اگست ۲۰۲۴

فہرست مضامین

اسلامی احیاء: فکری اور عملی اقدامات

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان | اگست ۲۰۲۴ | مذاکرہ: اسلامی احیاء کا مسئلہ

Responsive image Responsive image

عالم اسلام کا بحران گیارھویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگوں سے شروع ہوا۔ اس وقت تک ان ممالک میں، جن کو پہلے ’اسلامی مشرق‘ کہا جاتا تھا اور اب ’مشرق وسطیٰ ‘کہا جاتا ہے، مسلمان اکثریت حاصل کر چکے تھے، یعنی افغانستان، ماوراء النہر، وسطی ایشیا ، ایران ، شام ، فلسطین، جزیرہ نما عرب، یمن، خلیج فارس وغیرہ کے علاقوں میں مسلمانوں کی اس وقت اکثریت ہو چکی تھی۔

یہ جنونی صلیبی جنگیں گیارھویں صدی سے لے کر چودھویں صدی عیسوی تک (۱۰۹۹- ۱۳۶۹ء) تک چلیں۔ ان کی آڑ میں پورا یورپ، عالم اسلام کے مرکزی علاقوں پر پل پڑا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبرکو ’کافروں ‘سے بچانے کےنام پر پورے یورپ نے عالم اسلام کے مرکزی علاقوں پر مذہبی اور جذباتی نعرے لگاتے ہوئے دھاوا بول دیا حالانکہ ان کا اصل مقصد مزید زمینوں پر قبضہ کرنا تھا (جسے Lebensraum کا نام دیا جاتا ہے) کیونکہ امراء کے لیے یورپ میں زمین کم پڑ رہی تھی۔

ان جنونی حملوں کے دوران ترکیہ سے لے کر مغرب (مراکش) تک کو تا راج کیا گیا، جب کہ سب سے زیادہ نقصان فلسطین، شام اور مصر کو ہوا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی (م:۱۱۹۳ء) نے ’معرکۂ حطین‘ (جولائی ۱۱۸۷ ء) میں صلیبیوں کی کمر توڑ دی، تاہم یہ بے معنی جنگیں شاہ قبرص پیٹر کی موت (۱۳۶۹ ء)تک جاری رہیں۔

اسی دوران مسلمانوں کی کمزوری دیکھ کر تیرھویں صدی عیسوی میں مشرق سے منگولوں اور تاتاریوں نے عالم اسلام پر حملے شروع کردیئے ۔ جہاں جہاں صلیبی، منگول اور تا تاری گئے وہاں وہاں انھوں نے نہ صرف بے شمار لوگوں کا خون بہایا، بلکہ مسلمانوں کے سیاسی اور تجارتی اداروں کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا۔تاتاری یلغار کو مملوکی قائد سیف الدین قطز نے عین جالوت میں ۳ستمبر ۱۲۶۰ء کو شکست دے کر ناکام بنایا۔

جب صلیبی جنون دھیرے دھیرے ٹھنڈا پڑا تو پرتگال اور اسپین نے مسلم ممالک پر سامراجی قبضے کی مہم چلائی اور مسلم ممالک کے ارد گرد بحری راستوں پر قبضہ کر کے وہ مسلم تجارت تہ وبالا کر ڈالی، جو اٹلی میں بندقیہ (وینس) سے لے کر چین کے کینٹن تک پھیلی ہوئی تھی، اور جس پر عالم اسلام کی اقتصادی خوش حالی کا بڑی حد تک انحصار تھا۔ پھر جلد ہی دوسری یوروپین اقوام جیسے انگریز، فرانسیسی ، ولندیزی، اطالوی اور بلجیئن وغیرہ نے مسلم دُنیا کے مختلف حصوں پر قبضے شروع کردیئے۔ یہ سلسلہ بیسویں صدی عیسوی کے وسط تک جاری رہا۔

بالواسطہ سامراج کے سمٹ جانے کی وجہ تسلط کی سوچ کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ پہلی اور دوسری عظیم جنگوں کے نتیجے میں یوروپین طاقتیں بہت کمزور ہو گئی تھیں، اور اسی دوران ایک نئی طاقت – امریکا – ان کی جگہ لے رہی تھی۔ اس نئی طاقت کو مسلم ممالک پر براہ راست سامراجی قبضے کی زیادہ فکر نہیں تھی بلکہ وہ وہاں کے بازاروں، حکومتوں، فوجی و سول قیادتوں اور میڈیا و اخبارات پر قبضہ چاہتی تھی۔ مزید بر آں ان ممالک کے خام مال کو کم سے کم دام پر خریدنا اس کا بنیادی مطمح نظر تھا ۔

