مئی ۲۰۱۷

فہرست مضامین

مشاہدات اور امکانات

پروفیسر خورشید احمد | مئی ۲۰۱۷ | تحریک ِ پاکستان سے تعمیرِ پاکستان تک

Responsive image Responsive image

میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسے گھر میں پیدا کیا جو مسلمان گھرانا تھا، جہاں ہر آن اچھائی اور خیر کا ماحول غالب تھا۔ پھر ایسے ماں باپ میسر آئے، جنھوں نے شروع ہی سے ایک خاص رُخ پر تربیت کی۔ بچپن ہی سے علمی، دینی اورادبی ماحول ملا ۔ ہم قرول باغ، دلّی میں رہتے تھے اور جامعہ ملیہ بھی قریب ہی تھی۔ ہر سال ’محمد علی جوہر ٹرافی‘ کے مقابلے ہوا کرتے تھے، جس میں بچوں کے لیے الگ اور بڑوں کے لیے الگ کھیلوں، نظمیں پڑھنے اور تقریروں کے مقابلے ہوتے تھے۔ میں نے سات آٹھ سال کی عمر ہی سے نظمیں پڑھنے اور مباحثوں میں حصہ لینے کے ساتھ، کھیلوں میں بھی شرکت شروع کی۔ اس تین روزہ ٹرافی پروگرام کے دنوں میں وہیں ٹھیرنا پڑتا اور زمین پر سونا ہوتا تھا۔ یہ کیمپنگ میری زندگی کا بڑا دل چسپ اور سبق آموز تجربہ تھا۔

انگریزی راج سے آزادی کے لیے جدوجہد میں شرکت، ہندو مسلم فسادات کا دل گرفتہ کرنے والا تذکرہ اور تجربہ، اور قیامِ پاکستان کی تحریک میری ابتدائی زندگی کے نقوش ہیں۔۱۹۴۲ء میں تحریکِ آزادی کو قوت سے کچلنے کی کوشش کو بچشمِ سر دیکھا اور ۴۶-۱۹۴۵ء کے انتخابات کا مشاہدہ بھی کیا۔ میرا پورا خاندان آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ تھا اور میں بچوں کی انجمن ’بچہ مسلم لیگ‘ دہلی کا سب سے کم عمر صدر منتخب ہوا تھا۔ اینگلو عریبک ہائیر سیکنڈری اسکول میں ثانوی تعلیم حاصل کی۔  یاد رہے کہ یہ اسکول تحریکِ پاکستان کا مرکز تھا اور اس کی بزمِ ادب کا سیکرٹری بننے کا بھی مجھے شرف حاصل ہوا۔ پاکستان کی تائید کے لیے ہمارے جلوس ہر ہفتے اسمبلی کی طرف جایا کرتے تھے۔ ۱۹۴۵ء کے  الیکشن میں ہم نے شب وروز کوشش کی۔ ڈاکٹر عبدالغنی قریشی دلّی میں ہمارے اُمیدوار تھے، وہ میرے والد کے گہرے دوست تھے۔ انتخابات میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔

 ۳جون ۱۹۴۷ء کو قائداعظم کی تقریر میں نے ریڈیو سے اپنے کانوں سے سنی اور ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ سنا اور لگایا بھی۔ اس کے بعد ۳ستمبر ۱۹۴۷ء کو ہمارے گھرپر حملہ ہوا، ہمیں فی الفور گھر چھوڑنا پڑا۔ ہم گھر سے اس حالت میں نکلے کہ جو کچھ ہمارے بدن پر تھا یا ہاتھوں میں تھا، بس اسی کو ہم اپنے ساتھ لاسکے۔ ہمارا گھر لوٹا اور جلایا گیا ۔ پھر ہم مسلم اکثریت کے محلے باڑہ ہندو رائو منتقل ہوگئے۔ جہاں ہم نے پناہ لی تھی، وہاں پر بھی جلد ہی حملہ ہوا۔ اس صورتِ حال میں کئی راتیں ایسی گزریں کہ پوری پوری رات ہم جاگے اور ایک مکان سے دوسرے مکان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک رات میں ہم نے چھے جگہیں بدلی تھیں۔ انھی راتوں میں ایک وہ رات بھی تھی، جب میں نے انسانی چربی جلنے کی بدبو سونگھی۔ پھر میں اپنے والدین کے ساتھ ایک ماہ تک مہاجر کیمپ میں بھی رہا۔ ہمایوں کے مقبرے میں بھی رہنا پڑا۔ یہاں اگرچہ ہم عملاً خود مقید تھے، اس کے باوجود ہم بے گھر لوگوں کی بساط بھر خدمت کرتے رہے۔ الحمدللہ، میرے والد متمول لوگوں میں سے تھے، اس لیے ہم نے ہوائی جہاز سے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ یوں ہمارے خاندان کا ایک حصہ دسمبر۱۹۴۷ء میں پاکستان پہنچا اور میں خود اپنے والدین کے ساتھ ۱۲فروری ۱۹۴۸ء کو پاکستان منتقل ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن، میں نے دہلی کی وہ جگہیں یا  اپنا گھر پھر نہیں دیکھا۔

بڑے بھائی ضمیراحمد مجھ سے پہلے پاکستان آگئے تھے، انھیں ایف سی کالج لاہور میں داخلہ مل گیا۔میں چونکہ فروری میں پاکستان آیاتھا اور تعلیمی سال کئی ماہ پہلے شروع ہوچکا تھا، اس لیے  داخلہ نہیں ملا۔ ان دنوں لاہور میں تعلیم الاسلام کالج  میں داخلہ کھلا ہوا تھا۔ چنانچہ میں وہاں داخل ہوا۔ اتفاق سے وہاں میرے کلاس فیلو بہار سے آئے ہوئے اقبال احمد تھے۔ ہم دونوں کلاس فیلو اور اچھے دوست تھے۔ وہیں ہمیں پہلی مرتبہ سوشلزم اور اسلام کے بارے میں بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ اقبال صاحب بعد میں ایک سوشلسٹ دانش وَر کی حیثیت سے معروف ہوئے۔ ہم لوگ کہا کرتے تھے کہ نوجوانوں کا مستقبل یا سوشلزم ہے یا اسلام۔ وہ سوشلزم کی طرف چلے گئے، اور  یہ اللہ کا کرم ہے کہ مَیں اسلام کی طرف آگیا۔

