نئے امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت چلانے کے لیے ابتدائی طور پر اپنے جن قریبی اور معتمد ساتھیوں کا انتخاب کیا ، اِسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عرب ممالک،کشمیر اور فلسطین سے کس طرح کے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ اُنھوں نے سینیٹر جیف سیشنز کو امریکی اٹارنی جنرل، مائیک پامپیو کو سی آئی اے کا سربراہ، جنرل (ر) میٹس کو وزیر دفاع اور جنرل (ر) مائیکل فیلن کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بنایا (مائیکل فیلن کی تو اپنے کرتوتوںکے باعث چند دن پہلے چھُٹی ہو گئی ہے)۔ یہ چاروں افراد ماضی قریب میں اسلام اور مسلمانوں سے بے زاری کا کھلم کھلا اظہار کرچکے ہیں۔ اسلام کے بارے میں کہے گئے اُن کے دل آزار الفاظ یہاں نقل ہی نہیں کیے جا سکتے۔
اِن امریکی اور اسرائیلی یہودیوں کے عالمِ اسلام کے بارے میں جو بھی خیالات ہیں، وہ ہم سب پر پوری طرح مترشح ہیں۔ ٹرمپ کی یہود دوستی کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے نیویارک ٹائمز کی مشہور تجزیہ نگار ازابیل کریشنر نے اپنے ایک حالیہ طویل مقالے میں لکھاہے: ’’ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے اسرائیل میں کٹر یہودیوں اور فلسطین مخالف سیاستدانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کی کامیابی کی خبر سنتے ہی ایک اسرائیلی وزیر نفتالی بینٹ نے ان الفاظ میں نعرہ لگایا تھا: ’اب فلسطین کا شورو غوغا ختم۔‘ اور اسرائیلی وزیر داخلہ ایری ڈیری نے ٹرمپ کی جیت پر چہکتے ہوئے کہا تھا: ’یہ تو ہمارے حق میں معجزہ ہوا ہے، یوں کہیے کہ خدا نے اسرائیل کی فتوحات کے دروازے کھول دیے ہیں‘۔ اسرائیلی یہودیوں کی یہ طمانیت واضح طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نوازی کو بے نقاب کررہی ہے! وہ اسرائیلی یہودیوں کے مفادات کے تحفظ میں کہا ں تک جا سکتے ہیں، اس حوالے سے ۲۲ دسمبر۲۰۱۶ء کو ایک عجب واقعہ رُونما ہوا۔ دسمبر کے آخری ہفتے مصر اقوامِ متحدہ میں فلسطینی زمینوں پر زبردستی اسرائیلی بستیاں بسائے جانے کے خلاف ایک قرار داد لانے جا رہا تھا۔ اسرائیل حقیقی معنوں میں اس ممکنہ مصری اقدام سے بہت خائف تھا؛ چنانچہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطہ کیا کہ وہ مصر پر دبائو ڈالے کہ اقوامِ متحدہ میں یہ قرار دادلانے سے باز رہے۔ اصولی طور پر نیتن یاہو کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ مطالبہ کرنا سراسر غیر قانونی تھا کہ ابھی تو ٹرمپ نے امریکی صدر کا باقاعدہ حلف بھی نہیں اٹھایا تھا، لیکن اس کے باوجود ٹرمپ نے مصری صدر کو فون کرکے اسرائیل کے خلاف مذکورہ قرار داد لانے سے منع کر دیا ۔
صدر ٹرمپ نے اسرائیل میں جس شخص کو بطور امریکی سفیر منتخب کیا ہے، وہ بھی اپنی اسرائیل و یہود نوازی میں امریکا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ اِن صاحب کا نام ہے: ڈیوڈ فریڈ مین۔ پیشے کے اعتبار سے وہ وکیل ہیں لیکن ایک مدت سے ٹرمپ کے سیاسی مشیر چلے آ رہے ہیں۔ وہ ایسے اسرائیل نواز امریکیوں میں سرِ فہرست ہیں، جو نہ صرف اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس میں منتقل کرنے کے زبردست حامی ہیں بلکہ اُن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت بھی یروشلم یا بیت المقدس ہی ہونا چاہیے۔ اِس سلسلے میں ڈیوڈفریڈ مین کے یہ الفاظ ملاحظہ کیجیے: ’’بیت المقدس اسرائیل کا ’ابدی اور غیر منقسم ‘ دارالحکومت ہے‘‘۔
