ادارہ ترجمان القرآن کی جانب سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ اسلامی احیاء کے لیے کن فکری اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے؟ امید ہے کہ اس سوال کے جواب میں اہل فکرونظر کی جانب سے بہت سی مفید تجاویز سامنے آئیں گی۔ میں تفصیلی عملی تجاویز کے بجائے چند بنیادی نظری پہلوؤں کو اپنی تحریر میں زیر بحث لانا چاہتا ہوں۔
احیائے اسلام کے لیے سب سے پہلی ضرورت خود اُمت کے احوال میں تبدیلی ہے۔ صرف بیرونی اور دفاعی کوششیں اس کے لیے کافی نہیں ہیں، اصل توجہ اندر کی طرف مطلو ب ہے۔ سورۂ رعد اور اور سورۂ انفال کی دو مشہورآیات قوموں کے عروج و زوال کی بحث میں ہمیشہ نقل کی جاتی ہیں:
اِنَّ اللہَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۭ (الرعد۱۳:۱۱) اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے 'انفس میں تبدیلی نہ کرلے۔ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۰ۙ (انفال ۸:۵۳)یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ ’’وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے 'انفس کو نہیں بدل دیتی‘‘۔
ان آیتوں میں دو بڑی تبدیلیوں کا ذکر ہے: ’تغیر اللہ‘ کا دائرہ قوم کے مجموعی حالات ہیں۔ جن میں عروج و احیاء، قوت و کمزوری، تمکین و تنزل، دولت و افلاس،علم و جہالت، عزت وسربلندی اور ذلت و پستی، وغیرہ شامل ہیں۔یہ تبدیلی قوم خود نہیں لاتی بلکہ اللہ تعالیٰ لاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف ان ظاہری تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرکے احیاء و سربلندی کی کوئی تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔
دوسری تبدیلی ’تغیر القوم‘ ہے جس کا دائرہ 'انفس ہے۔ قوم جب اجتماعی طور پر اپنے 'انفس میں تبدیلی لاتی ہے تو اللہ تعالیٰ قوم کی حالت میں تبدیلی لاتا ہے۔گویا تبدیلی کا اصل ایجنٹ قوم کی اجتماعی نفسیات ہے۔ کسی قوم کو نہ اس کے دشمن ذلت و پس ماندگی کی کھائیوں میں دھکیل سکتے ہیں ، نہ اس کے دوست اور حلیف ، عروج و سربلندی کی چوٹیوں پر پہنچاسکتے ہیں، نہ حالات کے تھپیڑے اس کا مقدر بگاڑ سکتے ہیں اور نہ زمان و مکان کی خوش گواری اس کی قسمت چمکاسکتی ہے۔ حالت بدلتی ہے تو صرف اجتماعی نفسی کیفیت، یعنی انفس کی تبدیلی سے بدلتی ہے۔ تبدیلی کے بیج بوئے جاسکتے ہیں تو وہ صرف اور صرف افکار و خیالات،مزاج و نفسیات اور جذبات و احساسات کی زمین میں، یعنی انفس کی زمین میں بوئے جاسکتے ہیں۔
ہمارے خیال میں اسلام کے اوراُمت کے احیا کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ سب سے زیادہ اس چیز پر یعنی اُمت کے انفس پر یا اُمت کی اجتماعی نفسیات پر توجہ دی جائے۔ انفس کی دیگر تفصیلات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ہم اس تحریر میں دو سب سے زیادہ اہم باتوں کو زیربحث لانا چاہتے ہیں: ایک اپنی حیثیت اور مقصد کا شعور، اور دوسرے اجتماعی اخلاق اور اساسی قدروں کے نظام کا استحکام۔
