جنوبی ایشیا میں ۸۰۰ء سے لے کر۱۴۰۰ء تک ہندوئوں نے اسلام کے پھیلائو کو روکنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کیے۔ ہندو ذہن کا ایک جوابی پروگرام یہ تھا کہ مسلمانوں کو کسی طرح مقامی مذہب میں مدغم کر دیا جائے، لہٰذا بارھویں صدی میں رامانج، آنندتیرتھ، وشنوسوامی وغیرہ نے بھگتی تحریک (Bhakti Movement) کا آغاز کیا۔ اس کے پرچاروں نے ایسے خیالات کا پرچار کیا کہ ’’آسمانی مذاہب سب ایک ہیں، ان کا منبع ایک ہے اور تعلیمات بھی ایک ہیں، لہٰذا کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ’رحمان‘ کہہ کر ’اللہ‘ کو پکارے یا ’رحیم‘ کہہ کر، ’پرماتما’ کہہ کر یا ’بھگوان‘ کہہ کر، ’یزدان‘ کہہ کر مخاطب کرے یا ’ایشور‘ کے نام سے ہم کلام ہو، لہٰذا تمام مذاہب کی یکساں پذیرائی ہونی چاہیے اور سب کو ایک دوسرے کا احترام کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا چاہیے اور تنقید و تنقیص کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے‘‘۔خدانخواستہ یہ گمراہ کن تحریک کامیاب ہوجاتی تو مسلمانوں کے نام کے ساتھ کرشن، سنگھ اور دیگر الفاظ کے سابقے، لاحقے نظر آتے جیسے آج کل بھارت میں شروع ہوچکا ہے۔
بلاشبہ بھگتی تحریک کے سیلاب میں کئی بڑی شخصیات بھی بہہ گئیں اور مسلمانوں میں سے بھی کئی شخصیات نے اس کا پرچار کیا۔ سکھ مذہب کا آغاز اسی کی ایک معین شکل تھی، جو مسلمانوں کو سیاسی سطح پر کمزور کر کے حکومت سے بے دخل کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ سکھوں کے تمام گرو تو مسلمان حکومتوں سے ہمیشہ ٹکراتے رہے اور اکثر وبیش تر شکست کھاتے رہے (آخری سکھ گرو، گوبند سنگھ [۱۶۶۶ء-۱۷۰۸ء]اورنگ زیب عالم گیر [۱۶۱۷ء-۱۷۰۷ء] کے دور میں مارا گیا)۔ اسی لیے مسلمان، سکھوں سے دُور بھی رہے لیکن اس تحریک کے زیراثر بہت سے لوگ صوفیہ کے رُوپ میں اس فلسفے کو قبول کرکے اس کے پرچارک بن گئے۔
مسلمانوں کی دوسری ہزاری (۱۵۹۶ء یا۱۰۰۰ھ) کے لگ بھگ اس تحریک نے زور پکڑا اور مسلمانوں ہی میں سے جلال الدین اکبر [۱۵۴۲ء-۱۶۰۵ء]جیسا حکمران پیدا ہوا، جس نے ’دین الٰہی‘ کو جاری کرکے اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب کو ’خوش‘ کر دیا۔ اگرچہ ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ انھوں نے اکبر کی شکل میں مسلمانوں کو رام کرلیا تھا۔ تاہم یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اکبر نے اس بھگتی تحریک کا اثر قبول کرکے تمام حکومت مخالف عناصر کو ساتھ ملا لیا اور اپنی سلطنت کو دوام بخشا۔ مگر اس کا جانشین جہانگیر [۱۵۶۹ء-۱۶۲۷ء] جلد ہی اس تحریک کے طلسم سے باہر آگیا۔
جہانگیر کے بعد اُس کے بیٹے شاہ جہاں [۱۵۹۲ء-۱۶۶۶ء]نے تقریباً ۳۰سال حکومت کی۔ اپنے آخری برسوں میں جب و ہ بیمار ہوا تو اس کے علاج میں مقامی طبیبوں کو کوئی کامیابی نہ ہوئی۔ اس دوران دہلی میں موجود ایک یورپی ڈاکٹر نے پیش کش کی، اگر اسے علاج کا موقع دیا جائے تو وہ علاج کرسکتا ہے ۔ اس نے بادشاہ کی مختصر سی جراحی (Operation)کی اور بادشاہ صحت مند ہوگیا، جس پر شاہ جہاں نے اُسے مشرقی بادشاہوں کی روایت کے مطابق کہا: ’’مانگو جومانگتے ہو؟‘‘ اور اس نے انعام کے طور پر صرف یہ مانگا کہ ’’ہم پردیسی لوگ ہیں۔ تجارت کی غرض سے آئے ہیں، منافع زیادہ نہیں ہے، ہمیں مقامی ٹیکس (Import Tax) اور درآمد پر سامان کی پڑتال (checking) معاف کردی جائے‘‘۔ بادشاہ نے سادگی میں اس بات کی منظوری دے دی، جس سے یورپی تاجروں کے لیے اسلحہ لانے کے راستے کھل گئے اور انھوں نے جلد ہی اپنی آبادیوں اور تجارتی مراکز اور گوداموں کو اسلحے سے بھر دیا اور ہندستان پر سیاسی تسلط اور قبضے کے خواب دیکھنے شروع کر دیے۔
ایک عرصے سے سیکولر حضرات اس کوشش میں سرگرداں چلے آرہے ہیں کہ چیدہ چیدہ تاریخی واقعات کو اُن کے سیاق و سباق سے جدا کرکے مسلمانوں کی تاریخ کو نئے سرے سے لکھیں، تاکہ من پسند نتائج اخذ کیے جاسکیں۔ اس سارے عمل میں منطقی مغالطہ آمیزی اور بے انصاف ذہن کے اُلجھے ہوئے دلائل کے ساتھ ایک موقف تیار کیا جاتا ہے، تاکہ سیکولر ایجنڈا آگے بڑھ سکے۔
قتلِ تاریخ کے مرتکب ایسے افراد تاریخ میں تحریف بھی کر گزرتے ہیں، تاکہ لوگوں کے دلوں میں اپنے تاریخی ورثے پر شرمندگی اور اس سے نفرت پیدا ہو، اور ماضی سے اُن کا رشتہ کٹ جائے ۔اگر آج کی نسل ماضی کے لوگوں کا تسلسل ہے (جو یقینی ہے)، تو ان کی توہین کے لیے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ ’’آپ کا ماضی کچھ بھی قابلِ فخر نہیں‘‘۔ یہ ساری کوشش صرف اس لیے ہورہی ہے کہ عام لوگوں کی عزّتِ نفس مجروح ، اور تاریخ سے عرفان حاصل کرنے سے محروم رہیں۔
اورنگ زیب کے وجود پر ہندو اور مغربی مؤرخین ایک عرصے سے حملہ آور ہیں۔ خود مسلم معاشرے کے اندر سے یہ وار اُن سیکولر حضرات کی طرف سے ہوا ہے، جن کے نام مسلمانوں ہی جیسے ہیں۔ ان کے دانش ورانہ فتوے کے مطابق: ’’اورنگ زیب عالم گیر کے کردار کا کمزور ترین پہلو اُس کا اپنے بھائیوں کے خلاف ظالمانہ طرزِعمل اور اپنے باپ شہاب الدین محمد شاہ جہاں کو بند ِ اسیری میں ڈالنا تھا‘‘۔
یہ حقیقت ہے کہ اورنگ زیب عالم گیر کے تین بھائی جان سے گئے اور والد شاہ جہاں، آگرہ قلعہ کی تنہائی میں مقید رہے۔ لیکن ان واقعات کو پورے پس منظر سے جدا کرکے دیکھنا قطعاً غلط اور ایک بے ثبوت مقدمہ ہے۔ اورنگ زیب کو ایسا کرداربنا کر پیش کرنا، جس کے سر پر ظلم و ستم کا بھوت سوار تھا،یا وہ غیرمعمولی طور پر ہوس اقتدار میں مبتلا تھا، جس کی وجہ سے اُس نے یہ سب کچھ کرڈالا___! اگر اورنگ زیب کا کردار باقی ہرلحاظ سے اُجلا اور بے داغ تھا تو ہم اس کے دامن پر بظاہر یہ دھبے کیوں دیکھ رہے ہیں؟ یا اُسے کس بات نے مجبور کیا کہ باپ اور بھائیوں کے لیے وہ سخت رویہ اپنائے، جس کا اُسے الزام دیا جاتا ہے؟
یہ وہ بنیادی سوالات ہیں، جن کا جواب ڈھونڈنا چاہیے۔ لیکن اصل حقیقت تک پہنچنے کی کدوکاوش تو درحقیقت سیکولر حضرات کا مقصد اور مُدعا ہی نہیں۔ ان کا تو ایک ہی ہدف ہے ، اور وہ یہ ہے کہ اس طریقۂ واردات سے مطلوبہ نتیجہ کیسے حاصل کیا جائے؟ سچ اگر قتل ہوتا ہے تو ان کی بلا سے۔ ڈاکٹر محمد اقبال [م: ۱۹۳۸ء] اپنے مجموعۂ کلام اسرار و رُموز کی ایک عظیم نظم ’حکایتِ شیروشہنشاہ عالم گیررحمۃ اللہ علیہ‘ میں ان یک چشم متنفرین کو ’کورِ ذوقاں‘ کا نام دیتے ہیں کہ انھیں اورنگ زیب کے کمالات نظر نہ آئے اور اُنھوں نے قصے کہانیاں گھڑ لیں۔ اقبال فرماتے ہیں:
کورِ ذوقاں داستان ہا ساختند
وسعتِ ادراک او نشناختند
