے ۔ ایک جوان بیل اور دوبے عیب مینڈھے چن لینا۔ بہترین میدے سے تین قسم کی چیزیں پکانا جن میں خمیر نہ ہو۔ پہلے سادہ روٹی، دوسرے روٹی جس میں تیل ڈالا گیا ہو، تیسرے روٹی جس پر تیل لگایا گیا ہو۔ یہ چیزیں ٹوکری میں رکھ کر جوان بیل اور دو مینڈھوں کے ساتھ رب کو پیش کرنا‘‘۔ (ایضاً، کتاب خروج، باب ۲۹، آیت ۱-۴)
بیل کوملاقات کے خیمے کے سامنے لانا۔ ہارون اور اس کے بیٹے اس کے سر پر اپنے ہاتھ رکھیں۔ اسے خیمے کے دروازہ کے سامنے رب کے حضور ذبح کرنا۔ بیل کے خون میں سے کچھ لے کر اپنی انگلی سے قربان گاہ کے سینگوں پر لگانا اور باقی خون قربان گاہ کے پائے پر انڈیل دینا۔ انتڑیوں پر کی تمام چربی، جوڑ، کلیجی اور دونوں گردے ان کی چربی سمیٹ کر قربان گاہ پر جلادینا۔ لیکن بیل کے گوشت، کھال اور انتڑیوں کے گوبر کو خیمہ گاہ کے باہر جلادینا ،یہ گناہ کی قربانی ہے۔
اس کے بعد پہلے مینڈھے کولے آنا، ہارون اور اس کے بیٹے اپنے ہاتھ مینڈھے کے سر پر رکھیں۔ اسے ذبح کرکے اس کا خون قربان گاہ کے چارپہلو پر چھڑکنا۔ مینڈھے کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کی انتڑیوں اور پنڈلیوں کو دھونا پھر انھیں سر اورباقی ٹکڑوں کے ساتھ ملاکر پورے مینڈھے کو قربان گاہ پر جلادینا۔ جلنے والی یہ قربانی ربّ کے لیے بھسم ہونے والی قربانی ہے اور اس کی خوشبو رب کو پسند ہے۔ (ایضاً، آیت ۱۰-۱۹)
بائبل میں گناہ کے کفارہ کے طور پر قربانی دینے اور سلامتی کی قربانی یعنی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قربانی دینے کے احکام مفصلاً مذکور ہیں اور دونوں میں قدرے فرق بھی ہے۔ توریت میں مذکور ہے:
’’ربّ نے موسیٰ سے کہا: اسرائیلیوں کو بتانا کہ جو ربّ کو سلامتی کی قربانی پیش کرے وہ رب کے لیے ایک حصہ مخصوص کرے۔ وہ جلنے والی یہ قربانی اپنے ہاتھوں سے ربّ کو پیش کرے۔ اس کے لیے وہ جانور کی چربی اور سینہ ربّ کے سامنے پیش کرے۔ سینہ ہلانے والی قربانی ہو۔ امام چربی کو قربان گاہ پر جلادے، جب کہ سینہ ہارون اور اس کے بیٹوں کا حصہ ہے۔ قربانی کی داہنی ران امام کو اٹھانے والی قربانی کے طور پر دی جائے۔ وہ اس امام کا حصہ ہے جو سلامتی کی قربانی کا خون اور چربی چڑھاتاہے‘‘۔(عہد نامہ عتیق، کتاب احبار، باب۷، آیت۲۸-۳۴)
گناہ اور قصور کی قربانی کے لیے ایک ہی اصول ہے جو امام قربانی کو پیش کرکے کفارہ دیتا ہے اس کو اس کا گوشت ملتاہے۔ اس طرح جو امام کسی جانور کوبھسم ہونے والی قربانی کے طور پر چڑھاتا ہے اسی کو جانور کی کھال ملتی ہے‘‘۔ (ایضاً، آیت ۷-۹)
بائبل میں قربانی کا گوشت قربانی کے دن ہی استعمال کرنے کا حکم دیا گیاہے۔اگلے دن کے لیے قربانی کا گوشت بچا کر رکھنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ توریت میں ہے:’’گوشت اسی دن کھایا جائے جب جانور ذبح کیا گیا ہو، اگلی صبح تک کچھ نہیں بچنا چاہیے۔ اس قربانی کا گوشت صرف اس صورت میں اگلے دن کھایا جاسکتا ہے جب کسی نے منت مان کر یا اپنی خوشی سے اسے پیش کیاہے۔ اگر کچھ گوشت تیسرے دن تک بچ جائے تو اسے جلانا ہے۔ اگر اسے تیسرے دن بھی کھایا جائے تو رب یہ قربانی قبول نہیں کرے گا۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اسے ناپاک قرار دیا جائے گا‘‘۔(عہدنامہ عتیق، کتاب احبار، باب ۷، آیت ۱۵-۱۸)
