وہ مذاہب جو عرفِ عام میں صلح و آشتی اور امن و سلامتی، نیز انسانی ہمدرردی اور محبت کے ’علَم بردار‘ قرار دیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک عیسائیت ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ باتیں بڑی حد تک صحیح بھی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن عیسائیت کے سلسلے میں ہمیں یہ بات قطعاًنہیں بھولنی چاہیے کہ یہ ایک نا تمام مذہب ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی شریعت کی تجدید ہے۔ گویا اصل شریعت شریعتِ موسوی ہے، جو بنی اسرائیل کے لیے تھی اور حضرت موسٰی کی بعثت خالصتاً بنی اسرائیل ہی کی طرف کی گئی تھی۔ مولا نا مودودیؒ لکھتے ہیں:
اس حقیقت کو خود مسیحی علمابھی تسلیم کرنے لگے ہیں۔ [کچھ عرصہ پہلے] ایک مشہور مسیحی عالم ڈین انجے نے، جن کو کنیسہ سینٹ پال کا سب سے بڑا منصب حاصل تھا، گرٹن کالج کیمبرج میں تقریر کرتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ: مسیحؑ نے کبھی موسوی تعلیم سے انحراف نہیں کیا، نہ کوئی نئی تعلیم دی ، نہ موسوی مذہب کے مقابل کوئی نیا مذہب قائم کیا۔ روحانی معاملات میں وہ آزادی تو ضرور چاہتے تھے، لیکن اپنے ملک اور وقت کی باتوں کو انھوں نے قبول کیا۔ اس لحاظ سے موسوی شریعت سے الگ ہونا تو ضروری تھا، مگر مسیح نے عیسائیوں کے لیے خود کوئی شریعت تجویز نہیں کی۔(سیّد ابو الاعلیٰ مودودی، الجہاد فی الاسلام، ص ۴۳۵، ۴۳۶، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ۱۹۷۸ء)
یہ نہ سمجھو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ [متی ، ۵:۱۷]
دراصل بعثت مسیح ؑکا مقصدان کمیوں، خامیوں اور نقائص کو دُور کرنا تھا، جو ایک طویل مدت سے افراد قوم میں در آئی تھیں اور جنھوں نے انھیں اندر ہی اندر کھو کھلا بنا کر رکھ دیا تھا۔ آپؑ کا مقصد ان میں اخلاقی فضیلت کی روح پھونکنا، اور انھیں راست بازی، دیانت داری، حلم و بر درباری، عفوودرگزر، زہد و تقویٰ، قناعت و سیر چشمی اور فروتنی و ایثار کی تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ اس کے علاوہ وہ حد سے زیادہ طمّاع، دنیا پرست اور بندۂ غرض بن کر رہ گئے تھے۔ اس لیے حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنا پورا وقت ان کی انھی اخلاقی خرابیوں کو مٹانے میں صرف کیا۔ پس یہ بات سچ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیمات میں اخلاقی فضائل اور نفسانی خواہشات کو دبانے پر زیادہ زور ہے۔
اس مسلّمہ حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی نبوت زیادہ مدت کے لیے نہ تھی۔ کل ڈھائی یا تین سال کی مدت انھیں میسر آئی اور اس مختصر سی مدت میں ان کے لیے جو کچھ ممکن تھا، انھوں نے کیا۔ ان کے بعض اقوال سے اس بات کی بھی شہادت ملتی ہے کہ وہ جنگ و قتال کی اہمیت سے غافل نہ تھے اور حق پر باطل کی فتح کو وہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہ کر سکتے تھے۔ اس مضمون میں حضرت مسیحؑ کی تعلیمات کے اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ اگرچہ عیسائیت میں امن و عدل سے متعلق کافی مواد ہے، حالاں کہ اس قسم کی تعلیمات سے مثالی معاشرے کے قیام کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
