پروفیسر فتح محمد ملک


سوال نامہ پڑھتے ہی میرے کانوں میں اذان کی آواز گونجنے لگی، اور میں سوچنے لگا کہ اسلام کی رُو سے انسان کی فلاح و بہبود، حقیقی عبادت ہے:

حی علی الصلوٰۃ                    حی علی الفلاح

آج ہم نے بڑی حد تک ’عبادات‘ کو زندگی کے ’معاملات‘ سے جدا کر رکھا ہے۔ یوں ہم انسانی فلاح و بہبود کی تمنا میں سرگرمِ عمل رہنے کی عبادت سے غافل ہیں۔ جہاں تک نظریاتی اور عملی اقدامات کا تعلق ہے، ہمیں اقبال فراموشی کا چلن ترک کرنا اور اقبال شناسی کا چلن اپنانا ہوگا۔ اگر کل اقبال کے فکروعمل کے فیضان سے پاکستان عدم سے وجود میں آگیا تھا، تو آج ہمارے اس خطۂ زمین میں عمل سے زندگی جنّت نظیر کیوں نہیں ہوسکتی؟

بلاشبہہ عبادات کی پابندی لازم، مگر حی علی الفلاح کے پیغامِ ربانی پر صدقِ دل سے عمل عبادت کا حقیقی مفہوم ہے۔ ہمارا اقتصادی اور معاشرتی نظام جب تک انسانی فلاح و بہبود کی حقیقی عبادت سے نہیں پھوٹتا، ہمارے ہاں اسلام کی حقیقی انقلابی روح سرگرمِ کار نہیں ہوسکتی۔ اقبال نے کہا تھا:

مجلسِ ملّت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سُلطاں غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر

دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مُردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے

دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات

میری حقیر رائے میں ہم جب تک حی علی الفلاح کی صدائے حق پر کان نہیں دھریں گے، دُنیا اور آخرت کی نجات سے محروم رہیں گے۔

بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد کے شعبہ اُردو کے مجلے معیار (جولائی-دسمبر ۲۰۰۹ئ) میں اسی یونی ورسٹی کے ریکٹر پروفیسر فتح محمد ملک نے اسٹیفن کوہن کی کتاب پاکستان کا تصور پر تبصراتی مقالہ لکھا ہے۔ اس کے کچھ حصے شکریے کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔ (ادارہ)

پاکستان کا جغرافیائی وجود علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان سے پھوٹا ہے۔ برطانوی ہند میں    الٰہ آباد کے مقام پر، کُل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں خطبۂ صدارت پیش کرتے وقت  علامہ اقبال نے برعظیم میں جداگانہ مسلمان قومیت کی بنیاد پر، آزاد اور خودمختار مسلمان مملکتوں کے قیام کا تصور پیش کیا تھا۔ ۱۰ برس بعد لاہور کے مقام پر کُل ہند مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں اقبال کے تصورِ پاکستان کو قراردادِ پاکستان کی صورت بخشی اور یوں اقبال کا یہ تصور تحریکِ پاکستان کا سب سے بڑا محرک بن گیا۔ عوامی جمہوری تحریکِ پاکستان نے صرف سات برس کے عرصے میں پاکستان قائم کر دکھایا۔ ہماری قومی آزادی اور خودمختاری کی تحریک کے آخری تین مراحل تصورِ پاکستان، تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان کا ناگزیر ربطِ باہم، اختلاطِ جان و تن کی حیثیت  رکھتا ہے۔ اِس باہمی ربط کو توڑنا گویا پاکستان کے بدن سے پاکستان کے تصور کو نکال باہر پھینکنا ہے۔ جسم سے جان کو جدا کردینے کی مساعی ہے۔ زیرنظر کتاب The Idea of Pakistanاور اُس کا ترجمہ پاکستان کا تصور [وین گارڈ بکس، لاہور] ایک ایسی ہی سعی ٔ نامشکور ہے۔

امریکی سپاہِ دانش (تھنک ٹینکس) پاکستان کے خلاف نظریاتی جارحیت کا ہراول دستہ ہیں۔ مغربی حکومتوں کی مالی اور نظریاتی سرپرستی میں پاکستان کی اصل نظریاتی بنیادوں کو مٹاکر ایک نئی نظریاتی تشکیل کی سرگرمی روز بروز زور پکڑتی چلی جارہی ہے۔ وہ پاکستان مخالف سوالات جو ۱۹۴۰ء کی قراردادِ پاکستان سے لے کر قیامِ پاکستان تک، تحریکِ پاکستان کے مخالف دانش وروں نے بڑی شدومد کے ساتھ اُٹھائے تھے، پھر سے اُٹھائے جارہے ہیں۔

تحریکِ پاکستان کے دوران ہمارے آبائواجداد نے پاکستان کے تصور اور پاکستان کی تحریک کے خلاف پیش کیے گئے استدلال کی اپنی فہم وفراست کے ساتھ مؤثر طور پر تردید کر دی تھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ خود اسلامیانِ ہند کی بھاری اکثریت نے ووٹ کے ذریعے پاکستان قائم کرکے اُس مخالفانہ استدلال کو باطل ثابت کردکھایا تھا۔ آج پاکستان کے اندر اُس ردکردہ اور باطل استدلال کو مغربی ممالک کے تھنک ٹینکس نئے فریب کے ساتھ پذیرائی بخشنے میں کوشاں ہیں۔ اِس کی ایک تازہ مثال اسٹیفن فلپ کوہن کی کتاب The Idea of Pakistan ہے۔

