تنویر قیصر شاہد


۲۰کروڑ آبادی کے ساتھ اُتر پردیش بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے اورتاریخی لحاظ سے بھی یہ بہت اہم ریاست ہے۔ رانی جھانسی کا قلعہ اور تاج محل (آگرہ) کی پُرشکوہ عمارت بھی اسی ریاست میں ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، جس کی بنیاد جناب سرسیّداحمد خاں نے رکھی تھی،      اسی صوبے کا معروف نام ہے۔ وارنسی(بنارس) شہر ،جسے برہمنوں کا ’مذہبی دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے، اُترپردیش کا حصہ ہے۔ فیض آباد (جہاں مبینہ طور پر رام دیوتا کی پیدایش ہُوئی) اور گورکھ پور جیسے خالصتاً ہندو شہر اسی صوبے کے جزو ہیں جن پر کٹر ہندو قوم پرست فخر کرتے ہیں۔

اب یہ برہمنی رنگ، گورکھ پور کے بڑے مندر کے مہنت یوگی ادیتا ناتھ کی شکل میں   بطور وزیراعلیٰ اُترپردیش، سیاسی اور اقتداری لحاظ سے غالب آ چکا ہے۔ ادیتا ناتھ اور اُن کے کروڑوں چاہنے والوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ ہم اقتدار میں آئے تو بھارت بھر کا ہروہ شہر جو کسی مسلمان نام سے معروف ہے، اُس کا نام تبدیل کر کے ہندو شکل دے دیں گے۔ بی جے پی بھارتی مسلمانوں کے مشہور علمی شہر، دیوبند، کا نیانام ’دیوربند‘ رکھنے کی تجویز اُترپردیش کی صوبائی اسمبلی میں پیش کر چکی ہے۔ وہ تاج محل کا نام بھی تبدیل کرنے کے عزم کا اعلان کر چکے ہیں۔ ادیتا ناتھ نے حالیہ صوبائی انتخابی مہم کے دوران واضح طور پر جگہ جگہ اعلان کیا تھا کہ: ’’اگر مَیں وزیر اعلیٰ بن گیا تو ہمایوں پور کا نام’ہنومان پور‘ اور اسلام پور قصبے کا نام ’ایشور پور‘ رکھ دوں گا‘‘۔ اب اس سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق اُتر پردیش کے مسلمانوںکے نام سے منسوب تمام شہروں کے نام تبدیل کرے۔ کیا ایسا کرنا ممکن ہوگا؟

اُترپردیش ایسی بڑی ریاست کے بڑے شہروں کی تعداد ۶۵ہے۔ اِن میں مسلمانوں کے نام سےمنسوب ۱۶ بڑے شہر آباد ہیں جن میں: غازی آباد، الٰہ آباد، علی گڑھ،مراد آباد،فیض آباد، مظفر نگر، شاہجہان پور، فرخ آباد، فتح گڑھ، فتح پور، مغل سراے،غازی پور،سلطان پور،اعظم گڑھ، اکبر پوراورشکوہ آباد شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی مسلمان، جو اُترپردیش ریاست کی کُل آبادی کا ۲۰ فی صد سے زیادہ ہیں، کیا یہ زیادتی برداشت کریں گے؟ ایک معروف بھارتی نجی ٹی وی کے ٹاک شو’آپ کی عدالت‘ میں ادیتا ناتھ نے اعلان کیا ہے کہ ہندوؤں کا حق ہے کہ ہم اقتدار میں آکر مسلمانوں کے ناموں سے منسوب بھارتی شہروں کے نام تبدیل کردیں، کیوں کہ اب تاریخ بدلنے کاوقت آگیا ہے‘‘۔

اُترپردیش کے یہ زعفرانی وزیر اعلیٰ، بی جے پی اور انتہاپسند آر ایس ایس کے اُن مقتدر ہندو سیاست دانوں میں سے ایک ہیں، جو بھارت میں اسلام کی تبلیغ پر بھی پابندی عائد کرنے کے حامی ہیں اور کہتے ہیں کہ: ’’بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مذہب اختیار کرلینا چاہیے‘‘۔  اس کوشش اور’اپیل‘ کو وہ ’گھر واپسی‘ کا نام دیتے ہیں۔ ادیتا ناتھ نے اَب تک بھارت کے ۱۸۰۰ عیسائیوں کو ہندو بنانے کا دعویٰ کیا ہے ۔مسلمانوں سے نفرت اور دنگے کے بیوپاری اُترپردیش کے یہ نئے وزیر اعلیٰ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو اپنا حق سمجھتے اور ایسا کہتے اور کرتے ہُوئے ذرا بھی حیا محسوس نہیں کرتے ، حالاںکہ وہ خود کو ’سنیاسی‘ بھی کہتے ہیں۔

ایک بھارتی نجی ٹی وی کے پروگرام میں جب ادیتاناتھ سے پوچھا گیا کہ: ’’سنیاسی ہو کر خوں ریزی، تشدداور مسلمانوں کے خلاف فساد کی بات کیوں کرتے ہو؟ تو تُرت جواب دیا: ’’مَیں سنیاسی ہو کر ہروقت مالا بھی رکھتا ہُوں اور بھالا(خنجر)بھی‘‘۔ موصوف نے زعفرانی لباس پہننے والے سیکڑوں جوگیوں کی ایک نجی فوج بھی بنا رکھی ہے، جن کے پاس ہمیشہ تیز دھار بھالے ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بن کر بھی ادیتا ناتھ کو اپنے اُن نفرت آگیں بیانات پر کچھ شرم محسوس نہیں ہوتی، جب اس نے کہا تھا:’’ اگر کسی مسلمان لڑکے نے کسی ہندو لڑکی سے شادی کی تو ہم ۱۰۰مسلمان لڑکیوں کو اُٹھا لائیں گے۔ اگر کسی ایک بھارتی مسلمان نے کسی ہندو کا قتل کیا تو ہم قتل کا مقدمہ  نہیں درج کروائیں گے بلکہ خود بدلہ لینے کے لیے ایک ہندو کے بدلے میں ۱۰ مسلمانوں کا قتل کریں گے‘‘۔ نئے وزیراعلیٰ نے یہ بھی اعلان کر رکھا ہے کہ: ’’اقتدار میں آکر ہم اُترپردیش کی  تمام مساجد میں اپنی دیوی اور دیوتاؤں کے بُت بھی رکھیں گے‘‘۔

بھارتی مسلمانوں کے خلاف ادیتا ناتھ کی نفرت انگیز مہم کو بی جے پی کے صدر امِت شا  کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔ دونوں کے گٹھ جوڑ ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ حالیہ اُترپردیش(یوپی) کے انتخابات میںکسی ایک بھی مسلمان امیدوار کو بی جے پی نے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا۔ اور جب  اس بارے امِت شا سے پوچھا گیا تو جواب میں کہا:’’ اُتر پردیش میں ہمیں کوئی موزوں مسلمان امیدوار ملا ہی نہیں‘‘۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ’آل انڈیا مجلسِ مشاورت‘ کے سابق صدر، ظفرالاسلام خان [ملّی گزٹ کے ایڈیٹر]، نے ٹھیک ہی کہا :’’ بی جے پی نے یو پی میں مسلمان امیدواروں کی نفی کی ہے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے نفرت کی فتح حاصل کی ہے‘‘۔

