ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ (۱۹۰۸ء-۲۰۰۲ء) اسلام کے بطلِ جلیل، جنھوں نے اپنی ساری زندگی، توانائی اور صلاحیتیں دین و علم کی اشاعت اور خدمت کے لیے وقف کردی۔ تحصیل علم کے بعد قلم و قرطاس سے جو رشتہ و تعلق قائم ہوا وہ تادمِ آخر برقرار رہا۔ انھوں نے بلامبالغہ اس قدر لکھا اور پڑھا کہ اس کا احاطہ آسانی سے ممکن نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی کے آخری برسوں میں دیارِ مغرب خصوصاً فرانس کے غیر مسلموں کے تاریک سینوں کو دینِ اسلام کے نور سے منور کرنے اور انھیں مشرف بہ اسلام کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کی دینی، علمی اور تحقیقی سرگرمیوں اور دل چسپیوں کا میدان وسیع اور متنوع تھا۔ انھوں نے قرآن، علم القرآن، حدیث، فقہ، سیرت رسولؐ اور اسلامی تاریخ و قانون پر گراںقدر علمی سرمایہ چھوڑا ہے۔ اہل علم و دانش میں سے کسی کے نزدیک وہ ایک بلند پایہ سیرت نگار تھے تو کسی کے نزدیک ماہر قانونِ اسلام وفقہ، اور کوئی ڈاکٹر صاحب کے کثرتِ مطالعہ اور قوتِ مشاہدہ کا معترف ہے تو کوئی ان کی تحقیقی و تخلیقی صلاحیت کا قدر دان۔ڈاکٹر صاحب کی ۹۵ سالہ طویل زندگی اور کثیرالجہت سیرت و شخصیت اور کمالات و افادات کا جائزہ و احاطہ ایک نشست میں ممکن نہیں، تاہم ان کے انتقال کے بعد اُردو میں ان کی جو تالیفات و تصنیفات سامنے آئی ہیں، اس مضمون میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام عالم میں قانونِ بین الممالک کی اہمیت کا شدت سے احساس پیدا ہوا۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی ایک منشور ترتیب دیا گیا، جس میں باہمی تعلقات کی استواری اور دوسرے مسائل اور نزاعات کے حل کے لیے قوانین وضع کیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اقوام متحدہ کے اس منشور کو بھی اردو میں منتقل کیا۔ (ڈاکٹر حمید اللہ، خطبات بہاو ل پور، ص ۱۱۵)
علامہ ابنِ القیم کی کتاب احکام اہل الذمہ ڈاکٹر صجی الصالح کی تحقیق سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے اس پر جو پُرمغز مقدمہ لکھا، وہ بھی اُن کے قانون بین الاقوامی کے شعور کا غماز ہے۔ اس میں انھوں نے اسلام کے ملکی اور بین الاقوامی قوانین، غیر مسلم حکومتوں سے تعلقات اور ’اہل ذمہ‘ کے حقوق و معاملات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس موضوع پر قدما میں امام سرخسی کی شرح الکبیر معرکہ آرا کتاب ہے۔ دراصل اس میں صلح و جنگ کے طریقے، غیر مسلم اقوام سے تعلقات اور تجارت وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ اسلام کے بین الاقوامی قانون کو جاننے کے لیے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ امام سرخسی کے زمانے میں، جب کہ صلیبی جنگیں لڑی جارہی تھیں، بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قوانین یقینا زیر بحث رہے ہوں گے۔ اس وقت کے اہم تقاضے کو امام سرخسی نے اس طرح پورا کیا کہ امام محمد کی کتاب کتاب السیر کی شرح لکھوائی۔یہ شرح جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے حیدر آباد دکن اور مصر سے کئی بار شائع ہوچکی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر یونیسکو (UNESCO) نے اسے فرانسیسی زبان میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ یہ کام بھی ڈاکٹر صاحب کے قلم سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔{ FR 644 } تاہم یہ کتاب بہ زبان فرانسیسی ابھی تک شائع نہیں ہوسکی۔
اسی حوالے سے ڈاکٹر حمید اللہ کی دو حصوں پر مشتمل ایک اور اہم تصنیف الوثائق السیاسیۃ فی العھد النبوی و الخلافۃ الراشدہ ہے۔ اس کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوبات اور ان کے دریافت جوابات، فرامین، معاہدے، دعوت اسلامی، عمّال کا تقرر، اراضی کے عطیات، آمان نامے، وصیت نامے وغیرہ شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں عہدِخلافتِ راشدہ کی دستاویزات کو یک جا کیا گیا ہے۔ (خطبات بہاولپور، ص ۱۱۸)
اس موضوع پر ڈاکٹر حمید اللہ کی ایک اور اہم کتاب The Muslim Conduct of State ہے۔ اس میں قانون بین الممالک کی غرض، اساس اور اس کے ماخذ سے بحث کی گئی ہے اور ماقبل اسلام قانون بین الممالک کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ موضوع کے دوسرے گوشوں، مثلاً آزادی، اختیارات، سفارت، جنگ، بغاوت، ڈاکا زنی، جنگی قیدیوں اور دشمنوں کے ساتھ سلوک، فوج میں مسلم خواتین وغیرہ جیسے موضوعات پر ڈاکٹر صاحب نے نہایت عمدہ بحث و تحقیق پیش کی ہے۔ اس کے بارے میں مولانا ابو الجلال ندوی رقم طراز ہیں:’’مسلمانوں کے بین الاقوامی آئین پر یہ پہلی کتاب ہے جو اس زمانے کی ضرورتوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ تنگ اور محدود نسلی اور جغرافیائی قومیت کی پیدا کر دہ عالم گیر کش مکش کی وجہ سے اب دنیا کا رجحان بین الاقوامیت کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ وسعت صرف اسلام ہی میں مل سکتی ہے، اس لیے اسلام کے بین الاقوامی قوانین کو پیش کرنا ایک بڑی خدمت ہے‘‘۔
اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کے اب تک بارہ ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ ترکی زبان میں اس کا ترجمہ بھی ہوا۔ یہ کتاب، پاکستان، بھارت اور ترکی کے علاوہ جرمنی سے بھی شائع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کے ہر ایڈیشن میں اضافے اور نظرثانی کرکے اُسے پہلے سے بہتر بناتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک اور کتاب First Written Constitution in the World ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’میثاق مدینہ‘ پر سیرحاصل بحث کرتے ہوئے اُسے ’پہلا عالمی دستور‘ قرار دیا گیا ہے اور مدلل انداز میں ثابت کیا ہے کہ یہ پہلا کثیر قومی و نسلی اور مذہبی وفاق تھا۔ اس سلسلے کی ایک اور انگریزی کتاب The Prophet Establishing (پاکستان ہجرہ کونسل، اسلام آباد، ۱۹۸۸ء)بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی بعض کتابیں بظاہر سیرت پر ہیں، مثلاً رسولِ اکرمؐ کی سیاسی زندگی، عہدنبویؐ کے میدان جنگ، اور عہدنبویؐ میں نظامِ حکمرانی وغیرہ، مگر ان میں بھی قانون بین الممالک کے مختلف پہلوئوں پر بحث کی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا انداز محققانہ اور مدلل ہے۔ ان کی تمام تحریریں اس کا ثبوت ہیں۔ خاص طور پر قانون بین الممالک کے میدان میں ان کا کام اپنے ہم عصر مفکرین میں نہایت منفرد ہے۔ انھوں نے قدیم نظریۂ سیر میں اضافے کیے ہیں اور اسلامی قانون بین الممالک کے ارتقا اور اس کی تشکیل نو میں ان کا کردار بڑا کلیدی ہے۔ اس کی تصدیق ان کی تحریروں اور خطبات سے ہوتی ہے، جنھیں درج ذیل نکات کی صورت میں سمیٹا جاسکتاہے:
امام ابو حنیفہ کے تین اور شاگردوں نے علم السیر کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ ان میں امام محمد الشیبانیؒ، امام زفرؒ اور فزاریؒ کے نام شامل ہیں۔ اول الذکرنے اس موضوع پر دو کتابیں لکھیں:۱- کتاب السیر الکبیر، ۲-کتاب السیر الصفیر۔
اول الذکر کی شرح پانچویں صدی ہجری کے مشہور حنفی فقیہ امام سرخسیؒ نے کی۔ آج دنیا میں اس موضوع پر محفوظ رہ جانے والی اور شائع ہونے والی قدیم ترین کتاب یہی شرح السیر الکبیر ہے۔ بعض اور ممتاز فقہا اور علما نے اس موضوع پر کام کیا، چنانچہ امام مالکؒ (م:۱۷۹ھ؍۷۹۵ء) نے بھی کتاب السیر کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب اب ناپید ہے۔ اسی طرح ان کے ایک اور معاصر مؤرخ واقدی نے بھی کتاب السیر کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ وہ بھی اب نایاب ہے۔ تاہم، امام شافعیؒ کی کتاب الام میں ’سیر الواقدی‘ کے عنوان سے ایک طویل اقتباس شامل ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ علم السیر پر لکھی جانے والی ان کتابوں اور رسائل کو ابتدائی اور آخری قرار دیتے ہیں۔ یعنی ایک خاص زمانے میں کسی خاص ضرورت سے مستقل کتابیں لکھی جانے لگیں۔ پھر اس کے بعد شاید ضرورت نہ رہی اور یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ لیکن اس علم سے مسلمانوں کی دل چسپی برابر قائم رہی۔ وہ اس طرح کہ فقہ کی جتنی کتابیں ابتدا سے لے کر آج تک لکھی گئی ہیں، ان سب میں کتاب السیر کا باب ضرور ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سترھویں صدی عیسوی میں مرتب کی جانے والی فتاویٰ عالم گیری میں بھی اس پر ایک باب ہے۔
ڈاکٹر حمید اللہ عصرحاضر میں مسلمانوں میں قانون بین الممالک کے پہلے ایسے ماہر ہیں، جنھوں نے مختلف زبانوں سے واقفیت کے سبب، مختلف قدیم، جدید قوموں اور ملکوں کے بین الممالک اصول و تصورات اور قوانین کا مطالعہ کیا اور کتابیں و مقالات قلم بند کیے۔ وہ مغرب کے قدیم و جدید قوانین بین الممالک سے اسلام کے قوانین بین الممالک کا بعض مقامات پر موازنہ و مقابلہ کرکے واضح کیا کہ اسلامی قوانین ہر لحاظ سے بہتر ہیں۔ وہ قانون بین الممالک کی تشریح میں مغرب اور امریکا کے ساتھ تاریخ اسلام اور فقہ اسلامی سے بھی استدلال کرتے ہیں، کیوں کہ وہ خوب واقف ہیں کہ مغربی اہل قلم عموماً اسلامی تاریخ کے محاسن کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ چوںکہ مستشرقین کے طریق عمل و تحقیق سے خوب واقف تھے، اس لیے وہ دلائل و براہین کے ساتھ ابتدائی مآخذ کے حوالے دے کر یورپ کے پیمانۂ تحقیق ہی کے مطابق ان کو جوابات دیتے ہیں۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے بقول:’’ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو بلاخوف و خطر دور جدید میں اسلام کے بین الاقوامی قانون کا مجدّد اور مؤسسِ نوقرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر امام محمد بن حسن شیبانی قدیم علم السیر کے مؤسسِ اوّل اور مدون ہیں تو ڈاکٹر حمید اللہ یقینا جدید بین الاقوامی اسلامی قانون کے مؤسس و مدوّن ہیں اور ۲۰ویں صدی کے شیبانی کہلائے جانے کے بجا طور پر مستحق ہیں‘‘۔
