دورِحاضر میں دنیا کی اجتماعی سیاست وانفرادی زندگی کا محور کچھ اس طرح معاشی مسائل اور رزق و روزگارکی فراہمی کے پیچیدہ اُمور کے ساتھ منسلک ہو گیا ہے کہ خود انسانی زندگی کی ہرتگ و دو صرف کسب ِمعاش اور مال جمع کرنے تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر ، اس وقت جن معاشی مسائل میں سب سے زیادہ الجھے ہوئے ہیں، اور جو انسانی زندگی کا سب سے بڑا المیہ بھی ہے، وہ قدرتی وسائل کی کم ہوتی مقدار اور ان وسائل اور ذرائع پیداوار پر سرمایہ داروں کا قبضہ کرنے کی اندھی ہوس ہے۔اس کے علاوہ غربت کی سطح میں روز افزوں اضافہ، تلاش معاش کے لیے ہنرمندی اور روزگار کے لیے تکنیکی تخصص کی لازمی شرط، پیداوارا ور دولت پر گنتی کے چند افراد کا قبضہ، معیشت میں جاری زر کی وسعت کی وجہ سے پیداشدہ مسائل بھی اس وقت حساس دلوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ ۱؎
ابھی صرف دو صدی قبل تک انسان اور معاشرہ ،خواہ جدید ہو یا روایتی ، اس کے رزق اور روزگار کا ذریعہ صرف قدرتی وسائل، زراعت، زرعی پیداوار کی تجارت اور ان سے جڑی مختلف خدمات کی بجاآوری تک ہی محدود ہوتا تھا۔ دنیا کے ہر حصے میں انسان انھی قدرتی وسائل سےاپنی ہر ضرورت کی کفالت کر لینے کا اہل تھا ، نیز ہر شخص کو کم یا زیادہ ان وسائل تک رسائی بھی حاصل تھی۔ وہ ممالک ہی ترقی یافتہ اور تجارت و حرفت میں آگے تھے، جن کے پاس زرخیز زرعی زمینیں اور دیگر قدرتی وسائل تھے۔۲؎ خود برصغیر ہند کی معاشی تاریخ کے اعداد وشمار اس بات پر شاہد ہیں کہ مغلیہ سلطنت کے آخری دور تک جب متحدہ ہندستان ایک مکمل زرعی اور صرف گھریلو صنعت پر مشتمل معاشی قوت تھا، ۱۸۲۰ء میں اس کی کل قومی آمدنی پوری دنیا کی آمدنی کا ۲۷ فی صد ہوا کرتی تھی اور عالمی تجارت میں ہندستان کا حصہ بھی ۲۴ فی صد کے آس پاس تھا۔۳؎ لیکن اٹھارھویں صدی آتے آتے دنیا میں سائنسی ترقی ، نت نئی مشینوں کی ایجاد اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب نے پوری دنیا میں پیداوار کے تمام وسائل و ذرائع کو مشین اور سرمائے کےساتھ کچھ اس طرح منسلک کردیا کہ اب ان دونوں کے بغیر کسی طرح کی پیداوار، زراعت، تجارت،معاشی جدوجہد اورخدمات کا تصور ہی محال ہے۔
سائنسی و تکنیکی ایجادات اور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں بڑی بڑی مشینیں، کارخانے وجود میں آتے گئے، جنھوں نے وسائل پیداوار کو زمین اور زراعت سے ہٹا کر مشینوں ، کمپنیوں اور بڑے بڑےکارخانوں میں منتقل کردیا ، ملازمت کو ایک جگہ مرتکز اور پورے نظام پیداوار کو ان پر منحصر کردیا۔ نظام معیشت و تجارت جو اب تک صرف قدرتی وسائل، زراعت و تجارت پر منحصر ہونے کی وجہ سے نہایت وسیع البنیاد، متفرق ، مختلف النوع اور صرف انسان کی ذاتی صلاحیت، جسمانی طاقت اور ہنرمندی کا مرہون منت ہوا کرتا تھا، وہ دیکھتے ہی دیکھتے سرمایہ ،کمپنی اور خودکار مشینی نظام کے تحت صرف چند بڑے سرمایہ دار کمپنی مالکان کے تحت ہو گیا۔