شعلۂ توحید را پروانہ بود
چوں براہیم اندریں بت خانہ بود
درصفِ شاہنشہاں یکتا ستے
فقرِ او از تربتش پیداستے
بے سمجھ لوگوں نے اس کے بارے میں کئی کہانیاں گھڑ لیں۔ وہ اس کی ذہنی وسعت کے اُفق کا اندازہ نہ کرسکے۔وہ شمعٔ توحید کا پروانہ تھا، وہ بُت خانۂ ہند کے ابراہیم ثابت ہوئے۔ وہ شہنشاہوں کی صف میں منفرد شان رکھتے ہیں، اور ان کا فقر اُن کی قبر سے ظاہرہے۔
اورنگ زیب پر یہ الزام کہ اُس نے اپنے باپ کو قید میں رکھا، جزوی طور پر ہے۔ واقعات کے اعتبار سے یہ سب کچھ اب تاریخ میں مدفن ہے۔ یہ کہنا کہ یہ واقعات ہوئے ہی نہیں، علمی لحاظ سے نادرست اور غیرمنصفانہ ہوگا۔
اورنگ زیب عالم گیر کے متعلق ان تصورات کا زیادہ بڑ ا حصہ فرانسیسی سیاح اور معالج فرانسوا برنیئے [۱۶۲۰ء-۱۶۸۸ء، Francois Bernier] جیسے لوگوں کی عطا ہے، جو اسلام سے اپنے بُغض و عداوت اور عیسائیت کی طرف داری میں بہہ جاتے ہیں۔ یہ یک چشمی رویہ ہرچیز کے متعلق ان کے نقطۂ نظر کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے، سوائے اس کے جو اُن کے خیال میں عیسائیت کے لیے مفیدمطلب ہو۔ مثال کے طور پر برنیئے، بادشاہ سلیم جہانگیر اور داراشکوہ کی بڑی تعریف کرتا ہے، کیونکہ اس کا خیال تھا کہ ’’یہ دونوں عیسائیت کی طرف مائل تھے‘‘۔
برنیئے جو داراشکوہ کا طبیب رہا تھا، اپنی کتاب Voages dans les Etats du Grand Mogol (۱۷۱۰ء) [انگریزی ترجمہ: Travels in The Mogul Empire] میں اس کی دل کھول کر تعریفیں کرتا ہے اور اپنے پڑھنےوالوں کو یہ تاثر دیتا ہے کہ ’’دارا کو بس عیسائی ہی سمجھا جائے‘‘۔ وہ دارا کے عیسائیت کی طرف جھکائو کو ریورنڈ ہنری بُوزی (Reverand Buzee)سے نیازمندانہ تعلقات کا نتیجہ سمجھتا ہے، جس نے اُسے عیسائیت کی تعلیم دی تھی اور بہت سے عیسائی توپچی بھی مہیا کیے تھے، جن سے اس کا توپ خانہ تیار ہوا۔
برنیئے کے سفرناموں کا مدیر آرچی بالڈ کانسٹیبل (Archibald Constable)، فرانسس کاٹروو (Francis Catrou) کی ’ہندستان میں مغل خاندان کی تاریخ‘کی سند کے ساتھ، جو ۱۸۲۶ء میں لندن سے شائع ہوئی، یہ اضافہ کرتا ہے کہ ’’اگر ریورنڈ ہنری بُوزی کے مشوروں پر عمل کیا جاتا تو قطعی ممکن تھا کہ عیسائیت بہت پہلے تخت ِ [دہلی] پر براجمان ہوجاتی‘‘۔ اسلام سے عداوت کا اظہار کا موقع سامنے آئے تو برنیئے ساری احتیاط بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔ اس کے نزدیک: ’اسلام ایک ’توہم پرستی‘ہے۔ ایک ’مہلک اور تباہ کن مجموعۂ قوانین‘ ہے، جو تلوار کے زور پر نافذ ہوا، اور اب بھی اُسی ظالمانہ تشدد کے بل پر انسانیت پر مسلط ہے‘۔
جہانگیر بھی عیسائیت پر اپنے بیانات کی وجہ سے برنیئے سے تائیدی سند حاصل کرلیتا ہے۔ برنیئے کہتا ہے کہ بسترمرگ پر جہانگیر نے ’’ایک عیسائی کی موت مرنے کی تمنا کی تھی… آرچی بالڈ کانسٹیبل ، کیٹو سے مستعار ایک اور کہانی بھی سنانے میں کمال درجے کی جلدبازی کا سہارا لے کر کہتا ہے کہ ’’جہانگیر بعض کھانوں پر اسلامی شرعی قدغنوں سے تنگ آگیا تھا اور اسی لیے اُس نے یہ جاننا چاہا کہ ہرقسم کے کھانے پینے کی بے قید آزادی کس مذہب میں ہے؟ علما نے اسے بتایا کہ ایسا صرف عیسائی مذہب میں ممکن ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا:’’پھر تو ہم سب کو عیسائی بن جانا چاہیے‘‘۔
برنیئے کو اورنگ زیب کا تقویٰ ایک ظاہرداری چیز لگا۔ اس اندازِفکر کو اورنگ زیب کے کردار کاموضوعی (Subjective) مطالعہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ برنیئے نے لفظ felt استعمال کیا، جو ایک قیاسی اور ثبوت طلب چیز ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق انسان کی سوچ کے مخفی گوشے سے ہے، جس کا باہر سے نہ مشاہدہ ہوسکتا ہے نہ تصدیق۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ بات جس کا تعلق اورنگ زیب سے بنتا ہے، پہلے ان مغربی قلم کاروں کے ذہن سے کشید ہوکر آتی ہے، جہاں اسے مخصوص معنی پہنائے جاتے ہیں، تاکہ وہ ایک چالاک منصوبہ ساز نظر آئے، جو شارک مچھلی کی طرح اپنے شکار کا بے رحمی سے پیچھا کرتا ہے۔ اگر ہم یہ مان لیں کہ برنیئے میں ایسی کوئی پُراسرار اہلیت موجود تھی کہ وہ اورنگ زیب کے ذہن میں جھانک لیتا تھا، تب بھی اس کے مشاہدات کا اُن حقائق سے کوئی تال میل نہیں بنتا، جوہمیں اورنگ زیب کے مکتوبات میں نظر آتے ہیں، اور جنھیں موصوف سیاح اپنے مقصد کے لیے منتخب طور پر استعمال کرتا ہے۔ نتیجتاً اس کی تاریخ نویسی ذاتی تعصب کے اظہار میں بدل جاتی ہے۔
سچائی تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تینوں کرداروں: شاہ جہاں، دارشکوہ اور اورنگ زیب کے طرزِعمل کا جائزہ لیتے ہوئے یہ پیش نظر رکھیں کہ کیا مغلیہ دور میں ولی عہدی کی کوئی پالیسی موجود تھی؟ اپنے بڑے بیٹے داراشکوہ کے ساتھ شاہ جہاں کا طرزِعمل کیسا تھا؟ شاہ جہاں کا اپنے تیسرے بیٹے اورنگ زیب سے رویہ کیسا تھا، اور داراشکوہ کا اپنے بھائیوں سے سلوک کیسا تھا؟ اُس وقت کا عمومی سیاسی و سماجی ماحول کیسا تھا؟ کیا کوئی دھڑے بندی موجود تھی، جو مخالف مذہبی کیمپوں میں مجتمع ہوگئی ہو؟ کیا دونوں کیمپ خاموش بیٹھے تھے، یا آپس میں دست و گریباں تھے؟ شاہجہانی دربار کے اہل الرائے ، علمائے کرام اور عام لوگ اس سارے معاملے کو کیسے دیکھ رہے تھے؟
یہ سارے پہلو جواب طلب ہیں، کیونکہ ان کے بغیر تاریخ کے اس اہم دور اور اُس میں ملوث ان باپ بیٹوں کا کردار دُھند سے باہر نہیں نکلے گا۔ شاہ جہاں ہو یا کوئی دوسرا مغل حکمران ، ولی عہدی کے ضمن میں ان کے ہاں کوئی باقاعدہ پالیسی نہیں تھی۔ اسی طرح یہ روایت بھی موجود نہیں تھی کہ باپ کی گدی پر لازماً بڑا بیٹا ہی براجمان ہوگا۔
شاہ جہاں بالکل اچانک بیمار پڑا اور وہ حکمرانی کی باگ تھامے رکھنے کے قابل نہ رہا۔ اپنی بیماری سے برسوں پہلے اپنی اولاد کی حکمرانی کی صلاحیتوں پر ایک درباری سے بات کرتے ہوئے اس نے داراشکوہ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا، جب کہ اورنگ زیب کے متعلق اُس نے مثبت رائے دی۔ بے شک اس کا دل دارا کے ساتھ تھااور عقل کا فیصلہ اورنگ زیب کے حق میں تھا، لیکن بالآخر دلی جذبات نے عقل و خرد کو چت کر دیا۔
شاہجہاں نے بیش تر وقت دارا کو دربار سے قریب رکھا، جب کہ اس نے دوسرے بیٹوں کو صوبوں کی گورنری اور انتظامی اُمور میں مشغول رکھا۔ باپ بیٹے کے قرب و تعلق کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ داراشکوہ ذاتی طور پر ایک پُرکشش انسان تھا۔ اس کا رکھ رکھائو، علم و ادب سے اس کا لگائو اور اس کی دلچسپ صوفیانہ حکایت گوئی، جو اس میں صوفیہ اور ہندو جوگیوں کی صحبت سے پیدا ہوئی تھی۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ، لیکن اس سب کے باوجود اپنے مزاج و اَطوار کی مناسبت سے وہ اُمورِ سلطنت کے لیے نہیں بناتھا۔ ذہنی صلاحیتیں ہوں یا جسمانی خوبیاں، اس کا اورنگ زیب سے کوئی تقابل نہ تھا۔