وہ مذاہب جو عرفِ عام میں صلح و آشتی اور امن و سلامتی، نیز انسانی ہمدرردی اور محبت کے ’علَم بردار‘ قرار دیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک عیسائیت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ باتیں بڑی حد تک صحیح بھی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن عیسائیت کے سلسلے میں ہمیں یہ بات قطعاًنہیں بھولنی چاہیے کہ یہ ایک نا تمام مذہب ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی شریعت کی تجدید ہے۔ گویا اصل شریعت شریعتِ موسوی ہے، جو بنی اسرائیل کے لیے تھی اور حضرت موسٰی کی بعثت خالصتاً بنی اسرائیل ہی کی طرف کی گئی تھی۔ مولا نا مودودیؒ لکھتے ہیں:
اس حقیقت کو خود مسیحی علمابھی تسلیم کرنے لگے ہیں۔ [کچھ عرصہ پہلے] ایک مشہور مسیحی عالم ڈین انجے نے، جن کو کنیسہ سینٹ پال کا سب سے بڑا منصب حاصل تھا، گرٹن کالج کیمبرج میں تقریر کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ: مسیحؑ نے کبھی موسوی تعلیم سے انحراف نہیں کیا، نہ کوئی نئی تعلیم دی ، نہ موسوی مذہب کے مقابل کوئی نیا مذہب قائم کیا۔ روحانی معاملات میں وہ آزادی تو ضرور چاہتے تھے، لیکن اپنے ملک اور وقت کی باتوں کو انھوں نے قبول کیا۔ اس لحاظ سے موسوی شریعت سے الگ ہونا تو ضروری تھا، مگر مسیح نے عیسائیوں کے لیے خود کوئی شریعت تجویز نہیں کی۔(سیّد ابو الاعلیٰ مودودی، الجہاد فی الاسلام، ص ۴۳۵، ۴۳۶، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ۱۹۷۸ء)
یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ [متی ، ۵:۱۷]
دراصل بعثت مسیح ؑکا مقصدان کمیوں، خامیوں اور نقائص کو دُور کرنا تھا، جو ایک طویل مدت سے افراد قوم میں در آئی تھیں اور جنھوں نے انھیں اندر ہی اندر کھو کھلا بنا کر رکھ دیا تھا۔ آپؑ کا مقصد ان میں اخلاقی فضیلت کی روح پھونکنا، اور انھیں راست بازی، دیانت داری، حلم و بر درباری، عفوودرگزر، زہد و تقویٰ، قناعت و سیر چشمی اور فروتنی و ایثار کی تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ اس کے علاوہ وہ حد سے زیادہ طمّاع، دنیا پرست اور بندۂ غرض بن کر رہ گئے تھے۔ اس لیے حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنا پورا وقت ان کی انھی اخلاقی خرابیوں کو مٹانے میں صرف کیا۔ پس یہ بات سچ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات میں اخلاقی فضائل اور نفسانی خواہشات کو دبانے پر زیادہ زور ہے۔
اس مسلّمہ حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی نبوت زیادہ مدت کے لیے نہ تھی۔ کل ڈھائی یا تین سال کی مدت انھیں میسر آئی اور اس مختصر سی مدت میں ان کے لیے جو کچھ ممکن تھا، انھوں نے کیا۔ ان کے بعض اقوال سے اس بات کی بھی شہادت ملتی ہے کہ وہ جنگ و قتال کی اہمیت سے غافل نہ تھے اور حق پر باطل کی فتح کو وہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اس مضمون میں حضرت مسیحؑ کی تعلیمات کے اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اگرچہ عیسائیت میں امن و عدل سے متعلق کافی مواد ہے، حالاں کہ اس قسم کی تعلیمات سے مثالی معاشرے کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
انجیل کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسیحیت جنگ کی مخالف تو ضرور ہے، لیکن بہت ساری آیتوں میں دشمنوں سے جنگ و قتال کی تلقین بھی ملتی ہے۔ چنانچہ مسیحیت میں جنگ و جہاد کے تصور کو سرے سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ عیسائیت کے نزدیک سب سے بڑا حکم، محبت کا اصول ہے، جیسا کہ انجیل مقدس میں ہے :
پیروانِ مسیح کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ظلم و عدوان اور سرکشی و فساد کے خلاف آواز بلند نہ کریں، بلکہ اس کے سامنے سرا طاعت جھکا دیں اور خود پر ہونے والے مظالم کو برداشت کریں۔ اس کی واضح مثال ’پہاڑی کا وعظ‘ ہے، جس میں حضرت مسیحؑ نے اپنے حواریوں کو اخلاق و کردار کی درستی، اور ظلم و ستم سے دور رہنے بلکہ انتقام اور بدلہ کے جذبات سے بھی دور رہنے کی تلقین کی ہے:
تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت، لیکن میں کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرو، بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال اس کی طرف پھیر دے، اور کوئی تجھ پر نالش کرکے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لینے دے۔ [متی ، ۵: ۴۱]
ان آیتوں کی روشنی میں یہ بات واضح انداز میں کہی جا رہی ہے کہ تم ظلم و جور کے خلاف کوئی بھی آواز بلند نہ کرو بلکہ ان تمام چیزوں کو سہتے رہو، اسی میںتمھاری بھلائی مقدر ہے۔اسی طرح دوسری جگہ دشمنوں سے حسن سلوک اور نیک برتائو کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھو اور اپنے دشمن سے عداوت، لیکن اپنے ستانے والوں کے لیے دعا کرو۔[متی ،۵: ۴۴]
میں تم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمن سے محبت رکھو، جو تم سے عداوت رکھے ان کا بھلا کرو، جو تم پر لعنت کریں ان کے لیے برکت چاہو، جو تمھاری تحقیر کریں ان کے لیے دعا مانگو … چاہتے ہو کہ لوگ تمھارے ساتھ اچھا برتائو کریں تو تم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی کرو۔ اگر تم محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمھارا کیا احسان ہے، کیونکہ گناہ گار بھی اپنے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔ [لوقا ، ۶: ۲۷-۳۲]
یہ تعلیم مسیحؑ کا اصل الاصول ہے اور ان الفاظ ہدایت کا منشا بھی واضح ہے کہ ایک سچا عیسائی یا مسیحی اگر کامل اور خدا کا قریبی بننا چاہتا ہے تو وہ کسی بھی حال میں ظلم و تعدی اور جبرو تشدد کا مقابلہ نہ کرے، بلکہ فتنہ پروروں اور فسادیوں کے سامنے اپنے حقوق سے دست بردار ہو جائے۔
حضرت عیسیٰؑ کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ قوم کو اخلاقی پستی اور تنزل و انحطاط سے نکالا جائے اور ان کے اندر اچھے اخلاق کی روح پھونکی جائے، کیونکہ اس عمل کے بغیر قومیں کبھی کائنات میں اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکتیں۔ اسی لیے حضرت مسیحؑ نے اپنی تعلیمات میں قومی سیرت کی تعمیر و ترقی کی طرف توجہ کی اور اپنے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کہ کہیں بھی حکومت و اقتدار سے تصادم کی صورت پیش نہ آئے۔ اگر وہ ابتداء ہی میں جنگ و جدال کی صورت حال کو پیدا کر دیتے تو وہ اپنے اس اصلاحی مشن میں نا کام نظر آتے۔ اسی لیے انھوں نے حکومت کے ساتھ تصادم سے ہمیشہ خود کو دور رکھا۔ ایک موقعے پر حضرت مسیحؑ سے قیصر کو ٹیکس دینے کے سلسلے میں یہودیوں نے مسئلہ دریافت کیا تو حضرت مسیحؑ نے کہا :’’جو قیصر کا ہے قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے خدا کو دو‘‘۔ [مرقس ، ۱۰: ۲۵]
ابتدا میں ان سب احکام کا مدعا یہ تھا کہ حکومت و طاقت سے نبرد آزمائی نہ ہو اور قوم میں ثابت قدم رہنے کی قوت پیدا ہو جائے۔ بعد میں جب ان میں دھیرے دھیرے ہمت و حوصلہ آنے لگا تو انھوں نے اپنی قوم کو استقامت، تحمل اور بے خوفی کی تعلیم دینا شروع کر دی۔ ان کے اندر سے خوف وہر اس کو نکالنے کی بھرپور کوشش کی۔ چنانچہ انھوں نے کہا :
لیکن خبر دار رہو، وہ تم کو عدالتوں کے حوالے کریں گے اور تم عبادت خانوں میں پیٹے جائو گے اور بادشاہوں کے سامنے میری خاطر حاضر کیے جائو گے تاکہ ان کے لیے گواہ ہو … مگر جو آخر تک برداشت کرے گا نجات پائے گا۔[مرقس ، ۱۳: ۹]
جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے، وہ اسے کھوئے گا۔ اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا وہی اسے بچائے گا۔ [لوقا ، ۹: ۲۴]
انھوں نے لوگوں کی طاقت و قوت پر بھروسا کرنے کے بجاے خدا کی ذات پر بھروسے کی تعلیم دی کہ تم لوگوں کے الطاف و عنایات کے خواہاں نہ رہو بلکہ اپنے خدا سے مانگو۔ انھوں نے کہا:
جب تم برے ہو کر اپنی اولاد کو اچھی چیزیں دیتے ہو تو تمھارا باپ اپنے مانگنے والوں کو کیوں نہ دے گا۔ [لوقا ، ۱۱: ۱۳]
حضرت عیسیٰؑ لوگوں کے دلوں سے قتل کیے جانے کا خوف بالکل نکال دینا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ لوگ جسموں کو تو قتل کر سکتے ہیں، روحوں کو اسیر نہیں بنا سکتے کیوںکہ یہ ان کے اختیار سے باہر ہے۔ فرماتے ہیں :
مگر میں تم دوستوں سے کہتا ہوں ان سے نہ ڈرو جو بدن کو قتل کرتے ہیں۔ اس کے بعد اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اُس سے ڈرو جس کو اختیار ہے کہ قتل کرنے کے بعد جہنم میں ڈالے۔ [لوقا ،۱۲: ۴-۵]
حضرت مسیحؑ یہ سب نصیحت آمیز باتیں اپنی قوم کو اس وجہ سے بتا رہے تھے کہ نفس، اَنا، ریا اور اقتدار کے بتوں سے نبرد آزما ہو کر روحانیت کی اعلیٰ منزل حاصل ہو جائے اور خدائی بادشاہت کا حصول ممکن ہو سکے، نیز ان کے اندر حریت و آزادی کے حصول کا جذبہ پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں حضرت عیسٰیؑ نے اپنی تعلیمات کو صرف ہمدردی، ترحم اور اعلیٰ اخلاقیات پر مرکوز رکھا۔ لیکن جب ان کے اندر یہ جذبات نشو و نما پا گئے تو تدریجی طور پر آخری زمانے میں جہاد و قتال اور جنگ وغیرہ کی بھی تعلیمات دیں۔ اس میں صداقت ہے کہ ابتدا میں تو بہت کم لوگ مذہب عیسائیت کے حلقۂ بگوش ہو سکے، کیوںکہ حضرت عیسیٰؑ نے اپنے حواریوں کو کسی بھی طرح کے رد عمل سے منع کردیا تھا، لیکن بعد میں آپ ؑ نے جنگ و قتال اور دشمنوں سے بدلہ لینے کی بھی تعلیم دی، تو قابلِ ذکر حد تک حلقۂ احباب بڑھا۔ چند اقتباسات بغرض ملاحظہ پیش کیے جاتے ہیں :
میرے دشمنوں کو میرے سامنے لاکر قتل کر دو، جنھوں نے نہیں چاہا کہ میں ان پر بادشاہی کروں۔[لوقا، ۱۹: ۲۷]
اس نے ان سے کہا کہ مگر اب جس کے پاس بٹوا ہو وہ اسے لے اور اسی طرح جھولی بھی اور جس کے پاس نہ ہو وہ اپنی پوشاک بیچ کر تلوار خریدے … انھوں نے کہا: اے خداوند دیکھ لو تلواریں ہیں، اس نے کہا بہت ہیں۔[لوقا، ۲۲: ۳۷-۳۸]
