۲۰کروڑ آبادی کے ساتھ اُتر پردیش بھارت کا سب سے بڑا صوبہ ہے اورتاریخی لحاظ سے بھی یہ بہت اہم ریاست ہے۔ رانی جھانسی کا قلعہ اور تاج محل (آگرہ) کی پُرشکوہ عمارت بھی اسی ریاست میں ہے۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، جس کی بنیاد جناب سرسیّداحمد خاں نے رکھی تھی، اسی صوبے کا معروف نام ہے۔ وارنسی(بنارس) شہر ،جسے برہمنوں کا ’مذہبی دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے، اُترپردیش کا حصہ ہے۔ فیض آباد (جہاں مبینہ طور پر رام دیوتا کی پیدایش ہُوئی) اور گورکھ پور جیسے خالصتاً ہندو شہر اسی صوبے کے جزو ہیں جن پر کٹر ہندو قوم پرست فخر کرتے ہیں۔
اب یہ برہمنی رنگ، گورکھ پور کے بڑے مندر کے مہنت یوگی ادیتا ناتھ کی شکل میں بطور وزیراعلیٰ اُترپردیش، سیاسی اور اقتداری لحاظ سے غالب آ چکا ہے۔ ادیتا ناتھ اور اُن کے کروڑوں چاہنے والوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ ہم اقتدار میں آئے تو بھارت بھر کا ہروہ شہر جو کسی مسلمان نام سے معروف ہے، اُس کا نام تبدیل کر کے ہندو شکل دے دیں گے۔ بی جے پی بھارتی مسلمانوں کے مشہور علمی شہر، دیوبند، کا نیانام ’دیوربند‘ رکھنے کی تجویز اُترپردیش کی صوبائی اسمبلی میں پیش کر چکی ہے۔ وہ تاج محل کا نام بھی تبدیل کرنے کے عزم کا اعلان کر چکے ہیں۔ ادیتا ناتھ نے حالیہ صوبائی انتخابی مہم کے دوران واضح طور پر جگہ جگہ اعلان کیا تھا کہ: ’’اگر مَیں وزیر اعلیٰ بن گیا تو ہمایوں پور کا نام’ہنومان پور‘ اور اسلام پور قصبے کا نام ’ایشور پور‘ رکھ دوں گا‘‘۔ اب اس سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اپنے انتخابی منشور کے مطابق اُتر پردیش کے مسلمانوںکے نام سے منسوب تمام شہروں کے نام تبدیل کرے۔ کیا ایسا کرنا ممکن ہوگا؟
اُترپردیش ایسی بڑی ریاست کے بڑے شہروں کی تعداد ۶۵ہے۔ اِن میں مسلمانوں کے نام سےمنسوب ۱۶ بڑے شہر آباد ہیں جن میں: غازی آباد، الٰہ آباد، علی گڑھ،مراد آباد،فیض آباد، مظفر نگر، شاہجہان پور، فرخ آباد، فتح گڑھ، فتح پور، مغل سراے،غازی پور،سلطان پور،اعظم گڑھ، اکبر پوراورشکوہ آباد شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی مسلمان، جو اُترپردیش ریاست کی کُل آبادی کا ۲۰ فی صد سے زیادہ ہیں، کیا یہ زیادتی برداشت کریں گے؟ ایک معروف بھارتی نجی ٹی وی کے ٹاک شو’آپ کی عدالت‘ میں ادیتا ناتھ نے اعلان کیا ہے کہ ہندوؤں کا حق ہے کہ ہم اقتدار میں آکر مسلمانوں کے ناموں سے منسوب بھارتی شہروں کے نام تبدیل کردیں، کیوں کہ اب تاریخ بدلنے کاوقت آگیا ہے‘‘۔
اُترپردیش کے یہ زعفرانی وزیر اعلیٰ، بی جے پی اور انتہاپسند آر ایس ایس کے اُن مقتدر ہندو سیاست دانوں میں سے ایک ہیں، جو بھارت میں اسلام کی تبلیغ پر بھی پابندی عائد کرنے کے حامی ہیں اور کہتے ہیں کہ: ’’بھارتی مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مذہب اختیار کرلینا چاہیے‘‘۔ اس کوشش اور’اپیل‘ کو وہ ’گھر واپسی‘ کا نام دیتے ہیں۔ ادیتا ناتھ نے اَب تک بھارت کے ۱۸۰۰ عیسائیوں کو ہندو بنانے کا دعویٰ کیا ہے ۔مسلمانوں سے نفرت اور دنگے کے بیوپاری اُترپردیش کے یہ نئے وزیر اعلیٰ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو اپنا حق سمجھتے اور ایسا کہتے اور کرتے ہُوئے ذرا بھی حیا محسوس نہیں کرتے ، حالاںکہ وہ خود کو ’سنیاسی‘ بھی کہتے ہیں۔
