اپریل ۲۰۱۷

فہرست مضامین

جنوب مشرقی ایشیا میں اشاعتِ اسلام

مولانا محمد فاروق خان | اپریل ۲۰۱۷ | تاریخ و دعوت

Responsive image Responsive image

جس طرح نبیوں کی منصبی ذمہ داری یہ رہی ہے کہ وہ اپنی قوم تک خدا کا پیغام پہنچائیں،  اسی طرح خدا کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی منصبی ذمہ داری یہ تھی کہ ساری انسانیت تک حق کا پیغام پہنچائیں اور راہِ راست سے باخبر کریں۔ آپؐ نے اپنی زندگی میں بغیر کسی فرق وامتیاز کے اس فرضِ منصبی کو ادا فرمایا، اور آپؐ کی زندگی ہی میں ۱۰لاکھ مربع میل پر دین اسلام قائم ہوگیا۔ آپؐ نے نہ صرف یہ کہ اپنے زمانے کے لوگوں کی ہدایت کی فکر کی بلکہ روزِ قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کی ہدایت کی فکر بھی آپؐ کو دامن گیر تھی۔ آپؐ نے اپنے پیچھے جو امت چھوڑی اس کی منصبی ذمہ داری بھی یہی قرار دی کہ وہ سارے عالم کی پاسبان ہو اور اس کی پوری کوشش یہ ہو کہ دنیا حق کے پیغام سے بے خبر نہ رہے۔ آپؐ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا: انتم شہداء اللہ فی الارض، ’’تم زمین میں اللہ کے گواہ ہو‘‘۔ یہ بات تین بار آپؐ نے فرمائی۔

اللہ رب العزت نے امت مسلمہ کو جس منصب پر فائز کیا ہے اس سے بلند مقصد کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ تمھیں صرف اپنے لیے نہیں بلکہ سارے عالم کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ اس میں رنگ ونسل اور ملک کی کوئی قید نہیں ہے۔ قرآن حکیم میں اہل ایمان کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تمھیں ہم نے ’بہترین اُمت‘ بنایا ہے تاکہ تم سارے ہی انسانوں پر گواہ رہو، اور ان کے سامنے حق کو اسی طرح پیش کرو جس طرح خدا کے نبی ؐنے تمھارے سامنے حق کو بے کم وکاست پیش فرمایا ہے۔ (البقرہ ۲:۱۴۳)

اُمت مسلمہ ایک داعی امت ہے۔ اس کے پاس ایک دائمی اور آفاقی پیغام ہے، جو سراپاخیر ہے اور جس میں انسانوں کا مال دار طبقہ ہو یا نادار، جن کی بنیادی ضرورتیں بھی پوری ہونی مشکل ہورہی ہوں، خیرخواہ ہو یا بدخواہ، دوست ہو یا دشمن، صلح جُو ہو یا برسرپیکار، قوی ہو یا کمزور، عورت ہو یا مرد، بچہ ہو یا بوڑھا، سب کی رعایت کی گئی ہے اور سب کے حقوق کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق اصلاً صرف ظاہری زندگی ہی سے نہیں بلکہ انسان کی روحانی اور باطنی زندگی سے بھی ہے۔ اس دین میں پاکیزگی اور نظافت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس کا مزاج حیا سے زیادہ لطیف ہے۔ بھلائی اور خیر اس کا عنوان ہے۔ چنانچہ دین کو ’نصح‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان کی زندگی میں ایک ایسا انقلاب آئے جو اس کی فکر کو آفاقی فکر بنادے اور ہر طرح کی تنگ دامانیوں اور خودغرضی کی گندگیوں سے اسے نکال دے، اور وہ یہ سمجھ جائے کہ سارے انسان باہم ایک دوسرے کے اعضا کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہم دنیا اور اہل دنیا کو اپنی تنگ نگاہوں سے نہیں بلکہ حکیم و ودود، حی وقیوم خدا کی نگاہ سے دیکھنے لگیں۔ ہمارے قلب اتنے وسیع ہوجائیں کہ آسمان کو بھی اپنا دامن تنگ نظر آنے لگے۔

قرآن میں ہے کہ سارے انسان ایک گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ باہمی عناد، دشمنی اور بُغض، یہ شیطان کے لگائے ہوئے پودے ہیں۔ حضوؐر نے بھی انسانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے۔ بھائی، بھائی کا خیرخواہ ہوتا ہے بدخواہ نہیں۔ بھائی کی ترقی سے بھائی کو خوشی ہوتی ہے رنج نہیں۔ دوسروں کی دولت و ثروت کو دیکھ کر خوشی محسوس کرنا سب سے بڑی سخاوت ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے سے غافل نہ ہو، دنیا کی زندگی میں یہی کافی ہے۔ آرزوئیں، تمنائیں اور بڑی بڑی خواہشات جو انسان کے اندر پائی جاتی ہیں، آخرت انھی کی تعبیر ہے۔

اسلام کی یہ تعلیمات اور اس کا یہ پیغام ایسا ہے کہ دنیا کو سب سے زیادہ اسی کی ضرورت ہے، اور یہ ضرورت وہی لوگ پوری کرسکتے ہیں جو اس دین کے حامل ہیں، جو خدا کا نازل کردہ  دین ہے اور جن کے پاس دین حق اور خدا کی کتاب مستند شکل میں موجود ہے۔

