معاشی عدل و انصاف کے مکمل نفاذ ، آمدنی اور وسائل کی عادلانہ تقسیم کے ساتھ سماجی مساوات پر مبنی نظام کو بروئےکار لانے کے لیے دُنیا کو اسلام کے معاشی نظام کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات اور نظام معاشرت میں انسانوں کی انفرادی ضرورت اور معاشرے کے اجتماعی معاملات کے منصفانہ حل کا جو فطری لائحہ عمل پیش کیا گیاہے بالکل وہی اسلام کا معاشی نظام بھی ہے۔ یہ انسانی زندگی کے فطری اصولوں اور تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئےمعاشرتی فلاح و بہبود کی شرائط کے ساتھ تلاشِ معاش کی آزادی اور فکر وعمل کا مخصوص ومتعین میدانِ کار بھی عطا کرتا ہے، جس میں دوسروں کے حقوق کی پاس داری اور اس کے تئیں حساسیت کا واضح طریقۂ کار موجود ہے۔
افسوس کہ اس فطری اور عادلانہ نظام کا قابلِ عمل، قابلِ فہم خاکہ اور عملی نفاذ کاکوئی جامع نمونہ دنیا کے سامنے نہیں ہے اور نہ اسے نافذ کرنے اور ایک مثالی ماڈل کے طور پرپیش کرنے کے لیے مسلم ممالک اور اس کے حکمراں تیار ہیں۔ اسلام میں حقوق انسانی کی اہمیت اور اس کی بجاآوری پر بہت زوردیا گیا ہے۔ آزادئ فکر وعمل کے ساتھ نسب و نسل کی حفاظت اور انسانی جان پر بیجا ظلم کو روکنے کے لیے جہاں صراحت کے ساتھ تاکید ی احکامات ہیں، وہیں نہ ماننے کی صورت میں نہایت سخت سزا کا تعین بھی ہے۔ اسی طرح وراثت، وصیت اور زمین و جائیداد کی تقسیم کے تعلق سے بھی قرآن میں صریحاً احکامات موجود ہیں تاکہ آمدنی ،جائیداد، اثاثہ جات اور دولت کسی ایک جگہ پر منجمد نہ ہو، نیز وسائل و ذرائع پیداوار بھی بغیر کسی رکاوٹ اور بنا کسی بیرونی دخل اندازی کے صحیح اور جائز حق دار تک پہنچ جائیں۔ اسی ضمن میں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ معاشرتی عدل کے لیے یہ بنیادی شرط ہے کہ معاشرے میں کسی کو بھی یہ حق حاصل نہ ہو کہ وہ دوسرے انسان کے حق پر اپنی خواہش کے مطابق ناجائز قبضہ کر لے، یا کسی کا حق غصب کر کے اس میں اپنی پسند کے مطابق کمی بیشی کر سکے۔ معاشرے میں انفرادی و اجتماعی حقوق کی حفاظت اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے اور حقوق کی عدم ادائیگی کو ایک بڑا ظلم تصور کیا جاتا ہے۔ کسی کےجائز اورقانونی حق کو اپنے قبضے میں لے لینا یا اس میں کمی کرنا، اصل حق دار کو اس سے محروم کر کے کسی اور کو دے دینا، حصہ داری اور حقوق کی ادائیگی کے نام پر صرف تھوڑا حصہ مزدوری یا کسی شراکت داری کے نام پردینا بھی ظلم کی ہی مختلف شکلیں ہیں۔
موجودہ دور میں بہت سارے انسانوں کے ایک ساتھ رہنے سے ایک دوسرے پر جو ذمہ داریاں اور حقوق و فرائض واجب الادا ہوتے ہیں، ان کی صحیح طور پر ادائیگی بھی ایک اہم اور گنجلک مسئلہ کے طور پر پوری دنیا میں موجود ہے جس میں عوام کی اکثریت کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کب اور کہاں دوسرے انسان کے حق پر ڈاکا زنی کر بیٹھے ہیں؟ معاشی ترقی کے ساتھ باہم انحصاری اور امداد باہمی کے اس دور میں جب مختلف عاملین ایک ساتھ مل کر پیداوار کرتے ہیں، تواس بات کا مسئلہ بنا رہتا ہےکہ پیداواری عمل کے دوران ہر عامل کی خدمت اور اس کے حصے کا تعین کس طرح کیا جائےکہ کسی بھی عامل کے متناسب حقِ خدمت کا پورا پورا معاوضہ اسے مل جائے اور کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو؟ اس کےلیے معاشیات میں آمدنی اور پیداوار کی تقسیم کا نظریہ ہے جو عاملین پیداوار کی طلب اور رسد کی بنیاد پر ان کی پیداواری قدر و قیمت اور خدمت کے معاوضے کا تعین کرتا ہے، لیکن بہت سارے نظریاتی مفروضات اور عمل کی راہ میں حائل مشکلات کی وجہ سے یہ نظریہ نقائص سے پُر ہے۔
یہاں ہم پیداوار کے دیگر عوامل کو چھوڑ کر صرف سرمایہ کی قیمت اور پیداواری عمل میں اس کے حقِ خدمت کے تعین کا تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد دنیانے جیسے جیسے ترقی کی راہ میں قدم آگےبڑھایا، سرمایہ کا حصول ، سرمایہ کاری ، بنکوں کے ذریعے سرمائے اور قرض کی فراہمی ، انشورنس و بازارِ حصص کافروغ اور اس میں حصہ داری کی تجارت ، شرح سود کی بنیاد پر تجارت میں نفع یا نقصان کا تعین وغیرہ ایسے عوامل ہیں جنھیں آج کے اس دور میں ترقی کا انجن قرار دیا جاتا ہے۔ صنعتی ترقی کی اس دوڑ میں ہر پیداوار کے لیے سرمایہ بنیادی ضرورت بنتا گیا اور سرمایے کے لیے بنک اور مالیاتی ادارے کھلتے چلے گئے جہاں چند معمولی شرائط پر قرض کا آسان حصول اور ان پر شرط کے مطابق سود کی ادائیگی ہر کاروبار اور معاشی سرگرمی کا لازمی حصہ بن گئی، جو اس وقت دنیا میں ظلم ،نا انصافی اور انسانی حقوق کی عدم ادائیگی کا سب سے بڑا ماخذ ہے۔ جدید سودی نظام تجارت و پیداوار میں ہر تجارت، لین دین اور سرمایہ کاری کے لیے کثیر مقدار میں سرمایے کی ضرورت ہوتی ہے، جس پر سود کی لازمی ادائیگی کی وجہ سے آمدنی اور دولت کا ایک ایسا غیر منطقی بہاؤ وجود میں آتا ہے جو وسائل پیداوار کی غیر منصفانہ ملکیت اور دولت کے غیر اخلاقی ارتکاز کا سبب اور ماخذ ہوتا ہے۔
آج دنیا میں پیداوار ، تجارت اور تقسیمِ دولت کا موجودہ نظام کثیر سرمایہ کاری پر مبنی ہے، جس کی وجہ سے کل پیداوار ی لاگت میں سرمائے کا حصہ بہت زیادہ ہوتا ہےاور اس کی لاگت یعنی سود کا حصہ بھی کل پیداوار ی لاگت میں بڑے حصے کے طور پر موجود ہوتا ہے، جب کہ دیگرعاملین یعنی قدرتی وسائل و انسانی محنت، جو کسی بھی پیداواری نظام کے اصل اور متحرک عناصر ہیں، کا تناسب کم ہوتاجاتا ہے۔ دوسری طرف مختلف شکلوں میں سود کی ادائیگی، کاپی رائٹ، حق ملکیت، بیمہ ، منافع ، عدم استحکام ، غیر یقینی مستقبل اور نہ جانے کتنے ناموں سے پیداوار کے بہت بڑے حصے پر سرمایہ دار کے قابض ہونے کی راہ ہموار کر دیتا ہے۔ یعنی سود پر مبنی پیداوار و تقسیمِ آمدنی کا نظام ایک ایسا طریقۂ کار ہے، جو پیداوار کے اصلی عناصر اور عوامل (انسان اور قدرتی وسائل ) کا متناسب حقِ خدمت غصب کرکے زیادہ حصہ اس مخصوص عنصر (سرمایہ دار یابنک اور بیمہ کمپنیاں ) کو دینے کا ایک مربوط طریقۂ کار متعین کرتاہے، جس کی پیداوار، دولت کی افزائش اور آمدنی کے اخراج میں کوئی عملی شراکت اور نفع ونقصان کے لیے کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ جب کہ پیداوار کے اصل عناصر یعنی کاریگر، مزدور ، مالکان زمین و دیگرمتحرک اور بلاواسطہ حصہ داروں کو اپنی ہی محنت کا بہت کم معاوضہ مل پاتا ہے، جو معاشی ناہمواری اور بڑھتی ہوئی غیر یکسانیت کی بنیادی وجہ ہے۔
سود ی سرمائے پر مبنی تجارت کے عمل میں پیداوار و تقسیمِ آمدن کو اس طرح منظم کیا گیا ہے کہ پیداوار کا بڑا حصہ ان عناصر کے قبضے میں چلا جاتا ہے، جو نہ تو پیداواری عمل میں براہِ راست شامل ہوتے ہیں اور نہ پیداواری عمل کے دوران نقصانات یا شرح پیداوار میں سالانہ اُتار چڑھاؤ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے منافع میں کسی طرح کی کمی بیشی کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ سرمایہ دار صرف سرمایہ مہیا کر کے پیداوار اور تجارت کے نظام سے الگ ہو جاتے ہیں اور وقت مکمل ہو جانے پر پہلےسے طے شدہ معاہدے کے مطابق پیداوار کے ایک بڑے حصے پر قابض ہوجاتے ہیں ، خواہ پیداوار کی افزایش اسی شر ح سے ہوئی ہے جس پر انھوں نے تاجر یا تنظیم کوسرمایہ مہیا کیا ہے یا اس سے کم یا زیادہ شرح سے، سرمایہ دار کو اس سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اس طرح آمدنی اور دولت کی ناجائز تقسیم اور پیداوار میں غیر اخلاقی حصہ داری کا وہ عمل شروع ہوتا ہے جس میں مزدور، کاریگر اور دیگر قدرتی وسائل کی محنت سے پیدا ہونے والی آمدنی کا بڑاحصہ غیر منطقی طور پر ایک ایسے عامل کو منتقل ہوتا ہے جو پیداوار میں عملی شراکت سے گریزاں ہے۔ یوں کثیرمنافع کا حصول، وسیع تر دولت کی ہوس اور اس کے ذریعے سرمایہ کا ارتکاز ہی اصل معاشی مقصد قرار پاتا ہے جس سے پیداوار کی طاقت اور اس کا سر چشمہ صرف سرمایہ دار کے پاس قید ہو کر رہ جائے۔