دنیا کے جدید معاشی ماہرین نے نظام پیداوار ، تقسیم دولت و آمدنی ، وسائل و ذرائع کے استعمال اور ان کے مساوی اختصاص کے نام پر کچھ طریق کار وضع کیے ہیں، جن کو نظام معیشت کہا جاتا ہے۔ ہر ملک یا معاشرہ اپنے قدرتی وسائل و ذرائع پیداوار کی تقسیم ، پیداوار، خدمات اور آمدنی کی تخصیص و تقسیم کے ساتھ عوام کو روزگار و دیگرعوامی سہولیات بہم پہچانے کے لیے جو طریقۂ کار وضع کرتا ہے، اسے عام زبان میں نظام معیشت یا معاشی نظام کہاجاتا ہے۔ ماہرین نے اس سلسلے میں مختلف اوقات میں دو طریقۂ کار وضع کیے ہیں: پہلا سرمایہ دارانہ نظام اوردوسرا اشتراکی نظام۔
سرمایہ دارانہ نظام میں من مرضی منافع کے تعین کی آزادی کے ساتھ اثاثہ جات کی ذاتی ملکیت اور پسند کے مطابق اشیائے خور و نوش کے انتخاب کی سہولت ہونے کی وجہ سے یہ نظام معیشت عوام میں آسانی سے قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس وقت یہ پوری دنیامیں اور خاص طور سے دولت مند ممالک اور امیر معاشروں میں مقبول ہے ۔ اس نظام معیشت کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں وسائل پرمالکانہ قبضہ کی آزادی، من مانی قیمتیں اور بے تحاشا منافع کمانے کی ہوس پرستانہ آزادی کی وجہ سے پوری دنیاکے وسائل و ذرائع چند مخصوص سرمایہ دار گروہوں اور طالع آزماؤں کے قبضے میں چلے گئے، جس کی وجہ سے دنیامیں غربت، محتاجی اور غیروں پر انحصار میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ پوری دنیا کا نظام معیشت اس وقت پوری طرح سرمایہ داروں کے چنگل میں ہونے کی وجہ سے عوام کا معاشی استحصال عروج پر ہے، جس سے آزادی کی کوئی صورت موجودہ حالات میں نظر نہیں آرہی ہے۔
پیداواری عناصر کی یہ غیر منطقی اور انسانی فطرت کواخلاقی و مذہبی اقدار کی بنیاد پر جائز و ناجائز سے ماورا قرار دینے والی تقسیم، انسانی فطرت سے میل نہیں کھاتی۔ اسی بنیاد پر استدلال کیا جاتا ہے کہ مذکورہ دونوں نظام معیشت قوانین فطرت کے بنیادی اصولوں کےعین مخالف اور تقسیم وسائل اور نظامِ پیداوار کے قدرتی طریقوں سے بالکل میل نہیں کھاتے۔ مگر طرفہ تماشا دیکھیے کہ یہ دونوں نظام معیشت دنیا میں عدل و انصاف کی بنیاد پر وسائل کی تخصیص ، روزگار کی فراہمی کے ساتھ معاشی پیداوار اور آمدنی کی مساوی تقسیم کادعویٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ اپنے ان دعوؤں کے برعکس ان نظاموں نے دنیا کے ہرحصے میں عوام کو صرف اور صرف ظلم، ناانصافی ، عدم مساوات ، قدرتی وسائل پر ناجائز قبضہ اور ارتکازِ دولت کا ہی تحفہ دیاہے۔
اشتراکی نظام انسانیت کے فطری تقاضوں اور انسانی معاشرے کے قدرتی اصولوں کے بالکل خلاف ہونے کے ساتھ ایک فلاحی ریاست کی تشکیل میں بھی پوری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ دنیا میں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ معاشی مساوات اور سماجی انصاف کے نام پر اس نظام کے تحت عوام پر ظلم،ناانصافی اور ریاستی جبر کی انتہا کردی گئی تھی ،لیکن نہ تو مبنی بر مساوات تقسیم دولت کا نظام ہی قائم ہوسکا ،نہ ذرائع وسائل پر عوام کو کسی طرح کا تصرف حاصل ہو سکا، اور نہ غربت اور تنگ دستی کے مسائل اوران کی وجوہ پر قدغن لگائی جا سکی۔
