سیّد سردار علی | اگست ۲۰۲۴ | مذاکرہ: اسلامی احیاء کا مسئلہ
ظہورِ اسلام کےایک ہزار سال بعد تک مسلمان، قرآن کے اخلاقی احکامات کے تناظر ہی میں اپنی تاریخ کی تعبیر اور تجزیہ کرتے آئے ہیں۔ مسلمانانِ عرب نے اسلام کے اخلاقی تصورِ ِحیات کو، افریقا اور دجلہ و فرات کے علاقوں میں پچھلے چار ہزار سالوں کے دوران پروان چڑھنے والے رائج الوقت معاشرتی نظام اور پیداواری نظام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ امتزاج کا یہ کام اُموی دور میں شروع ہوا، عباسی خلافت میں فکری طور پہ بار آور ہونے لگا ، اور عثمانی خلافت میں اس کوشان و شوکت اور غلبہ حاصل ہوا۔
جدیدیت کی ’پیراڈائم شفٹ‘ (Paradigm Shift) کے بعد حالات کا تقاضا تھا کہ مسلمان یہ ادراک کر لیتے کہ کوئی سابھی اخلاقی نظام ہو، انسان اپنے اظہار کے لیے بہرحال اسی مادی دنیا کے اسباب اوروسائل کا محتاج ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کہ مسلم شعور آج تک تاریخ کو اس تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت ہی پیدا نہیں کر سکا، اور اگر کیابھی تو جزوی اور محدود حد تک۔ اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کی وہ تمام کوششیں، جو مسلم دنیا اور مسیحی مغرب کے درمیان فوجی طاقت، مادی دولت، اور ثقافتی اثر و رسوخ کےمسلسل بڑھتے ہوئے فرق کی تشخیص کے لیے تھیں، سودمند ثابت ہوتیں۔ کیونکہ یہ تشخیص انسانی معاشروں کے عروج و زوال کے معروضی اور آفاقی پیمانوں کے بجائے صرف عقائد کے زیرِ اثر ، جزوی، یا سطحی مفروضوں پر مبنی تھی۔ نتیجتاً، صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے یہ کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔اسی لیےاس بات سے اب ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ قوت اور وسائل میں یہ تفاوت ، صرف مسلم معاشروں اور مغرب کے درمیان ہی نہیں ہے، بلکہ اب تو مسلم معاشروں اور کئی دیگرغیرمغربی معاشروں کے درمیان بھی یہ فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
دُنیا بھر کے مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف دینِ اسلام کی راہ سے بھٹکنا ان کی اس کمزوری کا سبب نہیں ہے۔ ہمارے دور میں مختلف تہذیبوں کے درمیان طاقت کےاس عدمِ توازن کے ادارک کے لیے ضروری ہے کہ ہم پہلے اس بات کو شعوری طور پر سمجھ لیں کہ ایک ’جدید صنعتی معاشرہ‘ ماضی کےپیداواری نظاموں اور سماجی بندوبست سے بنیادی ہیئت ہی میں مختلف ہے۔ جب تک مسلمان تجزیے اور اصلاحِ احوال کی کوششوں کوان مبادیاتی (Fundamental) غلطیوں سے پاک نہیں کریں گے، اُس وقت تک، اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کے لیے مسلمانوں کی سب کوششیں ماضی کی طرح لا حاصل ہی رہیں گی۔