ڈیوڈ فریڈمین فلسطین اوراسرائیل کے درمیان مجوزہ امن کے راستے ’دو ریاستی فارمولا‘ کے بھی مخالف ہیں اور کھلے بندوں اسرائیل میں دائیں بازو کے شدت پسند (یعنی مسلم دشمن) گروہوں کے پسندیدہ ہیں، بلکہ وہ فلسطین کے مغربی کنارے میں زبردستی یہودیوں کی مزید بستیاں بسانے کے بھی حامی ہیں (واضح رہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی تعداد ۲۶ لاکھ ہے، جب کہ اُن کے بیچوں بیچ ۴ لاکھ اسرائیلی یہودی بھی زورزبردستی آباد ہو چکے ہیں)۔ صدارتی مہم کے دوران فلوریڈا کے ایک جلسے میں، جہاں کثیر تعداد میں یہودی سامعین موجود تھے اور ڈیوڈ فریڈ مین بھی حاضر تھا، ٹرمپ نے کہا تھا: ’’ فریڈ مین امریکا اور اسرائیل کے درمیان خصوصی تعلق کو برقرار بھی رکھے گا اور اِس تعلق کو خوب نبھائے گا‘‘۔ صدر منتخب ہو کر ٹرمپ نے اِنھی اسرائیل و یہود نواز ڈیوڈفریڈمین کو اسرائیل میں امریکا کا سفیر متعین کر کے اپنا وعدہ بھی نبھایا ہے اور امریکی و اسرائیلی کٹریہودیوں کو بھی خوش کر دیا ہے۔ فلسطینی قیادت فریڈ مین کی تعیناتی پر سخت مضطرب ہے۔ اِسی لیے پی ایل او کے سیکریٹری جنرل، صائب اریکات، نے کہا ہے کہ ڈیوڈ فریڈ مین اور نئی امریکی قیادت بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی باتیں کرنے سے باز رہے۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے فریڈمین کی تعیناتی پر گہرے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ٹائم، میگزین کے معروف تجزیہ نگار کارل وِک نے اسرائیل میں متعین کیے جانے والے اِس امریکی سفیر کی تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:’’ ٹرمپ نے فریڈمین کو، جو کہ امریکی صدر ٹرمپ کے جُوا خانوں کے قانونی معاملات کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھا، اسے اسرائیل میں امریکا کا سفیر لگا کر یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی توسیع پسندی کے حق میں ہے۔ اِس تعیناتی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ٹرمپ نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ مغربی کنارے پر بھی اسرائیل کو اپنی بستیاں بسانے کا پوراپورا حق ہے۔ یہ اشارہ اور فیصلہ اب تک فلسطین کے حوالے سے جاری امریکی پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے، جس کے نتائج مہلک ہوںگے‘‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل نواز اور دنیا بھر میں پھیلے یہودیوں کے مفادات کا حامی اور محافظ ہونے کی گواہی خود اسرائیلی میڈیا دے رہاہے۔ ٹرمپ کا بذاتِ خود اُن معروف، مؤثر اور ثروت مند امریکیوں میں شمار ہوتا ہے، جنھوں نے ہمیشہ اِس امر کی وکالت اور حمایت کی ہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب نہیں، یروشلم ہونا چاہیے۔
یروشلم مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے یکساں طور پر محترم اور مکرم ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اوّل اِسی تاریخی اورقدیم شہر میں ہے۔ بیت المقدس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ کعبہ شریف اور مدینہ منورہ کے بعد ساری دنیا کے مسلمان بیت المقدس کی حُرمت و تقدس پر جان چھڑکتے ہیں۔ اہلِ یہود کی مذہبی نشانیاں (دیوارِ گریہ اور ہیکلِ سلیمانی) بھی اِسی شہر میں ہیں۔ عیسائیوں کا ’بیت اللحم‘ (وہ تاریخی مقام جہاں روایات کے مطابق سیدنا مسیحؑ کی ولادت ہوئی) بھی اِسی شہر کا دل آویز جُزو ہے؛چنانچہ عالمی اہلِ دانش کااصرار ہے کہ شہرِ یروشلم کو سیاست اور اقتدار کے بکھیڑوں سے علیحدہ رکھتے ہوئے اِسے اسرائیلی دارالحکومت نہ بنایا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس کے باوجود صہیونی اسرائیلیوں کی تمنا یہی ہے کہ یروشلم ہی اُن کا مرکزی دارالحکومت ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ اِنھی انتہا پسند یہودیوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے جارہے ہیں ۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اس امر کا بھی انکشاف کیا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مقبوضہ فلسطین میں یہودی آباد کاری اوراسرائیلی توسیع پسندی کے ایک بڑے ڈونر ہیں۔ وہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے وہاں اسرائیلی یہودیوں کے لیے رہایشی مکانات ، مارکیٹیں اور تعلیمی ادارے بنانے کے لیے عطیات کی شکل میں نقد سرمایہ فراہم کرتے رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر زور زبردستی یہودی آباد کاری ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ اسی تنازعے کا یہ بھی شاخسانہ ہے کہ ۱۹۸۰ء میں غزہ کی پٹی سے، جہاں فلسطینی اکثریت میں آباد ہیں، عالمی دباؤ پر نئے آباد کاریہودیوں کو بے دخل کر دیا گیاتھا۔ اور یہ مسٹر ٹرمپ ہیں جنھوں نے ان نکالے گئے یہودیوں کو پھر سے آباد کرنے کے لیے اسرائیل کو کروڑوں ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۹نومبر۲۰۱۶ ء کو امریکی انتخابات میں تقریباً سبھی امریکی یہودیوں نے متفقہ طور پر اپنے ووٹ ٹرمپ کے حق میں ڈالے اور اُنھیں کامیاب وکامران بنایا۔
کہا جاتا ہے کہ کٹر یہودی مذہبی طبقات میں کسی بھی ایسے شخص یا گروہ کو دل سے قبول نہیں کیاجاتا جو کوئی دوسرا مذہب چھوڑ کر یہودیت قبول کر لے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں اُلٹی گنگا بہا دی گئی ہے۔ ٹرمپ کی بڑی بیٹی ایوانکا ٹرمپ (۳۵ سالہ) نے شادی سے پہلے عیسائی مذہب چھوڑ کریہودیت اختیار کر لی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے محبوب جیئرڈ کُشنر سے، جو نیویارک کے ایک نہایت متموّل اور قدیمی یہودی خاندان سے تعلق رکھتا ہے، شادی کرنا چاہتی تھی۔ کُشنر اور اُس کے خاندان کے دباؤ اور خوشنودی کی خاطر ایوانکا یہودی ہوگئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا۔ اب اس کے تین بچے ہیں۔ ایوانکا اپنے والد کے بہت قریب اور ’ڈونلڈ ٹرمپ فاؤنڈیشن‘ کی سربراہ بھی ہے، ارب پتی والد کے تمام کاروبار کی شریک اور معتمد مشیر بھی۔ صدارتی انتخابات میں وہ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ تھی۔ امریکی میڈیا میں باربار یہ منظر نمایاں طور پر دکھائی دیاہے کہ جب بھی ٹرمپ یہودی ووٹروں کے ہاں گئے، وہ اپنی اس بیٹی اوراس کے بچے بھی ساتھ لے جاتے اور اُنھیں گود میں اٹھا کر کہتے :’’ یہودیوں اور اسرائیل سے میری دوستی اور محبت کااس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ میرے نواسے یہودی ہیں ، میری سب سے عزیز بیٹی بھی یہودی ہے، میرا داماد بھی یہودی ہے اور وہ آپ سب کا جانا پہچانا ہے اوراُس کا سارایہودی خاندان بھی‘‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی اسی یہودی بیٹی کی وجہ سے اپنے یہودی داماد پر ، اپنے بیٹوں کے مقابلے میں، زیادہ اعتبار ہے۔ ایوانکا پر ٹرمپ کو کس قدر اعتبار ہے، اس کی ایک اور مثال سامنے آتی ہے: ابھی ٹرمپ نے باقاعدہ امریکی صدر کاحلف بھی نہیں اٹھایا تھا کہ جاپانی وزیر اعظم شانزوایبے نے۱۸نومبر۲۰۱۶ء کو نیویارک میں ٹرمپ سے ملاقات کی۔ وہ امریکا کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے، اس لیے نَو منتخب امریکی صدر سے بھی ملنا مناسب سمجھا۔ اور دنیا یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس ملاقات میں ٹرمپ کی یہی صاحبزادی بھی موجود تھیں۔ جاپانی وزارتِ خارجہ کو اس محترمہ کی موجودگی گراں تو گزرتی رہی مگروہ بوجوہ خاموش ہی رہے کہ پہلے ہی ٹرمپ نے جاپان کو ملفوف اندازمیں کچھ دھمکیاں دے رکھی تھیں۔
