اگست ۲۰۲۴

فہرست مضامین

کشمیرکی صورتِ حال ۲۰۱۹ء کے بعد

سلیم منصور خالد | اگست ۲۰۲۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

’’۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بھارتی لوک سبھائی حملے کے نتیجے میں کیا مقبوضہ کشمیر پُرامن ہوگیا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔

گذشتہ پانچ برسوں کے دوران جہاں ایک طرف نئی دہلی سرکار کے ظلم و تشدد نے مختلف نئے حربے اپنائے ہیں، وہیں عوامی سطح پر محکوم کشمیریوں نے بعض حوالوں سے مایوسی اور ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے جدوجہد کے لیے نئے راستے اپنائے ہیں۔ یہ زمانہ ظلم کی مختلف داستانوں کومجسم پیش کرتا ہے اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آرایس ایس) کی مسلم نسل کش حکمت عملی کا جواب دینے کے لیے اپنی کوششوں میں تبدیلی لایا ہے۔

اس دوران تحریک آزادیٔ کشمیر اپنے عظیم رہنما سیّدعلی گیلانی کی رہنمائی سے ستمبر۲۰۲۱ءکو محروم ہوگئی۔ وہ مسلسل بھارتی حکومت کی قید میں تھے۔ انتقال سے قبل انھیں علاج معالجے کی سہولت سے محروم رکھا گیا۔پھر ان کی میّت بھی بھارتی فورسز نے قبضے میں لے لی اور خاندان کو تجہیزو تدفین کرنے کی اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اُن کی وصیت کے مطابق انھیں شہدا کے مرکزی قبرستان میں دفن کرتے۔ اہل کشمیر کے لیے گیلانی مرحوم ایک والد کی سی قدرومنزلت رکھتے تھے مگر لوگوں کو ان کے جنازے میں شریک نہیں ہونے دیا گیا۔

قابض حکومت کی جانب سے اخبارات سخت سنسرشپ اور پابندیوں میں جکڑے گئے۔ اسکولوں سے اُردو کی کمر توڑنے اور اسلامی تہذیب سے وابستہ اسباق کی بیخ کنی کے انتظامات کیے گئے، اور اسلامی اسکولوں کو قومیایا گیا۔ اچانک چھاپے مار کر لکھنے پڑھنے والے دانش وروں اور صحافیوں کی ایک تعداد کو مقدمات کے بغیر انڈیا کی دُور دراز جیلوں میں ٹھونسا یا غائب کردیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر سے اُن طلبہ کے راستے میں شدید ترین رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، جو اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جانا چاہتے تھے اور ان کے داخلے بھی ہوچکے تھے۔ اس پالیسی کا شکار وہ طلبہ بھی ہوئے، جو بھارتی حکمرانوں کے کشمیر موقف کے حامی ہیں، لیکن ان کا مسلمان ہونا، ان کی راہ میں رکاوٹ بنادیا گیا۔

اقوام متحدہ کے مطابق مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر متنازعہ علاقے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں کے شہری کشمیر کے ایک دوسرے علاقے میں جانے کا حق رکھتے ہیں۔

۲۰۰۲ء میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے جموں و کشمیر میں یک طرفہ باڑ لگانے سے ایک تو یہاں کے لوگوں کا بنیادی شہری حق سلب ہوا، اور دوسری طرف جو طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرنے آزاد کشمیر آئے تھے، بھارتی حکومت نے ان کی ڈگریاں تسلیم کرنے سے انکار پر مبنی قانون نافذ کردیا۔

اس مدت میں تمام تر بلندبانگ دعوئوں کے باوجود بھارتی حکومت نے یورپی ممالک کے صحافیوں کو آزادی سے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی، اور اگر ایک مرتبہ چند افراد کو جانے دیا بھی، تو ایک دو روز بعدہی انھیں کشمیر سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ پھر تجاوزات مٹانے کے نام پر خاص طور پر شہری علاقوں اور سری نگر شہر میں بڑے پیمانے پر بلڈوزر چلا کر سیکڑوں برسوں سے آباد کشمیریوں کے کاروبار تباہ اور گھربرباد کر دیئے گئے۔