داراشکوہ ،آزاد خیال بھی تھا اور مذہبی معاملات میں اکبری پالیسی کا پیروکار بھی تھا اسے ہندو دانش وروں اور مذہبی پنڈتوں نے گھیرا ہوا تھا۔ ایک مسلم معاشرہ، جو ہندو انڈیا میں اپنی شناخت اور بقا کے حوالے سے روزافزوں پریشانی کا شکار تھا، اس میں وہ مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول کردار نہ تھا۔ اِن احساسات کو حضرت مجدد الف ثانیؒ [۱۵۶۴ء-۱۶۲۴ء]کی تجدیدی تحریک مزید پروان چڑھا رہی تھی۔ مسلمان عوام سمجھ رہے تھے کہ دارا اگر اقتدار میں آیا تو یہ ان کی بربادی کا پیغام ہوگا۔ داراشکوہ کے ذہن میں بچپن ہی سے یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ وہ مستقبل کا حکمران ہے۔ پیار، محبت اور نیازمندی کا جو ہالہ اس کے گرد موجود رہا، اس میں اُس کی اُٹھان ایک اَناپرست، خوشامدپسند اور بڑبولے انسان کے طور پر ہوئی۔ ماحول کی ساری سازگاری کے باوجود وہ خود اعتمادی سے عاری اور داخلی سطح پر ایک مضطرب و مذبذب انسان تھا۔
حسد اور خوف کے جذبات اس کےدماغ میں جنم لیتے اور ظاہری زندگی میں اُبھرتے رہے۔ وہ یہ حقیقت نہ سمجھ سکا کہ اصل مسئلہ خارج میں نہیں بلکہ خود اس کے اندر اُس کی ذات میں پیوست ہے۔ اپنے چھوٹے بھائی اورنگ زیب کی شکل میں وہ اپنی شکست دیکھ رہا تھا۔ اورنگ زیب کی فوجی فتوحات،انتظامی کامرانیاں اور اس کے مقابلے میں اپنی ڈھل مِل کیفیت اورسرکاری اُمور میں بُری کارکردگی کے زیراثر وہ اعصابی تنائو کا شکار ہوتا چلا گیا۔ اس کی اس ذہنی حالت کا اظہار اُن سازشوںسے ہورہا تھا، جو وہ اپنے چھوٹے بھائی کے خلاف کر رہا تھا۔داراشکوہ کو اسی راستے میں عافیت دکھائی دی کہ باپ کی محبت،قوت اور وسائل کے ساتھ مضبوطی سے جُڑا رہے، اور باپ کو دوسرے بیٹوں سے بدظن کرکے دُور رکھے۔ اس مقصد کے لیے اُس نے اورنگ زیب کی بھیانک تصویرکشی کرتے ہوئے یہ تاثر گہرا کیا کہ وہ آگے بڑھنے کے مرض کا شکار ہے اور یہی عزائم اُسے مجبور کررہے ہیں کہ بغاوت کی آبیاری کرے ، اور جسے اپنے ماں باپ کی کوئی فکر نہیں۔
پھر مذہب اور ثقافتوں کے حوالے سے داراشکوہ کا طرزِعمل، ہندو اشرافیہ کے لیے جذباتی اپیل رکھتا تھا۔ وہ دارا کی شکل میں اکبر بادشاہ کا دوسرا جنم دیکھ رہے تھے کہ جس کی تخت نشینی سے آخرکار اسلام مقامی اثرپذیر ثقافت میں اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔ اسی لیے انھوں نے اپنا سب کچھ دارا پر لگادیا تھا۔ چنانچہ ہم اس صورتِ حال میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، وہ مسخ شدہ نفسیات، طاقت کے کھیل، اندھی محبت اور ایک اُبلتا ہوا فکری لاوا ہے۔ جب پس منظر میں یہی تصویر دکھائی دیتی ہے تو مذکورہ شخصیات، اورنگ زیب اور دوسرے لوگوں کے عزائم کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
سب سے پہلے برنیئے کے اس الزام کو لیتے ہیں:’’جب اورنگ زیب نے ابتدائی زندگی میں دکن کی گورنری چھوڑنے کی آرزو کی تو اس کے پیچھے اخلاص نہیں تھا بلکہ یہ باپ اور بھائیوں کو اقتدار اور حکمرانی کے منظر سے ہٹاکر سلطنت ہتھیانے کی تدبیر تھی۔ وہ اُس کی شخصیت کو محض دجل و فریب سمجھتا ہے اور اُس کی مذہبیت کو محض دکھاوا قرار دیتا ہے۔ سردست ہم ان الزمات کو جوں کا توں قبول کرتے ہوئے شواہد ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ معاملہ، تحقیق کا بہت اہم سوال لیے ہوئے ہے۔ کیونکہ اگر اورنگ زیب کوئی مکاربہروپیا تھا، تب برنیئے کے الزامات واقعی سچ ثابت ہوتے، لیکن اس کے برعکس اگر وہ ایک مخلص اور راست باز انسان تھا اور اس کے قول و فعل میں تضاد نہیں تھا، تو اس کے خلاف سارے الزامات پادر ہوا ہوں گے۔
اورنگ زیب عالم گیر کے مکتوبات کے مطابق اس نے دو بار گورنری سے دست برداری کی پیش کش کی، لیکن باپ کی ناراضی دیکھ کر فیصلہ واپس لے لیا۔ اس کا پہلااستعفا اس وقت سامنے آتا ہے جب اسے دکن کا گورنر نامزد کیا جاتا ہے۔ دس برس بعد وہ پھر اُس موقعے پر یہ پیش کش دُہراتا ہے، جب اس کی بہن شہزادی جہاں آرا اپنی سالگرہ پر آگ میں جھلس جاتی ہے، اورنگ زیب اُسے دیکھنے آتا ہے۔ تب بہن کی حالت دیکھ کر وہ اتنا دل گرفتہ ہوتا ہے کہ شاہی لذائذ و اقتدار پر لات مارکر تنہائی اور خلوت گزینی کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کرلیتا ہے۔
اورنگ زیب کے ایک مکتوب میں دست برداری کی وجہ درج ہے۔ اپنی بہن کو لکھے گئے خط میں وہ اُن ناانصافیوں کا تذکرہ کرتا ہے جو اس کے ساتھ کی گئیں۔ زیادہ دُکھ اُسے داراشکوہ کے ہتک آمیز رویے سے تھا، جس نے شاہجہاں کو آمادہ کرکے، شورش زدہ دکن کے گورنر کی حیثیت سے اس کے انتظامی فنڈ کاٹ دیے اور ایک ایسے وقت میں اس کی زیرکمان فوج میں کمی کرادی، جب کہ وہ مملکت کے دشمنوں سے برسرِپیکار تھا۔ اس تجربے نے اس کو داخلی سطح پر توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ زندگی میں پہلی بار وہ دُنیا کا حقیقی چہرہ دیکھ رہا تھا: بدشکل، مکروہ اور ظالم دُنیا، جس میں قابلیت، اخلاق اور مملکت کے لیے خدمات کی کوئی قدروقیمت اور وقعت نہ تھی۔ وہ لکھتا ہے: اس فانی دُنیا اور اس کے فوائد و منافع کے لیے جان لڑانا بے سود ہے۔ وہ اس بے توقیر زندگی سے چھٹکارا چاہتا ہے۔
ان خطوط سے یہ پتا نہیں چلتا کہ اورنگ زیب کو اقتدار کی کوئی شدید خواہش تھی، بلکہ وہ تو سب کچھ دوسروں کے لیے چھوڑ کر گوشہ نشین ہونا چاہتا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہی اورنگ زیب جو ان لوگوں کی نظر میں ایک ہٹ دھرم شخص تھا، جس نے ان کے بقول چالاکی سے زُہد و تقویٰ کا لبادہ اُوڑھ رکھا تھا، تخت نشینی کے بعد ۴۳سال کی عمر میں اس کا قرآن پاک کو حفظ کرنا خصوصی طور پر بڑی اہم بات ہے، کیونکہ چھوٹی عمر کے برعکس بڑی عمر میں حفظ قرآن بہت مشکل اور بڑے عزم و ہمت کا کام ہے۔ بچے تو والدین کے دبائو اور استاد کی سختی کے تحت ایسا کرتے ہیں ، لیکن بڑی عمر کا انسان آزاد مرضی سے حفظ کی مشقت اسی وقت اُٹھائے گا، جب ایک طاقت ور دینی جذبہ اسے ایسا کرنے پر اُبھارے گا۔ کافی شہادت موجود ہے کہ اورنگ زیب باجماعت نماز کا پابند تھا اور بڑے شوق سے روزے رکھتا تھا۔ ناداروں اور غریبوں کی مدد کا معاملہ ہوتا تو اس کے ہاتھ بڑے فراخ ہوتے۔