ہر پیداواری اور غیر پیداواری مصرف کے لیے سودی قرض کی سہولت اور اس کے نتیجے میں آمدنی اور اخراجات کا بڑا حصہ سود اور قرض چکانے کی ماہانہ قسط کی مد میں سود خور سرمایہ دار کے پاس پہنچ جانا معاشی ناہمواری کے بڑھنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہربچت کی سرمایہ کاری، بازار حصص میں حصہ داری، زر کی تجارت ،زر سے زرکمانے کے لیے وافر مواقع کی فراہمی ، زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کا لالچ ، اشیائے تعیش کی فراوانی اور آمدنی کا زیادہ سے زیادہ حصہ سامان تعیش اور غیر ضروری اخراجات پر خرچ کردینے کا موجودہ انسانی مزاج ذاتی ضروریات کو اسراف کی حد تک بڑھا دیتا ہے، جو مالیات، قرض کے بازار کی وسعت اور ہر شخص کےسودی قرض پر بڑھتے ہوئے انحصار کی بڑی وجہ ہے۔ ان کے نتیجے میں دولت مندوں کے پاس دولت و سرمائے کا ارتکاز ہوتا چلا جاتاہے۔
اسلامی نظام معیشت ، معاشرت وتجارت میں کسی بھی طرح کے سودی لین دین اور اس کی بنیاد پر ہونے والی تجارت کی سخت ترین الفاظ میں نفی کی گئی ہے اور اسے حرام قرار دیتے ہوئے سود کے حصول و ادائیگی کو اللہ اور رسولؐ سے جنگ کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’جو لوگ سود کھاتے ہیں، اُن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کردیا ہو۔ اور اس حالت میں ان کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ: ’’تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے‘‘، حالانکہ اللہ نےتجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام‘‘۔ (البقرہ۲:۲۷۵)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سود کی حرمت کو واضح طور پر بیان کردیا ہے۔ سود کی حرمت کی بنیادی وجہ اس کااستحصالی مزاج اور غیر منصفانہ ڈھنگ سے دوسروں کی محنت اور دولت ہتھیانے کا عملی طریقۂ کار ہے اور یہی انسانوں کے جائز حقوق کی عدم ادائیگی اور ناانصافی کا سب سے بڑا ماخذ ہے۔ اسلام کی آمد سے قبل زمانۂ جاہلیت میں دنیا کی دیگر تہذیبوں کی طرح عربوں کے یہاں بھی سودی لین دین کا عام رواج تھا، جسے خودقرآن نے ظلم اورشیطانی عمل سے تشبیہ دی ہے۔ جدید بنکوں کے ذریعے وہی سود آج بھی معاشرے میں ظلم، ناانصافی اور عدم مساوات کی بنیاد ہے۔ اس لیے سود، خواہ وہ کسی بھی ذریعہ سے وجود میں آرہا ہو، اس کے ماخذ کی بنیاد پر جواز اورعدم جواز کی تاویل قطعی غیرمناسب ہے۔ سود کی اتنی شدید حرمت کی حکمت نہایت واضح ہے ۔ خاص طور پر جب ہم آج کے معاشی نظام کا تجزیہ کرتے ہیں جس میں سود ادا نہ کرپانے کی صورت میں ایک انسان اپنے مال و دولت اور اثاثہ جات کے ساتھ کبھی کبھی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے، جس کی بےشمار مثالیں خود دُنیا میں موجود ہیں۔ یہ سود کے استحصال اور مبنی بر ظلم ہونے کی واضح مثال ہے۔اسی لیے اللہ نے اس کے بعد دوسری آیت میں سود کے سلسلے میں اور سخت وعید پیش کی ہے:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیاہے اسے چھوڑ دو،اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔اب بھی توبہ کرلو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔( البقرہ۲:۲۷۸- ۲۷۹)
اس آیت میں سود لینے ( اور سود دینے ) والے پر اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے۔ سود کے خلاف اتنی سخت وعید کی بنیادی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام انسانی معاشرے سے ظلم و زیادتی اور استحصال کا مکمل خاتمہ چاہتا ہے، جب کہ مالیات کا سودی نظام انسان کے معاشی استحصال کی بنیاد ہے اور اس کے ذریعے ہونے والی تجارت ناانصافی اور حقوق کی عدم ادائیگی کو وسعت دینے میں معاون ہوتی ہے۔ اسلام اگر سود اور سودی نظام کی نفی کرتاہے یا اسے بالکل جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کی بات کرتا ہے، تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اسلام معاشرتی ظلم اوراستحصال پر مبنی اس نظام کو ختم کرنا چاہتا ہے جو آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم اور وسائل روزگار پر چند زر دارافراد کی اجارہ داری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور دوسروں کے حقوق غصب کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔بنکوں کے ذریعے سرمایہ کاری کے نام پر قرض اور اس سے پیدا ہونے والا سود ( جسے آج کل منافع کا نام دے کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے) جدید معاشیات کاایک ایسا نظام اورطریقۂ تجارت ہے جس میں ایک طرف راست محنت کرنے والا اپنی کارکردگی کے مطابق اجرت اور متناسب حقِ خدمت سے محروم کر دیا جاتا ہے، اور دوسری طرف تجارت کے لیے مال مہیا کرنے والا سر مایہ دار ایک ایسی اجرت کا حق دار بن جاتا ہے جس کے لیے اس نے پیداوار کے مراحل میں کسی بھی طرح کی حصہ داری نبھانے اور نفع و نقصان کی بنیاد پر شراکت داری سے بالکل انکار کیا۔
اسلامی نظام معیشت کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ منافع میں حصہ دار وہی بن سکتا ہے جو اس کے خطرات اور نقصان کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار ہو (ابوداؤد، نسائی، ترمذی)، جب کہ سودی نظام کے تحت سرمایہ دار اپنا سرمایہ لگا کر پہلے سے طےشدہ شرح سے صرف منافع (سود) ہی لیتا ہے اور اس مال سے ہونے والی پیداوار یا تجارت میں کسی طرح کے نقصان کی ذمہ داری قبول کرنے سے سراسر انکار کرتا ہے۔ ہر معاشی نظام کے اندر کسی مخصوص شئے کی پیداواری لاگت اوراس کی بازاری قیمت ( شرح تبادلہ ) کا تعین مختلف عاملین پیداوار کو کی جانے والی ادائیگیوں پر منحصر ہوتا ہے،جن میں سرمایہ دار ایک ایسا عامل یا عنصر ہے، جو خدمت کے بغیر ہی پیداوار کے ایک حصے کا حق دار بن جاتا ہے بغیر اس بات کی پروا کیے کہ اس کے دیے ہوئے سرمائے سے پیداوار یا تجارت میں کوئی اضافہ بھی ہوا ہے یا نہیں۔ پیداوار اور تجارت میں راست خدمت اور نقصان میں کسی حصہ داری کے بغیر پیداوار کا ایک عنصر یعنی سرمایہ دار یکمشت اپنا طے شدہ حصہ لے لیتا ہے۔ اس طرح سودی نظام معیشت میں لاگت یا قیمت کےتعین میں وہ جز شامل کیا جاتاہے، جو کسی طرح بھی پیداوار کا حصہ نہیں ہوتا اور نہ کسی طرح سے وہ شئے کی افادیت میں اضافہ کا مؤجب بنتا ہے۔
معیشت میں پیداوار کی ہر سطح پر جہاں بھی سرمایہ دار نے اپنا مال لگا یاہے، یہی غیر حقیقی اور غیر متناسب جبری منافع، سود کی شکل میں شامل ہو کر قیمت میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ یوں ایک ایسی شئے صارف کے پاس پہنچتی ہے، جس کی افادیت اور اصل قدر اس کی قیمت ِخریدسے بہت کم ہوتی ہے ، یا ایک صارف جتنی رقم ادا کرکے ایک مخصوص چیز اپنے فائدے کے لیے خریدتا ہے، اس میں شئےکی لاگت اور قیمت ِخرید اس کی افادیت سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح کلی، ملکی یا بین الاقوامی پیمانے پر ملکی دولت اورمعیشت میں پیداوار اور افادیت کے نام پر ایک بڑا اور قابل لحاظ حصہ ایسا شامل ہو جاتا ہے، جس کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہوتا، لیکن قیمت اور تبادلے کی ہر سطح پر وہ حصہ موجود ہوتا ہے۔ یہی اس ظلم ، عدم مساوات اور معاشی ناانصافی کی ابتدا ہے، جس میں دنیا کا ہرصارف جو مارکیٹ کی قیمت ادا کرتا ہے، اس سے کم افادیت حاصل کرتا ہے۔
