نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نبی آخرالزماں ہیں۔ آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں قیامت تک قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، بالکل اسی طریقے سے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ اور آپؐ کی تعلیمات کو بھی محفوظ رہنا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کی اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے کہ اس مشن کو لے کر اُٹھے اور اس ہدایت کی علَم بردار بنے۔ آپؐ کی تعلیمات کا خود بھی پیکر بنے، اس کے سانچوں میں ڈھلے، اور دُور تک پھیلی ہوئی دنیا تک آپؐ کا پیغام پہنچائے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں جو اسوہ حسنہ چھوڑا ہے ، ظاہر ہے کہ جو لوگ قائم مقام ہیں، اُمت کی حیثیت سے آپؐ کے مشن کے علَم بردار ہیں، انھیں اس بارے میں بھی رہنمائی وہیں سے لینی چاہیے۔
واقعات میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، اپنے منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ وہاں بیٹھے تھے، ان سے کہا کہ عبداللہ! مجھے قرآن سنائو۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ قدرے حیران ہوئے، عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! میں قرآن سنائوں؟ یہ قرآن تو آپؐ پر نازل ہوا ہے، آپؐ ہی سے ہم نے سنا ہے، آپؐ ہی سے ہم تک پہنچا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: نہیں، عبداللہ! آج تو جی چاہتا ہے کہ کوئی پڑھے اور میں سنوں۔ حکم تھا، آپؐ اسی طرح منبر پر تشریف فرما رہے اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے نیچے بیٹھے ہوئے سورئہ نساء کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت پر پہنچے: فَکَیْفَ اِذَاجِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍم بِشَھِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ھٰٓؤُلَآئِ شَھِیْدًا o (النساء ۴:۴۱) ’’پھر سوچو کہ اس وقت یہ کیا کریںگے جب ہم ہراُمت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمھیں (یعنی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے‘‘، تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو اندازہ ہوا کہ جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں ہاتھ کے اشارے سے روک رہے ہیں، حسبک حسبک، عبداللہ ٹھیرجائو، عبداللہ ٹھیرجائو۔ سراُٹھاکر دیکھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ آں حضوؐر کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں اور ریش مبارک آنسوئوں سے تر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس گواہی، شہادت اور ذمہ داری کے احساس سے گویا دبے جا رہے ہیں، اور آنکھوں سے آنسوئوں کا رواں ہونا تو پورے جسم و جان کی کیفیت کی گواہی دے رہا ہے کہ اندر کیا ہلچل ہے، کیا کیفیت ہے کہ جس سے آپؐ گزر رہے ہیں۔
گویا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس لمحے سے پریشان ہیں جب پوچھا جائے گا کہ کیا تم نے اس پیغام کو پہنچایا، لوگوں کے دلوں کو گرمایا، ان کے جسم و جان کو ان راہوں پر لگایا، تم نے لوگوں کو منزل کا شعور دیا، تم نے انھیں جدوجہد کا پیکر بنایا، تم نے چاردانگ عالم میں اس نئی کش مکش کی داغ بیل ڈال کر اس کی طرف ان کو بلایا؟ یہ احساس اور احساس کی شدت آپؐ کو رُلا رہی ہے۔
یہ اُمت آپؐ کی قائم مقام ہے اور آپؐ رہتی دنیا تک اُمت کو اس حوالے سے رہنمائی دے رہے ہیں۔ جو لوگ اس مشن کو لے کر چل رہے ہیں وہ اُن پوری بستیوں کے ذمہ دار ہیں جہاں وہ اپنے شب وروز بسر کرتے ہیں، اور علیٰ ہذا القیاس ملک اور قوم کے۔ کبھی اتفاقاً آدمی اپنے آپ سے یہ سوال کرلے کہ قرآن تو میں بھی پڑھتا ہوں کہ اگر پوچھ لیا جائے کہ ان بستیوں میں تم نے کیا کام کیا، کتنے دلوں پر دستک دی، کتنے دل کے دریچے کھولنے کا تم ذریعہ اور سبب بنے، اور کتنے دریچہ ہاے دل ایسے تھے جو تکتے رہ گئے کہ کوئی آئے اور بتائے تو سہی کہ اسلام کہتے کس کو ہیں!