اُتر پردیش اسمبلی میں کُل ۴۰۳نشستوں میں سے بی جے پی نے ۳۱۲جیتی ہیں، جب کہ مجموعی طور پر کامیاب مسلمان امیدواروں کی تعداد۲۴ہے۔ یو پی میںمسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد اصولی طور پر۱۰۰ہونی چاہیے تھی (یاد رہے ۲۰۱۲ء میں جیتنے والے مسلمان اُمیدواروں کی تعداد۶۹تھی)۔ ان ۲۴ کامیاب مسلمان اُمیدواروں میں ۱۷سماج وادی پارٹی، ۵ کانگرس اور ۲ بھوجن سماج پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعداد بھی نریندر مودی، اِمت شا اور ادیتاناتھ سے برداشت نہیں ہو رہی ہے؛ چنانچہ چند روز قبل راجیہ سبھا(بھارتی سینٹ) میں ایک کٹر ہندو رکن، ایم رامیش نے کہا ہے کہ: ’’بھارت میں مسلمانوں کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہورہاہے، ہمیں آن دی ریکارڈ بتایا جائے کہ ہر بھارتی صوبے میں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘اور جب رامیش کو بتایا گیا: ’’بھارت کے کُل ۶۷۵ضلعوں میں۸۶ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد ۲۰فی صد سے زائد، اور ان ۸۶ضلعوں میں ۱۹ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد۵۰فی صد سے زائد ہے‘‘ تو رامیش کے منہ سے بے اختیار نکلا:’’ اوہ، یہ تو بہت بڑھ گئے ہیں‘‘۔

حالیہ انتخابات سے قبل عالمی شہرت یافتہ ماہرینِ معیشت کی پیش گوئی تھی کہ نریندر مودی نے بھارت میں جن خطرناک معاشی پالیسیوں کا اجرا کر رکھا ہے، اِن کی بنیاد پر وہ یہ انتخابات جیت نہیں سکیں گے لیکن بی جے پی ۴۷ سیٹوں سے اُٹھ کر ۳۱۲ سیٹوں پر آگئی۔

آخر ہوا کیا کہ بی جے پی اور مودی کے خلاف پیش گوئیاں کرنے والے سارے تجزیہ نگار چِت ہو گئے؟ دراصل نریندر مودی اور بی جے پی قیادت نے ایک خاص انتخابی حکمت عملی کے تحت زیادہ تر ٹکٹ اُن لوگوں کو دیے جو بدمعاش ، بھتہ خور، قاتل،جرائم پیشہ ، سزا یافتہ اور بھاری کالے دھن کے مالکان تھے۔ انھی لوگوں نے ماردھاڑ، اپنی دہشت، کالے دھن اور مجرمانہ سرگرمیوں کو بروے کار لا کر اُترپردیش کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا ہے۔ یہ محض ہمارا الزام یا تعصب نہیں ہے بلکہ بھارتی میڈیا بھی اِس کی گواہی دیتے ہوئے نشان دہی کر رہا ہے۔بھارت کے ایک ممتاز انگریزی اخبارنے اپنے صفحہ اوّل کی سٹوری میں بتایا ہے کہ اُترپردیش کے تازہ ترین انتخابات میں رگھوراج پرتاپ سنگھ ،راجا بھائیا، امنمانی ترپاٹھی،  وجے مشرا،سوشیل سنگھ ایسے درجنوں لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، جن پر قتل، بھتہ خوری، اغوا کار ی ایسے سنگین جرائم کے ارتکاب کے نہ صرف الزامات ہیں، بلکہ اُن میں سے بیش تر کا سیاسی پس منظر بھی یہی ہے۔

ایسے لوگ بھی اُترپردیش اسمبلی کے رکن بن گئے ہیں،جو خوفناک جرائم کے تحت مختلف جیلوں میں قید تھے لیکن اُنھیں خصوصی طور پر پیرول پر رہا کیا گیا، تاکہ وہ الیکشن لڑسکیں۔ قاتل امنمانی ترپاٹھی نے تو جیل میں بیٹھ کر الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ قتل کے الزام میں قید راجا بھائیانے اپنے سیاسی حریف ،جانکی سرن، کو ایک لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہرایا ہے۔ ریاست اُترپردیش کے حالیہ انتخابات میں ایک مشہور گینگسٹرسوشیل سنگھ نے بی جے پی کے ٹکٹ پر اپنے سیاسی حریف، شیام نرائن سنگھ کو شکست دی ہے۔وجے مشرا نامی ایک ایسا شخص جس کی غنڈا گردی اور بھتہ خوری کے چرچے اُتر پردیش کے ہربڑے شہر میں ہیں، یہ بھی ریاستی اسمبلی کا رکن بن گیا ہے۔ بی جے پی کی ایک رکن، سنجو دیوی، قتل کے الزام میں جیل میں ہے، وہ بھی جیت گئی ہیں۔ بی جے پی کی ایک اور مشہور لیڈر نیلم کرواریا، جو لڑائی مار کٹائی میں بہت شہرت رکھتی ہے، بھی بھاری ووٹوں سے جیتی ہیں۔

بی جے پی کے کئی سزا یافتہ مجرم ، جو اس وقت اُتر پردیش کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، خود اگر تازہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تو اُن کی بیویوں نے اُن کی جگہ الیکشن لڑا ہے۔ مثال کے طور پرسنجیو مہیشواڑی، پریم سنگھ عرف مُنا بجرنگی اور ڈی پی یادیو۔ یہ لوگ خود تو مظفر نگر اور تہاڑ جیل میں مختلف سنگین جرائم کے تحت سزائیں کاٹ رہے ہیں، اُن کی جگہ اُن کی بیویوں نے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئیں۔

اتنے بھاری مینڈیٹ سے جیتنے کا ایک سبب انڈین ایکسپریس کی ممتاز تجزیہ نگار، سروتھی رادھا کرشن، نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:’’ بی جے پی نے دولت مند اور طاقت ور افراد کو زیادہ تر ٹکٹ دیے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ یو پی کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کے جو لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، اُن میں ۸۰فی صد کروڑ پتی ہیں‘‘۔ حیرت مگر اس بات پر ہے کہ مذکورہ جرائم پیشہ افراد کے رکن اسمبلی بننے کے باوجود مغرب کی ’مہذب دنیا‘ میں کسی کو بھارتی جمہوریت پر کوئی اعتراض نہیں ہے!  حتیٰ کہ سی این این ایسے بظاہر وقیع امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے اپنے تبصرے میں اُترپردیش میں بی جے پی کی تازہ کامیابی کو ’جمہوری دنیا کے لیے قابلِ فخر اور قابلِ تقلید‘ قرار دے ڈالا ہے۔ ہم توحیران ہُوئے ہی ہیں، خود بھارتی غیرجانب دار میڈیانے بھی سی این این کے اس تبصرے پر سخت حیرانی کا اظہار کیا ہے!