بلکہ خود تیری جان بھی چھد جائے تاکہ بہت لوگوں کے دلوں کے خیال کھل جائیں۔ [لوقا، ۲: ۳۶]
جب تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہیں سنو تو گھبرا نہ جانا۔ ان کا واقع ہونا ضرور ہے لیکن اس وقت تک ختم نہ ہوگا۔ کیوںکہ قوم پر قوم ،سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی، جگہ جگہ بھونچال آئے گا اور کال پڑیں گے۔[متی،۲۴: ۶-۸]
انجیل لوقا میں ہے کہ حضرت مسیحؑ کی بعثت کا مقصد لوگوں میں جدائی پیدا کرانا ہے۔ مقصد بعثت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیحؑ ارشاد فرماتے ہیں :
کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں زمین میں صلح کرانے آیا ہوں؟ میں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں، بلکہ جدائی کرانے آیاہوں۔[لوقا، ۱۲: ۵۱]
کیوںکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا، اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا بڑا کیا جائے گا۔ [لوقا،۱۴: ۱۹]
کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اسے کھوئے گا، اور جو کوئی میری اور انجیل کی خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اسے بچائے گا۔[مرقس، ۸: ۳۵]
اور میرے نام کے سبب سے سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے مگر جو اخیر تک برداشت کرے گا نجات پائے گا۔[متی، ۱۰: ۲۳]
اور بھائی بھائی کو اور بیٹا باپ کو قتل کے لیے حوالے کرےگا اور بیٹے ماں باپ کے خلاف کھڑے ہو کر انھیں مروا ڈالیں گے۔ [مرقس، ۱۳: ۱۲]
عیسیٰ مسیح ؑ اپنے متبعین کو دشمنان حق پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ تم پوری جدوجہد کے ساتھ دشمنوں سے مقابلہ کرو اور اس مقابلے میں تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ انجیل مقدس میں حضرت عیسیٰؑ کا یہ فرمان موجود ہے :
دیکھو میں نے اختیار دیا ہے کہ سانپوں اور بچھوئوں اور دشمن کی ساری قدرت پر غالب آئو، اور تم کو ہر گز کسی چیز سے ضرر نہ پہنچے گا۔[لوقا، ۱۰: ۲۲]
میں زمین میں آگ بھڑکانے آیا ہوں اور آگ لگ چکی ہوتی تو میں کیا خوش ہوتا۔[لوقا، ۱۲: ۴۹]
اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی اور بچوں اور بھائیوں اور بہنوں بلکہ جان سے بھی دشمنی نہ کرے، تو میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔[لوقا، ۱۴: ۲۶]
حضرت موسٰی کی تعلیم صدیوں بنی اسرائیل کے کانوں سے ٹکراتی رہی لیکن ان کی تعلیم ان کی زندگیوں پر قطعاً اثر انداز نہ ہو سکی۔ وہ حد سے زیادہ دنیا طلبی کی طرف راغب تھے۔ خدا ترسی سے وہ بہت دور ہو چکے تھے۔ انھی برائیوں کو دور کرنے کے لیے حضرت مسیحؑ کو اللہ رب العزت نے مبعوث فرمایا اور حضرت عیسیٰؑ نے موسویؑ شریعت میں انھی چیزوں کی تجدید فرمائی۔ پس دین مسیحؑ کوئی علیحدہ دین نہ تھا، بلکہ یہ شریعت موسوی کی تکمیل تھا۔ خود انجیل میں حضرت مسیحؑ کے یہ الفاظ مذکور ہیں :
یہ نہ سمجھو کہ میں توراۃ یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیوں کہ میں تم سب سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں توراۃ کا ایک نقطہ یا ایک شوشہ بھی پورا ہوئے بغیر نہ ٹلے گا۔[متی، ۵: ۱۷-۱۸]
ایک دوسری جگہ اپنے متبعین کو حکم دیتے ہیں :
[فقیہ اور فریسی موسٰی کی گدی پر بیٹھے ہیں۔ پس جو کچھ وہ تمھیں بتائیں سب عمل میں لائو اور مانتے رہو، لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں کرتے نہیں ہیں۔ وہ ایسے بھاری بوجھ جنھیں اٹھانا بھی مشکل ہے دوسروں کے کندھوں پر رکھ دیتے ہیں، مگر انگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے۔[متی، ۳۳: ۱-۴]
شریعت موسٰی کی معرفت دی گئی اور فضیلت و صداقت یسوع مسیحؑ کی معرفت پہنچی۔ [یوحنا، ۱: ۱۷]
ان تمام اقوال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شریعت موسوی کے احکام و ہدایت کو حضرت مسیحؑ نے نہ صرف باقی رکھا، بلکہ ان پر صداقت و فضیلت کی مہر بھی لگا دی۔
’عہد نامہ قدیم‘ میں بھی بہت ساری آیتیں ہیں جو واضح انداز میں یہ بتاتی ہیں کہ جنگ و جدال کا ہونا طے ہے۔ اس جنگ کے ذریعے سے لوگوں کو ہلاک و برباد کرنے کی تعلیم ملتی ہے۔ ان آیتوں میں یہ بھی تعلیم ملتی ہے کہ جس ملک و قوم پر تم حملہ آور ہو اس کو بالکل ہی نیست و نابود کر دو، سرسبز و شاداب کھیتوں اور باغوں کو جلا کر خاک میں تبدیل کر دینے کی تلقین ملتی ہے۔ یہ آیتیں جنگ کا اتنا بھیانک تصور دیتی ہیں کہ آسمانی کتابوں میں کہیں اور نہیں ملتا۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والی یہ آیات ’عہد نامہ قدیم‘ کی کتاب استثناء میں آئی ہیں :
جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو پہنچے تو اسے پہلے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گذار بن کر تیری خدمت کریں۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تُو اس کا محاصرہ کرنا، اور جب خدا وند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا، لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپایوں اور شہر کے سب مال لوٹ کر اپنے لیے رکھ لینا، اور تُو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خدا وند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو، کھانا اور سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں جن کو خدا وند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا۔[کتاب استشناء،۲۰: ۱۶-۱۰]
کسی بھی چیز کا پاس و لحاظ نہ رکھا جائے چاہے وہ انسان ہوں یا حیوان، لوگوں کے مسکن ہوں یا عبادت گاہیں، سب کو تباہ و برباد کر دینے کی تعلیم ’عہد نامہ قدیم‘ میں ملتی ہے جیسا کہ کتاب خروج کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے :
اور میں ان کو ہلاک کر ڈالوں گا، تو ان کے معبودوں کو سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عبادت کرنا، نہ ان کے لیے کام کرنا بلکہ تو ان کو بالکل اُلٹ دینا، ان کے ستونوں کو ٹکڑے کرڈالنا۔[کتاب خروج، ۲۳: ۲-۲۳]
قوموں کو تباہ و برباد کرنے میں اور ان کو تہس نہس کرنے میں کمی و کوتاہی پر تنقید کی جاتی ہے اور کسی بھی قوم سے کوئی ایسا عہد و پیمان کرنے کو شدت سے ممنوع قرار دیا جاتا ہے، جو اس کی تباہی و بربادی میں مانع و مزاحم بنے، جیسا کہ کتاب خروج کی دوسری آیت میں موجود ہے :
سو، خبر دار رہنا کہ جس ملک کو تو جاتا ہے، اس کے باشندوں سے کوئی عہد نہ باندھنا، ایسانہ ہو کہ وہ تیرا پھندا ٹھیرے، بلکہ تو ان کی قربان گاہوں کو ڈھا دینا اور ان کے ستونوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔ [کتاب خروج، ۳۴: ۳۱-۱۲]
عہد نامہ قدیم و جدید کے ان اقتباسات پر غور کیا جائے تو دشمنانِ اسلام کے ان اعتراضات پر سخت حیرت ہوتی ہے، جو وہ اسلام کے مقدس تصورِ جہاد پر یہ اعتراض اور کذب بیانی کرتے چلے آرہے ہیں کہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ دنیا میں بزورِ تلوار ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی لاچار، مجبور اور مقہور اگر اپنی مدافعت میں جان پر کھیل کر ظالموں کے خلاف جنگ و جدال کی راہ اختیار کرے، اور اپنے حقوق کی بازیافت کے لیے جد وجہد کرے، اور مذہبی آزادی کے لیے جابروں اور ظالموں سے پنجہ آزمائی کرے اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے قربانی پیش کرے، تو کیا یہ قتل و غارت گری کو بڑھاوا دینا ہے؟ کیا یہ اسلام یا مسلمانوں سے منسوب دہشت گردی اور وحشت ہے؟ نہیں، بلکہ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے یہ ایک نیک عمل ہے۔ یہ تو ظلم و تشدد، قتل و غارت گری، فتنہ و فساد اور بدامنی و ناانصافی کے خلاف ایک منظّم کوشش ہے۔
’عہد نامہ قدیم‘ کی تعلیمات سے قطع نظر ’عہد نامہ جدید‘ میں جنگ اور محرکات جنگ کا خواہ ناقص تصور ہو یا شر پسندوں اور ظالموں سے بلا قید و شرط اغماض اور چشم پوشی ہو، یہ سب تعلیمات اپنے متبعین کوفی الحقیقت سیکنت و طمانیت کی نعمت سے محروم رکھتی ہیں اور کم از کم یہ بات تو حتمی اور قطعی ہے کہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں یہ تعلیمات زبردست مانع و مزاحم ہیں، جس میں عدل و انصاف اور امن و آشتی کا ماحول ہو، مظلوموں کی دادرسی کا روح پرور منظر ہو اور شرپسندوں اور فتنہ پروروں کے خلاف محاذ آرائی ہو۔
تاریخ عالم گواہ ہے کہ اس کرۂ ارضی پر لڑی جانے والی اکثر وبیش تر جنگوں میں نہ کسی ضابطے کا خیال رکھا جاتا ہے اورنہ کسی قانون واصول کی پاسداری کا خیال ذہن انسانی میں آتا ہے، بلکہ ان جنگوں کے ذریعے کائنات انسانی کو فتنہ وفساد کی آماج گاہ بنادیاجاتا ہے اور مدمقابل اقوام اور ملکوں کے انسانوں کو بے دریغ تہہ تیغ کردیا جاتا ہے۔ انسانوں کے بنائے ہوئے قانون میں مخصوص رنگ و نسل اور جنس وعلاقہ کے رجحانات کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان کے یہاں جنگ کے اغراض ومقاصد کی وجہ جواز کیاہے؟ اس کا مقصد کیاہے؟ کن حالات میں جنگ کی اجازت دی جاسکتی ہے اور کن مواقع پر جنگ کی اجازت نہیں ہے؟ کیا کمزور انسانوں پر اپناتسلط قائم کرنے کے لیے جنگ کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟ کیا یہ قرین انصاف ہے کہ جب جی چاہا اپنے جابرانہ نظام کے تسلط کے لیے کسی بھی ملک کی سرحد میں جنگی جہاز اتاردیے؟ ان تمام سوالوں کا تشفی بخش جواب انسانی قوانینِ جنگ میں نہیں مل سکتا۔ اس لیے انسانوں کا خود ساختہ قانون امن و آشتی کا ضامن نہیں بن سکتا ۔
اس کے بالمقابل دین اسلام امن وسلامتی کا دین ہے۔اسلام نے جنگ کے اصول وضابطے مقررکیے ہیں۔ ان کا پاس ولحاظ رکھنا ہراہل ایمان پر فرض ہے۔ ان کے اصول وقواعد کی پاس داری سے کسی کو مفرنہیں ہے، کیونکہ اعلیٰ وارفع مقصد کے حصول کے لیے جب جنگ ناگزیر ضرورت بن جائے تو تلوار اٹھانے والوں کو کھلی چھوٹ نہیں مل جاتی ہے، بلکہ حدودوقیود میں رہ کر فتنہ وفساد، سفاکیت ودرندگی اور ظلم وجور کے سدباب کے لیے اپنی طاقت وقوت کا استعمال بجا قرار دیا جاتا ہے ۔