ایک بھارتی نجی ٹی وی کے پروگرام میں جب ادیتاناتھ سے پوچھا گیا کہ: ’’سنیاسی ہو کر خوں ریزی، تشدداور مسلمانوں کے خلاف فساد کی بات کیوں کرتے ہو؟ تو تُرت جواب دیا: ’’مَیں سنیاسی ہو کر ہروقت مالا بھی رکھتا ہُوں اور بھالا(خنجر)بھی‘‘۔ موصوف نے زعفرانی لباس پہننے والے سیکڑوں جوگیوں کی ایک نجی فوج بھی بنا رکھی ہے، جن کے پاس ہمیشہ تیز دھار بھالے ہوتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بن کر بھی ادیتا ناتھ کو اپنے اُن نفرت آگیں بیانات پر کچھ شرم محسوس نہیں ہوتی، جب اس نے کہا تھا:’’ اگر کسی مسلمان لڑکے نے کسی ہندو لڑکی سے شادی کی تو ہم ۱۰۰مسلمان لڑکیوں کو اُٹھا لائیں گے۔ اگر کسی ایک بھارتی مسلمان نے کسی ہندو کا قتل کیا تو ہم قتل کا مقدمہ نہیں درج کروائیں گے بلکہ خود بدلہ لینے کے لیے ایک ہندو کے بدلے میں ۱۰ مسلمانوں کا قتل کریں گے‘‘۔ نئے وزیراعلیٰ نے یہ بھی اعلان کر رکھا ہے کہ: ’’اقتدار میں آکر ہم اُترپردیش کی تمام مساجد میں اپنی دیوی اور دیوتاؤں کے بُت بھی رکھیں گے‘‘۔
بھارتی مسلمانوں کے خلاف ادیتا ناتھ کی نفرت انگیز مہم کو بی جے پی کے صدر امِت شا کی بھرپور حمایت بھی حاصل ہے۔ دونوں کے گٹھ جوڑ ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ حالیہ اُترپردیش(یوپی) کے انتخابات میںکسی ایک بھی مسلمان امیدوار کو بی جے پی نے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا۔ اور جب اس بارے امِت شا سے پوچھا گیا تو جواب میں کہا:’’ اُتر پردیش میں ہمیں کوئی موزوں مسلمان امیدوار ملا ہی نہیں‘‘۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ’آل انڈیا مجلسِ مشاورت‘ کے سابق صدر، ظفرالاسلام خان [ملّی گزٹ کے ایڈیٹر]، نے ٹھیک ہی کہا :’’ بی جے پی نے یو پی میں مسلمان امیدواروں کی نفی کی ہے۔ جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بی جے پی نے نفرت کی فتح حاصل کی ہے‘‘۔
اُتر پردیش اسمبلی میں کُل ۴۰۳نشستوں میں سے بی جے پی نے ۳۱۲جیتی ہیں، جب کہ مجموعی طور پر کامیاب مسلمان امیدواروں کی تعداد۲۴ہے۔ یو پی میںمسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے یہ تعداد اصولی طور پر۱۰۰ہونی چاہیے تھی (یاد رہے ۲۰۱۲ء میں جیتنے والے مسلمان اُمیدواروں کی تعداد۶۹تھی)۔ ان ۲۴ کامیاب مسلمان اُمیدواروں میں ۱۷سماج وادی پارٹی، ۵ کانگرس اور ۲ بھوجن سماج پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تعداد بھی نریندر مودی، اِمت شا اور ادیتاناتھ سے برداشت نہیں ہو رہی ہے؛ چنانچہ چند روز قبل راجیہ سبھا(بھارتی سینٹ) میں ایک کٹر ہندو رکن، ایم رامیش نے کہا ہے کہ: ’’بھارت میں مسلمانوں کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ ہورہاہے، ہمیں آن دی ریکارڈ بتایا جائے کہ ہر بھارتی صوبے میں مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے؟