اپریل ۲۰۱۷

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| اپریل ۲۰۱۷ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

مشکوک آمدنی پر قطع تعلقی؟

سوال :مرکز قومی بچت میں رقم لگانا کیسا ہے ؟ طریق کار یہ ہے کہ لوگ اپنے پیسے جمع کراتے ہیں اورایک لاکھ پر ۱۰۰۰؍۱۱۰۰ روپے ماہانہ کے حساب سے منافع وصول کرتے ہیں اور رقم بھی محفوظ رہتی ہے ۔

میرے کئی جاننے والے ہیں جنھوں نے اپنی رقم قومی بچت کے مرکز میں رکھی ہے ۔ اکثر آسودہ حال ہیں ۔ذاتی مکان ہے ، ۵۰ ہزار روپے ماہانہ پنشن بھی ملتی ہے ۔ مکان کا ایک حصہ کرایے پر بھی دیا ہوا ہے ، خرچ براے نام ہے ۔ میں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی ایسے شخص کے گھر سے جس کی رقم مرکز قومی بچت میں لگی ہو اورمجھے پتا چل جائے تومیں اس کے گھر سے پانی پینا بھی اپنے لیے ناجائز سمجھتا ہوں،البتہ گھروالوں کو اس بارے میں منع نہیں کیا ہے اورکہا ہے کہ جومہمان آئے اس کی مناسب خاطر تواضع کی جائے ، البتہ وہ میرے گھر میں کوئی چیز نہ لائے ۔

کیا میرا یہ فیصلہ درست ہے ؟ دین اسلام کی روشنی میں ایسا کرنا کیسا ہے؟ کئی علما جوازکا بھی فتویٰ دیتے ہیں اورکچھ کہتے ہیں کہ جب حکومت دیتی ہے تو ہم کیوںنہ لیں؟ بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ ایسا کرتے ہیں تو ہم کیوں نہ کریں؟ میری اُلجھن دور فرمادیں؟

جواب:کسی جمع شدہ رقم پر متعین مقدار میں منافع حاصل کرنا ربا (سود ) ہے، جسے اسلام میں حرام قرار دیا گیا ہے ۔ قرآن کریم میں سودی لین دین کرنے والوں کے خلاف اللہ اوراس کے رسولؐ کی طرف سے جنگ کا اعلان کیا گیا ہے ۔(البقرہ۲: ۲۷۸-۲۷۹)، اورحدیث میں ہے کہ سودی کاروبار کرنے والوں اوراس میں معاونت کرنے والوں ، دونوں پراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے (مسلم:۱۵۹۷، ۱۵۹۸)۔ اس لیے اصولی طور پر یہ بات طے شدہ ہے کہ سودی کاروبار اور اس میں ملوث افراد کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔

البتہ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص سود خوری کا ارتکاب کررہا ہوتو کیا اس سے سماجی تعلقات  رکھے جاسکتے ہیں ؟ اس کی تقریبات میں شریک ہوا جاسکتا ہے ؟ اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ؟ اور اگروہ کوئی تحفہ دے تواسے قبول کیا جاسکتا ہے ؟

اس کا فیصلہ کرتے وقت دین کی مجموعی تعلیمات اور شرعی مصلحت کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ۔ ایک طرف اہل خاندان اورسماج میں رہنےوالے دیگر افراد سے تعلقات رکھنے کاحکم دیا گیا ہے اوران سے قطع تعلقی سے روکا گیا ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے سے ہمیں یہی تعلیم ملتی ہے ۔ آپؐ نے نہ صرف اپنے خاندان والوں، اوردیگر اہل ایمان سے خوش گوار تعلقات رکھے، بلکہ سماج کے دیگر غیر مسلم افراد اور غیر مسلم حکم رانوں سے بھی روابط رکھے، اور ان کے ساتھ تعلقات میں خوش گواری کے لیے انھیں ہدیے بھیجے اوران کے ہدیے قبول کیے ۔ دوسری طرف حرام مال اورحرام مشروبات سے احتراز کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس لیے فقہا نے یہ راے ظاہر کی ہے کہ اگر کسی شخص کی کل آمدنی یا اس کا زیادہ تر حصہ سود پر مبنی ہوتو اس کی دعوت یا اس سے کوئی تحفہ قبول کرنا جائزنہیں ، لیکن اگرایسا نہ ہو اوراس کی زیادہ تر آمدنی حلال ذرائع سے ہوتو اس کی دعوت یا اس کا تحفہ قبول کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں ہے ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سیکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی (بھارت) نے فتاویٰ عالم گیری کے حوالے سے لکھا ہے:’’اگر معلوم ہوکہ دعوت سودی پیسے سے کی جارہی ہے تب تو دعوت میں شریک ہونا قطعاً جائز نہیں ہے اوراگر دعوت کا حلال پیسےسے ہونا معلوم ہوتو دعوت میں شرکت جائزہے،اور اگر متعین طورپر اس کا علم نہ ہو تو پھر اس بات کا اعتبار ہوگا کہ اس کی آمدنی کا غالب ذریعہ کیا ہے ؟ اگر غالب حصہ حرام ہے تو دعوت میں شرکت درست نہیں اورغالب حصہ حلال ہے تو دعوت میںشرکت جائز ہے‘‘ ۔(کتاب الفتاویٰ ، زمزم پبلشرز ، کراچی ،ج۶، ص ۲۰۱،بہ حوالہ الفتاویٰ الہندیۃ: ج۵، ص ۳۴۳)