یہ اعزازتو صرف اسلام کو حاصل ہے کہ اس نے جنگ وجہاد کے واضح مقاصد متعین کیے اور اس کے آداب واصول مرتب کیے اور بلاجواز قتل وخون ریزی کو سنگین جرم قراردیا۔ کسی مسلمان فرد یااسلامی حکومت کو ان بنیادی اصول وضوابط میں ترمیم کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسلامی قوانین ہمہ گیر اور دائمی نوعیت کے ہوتے ہیں۔نام ورمصری عالم پروفیسر محمد قطب رقم طراز ہیں :’’اسلام کی یہ جنگیںکسی فوجی قائد کی خود غرضی اور ہوسِ ملک گیری کی پیداوار نہیں تھیں، اور نہ ان کے پیچھے دوسروں کو غلام بنانے کا جذبہ کارفرماتھا، بلکہ یہ جنگیں محض خدا کے لیے لڑی گئیں اور ان کا اصل مقصد رضاے الٰہی کے حصول کا جذبہ تھا، مگر بات صرف جذبے پر ہی ختم نہیں ہوجاتی ، بلکہ اس نے ان جنگوں کے لیے باقاعدہ اصول وقوانین بھی مقررکیے‘‘۔(اسلام اور جدید ذہن کے شبہات ، ص۹۰)
اسلامی قوانین جنگ سے متعلق ذیل میں وہی امور بیان کیے جارہے ہیں جن پر قوانین جنگ کی بنیاد قائم ہے۔ اختصار کے ساتھ ان امور کو زیر بحث لایا جاتا ہے:
اسلامی قانون میں جنگ کے تمام اعمال کی ذمہ داری اور امرونہی کے تمام اختیارات کا حامل امیرکو بنایا گیاہے۔ جنگ کی معمولی کارروائی بھی امیر کی اجازت کے بغیر نہیں کی جاسکتی ہے۔ اسلام نے اطاعتِ امیر کو خود خدااور رسولؐ کی اطاعت کے برابر قراردیا ہے اور اس کی نافرمانی کووہی درجہ دیا جو رسولِؐ خدا کی نافرمانی کا ہے۔ اطاعت امیر کو خیر و فلاح کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا گیا:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو،اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسولؐ کی، اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب ِ امر ہوں، پھر اگر تمھارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔(النسائ۴:۵۹)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: لڑائی دوقسم کی ہے: جس شخص نے خالص اللہ کی رضاکے لیے لڑائی کی اور اس میںامام کی اطاعت کی، اپنا بہترین مال خرچ کیا اورفساد سے اجتناب کیا تو اس کا سونا جاگنا سب اجر کا ذریعہ ہے۔ اور جس نے دنیا کے دکھاوے اور شہرت وناموری کے لیے جنگ کی اور اس میں امام کی نافرمانی کی اورزمین میں فساد پھیلایا تووہ برابر بھی چھوٹے گا (یعنی الٹاعذاب میں مبتلا ہوگا)۔(سنن ابی داؤد ، حدیث ۲۵۱۵)
ایک دوسرے مقام پر حدیث میں آتا ہے: جس نے میری اطاعت کی اس نے خداکی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خداکی نافرمانی کی، اور جس نے امام کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امام کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔(سنن ابن ماجہ ، حدیث ۲۸۵۹)
قرآن وسنت کی درخشاں تعلیمات کی روشنی میں یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اسلامی تعلیمات میں اطاعت امیر ایک اہم حکم ہے جو ہرفرد مجاہد پر لازم ہے ،ورنہ اس کے دور رس منفی اثرات ونتائج مترتب ہوںگے۔
ایفاے عہدکے حوالے سے کتاب اللہ میں متعد د فرامین اورہدایات موجود ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی سخت تاکید کی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم اللہ کا عہد پوراکردیا کرو، جب تم عہد کرو اور قسموں کو پختہ کرلینے کے بعد انھیں مت توڑا کرو، جب تم اللہ کو اپنے آپ پر ضامن بناچکے ہو۔ بے شک اللہ خوب جانتاہے جو تم کرتے ہو‘‘۔ (النحل ۱۶:۹۱)
وفاشعاری اور تقویٰ کی سند وہ حضرات حاصل کرتے ہیں جولوگوں سے کیے ہوئے عہد و پیمان کو نہیں توڑتے، بلکہ پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ رب العزت کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے ایفاے عہد کرتے ہیں اور جس قول وقرار کو برقرار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، خشیت الٰہی کے ساتھ اس کی پاس داری ولحاظ بھی کرتے ہیں۔
عہدوپیمان اگر کرلیاہے تو اس کو نبھاناضروری ہے ورنہ نقض عہد کی بناپر مؤاخذہ ہوگا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور وعدہ پورا کیاکرو، یقینا وعدہ کے لیے ضروربازپرس ہوگی‘‘۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۳۴)
مشرکین مکہ نے ابورافع کو اپنا قاصد بناکر بارگاہ رسالت میں بھیجا۔ بارگاہِ نبوی کا اثرابورافع کی ذات پر اتنا ہوا کہ مشرف بہ اسلام ہوگئے اور حضورؐ سے عرض کیا کہ میں کافروں کے پاس واپس نہیں جائوںگا۔ آپؐ نے فرمایا تم قاصد ہواور قاصد کو روک لینا عہد وپیمان کی خلاف ورزی ہے۔ تم ابھی جائو ، پھر واپس آجانا۔(سنن ابی داؤد ، حدیث :۲۷۵۸)
اسی طرح صلح حدیبیہ کے موقعے پر حضرت ابو جندلؓ پائوں میں زنجیریں پہنے ہوئے آئے اور زخموں سے چور بدن کو حضوؐر کے سامنے پیش کیااورعرض کیا کہ مشرکین مکہ مجھ پر مصائب وآلام کے پہاڑ توڑرہے ہیں۔ اس پر حضوؐر نے فرمایا کہ ہاں، لیکن مشرکین مکہ سے معاہدہ ہوچکاہے کہ کوئی مسلمان اگرمکے سے بھاگ کرآئے گا تو ہم اس کو قریش کے پاس بھیج دیںگے۔ صحابہ کرامؓ کی جماعت حضوؐر سے سفارش کررہی تھی کہ ان کو واپس نہ بھیجا جائے تاکہ ابو جندل ؓ مزیدجورو ستم کا نشانہ نہ بنیں لیکن آپؐ نے فرمایا کہ معاہدہ لکھا جاچکاہے۔ اس کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔ لہٰذا ابوجندلؓ کو آپؐ نے پناہ دینے سے انکار کردیا اور حسب معاہدہ وہ قریش مکہ کے حوالے کردیے گئے۔
ان آیات ،احادیث اور واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپؐ نے جومعاہدہ کیا اس کو ہر حال میں پوراکیا ۔ حالانکہ آپؐ کویہ خوب معلوم تھا کہ مکہ کے مسلمان ناگفتہ بہ مصائب ومشکلات سے دوچار ہیں لیکن آپؐنے ایفاے عہد کاعظیم الشان نمونہ پیش کیا، بلکہ آپؐ نے تو یہاں تک فرمایا کہ کسی معاہدسے عہد وپیمان توڑنے والا جنت کی خوشبو سے محروم ہوگا۔ حدیث میں آتاہے: حضوؐر نے فرمایا کہ ’’جوشخص کسی معاہد کو بغیر کسی وجہ سے قتل کردے تو اللہ اس پر جنت حرام کردیتاہے‘‘۔(سنن ابی داؤد ، حدیث :۲۷۶۰)
ایک اور حدیث میں حضوؐر کا ارشاد ہے : جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو اس گرہ کو مضبوط کرے اوراُسے نہ کھولے یہاں تک کہ جب مدت گذرجائے تو وہ برابری پر عہد کو توڑے۔(سنن ابی داؤد،حدیث:۲۷۵۹)
اسلام نے ہر سطح پر بدعہدی اوروعدہ شکنی کو منع کیا ہے اور اسے اہل ایمان کے لیے قابلِ مذمت فعل قراردیاہے۔ اسلام میں میعاد معاہدہ ختم ہونے تک جنگ کرنے کی ممانعت ہے۔ جن لوگوں کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ہوگیا ہے اس کو پورا کرنا ہوگا ، الا یہ کہ فریق مخالف کی طرف سے نقض عہد کے تلخ تجربات سامنے آئیں یا ان کی طرف سے دشمنوں کی مدد کی گئی ہو۔ معاہدہ پورا نہ ہونے کی صورت میں فریق مخالف کے خلاف کسی طرح کی جنگی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ اگر معاہدکے خلاف مسلمان مددطلب کرے تب بھی معاہدے کا لحاظ رکھا جائے گااور اس کو توڑا نہیں جائے گا۔عام احوال وکوائف میں معاہدے کے تقدس کا خیال رکھا جائے گا۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:’’اگروہ (اہلِ ایمان) دین کے معاملات میں تم سے مدد چاہیں تو ان کی مدد کرنا واجب ہے مگر اس قوم کے مقابلے میں مدد نہ کرنا کہ تمھارے اور ان کے درمیان صلح وامن کا معاہدہ ہوا ہو‘‘۔(انفال ۸:۷۲)
عام حالات میں معاہدے کا احترام وتقدس ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں ایک اور ربانی ارشاد ملاحظہ ہو:’’ سوائے ان مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیاتھا پھر انھوں نے تمھارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمھارے مقابلے پر کسی کی مدد کی، سوتم ان کے عہد کو ان کی مقررہ مدت تک ان کے ساتھ پوراکرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ اہل تقویٰ کو پسند کرتا ہے ‘‘۔(التوبہ ۹:۴)
اہل عرب اسیران جنگ سے نہایت برا سلوک کیاکرتے تھے جیساکہ موجودہ دور میں گوانتاناموبے جیل میں قیدیوں کے ساتھ کیا جانے والے والا امریکی برتاؤ دنیا کے سامنے ہے ۔ اس کے بالمقابل اسلام نے جنگی قیدیوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک کی تاکید فرمائی اور یہ قانون وضع کردیا کہ نہ ان کو ایذاپہنچائی جائے گی اور نہ ان کو قتل کیاجائے گا۔ آپؐ کا ارشادہے: زخمی پر حملہ نہ کرو، بھاگنے والے کا پیچھانہ کرو، قیدیوں کو قتل نہ کرو، اور جو اپنا دروازہ بند کرلے اس کو امان دے دو۔(الامام ابوالحسن البلاذری: فتوح البلدان، ص۵۳)
اسیرانِ جنگ سے متعلق اسلام کا قانون یہ ہے کہ جنگ جب اپنے اختتام کو پہنچ جائے توانھیں بغیر فدیے کے آزاد کردیا جائے یا فدیہ لے کر رہا کردیا جائے۔ اگر انھیں قیدی بناکر رکھاجائے تو ان کے ساتھ اچھا سلوک وبرتائو کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: پس (اے ایمان والو) جب تمھارا معاملہ کافروں سے ہوتو ان کی گردنیں اڑادو یہاں تک کہ جب خوب قتل کر چکو تو ان کو رسی سے باندھ لو۔ اس کے بعد (تم کو اختیار ہے کہ) یا تو احسان رکھ کر (رہا کردو) یامعاوضہ لے کر چھوڑدو۔(محمد ۴۷:۴)
اسیرانِ جنگ کو صرف قیدی بناکر رکھنے کے لیے ہی نہیں کہاگیا بلکہ ان کے ساتھ نرمی اور حُسنِ سلوک کی بھی تعلیم دی گئی ہے ۔ قرآن مجید میں اسیر اور مسکین ویتیم کو کھانا کھلانے کے عمل کے لیے تحریص وترغیب دی گئی ہے او ر اسے نیکو کاروں کا فعل قراردیا گیاہے: ’’وہ خاص اللہ کی خوشنودی کے لیے مسکین اور یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو محض اللہ کے لیے تمھیں کھلاتے ہیں ۔کسی جزایا شکر یے کے خواستگار نہیں ہیں۔ ہم تو صرف اس تنگی کے دن سے ڈرتے ہیں جس میں شدتِ تکلیف سے چہرے بگڑ جائیںگے‘‘۔(الدھر۷۶: ۸-۱۰)