‘‘اور جب رامیش کو بتایا گیا: ’’بھارت کے کُل ۶۷۵ضلعوں میں۸۶ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد ۲۰فی صد سے زائد، اور ان ۸۶ضلعوں میں ۱۹ضلعے ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد۵۰فی صد سے زائد ہے‘‘ تو رامیش کے منہ سے بے اختیار نکلا:’’ اوہ، یہ تو بہت بڑھ گئے ہیں‘‘۔
حالیہ انتخابات سے قبل عالمی شہرت یافتہ ماہرینِ معیشت کی پیش گوئی تھی کہ نریندر مودی نے بھارت میں جن خطرناک معاشی پالیسیوں کا اجرا کر رکھا ہے، اِن کی بنیاد پر وہ یہ انتخابات جیت نہیں سکیں گے لیکن بی جے پی ۴۷ سیٹوں سے اُٹھ کر ۳۱۲ سیٹوں پر آگئی۔
آخر ہوا کیا کہ بی جے پی اور مودی کے خلاف پیش گوئیاں کرنے والے سارے تجزیہ نگار چِت ہو گئے؟ دراصل نریندر مودی اور بی جے پی قیادت نے ایک خاص انتخابی حکمت عملی کے تحت زیادہ تر ٹکٹ اُن لوگوں کو دیے جو بدمعاش ، بھتہ خور، قاتل،جرائم پیشہ ، سزا یافتہ اور بھاری کالے دھن کے مالکان تھے۔ انھی لوگوں نے ماردھاڑ، اپنی دہشت، کالے دھن اور مجرمانہ سرگرمیوں کو بروے کار لا کر اُترپردیش کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا ہے۔ یہ محض ہمارا الزام یا تعصب نہیں ہے بلکہ بھارتی میڈیا بھی اِس کی گواہی دیتے ہوئے نشان دہی کر رہا ہے۔بھارت کے ایک ممتاز انگریزی اخبارنے اپنے صفحہ اوّل کی سٹوری میں بتایا ہے کہ اُترپردیش کے تازہ ترین انتخابات میں رگھوراج پرتاپ سنگھ ،راجا بھائیا، امنمانی ترپاٹھی، وجے مشرا،سوشیل سنگھ ایسے درجنوں لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، جن پر قتل، بھتہ خوری، اغوا کار ی ایسے سنگین جرائم کے ارتکاب کے نہ صرف الزامات ہیں، بلکہ اُن میں سے بیش تر کا سیاسی پس منظر بھی یہی ہے۔
ایسے لوگ بھی اُترپردیش اسمبلی کے رکن بن گئے ہیں،جو خوفناک جرائم کے تحت مختلف جیلوں میں قید تھے لیکن اُنھیں خصوصی طور پر پیرول پر رہا کیا گیا، تاکہ وہ الیکشن لڑسکیں۔ قاتل امنمانی ترپاٹھی نے تو جیل میں بیٹھ کر الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔ قتل کے الزام میں قید راجا بھائیانے اپنے سیاسی حریف ،جانکی سرن، کو ایک لاکھ سے زائد ووٹوں سے ہرایا ہے۔ ریاست اُترپردیش کے حالیہ انتخابات میں ایک مشہور گینگسٹرسوشیل سنگھ نے بی جے پی کے ٹکٹ پر اپنے سیاسی حریف، شیام نرائن سنگھ کو شکست دی ہے۔وجے مشرا نامی ایک ایسا شخص جس کی غنڈا گردی اور بھتہ خوری کے چرچے اُتر پردیش کے ہربڑے شہر میں ہیں، یہ بھی ریاستی اسمبلی کا رکن بن گیا ہے۔ بی جے پی کی ایک رکن، سنجو دیوی، قتل کے الزام میں جیل میں ہے، وہ بھی جیت گئی ہیں۔ بی جے پی کی ایک اور مشہور لیڈر نیلم کرواریا، جو لڑائی مار کٹائی میں بہت شہرت رکھتی ہے، بھی بھاری ووٹوں سے جیتی ہیں۔