جناب اسٹیفن کوہن آج کل امریکی حکومت ہی کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے Brookings [بروکنگز] میں فارن پالیسی اسٹڈیز پروگرام میں سینیرفیلو کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ زیرنظر کتاب امریکی خارجہ پالیسی کے رہنما اصولوں کی روشنی میں تیار کی گئی ہے۔ جناب کوہن اکھنڈ بھارت کی آئیڈیالوجی پر کاربند ہیں۔ چنانچہ اُن کے نزدیک تحریکِ پاکستان کی کامیابی ایک المناک کامیابی (tragic victory) ہے۔ اپنی کتاب کے ابتدائیے میں وہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے اور اس کے انجام سے ہمیں اور دنیا کو ڈرانے کے متعدد منظرنامے پیش کرتے ہیں۔ میں اپنی اس مختصر تحریر میں پاکستان کے تصور کی ’ناکامی‘ پر اُن کی راے سے بحث کروں گا۔ لکھتے ہیں:

بانیانِ پاکستان کو اُمید تھی کہ پاکستان کا تصور، ریاست پاکستان کی تشکیل کرے گا۔ اس کے بجاے ایک فوجی، نوکرشاہی ریاست پر حکومت کر رہی ہے، اور پاکستانی قوم کا اپنا وژن مسلط کر رہی ہے

یہ بات درست ہے کہ ہم اب تک پاکستان کے اندر تصورِ پاکستان کو مؤثر طور پر نافذ کرنے میں ناکام رہے ہیں، مگر یہ ناکامی ہماری ناکامی ہے نہ کہ تصورِ پاکستان کی۔ ایسی ہی ناکامی امریکا اور بھارت کو بھی ہوئی ہے۔ کیا آج کا امریکا تھامس جیفرسن، ابراہم لنکن اور جارج واشنگٹن اور اُن کے پیروکار امریکیوں کے خوابوں کاامریکا ہے؟ ہرگز نہیں۔ ریاست ہاے متحدہ امریکا کے بانیوں کے خواب تو جارج ڈبلیوبش نے مٹی میں ملاکر رکھ دیے ہیں۔ کیا مہاتماگاندھی کے خواب و خیال بھارت کی عملی زندگی میں جلوہ گرہوگئے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ مہاتما گاندھی کو تو عین اُس وقت تشدد کا نشانہ بناکر مارڈالا گیا تھا، جب وہ عدم تشدد کا پرچار کرنے میں مصروف تھے۔ یا جواہر لعل نہرو کا سوشلسٹ گریٹر انڈیا وجود میں آگیا ہے؟ ہرگز نہیں، تو پھر کیا امریکا اور بھارت بھی ناکام ریاستیں ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اسی اعتبار سے پاکستان بھی ایک ناکام ریاست نہیں ہے۔ مثالی تصورات کو عملی قالب عطاکرنا دشوار عمل ہے۔ خواب اور حقیقت کے درمیان مکمل ہم آہنگی کی جدوجہد جاری رہنی چاہیے۔ جب تک خوابوں سے رشتہ قائم ہے اور اُنھیں حقیقت میں ڈھالنے کی تمنا زندہ ہے، افراد اور اقوام جہدآزما رہتی ہیں۔ یہی جدوجہد اُن کی بقا اور ارتقا کی ضامن ہوتی ہے۔ ہمارے عوام تصورِ پاکستان پر یقین رکھتے ہیں اور اُسے پاکستانی زندگی میں جلوہ گر دیکھنا چاہتے ہیں مگر لیاقت علی خاں کی شہادت کے فوراً بعد ہمیں اُس قیادت سے محروم کردیا گیا، جو تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال کو پاکستان میں حقیقت کا روپ دینے میں مصروف تھی۔ شہیدِ ملت کے جانشین برطانوی افسرشاہی کے نمایندے تھے، جنھوں نے امریکی مفادات کی چاکری کا چلن اپناکر تحریکِ پاکستان کے خواب و خیال کو فراموش کر دیا۔یہ چلن حکمران طبقے کا تھا اور ہے۔ پاکستان کے عوام اس چلن سے نفرت رکھتے ہیں اور تصورِ پاکستان سے اٹوٹ اوروالہانہ وابستگی رکھتے ہیں۔ پاکستانی عوام کے اس قومی جوش و جذبہ سے خائف بیرونی قوتیں پاکستان کے وژن کی ناکامی کا ڈھنڈورا پیٹ کر ہمارے ہاں فکری انتشار اور نظریاتی خلفشار پیدا کرنے میں کوشاں ہیں۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان کو نت نئے استدلال کے ساتھ ناکام ریاست کیوں ثابت کیا جارہا ہے؟ فقط اس لیے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں ہے۔ ہرچند تحریکِ پاکستان کے  خواب و خیال پاکستان کی اجتماعی زندگی کے ٹھوس قالب میں اب تک نہیں ڈھالے جاسکے، تاہم  اس امرکا قوی امکان موجود ہے کہ آیندہ ہم اُن خواب و خیال کو پاکستان میں عملاً نافذ کردیں۔  آج پاکستان عملی طور پر ایک اسلامی ریاست نہیں ہے، مگر امکانی طور پر ایک اسلامی ریاست ضرور ہے۔ امریکی اور بھارتی سپاہِ دانش اسی خوف میں مبتلا ہے۔ چنانچہ امریکی سپاہِ دانش آج پاکستان کی اصل نظریاتی شناخت کو مٹاکر امریکا اور بھارت کے مفید مطلب ایک نئی نظریاتی اساس ایجاد کرنے میں مصروف ہے۔ مستقبل قریب میں پاکستان کی ’تباہی‘ کے مختلف منظرنامے پیش کرنے کے بعد اسٹیفن کوہن پاکستان کو ممکنہ تخریب سے بچانے کا درج ذیل نسخہ تجویز فرماتے ہیں:

یہاں میں ایک بار پھر پوچھتا ہوں کہ وہ کون سی اقتصادی، سیاسی اور اسٹرے ٹیجک پالیسیاں ہیں، جو اسے بدترین نتائج سے دُور رکھنے میں ممد ثابت ہوسکتی ہیں؟ جو اس ملک کو راستے کا مسافر بناسکتی ہیں، جس پر چل کر یہ اپنے تشخص اور مفادات کا تحفظ  بھی کرسکے اور امریکا اور اس کے اہم ہمسایوں کے کلیدی مفادات بھی محفوظ رہیں۔ ایک مستحکم، خوش حال اور مرحلہ وار ترقی کرتا ہوا پاکستان افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا کی ترقی کے لیے نئی مہمیز کا کام دے سکتا ہے۔ (ص ۲)

درج بالا سطور میں ہمیں خبردار کیا گیا ہے کہ تباہی سے بچنے کی خاطر پاکستان اپنی قومی شناخت کو امریکا کے کلیدی مفادات اور اپنے اہم ہمسایہ ممالک کے مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی    راہ اپنائے۔ آخری سطر میں وضاحت کردی گئی ہے کہ اہم ہمسایہ ممالک سے مراد بھارت اور افغانستان ہیں۔ گویا چین، ایران اور روس جیسے اہم ترین ہمسایہ ممالک کو بھول جانا بھی اس نئی پاکستانی شناخت کے لیے ضروری ہے۔ اسی بحث کے دوران اسٹیفن کوہن صاحب روس کی مثال پیش کرتے ہیں، جس نے سوویت یونین کی اشتراکی نظریاتی شناخت کو مٹاکر زارشاہی کی روایات پر مبنی نئی روسی شناخت ایجاد (reinvent) کرلی ہے۔ اسٹیفن کوہن صاحب کے محاکمے کی رُو سے پاکستان کو اپنی بقا کی خاطر اپنی اصل نظریاتی شناخت مٹاکر وہ پُرانی جغرافیائی شناخت اپنا لینی چاہیے، جس سے پاکستان کے بارے میں بھارت کے تحفظات بھی ختم ہوسکیں اور امریکا اور بھارت    ہردو کے کلیدی مفادات (key interests)کا حصول بھی یقینی بن سکے۔ یہ ہے وہ نیا وژن، جسے مقبولِ عام بنانے کی خاطر پاکستان کے اصل وژن کی ’ناکامی‘ کی ہوائی اُڑائی جارہی ہے۔

پاکستان کی ھندستانی شناخت؟

’تصورِ پاکستان‘ کے دوسرے باب بہ عنوان ’دی اسٹیٹ آف پاکستان‘ میں یہ لازم ٹھیرایا ہے کہ پاکستان نائن الیون کے بعد کے حقائق کی روشنی میں اپنے لیے ایک نیا خطۂ خواب (New ideological territory) تلاش کرے۔ لکھتے ہیں:

پاکستان کا تصور اور پاکستانی ریاست، دونوں غیر متوقع سمتوں میں ارتقا پذیر ہیں۔ دونوں پاکستانی رہنمائوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ نئے سیاسی اور نظریاتی علاقے دریافت کریں۔ متعدد وجوہ کی بنا پر ابتدائی نظریہ ناپید ہوچکا ہے۔ (ص ۹۳)

ہرچند حقیقی تصورِ پاکستان سے دست بردار ہوکر ایک نئی سیاسی اور نظریاتی شناخت اپنالینے کا یہ مشورہ امریکا کے ہنگامی اور وقتی مفادات کے پیشِ نظر قابلِ فہم ہے، تاہم تصورِ پاکستان کے  بے اثر یا ازکارِ رفتہ ہونے کی بات ایک ایسا جھوٹ ہے، جسے اکثر مغربی دانش ور سچ کر دکھانے میں دُور کی کوڑی لانے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کا تصور ایک زندہ تصور ہے، جسے عملی زندگی میں جاری و ساری کرنا ہماری عصری زندگی کا اہم ترین تقاضا ہے۔ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی   اِس اہم ترین ضرورت کو ہم گذشتہ ۵۰ برس سے امریکی مفادات کی خاطر پسِ پشت ڈالتے چلے آرہے ہیں۔ ’سردجنگ‘ کے زمانے میں پاکستان کے مفادات کو امریکی مفادات سے ہم آہنگ کرنے کی خاطر ہمارے حکمران طبقے نے پاکستان کی نظریاتی اساس کی تفسیر و تعبیر میں تراش خراش کا عمل مسلسل جاری رکھا۔ اتنی طویل مدت تک تصورِ پاکستان میں ترمیم کا یہ عمل جاری رہا کہ ترمیم پسندی ہمارے حکمران طبقے کا مسلک ہوکر رہ گئی۔ اب مطالبہ ترمیم کا نہیں تنسیخ کا ہے۔ آج نوبت یہاں آپہنچی ہے کہ ہمیں اُس تصور سے دست بردار ہونے کا مشورہ دیا جا رہا ہے، جس کے اندر سے پاکستان کا جغرافیائی وجود نمودار ہوا تھا، اور جسے ترک کردینے سے پاکستان کے جغرافیائی وجود کا مٹ کر رہ جانا ایک قدرتی سی بات ہے۔ اسٹیفن پی کوہن امریکا اور پاکستان کے مابین نئے    اتحادِ فکروعمل کے تقاضوں پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:

۲۰۰۱ء میں امریکا اور پاکستان کے درمیان اتحاد کے پس پردہ کارفرما منطق، پاکستان کی ملکی سیاست میں کئی تبدیلیوں کا باعث بن گئی۔ اگر مذکورہ اتحاد کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ تھا، تو ان گروہوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا کشیدہ ہوجانا ناگزیر تھا، جو واشنگٹن کے لیے باعثِ تفکر تھے، اور جن کے حامیوں کی بڑی تعداد پاکستان کے اندر بھی موجود تھی۔ پاکستان پر زیادہ دبائو ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت کم کرنے    کے لیے ڈالا گیا، جو بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں برسرِپیکار تھے۔ (ص ۹۱)