آپؐ نے جنگی قیدیوں کو اہل ایمان کا بھائی قراردیا ہے اور تاکید کی ہے کہ تم ان کے ساتھ بھی اپنے بھائیوں جیسا معاملہ کرو۔ آپؐ نے فرمایا: یہ تمھارے بھائی تمھارے خادم ہیں جن کو اللہ نے تمھارا دست نگر بنایا ہے۔ لہٰذا جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو، اسے چاہیے کہ اس کو وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ تم ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اگر ایسی کسی بھاری خدمت کو ان کے ذمے کرو تو خود ان کا ہاتھ بٹائو۔(بخاری ،حدیث :۲۵۴۵ )
جنگ بدر میں مشرکین مکہ کے ۷۰ سے زیادہ آدمی مارے گئے اور کم وبیش اتنے ہی قیدی بناکر لائے گئے۔ آپؐ نے قیدیوں کو صحابہ کے درمیان تقسیم کردیا اور نصیحت کی کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ۔حضرت حسن بصری اس سلسلے میں فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی لایا جاتا توآپ اسے کسی مسلمان کے حوالے کردیتے اور فرماتے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ قیدی ان کے پاس دوتین دن رہتا اوروہ مسلمان اس کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتا تھا۔(الکشاف، زمخشری ، ج۴، ص۱۹۶)
دشمن کی لاشوں اور ان کے اعضا کی بے حرمتی کرنے سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ یہ کسی بھی طرح سے جائز نہیں ہے کہ انسانی لاشوں کے ساتھ درندگی کا سلوک کیا جائے۔ آپؐ نے بہت ہی سختی سے منع کیا ہے۔عبداللہ بن یزید انصاریؓ روایت کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال لوٹنے اور جسم کو مُثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔(سنن ابی داؤد ، حدیث۲۶۶۶)
اسلام نے جو قوانینِ جنگ وضع کیے ہیں ان میں اتنی جامعیت ہے کہ دورِ جدید کا مہذب انسان بھی ان کو قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق دشمن ہوں یا دوست، عقائد ونظریات کے اعتبار سے خواہ وہ کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے گا، بشرطیکہ وہ ظالموں میں سے نہ ہوں اور نہ دین حق کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ہوں۔ قرآن مجید کی یہ بیّن تعلیم ہے : ’’اللہ تم لوگوں کو ان کے ساتھ نیکی کا برتائو اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جو تم سے دین کے بارے میں نہ لڑے اور نہ ہی تم کو انھوں نے تمھارے گھروں سے نکالا۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘۔(الممتحنہ ۶۰:۸)
سید ابوالااعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں : ’’اس باب میں اسلامی قانون کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص جو اہل قتال میں سے ہے اس کا قتل جائزہے خواہ وہ بالفعل لڑے یانہ لڑے، اور ہر وہ شخص جو اہلِ قتال میں سے نہیں ہے اس کا قتل ناجائز ہے سواے اس صورت کے کہ وہ حقیقتاً لڑائی میں شامل ہو یا مقاتلین کے سے کام کرنے لگے‘‘۔(الجہاد فی الاسلام ، ص۲۲۴)
اسلام سے قبل محض مالِ غنیمت کے حصول کے لیے بھی جنگوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ تجارتی قافلوں اور راہگیروں کو لوٹنا پیشہ بن چکا تھا۔ لیکن اسلام نے اس شنیع عمل کی پُر زور مذمت کی اور اس طرز عمل پر قدغن لگادی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹے ہوئے مال کو حرام قراردے دیا۔ مندرجہ ذیل ہدایت کا انتساب آپؐ کی طرف واضح ہے :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوٹ مار اور مُثلہ کرنے سے منع فرمایاہے(بخاری، حدیث ۵۵۱۶)۔ ایک دوسری جگہ آپؐ کا ارشاد ہے :’’ جوشخص لوٹ مار کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے ‘‘۔(سنن ابن ماجہ ، حدیث ۳۹۳۷ ا)
گویا کہ اللہ کی راہ میںجہاد کرنے والے اگر لوٹ مار اور فتنہ وفساد میں مشغول ہوجائیں اور غیر اخلاقی حرکتوں کے مرتکب ہوںجن کی بنا پر عوام و خواص میں اضطراب وبے قراری عام ہوجائے، تو راہ حق میں اُٹھنے والے یہ قدم ’خیر‘ کا باعث نہ بن کر ’شر‘ کا موجب قرار پاتے ہیں ۔ چنانچہ ان کا جذبۂ عمل اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے محروم رہتا ہے ۔
اسلام نہ تو ناحق خون بہانے کی اجازت دیتاہے اور نہ دشمنوں کی اَملاک وجایداد کو تباہ وبرباد کرنے کو جائز ٹھیراتا ہے، اور نہ یہ اعمال اسلام کے مقاصد جلیلہ کے شایان شان ہی ہیں۔ اسلام فتنہ وفساد کو ناپسندکرتا ہے، اس لیے کہ حقیقی معنوں میں یہ امن وآشتی کا علَم بردار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ حالت ِ جنگ میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ نہ کھیتیاں تباہ وبرباد کی جائیں ،نہ پھل دار درختوں کو کاٹا جائے اور نہ املاک کو نذرآتش کیا جائے ۔یہاں تک کہ کفروشرک کا علَم بردار محارب فریق میدان جنگ میں بھی، اہل ایمان محارب فریق سے امن وعافیت کا خواہاں ہو تو ہاتھ روکنے کا حکم ہے۔ اسلام کو اگر وہ سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو موقع دیا جائے گا اور پھر بھی اگر وہ اسلام سے بے زاری کا اظہار کرے تو حکم یہ ہے کہ اسے اس کے محفوظ مقام تک پہنچا دیا جائے۔
اس کے علی الرغم عصر حاضر کے خود ساختہ قانون امن وجنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ اپنے حریف کو مغلوب کرنے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا جاسکتا ہے، چاہے املاک کی تباہی کی شکل میں ہو یا جانوں کے تلف کی صورت میں ہو ۔ماضی قریب میں بھارت میں گجرات اور آسام کے فسادات اور بین الاقوامی سطح پر افغانستان ، عراق اور میانمارکے دل دوز واقعات انسانوں کے خودساختہ قوانین جنگ وامن اوران کے بھیانک اور انسانیت کش نتائج کی زندہ مثالیں ہیں۔ ایسے ہی شر انگیزوں اور فساد کاروں کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے : ’’اور جب وہ حاکم بنتاہے تو کوشش کرتا ہے کہ زمین میںفساد پھیلائے اور فصلوں اور نسلوں کو برباد کردے۔ مگر اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘۔(البقرہ ۲:۲۰۵)
دوسری طرف مذہب اسلام کی بیّن اور درخشاں تعلیمات ہیں جو میدان جنگ میں بھی اخلاق، رواداری اور عظمت انسان کی پاسداری کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتیں، بلکہ وہ فتنہ وفساد کاقلع قمع کرنے کے لیے مؤثر اقدام کی ترغیب و تحریص کرتی ہیں ۔اس سلسلے کی آخری کوشش کے مظہر قتال فی سبیل اللہ کے دوران بھی اخلاق وکردار کو بالاے طاق نہیں رکھا جاتا بلکہ شایانِ انسانیت اخلاق برتنے کی تعلیم و تلقین کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ کھیتوں اور فصلوں کی بربادی اور درختوں کے اُکھاڑنے اور جلانے تک سے روکاگیاہے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ جب کسی لشکر کو روانہ کرتے تو امیرلشکر کو چند ہدایات ضروردیتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت اسامہؓ کے لشکر کو آپ نے روانہ کیا تو ان کو ۱۰ ہدایات دیں، ارشاد فرمایا:’’لوگو! ٹھیرو، میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتاہوں۔ تم ان کو یاد رکھنا ۔ دیکھو ! خیانت نہ کرنا، فریب نہ کرنا، سرکشی نہ کرنا، دشمن کے ہاتھ پائوں نہ کاٹنا، چھوٹے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا،کھجور کے درخت کو نہ اکھاڑنا اور نہ اس کو جلانا، پھل دار درخت کو نہ کاٹنا۔ بکری ، گائے اونٹ کھانے کے سواذبح نہ کرنا۔(تفسیر الطبری، ج۲،ص۴۶۔ بحوالہ صدیق اکبر،ص۳۲۹)
اسلام کے جنگی قوانین کے مطابق نہ تو بلاوجہ کسی عورت کو قتل کیا جائے گا اور نہ اس کی عفت وعصمت کو مخدوش وداغ دار کیاجائے گا ۔ اسلام اپنے پیروکاروں کی ذہنی پاکیزگی کا پورا اہتمام اور انھیں ہر طرح کی جنسی آلودگی سے پاک رکھتاہے۔اسلام نے عورت کو تحفظ فراہم کیا اور معاشرے میں عزت واحترام کا مقام دیا۔جنگ میں دشمن کی بیٹی پر ہاتھ اٹھانے اور اس کی عصمت دری کرنے کی سختی سے ممانعت کردی گئی۔یہ امتیاز صرف اسلام ہی کو حاصل ہے کہ اس نے مفتوح قوم کی عورتوں کی عصمت کی پاسبانی کا حکم دیا۔
اسلام عفو و درگزر سے کام لیتا ہے۔ اسلامی ریاست ومملکت میںا نتقامی سیاست کا کوئی تصور موجود نہیں ہے اور نہ اس کا کوئی جواز فراہم کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ جنگوں میں بھی انتقامی کارروائی کی ممانعت کردی گئی ہے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ فاتح اقوام جوش انتقام میں فتح وکامرانی کے بعد قتل وغارت گری کا ایسا بازار گرم کردیتی ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ نت نئے اسلحہ جات کے ذریعے انسانی لاشوں کے چیتھڑے اڑادیے جاتے ہیں۔گویا کہ مفتوح قوموں کی تباہی وبربادی مقدر بن جاتی ہے ۔قرآن مجید میں اس کی تصویر کشی یوں کی گئی ہے : ’’اس نے کہا (کہ لڑائی بذات خود کوئی اچھی چیز نہیں ہے) جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تباہ کردیتے ہیں اور اس کے معززلوگوں کو ذلیل کرتے ہیں اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریںگے‘‘۔(النمل ۲۷:۳۴)
دیگر اقوام و ملل میں دشمن کے ساتھ نارواسے ناروااور غیر انسانی سلوک کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا، لیکن اسلام نے اس کو انتہائی معیوب و مذموم قرار دیا ہے ۔ اپنے جنگی قوانین میں انسانی ہمدردی اور نیک برتائو کو بنیادی حیثیت دی ہے۔آج کی مہذب دنیا میں قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی معاملات کرنا باعث شرم وعار نہیں سمجھا جاتا بلکہ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیے جانے کو فتح وکامرانی کے نشے میں روا سمجھا جاتا ہے۔ ماضی قریب میں عالم انسانیت نے یہ دل دوز مناظردیکھے ہیں کہ افغانستان وعراق سے جو لوگ پکڑکرامریکا کی جیلوں میں بندکیے گئے، ان کے ساتھ کتنا اذیت ناک سلوک کیا گیا۔ ان اذیت کدوں سے متعلق دل خراش والم ناک داستانیں امن عالم کے ٹھیکے داروں کے دعووں کو کھوکھلا ثابت کردیتی ہیں ۔اسلام ان تمام معاند ِانسانیت رویوں کوبہ نظر استحقار دیکھتا ہے اور دشمن پر قابو پالینے اور قیدیوں کو اذیتیں دے دے کر ہلاک کرنے سے اپنے پیروکاروں کوسختی سے منع کرتاہے۔ ابو یعلی سے روایت ہے: ’’وہ کہتے ہیںکہ ہم عبدالرحمن بن خالد بن ولید کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور دشمن کے چار جاسوس پکڑے گئے۔ ان کے قتل کا حکم دیا گیا اوران کو باندھ کر تیر مار کر قتل کیا گیا۔ حضرت ایوبؓ کو یہ بات پہنچی تو انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھ کر قتل کرنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔(مسند احمد)