بی جے پی کے کئی سزا یافتہ مجرم ، جو اس وقت اُتر پردیش کی مختلف جیلوں میں قید ہیں، خود اگر تازہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکے تو اُن کی بیویوں نے اُن کی جگہ الیکشن لڑا ہے۔ مثال کے طور پرسنجیو مہیشواڑی، پریم سنگھ عرف مُنا بجرنگی اور ڈی پی یادیو۔ یہ لوگ خود تو مظفر نگر اور تہاڑ جیل میں مختلف سنگین جرائم کے تحت سزائیں کاٹ رہے ہیں، اُن کی جگہ اُن کی بیویوں نے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئیں۔
اتنے بھاری مینڈیٹ سے جیتنے کا ایک سبب انڈین ایکسپریس کی ممتاز تجزیہ نگار، سروتھی رادھا کرشن، نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:’’ بی جے پی نے دولت مند اور طاقت ور افراد کو زیادہ تر ٹکٹ دیے تھے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ یو پی کے حالیہ انتخابات میں بی جے پی کے جو لوگ جیت کر سامنے آئے ہیں، اُن میں ۸۰فی صد کروڑ پتی ہیں‘‘۔ حیرت مگر اس بات پر ہے کہ مذکورہ جرائم پیشہ افراد کے رکن اسمبلی بننے کے باوجود مغرب کی ’مہذب دنیا‘ میں کسی کو بھارتی جمہوریت پر کوئی اعتراض نہیں ہے! حتیٰ کہ سی این این ایسے بظاہر وقیع امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورک نے اپنے تبصرے میں اُترپردیش میں بی جے پی کی تازہ کامیابی کو ’جمہوری دنیا کے لیے قابلِ فخر اور قابلِ تقلید‘ قرار دے ڈالا ہے۔ ہم توحیران ہُوئے ہی ہیں، خود بھارتی غیرجانب دار میڈیانے بھی سی این این کے اس تبصرے پر سخت حیرانی کا اظہار کیا ہے!
مسلمانوں نے بالعموم اور ہندستانی مسلمانوں نے بالخصوص اپنی حالیہ تاریخ میں خود کو سب سے زیادہ نقصان اپنی جذباتیت سے پہنچایا ہے۔ جذباتیت صرف تشدد کا نام نہیں ہے ، بلکہ بسااوقات بغیر سوچے سمجھے کیے جانے والے پُرامن اقدامات بھی جذباتیت کا حصہ بن جاتے ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے بعض صورتوں میں سخت مہلک ہوسکتے ہیں۔ یہ شدتِ جذباتیت ہی ہے جو بعض پر انتہاپسندی کا بخار طاری کردیتی ہے اور بعض پر مایوسی و قنوطیت مسلط کردیتی ہے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں کو نہیں دیکھ پاتے اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم دنیا اور اس کی ہرچیز کو سیاہ اور سفید کے انتہائی خانوں میں بانٹ دیتے ہیں اور خاکستری (Grey) کا اندازہ نہیں کرپاتے۔ اسی شدت کے نتیجے میں بھارتی اکثریتی طبقے کے ذہن اور جذبات کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ اس سے رابطہ کاری (communication) کی راہیں تلاش کرپاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ملّت ِ اسلامیہ ہند میں عوامی جذبات آگے ہیں اور قیادت پیچھے، بلکہ صحافت اور دانش وری کا کام بھی صرف عوامی جذبات کی ترجمانی تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔
حالیہ انتخابی نتائج کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل کا جو طوفان اُمڈ آیا ہے، وہ اسی نفسیات کا مظہر ہے۔ کوئی یوپی کے مسلمانوں کو کوس رہا ہے کہ انھوں نے ’’بہار کے مسلمانوں کی طرح دانش مندی کا مظاہرہ نہیں کیا‘‘، تو کسی نے یہ نتیجہ نکال لیا ہے کہ: ’’مسلمان تباہی گوارا کرتے ہیں، لیکن اتحاد پسند نہیں کرتے‘‘۔ کوئی ایک قدم آگے بڑھ کر مسلم سیاسی جماعتوں کو بی جے پی کا ایجنٹ ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے، اور کسی کے خیال میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر ’غیروں‘ کو ووٹ دیا۔ غرض یہ کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔
شدید ردعمل کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ چند دنوں تک جذبات کی آندھیاں چلتی ہیں، پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ شدتِ جذبات کی اوجِ ثریا سے کمالِ سکون کے تحت الثریٰ تک کا یہ طویل سفر بس چند گھنٹوں میں مکمل ہوجاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا یہی اجتماعی احتجاجی مزاج ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ وہ مزاج جو واقعات کے صرف انتہائی سُروں ہی کو سن پاتا ہے۔ جو اُمیدیں وابستہ کرنے میں بھی فراخ دل ہوتا ہے اور مایوس ہونے میں بھی دیر نہیں لگاتا۔ جو ہرکوشش کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتا ہے۔ ایسا مزاج اور ذوق، اصلاحِ احوال کی سنجیدہ، دھیمی اور طویل المیعاد کوششوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ نہ یوپی کے مسلمانوں نے کوئی غیرمعمولی غلطی کی ہے اور نہ جو کچھ ہوا ہے، وہ کوئی بڑی تباہ کن آفت ہے۔ واقعات کو ہمیں اس کے اصلی رنگ میں اور درست تناسب میں دیکھنا چاہیے۔ یہی معقول رویہ ہے۔ بہار میں اتحاد مسلمانوں کا نہیں، بلکہ سیکولر جماعتوں کاہوا تھا۔ یوپی کی سیاست میں ایسا اتحاد ممکن نہیں ہوسکا، اور اس پر مسلمانوں کا کوئی بس نہیں تھا۔ مسلمانوں نے کبھی متحد ہوکر ووٹ نہیں دیا۔ ذات پات اور سیاسی جماعتوں کی تقسیم ہمیشہ رہی ہے۔ اس بار عام مسلمانوں نے معقولیت کے ساتھ ووٹ دینے کی ہرممکن کوشش کی۔کئی مسلم سیاسی جماعتوں نے حالات کو دیکھ کر خود کو انتخابی معرکے سے دُور رکھا۔ یہ خود ایک غیرمعمولی بات ہے، اور اس سے پہلے کسی صوبے میں ایسا نہیں ہوا۔ جن مسلم جماعتوں نے ان حالات میں بھی انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، مسلمانوں نے عام طور پر انھیں لائقِ اعتنا نہیں سمجھا، جیساکہ ووٹوں کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پہلے غیرمسلم ووٹ منقسم رہتے تھے، اس دفعہ وہ متحد ہوگئے۔ متحد کیوں ہوئے؟ اس کی وجوہ کئی ہیں۔ فرقہ پرست طاقتوں کا وفادار ووٹ بنک تو موجود ہے ہی۔ مسلمانوں کی جذباتی تقریریں، مذکورہ بالا قسم کے سوشل میڈیا پوسٹ، مسلم قائدین کی بے محل اور بے فیض اپیلیں، اُردو میڈیا کا شورشرابہ وغیرہ، فرقہ پرستوں کے وہ کارگر ہتھیار ہیں، جو مخلص مسلمانوں کے سادہ لوح ہاتھوں کے ذریعے پوری قوت سے استعمال ہوتے ہیں۔ انھوں نے منفی نتائج بخشنے کا کام خوب کیا۔ پھر بہت سے درمیانی ووٹرز بھی پلٹ گئے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کی ایک قابلِ ذکر آبادی ایسی ہے، جو فرقہ پرست نہیں ہے، لیکن فرقہ پرستی کا خاتمہ اس کا سب سے بڑا ایجنڈا بھی نہیں ہے۔ وہ متبادل، حوصلہ مند، نسبتاً زیادہ دیانت دار اور محنتی حکمران چاہتے ہیں ، اور اپنی سوچ کے مطابق موجودہ وزیراعظم میں انھیں یہ خوبیاں دکھائی دیں اور انھوں نے دوسروں پر انھیں ترجیح دی۔