کسی شئے کو کارخانے، زراعت یا کسی بھی دوسرے طریقے سے تیار کرتے وقت اس کی لاگت کا انحصار تیاری میں لگے مختلف پیداواری عناصر کو کی جانے والی ادائیگیوں پر ہوتا ہے۔ پیداوار کے مختلف مراحل کے دوران مختلف عناصر اوروسائل بلا واسطہ اپنی اپنی خدمات اور تعاون پیش کرتے ہیں اور اسی تعاون یا شرکت کے بقدر اپنی مزدوری یا حقِ خدمت لیتے ہیں، جس کا حاصل جمع ہی شئے مذکور کی پیداواری لاگت کہلاتا ہے۔ اسی پیداواری مرحلے میں سرمایہ دار اپنا سرمایہ بھی پیداوار کے لیے دیتا ہے لیکن پیداواری مراحل میں بلا واسطہ اپنی کوئی ذمہ داری ادا نہ کرکے اپنے دیے ہوئے سرمائے کا ایک خاص تناسب یکمشت حاصل کرتا ہے ، خواہ پیداوار میں اس تناسب سے اضافہ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ دراصل سرمایہ استعمال کرنے کے بدلے یہی ادائیگی سود ہوتی ہے، جس میں سرمایہ دار اپنی کسی شراکت داری کےبغیر پیداوار میں نفع یا نقصان سے بے پرواہ ایک خاص رقم حاصل کر تا ہے۔ سود وہ جز ہوتا ہے جس کی ادائیگی توہوتی ہے لیکن اس کے بقدر قدر اور افادیت وصول نہیں ہوتی۔ اس طرح یہی چیز پوری دنیا میں ایک غیر حقیقی معیشت کو جنم اور فروغ دیتی ہے۔
اسلامی نظام تجارت و معیشت جب سود کو ظلم قرار دیتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سرمایہ دار سود کی رقم وصول کرتا ہے تو صارف یا قرض خواہ کو سود کے بقدر کسی طرح کی کوئی افادیت یا قدرحاصل نہیں ہوتی۔ دورِحاضر کی معیشت کا وجود سود کے بغیر تصور نہیں کیا جاسکتا اور سود کی ادائیگی کی وجہ سے ہر سطح پر ایک غیر حقیقی اور غیر واقعی معاشی خلا پیدا ہوتا ہے، جس کی ادائیگی تو ہوتی ہے، لیکن ادائیگی کرنے والے کو اس کے بدلے میں متناسب افادیت حاصل نہیں ہوتی۔ معاشی عدل اور انصاف کا تقاضا ہے کہ کوئی انسان کسی بھی شئے یا خدمت کے لیے جتنامعاوضہ ادا کرتا ہے، اسی کے بقدر اسے افادیت بھی حاصل ہونی چاہیے، مگر سودی معیشت میں یہ ممکن نہیں ہےکیونکہ صارف جس قیمت کی ادائیگی کرتا ہے، اس میں سود کی ادائیگی شامل ہوتی ہے، جو پیداوار کی مختلف سطحوں پر لاگت کا حصہ بن کر قیمت میں شامل ہوتی رہتی ہے۔
مثال کے طور پر ایک کسان جب بنک سے ایک ہزار روپیہ قرض لے کر اپنے کھیت میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو اسے زرعی شعبے میں پیداوار اور افزائش کی موجودہ شرح سے سال کے آخر میں زیادہ سے زیادہ ایک ہزار تیس روپیہ حاصل ہوسکتاہے، جب کہ اسے سال پوراہوجانے پر موجودہ ۱۰فی صد سالانہ شرح سود پر بنک کو گیارہ سو روپے ہر حالت میں واپس کرنے ہوں گے۔ اس صورت حال میں کسان کے پاس دو متبادل ہوتے ہیں، یا تو وہ ایک ہزار تیس روپے کی اپنی فصل کو بازار میں کم از کم گیارہ سو روپے میں فروخت کرے اور بنک کا قرض واپس کرے یا اگر وہ اپنی پیداوار کو گیارہ سو سے زیادہ قیمت پرفروخت کرنے کا اہل نہیں ہے تو باقی ستّر روپے وہ اپنا کھیت یا کوئی دوسرا اثاثہ بیچ کر بنک کو ادا کرے۔ پہلی صورت میں کسان اگر کسی صورت میں کامیاب بھی ہوجائے تو صارف کو ایک ہزار تیس روپے کی چیز کے لیے گیارہ سو روپے ادا کرنے ہوتے ہیں یعنی ایک عام آدمی (صارف ) ستّر روپے کی ایک ایسی فاضل ادائیگی کرتا ہے جس کے برابراس نے کوئی افادیت حاصل نہیں کی ہے۔
بنک کے ذریعے سرمایہ کاری اور سود پر مبنی معیشت میں ایسا ہونا بہت عام ہے کہ صنعت کار یا کوئی بھی دوسرا عامل جو کسی پیداواری حرکت میں لگا ہوا ہے، اسے ہرحال میں اپنا پروڈکٹ اس قیمت پر بازارمیں بیچنا ہے کہ وہ بنک کا سود اور اسی قبیل کی دوسری ادائیگیوں کو بہ آسانی ادا کر سکے، خواہ پیداوار کے دوران بازار کی اس قیمت کے برابر اس میں افادیت بھی پیدا ہوئی ہے یا نہیں؟ اس طرح ایک عام صارف اپنی کل ادائیگی کا ایک حصہ ایسا ادا کرنے پر مجبور ہوتا ہے جس کے برابر وہ کوئی افادیت حاصل نہیں کرتا۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ سودی معیشت میں افادیت کے حصول اور اس کے لیے کی جانے والی ادائیگیوں میں بڑا فرق پیداہو جاتاہے اور ایک عام صارف کا یہی سب سے بڑا استحصال ہے کہ وہ سود کی ادائیگی کے نام پر پیسے تو ادا کرتا ہے لیکن اس کے بقدر افادیت حاصل کرنے میں نا کام ہے۔
آج پوری دنیا معاشیات اور معاشی سرگرمیوں کے ایک ایسے گورکھ دھندے میں اُلجھ گئی ہے، جس میں ہر شخص صرف مادی فائدے کے حصول اور زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کی منصوبہ بندی میں دن رات ایک کیے ہوئے ہے، لیکن زندگی کی ڈور ان معاشی مسائل میں اس قدر اُلجھ گئی ہے کہ اب اس کا سرا ہاتھ نہیں آرہا ہے۔ چندمخصوص انسانوں کی ساری دنیا کی دولت بٹور لینے کی ہوس اور اس کے لیے وسائل پیداوار و ذرائع آمدن پر انھی مخصوص ہاتھوں کی گرفت کو مضبوط تر کرنے کی گھٹیا کوششوں نے اس وقت دنیا کو معاشرتی تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے، جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ پوری انسانیت کی معاشی قسمت اور رزق صرف چند زر پرستوں کےہاتھ میں یرغمال بن کر رہ گیاہے۔
عالمی معاشی نظام میں پیداوار کا سب سے اہم اور بنیاد ی عنصر سرمایہ ہے۔ سرمائے کی افزائش و ارتکاز ، سرمایہ اور سرمایہ کاری ، سود پر مبنی نظام پیداوار وتقسیم آمدنی، سود کے ذریعے ہی تمام مالیاتی سر گرمیوں کی وسعت، زر سے زر کی تجارت اور اس کے نتیجے میں سرمایہ داروں کے پاس دنیا بھر سے دولت وثروت کا کنٹرول ہے۔ یہ معاشی گرفت موجودہ معاشی عدم توازن اور بڑھتی ہوئی غربت کی بنیادی وجہ ہے۔ انیسویں صدی کی ابتدا میں دنیا کی امیر اور غریب آبادی کے درمیان اوسط آمدنی کا فرق آج کے دور کے مقابلے میں بہت کم ہواکرتا تھا، جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں تمام اشیائے خور و نوش اور آرائش و آسائش کی پیداوارصرف قدرتی ذرائع اور انسانی محنت پر منحصر تھی اورپیداواری عمل میں سرمایہ کی حصہ داری نہ ہونے کے برابر ہواکرتی تھی۔ بیش تر صنعت و حرفت نیز پیداوای عمل کا دارومدار صرف قدرتی ذرائع مثلاً زراعت، انسانی ہنرمندی، مویشی پروری اور چند معدنیات کی کاریگری پر تھا جس میں مختلف انسانوں یا گروہوں کے درمیان آمدنی کا فرق صرف انسانی محنت اور قدرتی ذرائع پیداوار کے فرق اور استعمال کی بنیاد پر تھا۔
صنعتی انقلاب کے بعد جب ذرائع پیداوار کا انحصار انسانی ہاتھوں اور مویشیوں کے بجائے جدید آلات اور مشینوں پر ہوگیا، اسی وقت سے ’سرمایہ‘ پیداوار کے نہ صرف اہم بلکہ اہم ترین وسیلہ کے طور پر منظر عام پر آیا، اور اسی کےبعد سے پیداوار کے ساتھ ساتھ تمام تر ذرائع پیداوار پر بھی چند مخصوص لوگوں ( سرمایہ داروں) کا قبضہ ہوتاچلا گیا۔ اسی سرمایہ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ پیداوار اور منافع کے لیے ارتکازِ سرمائے کی تگ و دو نے سودی نظام مالیات پر مبنی بنکوں کا جال پوری دنیا میں پھیلا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سودی سرمائے کی آسان تر دستیابی نے سرمایہ دارانہ پیداواری نظام کو آسان اور کثیر پیداوار کے لیے ایک متبادل کے طور پر پوری دنیا میں رائج کردیا۔ جس کے نتیجے میں سرمایہ دار اور مالکانِ تجارت کے پاس پیداوار ، آمدنی اور دولت کا ارتکاز ہونا شروع ہو گیا۔ امیر و غریب ممالک کی فی کس آمدنی کا فرق جو صنعتی انقلاب کے ابتدائی دور۱۸۲۰ء میں صرف پانچ اور ایک ( ۵:۱) کا ہواکرتا تھا، وہ بڑھتے بڑھتے چھیاسی اور ایک (۸۶:۱) کا ہوگیا۷، اور موجودہ وقت میں تواس تفاوت کااندازہ بھی نہیں لگا یا جا سکتا۔ امیر و غریب کے بیچ کی یہ خلیج لگا تار وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ عالمی ماہرین شماریات ،اعداد و شمار کے اَن گنت حوالے دیتے ہیں کہ اس وقت عالمی دولت کا ۷۵ فی صد حصہ صرف ایک فی صدامیر ترین لوگوں کے قبضے میں ہے ، یا فلاں ملک کے چند امیر ترین لوگوں کے پاس پوری دنیا کی دولت کا ۵۰ یا ۶۰ فی صد حصہ ہے۔ اسی سے ملتے جلتے حقائق ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔
ان اعداد و شمار کو پیش کرنے کا مقصد صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ سودی مالیاتی نظام نے ہماری روز مرہ کی ضروریات اور اشیا کی پیداوار میں کتنا اہم مقام حاصل کرلیا ہے، کیونکہ یہ ساری پیداوار، آمدنی اوراس میں سال در سال مضروبی اضافہ صرف اور صرف سرمائے کے ارتکاز اور سودی نظام مالیات کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا ہے، جو دولت مند کو مزید دولت بٹورنے کے لیے حوصلہ افزا ماحول مہیا کرتا ہے اور غریبوں کی غربت میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ پیداوار کے روایتی وسائل، زراعت و باغبانی ، پیشہ ور ہنر مند افراد اور چھوٹی موٹی صنعتوں کی ملکی آمدنی و پیداوار میں حصہ داری مسلسل کم ہورہی ہے یا یہ ذرائع ہی بازار سے دھیرے دھیرے منظر سے غائب ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی جگہ بڑی اور کثیر قومی کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہوتی جارہی ہے، جو اپنے کثیرسرمائے اور تکنیک کے بل پر وسائل ، پیداوار اور بازار کے بڑے حصے پر قابض ہو جاتی ہیں اور بلا کسی مقابلہ یامسابقت بازار میں قیمت ، حصہ داری اور من چاہے منافع کا تعین اَز خود کرتی ہیں۔
حیاتیاتی سائنس دانوں کا مانناہے کہ عام انسانوں کی ذہنی استعداد اور جسمانی صلاحیت میں زیادہ سے زیادہ ایک اور تین کا فرق ہو سکتا ہے۸، لیکن ان کی دولت اور آمدنی کا فرق سو گنا اور ہزار گنا سے بھی زیادہ ہے۔ آمدنی کا یہ فرق صلاحیت اور استعداد کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے ذرائع پیداوار کی جائز آمدنی ہڑپ کرنے اور سرمایہ کے علاوہ مزدور اور دیگر وسائلِ پیداوار کو ان کی شمولیت کے بقدر حصہ نہ دینے کی وجہ سے ہے۔ اسی ارتکازِ دولت کی وجہ سے پوری دنیا میں غریب اور افلاس زدہ افراد کی تعداد لگاتار بڑھتی جارہی ہے۔ غذائی اجناس اور دیگر ضروریات زندگی وافر مقدار میں موجود ہونے کے باوجود وہ عوام کی پہنچ سے لگا تار دور ہوتی جارہی ہیں۔
اس وقت پوری دنیا کی معیشت بشمول تمام مسلم ممالک، اسی سودی نظامِ مالیات اور سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت کے جال میں جکڑی ہوئی ہے۔ دُنیا کے وسیع تر ذرائع ابلاغ پر انھی سرمایہ داروں کاقبضہ ہے، جو لگاتار موجودہ استعماری و استبدادی نظام سیاست و معیشت کو عوام کے لیے مفید تر ثابت کرنے میں دن رات ایک کیے دے رہے ہیں، جب کہ اس نظام کے تحت بڑھتی ہوئی غربت اور ارتکازِ وسائل و دولت کے خلاف بلند ہونےوالی آواز بہت کمزور اور سست ہے۔
سودی نظام مالیات اور سرمایہ دارانہ معیشت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں اور اس گٹھ جوڑ پر مبنی معاشی نظام نے جس غیر متناسب قیمت اور لامحدود منافع خوری کی بنیاد پر موجودہ عالمی نظامِ معیشت کو کھڑا کیا ہے، وہ ابتدا ہی سے بنیادی طور پر عوامی مصالح کے لیے نامعقول و غیر مقبول، کمزور طبقات کے معاشی وسماجی استحصال کا وسیلہ اور معاشرے کی اخلاقی اقدار کے منافی مانا جاتا رہا ہے۔
ایک زمانے میں سود خور ساہو کار کے ظلم اور استحصال کو بیان کرتی کہانیاں ہر قوم اور زبان کے ادب کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ معاشرے میں سود پر مبنی قرض کو ہمیشہ ظلم اور ذلت کے تناظر میں دیکھا جاتا رہا ہے اور اسے بُرا کہنے اور برا سمجھنے والے ہر زمانے ، قوم اور مذہب میں موجود رہے ہیں۔ مگر اب اس بات کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ان معاشرتی خرابیوں کے علی الرغم معاشی ترقی ، صنعتی انقلاب ، پیداوار کی کثرت ،لامحدود منافع خوری اور وسائل پیداوار و آمدنی پر قبضے کی ہوس نے ایک ایسے صنعتی معاشرے کو جنم دیا ہے، جس نے ہر تجارتی، کاروباری اور معاشی سرگرمی کو سود سے منسلک کردیا ہے اور اس میں سود اور اس کی بنیاد پر جاری ہرطرح کی معاشی سر گرمی کے پھلنے پھولنے کے وافر اسباب مہیا کیے ہیں، جس کے نتیجے میں ساہو کاروں اور صنعت کاروں کا ایک چھوٹا لیکن با اثر طبقہ اس استحصالی نظام کی موافقت میں اور اسے انسانی معاشرے کے لیے مفید ترثابت کرنے کے لیے ایک سازگار ماحول تیار کرنے میں ہمیشہ لگا رہا ہے۔
سرمایہ داروں کا یہ مخصوص طبقہ اپنے تخلیق کردہ معاشی نظام کو کامیاب بنانے کے لیے پوری دنیا میں سر گرمِ عمل ہے اور بظاہر اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہے، حالانکہ اس پورے مالی و معاشی نظام نے جہاں دنیا میں صرف چند مخصوص لوگوں کی تجوریوں میں مال و دولت کے انبار لگا دیئے ہیں،وہیں اس نظام نے عالمی غربت و افلاس میں بھی بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ آمدنی کی غیرمتناسب تقسیم اور دولت کے عمودی ارتکاز کی وجہ سے اس نظام کی دیواریں لگاتار متزلزل ہوتی جارہی ہیں جسے بار بار بیرونی سہاروں اور حکومتی امداد کے بل پر کھڑا کیا جاتا رہا ہے۔
دیکھا جائے تو سود اور سودی قرضوں کی ابتدا انسانی تمدن میں بہت پہلے شروع ہو گئی تھی۔ اسی لیے سودی لین دین کو دنیا کے قدیم ترین پیشے میں شمار کیا جاتا ہے، اگرچہ ہر زمانے کی مذہبی تعلیمات میں اس کی پُرزور نفی اور اس سے پنپنے والی سماجی و اخلاقی خرابیوں کا ذکر بھی تواتر کےساتھ موجود ہے، لیکن اس کے باوجود یہ کاروبار لگاتار پھلتا پھولتا رہا ہے۔ روایتی طور پر سود کا کاروبار معاشرے میں انفرادی بنیاد پر ہی رائج تھا، جس میں ساہو کار ہر قرض خواہ کے ساتھ اس کی ضرورت اور قرض واپسی کےامکانات کے مطابق الگ الگ معاہدہ اور معاملات طے کرتا تھا۔
بنکوں ، بیمہ کمپنیوں اور دیگر مالیاتی اداروں پر مشتمل ایک مربوط سودی مالیاتی نظام، جو ایک طرف عوام کو لگاتار زیادہ سے زیادہ پیسےبچانے کی ترغیب دیتا ہے ، بنکوں اور بیمہ کمپنیوں کے ذریعے اسی بچت کو متحرک کرکے سرمایے میں بدلتا ہے اور پھر وہی سرمایہ عوام کو آسان اور اجتماعی قرض کی سہولت کے نام سے اونچی شرح سود پر لینے کی ترغیب بھی دیتاہے۔ یوں سود کے لالچ میں زیادہ سے زیادہ پیسہ بچاکر بنک میں رکھنے اور پھر اپنی ہی ضروریات کے لیے سود پراسی بنک سے قرض لینے کا ایک ایسا ’شیطانی چکر‘ وجود میں آتا ہے، جو انسانی ضرورت اور معاشی حرکت کو صرف سود اور شرح سود سے منسلک کر دیتا ہے۔ وہی شرح سود معاشرے میں ہرمعاشی فیصلے کی بنیاد قرار پاتی ہے۔ سود کی بنیاد پر ماہانہ خرچ کا تعین ، اسی پر منافع کا تعین، تجارت کے لین دین اور تاجرانہ وصولی کانظام الاوقات بھی شرح سود کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ گویا کہ اس وقت تجارت و معیشت کی دنیا بالواسطہ یا بلاواسطہ سود اور شرح سود کے ہی ارد گرد گھوم رہی ہے اور ہرانسان جانے انجانے اس نظام سے متاثر ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا میں بڑے پیمانے پر سودی بنکوں کا فروغ اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں یورپ میں شروع ہوا جس میں بڑی صنعتوں و پیداواری مراکز کے لیے کثیرمقدار میں سرمایے کی فراہمی طے شدہ شرح سود پر انھی تجارتی بنکوں کے ذریعے ممکن ہو سکی۔ اب حالت یہ ہے کہ موجودہ وقت میں ہر طرح کی معاشی حرکت بشمول پیداواری لاگت، منافع اور بازاری قیمت کا تعین، صارف کی قوت خرید، بازار میں زر ، اشیا و خدمات کی رسد ، نئی معاشی سرگرمیاں اور اس کے ممکنہ امکانات، زر کی قیمت کا تعین ( Time value of money )،غرض یہ کہ ہرایک معاشی سرگرمی اور فیصلے کا انحصار شرح سود اور اس کی ممکنہ شرح تبدیلی پر ہی منحصر ہے۔سود کی بنیاد پر پیداواری لاگت اور ممکنہ منافع کی شرح طے کی جاتی ہے۔ اسی کی بنیاد پر بازار حصص میں اُتارچڑھاؤ دیکھنے میں آتا ہے۔ کسی بھی صنعتی تیاری یا تجارتی سرمایہ کاری میں فیصلے کا دارومدار یا مستقبل کےاستحکام یا غیر مستحکم ہونا بھی شرح سود کے استحکام پر ہی منحصر ہے۔