قبولِ اسلام کے بعد مسلمانانِ عرب چند ہی عشروں میں اپنے آبائی صحرائی مسکن جزیرہ نمائے عرب کے گرد پھیلے زرخیز ہلال نما (Fertile Crescent) خطےپر قابض ہو گئے ۔ عراق، شام، مغربی ایران اور مصر پر مشتمل یہ علاقہ اپنی جغرافیائی ہیئت، اور ہزاروں برس سے باقاعدہ کاشتکاری کا اولین مرکز ہونے کے ناتے، اس نام سے پہچانا جاتا تھا۔ پھرصرف ایک صدی میں وہ دریائے سندھ سے لے کر اسپین کے ساحل تک پہنچ چکے تھے۔ مگراس دنیا میں ایسی سلطنت قائم کرنے والے وہ نہ پہلے فاتح تھے اور نہ آخری۔ ان سے پہلے سائرسِ اعظم (م:۳۲۳ ق م)، سکندرِاعظم (م:۵۳۰ ق م) اور رومی فاتحین اور پھر منگول، مغربی یورپی اور روسی فاتحین فتوحات کرتے آئے۔
بلاشبہہ اسلام نے ہی عربوں کو وہ ولولہ، اتحاد اور اشاعتِ دین کا جذبہ دیا، جو اس کارِ عظیم کا محرک بنا۔ فتوحات کے لیے انھیں وہی جنگی حربےاور نظم و نسق کے طریقے استعمال کرنے پڑے، جو اس زمانے کے دیگر تمام معاشروں میں رائج تھے۔ عرب جن ہتھیاروں اور جنگی چالوں کا استعمال کر تے تھے، وہی ان کے دشمن بھی کر تے تھے۔ جب وہ وسیع و عریض علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو انھیں ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کے لیے انھی انتظامی ڈھانچوں کا سہارا لینا پڑا، جو پرانی میسوپوٹیمین (بین النہرین) اور مصری سلطنتوں نے بنائے تھے۔ ان کے شوقِ شہادت اور جذبۂ ایمانی کی میدانِ جنگ میں اہمیت اپنی جگہ، مگر میدانِ جنگ میں فتح و شکست کا فیصلہ صرف جذبے کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اسلامی فوج ہربار ہر جنگ میں فتح یاب نہیں ہو سکی۔ اُموی خلافت کے قسطنطنیہ پر تمام حملے ناکام رہے۔ فاطمی حکمران، یروشلم شہر کو صلیبیوں کے قبضے میں جانے سے نہ بچا سکے ، اور بنوعباس کا دارالخلافہ بغداد ہلاکو خان (م:۱۲۶۵ء)کےلشکر نے ۱۲۵۸ء میں تاراج کردیا۔ فتح و شکست جن مادی اسباب پر منحصر ہوتی تھی وہ کافر، عیسائی یامسلمان فوج سبھی کی دسترس میں ہوا کرتے تھے۔
عرب اور مسلمانوں نے جو بھی مادی ترقی اپنی سلطنت کے قیام کے بعد حاصل کی، وہ صرف دین پر عمل کرنے کا ہی انعام نہیں تھی، بلکہ اس میں ان کی فکری، علمی، اخلاقی اورہمہ جہت عملی جدوجہد بھی شامل تھی۔ عباسی خلافت کے سنہری عہد میں اسلامی تہذیب اپنے دور کی دوسری تہذیبوں سے دنیاوی خوش حالی کے حوالے سےکوئی بہت زیادہ بہتر نہیں تھی۔ ایک ہزار سال پہلے، دنیا میں تین بڑے تہذیبی مراکز تھے: اس دور کا خوش حال ترین معاشرہ چین کا تھا۔ سونگ خاندان کی چینی سلطنت میں ۱۰ کروڑ سے زیادہ لوگ باقی تہذیبوں سے کہیں بڑھ کے ایک ترقی یافتہ تمدن میں زندگی گزار رہے تھے۔ سلطنتِ روم کی شان و شوکت کی وارث بازنطینی سلطنت کا دارالحکومت قسطنطنیہ، دنیا کا امیر ترین شہر تھا۔ اسی دور کی تیسری بڑی طاقت عباسی خلافت کے مسلمان شہریوں کی خوش حالی اور معیارِ زندگی ان دو ہم عصر تہذیبوں کےشہریوں سے مماثلت رکھتے تھے۔ عرب اور مسلمانوں کی فتوحات کےنتیجے میں ہمسایہ ریاستوں کے زرخیز علاقے زیرِ قبضہ آگئے اور فاضل زرعی پیداوار اب دمشق اور بغداد آنے لگی۔ جس کے نتیجے میں انھیں مادی ترقی اور خوش حالی دیکھنے کا موقع ملا۔ مسلمان زراعت کے طریقوں میں کچھ جدت بھی لائے،مگردولت کی تخلیق کے کسی نئے نظام کو جنم نہیں دےسکے۔ اس دور کی مسلم خلافت سمیت تمام معاشروں میں زیادہ تر آبادی بمشکل ہی گزربسر کرپاتی تھی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے انسانی تہذیب کے آغاز سے انسان کی فی کس آمدنی آج کے حساب سے دو سے تین ڈالر یومیہ تک ہی محدود چلی آ رہی تھی۔ اس معمولی گزربسر کے قابل فی کس آمدنی میں بڑھوتری کے آثار اٹھارھویں صدی کے وسط میں صنعتی انقلاب کےنتیجے میں آنا شروع ہوئے۔ ورنہ چین ہو یا ہندستان، مشرقِ وسطیٰ ہو یا یورپ، انسانی تاریخ کی ان سبھی عظیم تہذیبوں میں کم و بیش ایک ہی طرح کا معیارِ زندگی اور معاشی حالات تھے۔ مسلم دنیا کے حالات بھی ان سے چنداں مختلف نہیں تھے۔
بعثت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آغاز سے ایک ہزار سال بعد تک مسلمانوں کی فتوحات، مال و دولت اور طاقت کے مذہبی اسباب کے باوجود یہ سب انھی دنیاوی آلات و ذرائع کے سہارے ممکن ہوا، جو اس دور میں مروج تھے اور دنیا کے تمام دوسرے معاشروں کو بھی یکساں میسر تھے۔ اپنی سلطنت کے قیام اور استحکام کے دوران دنیا میں دستیاب ان مادی ذرائع سے فائدہ اٹھانے میں مسلمان اکثر اوقات بہت کامیاب رہے، لیکن کبھی انھیں زیادہ کامیابی نہ مل پائی۔ اس دنیا میں اسلامی تہذیب کا عروج اپنے مخصوص اخلاقی جوہر کے باوجود زمان و مکاں میں کارفرما علت و معلول کے ان آفاقی اصولوں کے باعث ممکن ہوا، جو باقی تمام معاشروں پربھی اسی طرح لاگو ہوتےتھے ۔ چوں کہ عربوں کی اسلام قبول کر لینے کے بعد سے فتوحات اور خوش حالی کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا تھا، اس لیے فطری طور پر مسلمانوں کے نزدیک ان کو ملنے والی طاقت، عظمت اور مادی خوش حالی اسلام کی فیوض و برکات کا لازمی نتیجہ تھیں ۔ سماجی عوامل اور نتائج کے لیے مادی اسباب و علل کے بجائے اخلاقی توجیہات تلاش کرنے کا یہ اندازِ فکر آج تک مسلمانوں میں مقبول ہے۔اس مخصوص تاریخی تجربے کے نتیجے میں مسلمان جس تجزیاتی طریقۂ کار کو آفاقی سمجھے بیٹھے تھے، وہ غیر اسلامی تہذیبوں کے عروج و زوال کےدرست تجزیے میں یکسر ناکام ثابت ہوا۔ یہ اندازِ فکر آج تک جدید صنعتی مغربی تہذیب کے عروج اور اس کے نتیجے میں عالمِ اسلام کے زوال کی درست تشخیص کرنے میں مکمل طور پہ غیرمتعلق ثابت ہوا ہے۔
اسلامی تہذیب سمیت دورِ جدید سے پہلے کی تمام تہذیبوں کا استحکام ایک مخصوص سماجی نظام اور تخلیقِ دولت کے روایتی نظام پر منحصرہوا کرتا تھا۔ لیکن یورپی نشاتِ ثانیہ کے ساتھ ہی مغربی یورپ کے ممالک میں یہ دونوں نظام ایک جوہری تبدیلی سے گزرنے لگے۔ یونان اور روم کے قدیم علوم، فلسفہ و منطق کی تکنیکی مہارت اور انسانی عظمت و عزم سے بھرپورفلسفۂ زندگی کو اپنا لینے کے بعد یورپی فلسفیوں نے ان کلاسیکل علوم میں اضافے بھی کیے۔ کائنات کے ہیلیؤ سینٹرک ماڈل کو تسلیم کرلینے سے انسان اور زمین کی مرکزیت کا عقیدہ متزلزل ہو گیا۔ استقرائی استدلال، تجرباتی سوچ اور علمِ ریاضی کے ملاپ نے جدید سائنس اور آئزک نیوٹن (م:۱۷۲۷ء)کے قوانین کو جنم دیا۔ کرۂ ارض کے گرد بحری مہمات اور امریکی براعظموں کی دریافت نےانسان کے ذہنی اُفق کو وسیع تر کردیا۔