۱۹۴۹ء میں پہلی مرتبہ مولانا مودودی کی تحریروں سے آشنا ہوا۔ الحمدللہ، ہم پہلے سے روایتی دینی زندگی تو گزارتے آرہے تھے، لیکن یہ فہم کہ اسلام کیسا انسان چاہتا ہے؟ اسلام کیسا معاشرہ چاہتا ہے؟ اسلام زندگی کو کس سمت میں لے جانا چاہتا ہے؟ اس کا ہمیں کوئی زیادہ شعور نہیں تھا۔ اس چیز کا شعور ۱۹۴۹ءکے وسط میں اس وقت ہوا، جب مَیں اسلامی جمعیت طلبہ سے متعارف ہوا۔ پھر ۱۹۵۰ءمیں مَیں اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن بنا اور فوراً بعد کراچی جمعیت کا ناظم منتخب ہوگیا۔ اس کے بعد ناظم سندھ جمعیت اور بعد میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا۔ اُس زمانے میں ہم نے اسکولوں کے طلبہ کا جو حلقہ مدارس بنایا، اس میں شیخ محبوب علی، مسلم سجاد، تنظیم واسطی اور انیس احمد وغیرہ شامل تھے۔ برادرم عبداللہ جعفر صدیقی اس پورے پراجیکٹ کے انچارج اور روح رواں تھے۔ مجھے اس پورے گروپ کے اسٹڈی سرکل چلانے اور ان کو تحریک اور ملکی اور عالمی تناظر سے متعارف کرانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ بات ہے ۱۹۵۱ء، ۱۹۵۲ء کی۔

یہاں ایک بار پھر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک ایسے گھرانے میں پیدا کیا، جو دینی، ملّی اور علمی ذوق رکھتا تھا۔ اس ماحول نے میری زندگی کو ایک رخ پر ڈالا اور تحریک اسلامی کو جاننے کی توفیق عطا فرمائی۔ تحریکِ اسلامی جس دعوت کو لے کر کارزارِ حیات میں سرگرم ہے، اسلامی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ دعوت اور سرگرمی دورِ رسالتؐ سے ترقی اور آزمایش کی منزلوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ بلاشبہہ ہر دور میںا س کے لیے چیلنج اور چیلنج سے نبردآزما ہونے کے وسیلے اور اس کی شکلیں بدلتی رہی ہیں، مگر دعوت کا مرکز اللہ کی طرف بلانا، رسولؐ کی اطاعت، اور تزکیہ نفوس اصل بنیاد کے طور پر کارفرما رہا ہے اور انفرادی اصلاح کے ساتھ اجتماعی جدوجہد اس کی امتیازی شناخت رہے ہیں۔

مارچ کے حوالے سے تین اہم پہلو

آج ۲۳مارچ ہے اور مارچ کے حوالے سے ہماری قومی تاریخ میں کم ازکم تین پہلو بہت اہمیت رکھتے ہیں:

اوّل: ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کو قرارداد پیش ہوئی، جو سیرحاصل بحث کے بعد منظور کی گئی۔ اگرچہ سیاسی و اجتماعی زندگی میں قراردادیں بہت سی پیش ہوتی ہیں اورقبول بھی ہوتی ہیں، لیکن وہ قراردادیں جو تاریخ کے رخ کوموڑ دیں، وہ بہت کم ہوتی ہیں۔ اس پہلو سے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کی  قراردادِ لاہور کا منظورہونا ایک بڑے اہم اور تاریخی فیصلے کی بنیاد بنا۔

دوم: اسی تسلسل میں دوسری بڑی اہم قرارداد، اپریل ۱۹۴۶ء میں دلّی میں ہمارے اسکول کے کیمپس میں مسلم لیگ کے منتخب ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کنونشن کی قرارداد ہے، جو ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد کی تکمیل، اس کی تشریح اور تعبیر اور اسے عملی شکل دینے کا ذریعہ بنی۔ اس قرارداد کے ساتھ ایک عہدنامہ بھی تھا، جس پر تمام منتخب ارکان اسمبلی نے دستخط کیے، اور اس میں تحریک ِ پاکستان کے محرک اور منزل دونوں کا معتبرترین تصور ہمیشہ کے لیے متعین اور محفوظ کر دیا گیا۔

اس سلسلے کا تیسرا سنگ ِ میل قراردادِ مقاصد ہے، جو پاکستان کی دستورساز اسمبلی میں ۹مارچ ۱۹۴۹ء کو پیش ہوئی اور ۱۲مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئی۔ پاکستان کی پہلی دستورسازاسمبلی جو پاکستان بنانے کی جدوجہد میں ہراول دستہ تھی، اور جسے پوری قوم نے یہ کام سونپا تھا کہ ملک کا مستقبل، اس کا آیندہ کانظام ، اس کا دستور، اس کی منزل متعین کرے۔ یہ قرارداد اسی اسمبلی کا کارنامہ تھی۔

چوتھا سنگ ِ مل ۱۹۵۶ء کا متفقہ دستورِ پاکستان تھا۔ اس دستور کا نفاذ بھی ۲۳مارچ ۱۹۵۶ء کو ہوا اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان متعین کیا گیا۔ یہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے کہ  مسلح افواجِ پاکستان کے سپہ سالار جنرل محمد ایوب خان نے اکتوبر ۱۹۵۸ء میں اس دستور کو منسوخ کردیا۔ ۱۹۵۶ء کا دستور آج بھی پاکستان میں دستور سازی کی تحریک اور تاریخ کا سنگِ بنیاد ہے۔ منسوخی کے باوجود، بعد میں جتنے دساتیر بنے، وہ اس بنیاد سے نہ ہٹائے جاسکے، جو بنیاد اس دستور نے فراہم کی تھی۔

دستور سازی کا مرحلہ

پاکستان میں دستور سازی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنرل ایوب خان نے ۱۹۵۶ء کے متفقہ دستور کو منسوخ کرنے کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کیا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگا، نیز ان کے اس وقت کے شریکِ کار صدر اسکندر مرزا صاحب سے منسوب یہ بات بھی زبان زدعام کی گئی تھی کہ وہ لوگ جو اسلامی دستور کی بات کرتے ہیں ان کو کشتیوں میں بٹھاکر بحیرۂ عرب کی لہروں کے سپرد کردیا جائے گا۔ البتہ مشیت اور تاریخ کا فیصلہ کچھ اور تھا۔ فوجی انقلاب کے ایک ماہ کے اندر ہی اسکندر مرزا کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا، اور پھر اسلام کے داعیوں کو نہیں بلکہ خود ان کو سمندرپار رخصت کر دیا گیا، فَاعْتَبِرُوْا یٰٓاُولِی الْاَبْصَارِ۔

۱۹۶۲ء میں انھی فیلڈ مارشل ایوب خان نے ملک کو دستور دیا۔ جس میں ملک کا نام ’اسلامک  ری پبلک آف پاکستان‘ (اسلامی جمہوریہ پاکستان) کے بجاے ’ری پبلک آف پاکستان‘ (جمہوریہ پاکستان) تھا، اور اس میں سے قراردادمقاصد کے چند نمایاں دینی پہلو نکال دیے گئے۔ ۱۹۵۶ء کے دستور میں جو ایک دفعہ تھی کہ: ’’کوئی قانون سازی قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہوگی‘‘ اسے بھی تحلیل کردیا گیاتھا۔ بہرحال فوجی اقتدار کے زور پر ۱۹۶۲ءمیں یہ دستور نافذ کیا گیا۔ اس کے تین ماہ بعد پاکستان کی قومی اسمبلی بنی اور اس اسمبلی کے اندر جو پہلی بھرپور بحث ہوئی وہ ’سیاسی پارٹیوں کے قانون‘ پر ہوئی تھی۔ اس اسمبلی نے اس قانون میں زور دے کر یہ شق شامل کی تھی کہ پاکستان کی ہرسیاسی پارٹی کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ اسلامی آئیڈیالوجی سے مطابقت رکھے۔ اس پر بحث کے دوران سیکولر طبقے نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ اسلامی نظریے اور اس سے مطابقت کی شرط قانون میں نہ آئے، مگر اس میں انھیں بُری طرح شکست ہوئی اور ایوب خان کے دستور ہی کے تحت بننے والی اسمبلی نے سیکولرزم کو مسلط کرنے کی سازش کو شکست دی اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو بحال اور تحفظ دینے کا اہتمام کیا۔