معاشیات میں سرمایہ دارانہ نظریات اور اس کے بنیادی خد و خال کو ایک اجتماعی نظام کی شکل دینے کی ابتدا ایڈم اسمتھ ( Adam Smith )اور اس کے معاونین و معتقدین کی حکومت کی معاشی سر گرمیوں میں عدم مداخلت کے فلسفے کے تحت ہوئی ۹ ، جس کا بنیادی نظریہ ہے کہ پیداوار، منافع، قیمتوں کا تعین اور وسائل پیداوار کوملنے والی اُجرت کا تعین بغیر کسی سرکاری مداخلت کے سرمایہ دار، صنعت کار اور تاجر بازار کی طلب و رسد اورذاتی مفادات کی بنیاد پر خود کریں گے۔ یوں ایک لامحدود منافع خوری اور مزدوروں و دیگر وسائل پیداوار کی اُجرت کی غیرعادلانہ اور غیر منصفانہ تقسیم کی بندربانٹ صنعت کار اور سرمایہ دار کے درمیان شروع ہوگئی ، جس کی من مانی حدود کا تعین خود کرنے کے لیے بہت خوب صورتی سے حکومت کو اس معاشی نظام سے باہر کر دیا گیا۔
سرمایہ دارانہ نظام کی وسعت و عوامی مقبولیت کا جواز بھی اسی غیر اخلاقی نظریے پر ہے کہ ہرمعاشی سرگرمی کا انحصار ذاتی مفاد ، منافع اور سود پر ہے، جس میں کسی اخلاقی و غیر اخلاقی جواز یا عدم جواز اور کسی اجتماعی، انفرادی یا سماجی نقصان اور فائدے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایڈم اسمتھ کےبعد دوسرے ماہرین معاشیات نے بھی حکومتی عدم مداخلت کے اس نظریے کی حمایت اور پورے پیداواری و معاشی نظام کو معاشرتی اخلاقیات کی حدودسے باہر رکھنے کی پُرزور و کالت کی، تاکہ لامحدود منافع خوری اور سودی سرمائے کو بلا کسی سرکاری یا اخلاقی قدغن کے مزید استحکام حاصل ہوسکے۔
معاشی سر گرمیوں میں حکومت کی ضروری مداخلت اور پورے نظام کے لیے حکومت کی نگرانی کی وکالت ۱۹۳۰ء کی عظیم معاشی کساد بازاری اور روزگار و پیداوار میں لامتناہی گراوٹ کے بعد جے ایم کینز( JM Keynes ) نے کی ، اور ۱۹۳۶ء میں Generals Theory of Employment Interest and Money میں واضح کیا کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر بھی معاشی نظام پیداوار و روزگار کو مستحکم رکھنے ،بنکوں و دیگر مالیاتی اداروں کے ذریعے معیشت میں زر کی غیر ضروری رسد کو روکنے اور اسے اپنی معینہ حدود میں رکھنے، نیز صنعت و حرفت، پیداوار اور اشیا و خدمات کو معاشرے کے ہر فرد تک منصفانہ طریقے سے پہنچانے کے لیے معاشی سرگرمیوں میں حکومت کی مداخلت و متناسب شمولیت از بس ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ حکومت کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ ٹیکس اورسرکاری واجبات کے ذریعے معیشت میں عدم توازن کو ممکنہ حد تک قابو میں رکھے۔
لیکن ساری احتیاط اور قانون سازی کے باوجود پوری دنیا کی معیشت پر افراط زر کا غیرمعمولی دباؤ ، معیشت میں پیداواری تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے زر کی بڑھتی ہوئی رسد ، غربت و بے روزگاری میں اضافہ اور عمومی معاشی عدم استحکام ایک عام معاشی وبا کی شکل میں جاری ہے، جسے قابو کرنے کے لیے حکومتیں بار بار شرح سود میں تبدیلی کے ذریعے زر کی طلب و رسد میں استحکام لانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن معاشی عدم استحکام کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے۔
اس طرح سرمایہ دارانہ نظام اپنی ابتدا ہی سے لگاتار زر کی غیر ضروری رسد سے پیداشدہ اندرونی دباؤ اور اسے قابو کرنے اور معیشت کو پٹری پر رکھنے کے لیے ضروری قرضوں، امداد اور سرکاری مداخلت کے سہارے ہی چل رہا ہے۔ اس کے باوجود ہر ۱۰،۲۰سال کے بعد پوری دنیا میں ایک معاشی بھونچال آ جاتا ہے جس میں عوام کی کمائی کے اربوں کھربوں روپے بازار حصص کے اُتار چڑھاؤ کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اس کےبعد اس نظام کی حامل حکومتیں اور بین الاقوامی ادارے مصنوعی کرنسی ، بیل آؤٹ پیکج ، سہل قرضہ جات کی شکل میں مراعات و دیگر ذرائع سے معیشت میں زر کی رسد بڑھا کر اسے سہارا دینے کے لیے میدان میں آجاتے ہیں۔
جب سے کثیر سرمائے اور سود کی بنیاد پر بڑی تجارتی سرگرمیاں شروع ہوئیں، نیز ان کے فروغ کے لیے تجارتی بنک، اسٹاک ایکسچینج ، رہن بازار ( Mortgage Market) یا تمسکات بازار (Bond Market) جیسی مختلف سودی تجارتی اقسام و گنجلک اصطلاحات، ان کے لیے آسان شرائط پرسودی قرضوں کی حوصلہ افزائی اور عوام کی قوت خرید کو بڑھانے کے لیے معیشت میں زر کی رسد بڑھانے کی کوششیں شروع ہوئی ہیں، معاشی اتھل پتھل، پیداوار کی تقسیم میں عدم توازن، دولت و ثروت کا چند مخصوص افرادکے درمیان غیر معمولی ارتکاز اور اس کے نتیجے میں غیر معمولی سماجی و معاشی عدم توازن اور عدم استحکام پوری دنیا میں لگاتار بڑھتا جارہا ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے ان مسائل کی بنیادی وجوہ اور اس موضوع پر مثبت بحث سے ہمیشہ گریز کیا ہے، جب کہ معاشی کسادبازاری، بازار کا عدم استحکام اور عدم توازن عالمی پیمانے پر وقفہ وقفہ سے لگاتار جاری ہے۔
جنگ عظیم دوم سے پہلے ۱۹۳۰ء کے عشرے کی عالمی معاشی گراوٹ،اس کے بعد جنگ عظیم کی تباہ کاریاں، ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کی مشہور زمانہ معاشی کسادبازاری، افراط زر کے ساتھ بے روزگاری کی اُونچی شرح جسے Stagflation کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کی بنیادی وجہ تو عرب اور اوپیک ممالک کا معدنی تیل کی رسد پر روک تھی، لیکن اس کی وجہ سے مالیات اور معیشت میں گراوٹ پوری دنیا میں محسوس کی گئی اور اس نے پوری ترقی یافتہ دنیا بشمول امریکا، لاطینی امریکا اور برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
۱۹۸۰ء کے عشرے میں اشتراکیت اوراشتراکی نظام معیشت کا زوال ، ۱۹۹۰ء سے عالم گیریت اور نجکاری کی تحریکیں، جس کے ذریعے ترقی پذیر ممالک پرکثیر قومی کمپنیوں کی اجارہ داری کو یقینی بنانا، اور پھر ۲۰۰۸ء میں امریکا کے کچھ بڑے بنکوں کا دیوالیہ ہوجانا، وغیرہ ان سب معاشی تیزی ،سستی ، مندی اور زوال کی بنیادی وجہ یہی سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے جارحانہ پھیلاؤ کی منصوبہ بندی رہی ہے۔ بنکوں کے ذریعے معیشت میں قرضوں کاغیر ضروری و غیر متناسب پھیلاؤ، منافع بڑھانے اور عوام کو سودی قرضوں کی رغبت دلانے والی اسکیمیں اورنتیجے میں زر کی رسد کے غیر معمولی طور پر بڑھ جانے سے افراط زر اور معاشی سستی و عدم استحکام کے ذریعے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کی معیشتوں میں قرض، سود اور افراط زر کا یہ کھیل وقفہ وقفہ سے جاری ہے۔
اشتراکی نظام معیشت کے زمیں دوز ہو جانے کے بعد عالم گیریت، نجکاری اور آزادانہ معیشت کے فروغ کے نام پر سرمایہ دارانہ نظام پوری قوت کے ساتھ دنیا پر مسلط ہے، جس کے ذریعے دنیا کی نامور کمپنیوں اور تجارتی اداروں نے کثیر سرمایے اور جدید ٹکنالوجی کی بدولت ترقی پذیر ممالک میں پیداوار اور مالیات کے شعبے میں اپنے قدم جمالیے۔ پوری دنیا میں یک قطبی سرمایہ دارانہ نظام کی وسعت اور اسے دنیا کے غریب اور معاشی طور پر کمزور ممالک میں جبری نفاذ کو یقینی بنانے میں بین الاقوامی اداروں خاص کر عالمی بنک(WB)، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) اور عالمی تجارت تنظیم (WTO) نے بھر پور کوشش کی تاکہ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے وسیع بازار کو کثیر قومی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے لیے بغیر کسی داخلی یا خارجی رکاوٹ کے کھول دیا جائے۔
اس وقت سرمایہ دارانہ نظام معیشت کو چیلنج کرنے اور کوئی دوسرا مستحکم و متبادل نظام معیشت پیش کرنے سے دنیا عاجز نظر آرہی ہے۔اگرچہ اس نظام نے پوری دنیا کی دولت کو چند مخصوص لوگوں کی جھولی میں ڈال کر دنیا کی کثیر آبادی کو غربت و افلاس کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے اور ارتکازِ دولت و سرمایہ کا یہ سلسلہ لگاتار جاری ہے۔ اس نظام میں جتنی سہولت سے وافر مقدار میں پیداواری سرمایہ مہیا ہوجاتا ہے، اتنی ہی تیزی سے عوام کی آمدنی اور دولت بھی سرمایہ دار کی جھولی میں گرتی چلی جاتی ہے اور عوامی غربت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