انسان کی یہ دریافتیں اور پیش قدمیاں کئی ایجادات، انسانی زندگی میں بہتری کے ساتھ سماجی، معاشی اور سیاسی اداروں میں جدتیں لے کر آئیں۔ پرنٹنگ پریس کی آمد نےوسیع پیمانے پر اشاعتِ علم کو آسان کر دیا۔ کولمبیئن ایکسچینج اور دوسرے زرعی انقلاب نے یورپی باشندوں کی غذا کو پہلے سے بہت بہتر بنا دیا۔ ’تحریک اصلاح‘ (Reformation) کے بعد، چرچ کی سیاسی اجارہ داری کے خاتمے سے جدید قومی ریاستوں کے نظام کو پروان چڑھنے کا موقع ملا۔ یورپ میں ہونے والی مذہبی جنگوں بالخصوص ۳۰سالہ جنگ کے نتیجے میں ان کے فنِ حرب و ضرب میں بہت بہتری آئی ۔ اور بالآخر ۱۹ویں صدی میں صنعتی انقلاب نے صنعتی پیداواراور خدمات کی فراہمی کے ذریعے مغرب اور باقی دنیا میں ایک ایسی تفریق پیدا کر دی، جو روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔
مغرب کا عروج، صرف مسلم دنیا کے لیے ہی نہیں بلکہ تمام غیر مغربی تہذیبوں کے لیےبھی تباہ کن ثابت ہوا۔ برصغیر ہند میں برطانوی نوآبادی کے قیام سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو اور سکھ اقوام کو بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ۱۹ویں صدی کے دوران، امریکیوں نے جاپان میں تقریباً ۷۰۰ سال سے قائم شوگن نظام کو ختم کر دیا اوراس ملک کو باقی دنیا کے ساتھ رابطے پر مجبور کر دیا۔ ۱۹۱۱ء میں، پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے، چین کے انقلابیوں نے دوہزار سال پرانے بادشاہت کے نظام کو ختم کر دیا، اور پہلی جنگ عظیم نے روسی اور عثمانی سلطنتوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔ پرانی کولمبیائی تہذیبوں اور سب صحارن افریقا کی آبادیوں کا حال تو اور بھی برا ہوا۔ صرف پانچ سو سال پہلے تک، مغربی یورپ کی کوئی قوم اپنی سرزمین کے علاوہ کسی اور جگہ موجود نہیں تھی۔ لیکن ۱۹۱۳ء میں اس دنیا کا۸۴ فی صد رقبہ یورپی طاقتوں کے قبضے میں تھا۔ تہذیبوں کی کش مکش میں بازی کا ایسے پلٹ جانا انسانی تاریخ کا ایک ناقابلِ یقین واقعہ تھا۔
مسلم تہذیب کے بر عکس بہت سی غیر مغربی تہذیبوں نے مغرب کی بےپناہ قوت کو دیکھتے ہوئے جلد ہی یہ بھانپ لیا تھا کہ اب ان کا وجود خطرے میں ہے، اور دنیاوی طاقت کے ہرایک پیمانے پر مغرب کے ہم پلہ بن کر ہی اپنی اقدار کا تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ ان اقوام نے اپنے عقیدے، اقدار، اور روایات کے ضروری خواص اور مغربی تسلط کی بنیاد یعنی صنعتی پیداواری نظام کے امتزاج کے لیے بھرپور کوششیں شروع کر دیں۔ یہ کوششیں رنگ لائیں اور وہ مکمل بربادی سے بچ گئے۔ حالانکہ ان تمام غیرمغربی تہذیبوں کے مقابلے میں یہ مسلمان ہی تھے، جو نہ صرف مغرب کا فلسفہ، ثقافت اور مذہب کو زیادہ اچھی طرح سے سمجھتے تھے بلکہ ایک طویل عرصے سے اس کے ساتھ برسرِپیکار بھی تھے۔ اسی لیے توقع کی جا سکتی تھی کہ مغرب کے مقابلے میں طاقت کے اس غیرمعمولی فرق کو وہ جلد ہی دُور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ بنی کہ تین سو سال سے جاری کوششوں کے باوجود مسلمان اپنے اور مغرب کے مابین طاقت اور وسائل کے اس غیرمعمولی تفاوت کو ختم نہیں کر سکے؟
ایک تو مسلمان ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ ان کے موجودہ بحران کی وجوہ داخلی نہیں۔ پچھلے پانچ سو سال کے دوران، دنیا کاکوئی بھی سیاسی نظام، مغرب کی یلغار کے سامنے نہیں ٹھیر سکا۔ ۱۸ویں صدی کے اواخر سے کوئی بھی معاشرہ معاشی پیداوار کے میدان میں مغرب کا مقابلہ نہیں کرسکا۔بلاتفریق سبھی غیرمغربی اقوام ،مغرب کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئیں۔ پھر بھی مسلمان یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ وہ اپنی کسی کوتاہی یا کمزوری کی وجہ سے پیچھے نہیں رہ گئے بلکہ مغرب اپنی غیر معمولی ترقی اور ’پیراڈائم شفٹ‘ کی وجہ سے دوسری تمام تہذیبوں سے آگے نکل گیا۔ ہم مسلمان اپنے ’زوال‘ کے اسباب کو اپنے ہی ماضی میں ڈھونڈتے ہیں۔ وہ آج بھی اپنی تاریخ کے اس لمحے کی کھوج میں ہیں جب وہ صراطِ مستقیم سے بھٹک گئے تھے، اور یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ انسانی تاریخ کو اس تناظر میں دیکھنے کا مخصوص و محدود نقطۂ نظر آفاقی اور معروضی نتائج نہیں دے سکتا۔
اپنی تہذیب کے عروج کے دوران مسلمان اپنے دین کے مِن جانب اللہ ہونے اوراسی کی طرف سے دنیا پر اس کے غلبے کو مقدر کردینے پر بجاطور پر نازاں تھے اور ماضی کے ان خوش گوار لمحوں کو درست طور پر یاد کرتے ہیں۔ لیکن پھر انھوں نے اس خدائی منصوبے کی تکمیل میں کام آنے والے وسائل اور انسانی کاوش کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ اس لیے ان کی طرف سے تاریخ کو دیکھنے کا ایک زاویۂ نظر متعین کرلینا عین فطری تھا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طاقت اور آن بان، ماضی میں ان کے خالص ایمان اور اچھے اعمال کی وجہ سے تھی، اسی لیے اب ایمان میں کمی اور اخلاقی گراوٹ ہی ان کی شان و شوکت چھن جانے کی وجہ ہے۔ اس تجزیاتی فریم ورک کے غیرمؤثر ثابت ہوئے تین صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، مگر اس کے باوجود، مسلم ذہن اب تک اس نظریے کی جگہ علت و معلول کے فطری اور آفاقی قوانین کی روشنی میں اپنے مسائل کا تجزیہ کرنے پہ آمادہ نہیں ہو سکا۔