واضح رہے کہ اس وقت جسٹس محمد منیر وزیرقانون تھے اور یہ اس قانون کو پیش کررہے تھے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ میں منیرصاحب جیسا فرد بھی موجودتھا، جس نے پاکستان کی اسلامی بنیاد اور شناخت پر ضرب لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، لیکن بالآخر اس کو منہ کی کھانا پڑی اور اس کی بھی دیانت کا پردہ چاک ہوگیا۔ واضح رہے کہ انھوں نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia میں لکھا ہے کہ: ’’اسلامی آئیڈیالوجی یا پاکستان آئیڈیالوجی کا لفظ جنرل ضیاء الحق نے متعارف کرایا‘‘۔ لیکن آپ ۱۹۶۲ء کی اسمبلی کی کارروائی اٹھا کر پڑھ لیں۔ اس شخص نے سب سے پہلے تو اسلامک آئیڈیالوجی کے الفاظ کی نفی کی۔ لیکن پھر جب اسمبلی نے اصرار کیا کہ ہم یہ رکھیں گے تو اس نے یہ کہاکہ:’’سلکیٹ کمیٹی نے آئیڈیالوجی آف پاکستان کی تعریف بطور اسلام کی ہے، تاہم میں اس سے بے تعلق ہوں کہ آئیڈیالوجی ہونا چاہیے یا نکال دینا چاہیے، یا اس کی تعریف بطور اسلام کی جانی چاہیے‘‘ ( قومی اسمبلی رُوداد، ۱۱جولائی ۱۹۶۲ء)۔ یہی جسٹس منیرصاحب اگلے روز کہتے ہیں: ’’میں نے اس معاملے پر خوب غوروفکر کیا ہے اور میں یہ قرارداد پیش کرتا ہوں کہ آئیڈیالوجی کے الفاظ کو شامل کرنا کسی بھی طرح اقلیتوں کی مذہبی آزادی کو متاثر نہیں کرے گا اور یہ اقلیتوں کو اجازت دے گا کہ وہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو ایسے پروپیگنڈے میں تبدیل نہ کریں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوں‘‘(ایضاً، ۱۲جولائی ۱۹۶۲ء)۔ یہ الفاظ تھے پاکستان میں سیکولرزم کے علَم بردار جسٹس محمد منیر کے اور ہماری تاریخ کاحصہ ہیں۔

۱۹۶۲ ء کے دستور میں پہلی آئینی ترمیم ہوئی تو وہ یہ تھی کہ پاکستان کا نام ’اسلامک ری پبلک آف پاکستان‘ ہوگا۔ قرارداد مقاصد کو ان الفاظ کے ساتھ، جن میں وہ مارچ ۱۹۴۹ء میں پاس ہوئی تھی بحال کیاگیا اور دستورکی یہ شق کہ: ’’قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی‘‘، اسے بھی اصل شکل میں بحال کیاگیا۔ یہ تینوں چیزیں ۱۹۶۴ء میں اس وقت منظور ہوئیں، جب مَیں اور جماعت اسلامی کی پوری مرکزی قیادت جیل میں تھی۔

اسلامی آئیڈیالوجی کا یہی تسلسل ۱۹۷۳ء کے دستور میں بھی ملے گا۔ یاد رہے کہ جب اس کا پہلا ڈرافٹ پیپلزپارٹی نے پیش کیا تو اس میں ملک کو سوشلسٹ ری پبلک آف پاکستان قرار دیاگیا۔ مجوزہ آرٹیکل ۳یہ تھا کہ: ’’پاکستان ایک سوشلسٹ ریاست ہوگی‘‘ مگر پیپلز پارٹی نے عوام کی اسلام سے وابستگی کا احترام و اعتراف کیا۔ بالآخر ایک محدود، لادین اور سوشلسٹ اقلیت کی راے پر عوام کی اُمنگوں کو ترجیح دی۔ پھر دستور کے اندر وہ تمام اسلامی شقیں جو ۱۹۵۶ء کے دستورکاحصہ تھیں، ان کو اور زیادہ بہتر انداز سے دستور کا حصہ بنالیا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ۱۹۷۳ء کا دستور بنیادی طور پر ایک اسلامی، جمہوری، فلاحی اور ایک وفاقی دستور ہے۔ یہ دستور مذکورہ چاروں خوبیاں رکھتا ہے اور یہ دستور بھی ۱۰اپریل ۱۹۷۳ء کو منظور ہوا۔ اور ۱۴اگست ۱۹۷۳ء کو نافذالعمل ہوا۔ اس طرح ۲۳مارچ ۱۹۴۰ء میں جس سفر کا آغاز ہوا تھا، اور جس کے نتیجے میں اپریل ۱۹۴۶ء،  مارچ ۱۹۴۹ء اور مارچ ۱۹۵۶ء میں ایسے سنگ ہاے میل طے کیے تھے کہ جن سے ہمیشہ کے لیے پاکستان کی شناخت اور منزل کا تعین ہوگیا۔

مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اہم باب

اس ضمن میں یہ نکتہ بھی گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد کی حقیقت کو سمجھنا بہت ضروری ہے مگر بدقسمتی سے آج کل ایک خاص گروہ کی طرف سے اس کی غلط تشریح کی جارہی ہے۔

بنیادی بات یہ ہے کہ مسلمان پہلے دن سے ایک نظریاتی امت ہیں۔ اس اُمت کی بنیاد رنگ پر نہیں، نسل پرنہیں، زبان پر نہیں ، خطے پر نہیں ہے، مفادات پر بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ مشترکہ تاریخ پر بھی نہیں ہے، بلکہ اس کی بنیاد عقیدے اور ایمان پر ہے ۔ اس کی بنیاد نظریے پر ہے، جو    قرآن وسنت سے ماخوذ ہے۔ یہی ہماری شناخت ہے مگر ہماری قیادتوں نے نہ صرف یہ کہ اس کا احترام نہیں کیا ہے، بلکہ عملاً اس سے انحراف بھی کیا ہے۔

برعظیم میں آنے والا پہلا مسلمان محمد بن قاسم نہیں تھا، بلکہ دورِ رسالت مآبؐ میں     صحابۂ کرامؓ سندھ میں تشریف لائے تھے۔ ان کے بعد محمد بن قاسم آئے اور اسلامی حکمرانی قائم ہوئی۔ پھر شمال سے مسلمان آئے تو مسلمانوں کے اقتدار کا دور شروع ہوا۔