بالکل یہی حال اس وقت دنیا میں جاری سرمایہ دارانہ نظام کا بھی ہے جہاں انسانی ہنرمندی اور کام کی صلاحیت کی بنیاد پر حصول روزگار و آمدنی کا ایک مخصوص طریقۂ کار وضع کیا گیاہے۔ آمدنی اوروسائل کی تقسیم میں انصاف و مساوات کا ڈھنڈورا دنیا میں پیٹا جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ قدرتی وسائل، عوامی دولت اور ذرائع پیداوار کا چند بااثر افراد کے ہاتھوں میں ارتکاز اور اس کے ذریعے عوام پرمعاشی ظلم واستحصال کا پورا نیٹ ورک ہے، جس میں عام آدمی پرفکری جبر و معاشی تسلط نافذ کردیا گیا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں فی الوقت پوری دنیا جکڑی ہوئی ہے۔ قدرتی وسائل پر قبضے کے ساتھ دولت و سرمایہ کا ارتکاز اس حد تک وسعت اختیار کر گیا ہے کہ عام آدمی کی نجی زندگی اور مسائل روزگار کے ساتھ اس کی قوت فیصلہ وعمل بھی چند بڑے سرمایہ داروں اورصنعت کاروں کےپاس گروی اور ان کے زیر دست ہے۔۴؎
اس وقت دنیا بھر میں ایک طرف روزگار کے ذرائع کم ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں غربت لگاتار بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف سرمایہ داروں و صنعت کاروں کی دولت میں بے انتہا اضافہ ہوتا جارہا ہے، لیکن ستم ظریفی یہی ہے کہ مساوی حقوق اور سماجی انصاف کے نام پر معاشی ظلم اور انسانیت کا استحصال بھی اپنے عروج پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اشتراکیت جو ۷۰برس بعد خود اپنے مراکز میں موت کے گھاٹ اُتر گئی، اور سرمایہ داری دونوں نظام صرف انسانی ہوس پرستی پر مبنی ہیں، اور کسی جواب دہی کے احساس سے بالکل آزاد ہونے کی وجہ سے کہیں معاشی انقلاب کے نام پر دستوری ہیر پھیر سے، تو کہیں سرمائے اور دولت کی طاقت سے معاشی وسائل پر قبضہ کرتے ہیں اور عوام کو آزادئ فکر و عمل کے سبز باغ دکھا کرمعاشی غلام بنانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔
یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی ، یہ بحث و تکرار کی نمایش
نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمایش
تری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر
خطوطِ خم دار کی نمائش ، مریز و کج دار کی نمایش
جہانِ مغرب کے بت کدوں میں، کلیسیاؤں میں، مدرسوں میں
ہوس کی خوں ریزیاں چھپاتی ہے عقلِ عیّار کی نمایش
علامہ محمد اقبال نے ان اشعار کے ذریعے تمام انسانوں کو خبردار کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ تمام کے تمام جدید معاشی نظریات صرف مال و جائیداد اکٹھا کرنے کے لیے انسانی ہوس کو عقلی و نقلی پردے میں لپیٹ کر عوام کا دھیان بٹانے کی کوشش ہے۔ یہی چیز جدید معاشی نظام کی سب سے بڑی خصوصیت بن کر سامنے آتی ہے کہ وسائل پیداوار اورانسانی سرمایہ کو اس طرح سے اپنے قبضہ میں لیا جائے کہ عوام کو یہ محسوس ہوتا رہے کہ یہ ان کی فلاح و بہبود اوربہتر زندگی کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن پس پردہ مقصد انھیں غلام بنانے اور وسائل پر چند مخصوص لوگوں کےقبضے کو قائم رکھنے کا ہے۔
وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۱۹ (الذاریات ۵۱:۱۹)ان کے مالوں میں سائلوں اور ناداروں کا حق ہے۔
قرآن کریم میں یہ اور اس طرح کی دیگر آیات مسلسل اس بات کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ اس دنیا میں انسان کے پاس جوبھی مال و دولت اور جائیداد و سرمایہ ہے وہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے اور اس دولت میں ان تمام لوگوں کا حق اور حصہ ہے جو اللہ کی اس عطا سے محروم ہیں۔ اسلامی نظام میں قرآن اور حدیث کے یہی احکامات اجتماعی فلاح کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔
جب ہم ذاتی اغراض، منفعت اور استحصال سے پُرموجودہ نظام معیشت کا متبادل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو ایک طرف ہمارے پیش نظر سرمایہ دارانہ نظام میں موجودملکیت، منفعت اور بے لگام خواہشات پر بند باندھنا ہوتا ہے۔ دوسری طرف ان عناصر سے بھی معاشرے کو پاک کرنا ہوتا ہے، جہاں معاشی افعال و حرکات کو اپنی پسند و ناپسند کے مطابق جاری رکھنے کے لیے وسائل کی اجتماعی ملکیت کی حوصلہ افزائی پر بھی قدغن لگا دی جاتی ہے۔اس لیے ان دونوں نظامہائے معیشت سے الگ معاشیات کا ایک ایساطریقۂ کار ہم پیش کر سکیں جس میں چند لوگوں کے ذاتی مفاد اور بے حساب منافع کے لیے انسانوں کا استحصال نہ ہو رہا ہو اور ساتھ ہی وسائل ، پیداوار اور آمدنی کی منصفانہ تقسیم کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔
معاشرے میں جاری معاشی ناہمواری کے ان نو آمدہ مسائل کو حل کرنے، وسائل و مواقع میں مساوات کی فراہمی ، ازالۂ غربت اور آمدنی و دولت کی منصفانہ تقسیم کے نام پر اشتراکیت نے نجی ملکیت کے بجائے اجتماعی ملکیت ، منافع کی جگہ خدمات کے تناسب سے مزدوری اور نظام معیشت میں فیصلہ کن عنصر بازار کے عوامل کی جگہ حکومتی احکام کی بالا دستی کا فارمولا دیا۔ لیکن صنعتی معاشرے میں جاری معاشی ناہمواری، معاشرتی استحصال اور حکومتی جبر پرقدغن لگانے اور مبنی برمساوات ایک عادلانہ نظام معیشت برپا کرنے میں کارل مارکس کا سوشلزم بھی یکسر ناکام ہوگیا۔
دنیا میں جہاں بھی یہ نظام نافذ کیا گیا وہاں معاشی ظلم و استحصال کاعروج اور حکومتی جبر کی انتہا دیکھنے میں آئی، جس نے عوام کی قوت فیصلہ و عملی صلاحیت کو بھی کافی حدتک متاثر کردیا اور یوں یہ نظام بھی معاشرے اور معیشت کے تئیں ایک تازیانہ ہی ثابت ہوا۔ اس نظام معیشت کی ناکامی کی واضح مثالیں سوویت روس اور مشرقی یورپ کے ساتھ چین ، وینزویلا ، جیسے کئی ممالک تھے، جہاں اس جابرانہ نظام کی وجہ سے معیشت بری طرح ناکام ہوئی، اور بالآخر ان ملکوں کے ساتھ ہی دیگر ممالک نے بھی اس نظام کو عملی طور پر خیر باد کہہ دیا، اگر چہ نظریاتی طور پر بائیں بازو کے دانشوروں کا ایک طبقہ اس کی بازیافت ِنو کے لیے کوشاں ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر پیداوار اور تقسیم آمدنی کے غیر فطری طریقۂ کاراور کمزور طبقات کے استحصال کو روکنے اور اس سے باہر نکلنے کا واحد متبادل اشتراکی نظام معیشت ہے ، لیکن یہ نظریاتی دانشور بھی اس سمت میں عملی طور پر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔۵؎