جب مسلمان، مغرب سے کچھ سیکھنے پر مجبور ہو بھی جائیں تو وہ مغرب کے فکری پیمانوں کو اپنا نہیں سکتے یا پھر ان کے سطحی استعمال سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اسی لیے وہ جو بھی تجزیہ کرتے ہیں وہ تاریخی اور منطقی طور پر غلط ہوتا ہے۔ مسلمان غیر ارادی طورپر اخلاقی نظریۂ تاریخ کی روشنی میں ہی مغرب کے عروج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مغرب کی تاریخ میں وہی اخلاقی قوت کارفرما دیکھتے ہیں، جو کبھی خود ان کی اپنی کامیابی کا باعث تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ مغرب میں یہ اُبھار، اخلاقی تعلیمات اور اقدار کسی بھی مابعد الطبیعیاتی نظام کا نتیجہ نہیں۔ ان کے نزدیک مغرب سیکولر ہوتے ہوئے بھی اس لیے کامیاب ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے دین اور ایمان سے کشید کی گئی آفاقی اقدار کا حامل ہے۔ مغرب کے عروج کی یہ سطحی سی وضاحت ہے، جو ان کے اپنے اندازِ فکر کے تضاد کی تصدیق کرتی ہے۔ جس سے معاملات کے درست ادراک کے لیے تاریخ کے کسی بھی معروضی اور تنقیدی تجزیے کی راہیں بھی مسدود ہو جاتی ہیں۔
مغربی طاقتوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والی مسلم اقوام جب اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر نہ کرسکیں تو پھرمغربی استعماریت(Colonisation) کے دور اور جبر کو ہی اپنی موجودہ ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھیراتی ہیں کہ اسی استعماریت اور نوآبادیاتی نظام نے ان کی شان وشوکت کو برباد کیا تھا اور یہ انھی جیسی یورپی نوآبادیاتی کالونیوں سے لوٹی ہوئی دولت تھی، جس کے سہارے یورپ میں صنعتی انقلاب آیا۔ جب آج کے جدید دور کو ماضی پر قیاس کرنے کی غلطی کی جائے گی تو اسی قسم کے تجزیے سامنے آئیں گے۔ اگر یہ مسلم اقوام طاقت اور عوامی فلاح و بہبود کے پیمانوں پر مغربی اقوام سے بہتر ہوتیں تو کوئی ایک تو جدیدیت کی اس یلغار کو روکنے میں کامیابی حاصل کر لیتی۔ آخر آزادی کے بعد بھی ان میں سے کوئی ایک قوم بھی اپنی عظمتِ رفتہ کا احیاء کیوں نہ کر سکی؟ اور کیوں کوئی ایک بھی مسلم ملک اپنے نوآبادیاتی دور کے آقا کی طاقت کے ہم پلہ نہیں آ سکا؟
دراصل صنعتی دور سے پہلے کی بادشاہتوں کے طرزِ حکمرانی اور جدید دور کی یورپی قومی ریاستوں کے غلبے میں مماثلت قائم کر کے کیا جانے والا تجزیہ نہ تو ماضی میں فاتح اور مفتوح کی دولت اور طاقت کے فرق کی کوئی درست وضاحت کرتا ہے اور نہ نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے صدیوں بعد بھی اس فرق میں مسلسل اضافے کی کوئی قابلِ قبول وضاحت پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو سو سال سے مغرب کے عروج کو سمجھنے کے لیے کی جانے والی کوششیں ابھی تک یہ گرہ نہیں کھول سکیں کہ جدیدیت در اصل ماضی اور حال کے درمیان ایک واضح تقسیم، ایک ’کوانٹم لیپ‘ اور انسان کو دستیاب مادی اسباب میں ایک ’پیراڈائم شفٹ‘ کا نام ہے۔
جب بھی مسلمان محققین یورپ کے عروج کا معروضی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی فکری کم مائیگی ان کے آڑے آتی ہے۔ وہ یورپی تاریخ میں عہدِ وسطیٰ کے بعد پیش آنے والے واقعات کے تسلسل میں سے ترقی کے ایسے تصورات و نظریات اخذ نہیں کر پاتے، جو آفاقی اور وقت کی قید سے آزاد ہوں۔ وہ کچھ مخصوص تاریخی واقعات میں ہی اُلجھے رہتے ہیں، یا پھر علامات اور نتائج کو ہی اصل مسئلہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں اور یوں ان کا تجزیہ منطقی مغالطے کا شکار ہوجاتا ہے ۔