امریکا کے ایک ممتاز اخبار نویس آین گرین ہالگ نے ایک مشہور امریکی جریدے میں مفصل مضمون میں حقائق اوراعدادو شمار کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اصل صلاح کار، تمام کے تمام یہودی النسل بھی ہیں اوراُن کے اسرائیل کے ساتھ گہرے اور دیرینہ تعلقات بھی استوار ہیں۔ یہ مضمون Meet The Jews in Donald Trump's Inner Circle کے زیر عنوان شائع ہوا ہے۔ اِس چشم کشا مضمون کی اشاعت کے آغاز میں ایڈیٹر نے ایک ضروری نوٹ ان الفاظ میں لکھاہے: ’’ڈونلڈ ٹرمپ امریکی واسرائیلی یہودیوں کے حصار میں ہیں، سیاست میں بھی، کاروبار میں بھی، اورمشاورت میں بھی۔ وہ ان کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فی الحقیقت یہودیوں کی کٹھ پُتلی بن چکے ہیں‘‘۔
اس کے بعد مضمون نگار آین گرین ہالگ نے تصویروں کے ساتھ اُن اہم ترین ۱۰؍افراد کا ذکر کیا ہے ، جنھوں نے امریکا کے نئے صدر ٹرمپ کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اِن اہم افراد کے نام یہ ہیں : اسٹیفن بینن، جین گرین بلاٹ، ڈیوڈ فریڈمین، جئیرڈ کُشنر، ایوانکا ٹرمپ، بورس آپشٹن، اسٹیفن ملر، اسٹیون مناہم، لیوس آئزن برگ اور مائیکل گاسز۔ مذکورہ تمام افراد کے تعارف میں مضمون نگار کے الفاظ پڑھ کراحساس ہوتا ہے کہ ان اشخاص کی مرتب کردہ پالیسیوں اور دیے گئے مشوروں پراگر ٹرمپ نے عمل کیا تو فلسطین، عالمِ عرب اور کشمیری مسلمانوں کا بھلا ہر گز نہیں ہوگا اور نہ مشرقِ وسطیٰ میں لگی آگ بجھانے کی کوئی کوشش معرضِ عمل میں آئے گی۔
اسرائیل کے ایک مشہور اخبار دی ٹائمز آف ازرائیل کے تجزیہ نگار اڈیو سٹرمین نے ۹نومبر۲۰۱۶ ء کو امریکی صدارتی انتخابات کے دوران لکھاتھا: ’’اسرائیل کاتمام عبرانی میڈیا ڈونلڈٹرمپ کی حمایت کر رہا ہے۔ عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اسرائیلی اخبارات اور نشر ہونے والے پروگراموں نے اپنے تجزیوں اور حمایت کے سارے انڈے ٹرمپ کی ٹوکری میں ڈال دیے ہیں۔ حیرت ہے کہ خالص یہودی مفادات کے پرچارک اورمحافظ دو بڑے اسرائیلی اخبارات (ادیوت اخانوت اور ہارٹز) بھی صرف ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں‘‘۔
انتخابات جیتنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کومبارک باد کا سب سے پہلا فون اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کیاتھا۔ یاہو نے ٹرمپ کو ’اسرائیل کا سچا اور کھرا دوست ‘ کے نام سے یاد کیا۔ جواب میں ٹرمپ نے کہاتھا : ’’آج مَیں نہیں جیتا، بلکہ آپ کا بھائی فتح یاب ہوا ہے‘‘۔ اور نیتن یاہو دنیا کے پہلے سر براہِ مملکت ہیں، جنھیں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی دورے کی دعوت دی۔
اسرائیلی یہودیوں سے ٹرمپ کی گہری دوستی کا ایک مظاہرہ دسمبر کے آخری ہفتے میں بھی سامنے آیا۔۲۷دسمبر۲۰۱۶ ء کو اقوامِ متحدہ نے کثرتِ راے سے ایک قرار داد منظور کی جس میں اعلان کیا گیا کہ: ’’مغربی کنارے اوربیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی بستیاں بسانا غیر قانونی اور غیراخلاقی ہے‘‘۔ تب امریکی وزیر خارجہ، جان کیری، نے کہا تھا کہ:’’اسرائیلی اقدامات دو ریاستی فارمولے کو سبوتاژ کرنے کا باعث بن رہے ہیں‘‘۔ چنانچہ نیتن یاہو نے پلٹ کر امریکا کی بھی بے عزتی کی اور ہر اُس ملک کی بھی، جس نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ تاہم، صدر ٹرمپ نے اِس قرار داد کی مخالفت اور اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کا بھی مذاق اڑایا اور کہا: ’’یواین او محض اچھا وقت گزارنے کے لیے ایک کلب ہے‘‘۔ ٹرمپ صاحب نے اسرائیل کو ہلہ شیری دیتے ہوئے مزید کہا:’’نیتن یاہو (اسرائیلی وزیر اعظم ) کو نہ بے صبری کامظاہرہ کرنا چاہیے اور نہ ہمت ہارنی چاہیے۔ اسرائیل خاطر جمع رکھے‘‘۔