مجاہدین اسلام کو بلااجازت گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ حالت جنگ میں بھی اسلام نے پردہ داری پر زور دیا ہے۔ آپؐ کا وہ ارشاد ملاحظہ فرمایاجائے جس میں عورتوں اور بچوں کو نہ مارنے اور دکان سے بلا قیمت کوئی مال کھانے کی سختی سے ممانعت کے ساتھ ساتھ اجانب و اعدا کے گھروں میں بلا اجازت داخلے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے جائز نہیں رکھاہے کہ اہل کتاب کے گھروں میں داخل ہوجائو مگر اجازت سے نیز ان کی عورتوں کو پیٹنا اور پھلوںکو کھانا بھی حلال نہیں‘‘۔(سنن ابی داؤد ، حدیث ۳۰۵۰ )
اسلام صلح وآشتی کا علَم بردار ہے اور انسانی معاشرے میں خیروفلاح کی قدروں کو فروغ دینا اس کا مطمح نظر ہے۔ اسلام جنگ وجدال سے اجتناب کی بھی تلقین کرتاہے ، بلکہ امن کا قیام اس کی غایت ہے ۔ اسلام صلح جوئی اور قیام امن کا کس حدتک علَم بردار ہے، یہ اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر دشمنان اسلام کی طرف سے صلح کی پیش کش ہوتو اس سے انکار کی کوئی صورت نہیں ہے، بلکہ اس کو قبول کرنا ایمان کا جزہے۔ دشمنوں کے اس اقدام کو ٹھکرانے کی اسلام اجازت نہیں دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’لہٰذا اگر وہ تم سے کنارہ کش ہوجائیں اور لڑنے سے باز رہیں اور تمھاری طرف صلح و آشتی کا ہاتھ بڑھائیں تو اللہ نے تمھارے لیے ان پر دست درازی کی کوئی سبیل نہیں رکھی ہے‘‘۔(النسائ۴:۹۰)
عمومی طورپر اسلام جارحیت وجبر کے خلاف ہے۔ جنگ براے جنگ اس کے اغراض میں سے نہیں ہے۔ جنگ بحالت مجبوری ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں بعض ناگزیر احوال میں اس کی اجازت ہے۔ہاں عام حالات میں نہ اس کی اجازت ہے اور نہ یہ مرغوب و پسندیدہ عمل ہے ۔یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ اگر صلح کاتھوڑا بھی رجحان پایاجارہا ہوتو پھر صلح کو جنگ پر ترجیح حاصل ہوگی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگروہ صلح کی طرف جھکیں توآپ بھی اس طرف جھک جائیں اور اللہ پر بھروسا رکھیے، بلا شبہہ وہ خوب سننے والا، خوب جاننے والاہے اور اگر وہ لوگ آپ کو دھوکا دینا چاہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کافی ہے‘‘۔(انفال۸: ۶۱-۶۲)
اگردشمنانِ اسلام بالکل مخالفت وعداوت پر اتر آئیں توان کی مخالفت اور نقض عہد کو دیکھتے ہوئے معاہدے کوتوڑا جاسکتا ہے، لیکن اس اقدام سے معاند ومخالف فریق کو خبردار کیے جانے کا حکم ہے۔ دھوکا اور فریب بہر حال مذموم ہے۔ اسی ضمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور اگر کبھی تمھیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو، یقینا اللہ خائنوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (انفال ۸:۵۸)
کسی ملک سے اسلامی ریاست کو خطرہ نہ ہویااس کے مصالح وضروریات کا تقاضا ہو کہ اس کے ساتھ امن وامان کا معاملہ بنارہے تو اسلامی ریاست اس ملک وقوم سے بلاوجہ جنگ وجدال کے لیے برسرِ پیکار نہ ہوگی جیساکہ حبشہ اور تُرک کے معاملے میں کیاگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی: حبشہ کو چھوڑ دو جب تک کہ وہ تم سے تعرض نہ کرے اسی طرح ترک کو چھوڑ دو جب تک کہ انھوں نے تمھیں چھوڑرکھا ہے‘‘۔(سنن ابی داؤد، حدیث ۴۳۰۴)
آپؐ نے صاف طور پر فرمادیا کہ اگر اسلامی ممالک میںدوسری ریاستیں کسی بھی طرح ان کے معاملات میں دخل انداز ی نہ کررہی ہوں تو ان سے خواہ مخواہ محاذآرائی نہیں کی جائے گی۔ ہاں، اگر یہ لوگ اسلامی ریاستوں کے خلاف مہم جوئی شروع کریں تو ان پر طاقت وقوت کے ساتھ یلغار کی جائے گی اور ان کے فتنہ وفساد کا سدباب کیاجائے گا۔
زمانۂ جنگ میں امن وامان کے حصول کا عمل مختلف مقاصد کے تحت آج بھی جاری ہے۔ جب بھی کوئی غیر مسلم کسی حالت میں امن وامان یاپناہ کا طالب ہو تو اسے پناہ دی جائے گی۔ اسلام میں سیاسی، سماجی اور معاشرتی امن وپناہ کا تصور کسی محدود دائرے میں محصور ومقید نہیں ہے بلکہ پناہ لینے والوں کے جان ومال کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے ۔اس کی پناہ اس وقت تک ختم نہیں ہوتی ہے جب تک کہ اس نے کوئی ایسا جرم نہ کیا ہو جو ناقابل معافی ہو۔مثلاً بغاوت وسرکشی یااسلامی حکومت اور اس کے علَم برداروں کے خلاف جاسوسی کا عمل ناقابل برداشت ہے، اس لیے کہ یہ فتنہ وفساد کے دائرے میں آتاہے۔ اس سے سرزد ہونے والے دوسرے جرائم میںعام قانون کے مطابق اس کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔ میدان جنگ میں بھی، جب کہ دونوں فریقوں کے مابین تصادم وآویزش اور جنگ وقتال جاری ہو، اگر فریق مخالف پناہ کاخواہاں ہو تو اسے پناہ دی جائے گی نہ یہ کہ اَنا اور وقار کا مسئلہ بنا کر یا نفس کے تابع ہوکر اس پر وار کیا جاتا رہے گا۔ اگر اس نازک موقعے پر بھی وہ اسلام کو سمجھنا چاہتا ہے تو اس کو حفظ وامان میں رکھتے ہوئے دعوت دی جائے گی۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اپنی سابقہ روش کو ترک نہیں کرنا چاہتاتو اس بات کی تلقین کی جاتی ہے کہ اس کو ہوس کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا بلکہ اس کو اس کے مقام محفوظ تک پہنچا دیا جائے گا۔ (دیکھیے سورئہ توبہ ۹:۶)
یہ حکم ربانی میدان جنگ میں نبرد آزما مشرکین سے متعلق ہے۔ اس کی وضاحت ابن جریر طبری یوں کرتے ہیں : ’’ جن مشرکین سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے ان ہی کے بارے میں یہ بھی حکم ہے کہ ان میں سے کوئی اسلام کو سمجھنے کے لیے پناہ کا طالب ہو تو اسے پناہ دی جائے گی۔ اگروہ اسلام کو قبول نہ کرے تو بہ حفاظت اسے اس کے علاقہ میں پہنچادیا جائے گا۔ اسلامی ریاست کا کوئی فرد اس سے تعرض نہ کرے‘‘۔(تفسیر الطبری، جلد۱۴، ص ۱۳۸)
علَم برداران اسلام نے ہردور میں اس قانون امن وامان کا پاس ولحاظ رکھا اور اس پر عمل بھی کیا ۔اگر کسی نے بڑے سے بڑے مجرم کو لاعلمی میں بھی اپنی پناہ میں لیا تو اس امان کا لحاظ رکھا گیااور اس سے کوئی تعرض نہیں کیاگیا بلکہ اس کے جان ومال کی حفاظت کی ذمہ داری کو بطیب خاطر قبول کیا گیا۔ ہاں، اگر کبھی کسی فریق مخالف یا اس کے کسی فرد کے ساتھ کسی نے کوئی ناروا سلوک کیا جس کا سرا ظلم وتعدی سے مل جاتا ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ اس کا ذاتی عمل ہے۔ مذہب اسلام اوراس کی درخشاں انسانیت نواز تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے کہ اسلام جس طرح اپنے نام سے امن و آشتی کا پیغام دیتا ہے اسی طرح قرآن وسنت میں مذکور واضح اور بیّن تعلیمات ، ظلم وعدوان کی مخالف اور امن وآشتی کی نقیب ہیں۔ یہاں ایک انسان کا قتل ناحق پوری انسانیت کے قتل کے برابر اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔ جو مذہب انسانی خون کے احترام میں اس انتہا تک پہنچ جاتا ہو اس کی طرف دہشت گردی اور خونریزی کا انتساب سرتاپاظلم ہے۔ یہاں اگر جنگ کی اجازت ہے تو محض فتنہ وفساد کا قلع قمع کرنے کے لیے تاکہ فرد ، معاشرہ، ملک اور قوم کو امن وآشتی کی خوش گوار فضا میسر ہو اور کاروانِ انسانیت منزل مقصود کی یافت میں امن وسکون کے ساتھ رواں دواں رہے۔
مقالہ نگار شعبۂ دینیات ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے وابستہ ہیں
موجودہ دور میں نفسا نفسی اور مادیت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ رشتہ داروں کی خبرگیری کرنا، ضرورت کے وقت کام آنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور معاشرہ انتشار و افتراق کا شکار ہو رہا ہے۔ ایسے میں صلۂ رحمی کی ضرورت و اہمیت پہلے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ خاند ان کی شیرازہ بندی ونگہداشت اوراس کے قیام وبقاکے لیے قرآن وسنت میں بہت سی تعلیمات وہدایات دی گئی ہیں۔ ان میںصلۂ رحمی کواساسی حیثیت حاصل ہے۔سطور ذیل میں قرآن مجیداوراحادیث نبوی سے صلۂ رحمی کی اہمیت، اس کے دینی و دنیوی فوائداورقطع رحمی کے دینی و دینوی نقصانات پرروشنی ڈالی جائے گی۔
صلۂ رحمی دولفظوں سے مرکب ہے :صلہ اوررحم۔ ’صلہ‘ کے معنی ہیںجوڑنالیکن جب اس کے ساتھ ’رحم‘ کا استعمال ہوتواس کے معنی بدل جاتے ہیں۔
وصل رحمہٗ کے معنی ہیں: نسب کے اعتبار سے جورشتے دارقریب ہوں ان کے ساتھ مہربانی کرنااورنرمی کابرتاؤکرنا۔(المنجد،ص ۲۵۲)
رحم، بطنِ مادر کے اس مقام کوکہتے ہیںجہاں جنین استقرار پاتا ہے اور اس کی نشوونماہوتی ہے۔ مجازاً اسے رشتہ داری کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے، اوریہ اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے ’مشتق‘ ہے (الراغب الاصفھانی: المفردات فی غریب القرآن، ص ۱۴۷)۔امام اصفہانی نے تائید میں ایک حدیث پیش کی ہے جس کامضمون یہ ہے: حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواشارد فرماتے ہوئے سناہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میںہی اللہ ہوں اورمیں ہی رحمن ہوں۔ میں نے رحم (رشتہ داری) کوپیداکیا۔ میں نے اس کانام اپنے نام سے نکالاہے۔ جواس کوجوڑ ے گامیں اس کوجوڑ وں گا،اورجواس سے قطع تعلق کرے گا میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔(ترمذی، باب ماجاء فی قطعیہ الرحم،۹۰۷)
لغوی اعتبار سے ’رحم‘ کے معنی شفقت ،رافت اوررحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی شفقت ورافت کے ہوتے ہیں، اورجب اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوتاہے تواس کے معنی رحمت کے ہوتے ہیں۔ (لسان العرب، ابن منظور، ،ج۱۷،ص۲۳۰)