آپ نے وہ واقعہ بھی پڑھا ہوگا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت ِ قیام میں ہیں، اور سورۂ ابراہیم کی تلاوت فرما رہے ہیں۔ جب اس آیت پر پہنچے: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o (ابراہیم ۱۴:۳۶) ’’پروردگار، ان بتوں نے بہتوں کو گمراہی میں ڈالا ہے (ممکن ہے کہ میری اولاد کو بھی یہ گمراہ کردیں، لہٰذا ان میں سے) جو میرے طریقے پر چلے وہ میرا ہے اور جو میرے خلاف طریقہ اختیار کرے تو یقینا تو۱ُ درگزر کرنے والا مہربان ہے‘‘، تو اس آیت کو پڑھتے تھے اور روتے تھے اور بار بار آیت کے اس حصے کو پڑھتے تھے فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ، تاآنکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جبرئیل امین ؑ کو بھیجا۔ جبرئیل ؑامین تشریف لاتے ہیں اور ماجرا پوچھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو پڑھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ انھوں نے تو اپنی اُمت کے لیے سبھی کچھ مانگ لیا کہ جو لوگ میرا اتباع کرنے والے ہیں وہ تو میرے ہیں، لیکن جو لوگ معصیت کے راستے پر جانے والے، گمراہ ہوجانے والے ہیں، تو تو۱ُ خود ہی بڑا معاف کرنے والا ہے۔ گویا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اُمت کے لیے سبھی کچھ مانگ لیا، لیکن جب میں ان کی اس دعا کو پڑھتا ہوں تو اپنی اُمت کا خیال ستاتا ہے، یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں جو مسلسل آنسو رواں ہیں، اپنی اُمت کے بارے میں فکر کو اس کا سبب بتا رہے ہیں۔ واقعات میں آتا ہے کہ حضرت جبرئیل امین ؑ واپس جاتے ہیں اور پھر یہ خوش خبری اور مژدہ سناتے ہیں کہ آپؐ کی اُمت کے بارے میں اللہ تعالیٰ آپ کو خوش کر دے گا۔
اگر ہم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم مقامی کرنی ہے، اور ان کے مشن کو لے کر آگے چلنا ہے تو یہ اس وقت تک ممکن نہیںہے جب تک اسوئہ حسنہ کا کامل اتباع نہ کیا جائے۔ جب تک حالتِ قیام سے، قرآنِ پاک کے ساتھ شغف سے، فی الواقع ایک مستحضرعلم سے، اور وسعتِ علم کے نتیجے میں اپنے آپ کو بنایا نہ جائے، کوئی بڑا کام تو دُور کی بات ہے، اس ذمہ داری کا ہلکا سا بوجھ بھی نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے طور طریقوں اور رویوں میں، اپنے شب و روز کے معمولات اور اپنے مشاغل و مصروفیات میں تبدیلی لانی چاہیے، اور اس بات کو دیکھنا چاہیے کہ جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اس کے بوجھ کو ہلکا کرنے اور فی الحقیقت اس کو نبھانے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے۔ فرداً فرداً کوئی کسی کو نہیں بتا سکتا لیکن ہرشخص اپنے بارے میں خود جانتا ہے، اسی کے مطابق اس کو اپنے لیے لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ آپ چاہیں تو اس کا دوسرا نام تعلق باللہ رکھ دیں، یعنی ہر بندے کا اپنے رب کے ساتھ جو تعلق اور استواری ہے، مسلسل اس میں منہمک رہنا ضروری ہے، لیکن بدرجۂ اولیٰ کہ ع جن کے رتبے ہیں سوا، ان کی سوا مشکل ہے۔
