جنوری ۲۰۱۱

فہرست مضامین

صلۂ رحمی

ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی | جنوری ۲۰۱۱ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

موجودہ دور میں نفسا نفسی اور مادیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ رشتہ داروں کی خبرگیری کرنا، ضرورت کے وقت کام آنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا شیرازہ  بکھر رہا ہے اور معاشرہ انتشار و افتراق کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں صلۂ رحمی کی ضرورت و اہمیت پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ خاند ان کی شیرازہ بندی ونگہداشت اوراس کے قیام وبقاکے لیے  قرآن وسنت میں بہت سی تعلیمات وہدایات دی گئی ہیں۔ ان میںصلۂ رحمی کواساسی حیثیت حاصل ہے۔سطور ذیل میں قرآن مجیداوراحادیث نبوی سے صلۂ رحمی کی اہمیت، اس کے دینی و دنیوی فوائداورقطع رحمی کے دینی و دینوی نقصانات پرروشنی ڈالی جائے گی۔

لغوی تحقیق

صلۂ رحمی دولفظوں سے مرکب ہے :صلہ اوررحم۔ ’صلہ‘ کے معنی ہیںجوڑنالیکن جب اس کے ساتھ ’رحم‘ کا استعمال ہوتواس کے معنی بدل جاتے ہیں۔

وصل رحمہٗ کے معنی ہیں: نسب کے اعتبار سے جورشتے دارقریب ہوں ان کے ساتھ مہربانی کرنااورنرمی کابرتاؤکرنا۔(المنجد،ص ۲۵۲)

رحم، بطنِ مادر کے اس مقام کوکہتے ہیںجہاں جنین استقرار پاتا ہے اور اس کی نشوونماہوتی ہے۔ مجازاً اسے رشتہ داری کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے، اوریہ اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے ’مشتق‘ ہے (الراغب الاصفھانی: المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۴۷)۔امام اصفہانی نے تائید میں ایک حدیث پیش کی ہے جس کامضمون یہ ہے: حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواشارد فرماتے ہوئے سناہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میںہی اللہ ہوں اورمیں ہی رحمن ہوں۔ میں نے رحم (رشتہ داری) کوپیداکیا۔ میں نے اس کانام اپنے نام سے نکالاہے۔ جواس کوجوڑ ے گامیں اس کوجوڑ وں گا،اورجواس سے قطع تعلق کرے گا میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔(ترمذی، باب ماجاء فی قطعیہ الرحم،۹۰۷)

لغوی اعتبار سے ’رحم‘ کے معنی شفقت ،رافت اوررحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی شفقت ورافت کے ہوتے ہیں، اورجب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی رحمت کے ہوتے ہیں۔ (لسان العرب، ابن منظور، ،ج۱۷،ص۲۳۰)

قرآن میںرشتہ داری کامقام

اسلام نے رشتہ داری کووہ بلندمقام دیاہے جوپوری انسانی تاریخ میںکسی مذہب ،کسی نظریے اورکسی تہذیب نے نہیںدیا۔ اس نے رشتوں کاپاس ولحاظ رکھنے کی وصیت کی ہے ۔قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جواسلام میں رشتہ داری کی اہمیت کوواضح کرتی ہیں۔ رشتہ داری کا احترام کرنے اوران کے حقوق کی ادایگی پر ابھار تی ہیں، اورانھیں پامال کرنے اوران پر ظلم و زیادتی کرنے سے روکتی ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط (النساء ۴:۱) اس اللہ سے ڈرو جس کاواسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ داری اورقرابت کے تعلقات کوبگاڑ نے سے پرہیز کرو۔

قرآن کریم میں قطع رحمی کاتذکر ہ فساد فی الارض کے ساتھ کیاگیاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں کاباہم گہراتعلق ہے۔چندآیات ملاحظہ ہوں:

فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ o فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ط (محمد ۴۷:۲۱-۲۲)

مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اُس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انھی کے لیے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پِھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟

سورۂ رعد میںارشاد باری ہے :

وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِo  (الرعد ۱۳:۲۵) اورجولوگ اللہ کے عہد کوباندھنے کے بعد توڑتے ہیں اوراس چیز کوکاٹتے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کاحکم دیااورزمین میںفساد برپاکرتے ہیں،وہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے، اوران کے لیے براانجام ہے۔