انجیل کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسیحیت جنگ کی مخالف تو ضرور ہے، لیکن بہت ساری آیتوں میں دشمنوں سے جنگ و قتال کی تلقین بھی ملتی ہے۔ چنانچہ مسیحیت میں جنگ و جہاد کے تصور کو سرے سے خارج قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ہاں، اتنا ضرور ہے کہ عیسائیت کے نزدیک سب سے بڑا حکم، محبت کا اصول ہے، جیسا کہ انجیل مقدس میں ہے :
پیروانِ مسیح کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ وہ ظلم و عدوان اور سرکشی و فساد کے خلاف آواز بلند نہ کریں، بلکہ اس کے سامنے سرا طاعت جھکا دیں اور خود پر ہونے والے مظالم کو برداشت کریں۔ اس کی واضح مثال ’پہاڑی کا وعظ‘ ہے، جس میں حضرت مسیحؑ نے اپنے حواریوں کو اخلاق و کردار کی درستی، اور ظلم و ستم سے دور رہنے بلکہ انتقام اور بدلہ کے جذبات سے بھی دور رہنے کی تلقین کی ہے:
تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت، لیکن میں کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرو، بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال اس کی طرف پھیر دے، اور کوئی تجھ پر نالش کرکے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لینے دے۔ [متی ، ۵: ۴۱]
ان آیتوں کی روشنی میں یہ بات واضح انداز میں کہی جا رہی ہے کہ تم ظلم و جور کے خلاف کوئی بھی آواز بلند نہ کرو بلکہ ان تمام چیزوں کو سہتے رہو، اسی میںتمھاری بھلائی مقدر ہے۔اسی طرح دوسری جگہ دشمنوں سے حسن سلوک اور نیک برتائو کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھو اور اپنے دشمن سے عداوت، لیکن اپنے ستانے والوں کے لیے دعا کرو۔[متی ،۵: ۴۴]
میں تم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمن سے محبت رکھو، جو تم سے عداوت رکھے ان کا بھلا کرو، جو تم پر لعنت کریں ان کے لیے برکت چاہو، جو تمھاری تحقیر کریں ان کے لیے دعا مانگو … چاہتے ہو کہ لوگ تمھارے ساتھ اچھا برتائو کریں تو تم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی کرو۔ اگر تم محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمھارا کیا احسان ہے، کیونکہ گناہ گار بھی اپنے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔ [لوقا ، ۶: ۲۷-۳۲]
یہ تعلیم مسیحؑ کا اصل الاصول ہے اور ان الفاظ ہدایت کا منشا بھی واضح ہے کہ ایک سچا عیسائی یا مسیحی اگر کامل اور خدا کا قریبی بننا چاہتا ہے تو وہ کسی بھی حال میں ظلم و تعدی اور جبرو تشدد کا مقابلہ نہ کرے، بلکہ فتنہ پروروں اور فسادیوں کے سامنے اپنے حقوق سے دست بردار ہو جائے۔