کچھ مسلمان مؤرخین نے غیرالہامی فلسفۂ تاریخ پر کام کا آغازتو ضرور کیا، لیکن مسلم معاشرے بحیثیتِ مجموعی ایسے علمی پیمانے تشکیل نہیں دے سکے، جو اس عالمِ اسباب میں پیش آنے والے تاریخی واقعات کی عقلی توجیہہ کرنے کی ضرورت کو پورا کر پاتے۔ مسلم فلسفیوں نے واقعات یا شخصیات کے مشاہدے سے کوئی ایسا عقلی استدلال تشکیل نہیں دیا، جو ہر مابعدالطبیعیاتی نظام کے لیے معیار اور حوالہ بن سکے اور نہ مسلمانوں کا علمی ذخیرہ اتنا وسیع کیا جاسکا کہ وہ یورپی تاریخ کے ہرسیاسی، سماجی اور معاشی واقعے کا درست تناظر سمجھ کر اس کی نوعیت اور اہمیت پر کوئی آفاقی تجزیہ دے سکتا۔ اس طرح مسلمان کوئی ایسا متبادل نظامِ فکر اپنے معاشروں میں پیش نہ کرسکے، جو جدید مغرب کو اسی کے فکری پیمانوں، اسی کی علمی روایات اور اس کے فلسفیانہ سرچشموں کے تناظر میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
مسلم شعور نہ صرف مغرب کی کامیابیوں کی فلسفیانہ بنیادوں کا کھوج لگانےمیں کامیاب نہیں رہا ہے، بلکہ وہ یورپ کے سائنسی اور سماجی تجربات کے نتائج اورثمرات سے استفادے کا بھی کوئی داخلی پیمانہ متعین نہ کر سکا۔ کم و بیش تین سو سال سے جدید جنگی ساز و سامان، صنعتی مشینری، قانونی اور آئینی فریم ورک، جدید انتظامی سسٹم اور سماجی اور معاشی اداروں سے استفادے کے باوجود مسلمان ایک ایسا نظامِ فکر تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں، جس میں وہ اپنے ناقابلِ تغیر اخلاقی تصورات اور ان تصورات کے حصول یا تنفیذ کے لیے درکار ہر دم تغیر پذیر ذرائع میں واضح تفریق کر سکیں۔
مسلمان جدید ٹکنالوجی، جدید تصورات اور جدید اداروں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک نفسیاتی تذبذب کا شکار بھی رہتے ہیں۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ قُرونِ اولیٰ میں خاص روحانی مداخلت کے باعث مسلم تہذیب اور ریاست کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ مسلمانوں کے اندر ایسے نظریات نہیں پنپ سکے جو انھیں اطمینان دلاتے کہ سائنس، عقل اور سماجی ارتقاء سے حاصل کیے گئے ذرائع کا استعمال قطعاً غیر اسلامی عمل نہیں ہے، اور یہ بھی کہ ایمان ان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ جدید سے جدید تر علم اور ذرائع کے استعمال سے انسانی تاریخ میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایسےعلم الکلام کے نہ ہونےکی وجہ سے جدید ٹکنالوجی، جدید تصورات اور جدید ادارے جب کبھی مسلم معاشروں میں راہ پاتے ہیں تو ان کو بے دلی سے اپنایا جاتا ہے، جس سے کسی بہتری کا امکان نہیں پیدا ہوتا۔