۱۳جون کی شام نئی دہلی میں نریندرا مودی کی تیسری حلف برداری کی تقریب سے صرف ایک گھنٹہ پہلے ہندو یاتریوں سے بھری بس پر اچانک حملے کے نتیجے میں ۹؍افراد ہلاک ہوگئے۔ انھی دنوں انڈین سیکورٹی فورسز پر چار دن میں چار حملے ہوئے، جن میں کٹھوعہ کے مقام پر ہیرانگر میں دوحُریت پسندوں اور ایک بھارتی فوجی کی جان گئی۔جموں کا یہ علاقہ نسبتاً پُرامن تصور کیا جاتا رہا ہے۔ ذرا ماضی میں دیکھیں تو ۲۰۰۲ء میں جب جموں کے کالوچک علاقے میں فوجی کوارٹروں پر مسلح حملے میں درجنوں بھارتی فوجی اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہلاک ہوئے تھے، تو نتیجے میں پاک بھارت سرحدوں پر جنگ جیسی صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی۔

اسی دوران کشمیر میں حُریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ ڈی ڈبلیو ٹی وی (جرمنی)کے نمائندے صلاح الدین زین کے مطابق ۹جولائی کو ضلع کٹھوعہ میں مجاہدین نے بھارتی فوجی قافلے کو نشانہ بنایا، جس میں پانچ فوجی مارے گئے، ان میں ایک کمیشنڈ افسر بھی شامل تھا۔ یہ واقعہ کٹھوعہ سے تقریباً ۱۵۰کلومیٹر کے فاصلے پر مچیڈی، کنڈلی، ملہار کے پاس پیش آیا۔ فوجی ذرائع کے مطابق حُریت پسندوں نے ٹرک پر دستی بم (گرنیڈ)پھینکا اور پھر فائرنگ شروع کردی۔ سیکورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی، مگر اس دوران حُریت پسند جنگل کی جانب فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق فوجی قافلے پر دو سمتوں سے حملہ کیا گیا۔

ان مہینوں کے دوران جموں اور عام طور پر وادیٔ کشمیر کے علاقے میں حُریت پسندوں کا غلبہ رہا ہے۔ اس طرح خطۂ جموں میں بھارتی فوج پر حملوں میں خاصی تیزی آئی ہے، اور جولائی کے شروع تک یہ اپنی نوعیت کا پانچواں حملہ ہے، جس میں بھارتی فوج کو خاصا نقصان پہنچا ہے۔

جون کے مہینے میں حُریت پسندوں نے انڈین سیکورٹی فورسز کی ایک بس پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں وہ کھائی میں جاگری، اور نو افراد کی ہلاکت ہوئی۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد مجاہدین نے ایک گائوں میں سیکورٹی فورسز سے مقابلہ کیا، جس میں سی آر پی ایف کا ایک فوجی مارا گیا اور دو مجاہدین نے جامِ شہادت نوش کیا۔ جون ہی میں ضلع ڈوڈہ (جموں) کے علاقے گندوہ میں مجاہدین اور بھارتی فورسز کے درمیان مقابلہ ہوا، اور تین مجاہدین شہید ہوئے۔

۹جولائی کو ’وائس آف امریکا‘ میں یوسف جمیل نے رپورٹ کیا ہے کہ ضلع کولگام کے مُدھرگام اور فرسل چھنی گام دیہات میں حُریت پسندوں اور بھارتی فوجیوں کے درمیان دو روز تک جھڑپیں جاری رہیں۔ ان جھڑپوں میں حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے چھ حُریت پسند شہید ہوئے، جن میں: یاور بشیرڈار، ظہیراحمد ڈار، توحید راتھر، شکیل احمد درانی، عادل احمد اور فیصل احمد شامل ہیں، جب کہ دو فوجی مارے گئے۔ یہ سب مقامی کشمیر ی شہری تھے۔ بھارتی حکام کے مطابق: ’’وہ بھاری اسلحے سے لیس تھے‘‘ [جو ظاہر ہے کہ بھارتی فوجیوں ہی سے چھینا گیا تھا]۔ مقامی لوگوں کے مطابق ان تمام شہدا کا تعلق مقامی آبادی سے تھا اور یہ نوجوان مارچ ۲۰۲۱ء سے تادمِ آخر مجاہدین کی صفوں میں شامل رہے۔

انڈین حکومت دُنیا کے سامنے مسلسل یہ کہتی آرہی ہے کہ اگست ۲۰۱۹ء کے بعد اُس نے جموں و کشمیر میں حُریت پسندی کو کچل دیا ہے۔ مگر دوسری جانب کشمیری نوجوان تحریکِ جہاد کا حصہ بنتے اور اپنا ایک اَن مٹ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔اسی دوران میں انڈین فوج نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسپیشل فورسز (پیراشوٹ رجمنٹ) کے کمانڈوز کو اس علاقے میں اُتارا اور تربیت یافتہ کھوجی کتوں کا بھی استعمال کیا ہے۔

