جب ۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء کو تحریکِ طالبان افغانستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کا انتظام سنبھالا تو یہ ایک محیرالعقول واقعہ تھا۔ اس سے پہلے کم و بیش پورے افغانستان پر ان کا قبضہ ہوچکا تھا ۔تمام بڑے شہر ،ایئرپورٹوں اور اہم عسکری تنصیبات پر وہ ’امارت اسلامی‘ کے جھنڈے گاڑ چکے تھے۔ نیٹو افواج اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ افغانستان سے رخصت ہوچکی تھیں۔ ساڑھے تین لاکھ افغانوں پر مشتمل فوج، جس کو امریکا نے اربوں ڈالر خرچ کر کے تیار اور بہترین اسلحے سے لیس کیا تھا، طالبان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔امریکی کٹھ پتلی صدر اشرف غنی سمیت اُن کی پوری کابینہ ملک سے فرار ہو گئی اور بغیر جنگ لڑے طالبان کابل میں داخل ہو گئے۔ گذشتہ تین سال میں ایک طویل عرصے کےبعد افغانستان میں امن و امان بحال رہا۔ ’داعش‘ تنظیم نے متعدد مقامات پر کئی خودکش حملے کیے، جس سے سیکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ لیکن اب وہ سلسلہ بھی تھم چکا ہے۔ داعش کی بیش تر قیادت ملک سے باہر نکل گئی ہے اور دیگر ممالک میں سرگرمِ عمل ہے ۔
۱-ملک میں مکمل امن و امان کی بحالی، جنگ کا خاتمہ، عوام کا تحفظ ،شاہراؤں کی حفاظت۔
۲- حکومتی رٹ کا قیام، کابل کی مرکزی حکومت کا پورے افغانستان پر مکمل کنٹرول ہے۔ ملک کے ۳۴ صوبوں اور ۴۰۰ اضلاع میں ایک ہی حکومت ہے۔ تمام صوبوں کے والی، اور بڑے چھوٹے اضلاع کے حکام اس کے سامنے جواب دہ ہیں، اور اس کا حکم پورے ملک میں نافذ ہوتا ہے۔
۳- قانون کی بالادستی اور لاقانو نیت کے خاتمے کے بعد پورے ملک میں شرعی قوانین نافذ ہیں۔ عدالتیں قائم ہیں اور وہ روزمرہ کے مسائل اور تنازعات کا بروقت فیصلہ کرتی ہیں۔ عالمی ادارے نے کابل کو اس خطے کا سب سے محفوظ شہر قرار دیا ہے جہاں جرائم کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔
۴- بدعنوانی اورکرپشن کا ہر سطح پر سد باب کردیا گیا ہے۔ رشوت ستانی ،بھتہ خوری، کمیشن وغیرہ جیسے مسائل جو گذشتہ حکومتوں میں عام تھے، ناپید ہیں۔ تمام حکومتی محصولات کی وصولی کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ بجلی کے بل اور دیگر خدمات پر ادائیگی پوری طرح لی جاتی ہے، جس سے حکومت کو مستحکم بنانے میں بہت مدد ملی ہے ۔
۵- ملک میں اقتصادی ترقی، تجارت کے فروغ اور معاشی سرگرمیاں بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ افغان کرنسی کو عالمی بینک نےاس خطے کی مضبوط ترین کرنسی قرار دیا ہے۔ افغان تاجر بغیر کسی روک ٹوک کے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر آزادانہ طور پر کاروبار کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی کمپنیاں اور کاروباری افراد بھی افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
۶- ملک میں بلاامتیاز یکساں طور پر ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہیں ۔ پہلے سال چھوٹے پیمانے پر کاموں کا آغاز ہوا،لیکن اب پورے ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ شاہراؤں کی تعمیر ہو رہی ہے، ڈیم بن رہے ہیں اور سالانگ ٹنل کی تعمیرِ نو ہو چکی ہے۔ ۲۸۰کلومیٹر طویل قوش ٹپہ نہر بن رہی ہے، جو کہ شمالی صوبوں کی لاکھوں ایکڑ زمین کو سیراب کرے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام ترقیاتی کام خود انحصاری کی بنا پر کیے جا رہے ہیں۔ کوئی غیر ملکی قرضہ نہیں لیا گیا۔ بیرونی ممالک مثلاً چین اگر کسی منصوبے میں شریک ہے، تو وہ امداد کے طور پر کام کر رہا ہے۔