حضرت عیسیٰؑ کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ قوم کو اخلاقی پستی اور تنزل و انحطاط سے نکالا جائے اور ان کے اندر اچھے اخلاق کی روح پھونکی جائے، کیونکہ اس عمل کے بغیر قومیں کبھی کائنات میں اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکتیں۔ اسی لیے حضرت مسیحؑ نے اپنی تعلیمات میں قومی سیرت کی تعمیر و ترقی کی طرف توجہ کی اور اپنے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کہ کہیں بھی حکومت و اقتدار سے تصادم کی صورت پیش نہ آئے۔ اگر وہ ابتداء ہی میں جنگ و جدال کی صورت حال کو پیدا کر دیتے تو وہ اپنے اس اصلاحی مشن میں نا کام نظر آتے۔ اسی لیے انھوں نے حکومت کے ساتھ تصادم سے ہمیشہ خود کو دور رکھا۔ ایک موقعے پر حضرت مسیحؑ سے قیصر کو ٹیکس دینے کے سلسلے میں یہودیوں نے مسئلہ دریافت کیا تو حضرت مسیحؑ نے کہا :’’جو قیصر کا ہے قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے خدا کو دو‘‘۔ [مرقس ، ۱۰: ۲۵]
ابتدا میں ان سب احکام کا مدعا یہ تھا کہ حکومت و طاقت سے نبرد آزمائی نہ ہو اور قوم میں ثابت قدم رہنے کی قوت پیدا ہو جائے۔ بعد میں جب ان میں دھیرے دھیرے ہمت و حوصلہ آنے لگا تو انھوں نے اپنی قوم کو استقامت، تحمل اور بے خوفی کی تعلیم دینا شروع کر دی۔ ان کے اندر سے خوف وہر اس کو نکالنے کی بھرپور کوشش کی۔ چنانچہ انھوں نے کہا :
لیکن خبر دار رہو، وہ تم کو عدالتوں کے حوالے کریں گے اور تم عبادت خانوں میں پیٹے جائو گے اور بادشاہوں کے سامنے میری خاطر حاضر کیے جائو گے تاکہ ان کے لیے گواہ ہو … مگر جو آخر تک برداشت کرے گا نجات پائے گا۔[مرقس ، ۱۳: ۹]
جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے، وہ اسے کھوئے گا۔ اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوئے گا وہی اسے بچائے گا۔ [لوقا ، ۹: ۲۴]
انھوں نے لوگوں کی طاقت و قوت پر بھروسا کرنے کے بجاے خدا کی ذات پر بھروسے کی تعلیم دی کہ تم لوگوں کے الطاف و عنایات کے خواہاں نہ رہو بلکہ اپنے خدا سے مانگو۔ انھوں نے کہا:
جب تم برے ہو کر اپنی اولاد کو اچھی چیزیں دیتے ہو تو تمھارا باپ اپنے مانگنے والوں کو کیوں نہ دے گا۔ [لوقا ، ۱۱: ۱۳]
حضرت عیسیٰؑ لوگوں کے دلوں سے قتل کیے جانے کا خوف بالکل نکال دینا چاہتے تھے۔ اسی لیے وہ یہ تعلیم دیتے ہیں کہ لوگ جسموں کو تو قتل کر سکتے ہیں، روحوں کو اسیر نہیں بنا سکتے کیوںکہ یہ ان کے اختیار سے باہر ہے۔ فرماتے ہیں :
مگر میں تم دوستوں سے کہتا ہوں ان سے نہ ڈرو جو بدن کو قتل کرتے ہیں۔ اس کے بعد اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اُس سے ڈرو جس کو اختیار ہے کہ قتل کرنے کے بعد جہنم میں ڈالے۔ [لوقا ،۱۲: ۴-۵]