بھارتی انتخابی نتائج اور مسلم فکرمندی

سیّد سعادت اللہ حسینی o

مسلمانوں نے بالعموم اور ہندستانی مسلمانوں نے بالخصوص اپنی حالیہ تاریخ میں خود کو سب سے زیادہ نقصان اپنی جذباتیت سے پہنچایا ہے۔ جذباتیت صرف تشدد کا نام نہیں ہے ، بلکہ بسااوقات بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے پُرامن اقدامات بھی جذباتیت کا حصہ بن جاتے ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے بعض صورتوں میں سخت مہلک ہوسکتے ہیں۔ یہ شدتِ جذباتیت ہی ہے جو بعض پر انتہاپسندی کا بخار طاری کردیتی ہے اور بعض پر مایوسی و قنوطیت مسلط کردیتی ہے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں کو نہیں دیکھ پاتے اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم دنیا اور اس کی ہرچیز کو سیاہ اور سفید کے انتہائی خانوں میں بانٹ دیتے ہیں اور خاکستری (Grey) کا اندازہ نہیں کرپاتے۔ اسی شدت کے نتیجے میں بھارتی اکثریتی طبقے کے ذہن اور جذبات کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ اس سے رابطہ کاری (communication) کی راہیں تلاش کرپاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملّت ِ اسلامیہ ہند میں عوامی جذبات آگے ہیں اور قیادت پیچھے، بلکہ صحافت اور دانش وری کا کام بھی صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

حالیہ انتخابی نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے، وہ اسی نفسیات کا مظہر ہے۔ کوئی یوپی کے مسلمانوں کو کوس رہا ہے کہ انھوں نے ’’بہار کے مسلمانوں کی طرح دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘، تو کسی نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ: ’’مسلمان تباہی گوارا کرتے ہیں، لیکن اتحاد پسند نہیں کرتے‘‘۔ کوئی ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے، اور کسی کے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر ’غیروں‘ کو ووٹ دیا۔ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔

شدید ردعمل کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ چند دنوں تک جذبات کی آندھیاں چلتی ہیں، پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ شدتِ جذبات کی اوجِ ثریا سے کمالِ سکون کے تحت الثریٰ تک کا  یہ طویل سفر بس چند گھنٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا یہی اجتماعی احتجاجی مزاج ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ وہ مزاج جو واقعات کے صرف انتہائی سُروں ہی کو سن پاتا ہے۔ جو اُمیدیں وابستہ کرنے میں بھی فراخ دل ہوتا ہے اور مایوس ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔ جو ہرکوشش کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا مزاج اور ذوق، اصلاحِ احوال کی سنجیدہ، دھیمی اور طویل المیعاد کوششوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔

واقعہ یہ ہے کہ نہ یوپی کے مسلمانوں نے کوئی غیرمعمولی غلطی کی ہے اور نہ جو کچھ ہوا ہے، وہ کوئی بڑی تباہ کن آفت ہے۔ واقعات کو ہمیں اس کے اصلی رنگ میں اور درست تناسب میں دیکھنا چاہیے۔ یہی معقول رویہ ہے۔ بہار میں اتحاد مسلمانوں کا نہیں، بلکہ سیکولر جماعتوں کاہوا تھا۔ یوپی کی سیاست میں ایسا اتحاد ممکن نہیں ہوسکا، اور اس پر مسلمانوں کا کوئی بس نہیں تھا۔ مسلمانوں نے کبھی متحد ہوکر ووٹ نہیں دیا۔ ذات پات اور سیاسی جماعتوں کی تقسیم ہمیشہ رہی ہے۔ اس بار عام مسلمانوں نے معقولیت کے ساتھ ووٹ دینے کی ہرممکن کوشش کی۔کئی مسلم سیاسی جماعتوں نے حالات کو دیکھ کر خود کو انتخابی معرکے سے دُور رکھا۔ یہ خود ایک غیرمعمولی بات ہے، اور اس سے پہلے کسی صوبے میں ایسا نہیں ہوا۔ جن مسلم جماعتوں نے ان حالات میں بھی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، مسلمانوں نے عام طور پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا، جیساکہ ووٹوں کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ پہلے غیرمسلم ووٹ منقسم رہتے تھے، اس دفعہ وہ متحد ہوگئے۔ متحد کیوں ہوئے؟ اس کی وجوہ کئی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کا وفادار ووٹ بنک تو موجود ہے ہی۔ مسلمانوں کی جذباتی تقریریں، مذکورہ بالا قسم کے سوشل میڈیا پوسٹ، مسلم قائدین کی بے محل اور بے فیض اپیلیں، اُردو میڈیا کا شورشرابہ وغیرہ، فرقہ پرستوں کے وہ کارگر ہتھیار ہیں، جو مخلص مسلمانوں کے سادہ لوح ہاتھوں کے ذریعے پوری قوت سے استعمال ہوتے ہیں۔ انھوں نے منفی نتائج بخشنے کا کام خوب کیا۔ پھر بہت سے درمیانی ووٹرز بھی پلٹ گئے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی ایک قابلِ ذکر آبادی ایسی ہے، جو فرقہ پرست نہیں ہے، لیکن فرقہ پرستی کا خاتمہ اس کا سب سے بڑا ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ وہ متبادل، حوصلہ مند، نسبتاً زیادہ دیانت دار اور محنتی حکمران چاہتے ہیں ، اور اپنی سوچ کے مطابق موجودہ وزیراعظم میں انھیں یہ خوبیاں دکھائی دیں اور انھوں نے دوسروں پر انھیں ترجیح دی۔

ذات پات اور طبقات میں بٹے ہوئے اس معاشرے کو کوئی طاقت ور مشترک خواب، کوئی مشترک اُمید اور کوئی نہایت حرکیاتی مشترک قیادت ہی متحد کرسکتی ہے۔ جوں ہی ملک کی بڑی آبادی کو یہ چیز میسر آئی، تو ذات پات کی دیواریں گرنے لگیں۔ مسلمانوں کو میسر آئے گی تو وہ بھی متحد ہوجائیں گے۔ ایسے کسی مشترکہ وژن اور متحدہ قیادت کے بغیر یہ اُمید کرنا کہ ہرمسلمان غیبی الہام کے ذریعے کسی ایک امیدوار کو متحد ہوکر ووٹ دے گا، خام خیالی ہے۔ بڑے سے بڑا تجزیہ نگار بھی بی جے پی کی مدمقابل پارٹی کی انتخابی پوزیشن کا اندازہ نہیں بتا سکتا تھا ،تو ایسے میں ایک عام مسلمان صحیح اندازہ کرکے ووٹ کیسے دیتا؟

رہی بی جے پی کے پردے میں آر ایس ایس کی جیت، تو اس کی بنیاد پر مسلمانوں کو خواہ مخواہ احساسِ شکست کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ نہ بی جے پی نے پہلی بار کسی ریاست میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور نہ یوپی میں پہلی بار کسی کو اتنی سیٹیں ملی ہیں۔ یہ صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے، بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے۔ یہ تحریک ایک عرصے سے اس ملک میں سرگرم ہے اور بہت پہلے   اس نے طاقت کے بہت سے مراکز پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔

آزادی سے قبل اور فوری بعد، خود کانگریس کا ایک بڑا طبقہ اسی نظریے کی سیاسی نمایندگی کرتا تھا۔ اسی طبقے کی انتہاپسندانہ اور عدم رواداری کی سوچ کے نتیجے میں تقسیم ہند کا عمل تیز تر ہوا۔اسی طبقے نے فسادات کو ہندستان کی تاریخ کا مستقل حصہ بنایا۔ اسی نے منظم طریقے سے اُردو زبان کی جڑیں کاٹیں۔ جگہ جگہ مسجد مندر کے مصنوعی تنازعے پیدا کیے۔ پولیس اور انتظامیہ میں تعصب کا زہر پھیلایا۔ وقتی اور جذباتی مسائل میں مسلمانوں کو اُلجھایا۔ ان کی قیادتوں کو کمزور کیا۔ یاد رہے بھارت کا حقیقی اقتدار اصلاً بہت پہلے سے اسی طبقے کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے محض بی جے پی کے جیت جانے سے کسی بہت بڑے ’انقلاب‘ کا امکان نہیں ہے۔ انقلاب کا عمل آزادی کے بعد ہی سے جاری ہے۔ آزادی کے فوری بعد جس مقام پر کانگریس کھڑی تھی، اُس مقام پر   آج بی جے پی کھڑی ہے۔ اُس وقت کانگریس کا ایک طبقہ مسلم دشمن تھا، آج بی جے پی کا ایک طبقہ مسلم دشمن ہے۔ اُس وقت وہ مقبول جماعت تھی اور آج یہ ہے۔ اُس وقت کانگریس میں لبرل اور  انصاف پسند لوگ بھی تھے اور آج بی جے پی میں بھی ہیں (اگرچہ تعداد اور تناسب میں یہ کم زیادہ ہوسکتے ہیں)۔ ان فرقہ پرست قوتوں کو یقینا ہارنا چاہیے تھا، لیکن اگر وہ نہیں ہاریں تو ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر کوئی بالکل نئی اور غیرمتوقع قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔

اصل قابلِ توجہ چیز اس ملک کے عوام کا ذہن ہے۔ خاص طور پر اس ملک کی نئی نسل اور تعلیم یافتہ نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ اصل مسئلہ ہے۔ اگر ذہن مثبت ہے تو بی جے پی بھی کوئی غیرمعمولی کام نہیں کرپائے گی اور کچھ کرے گی تو ٹک نہیں پائے گی، اور اگر ملک کا اجتماعی ذہن منفی ہے تو سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کی طرف داری کا خطرہ مول لے کر ’خودکشی‘ کا راستہ نہیں اختیار کریں گی۔ اَمرِواقعہ ہے کہ ان نتائج کے باوجود غیرمسلم اکثریت میں بدترین تعصب نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب ذہن تیزی سے مسموم ہوتے جارہے ہیں اور ان کا بروقت نوٹس لینا ضروری ہے۔

کرنے کا اصل کام پہلے بھی یہ تھا اور آج بھی یہ ہےکہ ہم مسلمان ملک کی اکثریت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کریں۔ ان کی غلط فہمیاں اور ان کے غلط شبہات اور اندیشے دُور کریں۔ پوری خوداعتمادی کے ساتھ دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیں اور اس دعوت کی عملی شہادت بھی دیں۔ انھیں دین اسلام کے بارے میں بھی بتائیں اور اپنے عمل سے بھی خود کو خیرخواہ ثابت کریں۔ قوموں نے انبیاے علیہم السلام کی مخالفت ضرور کی ہے، لیکن کسی نبیؑ کو ان کی قوم نے اپنا بدخواہ نہیں سمجھا۔ دعوت کے آغاز سے پہلے ہرنبیؑ کا امیج اپنی قوم میں ایک مخلص اور خیرخواہ فرد کا تھا۔ ہمارا ایسا امیج کا   نہ ہونا دعوت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ بھی۔ یہاں کی آبادی سے خیرخواہی کا تعلق قائم کرنا اور اسے منوانا، اس وقت ہماری اصل ترجیح ہونی چاہیے۔

سیاسی سطح پر بڑی ضرورت بیدارمغز سیاسی قیادت کے اُبھرنے کی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی و ملّی جماعتیں مل بیٹھ کر مشترکہ سیاسی قوت کو اُبھاریں۔ یاد رہے خود مسلم فرقہ پرستی ۱۰گنا زیادہ طاقت ور ہندو فرقہ پرستی پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ہماری سیاست کو فرقہ پرست اور مسلم قوم پرست رنگ کے بجاے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اصول پسند اور انصاف پسند سیاست کا رنگ اختیار کرنا چاہیے۔

یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ ہرجگہ انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے۔ ملک کے اکثر مقامات پر غیرانتخابی سیاسی اثراندازی کی حکمت ِ عملی ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔کہیں کہیں محدود پیمانے پر صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ تمام طبقات کی نمایندگی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، لیکن زیادہ تر ہماری قیادت کو سیاسی جماعتوں سے گفت و شنید اور مصالحت و معاہدات ، ووٹرز کی صحیح رہ نمائی کرنا اور منتخب نمایندوں سے کام کرانا جیسے عمل ہی کرنے ہوں گے۔ ایسی مشترکہ اور دانش مند قیادت اُبھرتی ہے تو وہ بی جے پی سے بھی بہت سے مفید کام کراسکتی ہے، اور ایسی قیادت کے بغیر من موہن سنگھ جیسے وزیراعظم کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود ’سچرکمیٹی‘ جیسے متعدد فیصلے بھی ۱۰برس بعد بے اثر رہ جاتے ہیں۔

نئے امریکی صدر ، ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت چلانے کے لیے ابتدائی طور پر اپنے جن قریبی اور معتمد ساتھیوں کا انتخاب کیا ، اِسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عرب ممالک،کشمیر اور فلسطین سے کس طرح کے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ اُنھوں نے سینیٹر جیف سیشنز کو امریکی اٹارنی جنرل، مائیک پامپیو کو سی آئی اے کا سربراہ، جنرل (ر) میٹس کو وزیر دفاع اور جنرل (ر) مائیکل فیلن کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر بنایا (مائیکل فیلن کی تو اپنے کرتوتوںکے باعث چند دن پہلے چھُٹی ہو گئی ہے)۔ یہ چاروں افراد ماضی قریب میں اسلام اور مسلمانوں سے بے زاری کا کھلم کھلا اظہار کرچکے ہیں۔ اسلام کے بارے میں کہے گئے اُن کے دل آزار الفاظ یہاں نقل ہی نہیں کیے جا سکتے۔