۷- مرکزی بینک اور دیگر مالیاتی ادارے ملک کی ترقی اور معاشی کنٹرول میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، خاص طور پر قیمتوں کے کنٹرول اور درآمدات و برآمدات پر نظر رکھتے ہیں اور جو اقدام ضروری ہے وہ کرتے ہیں۔ غیر ملکی کرنسی کی آمد اور خروج پر بھی دسترس ہے ۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود ملک میں بینکاری کا نظام جاری ہے اور سودی نظام کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
۸- اقوام متحدہ کے اداروں اور دیگر ملکوں کی حکومتوں کے ساتھ تعلقاتِ کار قائم ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام ،عالمی ادارہ صحت، ریڈ کراس وغیرہ تمام تر پابندیوں کے باوجود کام کر رہے ہیں اور ان کے کارکنان اور دفاتر کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جب کہ ان کو براہِ راست عوامی مفادات کے کاموں اور امدادی اشیاء کی تقسیم کی دسترس فراہم کی گئی ہے۔ زلزلوں، سیلابی صورتِ حال اور وبائی امراض، انسداد پولیو مہمات میں دیگر ریلیف کے کاموں میں عالمی رفاہی اداروں کو کام کرنے کی آزادی دی گئی ہے۔ ان اداروں میں خواتین کارکنان بھی کام کر رہی ہیں ۔علاوہ ازیں شعبۂ صحت میں ایک لاکھ ۵۰ ہزار اور شعبہ تعلیم میں ۹۰ ہزار خواتین پر مشتمل عملہ کام کر رہا ہے۔
۹- پڑوسی ممالک کے ساتھ سماجی ومعاشی تعلقات کو فروغ دیا گیا ہے۔ چین، ایران، پاکستان ،روس، ازبکستان ،ترکمانستان، تاجکستان وغیرہ کے ساتھ تجارتی تعلقات استوار اور سرحدیں کھلی ہیں، اور اس میں بہتری آرہی ہے۔ ان ممالک کو طالبنائزیشن کا جو خوف درپیش تھا وہ اب معروضی اور عملی معاشی تعلقات میں ڈھل چکا ہے۔ کمیونسٹ ملک چین کے ساتھ خاص طور پر معاشی تعلقات میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اس وقت ملک کی ۷۰ فی صد بیرونی تجارت اس کے ساتھ ہے۔ کابل میں اکثر ممالک کے سفارت خانے فعال ہوچکے ہیں۔
۱۰- ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ طالبان قیادت نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جس عام معافی کا اعلان کیا تھا، اس پر عمل کیا جا رہا ہے۔ انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ جو لوگ بیرونی ملک جانا چاہتے ہیں یابیرون ملک سے واپس آنا چاہتے ہیں وہ بلا خوف و خطر آسکتے ہیں۔ اندرون ملک اور بیرونی ملک فضائی پروازیں بحال ہو چکی ہیں۔
۱- جس عبوری کابینہ کا اعلان ۲۰۲۱ء میں کیا گیا تھا،وہی ابھی تک چل رہی ہے اور مستقل حکومت اور نظام ابھی تک معرض وجود میں نہیں آیا۔ ملک میں جمہوری ،شورائی نظام اور پارلیمنٹ کا وجود نہیں ہے۔ باقاعدہ ملکی دستور و آئین بھی منظور نہیں کیا جاسکا ہے۔ ملکی انتخابات یا اس کا متبادل کوئی نظام بھی ابھی تک قائم نہیں کیا جا سکا ہے۔
۲- کسی بھی ملک نے ابھی تک امارت اسلامی افغانستان کو باقاعدہ رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ کئی ملکوں نے سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن پڑوسی ممالک سمیت کسی نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ میں بھی افغانستان کی نمائندہ نشست خالی ہے۔