علما یہ بھی کہتے ہیں کہ جولوگ سودی کاروبار اور لین دین میں ملوث ہوں ان کی دعوتوں میں شرکت کرنے سے سماج کے سربر آوردہ لوگوں اورخاص طور پر علما کو احتراز کرنا چاہیے ، تاکہ ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہواور دو سروں تک درست پیغام جائے ۔

بہر حال اس معاملے میں دینی مصلحت اور شرعی تقاضوں کو پیش نظر رکھنا چاہیے اوراس کے مطابق جوبات مناسب لگے اس پرعمل کرنا چاہیے۔(مولانا ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی)


مطلقہ ماں کا حقِ حضانت (پرورش)

سوال : اخبار میں ایک استفسار کے جواب میں درج ہے: ’’شرعاً والد کو یہ حق حاصل ہے، بلکہ اُس کے لیے ضروری ہے کہ اگر طلاق کی نوبت آئے تو اپنی ساری اولاد کو    وہ اپنے پاس رکھے۔ والدہ کو اولاد رکھنے کا کوئی حق نہیں، مگر حدیث پاک میں آیا ہے کہ:

۱- ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے، میرا بطن اس کی جاے قرار تھی۔ میرے سینے سے اس نے دودھ پیا اور میری آغوش نے اِسے پالا ہے۔ اب اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور چاہتا ہے کہ اسے مجھ سے چھین لے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جب تک تو نکاح نہ کرے، تو اِس بچے کی زیادہ حق دار ہے‘‘۔ (مشکوٰۃ ، بلوغ الصغیر وحضانتہ)

۲- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک لڑکے کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو باپ کے پاس رہے اور چاہے تو ماں کے پاس۔(ایضاً)

۳- ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: ’’میرا خاوند چاہتا ہے کہ میرے بیٹے کو لے جائے ، حالاں کہ وہ [بچہ]مجھے پانی لا دیتا ہے اور میرے کام آتا ہے۔ آپؐ نے اس لڑکے سے فرمایا: ’’یہ تمھارا باپ ہے اور یہ تمھاری ماں ہے، جس کا ہاتھ چاہو پکڑلو‘‘۔ اُس نے ماں کا ہاتھ تھام لیا اور وہ اُسے لے کرچلی گئی۔ (ایضاً)

۴- حضرت ابوہریرہؓکے پاس ایک فارسی عورت آئی، جس کے ساتھ اُس کا بیٹا تھا، اور جس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی تھی۔ میاں بیوی نے حضرت ابوہریرہؓ کے سامنے اپنے مقدمے کو پیش کیا۔ عورت نے اپنی زبان میں کہا: میرا خاوند، میرے بیٹے کو  لے جانا چاہتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا: ’’بچے کے بارے میں قرعہ ڈال لو‘‘۔ خاوند نے آکر کہا: ’’میرے بیٹے کے بارے میں میرے استحقاق میں کون جھگڑا کرسکتا ہے‘‘؟ حضرت ابوہریرہؓ نے جواب دیا: میں یہ بات صرف اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور ایک عورت نے آکر کہا: ’’میرا خاوند میرے بیٹے کو لینا چاہتا ہے، حالاں کہ بچہ میرے کام کرتا ہے اور مجھے پانی لا دیتا ہے‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’دونوں میں قرعہ ڈال لو‘‘۔ باپ نے کہا: ’’میرے بیٹے کے بارے میں کون جھگڑا کرسکتا ہے‘‘؟ آپؐ نے بچے سے فرمایا: ’’یہ تمھارا باپ ہے اور یہ تمھاری ماں ہے، جس کا ہاتھ چاہو پکڑلو‘‘۔ اُس نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔ (ایضاً)