مسلم دُنیا کے زوال کا یہ سلسلہ تقریباً ایک ہزار سال سے جاری ہے اور اب تک تھما نہیں ہے۔ اس کا اثر علمی، ثقافتی اور تہذیبی زندگی کے ہر گوشے پر پڑا۔ پرانے مدارس بند ہوئے، علمی کام کے لیے علما کی مدد و ہمت افزائی کم سے کم تر ہوتی چلی گئی اور ہر میدان میں مغر ب کی نقالی کا بول بالا ہوگیا۔ دین دار حلقوں میں اصل اسلامی علوم (علومِ قرآن و حدیث وغیرہ) کے بجائے فقہ اور جامد تقلید نے لے لی، جس کی وجہ سے مسلمانوں میں مسلکی تعصب اور گروہ بندی کو فروغ ملا، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور امت واحدہ آج بہت سے فرقوں میں بٹ چکی ہے۔ ان حالات میں ابن رشد (م: ۱۱۹۸ء) کے بعد عالم اسلام میں کوئی بڑا اجتہادی شان رکھنے والا عالم نہیں پیدا ہوا، بلکہ فقہی نصوص حفظ کرنے والے ’عالم‘ کہلائے۔

اس صورت حال کا اثر صرف خواص پر ہی نہیں بلکہ عوام پر بھی پڑا۔ ان کے سامنے کوئی رول ماڈل نہیں رہ گیا۔ علم کے لیے پیاس ختم ہوئی اور دولت و دنیاوی جاہ کے لیے ہوڑ لگ گئی۔   علما کا احترام ختم ہوا، نئے حاکم اپنے ملک اور عوام سے طاقت حاصل کرنے کے بجائے غیر ملکی حکمرانوں سے طاقت حاصل کرنے لگے بلکہ انھوں نے اپنے ملکوں میں غیر ملکی طاقتوں کو فوجی اڈے تک بنانے اور سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ غیر ملکی طاقتوں کی شہ پاکر بہت سے مسلم ممالک میں فوجی انقلابات برپا ہوئے، جنھوں نے معاشرے کی سیاسی اور اخلاقی صورتِ حال کو اور بھی تہ وبالا کیا اور ہرسطح پر آمریت ( ڈکٹیٹرشپ) کو قابلِ قبول بنایا۔

اب صورت حال یہ ہے کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں سے کوئی امید نہیں ہے کہ وہ اسلام کی نشاتِ ثانیہ ، عوام کی دینی اور اسلامی تربیت اور علم کے فروغ کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ہر مسلم ملک میں آمریت کا دور دورہ ہے کہ جہاں حاکم کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں ہو سکتا ہے۔ تقریباً ساری حکومتیں مغربی طاقتوں کے بل پر قائم ہیں۔ بعض عرب ممالک میں آسانی سے آنے والی دولت نے بھی حکام اورعوام دونوں کا مزاج بگاڑدیا ہے۔اب محنت کرنے کی عادت ختم ہو گئی ہے۔ دفتر، دکان اور گھر، ہر جگہ غیر ملکی نوکروں، خادموں اور خادماؤں نے کام سنبھال لیا ہے۔ اس سے نہ صرف اخلاقی بگاڑ آیا ہے بلکہ عربی زبان پر بھی نئی نسل کا عبور کم ہو رہا ہے۔

اس اثناء میں، بالخصوص سامراج کے آنے کی وجہ سے ،مسلمان غیر مسلم ممالک میں پڑھنے اور کام کرنے جانے لگے اور ان میں سے بہت سوں نے وہاں رہنا، بسنا بھی شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے تقریباً ہر غیر مسلم ملک میں مسلمانوں کی اقلیتیں وجود میں آ گئیں۔ کہیں کہیں، جیسے جرمنی، فرانس، برطانیہ اور امریکا میں ،مسلمانوں کی معتدبہ تعداد آباد ہو گئی ہےاوراب اس کا کوئی امکان نہیں ہےکہ یہ لوگ اپنے اصل ملکوں کو کبھی واپس جائیں گے۔