۳- افغانستان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں جاری ہیں ۔اقوام متحدہ ،سیکورٹی کونسل، مغربی ممالک و دیگر عالمی اداروں نے معاشی و سفارتی اور ذمہ دارانِ حکومت پر بین الاقوامی سفر کی جو پابندیاں عائد کی تھیں، برقرار ہیں۔ نیز بینکاری، ہوا بازی اور معاہدوں پر پابندیاں جوں کی توں ہیں۔ گذشتہ حج کے موقع پر طالبان کے اہم رہنما سراج الدین حقانی کو فریضۂ حج کے لیے خصوصی استثنا دیا گیا تھا۔
۴- گذشتہ دو برسوں سے افغانستان میں بچیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر پابندی ابھی تک برقرار ہے۔ امیر المومنین ملاہبت اللہ کے ایک فرمان کے مطابق کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے طالبات پر بند کیے گئے تھے جس سے پوری دنیا میں طالبان قیادت کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ اس سال امارت اسلامی نے اعلان کیا کہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جو اسلامی اصولوں کے مطابق بچیوں کا تعلیمی نصاب تیار کرے گی، لیکن ابھی تک اس معاملے پر کوئی اقدام سامنے نہیں آیا جس پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک امارت اسلامی کے حامیوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔
۵- پاکستان کے ساتھ تعلقات میں جو بہتری کی توقع کی جا رہی تھی، ابھی تک وہ پوری نہیں ہوئی۔ طالبان کے پہلے دور (۱۹۹۶ء-۲۰۰۱ء) میں پاکستان نے امارت اسلامی کی حکومت کو نہ صرف تسلیم کیا تھا بلکہ سفارتی محاذ پر اس کی بھرپور حمایت بھی کی تھی۔ اس کے بعد حامد کرزئی اور ڈاکٹراشرف غنی کے دور میں تعلقات کشیدہ رہے۔ طالبان کی کابل آمد پر پاکستان میں بھی بالعموم خوشی کا اظہار کیا گیا، لیکن اس کے بعد باہمی تعلقات میں تناؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی جس کی بڑی وجہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے بڑے پیمانے پر دہشت گردی ہے۔ افغانستان سے متصل قبائلی اور جنوبی اضلاع میں ہزاروں کی تعداد میں ان کے وابستگان، فورسز کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں اور ان کی قیادت افغانستان میں موجود ہے۔
تیسری دوحہ کانفرنس منعقدہ ۳۰ جون تا یکم جولائی ۲۰۲۴ء میں ان کے یہ دونوں مطالبات منظور کر لیے گئے۔ کانفرنس میں افغانستان اور اقوام متحدہ کے نمائندگان کے علاوہ امریکا، روس، چین، پاکستان، ایران، تاجکستان، ازبکستان ،قازکستان،کرغزستان، ترکی ،جاپان ،انڈیا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ناروے، سعودی عرب ،انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، اور قطر شامل رہے۔ یورپی یونین اور اسلامک کانفرنس کے نمائندے بھی موجود تھے جس سے آپ اس کانفرنس کی اہمیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔ کابل کے ایک مؤثرتھنک ٹینک سی ایس آر ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کانفرنس سے امارت اسلامی نے تین اہم فوائد حاصل کیے :
۱ -امارت اسلامی افغانستان کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی فورم میں پوری نمائندگی دی گئی ۔جس سے اب تک اس کو محروم رکھا گیا تھا۔
۲- ایجنڈا میں وہ نکات شامل کیے گئے،جوافغانستان کی ضرورت ہیں اور زمینی حقائق کے مطابق ہیں ۔جن میں افغانستان پر عائد بین الاقوامی پابندیاں ختم کرنا، بینکاری کی سہولیات اور نجی سیکٹر پر پابندیاں ختم کرنا، افغانستان کے منجمد اثا ثے بحال کرنا ،افیون کی کاشت پر پابندی کے نتیجے میں متاثرہ کسانوں کو ریلیف مہیا کرنا جیسے نکات شامل تھے۔ جس پر کانفرنس کی دوسری نشست میں تفصیلی غور وخوض ہوا اور افغان نمائندوں کو سناگیا ۔