۵- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے والدہ اور اُس کے بیٹے کے درمیان جدائی ڈالی، اللہ تعالیٰ اُس کے اور اُس کے پیاروں کے درمیان قیامت کے روز تفریق کرے گا‘‘۔ (مشکوٰۃ حق الملوک والفضات)


براہ کرم ان احادیث کی روشنی میں متذکرہ بالا بیان کی تصحیح فرما دیں؟

جواب :آپ کی تنبیہہ کا شکریہ۔ سوال و جواب جس شکل میں شائع ہوا ہے، اُس پر آپ کے ذہن میں اشکال کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ سائل نے اپنے حالات بہت تفصیل سے تحریری اور پھر زبانی بیان کیے تھے، اور اُن کا مطالبہ یہ تھا کہ دلائل اور تفصیلات کے بغیر اُنھیں ایک مختصر اور قطعی جواب دیا جائے۔ اس سوال و جواب کی اشاعت قطعاً پیشِ نظر نہ تھی، لیکن کسی نامعلوم وجہ کی بنا پر اُنھوں نے سوال کا ایک بے ربط سا خلاصہ اور میرا مجمل جواب اخبار میں شائع کرا دیا۔ بہرحال، اب جب شائع ہوچکا ہے اور آپ نے اس پر اعتراض وارد کر دیا ہے تو میں دوبارہ اپنے مدعا کو واضح طور پر بیان کیے دیتا ہوں۔

آپ نے جو پانچ احادیث نقل فرمائی ہیں ،اُن میں سے پانچویں حدیث تو تفریقِ زوجین  اور حضانت ِ صغیر سے متعلق نہیں ہے۔ وہاں والدہ اور وَلد سے مراد لونڈی اور اُس کی اولاد ہے اور تفریق سے مراد بچوں کو ماں سے جدا کر کے باپ کے سپرد کرنا نہیں ہے، بلکہ والدہ اور بچوں کو الگ الگ افراد کے سپرد کرنا ہے، یا اُن کے ہاتھ بیچ دینا ہے۔ مگر متعدد احادیث سے بھی اس فعل کی ممانعت ثابت ہے۔ بقیہ پہلی چار احادیث سے درج ذیل احکام مستنبط ہوتے ہیں:

۱- زوجین کی تفریق اور اولادِ  صِغَار [چھوٹی عمروں]کی موجودگی کی صورت میں اولاد  اگر سنِ تمیز کو نہ پہنچی ہو اور مادرانہ شفقت کی محتاج ہو، تو والدہ اُسے اپنی حضانت (پرورش) میں رکھنے کی زیادہ حق دار ہے، بشرطیکہ وہ نکاحِ ثانی نہ کرے۔

 ۲- اگر اولاد سنِ تمیز کو پہنچ جائے تو ایسی صورت میں یا تو قرعہ اندازی کی جائے گی، یا پھر اگر والدین میں سے کوئی ایک یا، دونوں اس کے لیے رضامند نہ ہوں، تو بچے کو اختیار دیا جائے گا کہ وہ والدین میں سے جس کے ساتھ رہنا پسند کرے، اُسی کے ساتھ ہوجائے۔

یہ اُصول جو سنت ِ نبویؐ سے ثابت ہیں، اِن سے اختلاف کی کسی مسلمان کو گنجایش نہیں۔ البتہ، ائمۂ سلف نے ان اور اسی قبیل کی دوسری احادیث کے سیاق و محل کا لحاظ رکھتے ہوئے، نیز والدین اور اولاد کے باہم دگر شرعی حقوق اور ذمہ داریوں کو من حیث المجموع نگاہ میں رکھتے ہوئے، والدہ کے حقِ حضانت کے لیے چند مزید شرائط و حدود بیان کیے ہیں، مثلاً: علماے مذاہب اربعہ کا قریب قریب اس پر اتفاق ہے کہ حسب ذیل عُیوب اگر والدہ میں ہوں درآں حالیکہ والد ان سے بری ہو، تو والدہ کا حقِ حضانت ساقط ہوجائے گا:

l ارتداد l فتورِ عقل l ترکِ صوم و صلوٰۃ یا علانیہ فسق و فجور l تربیت ِ اولاد سے قطعی غفلت l اولاد کو لے کر کسی ایسے ماحول میں رہنا، جہاں فسادِ اخلاق کا اندیشہ ہو، یا کسی ایسے دُورافتادہ شہر میں جاکر مقیم ہونا، جہاں والد کے لیے اولاد کی تعلیم و تربیت کی دیکھ بھال دشوار ہو۔ lوالد کے عدمِ استطاعت کے باوجود اُس سے اولاد کے نفقے کا مطالبہ کرنا۔