تاج پوشی کے بعد اس نے پہلا کام یہ کیا کہ عام آدمی کو متاثر کرنے والے ۸۰ ٹیکس ختم کردیئے۔ مأثر عالم گیری میں ہے کہ حالت ِ جنگ میں بھی وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کیا کرتا تھا۔ بلخ کی مہم کے دوران دشمن کے دستوں نے اسے گھیر لیا تھا، لیکن نماز کے وقت وہ گھوڑے سے اُترا اور امامت شروع کر دی۔ امیربلخ عبدالعزیز خان یہ منظر دیکھ کر اتنا متاثر ہوا کہ اُس نے لڑائی سے یہ کہہ کر ہاتھ کھینچ لیا کہ ’’ایسے شخص سے لڑنا اپنی موت کو دعوت دینا ہے‘‘۔
اورنگ زیب نے ایسے ملک میں آنکھ کھولی، جس نے اکبر بادشاہ کی اسلام سے دشمنی بھی دیکھی، جس کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ مسلم سوسائٹی کو دین اسلام سے پھیر دے اور اس کے نتیجے میں ہندوئوں کی خوش دلی اور تعاون کی شکل میں اپنے لیے سیاسی فوائد سمیٹ لے۔ اورنگ زیب کو اپنے پردادا اکبر، اپنے دادا جہانگیر اور شیخ احمد سرہندی کے باہمی نزاع کا بھی پورا علم تھا۔ اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ اکبر نے بچوں کے ناموں کے ساتھ ’محمد‘ کا لاحقہ لگانے تک کی بھی ممانعت کردی تھی، اسلامی کیلنڈر منسوخ کر دیا تھا اور شرعی قوانین کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی۔ اُس سے یہ بات بھی پوشیدہ نہ تھی کہ اکبر نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے کو مناسب نہیں سمجھتا تھا اور حج بیت اللہ تک پر جانے سے روکنے کا حکم دیا تھا، جب کہ شراب نوشی اور سُور کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
یورپی مؤرخ ونسٹنٹ سمتھ (Vincent A. Smith) جس نے اکبر پر تحقیقی کام کیا ہے، اس کے بقول: ’’مجھے اکبر مسلمان نہیں نظرآتا‘‘۔برنیئےکی کتاب کا مدیر آرچی بالڈ کانسٹیبل، کارتُو کی سند کے ساتھ کہتاہے: ارتداد شاہی خاندان میں دَر آیا تھا۔ شاہ جہاں کی دو بیٹیوں نے عیسائیت قبول کرلی تھی۔ اس درجہ سنگین صورتِ حال میں مسلمان جانتے تھے کہ وہ عددی اعتبار سے اقلیت ہیں اور بحیثیت مسلم اُمت اُن کا وجود اپنے عقیدے سے مضبوطی سے جڑے رہنے پر منحصر ہے۔ کفر کے اس ماحول میں بقا کے لیے وہ لازمی طور پر جانتے تھے کہ ان کے تہذیبی رویے ہر طرح کے غیراسلامی اثرات سے پاک رہنے ضروری ہیں۔
اس پس منظر میں اورنگ زیب اور داراشکوہ کے درمیان چپقلش محض تخت ِدہلی کا جھگڑا نہ تھا۔ یہ مسلمانوں اور ہندوئوں کے مابین تہذیبوں کے ٹکرائو کا فطری مظہر تھا، جن کی نمایندگی دو مثالی نمونے: عالم گیر اور دارا کر رہے تھے۔ داراشکوہ سمجھتا تھا کہ ’’اُپنشد (Upanishad)قرآن پاک سے برتر کتاب ہے‘‘۔ اس نے سیرالااسرارکے نام سے خود اس کا فارسی ترجمہ کیا۔ الٰہ آباد کے شیخ محب اللہ کے نام اس کا خط تاریخ نے محفوظ رکھا ہے، جس میں وہ اس حد تک جاتاہے کہ وہ اپنے ’وجدانی معارف و اثرات‘ کو (الہامی) کتب کے مندرجات سے بدرجہا بہتر سمجھتا ہے۔
داراشکوہ کے ایسے خیالات مسلمانوں میں بے چینی اور اشتعال پیدا کررہے تھے۔ تختِ شاہی پر اس کا ممکنہ قبضہ، ہندوئوں کو اس کی طرف کھینچ رہا تھا، کیونکہ دارا کی کامیابی میں انھیں مسلمانوں کے تسلط کے خاتمے کی جھلک نظر آرہی تھی۔ مسلمانوں کے لیے ہندوؤں کا داراشکوہ کی نامزدگی پر مجتمع ہونا گزرے ہوئے عہد ِ اکبری کی تاریخ دُہرائے جانے کے مترادف تھا۔ ایک بار پہلے بھی ہندوئوں نے یہ کوشش کی تھی کہ ایک ہندو رانی کے بطن سے پیدا ہونے والا جہانگیر کا بیٹا خسرو، اکبرکا جانشین بن جائے۔ ۱۶۵۷ء کی ابتدا میں شاہ جہاں بیمار پڑا تو سلگتے جذبات، جو ابھی تک قابو میں تھے، دو مخالف اور متحارب قوتوں میں ڈھلنے لگے۔
داراشکوہ نے اس میں امکانات کو سب سے پہلے بھانپا اور شاہ جہاں کو اس کے دوسرے بیٹوں سے کاٹ کر جدا کردیا۔ اس مقصد کے لیے اس نے دربار کو ایسے امرا سے پاک کرنا شروع کردیا، جن کے متعلق اسے اندیشے تھے کہ وہ دوسرے شہزادوںخصوصاً اورنگ زیب سے مراسم رکھتے ہیں۔ دربار میں اورنگ زیب کے رابطہ افسرعیسیٰ بیگ کو پہلے حوالۂ زنداں کردیا گیا، پھر اس کی جائیداد ضبط کرلی گئی۔ داراشکوہ نے مُراد بخش (م: ۱۶۶۱ء) کے خلاف بھی اقدام کیا اور گجرات میں اس کی جگہ اپنے حامی قاسم خان کو مقرر کر دیا۔ فتنہ انگیزی بڑھانے کے لیے اس نے مُراد کو آمادہ کیا کہ برابر میں اورنگ زیب کا علاقہ اپنے قبضے میں لے لے، تاکہ دونوں میں جنگ بھڑک اُٹھے۔ لیکن مُراد کو سازش کی سن گن مل گئی۔ اس نے سورت فتح کرکے خود اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔
اورنگ زیب عالم گیر اس ساری صورتِ حال کا دُکھ اور افسوس کے ساتھ مشاہدہ کر رہا تھا۔ ہرگزرے دن کے ساتھ وہ داراشکوہ کے ہاتھ اپنی گردن پر تنگ ہوتے دیکھ رہا تھا۔اس ضمن میں تین باتیں بالکل واضح تھیں: وہ اسلام کا مخالف اور آزاد رو تھا اور تخت پر قبضے کے لیے پوری بے رحمی سے سب کچھ کرگزرنے پر تُلا ہوا تھا، خواہ اس کی جو بھی قیمت اُسے چکانی پڑے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے اُس نے قبیح حربے جاری رکھے۔ وہ شاہ جہاں کے جعلی دستخطوں کے ساتھ شاہی فرامین جاری کرتا، شاہ جہاں کے صحت مند ہونے کا تاثر پھیلاتا اور بھائیوں کے خلاف ایک بڑے بھرپور اور ہمہ پہلو جنگی مشن کی تیاری اور تقویت میں جتا رہا۔
پہلے قدم کے طور پر دارا نے دکن سے مغل افسران کو واپس بلا لیا، جو دراصل اورنگ زیب کا سیاسی حلقۂ اثر تھا۔ پھر اس نے مالوہ کو ضبط کرلیا، جو اورنگ زیب کی جاگیر تھی۔ اس طرح اورنگ زیب کے لیے بے حد مشکل صورتِ حال پیدا کردی گئی، جو بیجاپور اور گولکنڈہ کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ مملکت مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے۔ مرکزی اقتصادی امداد اورفوجوں میں کٹوتی نے دکن میں اورنگ زیب کی موجودگی قریب قریب غیرمؤثر اور غیریقینی بنادی تھی۔ بڑا بھائی کھل کر اس کے خلاف میدان میں آگیا تھا۔ اورنگ زیب کی تحقیر کرنے والے دانش ور بتائیں کہ ان حالات میں اُسے کیا کرنا چاہیے تھا؟ کیا وہ اپنا آپ ایک منتقم مزاج بھائی کے سامنے ڈال دیتا یا اپنی زندگی بچاتا؟
اس خونیں اور مایوس کن منظر میں شہزادہ شجاع (م: ۱۶۶۰ء) نے بھی اپنی تخت نشینی کا اعلان کر دیا۔ بالفاظِ دیگر اورنگ زیب جس نے اپنی شاہی روایات کو تھامے رکھا تھا، تخت کے تین دعوے دار اس کے سامنے آگئے تھے۔ اس نے تن تنہا جلد سے جلد شاہ جہاں تک پہنچنا چاہا۔