ان زمینی حقائق کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کو مسلم اکثریتی ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک میں لکھنے، پڑھنے، بولنے اور چھاپنے کی آزادیاں حاصل ہیں اور وہاں ان کے جان و مال بھی زیادہ محفوظ ہیں ۔ اس کی وجہ سے آج ایسے کئی ممالک میں مسلم اقلیتیں ایک غیر معمولی رول ادا کرنے کے لائق ہوگئی ہیں۔

آج مسلم اقلیتوں کے لیے ممکن ہے، اور یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے، کہ وہ اپنی نئی آبادیوں میں ملی ہوئی آزادیوں کو استعمال کرکے نہ صرف اپنی زندگیوں میں اسلام پر عمل پیرا ہوں بلکہ اسلام کا وہ عملی ماڈل بھی پیش کریں، جس کے بغیر اسلام محض ایک نظریہ رہتا ہے ۔ غیر مسلم ممالک کی آزادیاں وہاں کے مسلمانوں کو یہ سب کرنے دیں گی، مثلاً وہ ایسا تعلیمی، اقتصادی اور اخلاقی اور عملی ماڈل پیش کریں، جس سے دنیا صحیح معنوں میں اسلام کی حقیقت سمجھ سکے۔

 فروری ۱۹۷۶ء میں طرابلس (لیبیا) میں ’مسلم عیسائی ڈائیلاگ‘ منعقد ہوا تھا۔ اس میں میرے والد (مولانا وحید الدین خاں) بھی مدعو تھے۔ اس ڈائیلاگ میں آسٹرین نو مسلم محمداسد بھی موجود تھے۔ میں اس وقت لیبیا کی وزارت خارجہ میں کام کرتا تھا۔ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے چند لوگوں کو اپنے گھر پر مدعو کیا تاکہ مسلمانوں اور عالم اسلام کے مسائل کے بارے میں بات ہو۔ محمد اسد اور والد صاحب کے علاوہ اس میں معروف مصری عالم اورقاہرہ یونی ورسٹی میں میرے استاد ڈاکٹر عبد الصبور شاہین اور لیبیا کے مفکر محمد سلیمان القائد وغیرہ موجود تھے۔

اس گفتگو کےدوران یہ سوال آیا کہ ’’کس طرح اسلام نظامِ عالم کی تشکیل کرسکتا ہے؟‘‘ سب نے کچھ نہ کچھ رائے دی۔محمد اسد کی رائے تھی کہ ’’جب تک ہم اسلام کا کوئی ورکنگ ماڈل دنیا کے سامنے نہیں پیش کریں گے، کوئی ہماری بات کو سنجیدگی سے نہیں لےگا‘‘۔ جناب اسد کی یہ بات میرے دل میں گھر کر گئی ۔ تب سے میں نے اس بات کو متعدد بار اپنی تحریروں اور تقریروں میں دُہرایا ہے۔ میں اس تجزیے سے پوری طرح متفق ہوں اور یہ سوچ سمجھ کر اعتراف کرتا ہوں کہ آج کی معاصر دنیا میں ہم کسی بھی میدان میں اسلام کا ورکنگ ماڈل نہیں پیش کرپائے ہیں، چاہے وہ سیاسی نظام کاہو یا سماجی، معاشی نظام، تعلیمی و سائنسی نظاموں کا۔ ہر میدان میں ہم دوسروں سے پیچھے ہیں اور کچھ پیوند کاری کے ساتھ دوسروں کی محض نقالی کررہے ہیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرے اور اسلام ایک عالمی طاقت بنے، تو ہمیں اسلام کا ایک عملی ماڈل پیش کرنا ہوگا۔ ہمیں عملی طور پر دکھانا ہوگا کہ اسلام جب کسی سوسائٹی پر حاکم ہوتا ہے تو وہاں ایسا ہوتا ہے۔ افسوس کہ اسلام کے نام پر آج ۵۸ حکومتوں کے پائے جانے کے با وجود آج تک مسلمان اسلام کا کسی بھی میدان میں ماڈل نہیں پیش کر پائے ہیں۔ یہ ایک ایسا اذیت ناک خلا ہے جسے آج بھی پُر کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم ایک اسلامی ورکنگ ماڈل نہ پیش کرلیں گے ہمیں اسلام کے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور نہ کوئی ہمارے دعوؤں کو سنجیدگی سے لے گا۔