گویا جو لوگ ان راہوں پر چلے ہیں اور لوگوں پر ذمہ دار قرار پائے ہیں ان کا فرض ہے کہ رب کے ساتھ اپنے تعلق کو مستحکم اور مضبوط کریں۔ جس کا کام کررہے ہیں اسی کے ساتھ رابطہ اگر ٹوٹا رہے گا، جس کی دعوت لے کر اُٹھے ہیں اسی کے ساتھ تعلق اگر ضعف اور کمزوری کا شکار ہوگا، تو سوچیے کہ کہاں سے طاقت ملے گی، اور کہاں سے نصرت و تائید آئے گی۔ نصرت و تائید کی بات بسااوقات لفظوں میں سمجھ نہیں آتی۔ یہ جو انسان کی طبیعت میں انشراحِ صدر پیدا ہوتا ہے، قدموں کے اندر جمائو اور حوصلہ پیدا ہوتا ہے، انسان نامساعد حالات میں صبر کی چٹان نظر آتا ہے،اور حالات کی خرابی کے باوجود تحمل کاکوہِ گراں نظر آتا ہے، اسی کو نصرت اور تائید کہتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کمزور بندوں اور اپنے راستے پر چلنے والوں کی کس کس طریقے سے مدد کرتا ہے۔ کیسے وہ ان کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتے ہیں، کیسے وہ ان کے پیر بن جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں، اور کیسے وہ ان کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ پکڑتے ہیں۔
سیرت کے ہر واقعے کے اندر رہنمائی موجود ہے۔ کچھ نہیں تو آنکھوں کے لیے نمی، دلوں کے لیے گداز اور قلوب کے لیے خوف و خشیت کی کیفیت موجود ہے۔ اگر ان تمام واقعات کو زمانی ترتیب کے ساتھ جوڑ لیں کہ ایک واقعہ پیش آیا، پھر دوسرا پیش آیا، صبح کو یہ ہوا، پھر دوپہر کو یہ اور شام کو یہ ہوا۔ پھر لوگوں نے کانٹے بچھا دیے۔ پھر لوگ پتھر برسانے اور گالیاں دینے لگے۔ پھر لوگوں نے حالتِ نماز میں اوجھ رکھ دی، پھر لوگوں نے ہجرت پر مجبور کر دیا۔ یہ تمام واقعات کسی ترتیب کے ساتھ جمع کرلیں تو جوڑتے جوڑتے لگے گا کہ واقعی یہ تو پہلے دن سے کسی منزل کا تعین کرکے کسی انقلاب کی طرف رہنمائی ہو رہی ہے، اور لوگوں کو ایک بڑے مقصد کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ یہ اتفاقی اور حادثاتی طور پر رونما ہونے والے واقعات نہیں ہیں۔ سیرت کے تمام واقعات ایک مقصد کی طرف لے جاتے ہیں، منزل کا شعور دیتے ہیں۔
واقعۂ طائف پر نظر ڈالیے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصائب و شدائد کا دور مکے میں گزارا ہے۔ مکے میں جب دعوت و تبلیغ اور اللہ کی طرف بلاتے ہوئے آپؐ کو ایک مدت گزر گئی، تو یہ احساس ہوا کہ بہت تھوڑے لوگ اس دعوت کو قبول کر رہے ہیں اور اس کو بہت کم پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ گویا ایک تجزیہ کیا، جائزہ لیا، اور پھر آپؐ نے طے کیا کہ مکہ کے لوگ تو بات قبول ہی نہیں کرپا رہے ہیں، چلو طائف کا رُخ کرتے ہیں، اور طبیعت اور مزاج کے اندر یہ بات رچی بسی تھی کہ کیا عجب کہ طائف کے لوگ اس دعوت کو قبول کرلیں، اور یہ دعوت محض نظریاتی اور لفظوں کا پھیر نہ رہے بلکہ سلطنت بن جائے۔ کیا عجب کہ یہ دعوت ریاست قرار پائے، یہ دعوت مقتدر ہوجائے، اس دعوت کا سکّہ رواں ہوجائے، یہ دعوت قیل و قال کے حوالوں سے بھی جانی پہچانی جائے اور احکامات و ہدایات کے نازل ہونے اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی۔ کس قدر وژن ہے، کیسی بصیرت و بصارت ہے، کس قدر دُوراندیشی اور دُوربینی ہے کہ اس دعوت کو یہاں پر وہ فروغ حاصل نہیں ہو رہا، لیکن وہ تمکن اور غلبہ جو اس دعوت کے اندر پنہاں ہے، اور حالات کی بہتری اسی وقت ہاتھ آئے گی جب یہ دعوت غالب آجائے گی۔ اس تجزیے اور ان امیدوں کے ساتھ، اس سوچ اور فکر کے ساتھ آپؐ نے طائف کا سفر کیا۔
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ کی مشیت اپنی ہے اور یہ خود ایک موضوع ہے، اور لوگوں نے اس پر بہت لکھا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو پوری کائنات کا فرماں روا ہے، قہار و جبار ہے، طاقت کے ہرسرچشمے کا مالک ہے، وہ اپنے محبوب ترین بندے کو دیکھتا ہے کہ ستایا جا رہا ہے، اُلٹے پیروں لوٹایا جارہا ہے، جابجا پتھروں اور گالیوں کی یورش میں ایک مضبوط انسان کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے۔ کیفیت کو بیان کرنے کے لیے الفاظ تلاش کرنا مشکل ہے۔ بعض لوگ خود ہی پوچھتے ہیں اور خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں۔ اگر انسانی الفاظ اور جذبات کا سہارا لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کیا گزر رہی ہوگی کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے محبوب ترین بندے کو ان کیفیات سے گزار رہا ہوگا، مشکلات و مصائب میں دیکھ رہا ہوگا۔ یہ اصل اسوئہ حسنہ ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (الاحزاب ۳۳:۲۱) درحقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ ہے۔
اللہ تعالیٰ چاہتے تو ایک لمحے کے اندر کن فیکون کے مصداق اسلامی نظام قائم ہوجاتا ، توحید کی امارت قائم ہوجاتی، دین غالب ہوجاتا۔ اللہ تعالیٰ کے لیے تو صرف کرنے اور کہنے کا معاملہ ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ۲۳ سال لگے ہیں اور ساری مشکلات اور صعوبتوں کو انگیز کیے ہوئے ہیں۔ گویا اس سنت اور اسوہ کو قائم کرنا مطلوب تھا کہ رہتی دنیا تک جو لوگ اس دعوت کے غلبے کے لیے اُٹھیں گے، ان کے سامنے یہ اسوہ ہوگا کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ترین بندے کو ان راہوں سے گزارا تو ہمیں ایسے ہی ہتھیلی پر سرسوں جمانے کو نہیں ملے گی۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا رُخ کیا ہے، اور آپ دیکھیں کہ کس وژن اور بصیرت و بصارت کے ساتھ، اور دعوت کے غلبے کی تمنا اور آرزو کے ساتھ یہ سفر کیا ہے۔ لیکن یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ اہلِ طائف نے آپؐ کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا، اس کے سامنے لغت بیچاری ہاتھ جوڑ کے کھڑی ہوجاتی ہے کہ مجھ سے نہیں بیان کیا جاتا، کہ کیا سلوک آپؐ کے ساتھ روا رکھا گیا۔ کسی نے کہا کہ اچھا تو اللہ میاں کو کوئی اور نہیں ملا تھا نبی بنانے کے لیے، تمھی رہ گئے تھے، ایسے آدمی کو تو میں نبی نہیں مان سکتا، یعنی طنز اور تمسخر کے جوتیر اور نشانے ہوسکتے تھے، وہ سب لگائے گئے۔ اہلِ طائف نے دل کو چھلنی اور دل و دماغ کی دنیا کو ویران کرنے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو انسانی سطح پر کیا جاسکتا ہے۔ ٹولیوں میں لوگ آتے، دھکا دے کر گرانے کی کوشش کرتے، اور کہتے نبی ہو، گرتے کیوں ہو؟ سیدھے کھڑے رہو نا!___ اب ذرا تصور کیجیے کہ کن اُمیدوں کے ساتھ آپؐ گئے ہیں، کیا توقعات لے کر آپؐ نے یہ سفر کیا ہے اور کیا کچھ پیش آرہا ہے۔ گویا دعوت کے راستے میں آپ بہت کام کریں گے لیکن نتیجہ بالکل مختلف نکلے گا۔ آپ منزل کی طرف چلنے کی بے شمار شعوری کوششیں کریں گے جن کا نتیجہ دو جمع دو چار کی صورت میں نکلنا چاہیے لیکن وہ صفر نکلتا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ اس راستے میں ان مشکلات کو انگیز کیے، صعوبتوں کو اُٹھائے اور ان آزمایشوں کو جھیلے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
صبح سے لے کر شام ہوگئی ہے، ہر دَر پہ آپ دستک دیتے ہیں، ہر دل کی دنیا کو بسانے اور ویرانوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کوئی ایک فرد نہیں ملتا جو بات سننے والا ہو، جو آپؐ کی دعوت پر توجہ دینے والا ہو۔ کس قدر مایوسی ہونی چاہیے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آیندہ کے لیے آدمی کو کچھ نہ کرنے کا طے کرلینا چاہیے کہ یہ انسان تو عجیب و غریب ہیں، یہ تو خونخوار بھیڑیے ہیں۔ ان سے کیا بات کرنی، یہ سب جہنمی ہیں۔ لیکن نہیں، داعی کبھی فتوے نہیں دیتا، لوگوں سے مایوس نہیں ہوتا، اپنے حصے کا کام کرنا اور لوگوں سے اچھی اُمیدیں اور توقعات باندھنا اس کے ذمے ہے۔