جدید علم انتظام اور علم قیادت میں اسٹرے ٹیجی (strategy) اور اسٹرے ٹیجک مینجمنٹ (strategic management) کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسٹرے ٹیجی کے بغیر کسی اجتماعیت کو بامعنی اور باشعور اجتماعیت (mature organisation)سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اسٹرے ٹیجی میں مقصد و نصب العین کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مقصد ونصب العین، اعتقادات یعنی belief system کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر کسی ادارےیا اجتماعیت کے عقائد کچھ اور ہوں، اورہدف کچھ اور،تو یہ ٹکراؤ اُسے کامیاب ہونے نہیں دیتا۔
اسی طرح اسٹرے ٹیجی کا ایک اہم حصہ اجتماعیت کی بنیادی اقدار (core values)ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی کامیاب اور باشعور اجتماعیتوں کے پاس اپنے عقائد، وژن اور قدروں یعنی کور ویلیوزکا نہایت مستحکم نظام پایا جاتا ہے۔ ان کا ایک دوسرے سے گہرا ربط و ارتباط ہوتا ہے اوراجتماعیت پر ان کی حکمرانی ہوتی ہے۔اُمت کی کم زوری کا ایک بڑا سبب اجتماعی نفسیات کی سطح پر اس پورے نظام کا درہم برہم ہونا ہے۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ اُمت کا عقیدہ کچھ اور ہے اور عملاً اس کے اجتماعی مقاصد کچھ اور ہیں۔قرآن و سنت کی تعلیم کے مطابق اخلاق کے تصورات کچھ اور ہیں اور عملاً رائج معمولات (social norms) کچھ اور ہیں۔ اس نظام کے درہم برہم ہونے کے نتیجے میں اُمت ایک کٹی پتنگ بن کر رہ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف اور متضاد سمتوں میں ہوا کے دوش پر ڈولتے ہوئے ہم وہ قوت حاصل نہیں کرپارہے ہیں، جو چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے اور عروج و احیاء کی سمت پیش رفت کے لیے ناگزیر ہے۔
جہاں تک نصب العین کا تعلق ہے، تحریکات اسلامی کی صد سالہ جدوجہد کے باوجود حقیقت واقعہ یہی ہے کہ لاشعور اور جذبے کی سطح پر اُمت کے سامنے آج بھی ایسا واضح نصب العین نہیں ہے، جو اُس کے عقیدے سے پوری طرح ہم آہنگ بھی ہو، اوراُمت کا مشترک نصب العین (shared vision) بھی بن سکے۔یعنی اُمت میں ہر آنکھ کا خواب اور ہر دل کی آرزو اور تمنا بن جائے۔حالانکہ ایسانصب العین، اللہ کی کتاب نے بڑی وضاحت سے اُمت کو دے دیا ہے۔ اُمت مسلمہ خود اپنے ایمان و عقیدے کے مطابق ایک خاص حیثیت و کردار کی مالک ہے۔ قرآن مجید میں اسے ’خیر اُمت‘ (بہترین اُمت) کہا گیاہے، اور واضح کیا گیاہے کہ وہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ’دیگر انسانوں کے لیے نکالی گئی‘ ہے (اٰل عمرٰن۳:۱۱۰) ۔ ’خیر اُمت‘ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے احادیث میں کہا گیا ہے کہ یہ اُمت خَیْرُ النَّاسِ لِلنَّاسِ ہے یعنی دوسرے انسانوں کے حق میں سب سے بہتر۔
ہمارے مفسرین نے مزید وضاحت کرتےہوئے لکھا ہے: والمعني أنهم خير الأ ممم و أنفع الناس للناس (اس کے معنی یہ ہیں کہ اُمت مسلمہ تمام اُمتوں میں سب سے بہتر اور انسانوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والی ، یعنی نافع اُمت ہے)۔ ’خیر اُمت‘ کے لقب سے پہلے قرآن مجید نے اس اُمت کو ایک اور لقب ’اُمت وسط‘ کا دیا ہے(البقرہ۲:۱۴۳)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں وسط سے مراد عدل ہے۔ مفسرین کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے: أَيْ أَعْدَلُهُمْ وَخَيْرُهُمْ (وہ، یعنی مسلمان، انسانوں میں سب سے بہتر اور سب سے زیادہ عدل کرنے والے ہوتے ہیں)۔