ہر مسلم شخص کی حیثیت منصب کے لحاظ سے داعی کی ہے۔ دعوتی کام فرض عین ہے۔ اسے فرض کفایہ سمجھنا غلط ہے، جیساکہ مجدد الف ثانیؒ نے فرمایا تھا۔ دورِ اول میں مسلمانوں کے اندر  دعوتی جذبہ بخوبی پایا جاتا تھا۔ وہ جہاں بھی گئے، خواہ تجارت ہی کے لیے گئے ہوں،اپنے ساتھ دعوت حق کو لے کر گئے اور انھوں نے لوگوں کو اس سے روشناس کرایا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہرگوشے میں دینِ حق کا نام لینے والے موجود ہیں۔ بعد کے دور میں، جب کہ مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی تو ایسا لگتا ہے کہ وہ اس بات کو بھول گئے کہ ان کی عزت اور عظمت کا اصل تعلق اس منصب سے ہے جس پر اللہ نے انھیں فائز کیا ہے۔ مسلمانوں میں چھوٹی بڑی کتنی تحریکیں اٹھیں اور کتنی تنظیمیں پائی جاتی ہیں، لیکن ان کے دستور میں فرضِ منصبی ’دعوت‘ کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا، الاماشا اللہ۔ پھر بھی اسلام اپنی قوت اور جاذبیت سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا رہا ہے اور سعادت مند روحیں اسلام سے مستفید ہوتی رہی ہیں۔ اس تحریر میں پاک و ہند میں اشاعت اسلام کی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر یہ دعوتی جذبہ اُبھرے اور کبھی سرد نہ پڑے۔

اسلام کا پیغام خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں جزیرئہ عرب سے باہر دوسرے ملکوں میں پہنچنا شروع ہوگیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قیصر وکسریٰ کو دعوتی خطوط روانہ فرمائے تھے۔ دنیا سے آپؐ کو رخصت ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ اسلام دنیا کے ایک بڑے حصے پر چھا گیا اور اس کا پیغام دوردراز علاقوں تک پہنچ گیا۔ جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے خود حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو اس ملک سے خصوصی دل چسپی تھی اور آپؐ چاہتے تھے کہ یہ ملک دین حق کی برکات سے محروم نہ رہے۔ چنانچہ آپؐ نے ان لوگوں کو بشارت دی جو ہندستان میں دعوت حق کے پہنچانے کی عظیم ذمہ داری ادا کریںگے۔ حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت کے دو گروہوں کو اللہ نے جہنم کی آگ سے محفوظ رکھا ہے۔ ان میں سے ایک جماعت وہ ہے جو ہندستان کے غزوے میں شریک ہوگی‘‘۔(نسائی)

  •  صحابہ کرامؓ کی آمد: آپؐ کی رحلت کے بعد صحابہ کرامؓ نے غیرمنقسم ہندستان کی طرف توجہ کی۔ صحابہ کرامؓ کے نفوس قدسیہ سے ہندستان کو فیض یاب ہونے کا موقع ملا۔ ہندستان میںصحابہؓ کی آمد ۱۵ھ سے شروع ہوئی اور یہ سلسلہ بعد تک جاری رہا۔ حضرت عمرو بن العاص ثقفیؓ جو بحرین کے گورنر تھے، انھوں نے حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں عمان کے راستے سے ہند کے ساحل پر ایک لشکر بھیجا تھا، یہ لشکر تھانہ (ممبئی) اور بھڑوچ (گجرات) تک پہنچ گیا تھا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفیؓ بھی بحرین کے گورنر مقرر ہوئے تھے۔ انھوں نے تین اطراف سے ہندستان پر فوج کشی کی تھی۔ یہ فوج کشی ان کے بھائی حکم بن ابی العاصؓ کی سرکردگی میں کی گئی تھی۔ اس مہم میں تھانہ اور بھڑوچ دونوں ساحلی مقاموںپر فتح حاصل ہوئی۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ نے ایک بحری فوج اپنے دوسرے بھائی حضرت مغیرہ بن ابی العاص کی زیرقیادت دیبل کی طرف روانہ کی تھی۔ یہ لشکر بھی فتح یاب ہوا۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ لشکر کشی کا اصل مقصداشاعتِ اسلام تھا۔ جنگ کی نوبت اسی وقت آتی جب اشاعت اسلام کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتیں۔

حضرت علیؓ نے ۳۰ھ میں حضرت حارث بن مرہ عبدیؓ کو اس کی اجازت دی کہ وہ رضاکاروں کی جماعت لے کر ہندستان کا رخ کریں۔ حضرت معاویہؓ کے عہد میں ۴۴ھ میں حضرت مہلب بن ابی صغرہؓ نے بھی ہندستان کارخ کیا تھا۔ حضرت مہلبؓ نے دریاے سندھ کو  پار کرکے ملتان تک فتح کرلیا تھا۔ اسی لیے بعض تاریخ کی کتابوں میں انھیں ہندستان کا فاتحِ اول کہا گیا ہے۔

۹۹ھ میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ ہوئے۔ انھوں نے ہندستان کے راجائوں کو خطوط لکھے۔ ان خطوط میں انھیں اسلام لانے کی دعوت دی گئی اور انھیں اسلام کی خوبیوں سے واقف کرایا گیا۔ بہت سے لوگ ایمان بھی لائے۔ آپ نے عمر بن مسلم باہلی کو سندھ کا گورنر مقرر کرکے بھیجا اور تمام راجائوں کو خط تحریر فرمایا۔ خط کا مضمون یہ تھا:

تم اسلام قبول کرلو اور بت پرستی کی ظلمت سے نکل آئو۔ اگر تم مسلمان ہوتے ہو تو تمھیں تمھاری ریاست پر بدستور قائم رکھیںگے۔ تمھاری خطائیںمعاف کردیںگے اور تمھارے ساتھ ہمارا سلوک سب مسلمانوں جیسا ہوگا اور تمھیں اپنا بھائی سمجھیںگے۔

جب یہ خطوط رئوساے ہند کے پاس پہنچے تو سب سے پہلے ابن داہر نے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد دوسرے راجائوں نے بھی جو عام طورپر اس کے رشتے دار تھے، اسلام قبول کرلیا۔

  •  محمد بن قاسم: ہند میں اشاعت اسلام کے تعلق سے محمد بن قاسم کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ محمد بن قاسم کی فوج کشی کے وقت لنکا میں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی تھی اور وہ عربوں کی تجارت کا ایک مرکز بن چکا تھا۔ لنکا سے عرب تاجروں کا ایک جہاز عراق جارہاتھا جس کو سندھ کی بندرگاہ دیبل کے قریب راجا داہر کے لوگوں نے لوٹ لیا۔ عرب تاجروں کو قید کرلیا گیا جن میں ایک لڑکی بھی تھی۔ حجاج کو جب اس کی اطلاع ملی توحجاج نے راجا داہر کو لکھا کہ عربوں کو عزت و احترام کے ساتھ بصرہ روانہ کردے اورمجرموں کو قرار واقعی سزا دے۔ راجا داہر نے اس مطالبے کو رد کردیا اور کہلا بھیجا کہ یہ حرکت بحری ڈاکوئوں کی ہے جومیرے بس سے باہر ہیں۔

حجاج نے محمدبن قاسم کو لشکر کے ساتھ سندھ روانہ کیا۔ محمد بن قاسم کی عمر اس وقت صرف ۱۷سال تھی لیکن وہ بڑی سوجھ بوجھ کے مالک تھے۔ محمد بن قاسم سندھ جاتے ہوئے، سپرستان کے علاقے سے گزرے تو چناقوم نے اپنے ایک آدمی کو بھیجا کہ وہ چھپ کر مسلمانوں کے حالات سے واقفیت بہم پہنچائے۔ وہ جب اسلامی لشکر کے قریب آیا تو اس وقت محمد بن قاسم نماز کے لیے صفیںدرست کرا رہے تھے۔ اسلامی لشکر نے ان کی امامت میں نماز ادا کی۔ چنا قوم کے آدمی نے بچشم خود جو کچھ مشاہدہ کیا واپس جاکر بے کم و کاست اپنی قوم سے بیان کیا۔ قوم پر اس کا غیرمعمولی اثر ہوا۔ اس قوم کے لوگ اسلام قبول کرنے کے ارادے سے محمد بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

محمد بن قاسم کے زمانے سے ہندستان میں مسلمانوں کی فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے انھوں نے سندھ کو فتح کیا۔ یہاں کے لوگوں میں اعلان کرادیا کہ تم سب آزاد ہو، تمھیں کسی قسم کی تکلیف نہیں دوںگا، کسی کے مذہب میں کسی قسم کی دست درازی نہیں کی جائے گی۔   محمدبن قاسم نے حجاج کی نصیحت کو اپنے پیش نظر رکھا۔ حجاج نے کہا تھا:’’ہر ایک کو کلمۂ اسلام کی دعوت دینا اور جو کوئی مشرف بہ اسلام ہوجائے اس کی تربیت کا نظم کرنا‘‘۔

قیامِ حکومت کے ساتھ ساتھ محمد بن قاسم دعوت حق کے فرائض انجام دیتے رہے۔ تربیتی ادارے، مساجد اور مدارس بھی قائم کیے۔ محمد بن قاسم نے الور میں مدرسے کے علاوہ دارالقضا بھی قائم کیا تھا۔ دیبل کی فتح ۵۳ھ کے بعد وہاں چار ہزار مسلمانوں پر مشتمل ایک بستی آباد کی گئی۔  ایک مسجد کی تعمیر بھی ہوئی۔ یہ چار ہزار افراد حقیقت میں چار ہزار مبلغینِ اسلام تھے۔

محمد بن قاسم کا اتنا اچھا اثر تھا کہ جب وہ سندھ سے رخصت ہونے لگے تو مسلمان ہی نہیں ہندو بھی ان کی جدائی پراشک بار ہوگئے اورکہا کہ ’’آپ جیسا مہربان فاتح کبھی بھی نصیب نہیں ہوا۔ ہم آپ کے محاسن کو ہمیشہ یاد رکھیںگے‘‘۔ انھوں نے محمد بن قاسم کی یاد میں ایک دھرم شالہ بھی تعمیر کیا۔ کچھ ہندوئوں اور بودھوں نے محمد بن قاسم کا بت بناکر اس کی پرستش بھی شروع کردی۔