جنوری ۱۶۵۸ء میں اورنگ زیب بُرہان پور پہنچا۔ وہیں سے اس نے باپ کو خط لکھ کر اس کی صحت کا پوچھا۔ مہینہ بھر انتظار کے باوجود اُسے کوئی جواب نہ ملا۔ اُسے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ آگرہ میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔ ایسے میں عیسیٰ بیگ، قیدخانے سے آزادی ملتے ہی اورنگ زیب کی لشکرگاہ میں وارد ہوا اور شاہی دربار میں جاری داراشکوہ کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ کیا۔ یوں خبردار ہوکر اورنگ زیب، مُراد سے ملنے دیپال پور چل پڑا۔ وہاں سے دونوں بھائی آگرہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ بیمار باپ کی عیادت کر سکیں اور اس سے داراشکوہ کے ضمن میں انصاف کے طلب گار ہوں، جو اُن کے خلاف ’مارو یا مرجائو‘کے منصوبے باندھے بیٹھا تھا۔ جنگی چالوں کا ماہر اورنگ زیب ایک ہی حملے میں شہر پر قبضہ کرسکتا تھا، لیکن وہ اس سب کے باوجود صبروضبط سے کام لے رہا تھا۔ اس نے اپنا قاصد راجا جسونت سنگھ کے پاس بھیج کر زور دیا کہ وہ بادشاہ تک جانے کی راہ میں مزاحم نہ ہو، کیونکہ اس کے پیش نظر صرف ملاقات تھی۔ لیکن دارا کی مرضی کے مطابق جواب میں جسونت سنگھ نے سخت ہتک آمیز انداز میں انکار کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا: ’’یہی بادشاہ سلامت کی مرضی ہے‘‘۔
یہ حالات اور ردِعمل دیکھ کر کہ جھگڑا بڑھ رہا ہے، دربار کے مسلمان امرا نے بھی داراشکوہ کو مشورہ دیا کہ اورنگ زیب کو باپ سے ملنے دے، لیکن اس وقت تک ہندو حلقہ داراشکوہ کے گرد مضبوط دائرہ بنا چکا تھا۔ رائوسترنگھ اور رام سنگھ نے رائے دی کہ مقابلہ کیا جائے اور داراشکوہ فوراً تیار ہوگیا۔ اس طرح ہندو مدد اور تائید سے حوصلہ پاکر اس نے مسلمانوں کے خلاف یہ ذلّت آمیز الفاظ ادا کیے: ’’بہت جلد میں ان کوتاہ لباسوں کو سترنگھ کے ذاتی ملازموں کی طرح بھاگنے پر مجبور کردوں گا‘‘۔
اُدھر وہی ہوا جو ہوناتھا کہ راجا جسونت سنگھ، اورنگ زیب کے دستوں سے پہلی جھڑپ کے آغاز ہی میں میدانِ جنگ سے فرار ہوگیا۔ اورنگ زیب چاہتا تو اسے روند ڈالتا ، لیکن اس نے خود اُسے فرار ہونے دیا۔ شاہ جہاں کے نام اپنے ضمنی مکتوب میں وہ اپنی سوچ کا اظہار یوں کرتا ہے: ’’اگر میراآپ سے ملنے کے علاوہ کچھ اور مقصد ہوتا تو میں بڑی آسانی سے جسونت سنگھ اور اس کے لشکریوں کا تعاقب کرکے ان کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا، خصوصاً جب کہ وہ ذلیل ہوکر شکست کی وادی میں بھٹکتے پھر رہے تھے، لیکن میرا واحد مقصد آپ تک پہنچنے کے لیے راستہ حاصل کرنا تھا‘‘۔
بنگالی نژاد ہندو مؤرخ سرجادو ناتھ سرکار(م: ۱۹۵۸ء) جو اپنے تعصبات پر بمشکل پردہ ڈال پاتا ہے ، اورنگ زیب سے دشمنی کے جذبات رکھنے کے باوجود لکھتا ہے: ’’اورنگ زیب نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تعاقب کی ممانعت کردی، اور کہا کہ انسانی جانوں کی یہ معافی خالق کے حضور اس کی طرف سے زکوٰۃ تھی‘‘۔
شاہ جہاں کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوگیا کہ پانسہ پلٹ گیا ہے۔ اس نے دارا کو سمجھایا کہ بھائیوں کو آگرہ آنے دے، لیکن اُس نے آمادگی نہ دکھائی۔ اس موقعے پر اورنگ زیب پھر کوشش کرتا ہے کہ باپ کو قائل کرے کہ وہ خود مداخلت کرے اور اس طرح خوں ریزی کے خطرے کو ٹال دے۔ اس نے شاہ جہاں کو دو خط لکھے۔ پہلا خط جعفر خان لے کر گیا، لیکن اس وقت تک شاہ جہاں اپنا سارا وزن داراشکوہ کے پلڑے میں ڈال چکا تھا۔ اس نے خط کے مندرجات پر توجہ ہی نہ دی بلکہ دارا کی فوجوں کو رخصت کرتے وقت ان کی کامیابی کے لیے خصوصی دُعا کی۔ اورنگ زیب نے دوسرا خط اس وقت لکھا جب داراشکوہ کا ایک بڑا لشکر دھول پور پہنچ گیا تھا۔ وہ پھر باپ سے گزارش کر رہا تھا کہ داراشکوہ کو اس کے خلاف جنگ سے روکے، بصورتِ دیگر داراشکوہ کے لیے شکست سے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔
انجام کار وہی ہوا کہ داراشکوہ نے شکست کھائی اور آگرہ کی طرف بھاگا اور شاہ جہاں نے اپنے بڑے بیٹے کی محبت میں بے قرار ہوکر سونے جواہرات کے ذریعے داراشکوہ کی مدد کی۔ مزید یہ کہ اس نے صوبوں کے گورنروں کو لکھا کہ داراشکوہ کی مدد کو پہنچیں، لیکن قسمت کی بازی پلٹی اور شاہ جہاں، اورنگ زیب سے ملاقات پر مجبور ہوا۔ اس نے آمادگی کی اطلاع دینے کے لیے فضل خان اور سیّدہدایت اللہ کو اورنگ زیب کے پاس بھیجا۔ اورنگ زیب نے ہامی بھرلی کہ جنگی صورتِ حال معمول پر آتے ہی وہ باپ سے ملنے پہنچ جائے گا۔
دوسری طرف شاہ جہاں کو ملاقات کی بے چینی لگی ہوئی تھی۔ اس سے اورنگ زیب کو شک گزرا کہ اگر وہ قلعہ میں داخل ہوتے ہی قتل کر دیا گیا تو؟ شاہ جہاں کے نام خط میں اس نے ان اندیشوں کا اظہار یوں کیا ہے:’’اندیشے اور شبہات جو میرے ذہن پر یورش کر رہے ہیں، وہ حوصلہ نہیں دے رہے کہ میں اعلیٰ حضرت کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کروں___تاہم اگر میری ذاتی تسلّی کی خاطر آپ میرے کچھ دوستوں کو قلعے میں داخل ہونے اور دروازوں پر متعین ہونے کی اجازت مرحمت فرما دیں تو میں ضرور حاضر ہوں گا اور آپ کی قدم بوسی کروں گا‘‘۔
اورنگ زیب کے اندیشے بلاوجہ نہ تھے۔ ماضی میں تو اس کی بار بار درخواستوں پر بھی باپ ملاقات پر آمادہ نہیں ہورہا تھا، کیونکہ وہ پوری طرح داراشکوہ کے ساتھ تھا۔ مگر اب وہ خط پر خط لکھ کر ملاقات کے لیے اتنا بے چین کیوں ہورہا ہے؟ یہاں سینیورا منہوچی کی گواہی، جو دل و جان سے داراشکوہ کا حمایتی تھا، سمورگڑھ میں اس کی فوج کے ساتھ تھا،قابلِ توجہ ہے۔ منہوچی کہتا ہے کہ ’’شاہ جہاں، دراصل اورنگ زیب کو قوی الاعضاء تاتاری، تاجک اور اَزبک خواتین کے ہاتھوں قتل کرانا چاہتا تھا‘‘۔ فرانسیسی سیاح برنیئے نے بھی اپنے سفرنامے میں ایسی بات لکھی ہے۔
محل کے اندر کی بات اورنگ زیب کی چھوٹی بہن روشن آرا جان گئی تھی اور اسی نے بھانڈا پھوڑا اور بھائی کو باپ کے ارادوں سے خبردار کر دیا۔ اورنگ زیب کو یقین ہوگیا کہ جب تک باپ کے ہاتھ میں استعمال کے لیے طاقت اور وسائل ہیں، وہ داراشکوہ کی معاونت سے باز نہیں آئے گا۔ دانش اور تجربہ تقاضا کر رہے تھے کہ وہ قلعہ آگرہ کو شاہ جہاں کے آدمیوں سے خالی کرانے کا مطالبہ کرے۔ یہ ساری باتیں جاننے، پڑھنے اور دیکھنے کے باوجود سیکولر قلم کار اورنگ زیب کو ظلم و زیادتی کا الزام دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اورنگ زیب کی جگہ کوئی بھی دوسرا شخص ایسے حالات میں ہوتا تو کیا کرتا؟