ان آیتوں سے اُمت مسلمہ کی ایک خاص حیثیت سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کا تعلق سارے انسانوں سے ہے۔ خیر، نافعیت اورعدل اس کی اصل پہچان ہیں اور اس کی ان خوبیوں سے فائدہ اٹھانے والے صرف مسلمان نہیں بلکہ سارا عالم انسانیت ہے۔ اسے ساری انسانیت کی بھلائی کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔ عدل و قسط پر مبنی ایک عالمی نظام اور امامت کبریٰ ،اُس کا اس دنیا میں منتہائے مقصود ہے۔
تحریروں اور تقریروں میں تو اس تصور کی اب ہر جگہ تکرار ہے، لیکن لاشعور اور جذبات کی گہرائیوں میں ابھی تک یہ تصور راسخ نہیں ہوسکا ہے۔ ذات، برادری، قبیلہ، نسل اور زبان کی اساس پر اجتماعی مفاد کو دیکھنے کا زاویہ آج بھی ہر جگہ کارفرما ہے۔ ’جدیدیت‘ نے اس میں قوم پرستی اور قومی ریاست کے تصورات کا اضافہ کردیا ہے۔
چنانچہ مسلم ممالک کے عوام میں بھی قومی ریاست کا ایک طاقت ور تصور ہرجگہ کارفرما نظر آتا ہے۔ حیثیت اور مقام کے بارے میں یہ کنفیوژن اُمت کو اس کے اصل مقصد سے دُور کردیتا ہے۔ جب مسلمان خود کو کسی نسل یا کسی برادری کا رکن سمجھنے لگتے ہیں تو محض اُس نسل یا برادری کا مفاد ان کا اصل مقصد بن جاتا ہے۔ جب وہ خود کو محض ایک قومی ریاست کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں تو صرف اس ریاست کی تعمیر وترقی ان کی دلچسپیوں کا محور بن جاتی ہے۔ اس وقت معاملہ چاہے مسلم اقلیتی ممالک کا ہو یا مسلم اکثریتی ممالک کا، ہر جگہ مسلمان اس فکری بحران سے دو چار ہیں۔
مسلم اقلیتی ممالک میں وہ خود کو ویسا ہی نسلی گروہ سمجھنے لگے ہیں جیسے اور گروہ پائے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں قومی و نسلی کش مکش میں انھوں نے خود کو فریق بنالیا ہے،اور محض مسلمانوں کے بقا و تحفظ یا ان کے حقوق اور مادی ترقی کی جدوجہد کو انھوں نے ’اسلامی جدوجہد‘ سمجھ رکھا ہے۔
مسلم اکثریتی ممالک میں قومی ریاستوں کے دیگر باشندوں کی طرح محض اپنے 'مسلمان ملک کی تعمیر و ترقی کو وہ اپنا اصل ہدف سمجھنے لگے ہیں۔
مغربی ملکوں میں وہ مہاجر کی حیثیت سے جاتے ہیں تو ان کی دلچسپیاں یا تو اپنے اپنے وطن کے امورومسائل تک محدود ہوتی ہیں، یا متعلق مغربی معاشرے میں مسلمان مہاجروں کے مسائل ان کی جدوجہد کا اصل محور و مرکز بن جاتے ہیں، یا زیادہ سے زیادہ مشنری انداز کے دعوتی کام میں کچھ لوگ دلچسپی لیتے ہیں۔
حالانکہ یہ حقیقت کہ ان کے مخاطب اللہ کے تمام بندے ہیں ، ساری دنیا کے لیے ان کے پاس ایک پیغام اور ان کی فلاح و بہبود کا ایک منفرد پروگرام ہے ، ہر ایک کے لیے عدل ان کا مقصد ِوجود ہے اور دنیا کے ہر انسان کی فلاح و بہبود اور نجات کی کوشش ان کے خیر اُمت ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ مگر عملی سطح پر یہ قدر پوری طرح نظر انداز ہوچکی ہے، اور ان کی اجتماعی نفسیات اور رویوں میں دور دور تک اس کا کوئی عکس نظر نہیں آتا۔