  •  مالابار: ہندستان میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہونے سے پہلے ہی اسلام پھیلنے لگا تھا اورجب مسلم فوجیں لڑائیوں میں مصروف تھیں، اس وقت بھی کتنے ہی مسلم علما ومشائخ کے ذریعے سے اشاعت اسلام کا کام ہورہا تھا۔خاص طور سے پنجاب اوربنگال میں بہت سے لوگ ان کی تقاریر کے اثر سے اسلام میںداخل ہوئے۔ رہی بات مالابار کے علاقے میں اسلام کے پھیلنے کی تو وہاں اولین دور میں اسلام کی مقبولیت کی وجہ وہاں کے راجا سامری (سامدری) کا مسلمان ہونا بتایا جاتا ہے۔ دوسری صدی ہجری کے بعد کا واقعہ ہے کہ مشائخ کی ایک جماعت لنکا کی طرف جارہی تھی لیکن مخالف ہوا کی وجہ سے ان کی کشتی مالابار کے شرکون (کوچن) پہنچ گئی۔ اس جماعت نے وہاں کے حاکم (راجا) سامری جسے زمورن (چیرامن پرومل) بھی کہا جاتا ہے، اس سے ملاقات کی۔ یہودیوں، نصرانیوں نے سامری کواسلام کے بارے میں غلط باتیں بتا رکھی تھیں۔ اب سامری کو تحقیق کا موقع ملا۔ اس نے اسلام اور پیغمبرؐ اسلام کے بارے میںصحیح معلومات حاصل کیں۔ تحفۃ المجاہدین کے حوالے سے تاریخ  فرشتہ میں یہ قصہ نقل ہوا ہے۔

راجا سامری (زمورن) مسلمان ہوگیا لیکن اس نے اپنے ایمان کو مخفی رکھا۔ راجا عرب گیا، عرب ہی میں انتقال ہوا۔ مرتے وقت اس نے تاکید کی کہ ہم سبھی کا مقصد اسلام کی اشاعت ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ لوگ مالابار اپنا تجارتی سفرجاری رکھیں، وہاں قیام کریں، مکان بنائیں اورلوگوں کو دین حق کی طرف متوجہ کریں۔ راجا نے اپنی زبان میں خطوط بھی لکھ کر عرب تاجروں کے حوالے کیے۔ جب انھوں نے وہ خطوط مالابار کے حاکم کو دکھائے تو وہ مہربان ہوگیا۔ اس طرح اشاعت اسلام کی راہ یہاں ہموار ہوئی اورمسلمانوں نے کولم، گرنگانور، کالی کٹ، منگلور، کاسہ کوڈ وغیرہ کئی مقامات پر مساجد تعمیر کیں۔

مدراس اور مالابار کے اطراف میں جو لوگ بستے تھے وہ ویدک یا برہمنی مذہب کے پیرو نہیں تھے۔ ان کی اکثریت ہندستان کے قدیم باشندوں پر مشتمل تھی جن کو آریوںنے اس علاقے میں پناہ لینے پر مجبور کیا۔ مالابار اور اس کے اطراف میں جو پرانی قوم آباد ہے، وہ نائر کہلاتی ہے۔ اس کے پاس اپنا کوئی باقاعدہ مذہب نہ تھا۔ ہندو اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ اسلام میں انھوںنے اپنی عزت محسوس کی اور تیزی سے یہ قوم اسلام کی طرف بڑھی۔ یہ پورا علاقہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوجاتا اگر یہاںپرتگیز نہ پہنچتے۔ پرتگیزوں نے عربوں کی تجارت کا راستہ بند کردیا اور یہاں کے لوگوںکو مجبور کیا کہ وہ عرب اور مصر سے اپنے تعلقات منقطع کرلیں۔ عرب سے ہندستان کے ساتھ تجارتی تعلقات اسلام سے پہلے سے چلے آرہے تھے۔ عرب تاجر خلیج فارس کی بندرگاہوں سے ہوتے ہوئے سندھ آتے تھے اور پھر سمندر کے کنارے کنارے کوکن اور گجرات کے ساحل سے گزر کر مدراس پہنچتے اور یہاںسے مشرقی بنگال اورآسام ہوکر چین کی طرف نکل جاتے تھے۔ راستے میں مالدیپ، سیلون، جاوا، سماترا، سنگاپور اور دوسرے جزائر کا بھی رخ کرتے تھے۔ پرتگیزوں نے مالابار اور اس کے اطراف میں اسلام کی اشاعت کی راہ میں بڑی رکاوٹ کھڑی کردی ورنہ اس علاقے کا نقشہ آج کچھ دوسرا ہوتا۔ عرب اور ایران کے سوداگروں کی کوشش سے گجرات اور دکن کا علاقہ پورا کا پورا مسلمان ہوجاتا۔ پندرھویں صدی عیسوی کی ابتدا میں مالابار کی کل آبادی کا پانچواں حصہ مسلمان تھا۔ شیخ شریف بن ملک کے اثر سے بھی مالابار کے ایک راجا نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ واقعہ دوسری صدی ہجری کا ہے۔

  •  لنکا: جزیرئہ سیلون میںاسلام دوسری صدی ہجری میں مسلم سیاحوں کے ذریعے سے پہنچا۔ ان سیاحوں میںشیخ شریف بن ملک اور مالک بن دینار زیادہ مشہور وممتاز ہیں۔ ان ہی کی کوششوں سے گرانگانور کا راجا مسلمان ہوا تھا۔ ایک ایرانی مسلم شخصیت ابن شہریار کے نزدیک ہندستان کے جزیروںمیں سب سے پہلے سراندیپ (لنکا) میں اسلام کی روشنی پھیلی۔اس کے بعد مالابار کا علاقہ ہے جہاں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ ابن شہریار (م: ۴۰۴ھ) نے لکھا ہے کہ جب عرب تاجروں کے ذریعے سے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر سراندیپ کے لوگوں نے سنی، توانھوں نے ایک شخص کو تحقیق کوائف کے لیے عرب بھیجا۔