قرآن میں کفارکی فساد انگیزیوں کومختلف پہلوئوں سے اجاگر کیاگیاہے۔ ان میں سے ایک پہلوقطع رحمی بھی ہے۔ارشاد ہے:

الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۷) جواللہ تعالیٰ کے عہد کواس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اورجس چیز کواللہ تعالیٰ نے جوڑ نے کاحکم دیاہے اس کوکاٹتے ہیں اور زمین میںفساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں شیخ محمدعلی الصابونی نے لکھاہے: ’’جس چیز کے جوڑنے کاحکم دیا گیاہے اس سے مراد رشتہ اورقرابت ہے، اورجس چیز کواہل کفر وفساد کے اوصاف میں توڑنے کاذکر کیا گیاہے اس سے مراد رشتہ داری کے تعلقات ختم کرنااورنبی اورمومنین سے الفت ومحبت کوختم کرنااوران سے تعلق توڑنا ہے‘‘(صفوۃ التفاسیر، ج ۱، ص ۳۱)

اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل میں جن چیزوں کاحکم دیاہے ان میں عدل اوراحسان کے بعد تیسری چیزاہل قرابت کے حقوق کی ادایگی ہے۔

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی (النحل ۱۶:۹۰)   اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کاحکم دیتاہے۔

صلۂ رحمی کاحکم احادیث میں

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی سے صلۂ رحمی پر عمل پیراتھے۔ اس کاثبوت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی گواہی ہے کہ غار حرا میں جبرائیل ؑ نے آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلی وحی سنائی اورنبوت کابار آپؐ پر ڈالاگیا۔ اس کی وجہ سے آپؐ  پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ آپؐ  گھر تشریف لائے، اور جوواقعہ پیش آیاتھااس سے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکوآگاہ کیا اور کہاکہ مجھ کواپنی جان کاخوف ہے۔اس وقت آپؐ  کوتسلی دیتے ہوئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جوباتیں کہیں وہ یہ تھیں : ’’ہرگز نہیںہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کوکبھی رنجیدہ نہیںکرے گا ، کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں، بے سہاروںکاسہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔(بخاری، باب بداء الوحی:۳)

صلۂ رحمی ،شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کے ساتھ یہ دین روزِاوّل ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا۔ اس کی تائید ہر قل کے ساتھ ابو سفیان کی گفتگو سے بھی ہوتی ہے۔صلح حدیبیہ(۶ہجری)کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سلاطین کے پاس خطوط ارسال کیے جن میں انھیں اسلام کی دعوت دی۔ جب آپؐ  کانامہ مبارک ہرقل کے پاس پہنچا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جاننے کی غرض سے اپنے درباریوں سے کہاکہ مکہ کے کسی آدمی کو دربار میں پیش کرو۔ انھوں نے ابوسفیانؓ کو(جن کواس وقت تک قبول اسلام کی سعادت نہیں ملی تھی)، دربار میں پیش کیا۔ ہرقل نے ان سے بہت سے سوالات کیے اور ایک سوال یہ بھی کیاکہ تمھارے نبی تمھیں کس چیز کاحکم دیتے ہیں؟ ابو سفیانؓ نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلۂ رحمی ، پاک دامنی کاحکم دیتے ہیں۔(مسلم)

اس حدیث سے بھی بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ صلۂ رحمی اس دین کی ممتاز خصوصیات میں سے ہے جن کے بارے میں دین کے متعلق پہلی مرتبہ پوچھنے والے کوآگاہ کیاجاتاہے۔

سیدنا عمروبن عنبسہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں اسلام کے جملہ اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوا۔ یہ آغازِ نبوت کازمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا:آپ کیاہیں؟ فرمایا: نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا: نبی کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ نے آپؐ  کو کیا چیز دے کربھیجا ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے رشتوں کوجوڑ نے اور بتوں کوتوڑنے کے لیے بھیجا ہے اور اس بات کے لیے بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوایک سمجھا جائے اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کیاجائے ۔(مسلم،باب اسلام، عمروبن عنبسہ۱۹۳۰)

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول ومبادی کی تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کومقدم رکھاہے۔ اس سے دین میں صلۂ رحمی کے مقام ومرتبہ کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔

سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘(بخاری، باب فصل صلۃ الرحم، ۵۹۸۳)۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ، توحید ، نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کاتذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ صلۂ رحمی کاشمار بھی ان اعمال میں ہوتاہے جوانسان کوجنت کامستحق بناتے ہیں۔

قطع رحمی کی مذمت

حضرت جبیر بن مطعمؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: ’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا‘‘(بخاری، باب اثم القاطع، ۵۹۸۳)۔ قطع رحمی کرنے والے کی محرومی اور بدبختی کے لیے اللہ کے رسولؐ کی یہی وعید کافی ہے۔

صلۂ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کاتعلق مضبوط ہوتاہے اور قطع رحمی کرنے والے سے اللہ کاتعلق ٹوٹ جاتاہے جیسا کہ حدیث میںہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحم (رشتہ داری) رحمن سے بندھی ہوئی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جوتجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا‘‘۔(بخاری، ۵۹۸۴)

قطع رحمی کرنے والے پر آخرت سے قبل دنیا ہی میں گرفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق: ’’دوسرے گناہوں کے مقابلے میں بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیںکہ ان کے ارتکاب کرنے والے کواللہ تعالیٰ دنیا ہی میں عذاب دیتاہے آخرت میں ان پر جوسزا ہوگی وہ تو ہوگی ہی‘‘۔(ترمذی،باب فی عظم الوعید علی البغی وقطیعۃ الرحم، ۲۵۱۱)

صلۂ رحمی کے درجات

ایک متقی اور باشعور مسلم اسلامی تعلیمات کے مطابق صلۂ رحمی کرتا ہے۔ جس ذات باری نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔چنانچہ پہلا درجہ والدین کاقرار دیا۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ سلوک کرنے کومستقل طورپر بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے:

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) اور تیرے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاط (العنکبوت ۲۹:۸) اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم کیا ہے۔

سورۂ لقمان میں ارشاد باری ہے:

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo (لقمان ۳۱:۱۴) اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچانے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔

اس آیت میںقابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں تک شکر گزاری اور خدمت کاتعلق ہے تو اس کی ہدایت ماں باپ دونوں کے لیے فرمائی گئی ہے لیکن قربانیاں اور جاں فشانیاں،حمل، ولادت اور رضاعت صرف ماں کی گنوائی گئی ہیں، باپ کی کسی قربانی کاحوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں کاحق باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن،ابوعبداللہ محمدبن احمد الانصاری القرطبی، ج ۱۴،ص،۶۴)

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ  نے فرمایا: تمھاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ  نے جواب دیا: تمھاری ماں۔ اس نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپؐ  نے فرمایا: تمھارا باپ۔ ایک دوسری روایات میں باپ کے بعد قریبی رشتہ دار کابھی تذکرہ ہے‘‘۔ (مسلم، باب بر الوالدین وایھما احق بہ (۲۵۴۸)

صلۂ رحمی میںکوئی تفریق نھیں

دین اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ مسلمان صرف ان رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کریں جوان کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کریں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کران رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ اور صلۂ رحمی کرنے کاحکم دیتا ہے جوان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق نہیں رکھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جواحسان کابدلہ احسان سے ادا کرے ،بلکہ   صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلۂ رحمی کرے‘‘۔(بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافی، ۵۹۹۱)

اسلام نے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر زور دیاہے ، ارشاد باری ہے:

وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا(لقمان ۳۱:۱۵) اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ ایسی چیز کوشریک ٹھیرائے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرنا۔

اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ کافر والدین کے ساتھ صلۂ رحمی کی جائے۔ اگروہ غریب ہوں توانھیں مال دیاجائے، ان کے ساتھ ملائمت کی بات کی جائے، انھیں حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے(الجامع لاحکام القرآن، ج۱۴، ص۶۵)

حدیث میں بھی غیر مسلموں سے صلۂ رحمی کی تلقین ملتی ہے: حضرت اسما بنت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عہد نبویؐ میں میرے پاس آئیں، جب کہ وہ مشرک تھیں۔ میںنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں، اور وہ مجھ سے کچھ امید رکھتی ہیں، توکیا میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کروں؟ آپؐ  نے فرمایا: ’’ہاں، تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو‘‘۔(مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب فصل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین،۲۳۲۵)