فکر کی سطح پر کرنے کا اصل کام یہی ہے کہ اُمت کے اندر اس شعور کو عام کیا جائے کہ اس کا دائرۂ عمل نہ مسلمان کمیونٹی تک محدود ہے، نہ کسی مسلمان ملک تک اور نہ دنیا کے مسلمانوں ہی تک۔ اسے نہ اپنے مسلمان ملک یا غیر مسلم ملک میں واقع اپنی ملت کے مفادات تک اپنی سوچ کومحدود رکھنا ہے، اور نہ محض عالمی سطح پرمسلمانوں کےمفادات کے تحفظ کو اپنا مقصد بنالینا ہے۔ وہ خیر اُمت اور اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وحی الٰہی کی روشنی میں وہ ساری دنیا اور سارے عالم انسانیت کے مفاد کو اپنا مفاد بنائے۔ جب تک یہ نہیں ہوگا، اللہ کا دین محض مسلمان نام کے نسلی گروہوں کا یا مسلمان ملکوں کا ’قومی دین‘ بنا رہے گا اور اُس عالم گیر نظریاتی کشش سے (مسلمانوں کے غلط رویوں کی وجہ سے ) عملاً محروم رہے گا، جو اس دین کی فطری خصوصیت ہے:
عمل کی سطح پراصل ضرورت اُمت کے ’اخلاقی احیاء‘ (Moral Renaissance)کی ہے۔ اخلاقی قوت، اجتماعی اخلاق کا نام ہے، جس کا اہم مظہر سماجی معمولات (Social Norms) ہوتے ہیں۔ اجتماعی اخلاق کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی رویے پوری قوم میں اس طرح عام ہوجائیں کہ وہ ان کی شناخت اور ان کی پہچان بن جائیں۔ ہرمعاشرے اور تہذیبی گروہ کے کچھ تصورات، معمولات (norms )، اخلاقی اقدار اور اصول ہوتے ہیں ۔ ان میں بعض قدریں بہت اہم اور اساسی ہوتی ہیں، ان پر کسی قسم کی مصالحت کے لیے معاشرہ کبھی تیار نہیں ہوتا۔ یہی قدریں اس کی شناخت بنتی ہیں ۔ اسے جدید اصطلاح میں ’مرکزی اقدار‘ (core values) کہا جاتا ہے۔
جدید اجتماعی نفسیات میں مرکزی اقدار کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے اس لیے کہ کسی انسانی گروہ کے عملی رویے اصلاً مرکزی اقدار ہی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یہ قدریں افراد کی نہیں بلکہ پورے سماج کی اجتماعی قدریں ہوتی ہیں۔ ان پر اتفاق کا مطلب محض خیال اور رائے کی سطح کا اتفاق نہیں ہوتا بلکہ پورے معاشرے کی متفقہ گہری عملی وابستگی ہوتاہے۔ مثلاًبعض جنگجو معاشروں میں 'بہادری مرکزی قدر ہوتی ہے۔ 'غیرت، 'مہمان نوازی وغیرہ بہت سے روایتی قبائلی سماج کی مرکزی قدریں ہوتی ہیں۔ جدید مغربی معاشروں میں 'فرد کی آزادی، اظہار خیال کی آزادی، 'جمہوریت 'وغیرہ مرکزی قدریں ہیں۔ ان قدروں کے نفاذ کے لیے کسی بیرونی قوت کی ضرورت در پیش نہیں ہوتی ۔بے شک ان قدروں کا عام ہونا ، تاریخ کے کسی مرحلے میں مصلحین و قائدین کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے، لیکن اس کے بعد ، ان کی تنفیذ (promulgation)کے لیے وعظ و نصیحت کی بڑی ضرورت بھی باقی نہیں رہتی۔ وہ قوم کی فطرت کا حصہ بن جاتی ہیں۔
حضرت شاہ ولیؒ اللہ (م:۱۷۶۲ء)نے ایسے ہی معمولات کو ’رسوم‘ کہا ہے اور 'صالح اِرتفاقات کے لیے اچھی 'رسوم کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ اجتماعی اخلاق اور معاشرتی معمولات جتنے صالح، مفید اور نفع بخش ہوں گے، اخلاقی قوت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ہمارے خیال میں یہی ’انفس‘ ہے۔ اخلاق اس وقت اخلاقی قوت بنتے ہیں، جب مرکزی قدروں کا یہ نظام گہرا اور مضبوط ہوتا ہے۔ اخلاقی قوت بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جو قدریں اس طرح کی مرکزی قدروں کی حیثیت اختیار کرلیں، وہ ایسی ہوں جن سے عالم انسانیت کی فوز وفلاح اور عملی فائدہ بھی وابستہ ہو۔یعنی ان میں نافعیت کا پہلو ہو۔ مولانا ابوالکلام آزاد ؒ(م:۱۹۵۸ء)کے بقول قانون ’بقائے اصلح‘ اور ’بقائے انفع‘ ایک ہی قانون ہے۔وہی صالحیت مطلوب ہے جو نافع بھی ہو۔