اس کے بعد یہاںاسلام کی اشاعت تیزی سے ہونی شروع ہوگئی۔ تاریخ فرشتہ کی رُوسے ہندستان میںاسلام کا پہلا مرکز سیلون ہے اور تحقیق کے لیے جو پہلا وفد عرب روانہ ہوا تھا اس کا تعلق بھی سیلون ہی سے تھا۔ عرب تاجروں کے قافلوں کی آمد کا ایک سلسلہ یہاں قائم ہوگیا تھا۔ لنکا کے راجا کو صحابہ کے عہد مبارک (۴۰ھ) ہی میں مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

  •  مالدیپ: مالدیپ اسلام کا دوسرا مرکز تھا۔ جزائر مالدیپ پر مسلمانوں نے کوئی چڑھائی نہیں کی۔ آٹھویںصدی عیسوی میں وہاں کا راجا مسلمان ہوگیا، پھر ساری آبادی ہی نے اسلام قبول کرلیا۔ یہاں کے راجا اوریہاں کے باشندوں کے ایمان لانے کا سبب شیخ ابوالبرکات بربری مغربی کی ذات گرامی تھی۔ شیخ ابوالبرکات مالدیپ میں ایک شخص کے مہمان تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی کو اچھا لباس پہنا رہے ہیں اوراس کا بنائو سنگار کیا جارہا ہے، مگر    اس کے ساتھی لوگ رو بھی رہے ہیں۔ شیخ نے سبب دریافت فرمایا تو انھیں بتایا گیا کہ ہر سال سمندر میں ایک بڑی طغیانی آتی ہے۔ اس طوفان کو فرو کرنے کے لیے ایک اکلوتی بیٹی کو بھینٹ چڑھایا جاتا ہے۔ نوجوان میزبان نے کہا کہ اس سال باری میری لڑکی کی ہے۔ میں راجا کے حکم سے مجبور ہوں کہ اپنی لڑکی کو بھینٹ چڑھا دوں۔ شیخ نے کہا کہ اس کے بجاے مجھے لباس پہناکر بھیج دو۔ میں بلا سے نپٹ لوںگا۔ میزبان نے انکار کیا کہ میں کیسے ایک مہمان کو ہلاکت کے حوالے کرسکتا ہوں! مگر شیخ نے بے حد اصرار کیا اور بالآخر انھیں سمندر سے ملحق ایک مندر میںچھوڑ آئے تاکہ وہ سمندری طوفان کی نذر ہوجائیں اور لوگ بلا سے نجات پالیں۔ زورکا جوار بھاٹا چڑھا۔ کہتے ہیں کہ ایک خوفناک بلامندر میںداخل ہوئی، شیخ قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہے۔ بلاسہم کر خود ٹل گئی۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ وہاں کاراجا اور رعایا سب کے سب دائرئہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
  •  سندھ: سندھ اوراس کے اطراف میںصحابہ کرامؓ کی تشریف آوری ہوئی۔ آج سے تقریباً چھے سو برس پہلے سید یوسف الدین یہاں تشریف لائے۔ یہ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی اولاد میںسے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں خواب میں حکم ہوا تھا کہ وہ بغداد چھوڑ کر ہندستان جائیں اور وہاں کے لوگوں میںاسلام کی تبلیغ کریں۔ ۱۴۲۲ء میں وہ سندھ تشریف لائے اور ۱۰ سال تک وہ سندھ میںمقیم رہے اوراشاعتِ اسلام کے کاموں میں خود کو مصروف رکھا۔ آپ کی کوششوں سے لوہانہ قوم کے سات سو خاندانوں نے اسلام قبول کرلیا۔ مشرقی سندھ اورعلاقہ بہاول پور میں سیّدجلال بخاری کی تعلیم کے زیراثر حق کی روشنی پھیلی۔ ان کی اولاد میں حضرت مخدوم جہانیاں کے ہاتھ پر پنجاب کے بیسیوں قبیلے ایمان لے آئے۔
  •  دکن: عرب تاجر، سپاہی اور مبلغ یہاں بہمنی خاندان اوربیجاپور کے بادشاہوںکے دورِحکومت میںآئے۔ ان کی دعوت اور ان کے عملی نمونوں سے متاثر ہوکر لوگ ایمان لے آئے۔ دکن کے مغربی اضلاع میں ذات پات کا نظام بہت ہی جابرانہ تھا۔ تراونکوڑ میں بعض پست قوموں کے لیے لازم کردیا گیا تھا کہ وہ برہمنوں سے کم سے کم ۷۴ قدم دور رہا کریں۔ سڑک پر چلیں تو آواز کرتے چلیں، تاکہ برہمنوں کو ان کی آمد کی خبرہوجائے۔ پست ذات کے لوگ اس ذلت سے نجات پانے اور معاشرے میں اپنا مقام حاصل کرنے کے لیے کثرت سے اسلام میں داخل ہوگئے۔ مناولی علاقے میں شنارنام کی ایک قوم پست قوموں میں شمار کی جاتی تھی حالانکہ مادی اور تعلیمی ومعاشرتی لحاظ سے عام ہندوئوں سے آگے تھی۔ ہندو ان سے اہانت آمیز سلوک کرتے تھے۔ چند شنار مندر میں داخل ہوگئے تو ہندوئوں نے انھیں زدوکوب کیا۔ اس پر شناروں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مسلمان ہوجائیںگے۔ چنانچہ تقریباً چھے شنار تواسی روز مسلمان ہوگئے۔ جب آس پاس کے دیہاتوں تک اس کی خبر پہنچی تو شنار قوم مسلمان ہوتی چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ دکن میں اسلام کی ابتدا پیرمہابیر کھمدایت سے ہوئی، جو سات سو برس پہلے بیجاپور تشریف لائے تھے۔ ان کے علاوہ ایک اور بزرگ جوشیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی اولادمیں سے تھے وہ بھی یہاں پہنچے۔