قرآن میں قربانی کے گوشت کو آنے والے دنوں میں استعمال کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ قرآن میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ قربانی کا گوشت خود بھی کھاؤ اور غریبوں اور ناداروں کوبھی کھلاؤ۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:
فَكُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ۰ۭ كَذٰلِكَ سَخَّرْنٰہَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۳۶ (الحج ۲۲: ۳۶)تم اس قربانی میں سے خود بھی کھاؤ اور قناعت پسند محتاج اور فقیر کو بھی کھلاؤ۔ اسی طرح ہم نے اسے تمھارے لیے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر گزار بنو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدا میں قربانی کا گوشت تین دنوں سے زیادہ رکھنے سے منع فرمایا تھا، بعد میں آپؐ نے اجازت دے دی اور اس کی حکمت بھی بیان فرمائی۔
حضرت نبیشہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم نے تم لوگوں کو تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے اس واسطے منع کیا تھا کہ وہ تم سب لوگوں کو پہنچ جائے۔ اب اللہ تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی ہے ۔ اب تم اسے کھاؤ، بچا کے بھی رکھو اور (صدقہ کرکے) ثواب بھی حاصل کرو۔ سنو! یہ دن کھانے پینے اور اللہ عزوجل کو یاد کرنے کے ہیں‘‘۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب حبس لحوم الاضاحی)
اس مضمون کی ایک تفصیلی روایت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے بھی مروی ہے۔(ایضاً)
بائبل میں جانور کی جگہ پرندوں کی قربانی کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ یہ قربانی ان لوگوں کے لیے ہے جو جانور قربان کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ توریت میں ہے ’’اگر قصوروار شخص غربت کے باعث بھیڑ یا بکری نہ دے تو وہ رب کو دوقمریاں یا دو جوان کبوتر پیش کرے۔ ایک گناہ کی قربانی کے لیے اور ایک بھسم ہونے والی قربانی کے لیے‘‘۔(عہد نامہ عتیق، کتاب احبار، باب۵،آیت۷-۸)
قرآن میں صرف ’انعام‘ چوپایوں کی قربانی کا حکم ہے۔ پرندوں کی قربانی کا حکم نہیں ہے۔ اسی لیے قربانی صاحب ِنصاب یعنی مال دار لوگوں پر واجب کی گئی ہے۔ نادار لوگوں پر قربانی نہیں ہے۔ کفارہ میں بھی مسکینوں کوکھانا کھلانے اور روزہ رکھنے کا حکم دیاگیا ہے۔ جو لوگ غریب اور نادار ہیں ان سے قربانی کا مطالبہ نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ ان کے لیے دوسرے احکام ہیں جو ان کی حالت کے مطابق ہیں۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’ اضحی کے دن مجھے عید منانے کا حکم دیا گیا ہے جسے اللہ عزوجل نے اس امت کے لیے مقرر فرمایا ہے‘۔ ایک شخص کہنے لگا:’ اگر میں مادہ اونٹنی یابکری کے علاوہ کچھ نہ پاؤں توکیا اسی کو ذبح کردوں؟‘ آپؐ نے فرمایا کہ ’نہیں۔ تم بال کترلو، ناخن تراش لو، مونچھ کترلو اور زیر ناف کے بال صاف کرلو، اللہ رب العزت کے نزدیک یہی تمھاری پوری قربانی ہے‘۔(سنن ابی داؤد، کتاب الضحایا، باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی)
بائبل میں قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کے لیے مقامات کی تعیین کی گئی ہے۔ ان مخصوص مقامات کے علاوہ کہیں اور قربانی نہیںکی جاسکتی، اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی۔ توریت میں وضاحت ہے:’’ر ب نے موسیٰ سے کہا ہارون، اس کے بیٹوں اور تمام اسرائیلیوں کو ہدایت دینا کہ جو بھی اسرائیلی اپنی گائے یابھیڑ بکری،ملاقات کے خیمہ کے دروازہ پررب کو قربانی کے طور پر پیش نہ کرے بلکہ خیمہ گاہ کے اندر یا باہر کسی اور جگہ پر ذبح کرے، وہ خون بہانے کا قصوروار ٹھیرے گا۔ اس نے خون بہایا ہے اور لازم ہے کہ اسے اس کی قوم میں سے مٹایا جائے۔ اس ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیلی اب سے اپنی قربانیاں کھلے میدان میں ذبح نہ کریں بلکہ رب کو پیش کریں۔ وہ اپنے جانوروں کو ملاقات کے خیمہ کے دروازہ پر امام کے پاس لاکر انھیں رب کو سلامتی کی قربانی کے طور پر پیش کریں۔ امام ان کا خون ملاقات کے خیمے کے دروازہ پر کی قربان گاہ پر چھڑکے اور اس کی چربی اس پر جلادے۔ ایسی قربانی کی خوشبو رب کو پسند ہے‘‘۔ (عہدنامہ عتیق، کتاب احبار، باب۱۷، آیت۱-۷)
اس کے برخلاف قرآن میں قربانی کا جانور ذبح کرنے کے لیے مقامات کی تعیین نہیں کی گئی ہے۔ قربانی کسی بھی پاک صاف جگہ کی جاسکتی ہے خواہ قربان گاہ میں ہو یا کھلے میدان میں۔
بائبل میں اماموں کو قوم کی طرف سے قربانی کرنے کا مجاز بنایا گیا ہے۔ چنانچہ بنی اسرائیل اپنی خطاؤں کے کفارہ کی قربانی اور رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی قربانی انھی اماموں کے ذریعے کراتے تھے۔
توریت میں ہے:’’موسیٰ نے ہارون اور اس کے بچے ہوئے بیٹوں اِلی عزر اور اتمر سے کہا: غلّہ کی نذر کا جو حصہ رب کے سامنے جلایا نہیں جاتا اسے اپنے لیے لے کر خمیری روٹی پکانا اور قربان گاہ کے پاس ہی کھانا کیوں کہ وہ نہایت مقدس ہے۔ اس مقدس جگہ پر کھانا کیوں کہ وہ رب کی جلنے والی قربانیوں میں سے تمھارے اور تمھارے بیٹوں کا حصہ ہے۔ کیوں کہ مجھے اس کا حکم دیا گیاہے۔ جو سینہ ہلانے والی قربانی اور داہنی ران اٹھانے والی قربانی کے طور پر پیش کی گئی ہے وہ تم اور تمھارے بیٹے بیٹیاں کھاسکتے ہیں۔ انھیں مقدس جگہ پر کھانا ہے۔ اسرائیلیوں کی سلامتی کی قربانیوں میں سے یہ ٹکڑے تمھارا حصہ ہیں۔ لیکن پہلے امام ران اور سینے کو جلنے والی قربانیوں کی چربی کے ساتھ پیش کریں۔ وہ انھیں ہلانے والی قربانی کے طور پر رب کے سامنے ہلائیں۔ رب فرماتا ہے کہ یہ ٹکڑے ابد تک تمھارے اور تمھارے بیٹوں کا حصہ ہیں‘‘۔(ایضاً، آیت ۱۲-۱۶)