تاریخ کا کوئی بھی منصف مزاج طالب علم اور اسکالر یہ کبھی نہیں کہہ سکتا کہ برعظیم پاک و ہند کے پورے دور میں کبھی مسلمانوں نے اسلام دوسروں پر زبردستی مسلط کیا۔ یہی نہیں بلکہ ہندوئوں کے ذات پات کے نظام اور ستّی کے رواج سے شدید اختلاف اور انقباض کے باوجود اسے ختم کرنے کے لیے سرکاری طاقت کا استعمال کرنے سے اجتناب برتا اور افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا۔ زبردستی مذہب قبول کرنے کاکوئی تاریخی واقعہ نہیں ملتا۔ اورنگ زیب عالم گیر کے بارے میں جو باتیں کہی گئی ہیں، وہ صریح تاریخی جھوٹ ہے۔ اس کی تردید خود بھارت کے غیرمسلم محققین نے کی اور کررہے ہیں۔

مسلمانوں نے اپنے تشخص اور اپنی اجتماعی زندگی کی بہتری کے لیے ادارے قائم کیے اور غیرمسلموں کو بھی پورا پورا موقع دیا کہ وہ  اپنے عقیدے اور روایات کے مطابق کام کریں۔ صرف دعوت وتبلیغ سے برہمن ازم میں دراڑیں پڑیں اور لوگ اس کے چنگل سے نکل آئے۔علماے کرام اور صوفیاے عظّام نے اس سلسلے میں بڑی روشن اور تاب ناک خدمات انجام دیں۔ تاہم، مسلمانوں کی طرف سے کوئی واقعہ ظلم وجبر کا اس زمانے میں نہیں ملتا اور ریاستی قوت کے ذریعے کبھی اسلام کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں تک بھی تاریخ کا مطالعہ کریں مسلمانوں کے پورے دورِ حکمرانی میں ہندو مسلم فسادات کاکوئی تصور نہیں ملتا۔ بلاشبہہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں، مگر اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی وسعت ِ قلبی اور   حُسنِ سلوک کے باعث مسلمانوں کی فوج میں ہندو جرنیل اور ہندو سپاہی بھی رہے۔ مسلمان سلاطین کی حکومتوں، وزارتوں اور انتظامیہ میں بھی ہندو رہے، کبھی کم اور کبھی زیادہ، لیکن ہندوئوں پر اعتماد کیا گیا اور بعض اوقات انھیں اہم ذمہ داریاں بھی سونپی گئیں۔

ہندو مسلم اتحاد میں دراڑ

پہلی مرتبہ ۱۹ویں صدی کے آخری عشرے میں یہ تذکرہ سامنے آنا شروع ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور ہندوئوں میں فاصلے بڑھ گئے ہیں۔ اس وقت سے برطانیہ نے آپس میں لڑانے کے لیے رسوخ پیدا کرلیا تھا۔ اس سے قبل ہم البیرونی کا سفرنامہ پڑھتے ہیں، جس میں اس نے بتایا ہے کہ ہندستان کے ہندوکیسے ہیں، بدھ مت کے پیروکار کیسے ہیں، مسلمان کیسے ہیں اور کس طرح باہم رہتے بستے ہیں؟ یہ ہماری تاریخ ہے جس میں ایک طرف مسلمانوں نے اپنی شناخت کو محفوظ کیا اور چارچاند لگائے ہیں، تو دوسری طرف دوسروں کی شناخت کی بھی حفاظت کی ہے۔ اس طرح ایک حقیقی تکثیری (Pluralistic) معاشرے کو تاریخ میں قائم کرکے روشن مثال پیش کی ہے۔

بلاشبہہ تاریخ میں نشیب و فراز کا ظہور ایک حقیقت ہے، اور جو لوگ اقتدارمیں رہے، ان میں اچھے بھی تھے اور بُرے بھی ۔ وہ بھی رہے ہیں جنھوں نے اسلام کانفاذ کیا ، اسلامی نظام کو ترویج دیا، اور وہ بھی رہے جنھوں نے اسلام سے اِعراض کیا اور اس کی تعلیم کو اور تاریخ کو بھی بدلنے کی کوشش کی۔ لیکن دو چیزیں مشترک اور محکم ہیں: ایک یہ کہ اپنی نظریاتی ، دینی اور تہذیبی شناخت کا تحفظ و ترقی، اور دوسرے یہ کہ اوروں کی تہذیب اور معاشرتی روایات کا احترام، اور دین کے معاملے میں جبر سے اجتناب۔

تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بیرونی قوت نے جب کسی ملک پر قبضہ کیا اور وہاں حکمرانی کرنے کے بعد کسی وجہ سے اسے جانا پڑا، تو جاتے ہوئے اُس نے اقتدار اسی طبقے کو دیا، جن سے اقتدار چھینا تھا۔ یہ تاریخ کی روایت تھی۔ اسی لیے مسلمانوں کو یہ گمان تھا کہ انگریز جب جائے گا تووہ اقتدار ہم کو دے کر جائے گا، کیوں کہ اس نے ہم سے اقتدار چھینا تھا، اس لیے ہم ہی آئیں گے۔ پھر آزادی کی تحریک میں بھی مسلمان پیش پیش تھے۔ اسی پس منظر میں ۱۸۵۷ء کا واقعہ ہوا اور اس سے پہلے تحریک ِ مجاہدین کی جدوجہد ، بنگال میں فرائضی تحریک یا اس کے بعد کے سرفروشانہ واقعات ہوں___ تاہم، آہستہ آہستہ مسلمانوں پر یہ حقیقت روشن ہوگئی کہ اب جمہوریت کادور ہے اور یہ گنتی کا معاملہ ہے۔ اس میں جس کی تعداد زیادہ ہوگی وہی حاوی (dominate) ہوگا۔ میونسپل ریفارمز کی تحریک ہندستان میں ۱۸۹۰ء کے عشرے میں شروع ہوگئی تھی۔ سرسیداحمدخاں ان پہلے لوگوںمیں سے ہیں، جنھوں نے اس کا ادراک کیا۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے سیاسی مستقبل کی ازسرِنو تشکیل کرنی پڑے گی، وگرنہ مسلمان اس خیال میں تھے کہ ہم غالب آجائیں گے۔

 خوش قسمتی یا بدقسمتی کے ملے جلے رنگوں کے ساتھ تحریکِ خلافت جیسی پہلی عوامی تحریک کا کردار ہے۔ اس تحریک کا نیوکلیس اور جوہر مسلمان ہی تھے۔ یہ ایک ایسی عوامی تحریک تھی جس میں کئی لاکھ افراد شامل تھے اور اس کی قیادت مسلمان کررہے تھے۔ ہندوئوں نے محسوس کیا کہ اگر یہ عوامی تحریک ہی آزادی کی تحریک بن جاتی ہے او رمسلمان اس کی قیادت کرتے ہیں تو سیاسی نقشہ مختلف ہوگا۔ یہ تھی وہ چیز جس کے سبب انڈین نیشنل کانگریس اور دوسری ہندو تنظیموں نے ایک جارحانہ ہندو قوم پرستانہ حکمت عملی تیار کی۔ سرسیّد احمد خاں مرحوم کے دیے ہوئے شعور کے مطابق مسلمان    یہ بات سمجھنے لگے تھے کہ عددی اکثریت کی موجودگی سے مسلمانوں کو نقصانات پہنچیں گے۔