امریکا سے دوستی نبھانے کی خاطر پاکستان کو اب اپنے اندرونی معاملات میں بھی بھارت کی عینک سے دیکھنا اور بھارت کے ذہن سے سوچنا ہوگا۔ امریکا کے بھارت کے ساتھ نئے تعلقات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان حریت پسندی کو دہشت گردی قرار دے۔ پاکستان نے مزاجِ یار     کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا اور یوں ہم کل جس سرفروشانہ جدوجہد کو حریت پسندی کا نام دیتے تھے، آج وہی جہادِ آزادی ہماری لغت میں ’دہشت گردی‘ ہوکر رہ گیا ہے۔ بقول اقبال    ؎

تھا جو ناخوب ، بتدریج وہی خوب ہُوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

امریکا اور بھارت خود تو دہشت گردی کی جڑوں کو مضبوط بنانے بلکہ سرسبز و شاداب رکھنے میں ہمہ تن مصروف ہیں، مگر پاکستان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اُن کے اُگائے اور پروان چڑھائے ہوئے ان زہریلے درختوں کے پھل پات کو سمیٹنے کا فریضہ سرانجام دے۔ اُن کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا بس ایک مفہوم ہے۔ اُن کے نزدیک پاکستان کی بقا فقط اُس وقت تک ضروری ہے جب تک وہ امریکا اور بھارت کے خاکروب کا یہ کردار سرانجام دیتا رہے۔ اگر پاکستان، امریکا اور بھارت کی پھیلائی ہوئی اس گندگی کو صاف کرنے میں ناکام رہا تو پھر اُس کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اسی باب کے آخر میں اسٹیفن کوہن اپنے دُکھ کا اظہار بھی کرتے ہیں اور اِس دُکھ کا علاج بھی تجویز فرماتے ہیں:

بیرونی محاذ پر پاکستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے، جو خطے میں بھارت کے تسلط اور اجارہ داری کو کھلم کھلا اور مسلسل چیلنج کر رہا ہے… لیکن دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ مراسم نے اس کے حامیوں کو بھی پریشان کر رکھا ہے۔ یہ امر کسی کے لیے باعثِ حیرت نہیں کہ پاکستان بہ یک وقت اس مسئلے کا حصہ بھی ہے اور حل بھی۔ (ص ۹۵)

امریکی سپاہِ دانش کا دُکھ یہ ہے کہ پاکستان اس حال میں بھی بھارت کی بالادستی کو چیلنج کرنے پر مُصر ہے۔ اِس دُکھ سے نجات کا راستہ خود پاکستان سے ’نجات‘ ہے۔امریکا اور بھارت کے لیے پاکستان کی بس اتنی سی ضرورت ہے کہ وہ جب بھی اور جہاں کہیں بھی جن انسانی گروہوں پر ’دہشت گردی‘ کا سامراجی لیبل لٹکائیں، پاکستان اُن کے انسداد میں مشین کی سی سرگرمی دکھائے۔ ہرچند پاکستان اس اسکرپٹ کا مکمل مفہوم سمجھے بغیر اس کے حرف و معنی پر عمل پیرا ہے، تاہم امریکا اب ایسے سوالات پر غور کرنے لگا ہے کہ کیا خود پاکستان دہشت گردی کا سرچشمہ نہیں ہے؟ اور کیا دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے خود پاکستان کو ختم کردینا ضروری نہیں ہے؟

دین یا لادینیت؟

آج کل ہمیں امریکا کے کلیدی مفادات اور بھارت سے ذہنی اور قلبی ہم آہنگی کی خاطر ایک نئے خطۂ خواب کے جادو میں مبتلا کرنے کے لیے نت نئے جتن کیے جارہے ہیں۔ امریکی سپاہِ دانش بڑی سرگرمی کے ساتھ اس نئی نظریاتی سرزمین کو جانے والے راستوں کو سیکولرزم کے پتھروں سے تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔ اسٹیفن کوہن اپنی کتاب کے باب بہ عنوان ’سیاسی پاکستان‘ کی اختتامی سطروں میں ہمارے سیاست دانوں کو یہ باور کرانے میں کوشاں ہیں کہ پاکستان میں فوجی مداخلت سے آزاد، جمہوری عمل اُس وقت تک ناممکن ہے، جب تک کسی انقلاب، فوجی شکست یا نظریاتی کایا کلپ (ideological transformation) کا سامان نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ زیرنظر کتاب میں   بانیانِ پاکستان کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے انھوں نے عقل کے گھوڑے خوب دوڑائے ہیں۔

اسٹیفن کوہن کے خیال میں قائداعظم کا تصورِ پاکستان ایک سیکولر تصور تھا۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کی تقاریر کی روح سیکولر تھی اور ’قراردادِ مقاصد‘ میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اُس میں سیکولر مسلمانوں اور سیکولراسلام کا ذکر تک نہیں:

یہ قرارداد، پاکستانی ریاست اور تصورِ پاکستان دونوں کا مطلب بتاتی اور انھیں تعریف فراہم کرتی ہے۔ [اس کے مطابق] پاکستان کو ایک وفاقی، جمہوری اور اسلامی تشخص کی شکل اختیار کرنا تھا، لیکن اس میں یہ درج نہیں تھا کہ پاکستان میں مسلمان ایک سیکولر زندگی گزاریں گے، یا اسلام کو سیکولر بنا لیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اس میں ’سیکولر‘ کا لفظ    بطورِ اصطلاح بھی موجود نہیں تھا۔ (ص ۵۷)