بنی اسرائیل کے امام قوم کی طرف سے قربانی کرتے تھے اور اس قربانی میں ان کا حصہ مقرر تھا۔ قرآن میں قربانی کرنے کے لیے امام یا مذہبی رہنما کی قید نہیں لگائی گئی ہے، بلکہ ہر وہ مسلمان جو خداترس ہے اور قربانی کی دعا واحکام سے واقف ہے قربانی کرسکتاہے۔ قربانی کے جانور میں قربان کرنے والے اماموں کاحصہ بھی مقرر نہیں کیا گیاہے۔
بائبل کے مطابق قربانی کا مخصوص حصہ اللہ کو پیش کیا جائے اور اس کی شکل یہ ہے کہ اسے آگ میں جلادیا جائے کیوں کہ جلتے ہوئے گوشت کی خوشبو اللہ کو پسند ہے۔ توریت میں حضرت ہارونؑ کے بارے میں کہا گیا ہے:’’پھر اس نے اس کی چربی ، گردوں اور جوڑ کلیجی کو قربان گاہ پر جلادیا، جیسے ربّ نے موسٰی کو حکم دیا تھا ویسے ہی ہارونؑ نے کیا۔ بچھڑے کا گوشت اور کھال اس نے خیمہ گاہ کے باہر لے جاکر جلادی‘‘۔(ایضاً، باب ۹، آیت ۱۰-۱۲)
قرآن پاک میں قربانی کے گوشت کو جلانے کا حکم نہیں ہے بلکہ فرمایا: قربانی کے جانور کا گوشت اور خون اللہ کو نہیں پہنچتا، البتہ تمھارا تقویٰ اللہ کو پہنچتاہے۔ اللہ نے اس کو تمھارے لیے اسی طرح مسخر کیا ہے تاکہ تم اللہ کی ہدایت پر اس کی تکبیر کرو اور احسان کرنے والوں کو خوش خبری سنادو۔(الحج ۲۲:۳۷)
توریت میں قربانی کی اقسام اور احکام جس تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں، وہ انجیل میں مفقود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مواعظ میں قربانی کرنے کا تذکرہ بہت کم ملتا ہے بلکہ ایک جگہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول بیان کیاگیاہے:’’پہلے جاؤ اورکلام مقدس کی اس بات کا مطلب جان لو کہ ’’میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں‘‘ کیوں کہ میں راست بازوں کو نہیں بلکہ گناہ گاروں کو بلانے آیا ہوں‘‘۔ (عہد نامہ جدید، انجیل متی، باب۹، آیت ۱۳)
اس کا یہ مطلب نہیںہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے قربانی کا حکم نہیں دیا، بلکہ وہ اخلاقی اور روحانی اعمال اور مذہبی اصلاح پر زور دیتے تھے۔ حضرت موسٰی کی شریعت پر دل وجان سے عمل کرنے کی تبلیغ کرتے تھے۔ توریت میں قربانی کے جو احکام تفصیلاً موجود ہیں، انھی کے نفاذ کو کافی سمجھتے تھے۔ ان کا مشہور قول انجیل میں موجود ہے:’’یہ نہ سمجھنا کہ میں موسوی شریعت اور نبیوں کی باتوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ ان کی تکمیل کرنے آیا ہوں‘‘۔(ایضاً، باب ۵، آیت ۱۷)
قرآن میں قربانی کے احکام اجمالاً بیان کیے گئے ہیں، جب کہ قربانی کے تفصیلی احکام، فضیلت، شرائط اور عملی مسائل حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