سب سے زیادہ مستحکم اور تقسیم دولت کے لحاظ سے ایک منصفانہ نظام معیشت اسی وقت ممکن ہے، جب شرح سود کو صفر کردیا جائے، لیکن سود کے ذریعے اربوں کھربوں کا سرمایہ اکٹھاکرنے والے سرمایہ دار، بنک اور صنعت کار جنھوں نے اس پورے معاشی نظام کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے ، اس کے لیے کبھی تیار نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کی ساری دولت کا انحصار سود اور سودی نظام مالیات پر ہے۔ دنیا کی بیش تر آبادی اسی نظام کی وجہ سے معاشی و مالیاتی استحصال کا شکار ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ متبادل پیش کرنے اوراسے بطور نظام اپنانے کو ایک پس و پیش برقرار ہے۔
آج کی دنیا نے اب تک معاشیات اور تقسیمِ دولت و پیداوار کے نظام کے نام پر ایک دوسرے کے متضاد دو نظامہائے معیشت کا تجربہ کیا ہے اور دونوں ہی نظام دنیا کی معاشی بدحالی کو ختم کرنے اور دولت و پیداوار کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے میں یکسر نا کام ثابت ہوئے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے استحصالی خد و خال ، طبقاتی تصادم ( طبقاتی جد وجہد ) اور دولت کے ناگزیر ارتکاز کی وجہ سے یہ نظام لگاتارنسل انسانی کے لیے بوجھ ہی ثابت ہوا ہے۔
اس کے متبادل کے طور پر کارل مارکس کے اشتراکی نظریات پر مبنی ایک نیا نظام معیشت بیسویں صدی کے اوائل میں اشتراکی روس اور کچھ عرصے بعد اس کے ہمنوا مشرقی یورپ اور کچھ دیگر ممالک کے اندر نافذ کیا گیا ، جس نے پورے معاشی و سماجی نظام سے انفرادی ملکیت، وراثت اور جائیداد کے حقوق اور فیصلوں میں شخصی آزادی کے تصور کو ختم کردیا۔ سارے وسائل ، پیداوار اور دولت کوسرکاری ملکیت میں سونپ کر ایک اجتماعی منصفانہ نظام برپا کرنے کی ناکام کوشش کی۔ لیکن اس جبری اور غیرفطری نظام کی اندرونی کمزوریوں کے ساتھ نظریۂ اشتراکیت و سرمایہ دارانہ نظام کی باہمی چپقلش و منافرت کے سبب یہ نظام اپنی ابتدا کے محض ستّرسال کے اندرسوویت روس کے بکھرنے کے ساتھ ہی زمیں بوس ہوگیا، اور دنیا کی معیشت دوبارہ،پہلے سے بڑھ کر ظالم سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل میں جکڑی گئی۔
دُنیا نظامِ سرمایہ کے متبادل کے طور پر صرف اسلام کے نظام معیشت و مالیات کی طرف پُرامید نظروں سے دیکھ رہی ہے کہ موجودہ سودی نظام میں وسائل پیداوار کا یک رُخا بہاؤ اور دولت کے غیر متناسب ارتکاز کا واحد متبادل حل صرف ایک غیرسودی نظام معیشت میں ہی ممکن ہے۔ اسلام میں سود کی حُرمت کی معقولیت کا جواز اور سود کا معاشرے پر پڑنے والے اثراتِ بد کا جتنا واضح ثبوت اس وقت دنیا دیکھ رہی ہے، ماضی میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ سودی نظام کی وجہ سے انفرادی و اجتماعی سطح پر معاشرتی ظلم و استحصال جتنا واضح، اور حقیقی موجودہ دور میں لگ رہا ہے، اس کی حقیقت پچھلے زمانوں میں شاید اتنے کھلے طور پر لوگوں کے سامنے نہ آئی ہو۔ موجودہ دور میں اسلامی معاشیات کے عملی پہلو کے بجائے زیادہ تر کام صرف نظریاتی سطح کا ہی ہو رہا ہے۔ ہمارے محققین نے قدیم و جدید فقہا کے معاشیاتی نظریات و تحقیقات کو منظر عام پر لانے کا کام کیا ہے، جب کہ جدید معاشی مسائل کو جواز کی حد تک اسلامی نظریات کے تابع ہی قبول کیا ہے۔
اسلامی معاشیات ایک مکمل ضابطہ ہے اور اسے مکمل نظام کے طور پر ہی نافذ کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت اسلامی معاشیات کے نام پر جس طرح جدید مالیاتی نظام کا ایک متبادل اسلامی نام کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش ہورہی ہے، وہ ایک مکمل اسلامی ضابطے کے بغیر نافذالعمل نہیں ہوسکتی۔ اسلامی بنکنگ، اسلامی انشورنس، اسلامی بانڈز، بازار حصص اور اسٹاک ایکسچینج جیسے جدید معاشی اور مالی معاملات جو سود کے ساتھ جوئے اور سٹے کے غالب عوامل پر مشتمل ہوتے ہیں، جن کی گنجایش اسلام میں مشکل سے ہی نکل سکتی ہے، اور یہ سارے عوامل اسلام کے مکمل ضابطے کے بجائے صرف ایک متبادل کے طور پر نافذ العمل ہیں، جن کا منبع اور ماخذ جدید سودی بنکاری نظام ہی ہے۔
سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے اندر مجموعی معاشی مدوجزر تواتر کے ساتھ آتےہیں جو کہ پورے نظام معیشت کے لیے ایک نا پائیداری، قیمتوں کے غیر یقینی اتار چڑھاؤ اور شرح منافع میں غیر متوقع کمی کا سبب بنتے ہیں۔ معاشی ناپائیداری سے نجات کے لیے غیرسودی نظام مالیات ہی سب سے بہترین حل ہے، جس میں پیداوار کے وہ عوامل منظر سے غائب ہو جاتے ہیں، جن کی پیداوار کے عمل میں راست حصہ داری نہیں ہوتی۔ اسلامی نظام معیشت درحقیقت غیر سودی بنکاری سےبہت اوپر کی چیز ہے جس کے لیے اسلامی ممالک اور تجارتی اداروں کو غیر ممالک اور بین الاقوامی اداروں سے تمام تجارتی اور غیر تجارتی لین دین بھی اپنی شرائط اور سود و جوئے کے بغیر کرنا ہوگا، جس کے لیے یہ ممالک ابھی ذہنی اور عملی سطح پر تیارنہیں ہیں۔ (مکمل)
حوالہ جات
7. OECD (2021) How Was Life? Vol.II, New Perspectives on Well being and Global Inequality since 1820, OECD Publishing, Paris. www.oecd-library.org/sites
8. PA Samuelson and WD Nordhaus, (1989) Capital Interest and Profit in Economics, McGraw Hill international, 13th ed, pp 717-720.
9 Adam Smith (1776). An Inquiry into the Nature and Causes of Wealth of Nations, Vol I (1 ed) London: W. Strahan, Retrieved 7 December 2012, Vol II. Via Google Books.
دورِحاضر میں دنیا کی اجتماعی سیاست وانفرادی زندگی کا محور کچھ اس طرح معاشی مسائل اور رزق و روزگارکی فراہمی کے پیچیدہ اُمور کے ساتھ منسلک ہو گیا ہے کہ خود انسانی زندگی کی ہرتگ و دو صرف کسب ِمعاش اور مال جمع کرنے تک محدود ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک خواہ وہ ترقی یافتہ ہوں یا ترقی پذیر ، اس وقت جن معاشی مسائل میں سب سے زیادہ الجھے ہوئے ہیں، اور جو انسانی زندگی کا سب سے بڑا المیہ بھی ہے، وہ قدرتی وسائل کی کم ہوتی مقدار اور ان وسائل اور ذرائع پیداوار پر سرمایہ داروں کا قبضہ کرنے کی اندھی ہوس ہے۔اس کے علاوہ غربت کی سطح میں روز افزوں اضافہ، تلاش معاش کے لیے ہنرمندی اور روزگار کے لیے تکنیکی تخصص کی لازمی شرط، پیداوارا ور دولت پر گنتی کے چند افراد کا قبضہ، معیشت میں جاری زر کی وسعت کی وجہ سے پیداشدہ مسائل بھی اس وقت حساس دلوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ ۱؎
ابھی صرف دو صدی قبل تک انسان اور معاشرہ ،خواہ جدید ہو یا روایتی ، اس کے رزق اور روزگار کا ذریعہ صرف قدرتی وسائل، زراعت، زرعی پیداوار کی تجارت اور ان سے جڑی مختلف خدمات کی بجاآوری تک ہی محدود ہوتا تھا۔ دنیا کے ہر حصے میں انسان انھی قدرتی وسائل سےاپنی ہر ضرورت کی کفالت کر لینے کا اہل تھا ، نیز ہر شخص کو کم یا زیادہ ان وسائل تک رسائی بھی حاصل تھی۔ وہ ممالک ہی ترقی یافتہ اور تجارت و حرفت میں آگے تھے، جن کے پاس زرخیز زرعی زمینیں اور دیگر قدرتی وسائل تھے۔۲؎ خود برصغیر ہند کی معاشی تاریخ کے اعداد وشمار اس بات پر شاہد ہیں کہ مغلیہ سلطنت کے آخری دور تک جب متحدہ ہندستان ایک مکمل زرعی اور صرف گھریلو صنعت پر مشتمل معاشی قوت تھا، ۱۸۲۰ء میں اس کی کل قومی آمدنی پوری دنیا کی آمدنی کا ۲۷ فی صد ہوا کرتی تھی اور عالمی تجارت میں ہندستان کا حصہ بھی ۲۴ فی صد کے آس پاس تھا۔۳؎ لیکن اٹھارھویں صدی آتے آتے دنیا میں سائنسی ترقی ، نت نئی مشینوں کی ایجاد اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب نے پوری دنیا میں پیداوار کے تمام وسائل و ذرائع کو مشین اور سرمائے کےساتھ کچھ اس طرح منسلک کردیا کہ اب ان دونوں کے بغیر کسی طرح کی پیداوار، زراعت، تجارت،معاشی جدوجہد اورخدمات کا تصور ہی محال ہے۔