حضرت مسیحؑ یہ سب نصیحت آمیز باتیں اپنی قوم کو اس وجہ سے بتا رہے تھے کہ نفس، اَنا، ریا اور اقتدار کے بتوں سے نبرد آزما ہو کر روحانیت کی اعلیٰ منزل حاصل ہو جائے اور خدائی بادشاہت کا حصول ممکن ہو سکے، نیز ان کے اندر حریت و آزادی کے حصول کا جذبہ پیدا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں حضرت عیسٰیؑ نے اپنی تعلیمات کو صرف ہمدردی، ترحم اور اعلیٰ اخلاقیات پر مرکوز رکھا۔ لیکن جب ان کے اندر یہ جذبات نشو و نما پا گئے تو تدریجی طور پر آخری زمانے میں جہاد و قتال اور جنگ وغیرہ کی بھی تعلیمات دیں۔ اس میں صداقت ہے کہ ابتدا میں تو بہت کم لوگ مذہب عیسائیت کے حلقۂ بگوش ہو سکے، کیوںکہ حضرت عیسیٰؑ نے اپنے حواریوں کو کسی بھی طرح کے رد عمل سے منع کردیا تھا، لیکن بعد میں آپ ؑ نے جنگ و قتال اور دشمنوں سے بدلہ لینے کی بھی تعلیم دی، تو قابلِ ذکر حد تک حلقۂ احباب بڑھا۔ چند اقتباسات بغرض ملاحظہ پیش کیے جاتے ہیں :
میرے دشمنوں کو میرے سامنے لاکر قتل کر دو، جنھوں نے نہیں چاہا کہ میں ان پر بادشاہی کروں۔[لوقا، ۱۹: ۲۷]
اس نے ان سے کہا کہ مگر اب جس کے پاس بٹوا ہو وہ اسے لے اور اسی طرح جھولی بھی اور جس کے پاس نہ ہو وہ اپنی پوشاک بیچ کر تلوار خریدے … انھوں نے کہا: اے خداوند دیکھ لو تلواریں ہیں، اس نے کہا بہت ہیں۔[لوقا، ۲۲: ۳۷-۳۸]
بلکہ خود تیری جان بھی چھد جائے تاکہ بہت لوگوں کے دلوں کے خیال کھل جائیں۔ [لوقا، ۲: ۳۶]
جب تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہیں سنو تو گھبرا نہ جانا۔ ان کا واقع ہونا ضرور ہے لیکن اس وقت تک ختم نہ ہوگا۔ کیوںکہ قوم پر قوم ،سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی، جگہ جگہ بھونچال آئے گا اور کال پڑیں گے۔[متی،۲۴: ۶-۸]
انجیل لوقا میں ہے کہ حضرت مسیحؑ کی بعثت کا مقصد لوگوں میں جدائی پیدا کرانا ہے۔ مقصد بعثت پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیحؑ ارشاد فرماتے ہیں :
کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں زمین میں صلح کرانے آیا ہوں؟ میں تم سے کہتا ہوں کہ نہیں، بلکہ جدائی کرانے آیاہوں۔[لوقا، ۱۲: ۵۱]
کیوںکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کیا جائے گا، اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا بڑا کیا جائے گا۔ [لوقا،۱۴: ۱۹]
کیونکہ جو کوئی اپنی جان بچانا چاہے وہ اسے کھوئے گا، اور جو کوئی میری اور انجیل کی خاطر اپنی جان کھوئے گا وہ اسے بچائے گا۔[مرقس، ۸: ۳۵]
اور میرے نام کے سبب سے سب لوگ تم سے عداوت رکھیں گے مگر جو اخیر تک برداشت کرے گا نجات پائے گا۔[متی، ۱۰: ۲۳]
اور بھائی بھائی کو اور بیٹا باپ کو قتل کے لیے حوالے کرےگا اور بیٹے ماں باپ کے خلاف کھڑے ہو کر انھیں مروا ڈالیں گے۔ [مرقس، ۱۳: ۱۲]
عیسیٰ مسیح ؑ اپنے متبعین کو دشمنان حق پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ تم پوری جدوجہد کے ساتھ دشمنوں سے مقابلہ کرو اور اس مقابلے میں تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ انجیل مقدس میں حضرت عیسیٰؑ کا یہ فرمان موجود ہے :
دیکھو میں نے اختیار دیا ہے کہ سانپوں اور بچھوئوں اور دشمن کی ساری قدرت پر غالب آئو، اور تم کو ہر گز کسی چیز سے ضرر نہ پہنچے گا۔[لوقا، ۱۰: ۲۲]
میں زمین میں آگ بھڑکانے آیا ہوں اور آگ لگ چکی ہوتی تو میں کیا خوش ہوتا۔[لوقا، ۱۲: ۴۹]