اسی احساس کے تابع ۱۹۰۶ء میں آل انڈیا مسلم لیگ، ڈھاکہ میں قائم ہوئی۔ بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانوںکے مفادات کاتحفظ ہو۔ مسلمانوں کو ان کی ثقافت، ان کے دین اور ان کی تعلیم و معاشرت اور ان کی روایات، ان کے حقوق سے آگاہی ہو۔ اس طرح مسلم لیگ ۱۹۰۶ء سے لے کر ۱۹۳۶ء تک محض مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے آواز بلند کرتی رہی۔ اس عرصے میں ایک بڑا اہم سنگ ِ میل دسمبر۱۹۱۶ء کا ’میثاقِ لکھنؤ ‘ ہے۔ پھر اگست ۱۹۲۸ء میں ’نہرو رپورٹ‘ آئی،  جو واضح طور پر ہندو مفادات کی محافظ تھی۔ اس کے جواب میں قائداعظم کی زیرصدارت مسلم لیگ نے مارچ ۱۹۲۹ء میں ’۱۴نکات‘ پیش کیے، جو مسلم مفادات کے تحفظ کی نہایت اہم دستاویز تھی، جو آگے چل کر قیامِ پاکستان کی بنیاد بنی۔ اس میں جداگانہ انتخاب، مسلمانوں کے جداگانہ وجود کے تحفظ کا وسیلہ بنے۔ یہ اقدامات مسلمانوں کا سیاسی وزن بڑھانے کے لیے کیے گئے۔ پھر ان کے سیاسی، تعلیمی اور معاشرتی حقوق کے تحفظ کو زبان دی گئی۔ یاد رہے کہ سائمن کمیشن رپورٹ ۱۹۳۰ء کو ہندوئوں نے جس طریقے سےاستعمال کیا اور جس طرح یہ واضح کر دیا کہ ہندو غلبہ ہی ہندستان کاسیاسی مستقبل ہوگا، تو یہ تھا وہ موقع جب مسلمان ہل گئے اور پھر انھوں نے ایک نئی حکمت ِعملی وضع کی۔ آخری منزل  جن کی دو قومی نظریے کے تحت مسلمانوں کے لیے جداگانہ اور آزاد ملک کا حصول ٹھیرا۔

دو قومی نظریے کی اساس

غالباً ۱۸۸۸ء میں عبدالحلیم شررنے اس پہلو پر ایک متعین شکل میں توجہ دلائی تھی۔ اُن سے لے کر کے ڈاکٹر سیّدعبداللطیف تک تقریباً ۱۷۰ افراد نے کھل کرکے یااشارتاً،سیاسی زبان میں یا علمی اسلوب میں تقسیمِ ہند اور دو قومی نظریے کی بات کی۔ لیکن اس میں فیصلہ کن چیز ۱۹۳۰ء میں علامہ محمد اقبال کا خطبۂ الٰہ آباد ہے۔ اس میں علامہ اقبال نے اپنی سوچ کو بڑی قوت اور دلیل کے ساتھ اور دردمندی اور سیاسی فہم و فراست کے ساتھ پیش کیا ہے۔ خود میری نگاہ میں قراردادِ پاکستان کی صورت گری کے مرحلوں کو سمجھنے کے لیے ۱۹۳۰ء کاخطبۂ اقبال ایک جوہری حیثیت رکھتا ہے۔ اس کو اگر آپ تنقیدی نگاہ سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یقینی طورپر اقبال نے بڑے دُور رس اثرات کے حامل امکانات کا نقشہ واضح کیا تھا۔

اقبال نے اپنے خطاب میں کہا تھا: ’’یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ بہ حیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظامِ سیاست، اس آخری لفظ سے میرا مطلب ایک ایسی جماعت ہے، جس کا نظم و انضباط کسی نظامِ قانون کے ماتحت عمل میں آتا ہو، لیکن جس کے اندر ایک مخصوص اخلاقی روح سرگرمِ کار ہو۔ اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزوِ ترکیبی تھا، جس سے مسلمانانِ ہند کی تاریخِ حیات متاثر ہوئی۔ اسلام ہی کی بدولت مسلمانوں کے سینے ان جذبات سے معمور ہوئے، جن پر جماعتوں کی زندگی کا دارومدار ہے۔ ہندستان میں اسلامی جماعت کی ترکیب صرف اسلام کی رہینِ منت ہے‘‘۔

آگے چل کر انھوں نے یہ بھی کہا تھا: ’’میں دوسری قوموں کے رسوم و قوانین اور ان کے معاشرتی اور مذہبی اداروں کا دل سے احترام کرتا ہوں، بلکہ بہ حیثیت مسلمان میرایہ فرض ہے کہ اگر ضرورت پیش آئے تو قرآنی تعلیمات کے حسب ِ اقتضا، میں اُن کی عبادت گاہوں کی حفاظت کروں۔ تاہم، مجھے اس انسانی جماعت سے دلی محبت ہے، جو میرے طور طریقوں اور میری زندگی کا سرچشمہ ہے۔ جس نے اپنے دین اور اپنے ادب، اپنی حکمت اور اپنے تمدن سے بہرہ مند کر کے مجھے وہ کچھ عطا کیا، جس سے میری موجودہ زندگی کی تشکیل ہوئی۔ یہ اُسی کی برکت ہے کہ میرے ماضی نے ازسرِنو زندہ ہوکر مجھ میں یہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ وہ اب میری ذات میں سرگرمِ کار ہے‘‘۔

دوسری طرف ہم قائداعظم کے ہاں تدریج دیکھتے ہیں۔ قائداعظم پہلے ’ہندو مسلم اتحاد‘ کے نقیب تھے۔ لیکن جب انھوں نے محسوس کیا کہ ہندو قوم اور قیادت کے اصل عزائم کیا ہیں؟ تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس مصنوعی ’اتحاد‘ میں مسلمانوں کا مفاد نہیں۔ ۱۹۲۹ء سےلے کر ۱۹۳۶ء تک وہ   اس موقف پر واضح اور مطمئن ہوگئے کہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست ضروری ہے۔ ۱۹۳۷ء کے انتخابات اور ہندوئوں کی زیادتیوں نے اس موقف کو مزید تقویت دی۔

یہ ہے وہ پس منظر ، جس میں مارچ ۱۹۴۰ء میں قراردادِ لاہور پاس ہوئی۔ اس میں پہلی بات یہ کہی گئی ہے کہ مسلمان ایک قوم ہیں، ان کا اپنا نظام ہے۔ اس حیثیت سے ان کا سیاسی مستقبل بھارت یاہندوئوں کے ساتھ مل کر چلنے میںنہیں ہے، انھیں اپناراستہ الگ نکالنا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ جن جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان پر مبنی مسلمانوں کی ایک ریاست بنادی جائے۔ قرارداد میں لفظ states استعمال ہوا ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ قرارداد کے مختلف مسودے تھے، جن میں اسے آخری شکل دی گئی۔ جمع کے اس صیغے کو ٹائپ کی غلطی یا تسوید کا ابہام ہی قرار دیا گیا، ورنہ یہ کیسے ممکن تھا، قیامِ پاکستان تک کبھی ایک سے زیادہ مسلم ریاستوں کی بات نہ ہوئی، بلکہ ایک ہی ریاست کی بات ہوئی اور یہ سب رضاکارانہ طور پر بڑی جان دار قیادت کے ہاتھوں ہوا۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ سب کے ذہنوں میں ایک ہی مسلم ریاست، پاکستان کا قیام پیش نظر تھا، جب کہ ۱۹۴۱ء سے لے کر ۱۹۴۶ء تک کی قائداعظم کی تمام تقاریر سے یہ ظاہر ہے اور جسے اپریل ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کے منتخب ارکانِ اسمبلی کی قرارداد میں دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا گیا۔