اسی طرح فقہا کی راے یہ بھی ہے کہ والدہ کے پاس رہنے کی مدتِ حضانت سات یا زیادہ سے زیادہ نو برس ہے۔ اس کے بعد والد کو حق حاصل ہے کہ وہ اولاد کو اپنے چارج میں لے لے۔

اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان شرائط میں سے کوئی شرط بھی مذکورہ احادیث یا عام اصولِ شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ اولاد کے نان نفقے، اُن کی مادی و اخلاقی تربیت، اُن کی تعلیم، ہُنرآموزی اور اُن کے شادی بیاہ کی اصل ذمہ داری والد پر ہے، نہ کہ والدہ پر۔ مرد ہی بحیثیت قوامِ خاندان قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا [التحریم ۶۶:۶] کا اوّلین مخاطب ہے۔ ان حالات میں یہ کس طرح قرینِ قیاس ہوسکتا ہے کہ والدہ کو غیرمعین مدت کے لیے علی الاطلاق حقِ حضانت دے دیا جائے، کہ وہ والد کی خواہش کے علی الرغم جس سانچے میں چاہے اولاد کو  ڈھال دے اور پھر اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے اولاد کو والد کے حوالے کردے۔

اسی بناپر یہ کہنا بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا کہ مدتِ حضانت کو سنِ بلوغ تک لازماً طول دینا چاہیے۔ جب اولاد بالغ اور صاحب ِ اختیار ہوگئی، تو اُس وقت اُس کے والد کی ولایت میں آنے کے کوئی معنی ہی باقی نہیں رہتے۔ اُس وقت وہ ایک طرح سے اپنے نفع و ضرّر کی خود مکلف اور   ذمہ دار بن جاتی ہے۔ اس لیے حکمت ِ شریعت عین اس امر کی متقضی ہے کہ ایک طرف تو مدتِ حضانت کی ایک مناسب حد متعین کی جائے، اور دوسری طرف والدہ کے حقِ حضانت پر مناسب قیود عائد کی جائیں۔ والدہ پر عدمِ نکاح اور عدمِ ارتداد کی قید خود احادیث میں آگئی ہے۔ اسی سے مزید پابندی اور تحدید کا جواز نکل سکتا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر دوسری شرائط کا ذکر نہیں فرمایا، تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جو مقدمات آپؐ کے سامنے پیش ہوئے اُن میں والدہ کی طرف سے اس طرح کے خدشات کے بارے میں امن و اطمینان تھا ورنہ خاموش نہ رہتے، بلکہ والدہ کی حضانت کی صورت میں متوقع مضرات کو ضرور بیان کرتے اور اپنے آپ کو زیادہ حق دار ثابت کرنے کے لیے صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا نہ کرتے کہ باپ سے بیٹے کے معاملے میں کون جھگڑسکتا ہے، بلکہ ساتھ یہ بھی کہتے کہ والدہ اس کی تربیت خراب کرے گی۔ گویا کہ اِن جھگڑوں میں، والدین میں سے کسی ایک کے صالح اور دوسرے کے غیرصالح ہونے کا سرے سے سوال تھا ہی نہیں، صالحیت کے لحاظ سے والدین مساوی تھے۔

اصل تقابل صرف ماں کی مامتا یا اس کے احتیاج اور پدری محبت کے درمیان تھا۔ ایسی صورت میں ماں کو ترجیح دی گئی ہے، یقینا اب بھی دی جائے گی۔ اس سے یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اگر ماں تربیت ِ اولاد کی عظیم ذمہ داریاں اُٹھانے کے لیے قطعی نااہل ہو، تب بھی اُس کے حقِ حضانت کو مقدم رکھ کر اولاد اُس کے سپرد کر دی جائے گی۔(جسٹس ملک غلام علی، رسائل و مسائل، ششم، ص ۴۹۶-۵۰۱)