اسلام نے رشتہ داری کووہ بلندمقام دیاہے جوپوری انسانی تاریخ میںکسی مذہب ،کسی نظریے اورکسی تہذیب نے نہیںدیا۔ اس نے رشتوں کاپاس ولحاظ رکھنے کی وصیت کی ہے ۔قرآن کریم میں بہت سی آیات ہیں جواسلام میں رشتہ داری کی اہمیت کوواضح کرتی ہیں۔ رشتہ داری کا احترام کرنے اوران کے حقوق کی ادایگی پر ابھار تی ہیں، اورانھیں پامال کرنے اوران پر ظلم و زیادتی کرنے سے روکتی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ ط (النساء ۴:۱) اس اللہ سے ڈرو جس کاواسطہ دے کرتم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ داری اورقرابت کے تعلقات کوبگاڑ نے سے پرہیز کرو۔
قرآن کریم میں قطع رحمی کاتذکر ہ فساد فی الارض کے ساتھ کیاگیاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں کاباہم گہراتعلق ہے۔چندآیات ملاحظہ ہوں:
فَاِذَا عَزَمَ الْاَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللّٰہَ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ o فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَکُمْ ط (محمد ۴۷:۲۱-۲۲)
مگر جب قطعی حکم دے دیا گیا اُس وقت وہ اللہ سے اپنے عہد میں سچے نکلتے تو انھی کے لیے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اِس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم اُلٹے منہ پِھر گئے تو زمین میں پھر فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟
سورۂ رعد میںارشاد باری ہے :
وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِo (الرعد ۱۳:۲۵) اورجولوگ اللہ کے عہد کوباندھنے کے بعد توڑتے ہیں اوراس چیز کوکاٹتے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کاحکم دیااورزمین میںفساد برپاکرتے ہیں،وہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے، اوران کے لیے براانجام ہے۔
قرآن میں کفارکی فساد انگیزیوں کومختلف پہلوئوں سے اجاگر کیاگیاہے۔ ان میں سے ایک پہلوقطع رحمی بھی ہے۔ارشاد ہے:
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۷) جواللہ تعالیٰ کے عہد کواس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اورجس چیز کواللہ تعالیٰ نے جوڑ نے کاحکم دیاہے اس کوکاٹتے ہیں اور زمین میںفساد برپا کرتے ہیں یہی لوگ نقصان اُٹھانے والے ہیں۔
اس آیت کی تفسیر میں شیخ محمدعلی الصابونی نے لکھاہے: ’’جس چیز کے جوڑنے کاحکم دیا گیاہے اس سے مراد رشتہ اورقرابت ہے، اورجس چیز کواہل کفر وفساد کے اوصاف میں توڑنے کاذکر کیا گیاہے اس سے مراد رشتہ داری کے تعلقات ختم کرنااورنبی اورمومنین سے الفت ومحبت کوختم کرنااوران سے تعلق توڑنا ہے‘‘(صفوۃ التفاسیر، ج ۱، ص ۳۱)
اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل میں جن چیزوں کاحکم دیاہے ان میں عدل اوراحسان کے بعد تیسری چیزاہل قرابت کے حقوق کی ادایگی ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی (النحل ۱۶:۹۰) اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور صلۂ رحمی کاحکم دیتاہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی سے صلۂ رحمی پر عمل پیراتھے۔ اس کاثبوت ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی گواہی ہے کہ غار حرا میں جبرائیل ؑ نے آکرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلی وحی سنائی اورنبوت کابار آپؐ پر ڈالاگیا۔ اس کی وجہ سے آپؐ پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ آپؐ گھر تشریف لائے، اور جوواقعہ پیش آیاتھااس سے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکوآگاہ کیا اور کہاکہ مجھ کواپنی جان کاخوف ہے۔اس وقت آپؐ کوتسلی دیتے ہوئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جوباتیں کہیں وہ یہ تھیں : ’’ہرگز نہیںہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کوکبھی رنجیدہ نہیںکرے گا ، کیوں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں، بے سہاروںکاسہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں۔ ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں‘‘۔(بخاری، باب بداء الوحی:۳)
صلۂ رحمی ،شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے جس کے ساتھ یہ دین روزِاوّل ہی سے دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہوا۔ اس کی تائید ہر قل کے ساتھ ابو سفیان کی گفتگو سے بھی ہوتی ہے۔صلح حدیبیہ(۶ہجری)کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سلاطین کے پاس خطوط ارسال کیے جن میں انھیں اسلام کی دعوت دی۔ جب آپؐ کانامہ مبارک ہرقل کے پاس پہنچا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جاننے کی غرض سے اپنے درباریوں سے کہاکہ مکہ کے کسی آدمی کو دربار میں پیش کرو۔ انھوں نے ابوسفیانؓ کو(جن کواس وقت تک قبول اسلام کی سعادت نہیں ملی تھی)، دربار میں پیش کیا۔ ہرقل نے ان سے بہت سے سوالات کیے اور ایک سوال یہ بھی کیاکہ تمھارے نبی تمھیں کس چیز کاحکم دیتے ہیں؟ ابو سفیانؓ نے جواب دیا: وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلۂ رحمی ، پاک دامنی کاحکم دیتے ہیں۔(مسلم)
اس حدیث سے بھی بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ صلۂ رحمی اس دین کی ممتاز خصوصیات میں سے ہے جن کے بارے میں دین کے متعلق پہلی مرتبہ پوچھنے والے کوآگاہ کیاجاتاہے۔
سیدنا عمروبن عنبسہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں اسلام کے جملہ اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں، وہ فرماتے ہیں:’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوا۔ یہ آغازِ نبوت کازمانہ تھا۔ میں نے عرض کیا:آپ کیاہیں؟ فرمایا: نبی ہوں۔ میں نے عرض کیا: نبی کسے کہتے ہیں؟ فرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ میں نے کہا:اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو کیا چیز دے کربھیجا ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے رشتوں کوجوڑ نے اور بتوں کوتوڑنے کے لیے بھیجا ہے اور اس بات کے لیے بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوایک سمجھا جائے اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کیاجائے ۔(مسلم،باب اسلام، عمروبن عنبسہ۱۹۳۰)
یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اسلام کے اہم اصول ومبادی کی تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کومقدم رکھاہے۔ اس سے دین میں صلۂ رحمی کے مقام ومرتبہ کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بناؤ، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘(بخاری، باب فصل صلۃ الرحم، ۵۹۸۳)۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی عبادت ، توحید ، نماز اور زکوٰۃ کے ساتھ ہی صلۂ رحمی کاتذکرہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ صلۂ رحمی کاشمار بھی ان اعمال میں ہوتاہے جوانسان کوجنت کامستحق بناتے ہیں۔
حضرت جبیر بن مطعمؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: ’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا‘‘(بخاری، باب اثم القاطع، ۵۹۸۳)۔ قطع رحمی کرنے والے کی محرومی اور بدبختی کے لیے اللہ کے رسولؐ کی یہی وعید کافی ہے۔
صلۂ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کاتعلق مضبوط ہوتاہے اور قطع رحمی کرنے والے سے اللہ کاتعلق ٹوٹ جاتاہے جیسا کہ حدیث میںہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رحم (رشتہ داری) رحمن سے بندھی ہوئی ہے ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا، اور جوتجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا‘‘۔(بخاری، ۵۹۸۴)
قطع رحمی کرنے والے پر آخرت سے قبل دنیا ہی میں گرفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث کے مطابق: ’’دوسرے گناہوں کے مقابلے میں بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیںکہ ان کے ارتکاب کرنے والے کواللہ تعالیٰ دنیا ہی میں عذاب دیتاہے آخرت میں ان پر جوسزا ہوگی وہ تو ہوگی ہی‘‘۔(ترمذی،باب فی عظم الوعید علی البغی وقطیعۃ الرحم، ۲۵۱۱)
ایک متقی اور باشعور مسلم اسلامی تعلیمات کے مطابق صلۂ رحمی کرتا ہے۔ جس ذات باری نے اس تعلق کو قائم کیا ہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔چنانچہ پہلا درجہ والدین کاقرار دیا۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ سلوک کرنے کومستقل طورپر بیان کیا گیا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے:
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط (بنی اسرائیل ۱۷:۲۳) اور تیرے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور ماں باپ کے ساتھ حُسنِ سلوک کرو۔
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًاط (العنکبوت ۲۹:۸) اور ہم نے انسان کواپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم کیا ہے۔
سورۂ لقمان میں ارشاد باری ہے:
وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَط اِلَیَّ الْمَصِیْرُo (لقمان ۳۱:۱۴) اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہنچانے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے۔ (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔
اس آیت میںقابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں تک شکر گزاری اور خدمت کاتعلق ہے تو اس کی ہدایت ماں باپ دونوں کے لیے فرمائی گئی ہے لیکن قربانیاں اور جاں فشانیاں،حمل، ولادت اور رضاعت صرف ماں کی گنوائی گئی ہیں، باپ کی کسی قربانی کاحوالہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ماں کاحق باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن،ابوعبداللہ محمدبن احمد الانصاری القرطبی، ج ۱۴،ص،۶۴)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تمھاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: تمھاری ماں۔ اس نے دریافت کیا: پھر کون؟ آپؐ نے فرمایا: تمھارا باپ۔ ایک دوسری روایات میں باپ کے بعد قریبی رشتہ دار کابھی تذکرہ ہے‘‘۔ (مسلم، باب بر الوالدین وایھما احق بہ (۲۵۴۸)
