سوال نامہ پڑھتے ہی میرے کانوں میں اذان کی آواز گونجنے لگی، اور میں سوچنے لگا کہ اسلام کی رُو سے انسان کی فلاح و بہبود، حقیقی عبادت ہے:
آج ہم نے بڑی حد تک ’عبادات‘ کو زندگی کے ’معاملات‘ سے جدا کر رکھا ہے۔ یوں ہم انسانی فلاح و بہبود کی تمنا میں سرگرمِ عمل رہنے کی عبادت سے غافل ہیں۔ جہاں تک نظریاتی اور عملی اقدامات کا تعلق ہے، ہمیں اقبال فراموشی کا چلن ترک کرنا اور اقبال شناسی کا چلن اپنانا ہوگا۔ اگر کل اقبال کے فکروعمل کے فیضان سے پاکستان عدم سے وجود میں آگیا تھا، تو آج ہمارے اس خطۂ زمین میں عمل سے زندگی جنّت نظیر کیوں نہیں ہوسکتی؟
بلاشبہہ عبادات کی پابندی لازم، مگر حی علی الفلاح کے پیغامِ ربانی پر صدقِ دل سے عمل عبادت کا حقیقی مفہوم ہے۔ ہمارا اقتصادی اور معاشرتی نظام جب تک انسانی فلاح و بہبود کی حقیقی عبادت سے نہیں پھوٹتا، ہمارے ہاں اسلام کی حقیقی انقلابی روح سرگرمِ کار نہیں ہوسکتی۔ اقبال نے کہا تھا:
مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سُلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مُردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
میری حقیر رائے میں ہم جب تک حی علی الفلاح کی صدائے حق پر کان نہیں دھریں گے، دُنیا اور آخرت کی نجات سے محروم رہیں گے۔