واقعات میں آتا ہے کہ جب آپؐ بالآخر طائف سے واپس لوٹنے لگے تو اہلِ طائف نے جو کچھ کرچکے تھے، اسی پر بس نہ کیا بلکہ گلی کے بچوں کو، لچے لفنگوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا۔ آپؐ چلتے جاتے تھے اور بچے آپؐ پر پتھرائو کر رہے تھے۔ حضرت زید بن حارثہؓ جو آپؐ کے ہمراہ تھے، ان کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ جب آپؐ پر سامنے سے پتھرائو ہوتا تھا تو سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوجاتے تھے مگر پتھرائو پیچھے سے شروع ہوجاتا تھا۔ جب پتھرائو پیچھے سے شروع ہوجاتا تو آپ ڈھال بننے کے لیے پیچھے کھڑے ہوجاتے تھے۔ لیکن ایک فرد ہے اور چاروں طرف سے پتھروں کی یورش اور بارش ہے۔ کیسے تحفظ دے، کیسے ڈھال بنے؟ وہ اپنا کام کررہے تھے، اپنے درجات بلند کر رہے تھے، اپنے آپ کو رضاے الٰہی کا مستحق بنا رہے تھے۔ آپؐ کے جسمِ اطہر سے اس قدر خون رسا کہ آپؐ کے نعلین مبارک میں خون کھڑا ہوگیا اور آپؐ کے پائوں اس میں جم گئے۔ کتنی آسانی سے میں نے بیان کر دیا ہے اور آپ نے پڑھ لیا ہے۔ ذرا اس کا تصور تو کیجیے کہ کیا ہوا ہوگا اور کیا بیتی ہوگی، کتنا وقت لگا ہوگا کہ خون رستے رستے پیروں کو جوتے کے اندر جما دے!
یہ واقعہ پیش آتا ہے تاآنکہ آپ بستی سے نکل کر ایک درخت کے نیچے سستانے کو بیٹھتے ہیں۔ اس وقت حضرت جبرئیل امین ؑ تشریف لاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام لے کر آتے ہیں کہ یہ فرشتہ ساتھ لایا ہوں، آج اللہ تبارک وتعالیٰ بے حد غضب ناک ہے کہ اس نے اپنے محبوب ترین بندے کو دیکھا ہے کہ کس طرح وہ ستایا گیا ہے۔ آج اللہ تبارک و تعالیٰ سخت جلال کے عالم میں ہے، یہ فرشتہ ساتھ لایا ہوں، آپ اشارہ کیجیے کہ اللہ کے حکم سے یہ فرشتہ طائف کی اس بستی کو جو دو پہاڑوں کے درمیان آباد ہے، ان دونوں پہاڑوں کو ملادے، بستی ریزہ ریزہ ہوجائے، خاک و خون اور پوری تاریخ کے اندر عبرت کا نشان ہوجائے۔ انسانی سطح پر ذرا تصور کیجیے کہ کس قدر سنہری پیش کش ہے، کہ جن لوگوں نے ستایا ہے اور اس سلوک سے دوچار کیا ہے،ان سے انتقام لینے کا نادر ترین موقع ہاتھ آگیا کہ ان کو تہس نہس کردیا جائے، فنا کے گھاٹ اُتار دیا جائے اور ان کا کوئی نام لیوا باقی نہ چھوڑا جائے۔ ذرا غور کیجیے کہ کیسے آدمی صبر سے کام لے، کیسے حوصلے کا عنوان بنے،وسیع الظرفی کسے کہتے ہیں، عالی ظرفی کس چیز کا نام ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور آپؐ کا اسوۂ حسنہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ نہیں، یہ نہیں تو ان کے بعد والے ایمان لے آئیں گے۔ کیسی توقعات ہیں۔ جو توقعات ان سے باندھی تھیں وہ تو پوری ہوئی نہیں، لیکن یہ نہیں تو بعد والے اور آیندہ نسلیں ایمان لے آئیں گی۔ یہ زندہ رہیں گے تو آیندہ نسلیں مسلمان ہوں گی۔ وژن دیکھیے، بصیرت و بصارت دیکھیے، توقعات اور اُمیدوں کا محل دیکھیے، صبروتحمل کا کوہِ گراں دیکھیے، اور انسانوں کے ساتھ خیرخواہی دیکھیے۔