تیسری بات یہ کہ جہاںمسلمانوں کا اقتدارہوگا، وہاں غیرمسلم آبادی کے حقوق کاتحفظ ہوگا۔ ایک اور نکتہ جس کی طرف عام طورپر ہم توجہ نہیں کرتے، وہ یہ ہے کہ اجلاس ۲۲مارچ کوشروع ہوا، ۲۳مارچ کو قراردادپیش ہوئی اور ۲۴ مارچ ۱۹۴۰ء کو منظور ہوئی۔ لیکن مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے چند ہی ہفتے کے بعد یہ اعلان کیا ہے کہ قراردا دِ لاہور ۲۳مارچ سے منسوب ہوگی، اور اس قرارداد کو ۲۳مارچ کی قرارداد کہا جائے گا، اور ۲۳مارچ ہی کا دن ہرسال منایا جائے گا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟ جہاں تک میں نے غور کیا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اصل چیز قراردادکے الفاظ اور منظوری نہیں بلکہ اصل چیز وہ جوہری ٹرننگ پوائنٹ ہے، جو اس قرارداد میں واضح کیاگیا تھا، کہ اب تک ہم اپنے حقوق کے لیے ایسے فریم ورک میں راستے تجویز کر رہے تھے جو ایک ہندستان میں تھا۔ اب ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہندو انڈیا اور مسلم انڈیا پر مشتمل ایک فیڈریشن نہیں چلے گی بلکہ دو الگ ممالک ہونے چاہییں۔

اس تاریخی اجلاس میں سب سے اہم تقریر قائداعظم کی ہے۔ ان کے علاوہ مولوی فضل الحق، خلیق الزماں، قاضی عیسیٰ ، بیگم محمد علی جوہر اور دوسرے افراد نے بڑی اہم تقریریں کیں۔ سب نے اسی ایک نکتے پر بات کی۔

اس کے بعد اپریل ۱۹۴۶ء کی قرارداد کو میں سنگِ میل قراردیتاہوں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب اراکینِ پارلیمنٹ جن میں مرکزی وصوبائی دونوں اسمبلیوں کے افراد شامل تھے، ان کی کانفرنس ہوئی۔ اس میں انھوں نے ایک ریاست کا وجود واضح کیا۔ یہ قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی تھی، جب کہ مارچ ۱۹۴۰ء کی قرارداد مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی (ان دونوں حضرات کا تعلق بنگال سے تھا)۔ قرارداد کے الفاظ تھے:

ہرگاہ کہ اس وسیع برصغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمان ایسے دین کے پیرو ہیں، جو ان کی زندگی کے ہرشعبے(تعلیمی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی) پر حاوی ہے، اور جس کا ضابطہ محض روحانی حکمتوں، احکام، اعمال اور مراسم تک محدود نہیں۔

میں اس دوسری کانفرنس میں ایک کارکن کی حیثیت سے شریک تھا۔ ہمارے اسکول کی عمارت میں یہ اجلاس ہوا تھا۔ اس میں کچھ لوگوں نے اپنے خون سے دستخط کیے تھے۔ اس قرارداد کے ساتھ ایک حلف نامہ پڑھا گیا جس کا آغاز اس آیت سے کیا گیا تھا: اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ  o (الانعام ۶:۱۶۲)’’میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔ اور یہ کہ ہم عہد کرتے ہیں کہ اس قرارداد میں پاکستان کے قیام کے لیے: ’’جو خطرات اور آزمایشیں پیش آئیں گی، اور جن قربانیوں کا مطالبہ ہوگا، انھیں برداشت کروں گا۔ آخر میں یہ دُعا درج تھی: رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ  o  (البقرہ ۲:۲۵۰) ’’اے ہمارے رب، ہم پر صبر کا فیضان کر، ہمارے قدم جما دے اور اس کافر گروہ پر ہمیں فتح نصیب کر‘‘۔ اس دستاویزپر ہرایک رکن نےدستخط کیے۔

پاکستان بننے کے بعد قراردادِ مقاصد (مارچ ۱۹۴۹ء) کا بھی اگر تجزیہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی، جمہوری، فلاحی اور وفاقی ان چاروںبنیادوں کے اوپر ریاست کی تشکیل کا عہد اور اعلان کیا گیا ہے۔

دو قومی نظریہ: چند غورطلب پہلو

یہاں اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ دوقومی نظریہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، یہ پہلے دن سے ہے۔ دوقومی نظریے کی بنیاد اسلام کا یہ تصور ہے کہ زندگی گزارنے کے دو ہی طریقے ہیں۔  ایک یہ ہے کہ اللہ کو الٰہ مان کر اس کی عبادت اور اس کی اتباع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا طریق زندگی اختیار کیا جائے، جب کہ دوسرا راستہ چاہے وہ کسی دوسرے مذہب پر مبنی ہو، یا لادینیت کی بنیاد پر یا الحاد کے نا م پر ہو، یا کسی بھی نام پر، وہ الگ راستہ اور الگ نظریہ ہے۔ اس کی تلقین ہمیں سورئہ فاتحہ میں دن میں پانچ نمازوں میں بار بار کرائی جاتی ہے کہ  اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ لا غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَo ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا، اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں‘‘۔ یہ دو واضح طریقے ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ دوقومی نظریہ اس بات کی ضمانت ہے کہ اسلام سے ہٹ کر جو نظام ہوگا، اسے بھی باقی رہنے کا حق ہے۔ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ اللہ نے انسان کو یہاں ایک مقصد کے لیے پیدا کیا ہے ، اور وہ مقصد اس کی آزمایش ہے۔ آزمایش یہ ہے کہ اسے عقل دی گئی ہے، تقویٰ دیاگیا ہے اور ساتھ ساتھ اسے اختیار بھی دیا گیا ہے، فَاَلْہَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا (الشمس ۹۱:۸) ، یعنی بدی اور پرہیزگاری کے اختیارمیں سے اب اسے منتخب کرنا ہے خیر یا شر ، اسلام یا غیر اسلام، حلال یا حرام ، اللہ کی عبادت یا طاغوت کی عبادت۔ لیکن جو انتخاب بھی وہ کرلے، اسے اس پر قائم رہنے کا حق ہے۔ کسی دوسرے کو اختیارنہیں کہ زبردستی اس کے اوپر اپنی بات کو ٹھونسنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح جو استدلال وہ اختیار کرے گا اس کے نتائج بھی اسے بھگتنے پڑیں گے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ لیکن اختیار بہرحال اسے حاصل ہے، جس سے اس کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ لا (دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں۔ البقرہ ۲:۲۵۶)اور لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ o(تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔  الکافرون ۱۰۹:۶) میں اس حقیقت کو دوٹوک الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔

سورۃ البقرۃ میں لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ   کا جو پس منظر ہے وہ یہ واضح کردیتا ہے کہ پہلے   آیۃ الکرسی ہے، جس میں اللہ کے دین کا شعور ہے، اس کی کرسی اور اس کے اقتدار کا تذکرہ ہے۔   پھر اس آیت کے بعد فرمایا گیا: قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج  فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْم بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق (البقرہ ۲:۲۵۶)’’صحیح بات غلط خیالات سے    الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘۔

گویا  لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی دلیل کے ساتھ غلط اور صحیح کو واضح کر دیا گیا ہے، خیر اور شر کو ایک دوسرے سے واضح کردیاگیا ہے، اور حق اور باطل کو واضح کردیاگیا ہے۔ اب جو اللہ کا راستہ اختیار کرے گا، وہ ظلمات میں نہیں نُور میں رہے گا، اور جو طاغوت کی عبادت کرے گا وہ نُو رسے دُور رہے گا۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی اس بنیاد کے باوجود، جو اس سے ہٹ کر رہنا چاہتا ہے اسے اپنے کیے کا آخرت میں جواب دینا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ دوقومی نظریہ اگر پاکستان کی بنیاد بنتا ہے تو پھر کیا باقی لوگوں کے لیے یہاں رہنے کی گنجایش نہیں ہے؟ وہ بات کو اُلجھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بلاشبہہ یہ اُن کا انتخاب ہے کہ وہ اسلام قبول کریں، لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے تو ملک سے وفاداری کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ وہ ایک شہری کی حیثیت سے اپنے تمام حقوق وفرائض کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔اگر ایسا ہے تو سرآنکھوں پر۔ ہمارا یہ عہد ہے کہ ہم قوت سے اسلام مسلط نہیں کریں گے۔ بلاشبہہ ان دوسرے مذاہب یا افکار کے حاملین کو بھی مسلمانوں کے حقیقی جذبات و احساسات کا پاس و لحاظ رکھنا ہوگا۔  اگر وہ اس میدان میں بے ضابطگی کا ارتکاب کریں گے تو قانون کے مطابق انھیں جواب دہ بھی ہونا پڑے گا۔ آزادیِ افکار کا حق انھیں حاصل ہے، مگر دستور اور قانون کے دائرے کے اندر۔ اس طرح خود مسلمانوں کو بھی جو حقوق حاصل ہیں، وہ قانون کے دائرے کے اندر ہیں۔ کسی کو بھی قانون اپنےہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہے۔ اسلامی معاشرے کے بھی یہ آداب ہیں، اور ایک معروف جمہوری معاشرے میں بھی ان آداب کا احترام لازمی امر ہے۔

حال ہی میں عوامی راے کے جائزے پیش کرنے والے اداروں PEW اور گیلپ نے جو سروے شائع کیے ہیں، ان میں آپ دیکھیں گے کہ بہت سے مسلم ممالک میں تو مسلمانوں کی  اس اُمنگ کا اظہار کرنے والوں کی تعداد کہ شریعت کو ہماری اجتماعی زندگی کی بنیاد ہونا چاہیے، ۷۰سے ۹۹ فی صد آبادی تک نے کیا ہے۔ باقی ممالک میں بھی مسلمان ۲۰سے ۴۰فی صد تک کہتے ہیں کہ شریعت کو ہمارا قانون اور نظام ہوناچاہیے۔ اگر جمہور کی عظیم اکثریت کا یہ فیصلہ ہے تو اس کا احترام دوسرے مذاہب کے لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے، ورنہ یہ سب ’اقلیت کے استبداد‘ (Tyranny of the Minority) کے مترادف ہوگا۔

دوقومی نظریے کی حکمت عملی یہ ہے کہ مسلمان جہاں اکثریت میں ہیں اور جہاں اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنے مستقبل کو خود طے کرسکتے ہیں، وہاں ان کے لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزاریں اور نظام حکومت اس کی بنیاد پر کارفرما ہو۔ جہاں وہ اقلیت میں ہیں تو ان کے لیے صحیح راستہ یہ ہے کہ وہاں امن سے رہیں۔ وہ دوسروںکے حقوق کا بھی خیال کریں، لیکن اپنے نظریے ، کمیونٹی، معاشرت ، روایات کی جس حدتک حفاظت کرسکتے ہیں، ان کا تحفظ کریں۔ اس تشخص کو تحلیل نہ ہونے دیں۔ اس کے لیے جدوجہد کریں اور دعوت وتبلیغ کاعمل جاری رکھیں، البتہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آج کی اقلیت کل کی اکثریت میں بدل سکتی ہے، لیکن یہ عمل دعوت و تبلیغ کے ذریعے جاری رکھنا چاہیے۔

جہاں مسلمان کسی ایسے نظام میں رہ رہے ہیں، جو ظالمانہ اور جابرانہ نظام ہے، وہاں بھی آپ اپنے وجود کے لیے اس نوعیت کی جدوجہد کرسکتے ہیں، جس میں ان اخلاقی حدود کا پورا پورا خیال رکھا جائے جو اللہ اور اس کے آخری رسولؐ نے اُمت کو تعلیم کی ہیں۔اسی لیے اسلامی تاریخ اور قانون کے اندر عدل، توازن اور توسع کی تعلیم دی گئی ہے۔ واضح رہے کہ جہاد کا ایک مستقل ضابطہ اور طریقہ ہے، جو اسے دہشت گردی سے یک سر مختلف بنادیتا ہے۔ یہ محض اقتدار کی جنگ نہیں ہے۔ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، اور پھر دوسری شرط یہ ہے کہ جہاد ان آداب، قیود اور اصولوں اور ضابطوں کے مطابق ہو، جو اللہ اور اس کے رسولؐ نے طے کیے ہیں۔ اس سے ہٹ کر کوئی راستہ جائز نہیں ہے۔ گویا کہ دو قومی نظریہ ایک ابدی اصول ہے اور اس کے یہ مختلف ماڈل ہیں۔

جہاں اکثریت ہے، وہاں کم ازکم اسلامی نظام کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ جہاں پر اکثریت یا عددی طاقت حاصل نہیں ہم وہاں کے حالات کے مطابق اپنے تشخص کی حفاظت کی کوشش کریں، اپنے حقوق کی حفاظت کی کوشش کریں اور ان مشترکات میں، جن میں دوسرے بھی شریک ہیں ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلیں۔ اس فریم ورک پر چل کر ہم پُرامن اور کامیاب پیش رفت کے لیے راستہ نکال سکتے ہیں۔