جنوبی ہند کی ایک قوم (راوتسن) ہے۔ اس کی زبان تامل ہے اورآج کل یہ زیادہ تر مدادورہ، تنولی، کوٹمبٹو، شمالی اراکاٹ اورنیل گری کے اضلاع میں پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چند مبلغوں کی تلقین سے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور سید نثار شاہ (۹۶۹ء-۱۰۳۹ء)تھے۔ موصوف نے ترچناپلی میں سکونت اختیار کی تھی۔ مسلمانوںنے ان کے نام پر ترچناپلی کا نام نثارنگر رکھا تھا۔ اس قوم کے لوگ ان مبلغوں کی قبروں کا آج تک احترام کرتے ہیں۔ ان مبلغوں میں سیّدابراہیم شہید بھی قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے میں شاہ حمید (۱۵۳۲ء -۱۶۰۰ء) کا نام بھی معروف ومشہور ہے۔ یہ شمالی ہند مانک پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اپنی عمر کا   بڑا حصہ دعوتی اسفار میںصرف کیا۔ آخر میں انھوںنے ناگور میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ جنوبی ہند میں ایک قوم دودکلا ہے۔ اس قوم کا پیشہ کپاس صاف کرنا اور کپڑے بننا ہے۔ اس قوم کا بیان ہے کہ یہ قوم بابا فخرالدین کی تبلیغ سے اسلام میںداخل ہوئی۔

ہدایت کے لیے مدراس بھی چند بزرگوں کا رہین منت ہے جن میں سب سے زیادہ معروف ومشہور سیّدنثارشاہ ہیں، جن کا مزار چناپلی میںہے اور دوسرے بزرگ سید ابراہیم شہید ہیں، جن کامزار ارداری میں ہے۔ تیسرے بزرگ شاہ الحامد ہیں جن کا مزار ناگپور میں ہے۔ نیوگنڈہ کی طرف کی مسلم آبادی بالعموم اسلام لانے میں اپنے کو بابا فخرالدین کی رہین منت سمجھتی ہے۔ بابافخرالدین ہی کی شخصیت ہے جن کے ہاتھ پر وہاں کا راجا بھی مسلمان ہوا تھا۔

  •  وسطی ہند: خواجہ معین الدین اجمیریؒ ( م: ۶۳۲ھ) کی برکت سے راج پوتانہ میں خاص طور پر اسلام کی اشاعت ہوئی۔ انھوں نے راج پوتانہ کے علاوہ یوپی، بہاراور دکن میں بھی سلسلۂ تبلیغ شروع کیا۔ امپیریل گزیٹر کے مطابق میوقوم کے اسلام لانے کی تاریخ ہزار عیسوی یا اس کے بعد کی ہے۔ یہ قوم سیدسالار مسعودغازی کے ہاتھ پر ایمان لائی۔
  •  پنجاب:پنجاب میں سب سے پہلے داعی اسلام حضرت سیداسماعیل نجاریؒ تھے۔ پانچویں صدی ہجری میں لاہور میںان کی تشریف آوری ہوئی۔ آپ کی آواز میںبلاکی تاثیر تھی۔ ہزاروںکی تعدادمیںلوگ آپ کی تقریر سننے آتے تھے۔ آپ کی برکت سے بہت سے لوگ اسلام سے فیض یاب ہوئے۔ ایک اور بزرگ حضرت سید صدرالدینؒ اور ان کے صاحبزادے حضرت حسن کبیرالدینؒ بھی پنجاب کے بہت بڑے مبلغ رہے ہیں۔ حضرت مخدوم علی ہجویریؒ پانچویں صدی ہجری میں لاہورآچکے تھے۔ ان کی تبلیغ سے اسلام لانے والوں کا سلسلہ ملتان اور کوہ شوالک کے دامن تک پہنچا۔ سیّد اسماعیل نجاریؒ نے لاہور میں قیام کرکے دعوتی کام کو بہت زیادہ وسعت دی۔ یہ شہاب الدین غوری کے پہلے حملے سے قبل تشریف لائے تھے۔
  •  گجرات:گجرات میں حضرت امام شاہ پیرانویؒ اورملک عبداللطیفؒ کی کوششوں سے اسلام کی اچھی خاصی اشاعت ہوئی۔ گجرات کے مسلمان تاجروں کا بھی اسلام کی تبلیغ میں بڑا حصہ ہے۔
  •  کشمیر:سلطان رین چندشاہ کے عہد میں کشمیر میں اسلام کے داعیوں کی آمد شروع ہوئی۔ سب سے پہلے سید شرف الدین بلبل شاہ تشریف لائے۔ سلطان رین چند شاہ، سیدصاحب سے متاثرہوکر (چودھویں صدی عیسوی میں) ان کے دست حق پر اسلام لے آئے۔ کشمیر کے باشندے اس نئے مذہب سے بے حد متاثرہوئے اور یہاں کی بیش تر آبادی دائرئہ اسلام میں داخل ہوگئی۔ رین چند شاہ کا اسلامی نام صدرالدین رکھا گیا۔