یہ الفاظ آپؐ کی زبانِ مبارک سے نکلتے ہیں اور پھر آپ سجدے میں چلے جاتے ہیں، اپنے رب سے مناجات کرتے ہیں۔ ہم کلامی کا شرف حاصل کرتے ہیں، اور اپنی پوری کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہیں،اور الفاظ سے لگتا ہے کہ شاید اپنے رب سے گلہ بھی کر رہے ہیں۔ اپنائیت کے الفاظ و انداز میں جو شکوہ ہوسکتا ہے وہ کر رہے ہیں کہ مولا! تو نے مجھے کن کے حوالے کر دیا ہے، جو میری بات کو سمجھتے نہیں ہیں، میرے پیغام کو جانتے نہیں ہیں۔ اس میں ان کے لیے گنجایش رکھ رہے ہیں کہ سمجھ نہیں رہے اس لیے مخالفت کر رہے ہیں۔ ان جملوں کے اندر ان کی خیرخواہی مطلوب ہے، اور اتباع و پیروی اور دعوت و انقلاب کے راستے پر چلنے والوں کے لیے رہنمائی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ مولا! جو کچھ ہوگیا ہے اگر تو اسی پر راضی ہے تو میں بھی اس پر راضی ہوں، یعنی میرا رب راضی ہے تو پھر سارا جگ راضی ہے۔ پھر یہ لوگ پتھر ماریں تو میں راضی ہوں، پھر یہ لوگ مجھے کانٹوں پر چلائیں تو میں راضی ہوں۔ یہ خون میں نہلائیں تو میں راضی ہوں۔ پھر یہ مجھے خالی ہاتھ لوٹائیں تو میں راضی ہوں۔ گویا رب کی رضا ہی اصل چیز ہے۔
تعلق باللہ کی یہ کیفیت ایک داعی دوسروں میں اسی وقت پیدا کرسکتا ہے جب خود اس کے اندر اس تعلق کی آبیاری بدرجہ اولیٰ موجود ہو۔ اللہ کے ساتھ تعلق کی آبیاری ہر روز اور ہر صبح و شام کا کام ہے، اتفاقی یا حادثاتی طور پر کبھی کبھار کرنے کا کام نہیں۔ قرآن و سنت اور سیرت و حدیث کے حوالے سے مسلسل اپنی طبیعتوں کو نکھارنے کا اہتمام کرنا تحریکِ اسلامی کے ہر کارکن اور ذمہ دار کا فرض بنتا ہے۔ روزانہ کچھ وقت مقرر کریں کہ ان اوقات میں انفرادی دائرے میں اور چل پھر کر اجتماعی دائرے میں اپنے رب کے ساتھ قربت کی منازل کو طے کریں۔
حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے اور میں نے آپؐ کے چہرۂ انور کو دیکھ کر پہچان لیا کہ آپؐ کچھ فرمانے والے ہیں۔ میں متوجہ ہوگئی کہ دیکھوں آپؐ کیا ارشاد فرماتے ہیں، لیکن آپؐ گھر کے اندر داخل ہوئے، وضو فرمایا اور خاموشی سے مسجد کی طرف چلے گئے۔ میں مسجد کی دیوار سے کان لگا کر کھڑی ہوگئی کہ دیکھوں آپؐ کیا ارشاد فرماتے ہیں۔آپؐ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ لوگو! اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: اگر تم منکر کے خلاف نہیں اُٹھو گے، منکر کو نہیں روکو گے، اس کی طرف لوگوں کو متوجہ اور تنبیہہ نہیں کرو گے تو تم مجھ سے لمبی لمبی دعائیں مانگو گے، میں ان کو تمھارے منہ پر دے ماروںگا۔ تم مجھ سے التجائیں اور گزارشیں کرو گے میں ان کو نامنظور کردوں گااور تمھاری طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھوں گا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ حضور نبی کریمؐ نے بس اتنا ہی ارشاد فرمایا اور منبر سے نیچے اُتر آئے۔
گویا منکر کو دیکھنا اور برداشت کر لینا گوارا نہیں ہوسکتا۔ چاروں طرف معاشرے میں منکرات کے جھاڑ جھنکاڑ بچھے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف دیوہیکل منکرات دندناتے پھرتے ہیں، انھی کی پالیسیاں ہیں، انھی کے حوالے سے لوگوں کا اوڑھنا بچھونا ہے اور حرام کاری کے کاروبار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ہماری طبیعت پر کتنے گراں گزرتے ہیں؟ کچھ کرنے اور کر گزرنے کے لیے کتنی آمادگی پیدا ہوتی ہے؟ کتنے اقدامات اور تدبیریں ہیں جو ہم انفرادی اور اجتماعی دائروں میں اختیار کرتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات بدرجۂ اولیٰ ہم سے پوچھی جانی ہے۔ ہم جو دین کے دعوے دار بن کر اُٹھے ہیں، حضرت عائشہ صدیقہؓ اسی طرف رہنمائی فرما رہی ہیں۔