صلۂ رحمی کا مطلب بے جا طرف داری نھیں

شریعت میں صلۂ رحمی پربہت زور دیاگیا ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ کسی کی بے جا طرف داری کی جائے، رشتہ داروں کو ہر صورت میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے،اگرچہ وہ حق پرنہ ہوں، اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے اگرچہ وہ ظالم کیوں نہ ہوں۔ دین اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتاہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میںخاص طور پر اس پر تنبیہ کی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۲) ایک دوسرے کی نیکی اور تقویٰ میں مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میںایک دوسرے کی مددنہ کرو۔

دوسری جگہ ارشاد باری ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَاقف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء۴: ۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے   علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد    خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔

سورۂ انعام کی آیت ملاحظہ ہو:

 وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْاط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (الانعام ۶:۱۵۲) جب بات کہو تو انصاف کی کہو، اگرچہ معاملہ اپنے رشتہ دار کا کیوں نہ ہو، اوراللہ سے جوعہد کیا ہے اسے پورا کرو، اس کا اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔

اس طرح اسلام نے صلۂ رحمی کے نام پر ناانصافی و اقربا پروری پر روک لگادی ہے۔   صلۂ رحمی کامطلب یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بغیر کسی کاحق تلف کیے ہوئے ان کے  دُکھ درد میںشریک رہاجائے، اور اپنی طرف سے ہو سکے تو ان کی مدد کی جائے۔

صلۂ رحمی کی صورتیں

صلۂ رحمی کامفہوم بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس کاایک طریقہ یہ ہے کہ رشتہ داری پر مال خرچ کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ (البقرہ ۲:۲۱۵) ’’آپ کہیے فائدہ کی جوچیز تم خرچ کروتوو ہ ماں باپ رشتہ دار وں کے لیے ‘‘۔ دوسری جگہ یہ تصریح فرمائی گئی کہ مال و دولت کی محبت اورذاتی ضرورت اورخواہش کے باوجود صرف خداکی مرضی کے لیے خود تکلیف اٹھاکر اپنے قرابت مندوں کی امداد اورحاجت روائی اصل نیکی ہے۔ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی(البقرہ ۲:۱۷۷)’’جس نے اللہ کی محبت میں اپنا    دل پسند مال رشتہ داروں کودیا‘‘۔

صلۂ رحمی رشتہ دار وں کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی ہوتی ہے جس سے قرابت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، محبت کے تعلقات پایدار ہوتے ہیں، اورباہم رحم وہمدردی اورمودت میں اضافہ ہوتاہے۔ صلۂ رحمی رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی، تعاون کے ذریعے ہوتی ہے۔  گاہے بگاہے تحائف سے نوازنے ،دعوت مدارت کرنے اور ان کی خدمت اورمزاج پرسی کرنے  اور خندہ پیشانی سے ملاقات کرنے سے۔ اس کے علاوہ ان تمام اعمال سے ہوتی ہے جن سے محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اوررشتہ داروں کے درمیان الفت ومحبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میںصلۂ رحمی پر زور دیاہے اوراس کے لیے ایسی شکلیں بتائی ہیں جن میں کوئی زحمت، پریشانی ،اورتکلیف نہیں۔ فرمایا: ’’اپنے رشتوں کوتازہ رکھوخواہ سلام ہی کے ذریعے سے ‘‘۔(الموسوعۃ الفقہہ،بحوالہ مجمع الزوائد:۸/۱۵۲)

صلۂ رحمی کے دینی ودنیوی فوائد

رشتہ داری کاپاس ولحاظ رکھنے سے رب العالمین کے احکام کی بجاآوری کے علاوہ بہت سے روحانی ومادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کاایک فائدہ یہ ہے کہ رشتہ داروں پرخرچ کرنے میںزیادہ اجروثواب ملتاہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مسکین پر صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پرکرنے کی وجہ سے دہرا اجرملتاہے، ایک صدقہ کرنے کا،دوسرے صلۂ رحمی کا‘‘۔ (ترمذی، باب ماجا فی الصدقۃ علی ذالقربۃ ۶۵۸)