سائنسی و تکنیکی ایجادات اور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں بڑی بڑی مشینیں، کارخانے وجود میں آتے گئے، جنھوں نے وسائل پیداوار کو زمین اور زراعت سے ہٹا کر مشینوں ، کمپنیوں اور بڑے بڑےکارخانوں میں منتقل کردیا ، ملازمت کو ایک جگہ مرتکز اور پورے نظام پیداوار کو ان پر منحصر کردیا۔ نظام معیشت و تجارت جو اب تک صرف قدرتی وسائل، زراعت و تجارت پر منحصر ہونے کی وجہ سے نہایت وسیع البنیاد، متفرق ، مختلف النوع اور صرف انسان کی ذاتی صلاحیت، جسمانی طاقت اور ہنرمندی کا مرہون منت ہوا کرتا تھا، وہ دیکھتے ہی دیکھتے سرمایہ ،کمپنی اور خودکار مشینی نظام کے تحت صرف چند بڑے سرمایہ دار کمپنی مالکان کے تحت ہو گیا۔
دنیا کے جدید معاشی ماہرین نے نظام پیداوار ، تقسیم دولت و آمدنی ، وسائل و ذرائع کے استعمال اور ان کے مساوی اختصاص کے نام پر کچھ طریق کار وضع کیے ہیں، جن کو نظام معیشت کہا جاتا ہے۔ ہر ملک یا معاشرہ اپنے قدرتی وسائل و ذرائع پیداوار کی تقسیم ، پیداوار، خدمات اور آمدنی کی تخصیص و تقسیم کے ساتھ عوام کو روزگار و دیگرعوامی سہولیات بہم پہچانے کے لیے جو طریقۂ کار وضع کرتا ہے، اسے عام زبان میں نظام معیشت یا معاشی نظام کہاجاتا ہے۔ ماہرین نے اس سلسلے میں مختلف اوقات میں دو طریقۂ کار وضع کیے ہیں: پہلا سرمایہ دارانہ نظام اوردوسرا اشتراکی نظام۔
سرمایہ دارانہ نظام میں من مرضی منافع کے تعین کی آزادی کے ساتھ اثاثہ جات کی ذاتی ملکیت اور پسند کے مطابق اشیائے خور و نوش کے انتخاب کی سہولت ہونے کی وجہ سے یہ نظام معیشت عوام میں آسانی سے قبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس وقت یہ پوری دنیامیں اور خاص طور سے دولت مند ممالک اور امیر معاشروں میں مقبول ہے ۔ اس نظام معیشت کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں وسائل پرمالکانہ قبضہ کی آزادی، من مانی قیمتیں اور بے تحاشا منافع کمانے کی ہوس پرستانہ آزادی کی وجہ سے پوری دنیاکے وسائل و ذرائع چند مخصوص سرمایہ دار گروہوں اور طالع آزماؤں کے قبضے میں چلے گئے، جس کی وجہ سے دنیامیں غربت، محتاجی اور غیروں پر انحصار میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ پوری دنیا کا نظام معیشت اس وقت پوری طرح سرمایہ داروں کے چنگل میں ہونے کی وجہ سے عوام کا معاشی استحصال عروج پر ہے، جس سے آزادی کی کوئی صورت موجودہ حالات میں نظر نہیں آرہی ہے۔
پیداواری عناصر کی یہ غیر منطقی اور انسانی فطرت کواخلاقی و مذہبی اقدار کی بنیاد پر جائز و ناجائز سے ماورا قرار دینے والی تقسیم، انسانی فطرت سے میل نہیں کھاتی۔ اسی بنیاد پر استدلال کیا جاتا ہے کہ مذکورہ دونوں نظام معیشت قوانین فطرت کے بنیادی اصولوں کےعین مخالف اور تقسیم وسائل اور نظامِ پیداوار کے قدرتی طریقوں سے بالکل میل نہیں کھاتے۔ مگر طرفہ تماشا دیکھیے کہ یہ دونوں نظام معیشت دنیا میں عدل و انصاف کی بنیاد پر وسائل کی تخصیص ، روزگار کی فراہمی کے ساتھ معاشی پیداوار اور آمدنی کی مساوی تقسیم کادعویٰ کرتے ہیں۔ حالانکہ اپنے ان دعوؤں کے برعکس ان نظاموں نے دنیا کے ہرحصے میں عوام کو صرف اور صرف ظلم، ناانصافی ، عدم مساوات ، قدرتی وسائل پر ناجائز قبضہ اور ارتکازِ دولت کا ہی تحفہ دیاہے۔
اشتراکی نظام انسانیت کے فطری تقاضوں اور انسانی معاشرے کے قدرتی اصولوں کے بالکل خلاف ہونے کے ساتھ ایک فلاحی ریاست کی تشکیل میں بھی پوری طرح ناکام ہوچکا ہے۔ دنیا میں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ معاشی مساوات اور سماجی انصاف کے نام پر اس نظام کے تحت عوام پر ظلم،ناانصافی اور ریاستی جبر کی انتہا کردی گئی تھی ،لیکن نہ تو مبنی بر مساوات تقسیم دولت کا نظام ہی قائم ہوسکا ،نہ ذرائع وسائل پر عوام کو کسی طرح کا تصرف حاصل ہو سکا، اور نہ غربت اور تنگ دستی کے مسائل اوران کی وجوہ پر قدغن لگائی جا سکی۔
بالکل یہی حال اس وقت دنیا میں جاری سرمایہ دارانہ نظام کا بھی ہے جہاں انسانی ہنرمندی اور کام کی صلاحیت کی بنیاد پر حصول روزگار و آمدنی کا ایک مخصوص طریقۂ کار وضع کیا گیاہے۔ آمدنی اوروسائل کی تقسیم میں انصاف و مساوات کا ڈھنڈورا دنیا میں پیٹا جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ قدرتی وسائل، عوامی دولت اور ذرائع پیداوار کا چند بااثر افراد کے ہاتھوں میں ارتکاز اور اس کے ذریعے عوام پرمعاشی ظلم واستحصال کا پورا نیٹ ورک ہے، جس میں عام آدمی پرفکری جبر و معاشی تسلط نافذ کردیا گیا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں فی الوقت پوری دنیا جکڑی ہوئی ہے۔ قدرتی وسائل پر قبضے کے ساتھ دولت و سرمایہ کا ارتکاز اس حد تک وسعت اختیار کر گیا ہے کہ عام آدمی کی نجی زندگی اور مسائل روزگار کے ساتھ اس کی قوت فیصلہ وعمل بھی چند بڑے سرمایہ داروں اورصنعت کاروں کےپاس گروی اور ان کے زیر دست ہے۔۴؎
اس وقت دنیا بھر میں ایک طرف روزگار کے ذرائع کم ہوتے جارہے ہیں جس کی وجہ سے عوام میں غربت لگاتار بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف سرمایہ داروں و صنعت کاروں کی دولت میں بے انتہا اضافہ ہوتا جارہا ہے، لیکن ستم ظریفی یہی ہے کہ مساوی حقوق اور سماجی انصاف کے نام پر معاشی ظلم اور انسانیت کا استحصال بھی اپنے عروج پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اشتراکیت جو ۷۰برس بعد خود اپنے مراکز میں موت کے گھاٹ اُتر گئی، اور سرمایہ داری دونوں نظام صرف انسانی ہوس پرستی پر مبنی ہیں، اور کسی جواب دہی کے احساس سے بالکل آزاد ہونے کی وجہ سے کہیں معاشی انقلاب کے نام پر دستوری ہیر پھیر سے، تو کہیں سرمائے اور دولت کی طاقت سے معاشی وسائل پر قبضہ کرتے ہیں اور عوام کو آزادئ فکر و عمل کے سبز باغ دکھا کرمعاشی غلام بنانے پر کمر بستہ رہتے ہیں۔
یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی ، یہ بحث و تکرار کی نمایش
نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمایش
تری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر
خطوطِ خم دار کی نمائش ، مریز و کج دار کی نمایش
جہانِ مغرب کے بت کدوں میں، کلیسیاؤں میں، مدرسوں میں
ہوس کی خوں ریزیاں چھپاتی ہے عقلِ عیّار کی نمایش
علامہ محمد اقبال نے ان اشعار کے ذریعے تمام انسانوں کو خبردار کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ تمام کے تمام جدید معاشی نظریات صرف مال و جائیداد اکٹھا کرنے کے لیے انسانی ہوس کو عقلی و نقلی پردے میں لپیٹ کر عوام کا دھیان بٹانے کی کوشش ہے۔ یہی چیز جدید معاشی نظام کی سب سے بڑی خصوصیت بن کر سامنے آتی ہے کہ وسائل پیداوار اورانسانی سرمایہ کو اس طرح سے اپنے قبضہ میں لیا جائے کہ عوام کو یہ محسوس ہوتا رہے کہ یہ ان کی فلاح و بہبود اوربہتر زندگی کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن پس پردہ مقصد انھیں غلام بنانے اور وسائل پر چند مخصوص لوگوں کےقبضے کو قائم رکھنے کا ہے۔
وَفِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۱۹ (الذاریات ۵۱:۱۹)ان کے مالوں میں سائلوں اور ناداروں کا حق ہے۔
قرآن کریم میں یہ اور اس طرح کی دیگر آیات مسلسل اس بات کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ اس دنیا میں انسان کے پاس جوبھی مال و دولت اور جائیداد و سرمایہ ہے وہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے اور اس دولت میں ان تمام لوگوں کا حق اور حصہ ہے جو اللہ کی اس عطا سے محروم ہیں۔ اسلامی نظام میں قرآن اور حدیث کے یہی احکامات اجتماعی فلاح کی ضمانت سمجھے جاتے ہیں۔