ذات پات اور طبقات میں بٹے ہوئے اس معاشرے کو کوئی طاقت ور مشترک خواب، کوئی مشترک اُمید اور کوئی نہایت حرکیاتی مشترک قیادت ہی متحد کرسکتی ہے۔ جوں ہی ملک کی بڑی آبادی کو یہ چیز میسر آئی، تو ذات پات کی دیواریں گرنے لگیں۔ مسلمانوں کو میسر آئے گی تو وہ بھی متحد ہوجائیں گے۔ ایسے کسی مشترکہ وژن اور متحدہ قیادت کے بغیر یہ اُمید کرنا کہ ہرمسلمان غیبی الہام کے ذریعے کسی ایک امیدوار کو متحد ہوکر ووٹ دے گا، خام خیالی ہے۔ بڑے سے بڑا تجزیہ نگار بھی بی جے پی کی مدمقابل پارٹی کی انتخابی پوزیشن کا اندازہ نہیں بتا سکتا تھا ،تو ایسے میں ایک عام مسلمان صحیح اندازہ کرکے ووٹ کیسے دیتا؟
رہی بی جے پی کے پردے میں آر ایس ایس کی جیت، تو اس کی بنیاد پر مسلمانوں کو خواہ مخواہ احساسِ شکست کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ نہ بی جے پی نے پہلی بار کسی ریاست میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور نہ یوپی میں پہلی بار کسی کو اتنی سیٹیں ملی ہیں۔ یہ صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے، بلکہ ایک نظریاتی تحریک ہے۔ یہ تحریک ایک عرصے سے اس ملک میں سرگرم ہے اور بہت پہلے اس نے طاقت کے بہت سے مراکز پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔
آزادی سے قبل اور فوری بعد، خود کانگریس کا ایک بڑا طبقہ اسی نظریے کی سیاسی نمایندگی کرتا تھا۔ اسی طبقے کی انتہاپسندانہ اور عدم رواداری کی سوچ کے نتیجے میں تقسیم ہند کا عمل تیز تر ہوا۔اسی طبقے نے فسادات کو ہندستان کی تاریخ کا مستقل حصہ بنایا۔ اسی نے منظم طریقے سے اُردو زبان کی جڑیں کاٹیں۔ جگہ جگہ مسجد مندر کے مصنوعی تنازعے پیدا کیے۔ پولیس اور انتظامیہ میں تعصب کا زہر پھیلایا۔ وقتی اور جذباتی مسائل میں مسلمانوں کو اُلجھایا۔ ان کی قیادتوں کو کمزور کیا۔ یاد رہے بھارت کا حقیقی اقتدار اصلاً بہت پہلے سے اسی طبقے کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے محض بی جے پی کے جیت جانے سے کسی بہت بڑے ’انقلاب‘ کا امکان نہیں ہے۔ انقلاب کا عمل آزادی کے بعد ہی سے جاری ہے۔ آزادی کے فوری بعد جس مقام پر کانگریس کھڑی تھی، اُس مقام پر آج بی جے پی کھڑی ہے۔ اُس وقت کانگریس کا ایک طبقہ مسلم دشمن تھا، آج بی جے پی کا ایک طبقہ مسلم دشمن ہے۔ اُس وقت وہ مقبول جماعت تھی اور آج یہ ہے۔ اُس وقت کانگریس میں لبرل اور انصاف پسند لوگ بھی تھے اور آج بی جے پی میں بھی ہیں (اگرچہ تعداد اور تناسب میں یہ کم زیادہ ہوسکتے ہیں)۔ ان فرقہ پرست قوتوں کو یقینا ہارنا چاہیے تھا، لیکن اگر وہ نہیں ہاریں تو ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں پر کوئی بالکل نئی اور غیرمتوقع قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔
اصل قابلِ توجہ چیز اس ملک کے عوام کا ذہن ہے۔ خاص طور پر اس ملک کی نئی نسل اور تعلیم یافتہ نوجوان کیا سوچ رہے ہیں؟ یہ اصل مسئلہ ہے۔ اگر ذہن مثبت ہے تو بی جے پی بھی کوئی غیرمعمولی کام نہیں کرپائے گی اور کچھ کرے گی تو ٹک نہیں پائے گی، اور اگر ملک کا اجتماعی ذہن منفی ہے تو سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کی طرف داری کا خطرہ مول لے کر ’خودکشی‘ کا راستہ نہیں اختیار کریں گی۔ اَمرِواقعہ ہے کہ ان نتائج کے باوجود غیرمسلم اکثریت میں بدترین تعصب نہیں پایا جاتا۔ لیکن اب ذہن تیزی سے مسموم ہوتے جارہے ہیں اور ان کا بروقت نوٹس لینا ضروری ہے۔
کرنے کا اصل کام پہلے بھی یہ تھا اور آج بھی یہ ہےکہ ہم مسلمان ملک کی اکثریت کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کریں۔ ان کی غلط فہمیاں اور ان کے غلط شبہات اور اندیشے دُور کریں۔ پوری خوداعتمادی کے ساتھ دعوتِ دین کا فریضہ انجام دیں اور اس دعوت کی عملی شہادت بھی دیں۔ انھیں دین اسلام کے بارے میں بھی بتائیں اور اپنے عمل سے بھی خود کو خیرخواہ ثابت کریں۔ قوموں نے انبیاے علیہم السلام کی مخالفت ضرور کی ہے، لیکن کسی نبیؑ کو ان کی قوم نے اپنا بدخواہ نہیں سمجھا۔ دعوت کے آغاز سے پہلے ہرنبیؑ کا امیج اپنی قوم میں ایک مخلص اور خیرخواہ فرد کا تھا۔ ہمارا ایسا امیج کا نہ ہونا دعوت کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ بھی۔ یہاں کی آبادی سے خیرخواہی کا تعلق قائم کرنا اور اسے منوانا، اس وقت ہماری اصل ترجیح ہونی چاہیے۔
سیاسی سطح پر بڑی ضرورت بیدارمغز سیاسی قیادت کے اُبھرنے کی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی و ملّی جماعتیں مل بیٹھ کر مشترکہ سیاسی قوت کو اُبھاریں۔ یاد رہے خود مسلم فرقہ پرستی ۱۰گنا زیادہ طاقت ور ہندو فرقہ پرستی پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ہماری سیاست کو فرقہ پرست اور مسلم قوم پرست رنگ کے بجاے اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اصول پسند اور انصاف پسند سیاست کا رنگ اختیار کرنا چاہیے۔
یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ ہرجگہ انتخابات میں حصہ لینا ضروری ہے۔ ملک کے اکثر مقامات پر غیرانتخابی سیاسی اثراندازی کی حکمت ِ عملی ہی کامیاب ہوسکتی ہے۔کہیں کہیں محدود پیمانے پر صرف مسلمانوں کی نہیں، بلکہ تمام طبقات کی نمایندگی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ بھی لیا جاسکتا ہے، لیکن زیادہ تر ہماری قیادت کو سیاسی جماعتوں سے گفت و شنید اور مصالحت و معاہدات ، ووٹرز کی صحیح رہ نمائی کرنا اور منتخب نمایندوں سے کام کرانا جیسے عمل ہی کرنے ہوں گے۔ ایسی مشترکہ اور دانش مند قیادت اُبھرتی ہے تو وہ بی جے پی سے بھی بہت سے مفید کام کراسکتی ہے، اور ایسی قیادت کے بغیر من موہن سنگھ جیسے وزیراعظم کی مخلصانہ کوششوں کے باوجود ’سچرکمیٹی‘ جیسے متعدد فیصلے بھی ۱۰برس بعد بے اثر رہ جاتے ہیں۔