جی ہاں! اورنگ زیب نے آگرہ کا قلعہ اپنے ہاتھ میں لے لیا، لیکن اس کے باوجود کہ شاہ جہاں نے اس کے لیے سخت مخاصمانہ صورتِ حال پیدا کر دی تھی، اس نے باپ سے نرمی اور مہربانی کا سلوک روا رکھا۔ اس سے کم تر اخلاق والا اُس کا کوئی دوسرا بھائی، اس کیفیت کو انتقام کا بہانہ بنالیتا۔ لیکن قلعہ میں اورنگ زیب کے جانے سے پہلے ہی اس کے ماموں شائستہ خان اور شیخ میرا سے روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ جس واقعے نے حتمی فیصلہ کرنے میں مدد دی، وہ ناہردل جان چیلہ نامی شخص کا پکڑا جانا تھا، جو شاہ جہاں کا خط دارا کے پاس لے جارہا تھا۔ بادشاہ نے داراشکوہ سے دارالحکومت میں رُکنے کے لیے کہا تھا کہ سیم و زر اور فوجوں کی کوئی کمی نہیں: ’’میں یہ معاملہ یہیں ختم کردوں گا‘‘۔ بات واضح ہے کہ اس کے ارادے اورنگ زیب کو قتل کرنے کے تھے۔
ان خطوط کی بنا پر اورنگ زیب کو یقین ہوگیا تھا کہ باپ اسے قتل کردے گا۔ چنانچہ اس کا فیصلہ تھا کہ داراشکوہ کی رخصتی لازم ہے۔اس طرح مجبور ہوکر اس نے شاہ جہاں کا ذاتی سٹاف اس کے پاس سے ہٹا دیا، اور اس کے گرد ایک نیا انتظامی ڈھانچا قائم کر دیا۔
یہاں اورنگ زیب عالم گیر کا یہ خط لازماً پیش نظر رہنا چاہیے: ’’میں اعلیٰ حضرت سے باربار درخواست کرتا ہوں کہ یہ آگ بھڑکانے والے خطوط نہ لکھے جائیں… اب میں بے بس ہوگیا ہوں۔ میں ان فتنہ پرداز خواجہ سرائوں کو آپ کے سٹاف سے فارغ کر رہا ہوں۔ آپ کی علالت کے ابتدائی ایام میں جب بڑے شہزادہ نے، جس میں ایک مسلمان کے شریفانہ کردار کا ذرہ بھر نقش موجود نہیں، اقتدار ہاتھ میں لے لیا اور الحاد اور بے دینی کا علَم بلند کیا، تو میں نے اسے اپنی اسلامی ذمہ داری سمجھا کہ اسے مسند ِ اقتدار سے اُتار پھینکوں۔ چونکہ آپ عالی وقار کا ایک ہی جانب جھکائو رہا، حالات کی سنگینی کااحساس نہ کرپائے اور بڑے شہزادے کو بے دینی پھیلانے کی آزادی دیئے رکھی۔ میں نے تہیہ کرلیاکہ اس کے خلاف جہاد کروں‘‘۔
وہ تشویش ناک صورتِ حال کیا تھی، جو اورنگ زیب کے ذہن کو پریشان کر رہی تھی؟
یہ ہندستان نامی غیرمسلم سمندر میں مسلم اُمہ کے مستقبل کا سوال تھا۔ مسلمان ایک دوسرا اکبر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ داراشکوہ کی تخت نشینی، معاشرے اور مملکت کے اسلامی خدوخال مٹا کر رکھ دیتی، بلکہ مملکت، مسلم حمایت سے محروم ہوجاتی، جو اس کے وجود اور تسلسل کا بڑا ذریعہ تھا۔ حکیم الامت علامہ اقبال نے تقریباً یہی بات اپنے مجموعۂ کلام اسرار و رُموز میں فرمائی:
تخمِ الحادے کہ اکبر پرورید
باز اندر فطرتِ دارا دمید
حق گزید از ہند عالمگیر را
آں فقیر صاحبِ شمشیر را
از پے احیائے دیں مامور کرد
بہر تجدیدِ یقین مامور کرد
اکبر نے الحاد کا جو بیج بویا، وہ دارا کی شکل میں دوبارہ پھوٹ پڑا۔ ایسی صورت میں اللہ نے ہندستان سے عالم گیر کو چُن لیا، وہ عالم گیر جو درویش بھی تھا اور بے پناہ شمشیر کا مالک بھی۔ عالم گیر کو ہندستان میں تجدید و احیائے دین کی ذمّہ داری سونپی، تاکہ پھرسے یقین و ایمان مسلمانوں کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنے لگے۔
اورنگ زیب کے اس عزم کا علم شاہ جہاں کے نام اس کے ایک خط سے بھی ہوتا ہے: ’’جب تک طاقت اور اختیار آپ کے مبارک ہاتھوں میں رہا، آپ کی اطاعت مجھ پر لازم تھی۔ اللہ بزرگ وبرتر گواہ ہے کہ میں نے اپنی حدود سے کبھی تجاوز نہیں کیا۔ لیکن جب آںجناب بیمار پڑگئے تو شہزادے (دارا) نے آپ کے اختیارات سلب کرلیے۔ اس نے پیغمبرؐ اسلام کےدین کی جگہ ہندوئوں کا بُت پرستانہ مذہب پھیلانا شروع کر دیا، جس سے سلطنت میں بے چینی پھیل گئی۔ اپنے آپ کو حقیقی جانشین سمجھ کر اُس (دارا) نے آپ کو بادشاہی سے معزول کر دیا، جس کا میں نے گذشتہ خطوط میں ذکر کیا۔ چنانچہ میں بُرہان پورسے چل پڑا کہ کہیں یومِ آخرت اللہ تعالیٰ مجھے ذمہ دار نہ ٹھیرائے کہ میں نے فساد کو کیوں نہیں دبایا‘‘۔
وہ باپ سے پوچھتا ہے کہ ’’اگر آپ کی مدد سے داراشکوہ کامیاب ہوجاتا، تو کیا صورتِ حال بن جاتی؟ کیا اس سے مسلمانوں پر تباہی نہ آجاتی اور دُنیا بے نُور نہ ہوجاتی؟‘‘ اس کے باوجود باپ کے لیے محبت اور احترام کا جذبہ اس کے دل میں موجزن رہتا ہے اور اس خط میں وہ لکھتا ہے: ’’ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی عنایت پر شکرگزار ہوں، جو مجھ پر ہوئیں۔ آپ نے میری تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے لیے جو کچھ کیا اس پر اظہارِ تشکر بھی میرے لیے ممکن نہیں۔ میں کسی صورت اس سعادت سے محروم نہیں ہونا چاہتا، نہ میں اپنے فرائض سے کوتاہی کا ارتکاب گوارا کرسکتا ہوں، اور نہ میں اس مختصر عرصۂ حیات کی خاطر اپنے آپ کو اجازت دوں گا کہ آپ کے احساسات کو ذرا بھی ٹھیس پہنچ جائے۔ جو کچھ پیش آیا وہ اللہ کی مشیت تھی اور اسی میں قوم اور سلطنت کے لیے خیراور بھلائی ہے‘‘۔
یہ ایک عظیم بادشاہ کا اپنے ’قیدی‘باپ کے نام خط ہے۔ وہ باپ کو تسلی دے رہا ہے کہ اللہ کی مشیت اور رضا کے سامنے سر جھکا لے اور دل میلا نہ کرے۔ فی الاصل یہ حالات کو معمول پر لانے اور مصالحت کی ایک پیش کش تھی، تاکہ محبت اور اعتماد کی فضا بحال ہو۔ اس سے اسلام کے لیے اس کی گہری محبت کا اظہار بھی ہوتا ہے اور یہ کہ اسے مسلم اُمت اور مملکت کے متعلق کیا اندیشے لاحق تھے؟ لیکن شاہ جہاں آمادہ نہیں ہورہا تھا کہ نظام کی اصلاح ہو اور معاملات پھرسے ٹھیک ہوجائیں۔
انسان جب اُن حالات کو دیکھتا ہے، جن میں اورنگ زیب گھرا ہوا تھا اور ساری موجود شہادتوں کا جائزہ لیتا ہے تو اُسے حیرت ہوتی ہے کہ آخر اُس نے باپ سے وہ کیا بُرا سلوک کیا، جس کا الزام اُسے ہندو، یورپی اور سیکولر مؤرخین اور تجزیہ نگار دیتے ہیں۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ تخت شاہی سے تو پہلے شاہ جہاں کو بڑے بیٹے داراشکوہ نے اُتارا تھا، نہ کہ اورنگ زیب نے، جو آخری گھڑی تک باپ کے احترام میں دوسرے بھائیوں کے برعکس تخت پر بیٹھنے سے انکار کرتا رہا۔ اگر اس نے قلعہ میں داخلے کے مقامات پر محافظ بٹھا دیئے تھے یا شاہ جہاں کو گھیرے رکھنے والے خواجہ سرائوں کو نکال دیا تھا تو اس میں کون سی ایسی بُری بات تھی؟
سیکولر دانش ور شاید یہی سمجھتے ہیں کہ آگرہ کا قلعہ بھی لاہور یا اَٹک کے قلعوں کی طرح کا کوئی قیدخانہ تھا۔ حقیقت اس سے بالکل مختلف تھی۔ قلعہ کے اندر موجود شاہی محل مرتے دم تک شاہ جہاں کے قبضے میں رہا۔ برنیئے کا اظہارِ عداوت اُسے یہ ماننے کی اجازت دے دیتا ہے کہ اگرچہ شاہ جہاں کی رہایش گاہ پر محافظ بٹھا دیے گئے تھے، لیکن اورنگ زیب ہمیشہ باپ سے عزّت و احترام سے پیش آیا اور اُسے ’عیش و تنعم اور توقیر سے نوازتا رہا‘۔ پھر برنیئے کی گواہی یہ بھی ہے کہ شاہ جہاں نے جو کچھ مانگا، اورنگ زیب نے مہیا کر دیا: ’’اُس نے اُسے تحائف سے لاد دیا۔ اُس سے مشورے لیتا رہا اور باپ کے نام اس کے خطوط سے فرض شناسی اور اطاعت گزاری کا اظہار ہوتا ہے‘‘۔