جب ہم ذاتی اغراض، منفعت اور استحصال سے پُرموجودہ نظام معیشت کا متبادل تلاش کرنا چاہتے ہیں تو ایک طرف ہمارے پیش نظر سرمایہ دارانہ نظام میں موجودملکیت، منفعت اور بے لگام خواہشات پر بند باندھنا ہوتا ہے۔ دوسری طرف ان عناصر سے بھی معاشرے کو پاک کرنا ہوتا ہے، جہاں معاشی افعال و حرکات کو اپنی پسند و ناپسند کے مطابق جاری رکھنے کے لیے وسائل کی اجتماعی ملکیت کی حوصلہ افزائی پر بھی قدغن لگا دی جاتی ہے۔اس لیے ان دونوں نظامہائے معیشت سے الگ معاشیات کا ایک ایساطریقۂ کار ہم پیش کر سکیں جس میں چند لوگوں کے ذاتی مفاد اور بے حساب منافع کے لیے انسانوں کا استحصال نہ ہو رہا ہو اور ساتھ ہی وسائل ، پیداوار اور آمدنی کی منصفانہ تقسیم کو بھی یقینی بنایا جاسکے۔
معاشرے میں جاری معاشی ناہمواری کے ان نو آمدہ مسائل کو حل کرنے، وسائل و مواقع میں مساوات کی فراہمی ، ازالۂ غربت اور آمدنی و دولت کی منصفانہ تقسیم کے نام پر اشتراکیت نے نجی ملکیت کے بجائے اجتماعی ملکیت ، منافع کی جگہ خدمات کے تناسب سے مزدوری اور نظام معیشت میں فیصلہ کن عنصر بازار کے عوامل کی جگہ حکومتی احکام کی بالا دستی کا فارمولا دیا۔ لیکن صنعتی معاشرے میں جاری معاشی ناہمواری، معاشرتی استحصال اور حکومتی جبر پرقدغن لگانے اور مبنی برمساوات ایک عادلانہ نظام معیشت برپا کرنے میں کارل مارکس کا سوشلزم بھی یکسر ناکام ہوگیا۔
دنیا میں جہاں بھی یہ نظام نافذ کیا گیا وہاں معاشی ظلم و استحصال کاعروج اور حکومتی جبر کی انتہا دیکھنے میں آئی، جس نے عوام کی قوت فیصلہ و عملی صلاحیت کو بھی کافی حدتک متاثر کردیا اور یوں یہ نظام بھی معاشرے اور معیشت کے تئیں ایک تازیانہ ہی ثابت ہوا۔ اس نظام معیشت کی ناکامی کی واضح مثالیں سوویت روس اور مشرقی یورپ کے ساتھ چین ، وینزویلا ، جیسے کئی ممالک تھے، جہاں اس جابرانہ نظام کی وجہ سے معیشت بری طرح ناکام ہوئی، اور بالآخر ان ملکوں کے ساتھ ہی دیگر ممالک نے بھی اس نظام کو عملی طور پر خیر باد کہہ دیا، اگر چہ نظریاتی طور پر بائیں بازو کے دانشوروں کا ایک طبقہ اس کی بازیافت ِنو کے لیے کوشاں ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر پیداوار اور تقسیم آمدنی کے غیر فطری طریقۂ کاراور کمزور طبقات کے استحصال کو روکنے اور اس سے باہر نکلنے کا واحد متبادل اشتراکی نظام معیشت ہے ، لیکن یہ نظریاتی دانشور بھی اس سمت میں عملی طور پر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔۵؎
مذکورہ دونوں نظامہائے معیشت، خواہ وہ آنجہانی اشتراکیت ہو یا پژ مُردہ اور خون خوار سرمایہ داری، سبھی تقسیم دولت کے منصفانہ نظام کی عمل داری ، وسائل پر مساوی حقوق ، مواقع میں ہرکس و ناکس کی برابری، ازالۂ غربت اور استحصال سے پاک ہونے کاپر فریب نعرہ بلند کرتے رہے لیکن احتساب اور جواب دہی کے فقدان کے ساتھ نظام کے اندر موجود ظلم اور نا انصافی کے بنیادی ماخذ کو ختم کرنے یا اس پر کاری ضرب لگانے کا کوئی عملی نمونہ پیش کرنے سے یکسر قاصر رہے۔ اشتراکیت نے مساوات کے نام پر نجی اور ذاتی ملکیت کے حق پر مکمل پابندی لگادی، روزگار اور تجارت میں انسان کی مرضی اور پسند کے بجائے نظام کے تحت دیئے گئے وسائل اور مواقع کی پابندی لازمی قرار دی گئی، اور اس ناقابل عمل پابندی اور غیر عملی مساوات کا نتیجہ دنیا کے سامنے جہاں اس نظام کے مکمل خاتمے کی صورت میں ظاہر ہوا ، وہیں سرمایہ داری نے انسانی حقوق، جنسی مساوات، حق ملکیت اور لامحدود منافع کی آڑ میں معاشی ذرائع اور قدرتی وسائل پر چند مخصوص گروہوں کے قبضے کی راہ آسان کرکے پوری بنی نوع انسانیت کو چند طالع آزماؤں کے یہاں گروی رکھ دیا۔
دورِحاضر میں ترقی کا صرف ایک رہنما اصول ہے کہ انسانی آبادی کے چند مخصوص گروہوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اشیائے تعیش کی فراوانی ہونی چاہیے اور اس کے آسان تر حصول کو یقینی بنانے کے لیے دنیا کے تمام وسائل و ذرائع پیداوار پر چندطاقت ور عناصر کا مکمل کنٹرول ہونا چاہیے، خواہ اس کے لیے معاشی ظلم و ناانصافی کوکتنا ہی فروغ دینا پڑے۔ پیداواری حقوق و مواقع کی مساوات، معاشی وسائل کو متحرک کرنے کا عقلی و منطقی جواز اور تقسیم دولت کےعادلانہ طریقۂ کار کا دعویٰ سبھی کرتے ہیں، لیکن موجودہ وقت میں دنیا کے کسی بھی معاشی نظام کے اندر یہ خصوصیات موجود نہیں ہیں۔
دنیا کے تمام ماہرین معاشیات نے اشتراکیت اور سرمایہ داری، دونوں نظاموں کا مشاہدہ اور عملی تجربہ کیا ہے اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ازالۂ غربت، معاشی عدل و انصاف کے اجتماعی نفاذ اور عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے متعلقہ مقاصد کے حصول میں مذکورہ معاشی نظامِ معیشت یکسر ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام انسانیت کے فطری تقاضوں اور قانون قدرت کے ثابت شدہ اصولوں کے برعکس صرف چندمعروضی نظریات اور سماجی متبادل کی بنیاد پر معاشی و سماجی انصاف کی راہ ہموار کرنے کے خوگر ہیں، لیکن حقوق و فرائض کی منصفانہ بجا آوری اور پیداواری مواقع کی عادلانہ تقسیم کی راہ میں حائل بنیادی رکاوٹوں اور عوامل پر کام کرنے سے یکسر گریزاں ہیں۔
موجودہ دور میں چند زر پرست حکمرانوں اور ہوس پرست نظریہ سازوں کاسماجی انصاف اور جنسی مساوات کا پر فریب نعرہ نظامہائے معیشت و سیاست میں صرف گنتی کے کچھ افراد کی ذاتی خواہشات کی تکمیل اور ذوق حکمرانی کا آسان ترین راستہ ہے، جس میں انسانی اخلاق و کردار کی بلندی اورانسانیت کی فلاح و ترقی کے بجائے صرف نفسانی خواہشات اور دنیاوی لذتوں کے حصول کو ہی تمام انسانی تگ و دواورمحنت و مشقت کا حاصل قرار دے دیا گیا ہے اور ان لذتوں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے معاشی قوانین اورنظریات وضع کیے جاتے ہیں۔
دوسری طرف عالمی سطح پر جاری سودی نظام مالیات و معاشیات نے اپنے بنائے ہوئے اداروں: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) ، عالمی بنک، عالمی تجارتی تنظیم اور اس جیسی دوسر ی تنظیموں کے ذریعے پوری عالمی معیشت کے نظامِ پیداوار اور تقسیمِ آمدنی و دولت کے طریقۂ کار کو سودی نظامِ مالیات سے اس طرح گھیر رکھا ہے کہ کوئی ملک یا ادارہ اس کے بغیر تجارت ، ترقی اور معاشی تفوق کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ بنکوں کے ذریعے بظاہر آسان مالیات کی فراہمی ، تجارتی قرض اور مخصوص شرحِ سود پر مبنی سرمایہ کاری اور پیداوار موجودہ معاشی نظام کا ایک ایسا تارِ عنکبوت ہے جو دیکھنے میں بظاہر کمزور نظر آتاہے، لیکن جو بھی ایک بار اس نظام کی پکڑ میں آ گیا اس کی نجات بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد کا عالمی معاشی نظام کچھ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ کوئی بھی ملک، خاص طور سے غریب اور ترقی پذیر ممالک، جن کی دنیا میں اکثریت ہے، اس سے گلوخلاصی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔۶؎ یہی وجہ ہے کہ عالمی تجارت میں تبادلے اور ادائیگی کے لیے ڈالر کی مکمل اجارہ داری، جس سے عالمی تجارت میں امریکا کا دبدبہ قائم ہے، اور پوری دنیا میں تیزی سے اپنے دائرۂ کار کووسعت دیتا ہوا سودی سرمائے کا جال اور اس پر منحصر دنیا کا نظام پیداوار جو ارتکازِ دولت و سرمایہ، معاشی ناانصافی، عدم مساوات اور معاشی ظلم کی بنیاد ہے ، اس کو چیلنج کرنے کی حیثیت میں دنیا کاکوئی بھی ملک نہیں رہ گیا ہے۔ (جاری)
1. Top Ten Global Economic Challenges :An assessment of Global Risk and Priorities 2007, Report presented by Brookings Global Economy And Development, http://www. brookings.edu/ research/ amp.
2. Economic Changes in 18th Century, http://www.blinklearning.com/course player/class.
3. Angus Maddison, The World Economy, p 379, table A4.
4. T R Jain, Economic Systems and Problems of Resource Allocation “, in Principles of Economic Analysis VK Global Publications, pp 371-383.
5. Niemietz, Kristian, Socialism: The Failed Idea that Never Dies. http://www.forbes.com/
6. Business Standard,January 31, 2022. http://www.business-standard.com