’وائس آف امریکا‘ نے وادیٔ کشمیر کے جنوبی اضلاع میں جڑ پکڑنے والی تحریک جہاد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ ۸جولائی ۲۰۱۶ء کو یہاں پر بُرہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد انڈین فوجیوں نے سرچ آپریشن کے دوران مقامی مسلم آبادی کے ساتھ جس نوعیت کا بہیمانہ سلوک کیا، اس نے لوگوں کو نہایت گہرے زخم دیئے ہیں اور توہین و تذلیل کے واقعات نے ان کے دلوں سے خوف نکال دیا ہے اور حقارت بھر دی ہے۔

۲۴جولائی کو کپواڑہ کے علاقے میں مجاہدین اور بھارتی فوجیوں میں تصادم ہوا، جس میں ایک فوجی مارا گیا اور ایک مجاہد شہید ہوا۔ بھارتی فوجی حکام یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ چند مہینوں میں فوج کے خلاف جنگجو سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لیے نئی فوجی پوسٹیں اور نئے فوجی کیمپ قائم کیے جارہے ہیں۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کو ہراساں کرنے کے لیے بھارتی حکومت کے جاری کردہ کالے قوانین کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ فوج اور پولیس مل کر   میڈیا پر پابندیاں عائد کیے ہوئے ہیں۔ انٹرنیٹ پر گہری نگرانی (سرویلنس) ہروقت جاری ہے۔ سیاسی قیادت کو جیلوں میں بند یا اپنی نگرانی میں جکڑ رکھا گیا ہے۔

 ۱۹جولائی کو کُل جماعتی حُریت کانفرنس کے ترجمان عبدالرشید منہاس نے ایک بیان میں یہ حقیقت آشکار کی ہے: بی جے پی کی حکومت جموں و کشمیر کے لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے اور اپنی بات کہنے کی اجازت نہیں دے رہی، بلکہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کو ہراساں کرنے کے لیے طاقت اور انسانیت کش قوانین کا اندھادھند استعمال کر رہی ہے۔ اسی طرح راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی چھتری تلے ’ہندوتوا‘ تنظیموں کے خفیہ ایجنڈے نے ۱۰لاکھ بھارتی فوج کی مدد سے کشمیر کی معیشت کو شدید بدحالی کا شکار کر دیا ہے، ان کے قدرتی وسائل چھین لیے گئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور چھاپوں نے نفسیاتی دبائو زدہ درندہ صفت فوجیوں کے مظالم کا نشانہ بنارکھا ہے اور اندھا دھند گرفتاریوں نے خاندانوں کو تباہ کردیا ہے۔

دوسری طرف بھارتی شہریوں کو وادیٔ کشمیر میں زبردستی آباد کرنے اور مقامی لوگوں کی تجارت پر اجارہ داری مضبوط بنانے کے لیے مربوط پروگرام پر عمل کیا جارہا ہے۔ تیزرفتار مواصلاتی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے شاہرائوں، پُلوں اور ریل گاڑی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ کلچرل حملے کو تیز کرنے کے لیے متعدد پروگراموں کو وسعت دی جارہی ہے۔

یہ صورتِ حال، پاکستان اور دُنیا کے دیگر ممالک میں تحریک آزادیٔ کشمیر کو قوت فراہم کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔ مگر افسوس کہ چند ماہ پہلے یہاں آزاد کشمیر میں معمولی واقعات کو بدامنی کی راہ پر دھکیل دیا گیا، جس نے پاکستان کی ساکھ کو صدمہ پہنچایا۔ بلاشبہہ اُس میں حقائق سے بے خبر نوجوانوں کا حصہ ہے اور ساتھ دشمن نے بھی اس صورتِ حال کو استعمال کیا ہے۔ کشمیر کے نوجوانوں کے جائز تحفظات کا سنجیدگی سے جواب دینا چاہیے۔ لیکن ردعمل پیدا کرکے اُن میں غصہ پیدا کرنے سے اجتناب بھی برتنا چاہیے۔ آزاد کشمیر کا مواصلاتی نظام بڑے پیمانے پر ترقیاتی کاموں کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر آزاد کشمیر میں اضطراب پیدا ہوگا تو اس کا منفی اثر مقبوضہ جموں وکشمیر کی تحریک پر پڑے گا۔ اس نزاکت کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے ذرائع ابلاغ میں سیاست دانوں اور انتظامیہ کو دُوراندیشی سے کام لینا چاہیے۔