مسلم شعور کے مطابق تاریخ کا آغاز ہی اس وقت ہوا ،جب پیغمبرؐ ِاسلام کی دعوت پر انھوں نے کفر اور شرک چھوڑ کے اسلام قبول کیا۔ اس تاریخ کا نقطۂ عروج انسان کی اُخروی نجات ہے۔ علت و معلول کی پابند یہ مادی دنیا ہماری تاریخ کو ایک ضروری پس منظر فراہم کرتی ہے،مگر اس کی اہمیت اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب تک دنیا کے تمام معاشروں میں مادی حالات ایک جیسے تھے، تو یہ مسلم سوچ عالمی تاریخ کا ایک سادہ اور عملی نوعیت کا تجزیہ کرنے کے لیے کافی تھی ۔ لیکن انسانی تہذیب میں آنے والی ’پیراڈائم شفٹ‘ کے بعد تجزیے کے اس طریق کار کی کمزوریاں واضح ہونے لگیں۔ دوسری طرف اپنی ناکامیوں اور شکستوں کی وجوہ سے آنکھیں بند کر کے، مسلمان صدیوں بعد بھی پھر اسی اندازِ فکر کو اپناتے ہوئے ،احیاء کی اسی حکمت عملی پر اعتماد کرتے ہیں جو پہلے بھی انھیں کامیابی سے دوچار نہیں کرتی رہی ہے۔
یورپ کی طاقت کا درست ادراک نہ ہونے کے جو اثرات ہندستان میں مسلم احیاء کی کوششوں پر پڑے،ان کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں:’’ حیرت تو یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کے زمانے میں انگریز بنگال پر چھا گئے تھے اور الٰہ آباد تک ان کا اقتدار پہنچ چکا تھا، مگر انھوں نے اس نئی ابھرنے والی طاقت کا کوئی نوٹس نہ لیا‘‘۔ مولانا مودودی ان حضرات کی شہادت کے ایک صدی بعد تجزیہ کرتے ہوئے درست نشاندہی کرتے ہیں کہ’’ سیّد احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے بھی سارے انتظامات کیے، مگر اتنا نہ کیا کہ اہلِ نظر علما کا ایک وفد یورپ بھیجتے اور یہ تحقیق کراتے کہ یہ قوم جو طوفان کی طرح چھاتی چلی جارہی ہے اور نئے آلات، نئے وسائل ، نئے طریقوں اور نئے علوم و فنون سے کام لے رہی ہے ، اس کی اتنی قوت اور اتنی ترقی کا کیا راز ہے؟ اس کے گھر میں کس نوعیت کے ادارات قائم ہیں، اس کے علوم کس قسم کے ہیں؟‘‘
اسلام، انسانیت کو اخلاقی زندگی کے مثالی اصول پیش کرتا ہے۔ ظہورِ اسلام کے وقت معاشرے کے سیاسی، معاشی اور سماجی بندوبست کو اس وقت کے جدید ترین پیمانے اور ادارے استعمال کرتے ہوئے اسلامی ’اخلاقی پیراڈائم‘ (Moral Paradigm) میں نافذ کیا گیا۔ ان اداروں کی ترقی میں بلاشبہہ بازنطینیوں، ساسانیوں اور مصریوں کے علاوہ بھی کئی اقوام کا کردار رہا تھا۔ اسلامی تہذیب ایمان کی روح سے سرشار تو تھی، لیکن اس کی تعمیرو ترقی میں اس زمانے کے مادی اسباب اور انسانی محنت ہی بروئے کار آئے۔ ۱۴۰۰ سال بعد آج اس سلطنتِ ایمان کو خطرات کی جو صورت حال درپیش ہے، اس سے بچاؤ کے لیے عقل اور انسانی کاوش ہی کی مدد درکار ہوگی۔ مولانا مودودی بھی اسی نتیجے پر پہنچے تھے۔پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحابِ نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ ’’تمدن اور اور قوانینِ طبعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں، ان کو ہم اسی طرح تہذیبِ اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں، جس طرح صدرِ اوّل میں کی گئی تھی۔(تنقیحات)