اس کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عمر میں درازی اوررزق میں وسعت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کویہ پسند ہوکہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اوراس کی موت میں تاخیر اورعمر میںاضافہ ہوتواسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے ‘‘(مسلم، باب صلۃ الرحم وتحریم قطعیتھا ۶۵۲۳)

اس حدیث کامطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان نیک اعمال سے مال ودولت میںفراخی اورعمر میں زیادتی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی توجیہہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان کے خانگی مسائل اور تنازعات اس کے لیے تکدر اور پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جولوگ اپنے رشتہ دار وں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتے ہیں، ان کے ساتھ نیک برتاؤکرتے ہیں، اس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے اعصابی تناؤ سے آزاد ایک ایساماحول پیداہوجاتاہے جو پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے بڑاسازگار ہوتاہے ۔ اس کے برخلاف اعصابی تناؤ جو زندگی کی مدت کم کردیتاہے قطع رحمی کے نتیجے میں پیداہوتاہے۔

اس کے علاوہ صلۂ رحمی سے انسان بہت سے ان اجتماعی مسائل سے جوآج کے     مغربی معاشرے کی پہچان بن گئے ہیں چھٹکاراپایاجا سکتاہے۔

مغربی معاشروں میں خاندان کے بوڑھے افراد ایک بوجھ ہوتے ہیں چنانچہ انھیں  ’بوڑھوں کے گھر‘ (old age homes)کے حوالے کردیاجاتاہے جہاں وہ خوشیوں بھری زندگی سے محروم کسمپرسی کی حالت زار میں زندگی گزارتے ہیں۔ صلۂ رحمی سے محروم ان افراد کے بیٹے  سال میں ایک بار ’یومِ مادر‘(Mother day) ’یوم والدین‘ (Parents day) مناکر اورچند رسمی تحائف دے کر اُن بے پایاں احسانات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جوان والدین نے ان کے ساتھ کیے تھے ۔صلۂ رحمی سے آشنااسلامی معاشرہ ان کوبوجھ سمجھنے کے بجاے ان کی خدمت کوجنت کے حصول اوران کی رضاکوخداکی رضاکے حصول کاسبب سمجھتاہے۔

اسی طرح مغربی معاشروں میں یتیم بچوں کی پرورش اورتعلیم وتربیت کے لیے ’یتیم خانے‘ قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اسلام میں یتیموں کی دیکھ بھال اورکفالت پربڑازور دیاگیاہے، اوریہ حکم دیاگیاکہ ایسے بچوں کو ان کے قریبی رشتہ دار اپنے خاند ان کے افراد میں شامل کرلیں اوران کے ساتھ اپنے بچوں جیسامعاملہ کریں ۔

بیواؤں کے لیے مغربی معاشرے میں بیوائوں کے گھر بنائے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام میں بیواؤں کے نکاح ثانی اوران کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے عزیز وقریب      رشتہ داروں پر عائدکی ہے۔ان کواس قسم کے خیراتی ادارے کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاتاہے۔

اسلام جس نے صلۂ رحمی پر اس قدر زور دیا ہے، مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان اور مسلم معاشرے مغربی تہذیب اور مادیت سے متاثر ہوکر، اسلامی معاشرے کی اس نمایاں خصوصیت اور اخلاقی قدر سے غفلت برتتے نظر آتے ہیں۔ نفسانفسی بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ انتشار سے دوچار ہے۔ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور انتشار و افتراق کی وجہ سے گھر برباد ہورہے ہیں۔ لوگ افلاس اور بے بسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی جیسے گناہ کے مرتکب ہونے لگے ہیں جس کا مسلم معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مغربی طرزِ معاشرت کی طرح والدین کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور اب ’بوڑھوں کے لیے گھر‘ بھی بنائے جانے لگے ہیں۔ اگر صلۂ رحمی جیسی اساسی معاشرتی قدر کو مسلمانوں نے مضبوطی سے نہ تھاما تو مادیت کی دوڑ کے نتیجے میں خود ہمارا معاشرہ بھی معاشرتی انتشار کا شکار ہوکر مغرب کی طرح معاشرتی مسائل سے دوچار ہوسکتا ہے۔


ریحان اختر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ میں شعبۂ سنی دینیات میں ریسرچ اسکالر ہیں۔