اِن امریکی اور اسرائیلی یہودیوں کے عالمِ اسلام کے بارے میں جو بھی خیالات ہیں، وہ ہم سب پر پوری طرح مترشح ہیں۔ ٹرمپ کی یہود دوستی کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے نیویارک ٹائمز کی مشہور تجزیہ نگار ازابیل کریشنر نے اپنے ایک حالیہ طویل مقالے میں لکھاہے: ’’ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے اسرائیل میں کٹر یہودیوں اور فلسطین مخالف سیاستدانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کی کامیابی کی خبر سنتے ہی ایک اسرائیلی وزیر نفتالی بینٹ نے ان الفاظ میں نعرہ لگایا تھا: ’اب فلسطین کا شورو غوغا ختم۔‘ اور اسرائیلی وزیر داخلہ ایری ڈیری نے ٹرمپ کی جیت پر چہکتے ہوئے کہا تھا: ’یہ تو ہمارے حق میں معجزہ ہوا ہے، یوں کہیے کہ خدا نے اسرائیل کی فتوحات کے دروازے کھول دیے ہیں‘۔ اسرائیلی یہودیوں کی یہ طمانیت واضح طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نوازی کو بے نقاب کررہی ہے! وہ اسرائیلی یہودیوں کے مفادات کے تحفظ میں کہا ں تک جا سکتے ہیں، اس حوالے سے ۲۲ دسمبر۲۰۱۶ء کو ایک عجب واقعہ رُونما ہوا۔ دسمبر کے آخری ہفتے مصر اقوامِ متحدہ میں فلسطینی زمینوں پر زبردستی اسرائیلی بستیاں بسائے جانے کے خلاف ایک قرار داد لانے جا رہا تھا۔ اسرائیل حقیقی معنوں میں اس ممکنہ مصری اقدام سے بہت خائف تھا؛ چنانچہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو  نے ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطہ کیا کہ وہ مصر پر دبائو ڈالے کہ اقوامِ متحدہ میں یہ قرار دادلانے سے    باز رہے۔ اصولی طور پر نیتن یاہو کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ سے یہ مطالبہ کرنا سراسر غیر قانونی تھا کہ ابھی تو ٹرمپ نے امریکی صدر کا باقاعدہ حلف بھی نہیں اٹھایا تھا، لیکن اس کے باوجود ٹرمپ نے مصری صدر کو فون کرکے اسرائیل کے خلاف مذکورہ قرار داد لانے سے منع کر دیا ۔

صدر ٹرمپ نے اسرائیل میں جس شخص کو بطور امریکی سفیر منتخب کیا ہے، وہ بھی اپنی اسرائیل و یہود نوازی میں امریکا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ اِن صاحب کا نام ہے: ڈیوڈ فریڈ مین۔ پیشے کے اعتبار سے وہ وکیل ہیں لیکن ایک مدت سے ٹرمپ کے سیاسی مشیر چلے آ رہے ہیں۔     وہ ایسے اسرائیل نواز امریکیوں میں سرِ فہرست ہیں، جو نہ صرف اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو بیت المقدس میں منتقل کرنے کے زبردست حامی ہیں بلکہ اُن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت بھی یروشلم یا بیت المقدس ہی ہونا چاہیے۔ اِس سلسلے میں ڈیوڈفریڈ مین کے یہ الفاظ ملاحظہ کیجیے: ’’بیت المقدس اسرائیل کا ’ابدی اور غیر منقسم ‘ دارالحکومت ہے‘‘۔

ڈیوڈ فریڈمین فلسطین اوراسرائیل کے درمیان مجوزہ امن کے راستے ’دو ریاستی فارمولا‘ کے بھی مخالف ہیں اور کھلے بندوں اسرائیل میں دائیں بازو کے شدت پسند (یعنی مسلم دشمن) گروہوں کے پسندیدہ ہیں، بلکہ وہ فلسطین کے مغربی کنارے میں زبردستی یہودیوں کی مزید بستیاں بسانے کے بھی حامی ہیں (واضح رہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی تعداد ۲۶ لاکھ ہے، جب کہ اُن کے بیچوں بیچ ۴ لاکھ اسرائیلی یہودی بھی زورزبردستی آباد ہو چکے ہیں)۔ صدارتی مہم کے دوران فلوریڈا کے ایک جلسے میں، جہاں کثیر تعداد میں یہودی سامعین موجود تھے اور ڈیوڈ فریڈ مین بھی حاضر تھا، ٹرمپ نے کہا تھا: ’’ فریڈ مین امریکا اور اسرائیل کے درمیان خصوصی تعلق کو برقرار بھی رکھے گا اور اِس تعلق کو خوب نبھائے گا‘‘۔ صدر منتخب ہو کر ٹرمپ نے اِنھی اسرائیل و یہود نواز ڈیوڈفریڈمین کو اسرائیل میں امریکا کا سفیر متعین کر کے اپنا وعدہ بھی نبھایا ہے اور امریکی و اسرائیلی کٹریہودیوں کو بھی خوش کر دیا ہے۔ فلسطینی قیادت فریڈ مین کی تعیناتی پر سخت مضطرب ہے۔ اِسی لیے پی ایل او کے سیکریٹری جنرل، صائب اریکات، نے کہا ہے کہ ڈیوڈ فریڈ مین اور نئی امریکی قیادت بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی باتیں کرنے سے باز رہے۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے فریڈمین کی تعیناتی پر گہرے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

ٹائم، میگزین کے معروف تجزیہ نگار کارل وِک نے اسرائیل میں متعین کیے جانے والے اِس امریکی سفیر کی تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں لکھا ہے:’’ ٹرمپ نے فریڈمین کو، جو کہ امریکی صدر ٹرمپ کے جُوا خانوں کے قانونی معاملات کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے تھا، اسے اسرائیل میں امریکا کا سفیر لگا کر یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی توسیع پسندی کے حق میں ہے۔ اِس تعیناتی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ٹرمپ نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ مغربی کنارے پر بھی اسرائیل کو اپنی بستیاں بسانے کا پوراپورا حق ہے۔ یہ اشارہ اور فیصلہ اب تک فلسطین کے حوالے سے جاری امریکی پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے، جس کے نتائج مہلک ہوںگے‘‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل نواز اور دنیا بھر میں پھیلے یہودیوں کے مفادات کا حامی اور محافظ ہونے کی گواہی خود اسرائیلی میڈیا دے رہاہے۔ ٹرمپ کا بذاتِ خود اُن معروف، مؤثر اور ثروت مند امریکیوں میں شمار ہوتا ہے، جنھوں نے ہمیشہ اِس امر کی وکالت اور حمایت کی ہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب نہیں، یروشلم ہونا چاہیے۔