مذکورہ دونوں نظامہائے معیشت، خواہ وہ آنجہانی اشتراکیت ہو یا پژ مُردہ اور خون خوار سرمایہ داری، سبھی تقسیم دولت کے منصفانہ نظام کی عمل داری ، وسائل پر مساوی حقوق ، مواقع میں ہرکس و ناکس کی برابری، ازالۂ غربت اور استحصال سے پاک ہونے کاپر فریب نعرہ بلند کرتے رہے لیکن احتساب اور جواب دہی کے فقدان کے ساتھ نظام کے اندر موجود ظلم اور نا انصافی کے بنیادی ماخذ کو ختم کرنے یا اس پر کاری ضرب لگانے کا کوئی عملی نمونہ پیش کرنے سے یکسر قاصر رہے۔ اشتراکیت نے مساوات کے نام پر نجی اور ذاتی ملکیت کے حق پر مکمل پابندی لگادی، روزگار اور تجارت میں انسان کی مرضی اور پسند کے بجائے نظام کے تحت دیئے گئے وسائل اور مواقع کی پابندی لازمی قرار دی گئی، اور اس ناقابل عمل پابندی اور غیر عملی مساوات کا نتیجہ دنیا کے سامنے جہاں اس نظام کے مکمل خاتمے کی صورت میں ظاہر ہوا ، وہیں سرمایہ داری نے انسانی حقوق، جنسی مساوات، حق ملکیت اور لامحدود منافع کی آڑ میں معاشی ذرائع اور قدرتی وسائل پر چند مخصوص گروہوں کے قبضے کی راہ آسان کرکے پوری بنی نوع انسانیت کو چند طالع آزماؤں کے یہاں گروی رکھ دیا۔
دورِحاضر میں ترقی کا صرف ایک رہنما اصول ہے کہ انسانی آبادی کے چند مخصوص گروہوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اشیائے تعیش کی فراوانی ہونی چاہیے اور اس کے آسان تر حصول کو یقینی بنانے کے لیے دنیا کے تمام وسائل و ذرائع پیداوار پر چندطاقت ور عناصر کا مکمل کنٹرول ہونا چاہیے، خواہ اس کے لیے معاشی ظلم و ناانصافی کوکتنا ہی فروغ دینا پڑے۔ پیداواری حقوق و مواقع کی مساوات، معاشی وسائل کو متحرک کرنے کا عقلی و منطقی جواز اور تقسیم دولت کےعادلانہ طریقۂ کار کا دعویٰ سبھی کرتے ہیں، لیکن موجودہ وقت میں دنیا کے کسی بھی معاشی نظام کے اندر یہ خصوصیات موجود نہیں ہیں۔
دنیا کے تمام ماہرین معاشیات نے اشتراکیت اور سرمایہ داری، دونوں نظاموں کا مشاہدہ اور عملی تجربہ کیا ہے اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ازالۂ غربت، معاشی عدل و انصاف کے اجتماعی نفاذ اور عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے متعلقہ مقاصد کے حصول میں مذکورہ معاشی نظامِ معیشت یکسر ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام انسانیت کے فطری تقاضوں اور قانون قدرت کے ثابت شدہ اصولوں کے برعکس صرف چندمعروضی نظریات اور سماجی متبادل کی بنیاد پر معاشی و سماجی انصاف کی راہ ہموار کرنے کے خوگر ہیں، لیکن حقوق و فرائض کی منصفانہ بجا آوری اور پیداواری مواقع کی عادلانہ تقسیم کی راہ میں حائل بنیادی رکاوٹوں اور عوامل پر کام کرنے سے یکسر گریزاں ہیں۔
