سوال: ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ ہر دن جب سورج طلوع ہوتا ہے تو دو فرشتے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو برکت و فضل عطا فرما اور بخل کرنے والوں کو بربادی۔ لیکن حقیقت ِ حال یہ ہے کہ اس دنیوی زندگی میں عملی طور پر بہت سے افراد ایسے ملیں گے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی تنگ دامانی نہیں جاتی، اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں اور دادِ عیش دے رہے ہیں، ایسا کیوں ہے؟
جواب: آپ نے جس حدیث کا مفہوم پیش کیا ہے، وہ ایک صحیح حدیث کا مفہوم ہے اور بخاری و مسلم میں اس طرح موجود ہے:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر دن جب شروع ہوتا ہے تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو برکت عطا فرما، اور دوسرا بددعا کرتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کے حصے میں بربادی رکھ دے۔
اسی مفہوم میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں۔ قرآن میں بھی متعدد آیات اسی مفہوم کو پیش کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ ج (السبا۳۴:۳۹) جو کچھ تم خرچ کر دیتے ہو اس کی جگہ وہی تم کو اور دیتا ہے۔
سوال کرنے والے بھائی کو اس حدیث کو سمجھنے میں جو غلط فہمی ہوئی ہے وہ یہ کہ انھوں نے برکت اور بربادی کو مال ودولت کی حد تک محدود کر دیا، جب کہ برکت کا مفہوم محض مال و دولت میں اضافہ اور بربادی کا مفہوم محض مال و دولت میں خسارہ نہیں ہے بلکہ اس کا مفہوم اس سے وسیع تر ہے۔ برکت کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں۔ برکت کبھی صحت و تندرستی کی شکل میں ملتی ہے تو کبھی نیک اولاد کی شکل میں۔ کبھی مال ودولت کی فراوانی کی صورت میں برکت ہوتی ہے تو کبھی محض معنوی برکت عطا ہوتی ہے، مثلاً ہدایت کی توفیق، سکونِ قلب اور لوگوں میں عزت و مقبولیت وغیرہ۔ ان سب پر مستزاد وہ اجر ہے جو اللہ نے ان کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔ برکت کو محض چند سکّوں میں محصور کرلینا ایک زبردست غلط فہمی ہے۔ یہ سبھی جانتے ہیں کہ ذہنی سکون سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ط ھُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَo (یونس ۱۰:۵۸) اے نبیؐ، کہو کہ ’’یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی، اِس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں‘‘۔
اسی طرح بربادی کا مفہوم محض مال ودولت میں خسارہ نہیں ہے۔ بربادی کبھی بیماری کی صورت میں آسکتی ہے تو کبھی غیرصالح اولاد کی صورت میں۔ کبھی لوگوں میں نفرت کی صورت میں اور کبھی ذہنی خلفشار کی صورت میں۔ کبھی انسان کو ایسی بے چینی اور خلش لاحق ہوجاتی ہے جو ہزار نعمت کے باوجود مستقل اسے اندر ہی اندر گھلائے جاتی ہے۔ ان سب پر مستزاد وہ عذاب ہے جو اللہ نے اس کے لیے آخرت میں تیار کر رکھا ہے۔(علامہ یوسف القرضاوی، فتاویٰ یوسف القرضاوی، ترجمہ: سید زاہد اصغر فلاحی، دارالنوادر، اُردو بازار، لاہور،ص ۵۷-۵۹)
س: حدیث نبویؐ ہے کہ بھلی بات کہو یا خاموش رہو، تو کیا اس حدیث کی روشنی میں زیادہ بولنا حرام ہے؟
ج: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار حدیثوں میں زبان کی تباہ کاریوں سے خبردار کیا ہے۔ ان میں ایک حدیث یہ بھی ہے: ’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ بھلی بات کہے یا خاموش رہے‘‘ (بخاری، مسلم)۔ ایک دوسری حدیث ہے: ’’اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جس نے بھلی بات کہی اور اجرونعمت کا حق دار ہوا یا خاموش رہا تو محفوظ رہا‘‘۔
بلا شبہہ زیادہ بولنا اور بلاوجہ بولتے رہنا انسان کے لیے باعثِ تباہی اور گناہوں کا سبب ہے۔ امام غزالیؒ نے اُن گناہوں کی تعداد ۲۰ بتائی ہے، جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں۔ شیخ عبدالغنی نابلسیؒ نے اس تعداد کو ۷۲ تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے اکثر گناہِ کبیرہ کے قبیل سے ہیں، مثلاً جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی گواہی، جھوٹی قسم، لوگوں کی عزت کے بارے میں کلام کرنا، اور دوسروں کا مذاق اُڑانا وغیرہ ۔
اس لیے بہتر یہی ہے کہ انسان حتی المقدور خاموشی کا راستہ اختیار کرے تاکہ ان گناہوں سے محفوظ رہے۔ خاموش رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے ہونٹوں کو سی لے اور زبان پر تالا ڈال لے، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس بات کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو کسی بھلی اور معروف بات کے لیے کھولے ورنہ اسے بند رکھے۔
جو لوگ زیادہ بولتے ہیں ان سے اکثر خطائیں سرزد ہوجاتی ہیں اور ان خطائوں کے سبب وہ لوگوں میں مذاق اور استہزا کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اسی لیے بندۂ مومن جب بھی کوئی بات کرے اسے اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ خدا کے فرشتے اس کی ہر بات نوٹ کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ o (قٓ۵۰:۱۸) ’’کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضرباش نگراں موجود نہ ہو‘‘۔ (ایضاً، ص ۵۹-۶۰)