۳- بین الاقوامی برادری نے ایک طرح سے تسلیم کر لیا ہےکہ امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ براہ راست رابطہ اور مل کر کام کرنا ناگزیر اور مفید ہے اور اس پر پابندیاں عائد کرنا اور دباؤ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس لیے اس کو اپنے ساتھ ملاکر چلانے کی ضرورت ہے ۔
اگر چہ اس کانفرنس سے فوری طور پر تو افغانستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، لیکن امارت اسلامی افغانستان نے عالمی فورم میں اپنی تین سالہ کارکرد گی بیان کی۔ جس میں امن و سلامتی، معاشی ترقی، پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات، ملک میں افیون کی کاشت پر مکمل پابندی اور افغانستان سے منشیات کی سمگلنگ جیسی بڑی سماجی لعنت کا خاتمہ شامل ہے۔ یہ کام طالبان کے پہلے دورِ حکومت میں بھی کیا گیا تھا، لیکن ملک پر امریکی قبضے کے دوران یہ پھربڑے پیمانے پر شروع ہوا اور ۲۰۲۰ء کے اختتام پر ایک اندازے کے مطابق صرف افغانستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد ۴۰لاکھ سے زائد تھی۔ منشیات کا خاتمہ امارت اسلامی افغانستان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
دوحہ کانفرنس کے دوران ایک اہم اجلاس قطر کی میزبانی میں منعقد ہوا ،جس میں پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں ان تین ممالک کے درمیان کارگو ریلوے سروس کے قیام کے منصوبے پر بات چیت کی گئی جس کی فنڈنگ قطر کرے گا۔ یہ پاکستان کے لیے ایک بہت اہم منصوبہ ہے، جس کے ذریعے وسطی ایشیائی ممالک اور روس کی مارکیٹوں تک براہ راست رسائی حاصل ہوسکے گی۔ازبکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے ریلوے لائن موجود ہے، جو مزار شریف تک ہے ،جب کہ پاکستان کی طرف سے ریلوے طورخم تک ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا‘ (VOA )کے مطابق اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند گروپوں کا اتحاد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں ’سب سے بڑا دہشت گرد گروپ‘ ہے۔ اسے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے طالبان حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم دیر گئی۔ اس کے مطابق ٹی ٹی پی کی زیرقیادت، پاکستانی سکیورٹی فورسز اور شہریوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں بڑا اضافہ ہوا، جن میں حالیہ ہفتوں میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’ٹی ٹی پی، افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام جاری رکھے ہوئے ہے، اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے لیے، اکثر افغانوں کو (یا افغانستان کی سرزمین کو ) استعمال کرتی ہے‘‘۔ مزید یہ کہ ’’عالمی سطح پر نامزد دہشت گرد گروپ، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، افغانستان میں تقریباً۶ہزار۵سوجنگجوؤں کے ساتھ کام کر رہا ہے‘‘۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ’ ’پاکستان، ٹی ٹی پی کے پاکستان میں بڑھتے ہوئے حملوں سے نمٹنے کے لیے مشکلات کا شکار ہے اور طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ان پُرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اسلام آباد اور کابل میں طالبان حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں،جب کہ افغان طالبان (امارت اسلامی افغانستان ) دہشت گرد گروہ کی موجودگی کے الزامات کو مسترد کرتی ہے یا یہ کہ پڑوسی ممالک کو دھمکی دینے کے لیے افغان سرزمین کے استعمال کرنےکی اجازت دیتی ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ: ’’طالبان، ٹی ٹی پی کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر تصور نہیں کرتے اور ان کے درمیان باہمی مضبوط تعلقات ہیں۔ ٹی ٹی پی ۲۰۰۷ء میں پاکستان کے غیر مستحکم (قبائلی علاقوں )سرحدی علاقوں میں اُبھری، جس نے افغان طالبان کو بھرتی اور پناہ فراہم کی کیونکہ اس کے بعد کے برسوں میں انھوں نے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوجیوں کے خلاف گوریلا حملے تیز کر دیے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے: افغانستان میں القاعدہ کے علاقائی کارندے، جن کے طالبان سے طویل مدتی تعلقات ہیں، پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر دہشت گردانہ کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کی مدد کر رہے ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں رکن ممالک کے حوالے سے بتایا گیا ہے: ’’ٹی ٹی پی کے کارندوں کو مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر القاعدہ کے اُن کیمپوں میں تربیت دی جا رہی ہے جو اس تنظیم نے متعدد سرحدی صوبوں جیسے ننگرہار، قندھار، کنڑ اور نورستان میں قائم کیے ہیں۔ اس طرح القاعدہ ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہی ہے۔ اس طرح القاعدہ کے ساتھ ’زیادہ تعاون‘ ٹی ٹی پی کو ’پورے خطے کو خطرے‘ میں تبدیل کر سکتا ہے‘‘۔
لکھا گیا ہے: ’’نیٹو افواج کے ہتھیار، خاص طور پر رات میں دیکھنے کی صلاحیت (Night vision کے حامل حساس آلات) جو کہ طالبان کے قبضے کے بعد سے ٹی ٹی پی کو فراہم ہوچکے ہیں، پاکستانی فوجی سرحدی چوکیوں پر اس کے حملوں میں جان لیوا اضافہ کرتے ہیں‘‘۔
اسلام آباد میں حکام نے بھی بار بار سکیورٹی فورسز میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ جدید امریکی ہتھیاروں کو قرار دیا ہے جو بین الاقوامی افواج کے ہاتھوں پیچھے رہ گئے تھے اور ٹی ٹی پی کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ امریکی محکمہ دفاع نے مئی [۲۰۲۴ء]کے آخر میں منظر عام پر آنے والی سہ ماہی رپورٹ میں ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’پاکستانی انٹیلی جنس فورسز نے اس سال کے شروع میں انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران، M-16 اور M-4 رائفلز سمیت چند امریکی تیار کردہ چھوٹے ہتھیار برآمد کیے ہیں اور ٹی ٹی پی سمیت عسکریت پسند، پاکستان میں حملوں کے لیے ممکنہ طور پر محدود مقدار میں امریکی ساخت کے ہتھیاروں اور آلات بشمول چھوٹے ہتھیاروں اور نائٹ ویژن چشموں کا استعمال کر رہے ہیں‘‘۔ تاہم، اس میں آگے چل کر کہا گیا ہے: ’’امریکی ساختہ ہتھیاروں کی مقدار جس کا دعویٰ پاکستانی ذرائع نے کیا ہے کہ وہ پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں ہے، یہ ممکنہ طور پر مبالغہ آرائی ہے‘‘۔