سید حسین سمنانی (م:۷۷۳ھ) شاہ شہاب الدین کے عہد میں کشمیر تشریف لائے۔ چودھویں صدی کے آخر میں سید علی احمد ہمدانی سات سیدوں کے ہمراہ ایران سے تشریف لاکر کشمیر میں سکونت پذیر ہوئے اوراسلام کی تبلیغ واشاعت میں لگ گئے۔ پندرھویں صدی کے آخر میں ایک شیعہ مبلغ شمس الدینؒ عراق سے آئے۔ ان کے ہاتھ پر بھی بہت سے ہندو ایمان لے آئے۔ کستوار کا راجپوت راجا سید شاہ فریدالدین کی کرامت سے متاثر ہوکر دائرئہ اسلام میںداخل ہوا۔ اس کی پیروی میں اس کی اکثر رعایا نے بھی اسلام قبول کیا۔ سیف الدین خاندانی برہمن حضرت سیدمیر محمد ہمدانی کے ہاتھ پر مسلمان ہوا۔ سید میرمحمد نے کشمیر میں مستقل سکونت اختیارکرلی تھی۔  ان کے اخلاق وکردار اورکرامات سے اس قدر لوگوں نے اسلام قبول کیا جس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔

  •  بنگال:سب سے پہلے یہاں سید جلال الدین تبریزیؒ نے دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔ ڈاکٹر انعام الحق کا خیال ہے کہ حضرت تبریزیؒ ۱۲۰۰ء میں بنگال پہنچے۔ وہاں لکشمن سین کی حکومت تھی۔ سیدالعارفین کے مطابق ان کی وفات ۱۲۲۴ء میں ہوئی۔ شیخ جلال الدینؒ، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ کے خاص خلفا میں سے تھے۔ اسلام کی بیداری کے خاص آثار بنگال میں ۱۹ویں صدی میں نمایاں ہوئے۔ متعدد جماعتوں نے اس صوبے میں مبلغین روانہ کیے۔ انھوں نے توہمات کو دور کرنے کی کوشش کی اور دینی جذبے کو اُبھارا اور اسلام کی اشاعت کی۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ شیخ جلال الدین تبریزیؒ کے علاوہ کئی دوسرے بزرگ بھی بنگال آئے اور انھوں نے اسلام کی اشاعت کا کام کیا۔ ان بزرگوں میں سے ایک شیخ سراج الدین بھی تھے۔ انھیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہاں کا حکمراں بھی ان کا مرید تھا۔ ان کی وفات ۱۳۵۷ء میں لکھنوتی میں ہوئی۔

شیخ جلال الدین تبریزیؒ کے ایک مرید خاص شیخ علاء الدین علا الحق ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے مرشد کے انتقال کے بعد رشد وہدایت کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے ذریعے سے بہت سے لوگ حلقۂ بگوش اسلام ہوئے۔ شیخ علا الحق سے زیادہ اسلام کو فروغ ان کے صاحبزادے نورالحق کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ آپ کی کوششوں سے بنگال میں اسلام کی کافی اشاعت ہوئی۔

ریاض السلاطین جوبنگال کی سیاسی تاریخ ہے، اس میں لکھا ہے کہ جب راجا گنیش تخت پر بیٹھا تو اس نے بہت سے علما ومشائخ کو قتل کرا دیا۔ اس کی کوشش یہ تھی کہ بنگال میں اسلام کی اشاعت نہ ہو۔ شیخ نورالحق نے جو ’نور قطب عالم‘ کے لقب سے مشہور ہوئے، جون پور کے    بادشاہ ابراہیم شرفی کو مدد کے لیے لکھا۔ جون پور سے ایک بڑی فوج بنگال کے لیے روانہ ہوئی۔ راجاڈرا، اس نے شیخ سے سفارش کرانی چاہی۔ شیخ نے اسے اسلام کی تلقین کی۔ راجا تو نہیں مگر   اس کی اجازت سے اس کا بیٹا جدومسلمان ہوگیا۔ فوج واپس ہوگئی۔ راجا گنیش کے مرنے کے بعد جدوسلطان جلال الدین ابومظفرشاہ کے نام سے تخت نشین ہوا۔ اس کے عہد میں بنگال میں کثرت سے اسلام پھیلا۔ حضرت نور قطب عالم کی وفات ۱۸۱۸ء مطابق ۱۴۱۵ھ میںہوئی۔ حضرت نور قطب کے بعد ان کے بیٹوں نے اسلام کی تبلیغ واشاعت کا کام جاری رکھا۔ ان میں سے شیخ حسام الدین نے اس سلسلے میں کارہاے نمایاں انجام دیے۔ یہ بزرگ صاحب ِتصانیف تھے۔