اگر کوئی میرے پاس آئے اور اپنے باپ اور ماں اور بیوی اور بچوں اور بھائیوں اور بہنوں بلکہ جان سے بھی دشمنی نہ کرے، تو میرا شاگرد نہیں ہو سکتا۔[لوقا، ۱۴: ۲۶]
حضرت موسٰی کی تعلیم صدیوں بنی اسرائیل کے کانوں سے ٹکراتی رہی لیکن ان کی تعلیم ان کی زندگیوں پر قطعاً اثر انداز نہ ہو سکی۔ وہ حد سے زیادہ دنیا طلبی کی طرف راغب تھے۔ خدا ترسی سے وہ بہت دور ہو چکے تھے۔ انھی برائیوں کو دور کرنے کے لیے حضرت مسیحؑ کو اللہ رب العزت نے مبعوث فرمایا اور حضرت عیسیٰؑ نے موسویؑ شریعت میں انھی چیزوں کی تجدید فرمائی۔ پس دین مسیحؑ کوئی علیحدہ دین نہ تھا، بلکہ یہ شریعت موسوی کی تکمیل تھا۔ خود انجیل میں حضرت مسیحؑ کے یہ الفاظ مذکور ہیں :
یہ نہ سمجھو کہ میں توراۃ یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیوں کہ میں تم سب سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں توراۃ کا ایک نقطہ یا ایک شوشہ بھی پورا ہوئے بغیر نہ ٹلے گا۔[متی، ۵: ۱۷-۱۸]
ایک دوسری جگہ اپنے متبعین کو حکم دیتے ہیں :
[فقیہ اور فریسی موسٰی کی گدی پر بیٹھے ہیں۔ پس جو کچھ وہ تمھیں بتائیں سب عمل میں لائو اور مانتے رہو، لیکن ان کے سے کام نہ کرو کیونکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں کرتے نہیں ہیں۔ وہ ایسے بھاری بوجھ جنھیں اٹھانا بھی مشکل ہے دوسروں کے کندھوں پر رکھ دیتے ہیں، مگر انگلی سے بھی ہلانا نہیں چاہتے۔[متی، ۳۳: ۱-۴]
شریعت موسٰی کی معرفت دی گئی اور فضیلت و صداقت یسوع مسیحؑ کی معرفت پہنچی۔ [یوحنا، ۱: ۱۷]
ان تمام اقوال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شریعت موسوی کے احکام و ہدایت کو حضرت مسیحؑ نے نہ صرف باقی رکھا، بلکہ ان پر صداقت و فضیلت کی مہر بھی لگا دی۔
’عہد نامہ قدیم‘ میں بھی بہت ساری آیتیں ہیں جو واضح انداز میں یہ بتاتی ہیں کہ جنگ و جدال کا ہونا طے ہے۔ اس جنگ کے ذریعے سے لوگوں کو ہلاک و برباد کرنے کی تعلیم ملتی ہے۔ ان آیتوں میں یہ بھی تعلیم ملتی ہے کہ جس ملک و قوم پر تم حملہ آور ہو اس کو بالکل ہی نیست و نابود کر دو، سرسبز و شاداب کھیتوں اور باغوں کو جلا کر خاک میں تبدیل کر دینے کی تلقین ملتی ہے۔ یہ آیتیں جنگ کا اتنا بھیانک تصور دیتی ہیں کہ آسمانی کتابوں میں کہیں اور نہیں ملتا۔ رونگٹے کھڑے کر دینے والی یہ آیات ’عہد نامہ قدیم‘ کی کتاب استثناء میں آئی ہیں :
جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو پہنچے تو اسے پہلے صلح کا پیغام دینا اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گذار بن کر تیری خدمت کریں۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو تُو اس کا محاصرہ کرنا، اور جب خدا وند تیرا خدا اسے تیرے قبضے میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا، لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپایوں اور شہر کے سب مال لوٹ کر اپنے لیے رکھ لینا، اور تُو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خدا وند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو، کھانا اور سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں جن کو خدا وند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا۔[کتاب استشناء،۲۰: ۱۶-۱۰]