یروشلم مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے یکساں طور پر محترم اور مکرم ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اوّل اِسی تاریخی اورقدیم شہر میں ہے۔ بیت المقدس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ کعبہ شریف اور مدینہ منورہ کے بعد ساری دنیا کے مسلمان بیت المقدس کی حُرمت و تقدس پر جان چھڑکتے ہیں۔ اہلِ یہود کی مذہبی نشانیاں (دیوارِ گریہ اور ہیکلِ سلیمانی) بھی اِسی شہر میں ہیں۔ عیسائیوں کا ’بیت اللحم‘ (وہ تاریخی مقام جہاں روایات کے مطابق سیدنا مسیحؑ کی ولادت ہوئی) بھی اِسی شہر کا دل آویز جُزو ہے؛چنانچہ عالمی اہلِ دانش کااصرار ہے کہ شہرِ یروشلم کو سیاست اور اقتدار کے بکھیڑوں سے علیحدہ رکھتے ہوئے اِسے اسرائیلی دارالحکومت نہ بنایا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ اس کے باوجود صہیونی اسرائیلیوں کی تمنا یہی ہے کہ یروشلم ہی اُن کا مرکزی دارالحکومت ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ اِنھی انتہا پسند یہودیوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے جارہے ہیں ۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اس امر کا بھی انکشاف کیا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مقبوضہ فلسطین میں یہودی آباد کاری اوراسرائیلی توسیع پسندی کے ایک بڑے ڈونر ہیں۔ وہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے وہاں اسرائیلی یہودیوں کے لیے رہایشی مکانات ، مارکیٹیں اور تعلیمی ادارے بنانے کے لیے عطیات کی شکل میں نقد سرمایہ فراہم کرتے رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی زمینوں پر زور زبردستی یہودی آباد کاری ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہا ہے۔ اسی تنازعے کا یہ بھی شاخسانہ ہے کہ ۱۹۸۰ء میں غزہ کی پٹی سے، جہاں فلسطینی اکثریت میں آباد ہیں، عالمی دباؤ پر  نئے آباد کاریہودیوں کو بے دخل کر دیا گیاتھا۔ اور یہ مسٹر ٹرمپ ہیں جنھوں نے ان نکالے گئے یہودیوں کو پھر سے آباد کرنے کے لیے اسرائیل کو کروڑوں ڈالر کی امداد فراہم کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۹نومبر۲۰۱۶ ء کو امریکی انتخابات میں تقریباً سبھی امریکی یہودیوں نے متفقہ طور پر اپنے ووٹ ٹرمپ کے حق میں ڈالے اور اُنھیں کامیاب وکامران بنایا۔

کہا جاتا ہے کہ کٹر یہودی مذہبی طبقات میں کسی بھی ایسے شخص یا گروہ کو دل سے قبول نہیں کیاجاتا جو کوئی دوسرا مذہب چھوڑ کر یہودیت قبول کر لے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے معاملے میں  اُلٹی گنگا بہا دی گئی ہے۔ ٹرمپ کی بڑی بیٹی ایوانکا ٹرمپ (۳۵ سالہ) نے شادی سے پہلے عیسائی مذہب چھوڑ کریہودیت اختیار کر لی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے محبوب جیئرڈ کُشنر سے، جو نیویارک کے ایک نہایت متموّل اور قدیمی یہودی خاندان سے تعلق رکھتا ہے، شادی کرنا چاہتی تھی۔ کُشنر اور اُس کے خاندان کے دباؤ اور خوشنودی کی خاطر ایوانکا یہودی ہوگئی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کوئی اعتراض نہ کیا۔ اب اس کے تین بچے ہیں۔ ایوانکا اپنے والد کے بہت قریب اور ’ڈونلڈ ٹرمپ فاؤنڈیشن‘ کی سربراہ بھی ہے، ارب پتی والد کے تمام کاروبار کی شریک اور معتمد مشیر بھی۔ صدارتی انتخابات میں وہ ٹرمپ کے ساتھ ساتھ تھی۔ امریکی میڈیا میں باربار یہ منظر نمایاں طور پر دکھائی دیاہے کہ جب بھی ٹرمپ یہودی ووٹروں کے ہاں گئے، وہ اپنی اس بیٹی اوراس کے بچے بھی ساتھ لے جاتے اور اُنھیں گود میں اٹھا کر کہتے :’’ یہودیوں اور اسرائیل سے میری دوستی اور محبت کااس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ میرے نواسے یہودی ہیں ، میری سب سے عزیز بیٹی بھی یہودی ہے، میرا داماد بھی یہودی ہے اور وہ آپ سب کا جانا پہچانا ہے اوراُس کا سارایہودی خاندان بھی‘‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنی اسی یہودی بیٹی کی وجہ سے اپنے یہودی داماد پر ، اپنے بیٹوں کے مقابلے میں، زیادہ اعتبار ہے۔ ایوانکا پر ٹرمپ کو کس قدر اعتبار ہے، اس کی ایک اور مثال سامنے آتی ہے: ابھی ٹرمپ نے باقاعدہ امریکی صدر کاحلف بھی نہیں اٹھایا تھا کہ جاپانی وزیر اعظم شانزوایبے نے۱۸نومبر۲۰۱۶ء کو نیویارک میں ٹرمپ سے ملاقات کی۔ وہ امریکا کے سرکاری دورے پر آئے ہوئے تھے، اس لیے نَو منتخب امریکی صدر سے بھی ملنا مناسب سمجھا۔ اور دنیا یہ  دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس ملاقات میں ٹرمپ کی یہی صاحبزادی بھی موجود تھیں۔ جاپانی وزارتِ خارجہ کو اس محترمہ کی موجودگی گراں تو گزرتی رہی مگروہ بوجوہ خاموش ہی رہے کہ پہلے ہی ٹرمپ نے جاپان کو ملفوف اندازمیں کچھ دھمکیاں دے رکھی تھیں۔

امریکا کے ایک ممتاز اخبار نویس آین گرین ہالگ نے ایک مشہور امریکی جریدے میں مفصل مضمون میں حقائق اوراعدادو شمار کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اصل صلاح کار، تمام کے تمام یہودی النسل بھی ہیں اوراُن کے اسرائیل کے ساتھ گہرے اور دیرینہ تعلقات بھی استوار ہیں۔ یہ مضمون Meet The Jews in Donald Trump's Inner Circle کے زیر عنوان شائع ہوا ہے۔ اِس چشم کشا مضمون کی اشاعت کے آغاز میں ایڈیٹر نے  ایک ضروری نوٹ ان الفاظ میں لکھاہے: ’’ڈونلڈ ٹرمپ امریکی واسرائیلی یہودیوں کے حصار میں ہیں، سیاست میں بھی، کاروبار میں بھی، اورمشاورت میں بھی۔  وہ ان کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فی الحقیقت یہودیوں کی کٹھ پُتلی بن چکے ہیں‘‘۔

اس کے بعد مضمون نگار آین گرین ہالگ نے تصویروں کے ساتھ اُن اہم ترین ۱۰؍افراد کا ذکر کیا ہے ، جنھوں نے امریکا کے نئے صدر ٹرمپ کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ اِن اہم افراد کے نام یہ ہیں : اسٹیفن بینن، جین گرین بلاٹ، ڈیوڈ فریڈمین، جئیرڈ کُشنر، ایوانکا ٹرمپ، بورس آپشٹن، اسٹیفن ملر، اسٹیون مناہم، لیوس آئزن برگ اور مائیکل گاسز۔ مذکورہ تمام افراد کے تعارف میں مضمون نگار کے الفاظ پڑھ کراحساس ہوتا ہے کہ ان اشخاص کی مرتب کردہ پالیسیوں اور دیے گئے مشوروں پراگر ٹرمپ نے عمل کیا تو فلسطین، عالمِ عرب اور کشمیری مسلمانوں کا بھلا ہر گز نہیں ہوگا اور نہ مشرقِ وسطیٰ میں لگی آگ بجھانے کی کوئی کوشش معرضِ عمل میں آئے گی۔