دین اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ مسلمان صرف ان رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کریں جوان کے ساتھ بھی صلۂ رحمی کریں، بلکہ اس سے آگے بڑھ کران رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ اور صلۂ رحمی کرنے کاحکم دیتا ہے جوان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق نہیں رکھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جواحسان کابدلہ احسان سے ادا کرے ،بلکہ صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلۂ رحمی کرے‘‘۔(بخاری، کتاب الادب، باب لیس الواصل بالمکافی، ۵۹۹۱)
اسلام نے غیر مسلم رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر زور دیاہے ، ارشاد باری ہے:
وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوْفًا(لقمان ۳۱:۱۵) اگر وہ تجھ پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ ایسی چیز کوشریک ٹھیرائے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتائو کرنا۔
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی نے لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات پردلالت کرتی ہے کہ کافر والدین کے ساتھ صلۂ رحمی کی جائے۔ اگروہ غریب ہوں توانھیں مال دیاجائے، ان کے ساتھ ملائمت کی بات کی جائے، انھیں حکمت کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے(الجامع لاحکام القرآن، ج۱۴، ص۶۵)
حدیث میں بھی غیر مسلموں سے صلۂ رحمی کی تلقین ملتی ہے: حضرت اسما بنت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عہد نبویؐ میں میرے پاس آئیں، جب کہ وہ مشرک تھیں۔ میںنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں، اور وہ مجھ سے کچھ امید رکھتی ہیں، توکیا میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کروں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں، تم اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی کرو‘‘۔(مسلم، کتاب الزکاۃ ، باب فصل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین،۲۳۲۵)
شریعت میں صلۂ رحمی پربہت زور دیاگیا ہے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ کسی کی بے جا طرف داری کی جائے، رشتہ داروں کو ہر صورت میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جائے،اگرچہ وہ حق پرنہ ہوں، اور ان کے ساتھ ہمدردی کی جائے اگرچہ وہ ظالم کیوں نہ ہوں۔ دین اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتاہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میںخاص طور پر اس پر تنبیہ کی گئی ہے ، اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ (المائدہ ۵:۲) ایک دوسرے کی نیکی اور تقویٰ میں مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میںایک دوسرے کی مددنہ کرو۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَاقف فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا o (النساء۴: ۱۳۵) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علَم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔
سورۂ انعام کی آیت ملاحظہ ہو:
وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْاط ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (الانعام ۶:۱۵۲) جب بات کہو تو انصاف کی کہو، اگرچہ معاملہ اپنے رشتہ دار کا کیوں نہ ہو، اوراللہ سے جوعہد کیا ہے اسے پورا کرو، اس کا اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
اس طرح اسلام نے صلۂ رحمی کے نام پر ناانصافی و اقربا پروری پر روک لگادی ہے۔ صلۂ رحمی کامطلب یہ ہے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بغیر کسی کاحق تلف کیے ہوئے ان کے دُکھ درد میںشریک رہاجائے، اور اپنی طرف سے ہو سکے تو ان کی مدد کی جائے۔
صلۂ رحمی کامفہوم بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس کاایک طریقہ یہ ہے کہ رشتہ داری پر مال خرچ کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ (البقرہ ۲:۲۱۵) ’’آپ کہیے فائدہ کی جوچیز تم خرچ کروتوو ہ ماں باپ رشتہ دار وں کے لیے ‘‘۔ دوسری جگہ یہ تصریح فرمائی گئی کہ مال و دولت کی محبت اورذاتی ضرورت اورخواہش کے باوجود صرف خداکی مرضی کے لیے خود تکلیف اٹھاکر اپنے قرابت مندوں کی امداد اورحاجت روائی اصل نیکی ہے۔ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی(البقرہ ۲:۱۷۷)’’جس نے اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتہ داروں کودیا‘‘۔
صلۂ رحمی رشتہ دار وں کے ساتھ ملاقاتوں سے بھی ہوتی ہے جس سے قرابت کے رشتے مضبوط ہوتے ہیں، محبت کے تعلقات پایدار ہوتے ہیں، اورباہم رحم وہمدردی اورمودت میں اضافہ ہوتاہے۔ صلۂ رحمی رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی، خیرخواہی، تعاون کے ذریعے ہوتی ہے۔ گاہے بگاہے تحائف سے نوازنے ،دعوت مدارت کرنے اور ان کی خدمت اورمزاج پرسی کرنے اور خندہ پیشانی سے ملاقات کرنے سے۔ اس کے علاوہ ان تمام اعمال سے ہوتی ہے جن سے محبت کے سوتے پھوٹتے ہیں اوررشتہ داروں کے درمیان الفت ومحبت کے جذبات موجزن ہوتے ہیں۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میںصلۂ رحمی پر زور دیاہے اوراس کے لیے ایسی شکلیں بتائی ہیں جن میں کوئی زحمت، پریشانی ،اورتکلیف نہیں۔ فرمایا: ’’اپنے رشتوں کوتازہ رکھوخواہ سلام ہی کے ذریعے سے ‘‘۔(الموسوعۃ الفقہہ،بحوالہ مجمع الزوائد:۸/۱۵۲)
رشتہ داری کاپاس ولحاظ رکھنے سے رب العالمین کے احکام کی بجاآوری کے علاوہ بہت سے روحانی ومادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اس کاایک فائدہ یہ ہے کہ رشتہ داروں پرخرچ کرنے میںزیادہ اجروثواب ملتاہے:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’صدقہ مسکین پر صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پرکرنے کی وجہ سے دہرا اجرملتاہے، ایک صدقہ کرنے کا،دوسرے صلۂ رحمی کا‘‘۔ (ترمذی، باب ماجا فی الصدقۃ علی ذالقربۃ ۶۵۸)
اس کاایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے عمر میں درازی اوررزق میں وسعت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کویہ پسند ہوکہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اوراس کی موت میں تاخیر اورعمر میںاضافہ ہوتواسے چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے ‘‘(مسلم، باب صلۃ الرحم وتحریم قطعیتھا ۶۵۲۳)
اس حدیث کامطلب یہ بھی ہوسکتاہے کہ ان نیک اعمال سے مال ودولت میںفراخی اورعمر میں زیادتی ہوتی ہے۔ لیکن اس کی توجیہہ یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ انسان کے خانگی مسائل اور تنازعات اس کے لیے تکدر اور پریشانی کا سبب ہوتے ہیں لیکن جولوگ اپنے رشتہ دار وں کے ساتھ خوش خلقی سے پیش آتے ہیں، ان کے ساتھ نیک برتاؤکرتے ہیں، اس کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے اعصابی تناؤ سے آزاد ایک ایساماحول پیداہوجاتاہے جو پُرسکون زندگی گزارنے کے لیے بڑاسازگار ہوتاہے ۔ اس کے برخلاف اعصابی تناؤ جو زندگی کی مدت کم کردیتاہے قطع رحمی کے نتیجے میں پیداہوتاہے۔
اس کے علاوہ صلۂ رحمی سے انسان بہت سے ان اجتماعی مسائل سے جوآج کے مغربی معاشرے کی پہچان بن گئے ہیں چھٹکاراپایاجا سکتاہے۔
مغربی معاشروں میں خاندان کے بوڑھے افراد ایک بوجھ ہوتے ہیں چنانچہ انھیں ’بوڑھوں کے گھر‘ (old age homes)کے حوالے کردیاجاتاہے جہاں وہ خوشیوں بھری زندگی سے محروم کسمپرسی کی حالت زار میں زندگی گزارتے ہیں۔ صلۂ رحمی سے محروم ان افراد کے بیٹے سال میں ایک بار ’یومِ مادر‘(Mother day) ’یوم والدین‘ (Parents day) مناکر اورچند رسمی تحائف دے کر اُن بے پایاں احسانات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں جوان والدین نے ان کے ساتھ کیے تھے ۔صلۂ رحمی سے آشنااسلامی معاشرہ ان کوبوجھ سمجھنے کے بجاے ان کی خدمت کوجنت کے حصول اوران کی رضاکوخداکی رضاکے حصول کاسبب سمجھتاہے۔
اسی طرح مغربی معاشروں میں یتیم بچوں کی پرورش اورتعلیم وتربیت کے لیے ’یتیم خانے‘ قائم کیے جاتے ہیں۔ لیکن اسلام میں یتیموں کی دیکھ بھال اورکفالت پربڑازور دیاگیاہے، اوریہ حکم دیاگیاکہ ایسے بچوں کو ان کے قریبی رشتہ دار اپنے خاند ان کے افراد میں شامل کرلیں اوران کے ساتھ اپنے بچوں جیسامعاملہ کریں ۔
بیواؤں کے لیے مغربی معاشرے میں بیوائوں کے گھر بنائے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام میں بیواؤں کے نکاح ثانی اوران کے اخراجات کی ذمہ داری ان کے عزیز وقریب رشتہ داروں پر عائدکی ہے۔ان کواس قسم کے خیراتی ادارے کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاتاہے۔
اسلام جس نے صلۂ رحمی پر اس قدر زور دیا ہے، مقامِ افسوس ہے کہ آج مسلمان اور مسلم معاشرے مغربی تہذیب اور مادیت سے متاثر ہوکر، اسلامی معاشرے کی اس نمایاں خصوصیت اور اخلاقی قدر سے غفلت برتتے نظر آتے ہیں۔ نفسانفسی بڑھ رہی ہے۔ معاشرہ انتشار سے دوچار ہے۔ خاندان کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور انتشار و افتراق کی وجہ سے گھر برباد ہورہے ہیں۔ لوگ افلاس اور بے بسی کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی جیسے گناہ کے مرتکب ہونے لگے ہیں جس کا مسلم معاشرے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مغربی طرزِ معاشرت کی طرح والدین کو بوجھ سمجھا جانے لگا ہے اور اب ’بوڑھوں کے لیے گھر‘ بھی بنائے جانے لگے ہیں۔ اگر صلۂ رحمی جیسی اساسی معاشرتی قدر کو مسلمانوں نے مضبوطی سے نہ تھاما تو مادیت کی دوڑ کے نتیجے میں خود ہمارا معاشرہ بھی معاشرتی انتشار کا شکار ہوکر مغرب کی طرح معاشرتی مسائل سے دوچار ہوسکتا ہے۔
ریحان اختر علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ میں شعبۂ سنی دینیات میں ریسرچ اسکالر ہیں۔