موجودہ دور میں چند زر پرست حکمرانوں اور ہوس پرست نظریہ سازوں کاسماجی انصاف اور جنسی مساوات کا پر فریب نعرہ نظامہائے معیشت و سیاست میں صرف گنتی کے کچھ افراد کی ذاتی خواہشات کی تکمیل اور ذوق حکمرانی کا آسان ترین راستہ ہے، جس میں انسانی اخلاق و کردار کی بلندی اورانسانیت کی فلاح و ترقی کے بجائے صرف نفسانی خواہشات اور دنیاوی لذتوں کے حصول کو ہی تمام انسانی تگ و دواورمحنت و مشقت کا حاصل قرار دے دیا گیا ہے اور ان لذتوں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے معاشی قوانین اورنظریات وضع کیے جاتے ہیں۔
دوسری طرف عالمی سطح پر جاری سودی نظام مالیات و معاشیات نے اپنے بنائے ہوئے اداروں: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) ، عالمی بنک، عالمی تجارتی تنظیم اور اس جیسی دوسر ی تنظیموں کے ذریعے پوری عالمی معیشت کے نظامِ پیداوار اور تقسیمِ آمدنی و دولت کے طریقۂ کار کو سودی نظامِ مالیات سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ کوئی ملک یا ادارہ اس کے بغیر تجارت ، ترقی اور معاشی تفوق کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ بنکوں کے ذریعے بظاہر آسان مالیات کی فراہمی ، تجارتی قرض اور مخصوص شرحِ سود پر مبنی سرمایہ کاری اور پیداوار موجودہ معاشی نظام کا ایک ایسا تارِ عنکبوت ہے جو دیکھنے میں بظاہر کمزور نظر آتاہے، لیکن جو بھی ایک بار اس نظام کی پکڑ میں آ گیا اس کی نجات بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد کا عالمی معاشی نظام کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک، خاص طور سے غریب اور ترقی پذیر ممالک، جن کی دنیا میں اکثریت ہے، اس سے گلوخلاصی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔۶؎ یہی وجہ ہے کہ عالمی تجارت میں تبادلے اور ادائیگی کے لیے ڈالر کی مکمل اجارہ داری، جس سے عالمی تجارت میں امریکا کا دبدبہ قائم ہے، اور پوری دنیا میں تیزی سے اپنے دائرۂ کار کووسعت دیتا ہوا سودی سرمائے کا جال اور اس پر منحصر دنیا کا نظام پیداوار جو ارتکازِ دولت و سرمایہ، معاشی ناانصافی، عدم مساوات اور معاشی ظلم کی بنیاد ہے ، اس کو چیلنج کرنے کی حیثیت میں دنیا کاکوئی بھی ملک نہیں رہ گیا ہے۔ (جاری)
1. Top Ten Global Economic Challenges :An assessment of Global Risk and Priorities 2007, Report presented by Brookings Global Economy And Development, http://www. brookings.edu/ research/ amp.
2. Economic Changes in 18th Century, http://www.blinklearning.com/course player/class.
3. Angus Maddison, The World Economy, p 379, table A4.
4. T R Jain, Economic Systems and Problems of Resource Allocation “, in Principles of Economic Analysis VK Global Publications, pp 371-383.
5. Niemietz, Kristian, Socialism: The Failed Idea that Never Dies. http://www.forbes.com/
6. Business Standard,January 31, 2022. http://www.business-standard.com