کسی بھی چیز کا پاس و لحاظ نہ رکھا جائے چاہے وہ انسان ہوں یا حیوان، لوگوں کے مسکن ہوں یا عبادت گاہیں، سب کو تباہ و برباد کر دینے کی تعلیم ’عہد نامہ قدیم‘ میں ملتی ہے جیسا کہ کتاب خروج کی اس آیت سے واضح ہوتا ہے :
اور میں ان کو ہلاک کر ڈالوں گا، تو ان کے معبودوں کو سجدہ نہ کرنا اور نہ ان کی عبادت کرنا، نہ ان کے لیے کام کرنا بلکہ تو ان کو بالکل اُلٹ دینا، ان کے ستونوں کو ٹکڑے کرڈالنا۔[کتاب خروج، ۲۳: ۲-۲۳]
قوموں کو تباہ و برباد کرنے میں اور ان کو تہس نہس کرنے میں کمی و کوتاہی پر تنقید کی جاتی ہے اور کسی بھی قوم سے کوئی ایسا عہد و پیمان کرنے کو شدت سے ممنوع قرار دیا جاتا ہے، جو اس کی تباہی و بربادی میں مانع و مزاحم بنے، جیسا کہ کتاب خروج کی دوسری آیت میں موجود ہے :
سو، خبر دار رہنا کہ جس ملک کو تو جاتا ہے، اس کے باشندوں سے کوئی عہد نہ باندھنا، ایسانہ ہو کہ وہ تیرا پھندا ٹھیرے، بلکہ تو ان کی قربان گاہوں کو ڈھا دینا اور ان کے ستونوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا۔ [کتاب خروج، ۳۴: ۳۱-۱۲]
عہد نامہ قدیم و جدید کے ان اقتباسات پر غور کیا جائے تو دشمنانِ اسلام کے ان اعتراضات پر سخت حیرت ہوتی ہے، جو وہ اسلام کے مقدس تصورِ جہاد پر یہ اعتراض اور کذب بیانی کرتے چلے آرہے ہیں کہ اسلام کی اشاعت و تبلیغ دنیا میں بزورِ تلوار ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی لاچار، مجبور اور مقہور اگر اپنی مدافعت میں جان پر کھیل کر ظالموں کے خلاف جنگ و جدال کی راہ اختیار کرے، اور اپنے حقوق کی بازیافت کے لیے جد وجہد کرے، اور مذہبی آزادی کے لیے جابروں اور ظالموں سے پنجہ آزمائی کرے اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے قربانی پیش کرے، تو کیا یہ قتل و غارت گری کو بڑھاوا دینا ہے؟ کیا یہ اسلام یا مسلمانوں سے منسوب دہشت گردی اور وحشت ہے؟ نہیں، بلکہ اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے یہ ایک نیک عمل ہے۔ یہ تو ظلم و تشدد، قتل و غارت گری، فتنہ و فساد اور بدامنی و ناانصافی کے خلاف ایک منظّم کوشش ہے۔
’عہد نامہ قدیم‘ کی تعلیمات سے قطع نظر ’عہد نامہ جدید‘ میں جنگ اور محرکات جنگ کا خواہ ناقص تصور ہو یا شر پسندوں اور ظالموں سے بلا قید و شرط اغماض اور چشم پوشی ہو، یہ سب تعلیمات اپنے متبعین کوفی الحقیقت سیکنت و طمانیت کی نعمت سے محروم رکھتی ہیں اور کم از کم یہ بات تو حتمی اور قطعی ہے کہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل میں یہ تعلیمات زبردست مانع و مزاحم ہیں، جس میں عدل و انصاف اور امن و آشتی کا ماحول ہو، مظلوموں کی دادرسی کا روح پرور منظر ہو اور شرپسندوں اور فتنہ پروروں کے خلاف محاذ آرائی ہو۔