اسلام آباد نے بارہا کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’وہ ٹی ٹی پی کی زیر قیادت سرحد پار دہشت گردی کو لگام ڈالے اور محسود سمیت اس کے رہنماؤں کو پکڑ کر پاکستان کے حوالے کرے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق: ٹی ٹی پی نے بتدریج پاکستان کے خلاف حملوں کی تعداد کو ۲۰۲۱ء میں ۵۷۳ سے بڑھا کر ۲۰۲۳ء میں ۱۲۰۳ کر دیا ہے، اور یہ رجحان ۲۰۲۴ء میں بڑھتا جارہا ہے۔ پاکستانی حکام بھی تشدد میں اضافے کی وجہ ’زیادہ سے زیادہ آپریشنل آزادی‘ کو قرار دیتے ہیں جو تقریباً تین سال قبل طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دہشت گرد تنظیم کو افغانستان میں حاصل ہوئی ہے۔ طالبان کی جاسوسی ایجنسی، جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس نے، ٹی ٹی پی کے رہنماؤں کے لیے کابل میں تین نئے گیسٹ ہاؤسز کی سہولت فراہم کی اور مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کی سینئر شخصیات کو نقل و حرکت میں آسانی اور گرفتاری سے استثنا کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں کے اجازت نامے جاری کیے تھے۔ اس جائزے میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’’طالبان کو خدشہ ہے کہ[امارت اسلامیہ کی جانب سے] ’زیادہ دباؤ‘ ٹی ٹی پی کو افغانستان میں قائم داعش کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور کر سکتا ہے‘‘۔
طالبان نے اقوام متحدہ کی ان تازہ رپورٹوں پر فوری طور پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم، طالبان نے یہ ضرور ظاہر کیا ہے کہ ’’افغانستان پر الزام لگانے کے بجائے (ٹی ٹی پی) پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے‘‘۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اس رپورٹ میں شائع شدہ حقائق یا تصورات زیادہ تر پہلے سے پاکستان اور افغانستان کی قیادت کے علم میں ہیں اور ان پر پاکستانی وزیر دفاع اور دیگر حکام اظہار خیال بھی کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں دہشت گردی کے واقعات کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ میں افغان ناظم الامور کو بلا کر سفارتی انداز میں متنبہ بھی کیا گیا اور کم از کم ایک مرتبہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے مبینہ ٹھکانہ پر بمباری بھی کی گئی ہے اور آئندہ بھی ایسا کرنے کی وارننگ دی گئی ہے، جس پر افغان قیادت کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس وقت پاک افغان تعلقات تناؤ کا شکار ہیں اور اعلیٰ سطحی رابطوں کا فقدان ہے۔ پاکستان نے اب تک افغانستان کو سفارتی سطح پر تسلیم بھی نہیں کیا۔ تاہم، ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان افغانستان کو رسمی طور پر باقاعدہ تسلیم کرکے اس کے ساتھ اعلیٰ سطح پر مذاکرات کے عمل کا دروازہ کھولے، جس میں دونوں طرف کی سیاسی اور دینی قیادت شریک ہو۔ جنگی اقدامات کو خیرباد کہنا چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان روزمرہ بنیادوں پر مضبوط سیاسی، اقتصادی اور سماجی تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ اس کام میں پاکستان ہی کو سبقت لینی چاہیے۔ گذشتہ ماہ جولائی کو فرینکفرٹ میں پاکستانی کونسل خانے پر جو افسوس ناک واقعہ ہوا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی لابی افغانستان میں پاکستان مخالف رائے عامہ کو کسی بھی وقت استعمال کر سکتی ہے، حالانکہ اس مظاہرے میں پاکستانی طلبہ بھی بڑی تعداد میں شریک تھے، جو ممتاز پختون قوم پرست شاعر گیلامند وزیر کی اسلام آباد میں پُراسرار ہلاکت کے خلاف احتجاجی مراسلہ پاکستانی سفارتی عملے کو دینے گئے تھے۔ مگر اسی دوران جن دو افغان طلبہ نے پاکستانی پرچم اُتارا تھا، ان کو اسی وقت پاکستانی طلبہ نے پکڑ کر پولیس کے حوالے بھی کیا تھا۔