اورنگ زیب نے ان جذبات اور فیاضانہ رویوں کا برتائو اس والد کے ساتھ کیا، جس نے جواب میں پدرانہ شفقت سے ہاتھ اُٹھا لیے تھے، جو اُسے ختم کرنے کے لیے پہلے داراشکوہ سے ملا رہا، پھر خود قلعے میں اس کو موت کے گھاٹ اُتارنے کی منصوبہ بندی کی، بلکہ دوسرے بیٹے مراد کو بھی اُکسایا کہ اورنگ زیب کو قتل کردے۔ شاہ جہاں کا مراد کے نام وہ خط جسے اورنگ زیب کے ہوشیار اور بیدارمغز خفیہ کاروں نے راستے میں اُچک لیا۔ اس میں شاہ جہاں اُسے شہ دے رہا ہے کہ اورنگ زیب کو کھانے کی دعوت میں بلا کر قتل کردے۔
شاہ جہاں نے یہ سازشی انداز کیوں اختیار کیا؟ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ شاید یہ ایک غیرمتوازن نفسیات کا مسئلہ ہے۔ بہرکیف اورنگ زیب نے ہرپیمانے سے اپنے آپ کو عظیم تر مغل حکمران ثابت کیا کہ وہ خود اپنے نام کی طرح تخت شاہی میں جڑا ہوا ہیرا دکھائی دیتا ہے۔ باپ کے متعلق اس کے خدشات بے بنیادنہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول برنیئے جب اورنگ زیب ابتدائے حکومت میں سخت بیمار پڑا تو اس نے اپنے بیٹے سلطان معظم کو وصیت کی کہ اس کی وفات کی صورت میں وہ اپنے دادا (شاہجہاں) پر سے نقل و حرکت کی ساری پابندیاں اُٹھا دے۔
قطع نظر اس کے یہ خط اورنگ زیب کے خلاف بدخواہوں کے اُن الزامات کو دفن کر دیتا ہے کہ وہ تخت سنبھالنے کے بعد باپ کو قید کرنے کا مرتکب ہوا۔ تصویر یہ بنائی جاتی ہے کہ باپ جیل میں سڑ رہا ہے، کوئی اُس سے بات نہیں کرسکتا اور نہ کوئی اسے مل پاتا ہے۔ واقعات کے اعتبارسے یہ بات قطعاً غلط اور بے بنیاد ہے۔ مذکورہ خط اورنگ زیب کی شخصیت کی صحیح تصویر بھی سامنے لاتا ہے۔ باپ بیٹا ایک دوسرے سے صلاح مشورہ کرتے پائے جاتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے باپ سے اختلاف کرتا ہے، وہاں دلیل اور بُرہان ہے۔ وہ نہ بدخو تھااور نہ ظالم۔ اسے اپنی رعیت کے بہبود کی فکر لاحق تھی اوراس کا یہ عزم تھا کہ وہ عوام کو عدل و انصاف دے گا۔
برنیئے بتاتا ہے کہ ’’داراشکوہ کی موت علما کی ایک مجلس کے اجتماعی فیصلے یا فتوے کے نتیجے میں ہوئی تھی، نہ کہ اورنگ زیب کے شاہی فرمان کے نتیجے میں‘‘۔ علما کی مخاصمت کی وجہ ظاہر ہے داراشکوہ کے کافرانہ عقائد تھے، جن کا وہ اپنے آغازِ جوانی سے برملا اظہار کر رہا تھا۔ اس نے سات کتابیں لکھیں، جن میں دو اشتراک سے لکھی گئیں، نیز اُپنشد کا فارسی ترجمہ کیا۔ چنانچہ اشرافیہ ، علمائے کرام اور عوام الناس میں اس کے کفریہ عقائدکا چرچا تھا۔
جس چیز نے داراشکوہ کے خلاف مخالفانہ جذبات کو زبان بخشی اور اس مزاحمت کو اتحاد میں پرویا، وہ داراشکوہ کی مسلم ہند کے تخت پر بیٹھنے کی خواہش تھی۔ یہ ایک وسیع اتحاد کا ہدف تھا کہ اکبر کا الحادی دور دوبارہ نہ آنے پائے۔ مجدد الف ثانیؒ کی تحریک نے اورنگ زیب کو مجبور کیا کہ وہ داراشکوہ کے خلاف فوجی محاذ پر لیڈر کا کردار اداکرے۔ شاید کم لوگوں کو علم ہو کہ اورنگ زیب مذکورہ تحریک کانمایاں کارکن تھا، جس نے حضرت مجددالف ثانی ؒکے فرزند ارجمند اور خلیفہ خواجہ معصوم ؒ کے ہاتھ پر باقاعدہ بیعت کی تھی۔
داراشکوہ ہندو مدد اور عیسائی مشنریوں، تاجروں اور کرائے کے قاتلوں کی درپردہ تائید حاصل کرکے لوگوں کی اسلامی روح کچلنا چاہتا تھا۔ اورنگ زیب نے مسلم عوام کی مضبوط حمایت کے ذریعے اس کا مقابلہ کیا، تاہم دارا آخر بھائی تھا۔ وہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والے شہزادے کے انجام پر فطری طور پر آبدیدہ تھا ، لیکن ان احساسات کے علی الرغم نہ قانونِ شرع کا کوئی ضابطہ اجازت دے رہا تھا اور نہ سلطنت کی سلامتی کے حوالے سے یہ بات قابلِ قبول تھی کہ کفر اور ارتداد کی سزا دیے بغیر بچ جانے دیا جاتا۔ جس حوالے سے بھی دیکھیں، داراشکوہ مسلم تشخص کے تزویراتی (strategic) تقاضوں کے لیے خطرہ بن گیا تھا۔وہ مسلمان جو اقلیت میں ہونے کے باوجود ہندستان کے حکمران تھے، ان کا اقتدار خطرے میں تھا۔
یہاں پر ایک اور حیرت انگیز بات پیش نظر رہنی چاہیے اور وہ یہ کہ اورنگ زیب سے پہلے بھی بھائیوں کے درمیان جنگیں ہوئیں اور خون بہے۔ ان سب میں صرف اورنگ زیب کو ’دانش ورانہ‘ خنجر آزمائی کے لیے منتخب کرنا خاص مقصد اور ارادے کا پتا دیتا ہے۔ قابلِ غور پہلو یہ ہے کہ جانشینی کی جنگ داراشکوہ نے شروع کی تھی، اور اس نے عملاً آگرہ میں ڈیرہ ڈال کر باپ کو تنہا کردیا تھا۔ برنیئے کہتا ہے: ’’قید کردیا تھا‘‘۔ باپ کے جعلی دستخط کیے اور جسونت سنگھ کی کمان میں متحدہ افواج کو مسلم تشخص کی حامل فوج سے لڑنے بھیجا۔
شہزادہ مراد کے معاملے میں بھی جھوٹ کی آمیزش ہے۔ اورنگ زیب نے اُسے بھی قتل نہیں کیا تھا بلکہ دونوں بھائی داراشکوہ اور اس کے ہندو مشرکانہ عقائد کی ترویج کے خلاف صف آرا تھے۔ کئی مؤرخ بتاتے ہیں کہ مُراد مزاجاً تندوتیز تھا، شرابی اور خوشامد پسند تھا۔ اس پر اس کی جرأت اور حوصلہ مندی نے مہمیز لگائی۔ مفاد پرستوں کے گھیرے میں آکر وہ جلد ہی ان کے سازشی چکروں میں آگیا۔
اورنگ زیب سے معاہدے کے نتیجے میں مراد کو کابل، لاہور، کشمیر، ملتان، بھکر، ٹھٹھہ سے لے کر خلیج اومان تک حکمرانی کے لیے وسیع علاقہ مل گیا تھا۔ لیکن اس کے لمبے چوڑے ارادے اسے لے ڈوبے۔ اورنگ زیب سے تعاون کے عہدوپیمان کو پس پشت ڈال کر وہ شاہ جہاں سے معافی کا طالب ہوا، جس نے مراد کو معافی دیتے ہوئے پورے مسلم ہندستان پر اس کا حقِ حکمرانی بھی تسلیم کرلیا۔ اہم ترین بات یہ تھی کہ یہاں بھی شاہ جہاں نے اُسے اورنگ زیب اور اس کے بیٹوں کے قتل کا مشورہ دیا۔
یہی وہ دن تھے جب آگرہ پر اورنگ زیب نے کنٹرول حاصل کرلیا تھا۔ اس نے زخمی مراد کو صحت یابی کے لیے پیچھے چھوڑا اور خودداراشکوہ کے تعاقب میں چل پڑا، جو دہلی میں ڈیرہ جمائے بیٹھا تھا۔ لگتا ہے بیٹے (دارا) اور باپ (شاہ جہاں) کی یکجائی انھیں اورنگ زیب کے خلاف سازشوں کا موقع دے رہی تھی۔ اس موضوع پر اورنگ زیب کے خطوط کافی روشنی ڈالتے ہیں۔ مراد کے خدشات جو اورنگ زیب کے ارادوں کے متعلق اس کے ذہن میں جنم لے سکتے تھے ، ختم کرنے کے لیے اورنگ زیب نے اُسے دو سو گھوڑے اور بیس لاکھ روپیہ بھیجے۔ ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کراد ی کہ دارا کامعاملہ کامیابی سے سلجھاتے ہی اُسے واپس اپنے موعود علاقوں کی طرف جانے کی اجازت ہوگی۔