سورۂ نحل: اِنَّ اللہَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ۰ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۹۰(النحل۱۶:۹۰)(اللہ عدل اور احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم سبق لو) کے مطابق، عدل، احسان، صلہ رحمی پر عمل اور برائی، بے حیائی اور ظلم وزیادتی سے گریز ہی مرکزی قدریں ہیں۔مرکزی قدروں کے فہم کے لیے اس آیت کی طرف رجوع کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ اس آیت کریمہ کو متعدد اہل علم نے قرآن کے فلسفۂ اخلاق کا خلاصہ قرار دیا ہے اور عمر بن عبدالعزیز ؒ (م:۷۲۰ء)کے حکم سے اور ان کے بعد سے مسلسل، یہ آیت خطبۂ جمعہ کا حصہ بنادی گئی۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کے مشہور’اخلاق اربعہ‘ سے بھی اسلامی اخلاق کا جامع تصور اُبھر کر سامنے آتا ہے۔ شاہ صاحب ؒکے مطابق طہارت (اندرونی و بیرونی پاکیزگی اور نفاست)، اخبات (خدا کے سامنے نیاز مندی اور عجز و انکسار)، سماحت (بردباری، ضبط نفس اور اعتدال) اور عدالت (ہر معاملے میں عدل و انصاف)، یہ چار نفسیاتی خصوصیات ہیں، جو تمام اخلاقی محاسن اور اچھی رسوم کی منبع و سرچشمہ ہیں۔شاہ صاحب کا بیان ہمارے خیال میں بہت ہی جامع بیان ہے اوراس سے اسلام کی مرکزی قدروں کا بہت ہی واضح تصور سامنے آتا ہے۔
اس بات سے انکار مشکل ہے کہ ساری مسلم دنیا میں ان اساسی اسلامی اخلاقی قدروں کا چلن بہت کم ہے۔ شایدہی کوئی مسلم معاشرہ ہوگا، جسے اس کی طہارت و پاکیزگی کے حوالے سے جانا جاتا ہوگا ۔ عدل وانصاف کا اساسی قدر ہونا تو دور کی بات ہے،طرح طرح کی ناانصافیوں کا عام چلن اکثر مسلم معاشروں کی پہچان ہے۔ اس پرمستزاد، اخلاقی احیاء پر جو توجہ مطلوب ہے، وہ نہ صرف مسلم معاشروں میں بلکہ اصلاحی تحریکات میں بھی مفقود ہے بلکہ اسلامی تحریکوں کو بھی اس کام پر جو توجہ دینی چاہیے تھی وہ نہیں دے سکی ہیں۔
اخلاقی احیاء کے لیے ہماری کوششوں میںبعض بنیادی تبدیلیاں مطلوب ہیں:
سب سے پہلی مطلوب تبدیلی ترجیحات کی تبدیلی ہے۔بعض بڑی خرابیاں وہ ہیں، جن کا تعلق اُمت کی مرکزی قدروں سے ہے مگر اس کےباوجود ان پر اصلاحی جدوجہد کی بہت کم توجہ ہے۔
دوسری تبدیلی ٹارگیٹ گروپ کی تبدیلی ہے۔ بعض بڑی خرابیاں وہ ہیں جن کا تعلق اُمت کے خواص سے ہے۔ جب تک خواص میں اصلاح نہیں ہوگی ، اصلاح کا عمل عوام تک نہیں پہنچ سکے گا۔
تیسری تبدیلی اپروچ اور طریق کار کی تبدیلی ہے۔ اخلاقی احیاء اور اخلاقی قدروں کے فروغ کا عمل جرأت و ہمت چاہتا ہے، اوراس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے عوام کی ناراضی مول لینے کا حوصلہ چاہتا ہے۔ جس کی کمی اب ہمارے مصلحین میں عام ہے۔
خلاصہ یہ کہ احیاء کے عمل کومہمیزدینےکے لیے اب ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر ’بیرون‘ سے زیادہ ’اندرون‘ پر توجہ درکارہے۔ دشمنوں کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں بھی اسی وقت کامیاب ہوتی ہیں، جب ہم اندرونی طور پرکمزور ہوں اور ہماری کمزوری کااصل سبب مادی نہیں بلکہ فکری اور اخلاقی ہے۔ اس لیے جب تک ان اصل اسباب پر ہماری بھرپورتوجہ نہیں ہوگی، احیاءکا خواب حقیقت کا رُوپ اختیار نہیں کرے گا ۔