اسرائیل کے ایک مشہور اخبار دی ٹائمز آف ازرائیل کے تجزیہ نگار اڈیو سٹرمین نے ۹نومبر۲۰۱۶ ء کو امریکی صدارتی انتخابات کے دوران لکھاتھا: ’’اسرائیل کاتمام عبرانی میڈیا ڈونلڈٹرمپ کی حمایت کر رہا ہے۔ عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اسرائیلی اخبارات اور نشر ہونے والے پروگراموں نے اپنے تجزیوں اور حمایت کے سارے انڈے ٹرمپ کی ٹوکری میں ڈال دیے ہیں۔ حیرت ہے کہ خالص یہودی مفادات کے پرچارک اورمحافظ دو بڑے اسرائیلی اخبارات (ادیوت اخانوت اور ہارٹز) بھی صرف ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں‘‘۔

انتخابات جیتنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کومبارک باد کا سب سے پہلا فون اسرائیلی وزیر اعظم  نیتن یاہو نے کیاتھا۔ یاہو نے ٹرمپ کو ’اسرائیل کا سچا اور کھرا دوست ‘ کے نام سے یاد کیا۔ جواب میں ٹرمپ نے کہاتھا : ’’آج مَیں نہیں جیتا، بلکہ آپ کا بھائی فتح یاب ہوا ہے‘‘۔ اور نیتن یاہو     دنیا کے پہلے سر براہِ مملکت ہیں، جنھیں ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی دورے کی دعوت دی۔

اسرائیلی یہودیوں سے ٹرمپ کی گہری دوستی کا ایک مظاہرہ دسمبر کے آخری ہفتے میں بھی سامنے آیا۔۲۷دسمبر۲۰۱۶ ء کو اقوامِ متحدہ نے کثرتِ راے سے ایک قرار داد منظور کی جس میں اعلان کیا گیا کہ: ’’مغربی کنارے اوربیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی بستیاں بسانا غیر قانونی اور غیراخلاقی ہے‘‘۔ تب امریکی وزیر خارجہ، جان کیری، نے کہا تھا کہ:’’اسرائیلی اقدامات دو ریاستی فارمولے کو سبوتاژ کرنے کا باعث بن رہے ہیں‘‘۔ چنانچہ نیتن یاہو نے پلٹ کر امریکا کی بھی   بے عزتی کی اور ہر اُس ملک کی بھی، جس نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ تاہم، صدر ٹرمپ نے اِس قرار داد کی مخالفت اور اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کا بھی مذاق اڑایا اور کہا: ’’یواین او محض اچھا وقت گزارنے کے لیے ایک کلب ہے‘‘۔ ٹرمپ صاحب نے اسرائیل کو ہلہ شیری دیتے ہوئے مزید کہا:’’نیتن یاہو (اسرائیلی وزیر اعظم ) کو نہ بے صبری کامظاہرہ کرنا چاہیے اور    نہ ہمت ہارنی چاہیے۔ اسرائیل خاطر جمع رکھے‘‘۔

ایک مظلوم، بے گناہ اور بے بس کشمیری مسلمان نوجوان سے وابستہ یادوں سے دل مغموم ہے۔ ۹فروری ۲۰۱۳ء کو کشمیری محمد افضل گورو کو بھارتی برہمن اسٹیبلشمنٹ نے دہلی کی تہاڑجیل میں نہایت ظالمانہ طریقے سے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ اس پر مزید ستم یہ ڈھایا گیا کہ شہید کی میت بھی اُن کے والدین، بیوہ (تبسم) اور نہایت کمسن اکلوتے بیٹے غالب کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ شہید افضل گورو کا جسد ِ خاکی تہاڑجیل کے اندر ہی مدفون ہے۔ ظلم اور جبر کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے!

بھارت نے الزام لگایا تھا کہ ۲۰۰۱ء میں بھارتی پارلیمنٹ کی عمارت پر جو فائرنگ ہوئی تھی، اس کا ماسٹرمائنڈ افضل گورو تھا۔ ۱۲سال تک مقدمہ چلا۔ اس دوران تمام شواہد نے ثابت کردیا کہ افضل کسی بھی سطح پر اس کے ذمے دار نہیں ہیں، لیکن اس کے باوصف بھارتی عدالت نے اُنھیں موت کی سزا سنادی۔ ہندو ججوں کے سفاک الفاظ ملاحظہ کیجیے:

بھارت کے اجتماعی ضمیر کا تقاضا ہے کہ افضل گورو کو موت کی سزا دے کراُس کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔

۹فروری کو ۴۴سالہ گورو کو پھانسی دے دی گئی۔ بھارت کی ممتاز دانش ور اور معروف ادیب ارون دھتی رائے نے اس موقعے پر برطانوی اخبار گارڈین  میں طویل مذمتی مضمون میں لکھا تھا: ’’افضل گورو کی موت بھارتی جمہوریت کے دامن پر ایسا سیاہ دھبہ ہے، جو کبھی نہیں دُھل سکے گا‘‘۔

افضل گورو کا خون ان شاء اللہ رائیگاں نہیں جائے گا، لیکن دوسری طرف بھارت نے بھی مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ وہ تحریک ِ آزادیِ کشمیر کو کچلنے کے لیے ہرغلیظ ہتھکنڈا بروے کار لائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ ، مجاہدین کشمیر کے حوصلے پست کرنے کے لیے کشمیر میں عفت مآب مسلم خواتین کی عصمتیں پامال کرنے سے بھی باز نہیں آرہی۔

اس ضمن میں ہولناک حقائق سامنے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲فروری ۲۰۱۷ء کو سری نگر  سے شائع ہونے والے ممتاز انگریزی روزنامے The Rising Kashmir کی ایک خبر ملاحظہ کیجیے۔ اخبارمذکور میں یاورحسین نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ جب مقبوضہ کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے ایک رکن، ایم وائی تریگامی نے اسپیکر سے ریاست میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والے حالیہ عصمت دری (ریپ) کے سانحات سے متعلق بار بار سوال پوچھا تو اسمبلی کی طرف سے اُنھیں تحریری جواب میں بتایا گیا کہ:

گذشتہ دو برسوں (۱۶-۲۰۱۵ء) کے دوران میں مقبوضہ کشمیر میں ۵۹۵ خواتین کی عصمت دری کے واقعات رپورٹ ہوئے۔

یہ تعداد تو وہ ہے جس کا پولیس اسٹیشن میں باقاعدہ اندراج کیا گیا، مگر واقعہ یہ ہے کہ ریپ کے لاتعداد ایسے سانحات ہیں، جو وقوع پذیر تو ہوئے لیکن مقبوضہ کشمیر کی پولیس نے اُنھیں ریکارڈ کا حصہ بنانے سے انکار کر دیا۔