لیکن مطلق بادشاہی کا خواب مُراد کو اندھا کرچکا تھا۔ اس نے شاہ جہاں کی بات مان لی اور تخت ِ شاہی پر اپنے دعوے کااعلان کر دیا۔اس صورتِ حال نے اورنگ زیب کو اور بھی دُکھی کردیا۔ اُسے نتائج کا خوف لاحق ہوگیا، کیونکہ اب تین حریف اس کے سامنے تھے۔ چنانچہ اس نے مراد کو پکڑ کر گوالیار کے قلعے میں ڈال دیا۔ وہاں اُسےفیاضانہ عطیات سے نوازا گیا۔ اس کا گھرانا اس کے ساتھ رہا اور اس کی خاص محبوبہ سرستی بائی اس کی دسترس میں رہی، لیکن مراد کی بگڑی نفسیات کو چین نہ آیا۔ اس نے فرار کی کوشش کی۔ اُسے اُس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ اپنی محبوبہ سے رخصت ہورہا تھا۔ اورنگ زیب اُسے قتل کرسکتا تھا، لیکن اس نے اُسے چار سال تک حفاظتی حراست میں رکھا تاکہ وہ کوئی فیصلہ کرسکے۔
تاہم، جب اورنگ زیب سلطنت پر فائز ہوا تو قاضی کی عدالت میں مراد کے خلاف قصاص کا مقدمہ دائر ہوگیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے اپنے وزیر سیّدعلی نقی کو قتل کردیا تھا۔ یہ مقدمہ مقتول کے بیٹے کی استدعا پر قائم ہوا تھا۔ عدالت نے علی نقی کے بیٹے کو دیت قبول کرنے پر آمادہ کرنا چاہا، لیکن وہ قصاص (خون کے بدلے خون) پر اڑا رہا۔
اورنگ زیب کا اصل جرم کچھ اور ہے، جس کے لیے ہرڈھنگ کے سیکولر عناصر، خواہ وہ ہندو ہوں، مغربی مؤرخین ہوں یا نام نہاد مسلمان اور پاکستانی سیکولر بھی، وہ اُسے کبھی نہیں بخشیں گے۔ کیونکہ اس نے ہندو دلدل میں پھنسے مسلمانوں کا تشخص بچانے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ ہندو تو خاص طور پر آتش زیرپا ہیں کہ اورنگزیب نے اُن کی فتح کی اُمیدوں پر اس وقت پانی پھیر دیا کہ ’’دوچار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا‘‘۔پھر یہ کہ اس نے اپنے طویل دورِ حکومت میں بہت سے مندروں کو بڑے وسیع رقبے بطور عطیہ دیئے ، جن کا اعتراف بہت سے غیرمسلم وقائع نگاروں نے کیا ہے۔
عیسائی مؤرخ اس لیے آگ بگولاہیں کہ تخت ِ دہلی پر عیسائیت کی حکمرانی کے خواب اس نے بکھیر کر رکھ دیئے۔ ہندوئوں نے اپنی سازشوں اور مکاریوں سے بودھ مت کو برصغیر سے رخصت کر دیا، حالانکہ اس مذہب کے پیروکار اشوک اعظم [۳۰۴-۲۳۲ قبل مسیح]نے برصغیر کے سب سے زیادہ رقبے پر حکومت کی۔ نہ صرف رعایا اس قدر پُرسکون ، خوش حال اور آسودہ تھی اور ہمسایوں سے تعلقات اس قدر خوش گوار تھے کہ فوج کا محکمہ ہی ختم کر دیا گیا۔ صرف امن و امان کے لیے تھوڑی سی پولیس ہی کافی سمجھی جاتی تھی، چنانچہ سارا دفاعی بجٹ عوام پر خرچ کیا جاتا۔
ایک دفعہ بنگال میں قحط پڑ گیا۔ اشوک نے اپنی سرکاری مشینری کے ساتھ وہاں ڈیرے ڈال دیے۔ چنانچہ بہت جلد بحران ختم ہوگیا تواشوک اپنے دارالحکومت میں واپس آگیا۔ اندازہ کیجیے کہ ہندو کی عیاری نے اتنے بڑے بودھ مذہب کے نام لیوا برصغیر سے مٹا دیے، جب کہ یہ مذہب شروع بھی اسی سرزمین سے ہوا تھا، اور اس کے برعکس اسلام کو تو وہ بدیسی مذہب گردانتے تھے۔ اس کو برصغیر سے ملیامیٹ کرنا وہ اتنا مشکل نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ پہلے اکبر اور اب داراشکوہ کی شکل میں انھیں اپنے ان عزائم کی تکمیل و معاونت نظر آرہی تھی۔ حالانکہ جہاں تک طرزِ حکمرانی ، طوائف الملوکی، لاقانونیت اور درباری و محلاتی سازشوں کا تعلق ہے، وہ محمد شاہ رنگیلا اور اس قبیل کے کئی مغل حکمرانوں میں نہ صرف کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، بلکہ کئی گنا زیادہ تھیں۔ مگر کسی سیکولرمسلمان مؤرخ، عیسائی یا ہندو تاریخ دان کا قلم ان کے معاملے میں حرکت میں نہیں آتا۔ مغلوں میں صرف اورنگ زیب عالم گیر اور دوسرے مسلمان حکمرانوں میں محمود غزنوی، شہاب الدین غوری یا احمد شاہ ابدالی وغیرہ پہ تان ٹوٹے گی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ان سب نے برہمنی یلغار کے آگے بند باندھا۔
حق و باطل، ظلمت و روشنی اور کفر و اسلام کا یہ معرکہ اَزل سے گرم رہا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی حکمت سے ہر دور میں کوئی نہ کوئی مردِ حُر، مجدد، صوفی یا درویش پیدا کردیتا ہے جو اس سیلاب کے آگے بند باندھ دیتا ہے اور اغیار کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔ بقول علامہ اقبال:
ستیزہ کار رہا ہے اَزل سے تاامروز
چراغِ مصطفوی سےشرارِ بولہبی
اگر مسلمانوں پر اکبر اور داراشکوہ کی طرح کے چند اور حکمران حکومت کرلیتے تو صحیح تر الفاظ میں نہ آج پاکستان نام کی کسی مملکت کا وجود ہوتا، نہ اسلام کی سربلندی یا سیکولرزم کی مخالفت کے نعرے گونج رہے ہوتے۔ ایک علامت کے طور پر ہمارے جذبات و احساسات پر اورنگ زیب کی گرفت بہت مضبوط ہے، کیونکہ اس نے مسلم شعور کو اَزسرنو زندگی بخشی۔ ہماری لڑکھڑائی قومی شخصیت کو سہارا دیا اور خطرے کو بھانپنے کی ہماری سوچ کو بیداری اور توانائی بخشی۔ اس نے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردی کہ جب خونیں رشتے بھی اسلام کے خلاف صف آراء ہوجائیں تو ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ اورنگ زیب کو آزادی پر مبنی کفر کی حقیقی فطرت کا بخوبی اندازہ تھا۔ یہ اُسی نے ہمیں سمجھا دیا کہ مذہبی معاملات میں بگٹٹ آزادی محض ایک نظریہ یافلسفہ نہیں، یہ تو قوت اور اختیار کی حکمت (doctrine) ہے، جوحکومت پر قبضے سے کم پر راضی نہیں ہوتی۔ یا تو آپ اسے سینگوں سے پکڑیں ورنہ یہ خود آپ کو اُدھیڑ کر ختم کردے گی۔ اس لیے سیکولر اندازوں کے مطابق اورنگ زیب کو رگیدتے رہنا بہت ضروری ہے، ورنہ وہ اپنے کردار سے لوگوں کو بتاتا رہے گا کہ آج اس اکیسویں صدی میں بھی اصل مسئلہ کیا ہے۔
مزید یہ کہ اورنگ زیب محض بادشاہ نہ تھا، وہ ایک نجات دہندہ تھا، ایک دُوراندیش انسان تھا، جسے اپنا عظیم اور مقدس کردار صاف نظر آرہا تھا۔ اپنے عہد کے منظرنامےپر اس نے اپنا کردار کمال خوبی اور حوصلہ مندی سے ادا کیا۔ فی الواقع اس نے مسلمانوں کو شک، تذبذب اور خوف کی بے سکون کیفیت سےنکالا۔ انھیں یقین و ایمان اور ولولۂ تازہ دیا، جس نے انھیں اپنی نظروں میں باوقار بنادیا۔ آج صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس کے مخالفین کی زہریلی پھنکاریں ثابت کرتی ہیں کہ اپنے وقت کی نیام میں وہ اسلام کی بہترین تلوار تھی۔ اقبال نے کیا خوب کہا:
پایۂ اسلامیاں برتر ازو
احترامِ شرع پیغمبرؐ ازو
درمیاں کارزارِ کفر و دیں
ترکشِ ما را خدنگِ آخریں
مسلمان ان کی کوششوں کے نتیجے میں دُنیا میں بہتر مقام پر ہیں۔ رسولؐ اللہ کی شریعت کا احترام انھی کے رہینِ منت ہے۔ کفر اور دین کی کش مکش میںشہنشاہ عالم گیر ہندستان کے اندر اسلام کے ترکش کا آخری تیر تھا۔