’قراردادِ مقاصد‘ جس قومی اسمبلی نے منظور کی تھی، اُس کے ممبران تحریکِ پاکستان کے قائدین اور عمائدین پر مشتمل تھی۔ قرارداد منظور کرنے والوں کو بخوبی علم تھا کہ پاکستان کا وژن کیا ہے؟ اسلامیانِ ہند نے کس خواب و خیال کو عملی زندگی میں جلوہ گر دیکھنے کی تمنا میں پاکستان قائم کیا ہے؟ اپنے خیالات، تجربات اور مشاہدات کی روشنی ہی میں انھوں نے پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا تھا۔ ’قراردادِ مقاصد‘ میں سیکولر کی اصطلاح بھی سرے سے موجود نہیں ہے۔ سیکولرزم کے خوش گوار عناصر، یعنی تھیاکریسی (شہنشاہیت+ ملائیت) سے انکار، ہرمذہب و ملّت کو اپنے عقیدہ اور مسلک کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی، وسیع النظری اور انسان دوستی تو اسلام سے مستعار ہیں۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار مدینۃ النبیؐ میں ان تصورات کا عملی ظہور سامنے آیا تھا۔ اقبال اور قائداعظم اسلام کے مفہوم سے بھی آگاہ تھے اور سیکولرزم کے مفہوم سے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں نہ تو کبھی ’سیکولرمسلم‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور نہ ’سیکولرائزڈ اسلام‘ کی۔ بانیانِ پاکستان مسلمانوں پر ملوکیت اور ملائیت کے جبرواستبداد کے زیرسایہ صدیوں تک پنپنے والے مروجہ اسلام کے بجاے اسلام کی حقیقی روح کی بازیافت چاہتے تھے۔ ہردو بانیانِ پاکستان، اسلام کی اس حقیقی روح کو ازسرِنو دریافت کرکے اور اسے روحِ عصر سے ہم آہنگ کرکے پاکستان میں ایک حقیقی اسلامی ریاست اور معاشرے کی تشکیل و تعمیر کا فریضہ سرانجام دینا چاہتے تھے۔

---اقبال نے خطبہ الٰہ آباد میں سیکولرزم اور اسلام کی بحث کے دوران اسلامیانِ ہند سے سوال کیا تھا، کہ کیا وہ سیکولرسیاست کو اپناکر اسلام کا بھی وہی حشر کردینا چاہتے ہیں، جو مغربی دنیا نے عیسائیت کا کررکھا ہے؟ اقبال نے خود اس سوال کا جواب یوں دیا تھا کہ اسلامیانِ ہند،    اسلام کے روحانی سیاسی مسلک پر قائم رہتے ہوئے دنیا کے سامنے روحانی جمہوریت کی مثال پیش کریں گے۔ وہ اسلام کے دینی مسلک اور سیاسی اور معاشرتی مسلک کی یک جائی پر انتہائی استقلال کے ساتھ قائم رہیں گے۔ تحریکِ پاکستان اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلامیانِ ہند نے قائداعظم کی قیادت میں پاکستان قائم کر کے اقبال کے اس اعتماد کو سچ ثابت کردکھایا تھا۔

--- امریکی سپاہِ دانش کا سب سے بڑا خوف ہی یہ ہے کہ افواجِ پاکستان کا دل ابھی تک نظریاتی سرحدوں ہی میں اٹکا ہوا ہے۔ کیوں نہ ہو، پاکستان کی جغرافیائی سرحدیں تو اُن نظریاتی سرحدوں ہی سے نمودار ہوئی ہیں جوگذشتہ ایک ہزار سال سے ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا کے درمیان قائم ودائم ہیں۔ اگر خدانخواستہ ہماری نظریاتی سرحدیں پامال کردی گئیں تو پھر جغرافیائی سرحدیں خودبخود مٹ کر رہ جائیں گی۔ اسٹیفن کوہن اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں، اسی لیے وہ امریکی حکومت کو مختلف پیرایوں میں بار بار یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں:

اس امر پر دو آرا نہیں ہوسکتیں کہ پاکستان کو اپنے تشخص کے ’اسلامی‘ جزو کی جگہ ۲۱ویں صدی کے حقائق کو دینی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ زریں اصول ترک کردیے جائیں، بلکہ ان کو جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ (ص ۲۹۹)

یہاں ۲۱ویں صدی کے ’حقائق‘ سے مراد دنیاے اسلام کے خلاف جاری سامراجی جنگ میں امریکا، اسرائیل اور بھارت کے ناپاک اتحاد سے پھوٹنے والی حقیقتیں ہیں۔ اُن کا مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی حقیقی نظریاتی بنیاد کو مٹاکر اُس نئی نظریاتی سرزمین کی جانب فرار کی راہ لے، جس کا قدیم نام ’اکھنڈ بھارت‘ ہے، اور جدید نام ’سائوتھ ایشین یونین‘۔ اُن کی تجویز یہ ہے کہ اگر پاکستان یہ مطالبہ ماننے سے مسلسل انکار کرتا چلا جائے تو پھر پاکستان کو دنیا کے نقشے سے ہی غائب کردینا چاہیے۔ پاکستان کے حکمران طبقے (core elite) کی آئیڈیالوجی آف پاکستان سے بیزاری سے اسٹیفن کوہن کی بہت سی خوش گمانیاں وابستہ ہیں۔ جانے اُنھیں یہ کس نے بتایا ہے کہ: ’’پاکستان کے مستقبل پر بنیادی اشرافیہ کے اعتماد میں کمی واقع ہوچکی ہے‘‘۔ (ص ۲۹۵)

چلیے، ہم اُن کا یہ مفروضہ بلاچوں وچرا مان لیتے ہیں اور اپنے عسکری وجود کی پاکستانیت اور اسلامیت سے اُن کے خوف کی بات چھیڑتے ہیں۔ موصوف امریکی حکومت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ پاکستان کو بھارت کی غلامی پر آمادہ کرنے کے لیے گُڑ کھلانے کا گُر بھی آزمانا چاہیے اور زہر کھلانے کی متبادل حکمت ِ عملی بھی بروے کار لانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ چنانچہ اول یہ کہ:

امریکا کے لیے بہترین پالیسی یہ ہوگی کہ وہ موجودہ حکومت کی حمایت کرے، خواہ مشرف اس کا سربراہ ہو یا نہ ہو۔ مگر پاکستان پر ان سیاسی، معاشی حتیٰ کہ نظریاتی تبدیلیوں    کے لیے سخت دبائو ڈالے، جن کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے، بہ شمول بھارت کی طرف ایک نیا نقطۂ نظر اختیار کرنے کے۔ (ص ۲۹۵)

اُوپر کی سطروں میں جن نظریاتی قلابازیوں کو پاکستان کی بقا سے لازم و ملزوم ٹھیرایا گیا ہے، اُنھیں افواجِ پاکستان کے لیے قابلِ قبول بنانے کی حکمتِ عملی بھی پیش کی گئی ہے۔ ص ۲۶۹ پر بدلی ہوئی صورتِ حال میں فوج کے نئے کردار کو بھی متعین کیا گیا ہے۔ افواجِ پاکستان میں نظریاتی فراموش کاری کے مقصد کے حصول کے لیے کوہن صاحب کا نسخہ یہ ہے کہ سرحدوں سے افواجِ پاکستان کی توجہ ہٹاکر اُنھیں بتدریج اندرونِ ملک انتظامی ذمہ داریوں میں اُلجھا دیا جائے۔ اسی طرح  افواجِ پاکستان کے لیے اقوامِ متحدہ کے زیراہتمام قیامِ امن کی ذمہ داریوں کو ملکی سرحدوں کی حفاظت کے فریضہ سے زیادہ پُرکشش بنا دیا جائے۔ اُنھیں امید ہے کہ یہ پالیسی بالآخر افواجِ پاکستان کے خواب و خیال کو بدل کر رکھ دے گی اور یوں دارالاسلام کی بقا کی خاطر جوشِ جہاد اور شوقِ شہادت کے خواب وخیال، ہرشہر کی ہر ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں ایک نئے کارنر پلاٹ کے حصول کے سے خواب و خیال بن کر رہ جائیں گے۔

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اسٹیفن کوہن کو اس پالیسی کی ناکامی کے اندیشوں نے بھی گھیر رکھا ہے کہ وہ بجاطور پر اس فکر میں مبتلا ہیں کہ آزمایش کی گھڑی آنے پر ہمارے عسکری وجود کے دل میں پھر سے وہی حقیقی خواب و خیال جاگ اُٹھیں گے، جو جوشِ جہاد اور شوقِ شہادت سے آن کی آن میں سرسبز و شاداب ہوجایا کرتے ہیں۔ یہ احساس کوہن صاحب کو مسلسل بے چین رکھتا ہے کہ جہاں تک بھارت کی غلامی کا تعلق ہے ہمارا عسکری وجود امریکی دبائو کو ہرگز برداشت نہ کرے گا۔ شاید اسی لیے آج کل وہ اس وجود کی تباہی کے خواب دیکھنے میں مصروف ہیں۔ چنانچہ موصوف زیرنظر کتاب میں متعدد مقامات پر پاکستان کی فوجی شکست سے پاکستان کے عسکری وجود کی تباہی اور قومی وجود کی رُسوائی کا سامان کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی حکومت کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اگر  گُڑ کھلانے سے کام نہ چلے تو پھر پاکستان کو زہر دے کر مار ڈالا جائے، کیونکہ بھارت اور امریکا کا مشترکہ مفاد اسی مہم جوئی میں مضمر ہے:

مزید غیرمعمولی راستے مثلاً: بھارت کے ساتھ مل کر ایک ایسے پاکستان کو حد میں رکھنا جو اپنی اصلاح آپ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ (ص ۳۲۵)

اور

دوسرے منظرنامے بھی دیکھے جاسکتے ہیں: پاکستان کو فوجی شکست دینے کے لیے بھارتی فیصلہ، امریکی حکومت کو اس بات پر آمادہ کرسکتا ہے کہ جنگ کو مختصر رکھنے کے لیے بھارت کا ساتھ دے۔ (ص ۳۰۸)

یہ وحشیانہ استدلال نائن الیون سے شروع ہونے والے نئے دورِ وحشت کا ناگزیر شاخسانہ ہے۔ یا تو آپ اپنی اسلامی شناخت سے رضاکارانہ طور پر دست بردار ہوجائیں اور یا پھر اپنی مکمل تباہی کے لیے تیار ہوجائیں۔ امریکی سپاہِ دانش آپ کو صرف دو راستے ہی دے سکتی ہے۔ یہاں یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اسٹیفن کوہن صاحب ہمیں جن دو راہوں میںسے ایک راہِ عمل کے انتخاب کا حق دے رہے ہیں، وہ دونوں راہیں پاکستان کے جداگانہ قومی وجود کی فنا کی راہیں ہیں۔ پہلی راہ ’پُرامن‘ ہے اور دوسری بھارت اور امریکا کی مشترکہ فوجی جارحیت سے تباہی کی راہ ہے۔ دونوں راہیں اکھنڈ بھارت کی نام نہاد ’نئی نظریاتی سرزمین‘کو جاتی ہیں۔ اسٹیفن کوہن پہلی راہ کو ترجیح دیتے ہوئے ہمیں یہ سنائونی سناتے ہیں کہ ہماری core elite [بنیادی اشرافیہ] پاکستان کی پُرامن نظریاتی کایا کلپ کی راہ پر گامزن ہے۔