اس قبیح جرم کا ارتکاب کرنے والوں میں بھارتی فوجی افسر اور بارڈر سیکورٹی فورسز کے وہ اہل کار شامل ہیں، جنھیں دہلی اسٹیبلشمنٹ نے خصوصی طور پر مقبوضہ کشمیر میں تعینات کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے دو اضلاع، کپواڑہ اور اَننت ناگ میں کشمیری مسلمان خواتین کی سب سے زیادہ بے حُرمتی کی گئی ہے۔ سب سے زیادہ دردناک سوال یہ ہے کہ عالمی ضمیر بھارت کے اِن قاہرانہ اقدامات پر کب جاگے گا؟

واشنگٹن سے ممتاز کشمیری دانش وَر ڈاکٹر غلام نبی فائی، اِن بھارتی مظالم کے بارے میں باربار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی حکومت کو خط لکھ کر بیدار اور آگاہ کرنے کی اپنی سی مساعی تو کر رہے ہیں، لیکن بھارت کی طرف جھکا امریکی پلڑا فائی صاحب کی چیخوں پر کان دھرنے سے انکاری ہے۔ بھارت سے اربوں ڈالر کی تجارت کرنے والے عرب مسلمان ممالک بھی (مثلاً  متحدہ عرب امارات کا پچھلے ہی ماہ بھارت سے ۷۵؍ارب ڈالر کا سرمایہ کاری معاہدہ) اس ضمن میں کم درجہ بے حس نہیں ہیں۔ اُمت مسلمہ کی تسبیح پڑھنے والے سب خاموش ہیں اور مہر بہ لب۔   ظلم اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ بھارت کے اندر انسانی حقوق کی پاس داری کرنے والوں میں سے ایک نمایاں دانش ور ، امیت سین گپتا نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے:

بھارت نے نہایت ہی وحشت سے مقبوضہ کشمیر کی مزاحمتی آوازوں کو دبانے کی کوشش کی ہے، اور اب بھارتی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ بھارتی مکالمے سے کشمیریوں کے مسائل و مصائب کا ذکر ہی دانستہ غائب کر دیا گیا ہے۔

کیا ایسا ہوگا کہ افضل گورو کے پھانسی لگنے کے بعد بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کے باقی نوجوانوں سے صرفِ نظر کرلے گی؟

نظر تو یہی آرہا ہے کہ بھارتی ستم گر ،کشمیری نوجوانوں کو مختلف الزامات کے تحت موت کی سزائیں دیتے رہیںگے۔ یہ سلسلہ رُکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ بھارت دنیا میں کسی کی بھی  پروا کیے بغیر حُریت پسند کشمیریوں کی گردن توڑ دینا چاہتا ہے۔ بھارتی استبداد کی ایک نئی مثال بھی سامنے آگئی ہے۔ کشمیریوں پر ظلم و جَور کا یہ سانحہ سری نگر سے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر دُور مغربی بنگال کے مرکز، کلکتہ میں پیش آیا ہے۔ ایک ۲۲سالہ کشمیری معصوم نوجوان، مظفراحمد راتھر کو کلکتہ کے جج  بی کے پاٹھک نے چند دن پہلے ہی سزاے موت سنائی ہے۔ مظفرراتھر کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے علاقے کلگام سے ہے۔ وہ ایک غریب خاندان کا بیٹا ہے۔ جج نے یہ کہتے ہوئے راتھر کو پھانسی کا حکم سنایا ہے: ’’وہ بھارت کی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا‘‘۔ حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔

مظفر احمد راتھر کے بھائی، ریاض احمدراتھر کا بیان ہے:

مظفر۱۰سال کا تھا کہ ۲۰۰۲ء میں ایک روز وہ سکول سے آتا ہوا غائب ہوگیا۔ اُس کی گمشدگی اور اغوا کی رپورٹ درج کروا دی گئی تھی، لیکن پھر برسوں اُس کا کوئی اَتا پتا معلوم نہ ہوسکا۔ پانچ سال بعد ۲۰۰۷ء میں ہمارے گائوں کے نمبردار نے میرے والد، عبدالمجید راتھر کو بتایا کہ پولیس آئی تھی اور بتارہی تھی کہ مظفرراتھر زندہ ہے، مغربی بنگال سے دہشت گردی کرتے ہوئے گرفتار ہوا ہے اور اب کلکتہ جیل میں ہے۔ یہ سن کر ہمارے تو پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ مظفر جب غائب ہوا تھا، ۱۰ سال کا تھا۔ ۱۰سالہ بچہ بھلا کیا اور کیسی دہشت گردی کرسکتا ہے؟ اب، جب کہ وہ ۲۲برس کا ہوچکا ہے، اور گذشتہ ۱۲برسوں سے جیلوں کی سختیاں اور تشدد بھی مسلسل سہتا آرہا ہے، اچانک اُسے سزاے موت سنا دی گئی ہے۔

مقبوضہ کشمیر میں اب یہ کہانیاں زبان زدِ خاص و عام ہیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں مقبوضہ کشمیر کے کم سن لڑکوں کو اغوا کرتی ہیں، اُنھیں برسوں غائب رکھا جاتا ہے، اور ایک روز ان پر قتل، ڈاکے اور دہشت گردی کے مقدمات ڈال کر انھیں ذرائع ابلاغ کے سامنے لایا جاتا ہے۔  پھر بھارتی میڈیا میں اُن کے (ناکردہ) گناہوں کی خوب تشہیر کی جاتی ہے اور آخرکار یہ خبر بھی آجاتی ہےکہ فلاں کشمیری نوجوان کو عمرقید یا سزاے موت سنا دی گئی ہے۔ کلگام کے مظفرراتھر کے ساتھ بھی یہی اندوہناک کھیل کھیلا گیا ہے۔

ممتاز اور بزرگ کشمیری رہنما سیّد علی شاہ گیلانی نے کہا ہے کہ: بے گناہ مظفر راتھر کو  سزاے موت سنا کر بہت بڑا ظلم کیا گیا ہے۔ چنانچہ ۳فروری ۲۰۱۷ء کو حُریت قائدین کی    متحدہ قیادت میں پورے مقبوضہ کشمیر میں مظفراحمد راتھر کو سنائی جانے والی سزاے موت کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا۔ ایسے احتجاج تو بے گناہ افضل گورو کو سنائی جانے والی سزاے موت کے خلاف بھی بہت ہوئے تھے،لیکن بھارت افضل گوروکو پھانسی دینےسے باز نہ آیا۔ تو کیا مظفرراتھر کی شکل میں ایک اور افضل گورو کی شہادت کا خوں رنگ منظر اُبھرنے والا ہے؟ ابھی تو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیری بُرہان مظفروانی کی شہادت کا دُکھ نہیں بھولا تھا کہ اب مظفرراتھر کی غم ناک داستان سامنے آگئی ہے۔ میرے اللہ، تو کشمیری بھائیوں پر رحم فرما!