  •  آسام:آسام میں حضرت شیخ جلال الدین فارسیؒ اسلام کی نعمت لے کر تشریف لے گئے۔ اشاعت اسلام کے سلسلے میں ان کی سعی لائق تحسین ہے۔ سلہٹ میں ان کامزار ہے۔
  •  ہندو تاجر:ہندوتاجر موتیوں کی تجارت کرتے تھے۔ قدیم زمانے سے بحرین کی منڈی میں ان کی آمدورفت تھی۔ بحرین پر مسلمانوں کا قبضہ نبی کریمؐ کے عہد مبارک ہی میں ہوگیا تھا۔ ہندوتاجر یہاں آتے، مسلمانوں سے ان کا ملنا جلنا ہوتا، بہت سے ہندو مسلمانوں کے اخلاق سے متاثرہوکر اسلام قبول کرلیتے اور پھر اسلام کا پیغام لے کر لوٹتے اور برادرانِ وطن تک پہنچاتے تھے۔
  •  صوفیا و علما:ہندستان میں اشاعت اسلام کے سلسلے میںصوفیاے کرام اور علما نے جو خدمات انجام دی ہیںوہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ اس کا اعتراف آرنلڈ، ڈاکٹر سی آروِلسن اور   ڈاکٹر راجندرپرساد تک نے کیا ہے۔ جب مجدد الف ثانی ؒ جہانگیر کے حکم سے قید کیے گئے تو انھوں نے قیدخانے میں اپنے وعظ اور تلقین سے سیکڑوں ہندوئوں کو حلقۂ بگوش اسلام کیا۔

سیدشاہ فریدالدینؒ نے کستوار کے راجا کواسلام میںداخل فرمایا۔ اس کے ذریعے سے  اس علاقے میں اسلام کی اشاعت ہوئی۔ یہ زمانہ عالم گیر کا ہے۔ ناسک میں اب تک حضرت محمدصادق سرمستؒ اورخواجہ اخوندمیر حسینیؒ کی برکتوں کا اعتراف کیا جاتا ہے۔ دھاڑواڑ کے لوگ اپنے اسلام کو حضرت شیخ ہاشم گجراتی کا فیض بتاتے ہیں۔ حضرت شیخ ہاشم، ابراہیم عادل شاہ کے مرشد تھے۔

بہت سے بزرگ محمودغزنوی کے ساتھ ہندستان آئے تھے۔ انھوں نے دعوت وارشاد کا کام ہندستان میں رہ کر کیا۔ ان داعیان میں ایک مشہور بزرگ شیخ ابوشکورسالمیؒ بھی تھے جو ابومحمدچشتیؒ کے حکم سے محمودغزنوی کے ساتھ ہندستان آئے۔ موصوف نے میو قوم کو اسلام کی دعوت دی اور اشاعتِ دین کی غرض سے ان کے درمیان سکونت اختیار کی۔ مخدوم علی ہجویری لاہوریؒ کے ہاتھ پر کثیرتعداد میں لوگ ایمان لائے جن میں سے رائے راجو کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ آپ نے اسے شیخ ہندی کا لقب عطا فرمایا۔ خواجہ معین الدین چشتیؒ کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ جوق درجوق لوگ آپ کے دست مبارک پر ایمان لے آئے۔ سیداحمد توختہ ترمذی نے لاہورکو اپنا وطن بنایا۔    آپ کے ذریعے سے ہزاروں اشخاص کو ایمان کی دولت حاصل ہوئی۔

  •  بعض انفرادی کوششیں:بعض لوگوں نے انفرادی طورپر دعوت وتبلیغ سے دل چسپی لی۔ مولوی بقا حسین خاں گھوم پھر کر دعوت و تبلیغ کا کام کرتے تھے۔ چندسال میں ۲۲۸ اشخاص آپ کے ذریعے سے ایمان لے آئے۔ ان کا تعلق کان پور، اجمیر، ممبئی اور دیگر شہروں سے تھا۔ مولوی حسن علی کے ذریعے سے ۲۵؍افراد مشرف بہ اسلام ہوئے جن میں سے ۱۲پونہ اور باقی حیدرآباد اوردیگر شہروں سے تعلق رکھتے تھے۔ نو مسلم شیخ عبیداللہ اپنے مطالعے اور تحقیق سے ایمان لے آئے اور ۴۶سال تک دعوت وتبلیغ میں لگے رہے۔ ۳۷۵گھرانوں کو انھوں نے مشرف بہ اسلام کیا۔
  •  مسلم حکمران و بادشاہ: یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم بادشاہوں نے تبلیغِ دین کی طرف توجہ نہیںکی۔ وہ فاتحین جنھوں نے شمالی ہند یا دکن میں حکومتیں قائم کیں وہ اشاعتِ اسلام کے فریضے کا احساس نہیں رکھتے تھے، اور یہ بھی کہ بعض کوملک گیری اور خانہ جنگی کی وجہ سے اس کا موقع ہی نہ مل سکا۔ فاتح مسلمان اکثر مغل یا تاتاری تھے جنھیں دین کا وہ فہم حاصل نہیں تھا جو انھیں حاصل ہونا چاہیے تھا۔ دوراول کے عرب مسلمانوں اور تاجروں میں جو جوش وخروش دکھائی دیتا ہے وہ ان کے یہاں ناپید نظرآتا ہے۔یہاں فیروز شاہ تغلق کا ایک استثنا ہے۔ اس کے اندر دعوت وتبلیغ کا جذبہ موجود تھا۔مسلمان بادشاہوں میں اورنگ زیب عالم گیرؒ کے دل میں بھی فروغ اسلام کی تمنا پائی جاتی تھی لیکن باقاعدہ منصوبہ بند طریقے سے کام کرنے کا موقع اسے نہیں ملا۔ تاریخ فرشتہ میں ہے: ’’فروغ اسلام کے جوش و جذبے میں اس نے نو مسلموں کے ساتھ تودریادلی اور فیاضی دکھائی لیکن ساتھ ہی وہ دوسرے مذاہب کے پیرووں پر مذہبی امور میں کسی سختی کا روادار نہیں ہوا‘‘۔