آستیں میں دِشنہ پنھاں ، ھاتھ میں خنجر کہلا

۲۰ویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے میں برطانوی ہند کے مسلمانوں کی اکثریت نے متحدہ ہندستانی قومیت کے تصور کو ٹھکرا کر جداگانہ مسلمان قومیت کے تصور کو اپنا لیا تھا۔ برعظیم میں جداگانہ مسلمان قومیت ہی کی بنیاد پر جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ برطانوی حکومت اور انڈین نیشنل کانگرس کی سرتوڑ مخالفت کے باوجود اسلامیانِ ہند کی بھاری اکثریت نے جداگانہ مسلمان قومیت ہی کی نظریاتی اساس پر ایک عوامی جمہوری تحریک کے ذریعے پاکستان قائم کرلیا تھا۔ قدرتی طور پر قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی جداگانہ مسلمان قومیت کا یہی نظریہ پاکستانی قومیت کی اساس بن گیا۔ آج پاکستانی قومیت کی یہی بنیاد اور پاکستان کی یہی اسلامی شناخت ہدفِ ملامت ہے۔ امریکی سپاہِ دانش مختلف اور متنوع انداز میں اس جھوٹ کو سچ ثابت کردکھانے میں منہمک ہے کہ پاکستان کے تمام تر مصائب و مشکلات کا سرچشمہ پاکستان کی یہی اسلامی نظریاتی شناخت ہے۔ اسٹیفن کوہن کی کتاب ’تصورِ پاکستان‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ ایک کتاب نہیں بلکہ ایک رپورٹ ہے، اور رپورٹ بھی ایسی جو بقول مولانا الطاف حسین حالی    ؎

کچھ کذب و افترا ہے ، کچھ کذبِ حق نما ہے

یہ ہے بضاعت اپنی اور یہ ہے دفتر اپنا

گذشتہ پانچ سال سے امریکی سپاہِ دانش سے سستے داموں تیار کرائی گئی اس قبیل کی رپورٹیں مسلسل و متواتر گردش میں ہیں۔ آج سے پانچ برس پیش تر ’یو-ایس ایس کمیشن آن نیشنل سیکورٹی اِن دی ٹونٹی فَسٹ سنیچری‘ میں دعویٰ کیا گیا تھاکہ ۲۱ویں صدی کے پہلے ۲۵سال کے دوران پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ اس رپورٹ پر وائٹ ہائوس نے بھی اپنی مہرتصدیق ثبت کررکھی ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کی تباہی کے متعدد امکانات درج ہیں۔ ان میں سے ایک امکان یہ ہے کہ پاکستان اقتصادی بدحالی اور سیاسی بے عملی کے باعث اندرونی عدمِ استحکام کا شکارہوکر ٹوٹ جائے گا، اور الگ الگ بلوچ، پشتون اور مہاجر ریاستیں وجود میں آجائیں گی۔ اسٹیفن کوہن کی زیرنظر کتاب میں ’علاقہ پرستی اور علیحدگی پسندی‘ کے عنوان سے جو باب شامل ہے، اُس میں بھی پاکستان کی ممکنہ تباہی کے موضوع پر امریکی سپاہِ دانش کی ان تمنائوں کی صورت گری موجود ہے۔ بھارت نواز بلّی کے خواب میں یہ چھیچھڑے بے شک ہمارے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہیں۔ ان پر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرنا چاہیے، مگر ایسا کرتے وقت ہمیں اس حقیقت کو ضرور پیشِ نظر رکھناچاہیے کہ پاکستان کی تباہی کے  یہ منظرنامے امکانات کم ہیں اور عزائم زیادہ۔ اگر ہم اپنے ’دوست‘ کے ان عزائم میں پوشیدہ ’دشمنی‘ کے اسرار و رموز سے بروقت خبردار ہوجائیں تو کچھ تعجب نہیں کہ یہ امکانات معدوم ہوکر رہ جائیں۔

--- یہی وجہ ہے کہ امریکی سپاہِ دانش آج ہمیں ہندستانیت کامسلک اپناکر پاکستانی قومیت کی اسلامی سرشت سے رُوگردانی پر مجبور کر رہی ہے: ’’پاکستان کی شیرازہ بندی کے لیے ایک نئے نظریے کی ضرورت ہے، جو علاقائی قومیتوں کے لیے، اور ایک ایسے تشخص کے لیے، جو خوف سے مبرا ہو، گنجایش رکھے‘‘۔ (ص۲۲۶)

کوہن صاحب کا ارشاد یہ ہے کہ ہم روحانی یگانگت کی پاے دار بنیاد کو چھوڑ کر رنگ و نسل کی ناپاے دار بنیاد پر پاکستانی قومیت کی نئے سرے سے تعمیر کریں۔ اُن کے خیال میں پاکستان کی سالمیت اور پاکستانیوں کے اتحاد کا یہ نیا تصور (new organizing idea) بھارت اور امریکا ہردو کے لیے پسندیدہ ٹھیرے گا۔ پاکستان کے حقیقی تصور کو ترک کردینے اور اس نئے تصورِ پاکستان کو اختیار کرنے کی فضا تیار کرنے کے لیے وہ پاکستان میں علاقہ پرستی اور علیحدگی پسندی کی تحریکوں کا ذکر کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں علاقہ پرستی اور علیحدگی پسندی کی کوئی تحریک موجود ہی نہیں۔ صوبوں کو مرکزسے جائز شکایات ہیں۔ صوبائی خوداختیاری کی حدود کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے مطالبات زور پکڑتے چلے جارہے ہیں۔ ان برحق مطالبات پر پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان گفت و شنید جاری ہے۔ ان میں سے کوئی بھی گروہ پاکستان سے علیحدگی کی تمنا نہیں رکھتا۔ بھارت میں جس طرح علیحدگی کی متعدد تحریکیں جداگانہ ممالک کے قیام کی خاطر سرگرمِ عمل ہیں، پاکستان میںاُس طرح کی کوئی تحریک موجود نہیں۔اس کا اعتراف اسٹیفن کوہن صاحب کو بھی ہے۔ چنانچہ بالآخر انھوں نے پاکستان کے دیگر صوبوں سے مایوس ہوکر پنجاب کو اپنی تخریبی تمنائوں کامرکز و محور بنا لیا ہے۔