جماعت اسلامی از اوّل تا آخر ایک دینی تحریک ہے اور بجاطور پر اس کے فرائض اور ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ اپنے جلو میں چلنے والوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق دعوت اور آپؐ کے اسوئہ حسنہ سے بار بار آگاہ کرے،تذکیر اور یاد دہانی کا فریضہ انجام دے، اور مسلسل تعمیرسیرت اور کردار سازی کا کام انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی دائروں کے اندر بھی جاری رکھے۔ اسی مقصد کے پیش نظر جماعت اسلامی نے دعوت وتربیت کا ایک جال بچھایا ہے تاکہ چاروں طرف کے حالات میں غفلت کے جو عنوان پنہاں اور پوشیدہ ہیں، لوگ ان سے بچ سکیں اور اپنے رب کے ذکر قرآن پاک اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی طرف چلیں اور اس کے ذریعے ان راہوں کو پا سکیں جو منزل کی طرف لے جاتی ہیں۔
اس پورے کام میں جو چیز مطلوب ہے، قرآنِ پاک نے اس کا حوالہ دیا ہے:
وَلٰـکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الرّٰشِدُوْنَ o فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ o (الحجرات ۴۹:۷-۸) مگر اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمھارے لیے دل پسند بنایا اور کفروفسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا۔ ایسے ہی لوگ اللہ کے فضل و احسان سے راست رو ہیں اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
یعنی اس تمام تربیت اور تزکیے سے ایک ایسا انسان مطلوب ہے جس کے دل و دماغ میں ایمان کی محبت پیوست ہوجائے،اور ایمان سے ہٹنے اور اس سے دُور جانے کا تصور بھی ذہن اور عمل کے اندر محال ہوجائے۔ قلوب کے اندر یہ محبت اس طرح رچ بس جائے کہ اس کے نتیجے میں ہرمعصیت، ہر گناہ اور ہر نافرمانی انسان کو جیتے جی ایک عذاب سے دوچار کردے۔ یہ جو چاروں طرف گناہوں کا کاروبار نظر آتا ہے اور انسان کو اپنی طرف بلاتا اور بہلاتا پھسلاتا ہے، معصیت اور نافرمانی کے اَن گنت عنوانات دنیا کو بنانے، حالات کو بہتر کرنے، اور زندگی کو کل سے بہتر آج اور آج سے بہتر کل کی شکل دینے کے لیے موجود ہیں، اور پھر انسان کے جسم و جان کو راحت پہنچانے کے وہ تمام مراحل جو نافرمانی کے ذیل میں آتے ہیں، ان کے قریب جانے یا ان کا خیال آنے سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ یہ منزل مقصود ہے کہ انسان کے اپنے اندر ایک مربی و مزکی اور ایک محتسب موجود ہو، کوئی روکنے ٹوکنے اور اندر سے خبردار کرنے والا ہو جو ہاتھ پکڑ لے اور کہے کہ بھلے آدمی یہ تمھیں کیا ہوگیا ہے، یہ تم کیا کر رہے ہو۔
ہر شخص خود ہی اپنا جائزہ لے کر اپنے بارے میں حتمی راے دے سکتا اور فتویٰ صادر کرسکتا ہے کہ اس آیت کے اندر جو کیفیت بتائی گئی ہے، اس میں اس کیفیت سے کتنی قربت، اور طبیعت اور مزاج کے اندر کس قدر رچائو موجود ہے۔ اگر یہ کیفیت ہے اور اس کے اندر بڑھوتری ہے تو یہ مطلوب ہے، اور یہ عمل زندگی کے آخری سانس تک جاری رہنا ہے۔ دعوت و تربیت کے مختلف مراحل فی نفسہٖ ہمیں پوری زندگی کے لیے رہنمائی فراہم کرتے اور اس کے لیے تیار کرتے ہیں کہ ہم خود اپنے نگران اور مربی، اور ایک مدرس و مقرر کی حیثیت سے مسلسل اپنے اُوپر نگاہ رکھ سکیں، اور اس آیت کا مصداق بننے اور اس کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کے لیے کوشاں ہوں۔
جماعت اسلامی اور اس کے وابستگان معاشرے کے اندر جو کام کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ حضور نبی کریمؐ کو اسی کے لیے مبعوث کیا گیا تھا اور آپؐ نے اپنی زندگی اسی جدوجہد میں لگا کر اس کا حق ادا کر دیا۔ غلبۂ دین کی جدوجہد میں حصہ لینا، اقامت دین کا فریضہ انجام دینا، بڑے پیمانے پر انسانوں کو ظلم کی طویل رات سے نجات دلانا، جھوٹے خدائوں اور طاغوت کی فرماں روائی سے بچانا اور انھیں اپنے رب کی طرف بلانا، ظاہر ہے کہ یہ کام ثبات و استقامت اور اولوالعزمی، اور ہر طرح کی آزمایش کو خندہ پیشانی سے جھیلنے کا مطالبہ و تقاضا کرتا ہے، اور یہ تمام کیفیات اور ساری خصوصیات اسلامی تحریک کے کارکن کے لیے مطلوب ہیں۔ ان صفات کو پیدا کیے بغیر انسان مایوسی کا شکار ہوتا ہے، حالات کی خرابی کی دلدل میں دھنس جاتا ہے اور خود اپنے آپ سے سوال کرکے اور اپنے آپ سے لاجواب ہوکر کسی کونے کھدرے میں اپنے آپ کو پاتا ہے۔ جماعت کے لٹریچر میں یہ بات جابجا موجود ہے کہ آپ اپنی تربیت گاہ خود بلائیں جس کے ناظم بھی آپ ہوں اور کارکن بھی، خود ہی اپنے آپ کو رپورٹ پیش کریں اور خود ہی اس پر تبصرہ کریں، اور جائزہ لیں کہ انبیاؑ کے وارث کی حیثیت سے غلبۂ دین کی جدوجہد کے ایک کارکن کی زندگی جس ڈگر پر گزر رہی ہے، جن ترجیحات کے مطابق بسر ہورہی ہے، پسند و ناپسند کے پیمانے باربار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر جس سمت میں چل پڑے ہیں___ کیا ان کا دعوت و انقلاب سے کوئی تعلق ہے!
غلبۂ دین کی جدوجہد کے حوالے سے یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ نیکی کو اپنانے اور خیر کی طرف بڑھنے، بھلائی کا شعور پیدا کرنے، حسنات کے حرص و لالچ کو اپنی طبیعت کے اندر پانے کا رجحان تو موجود ہوتا ہے، لیکن خیر کا کوئی علم اپنے نتیجے اور انتہا کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ شر کا علم بھی موجود نہ ہو۔ شر کے جو سرچشمے ہیں، برائی کی جو جڑیں ہیں، اس کا جو پورا نظام ہے، فتنے اور اس کے جو اسباب ہیں، فی زمانہ شر کی جو حکمت عملی اور اس کی یلغار کی جو صورتیں ہیں، اس باطل اور کفر کے اندر جس طرح کی کہہ مکرنیاں ہیں، ان کے بارے میں علم حاصل کرنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح کہ خیر کے بارے میں۔
حضرت حذیفہ بن یمانؓ مشہور صحابی ہیں۔ فرماتے ہیں کہ دیگر صحابہ کرامؓ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوتے تھے تو خیر، بھلائی اور نیکی اور جنت کے بارے میں سوال کرتے تھے، لیکن میں جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شر اور فتنوں کے بارے میں پوچھتا تھا، اور ان کے سدباب اور مقابلے کے حوالے سے سوال کرتا تھا۔ صحابہ کرامؓ کے درمیان جو مختلف طبقات ہیں اور بعد میں اُمت نے مختلف حوالوں سے ان سے استفادہ کیا ہے، حضرت حذیفہؓ اس لحاظ سے یکتا اور منفرد اعزاز رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے فتنوں اور مسلمانوں کی ناکامیوں اور ہزیمتوں کے حوالے سے بھی تمام پیشین گوئیوں کو حاصل کیا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو اس حوالے سے جب دقت پیش آتی تھی اور معاملہ فہمی کا مسئلہ درپیش ہوتا تھا تو وہ حضرت حذیفہؓ سے رجوع کرتے تھے۔
اس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ معاشرے کے اندر بدی کے جو رجحانات ہیں، بدی کی اُٹھنے والی تحریکوں کی جو بنیادیں اور کلیات ہیں، ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اور طاغوت کی فرماں روائی کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے جتنے ہاتھ آگے بڑھتے ہیں ان ہاتھوں کو روکنا، ان چہروں کو پہچاننا، ان رویوں سے آگاہ ہونا اور ان کے طور طریقوں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنا بالکل مطلوب ہے۔ ورنہ آپ کی تحریک اُدھوری رہے گی، اور کام کے اندر جس زور وشور کا اظہار ہونا چاہیے، جس توجہ اور انہماک کا عنوان ہونا چاہیے، وہ مفقود ہوگا۔ اگر آپ رزم خیروشر کے پورے منظرنامے سے آگاہ نہیں ہوں گے تو اپنی جدوجہد کو صحیح رُخ نہیں دے سکیں گے۔