امریکی سپاہِ دانش امریکا اور بھارت کے مشترکہ ’کلیدی مفادات‘ کے تحفظ کی خاطر پاکستان کو بھارت کی ایک ذیلی ریاست کا مقام دینا چاہتی ہے۔ پاکستان کے عوام اور پاکستان کی فوج یہ مقام قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔ چنانچہ کوہن صاحب کی زیرنظر کتاب میں پاکستان اور افواجِ پاکستان کی تقسیم کے خوابوں کو روبہ عمل لانے کی خاطر متعدد خاکے پیش کیے ہیں۔ اگر  متحدہ پاکستان بھارت کی بالادستی قبول کرنے سے انکاری ہے تو پھر پاکستان کوعلاقہ پرستی کی بنیاد پر متعدد چھوٹی چھوٹی خودمختار ریاستوں میں بانٹ دیا جائے۔ یہ چھوٹی چھوٹی کمزور ریاستیں بھارت کی بالادستی قبول کرنے پر مجبور کردی جائیں گی۔ پاکستان کی یہ مجوزہ تقسیم دیوانے کا خواب ہے، اس لیے کہ پاکستان کا کوئی بھی صوبہ پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتا، بلکہ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے صوبائی خودختیاری کے لیے جہدآزما ہے۔ عوام کی یہ پاکستانیت امریکی سپاہِ دانش کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ چنانچہ کوہن صاحب کی عیار عقل انھیں افواجِ پاکستان کی شیعہ سُنّی کی   فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم سے پاکستان کی تقسیم کی راہ سُجھاتی ہے۔ اس راہ پر چند قدم چلتے ہیں تو کھلتا ہے کہ  ع  ایں خیال است و محال است و جنوں۔

پاکستان کو توڑنے کے ان منصوبوں کے بے اثر ہونے کا احساس انھیں پھر سے پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ پاکستانی قومیت کی اسلامی سرشت کو بدل کر رکھ دینے کا خیال آتا ہے۔ پاکستان کے لیے نئے امریکی نصابِ تعلیم کی بحث چھڑتی ہے، مگر یہ کام آن کی آن میں سرانجام نہیںپاسکتا۔ نہ پاکستان کو مغربی بنگلہ دیش، پنجابستان، نیا پنجاب اور آزاد پنجاب کے سے اسماے تحقیر سے موسوم کرنے سے پاکستانیوں کی اسلامیت کی نفی ممکن ہے۔ مایوسی کے اس عالم میں اسٹیفن کوہن سوچتے ہیں کہ فوری نتائج کے حصول کی خاطر پاکستانی قیادت کو ترغیب دی جائے کہ وہ روس کی مثال کو اپنا لے۔ اُن کی تجویز یہ ہے کہ جس طرح سوویت یونین، کمیونسٹ آئیڈیالوجی اور سوویت یونین کی غیر روسی ریاستوں سے دست بردار ہوکر پھر سے روس بن گیاہے، اسی مثال کو اپناتے ہوئے پاکستان کا بھلا اس میں ہے کہ وہ اپنی اسلامی آئیڈیالوجی کو ترک کرکے پاکستان کے بجاے پنجابستان ہوجائے:

سوویت تاریخ، پاکستان کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے ایک تیسرا راستہ دکھاتی ہے۔ سوویت یونین اس لیے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی کہ اس کی غالب جمہوریہ (روس) نے حساب لگایا کہ وہ اپنی بعض غیریورپی جمہوریائوں کے بغیر زیادہ بہتر رہے گا، اور یہ کہ روس کا مستقبل ایک جدید روسی ریاست بننے میں ہے۔ کیا پاکستان کی ارتقا یافتہ شکل پنجابستان ہوسکتی ہے جو ایک چھوٹی، جوہری اسلحے سے لیس، زیادہ مؤثر اور عمومی طور پر مستحکم ریاست ہو؟ (ص ۲۹۲)

کوہن صاحب بھی کیا سادہ ہیں؟کس اعتماد کے ساتھ ہمیں سمجھانے آئے ہیں کہ ہمارا فائدہ اس میں ہے کہ تاریخِ اسلام کے بجاے روسی تاریخ کو اپنا سرچشمۂ فیضان بنا لیں؟ اُن کاخیال ہے کہ ترکِ اسلام کی یہ راہ اپناکر پاکستان کی مجوزہ جانشیں ریاست پنجابستان، پاکستان سے زیادہ خوش حال، طاقت ور، ترقی یافتہ اور محفوظ ریاست بن کر اُبھرے گی۔ اُن کے اس استدلال نے اس حقیقت پر ایک اور مہرتصدیق ثبت کردی ہے کہ سندھی، بلوچی اور پٹھان اسلامیت اور پاکستانیت پر غیرمتزلزل ایمان رکھتے ہیں۔ اُنھیں امریکی کھلونے دے کر پنجابیوں کی طرح نہیں بہلایاجاسکتا۔ چنانچہ بھارتی امریکی لابی کی تمام تر توجہ پنجابستان پر ہے۔ ننکانہ صاحب کو خالصہ وَیٹی کن اور لاہور کو لاہُو کے مندروں کا شہر بنانے کی خاطر رات دن ایک کردیے گئے ہیں۔ فکری اور نظریاتی محاذ پر اسلام اور سیکولرزم… دین اور لادینیت کی بحث کا بازار گرم کردیاگیا ہے، مگر کیا غم کہ اقبال جاگ رہا ہے    ؎

دُنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو پکارا