مسلم دنیا: درپیش چیلنج

جہاںتک مسلم دنیا کا تعلق ہے ،ہم اس وقت بلاشبہہ ایک بہت بڑی آزمایش اور بڑے ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ ۲۰ویں صدی میں ہم پر اللہ کے بے پناہ انعامات برسے ہیں، لیکن ہم نے ان کا حق ادا نہیں کیا۔ بیسویں صدی کاآغاز اس طرح ہوا تھا کہ صرف چار مسلم ممالک دنیا کے نقشے پر آزاد نظر آتے تھے، باقی ساری مسلم دنیا مغربی سامراجی طاقتوں کی غلام تھی ۔

یہ تقریباً ۲۰۰ سال کا تاریک دور تھا، تاہم ۲۰ویں صدی میں مسلمان دوسروں کی سیاسی غلامی سے نکلنے میں کامیاب ہوئے اور آج آزاد مسلمان ممالک کی تعداد ۵۷ ہے۔ ۱۹۷۳ء تک دنیا کی معاشی قوت، مغربی ممالک کے ہاتھوں میں تھی، لیکن اکتوبر ۱۹۷۳ء میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل کی جانب سے امریکا کوتیل بند کرنے کی دھمکی کے ایک معمولی سے جھٹکے نے، مغرب کے ہوش ٹھکانے لگادیے۔ اس طرح تیل کی قیمتوں پر مغربی معاشی اجارہ داری کا توازن تبدیل ہوگیا۔ پھر ۲۰ویں صدی میں اللہ نے دین کاصحیح تصور پیش کرنے کے لیے پے درپے عظیم شخصیات پیدا فرمائیں۔ ۱۸ویں اور ۱۹ویں صدی میں اسلامی احیائی جدوجہد کے لیے حضرت شاہ ولی اللہ اور سیّداحمدشہید کا بڑاحصہ ہے۔ لیکن ۱۹ویں صدی کے آخر اور ۲۰ویں صدی میں مولانا شبلی نعمانی، مولاناابوالکلام آزاد ، علامہ محمد اقبال، مولانا مودودی، امام حسن البنا، سید قطب شہید، مالک بن نبی، سعید نورسی جیسے بڑے علما کی ایک کہکشاں ہے، جس نے بڑی وسعت کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا ۔ ان کے بیانیے میں اختلافات بھی ہیں، لیکن ایک ہی مرکزی نکتے پر سب کا اتفاق بھی تھا۔ وہ یہ کہ اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے، اور اُمت مسلمہ کی کامیابی کا انحصار جہاں انسانوں کی زندگی اور کردار کو تقویٰ اور للہیت پر تعمیر کرنا ہے، وہیں ان کی خاندانی، معاشی، اجتماعی، سیاسی، قومی اور بین الاقوامی زندگی کو بھی اللہ کی ہدایت کی روشنی میں تشکیل و تعمیر کرنا ہے۔ گویا ایک ہی مکمل نظام کو قائم کرنے کی پوری کوشش ہمارا فرض ہے۔

مجھے یہ بات سن کر الجھن ہوتی ہے، جب لوگ کہتے ہیں کہ: ’’ریاست کو اسلامی نہیں کہنا چاہیے‘‘۔ قانونی اعتبار سے ریاست ایک ’قانونی وجود‘ ہے اور ایک ’قانونی وجود‘ کی طرح اس کا ایک طبعی مقام ہے۔ بالکل اسی طرح اس کا سیاسی اور نظریاتی وجود اور مقام بھی ہے۔ اگر ایک ریاست کرسچن ریاست ہوسکتی ہے، ایک جمہوری ریاست ہوسکتی ہے، ایک ویلفیئر اسٹیٹ ہوسکتی ہے، ایک یہودی اسٹیٹ ہوسکتی ہے، ایک بدھسٹ اسٹیٹ ہوسکتی ہے ، ایک ہندو اسٹیٹ ہوسکتی ہے، تو ایک اسلامک اسٹیٹ کیوں نہیں ہوسکتی؟

مسلمانوں کا ایک گروہ کہتا ہے: ’’اس کے لیے کوشش کی ضرورت نہیں بلکہ یہ تو ایک انعام ہے‘‘۔ لیکن وہ اس بات کا جواب نہیں دیتا کہ ریاست تو کیا زندگی میں کوئی بھی چیز آپ سے آپ حاصل نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے لیے کوشش کرنا ہوگی۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے سے یہ انعام نہیں مل سکتا۔ رزق اللہ کی نعمت ہے، لیکن کیا رزق کے لیے کوشش نہیں کی جاتی۔ اسلامی ریاست کا وجود اللہ کی نعمت اور انعام ہے تو اس کے قیام کے لیے جدوجہد اور کوشش بھی ضروری ہے۔ اور پھر جب قرآن خود کہتا ہے کہ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ  اور امربالمعروف ونہی عن المنکر یعنی ہمیں یہ کہاجاتا ہے کہ جہاں تم نماز قائم کرتے ہو، زکوٰۃ ادا کرتے ہو، وہاں امربالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری ادا کرنا بھی تمھارا فرضِ منصبی ہے۔’امر‘ کے معنی درخواست کرنا نہیں اور ’نہی‘ کے معنی محض متنبہ کرنا نہیں ہے، بلکہ نیکی کو قائم کرنا اور بدی سے روکنا ہے۔ یہ کام ریاستی قوت کا متقاضی ہے۔ محض وعظ و تلقین اس کے لیے کافی نہیں۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ ریاست بھی ان حدود کی پابند رہے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرما دیے ہیں۔

۲۰ویں صدی کے آخری عشروں میں بدقسمتی سے ہم نے اُس معاشی انعام کا فائدہ نہیں اُٹھایا جو اللہ تعالیٰ نے مسلم اُمہ کو عطا کیا تھا۔ ہمارے ریاستی نظام اور ہماری قومی قیادتیں جاہلیت کی بنیاد پر خود مسلمانوں ہی کے خلاف ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرتی چلی آرہی ہیں۔ تاہم، اس ظلم و جَور اور بے اعتنائی کے باوجود اصلاح اور تبدیلی کی قوتیں ہرجگہ کارفرما ہیں۔ اگر مصر میں ۴۰ سال تک الاخوان المسلمون پر پابندی عائد کرنے اور ہزاروں کی تعداد میں کارکن شہید کرنے یا جیلوں اور تعذیب خانوں میں ڈالنے کے باوجود اسلام وہاں اُبھر سکتا ہے تو پھرمایوسی کیوں؟ ترکی جہاں اذان دینا ممنوع تھا، سر پر ٹوپی اوڑھ نہیں سکتے تھے، کوئی کتاب عربی میں نہیں چھاپ سکتے تھے لیکن وہاں بھی آخرکار مثبت تبدیلی آئی ہے۔ وسطی ایشیا میں ۷۰سال تک کیا مسلمانوں کو محکوم نہیں رکھا گیا؟ اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ گولیاں چلے بغیر وسطی ایشیا کے ممالک ماسکو کی غلامی سے نکل کر خودمختاری کی راہ پر چل نکلے۔ تمام خرابیاں، تضادات اور کمزوریاں اپنی جگہ، مگر ہمارے پاس وہ استعداد و قوت اور جذبہ بھی موجود ہے، جسے متحرک ، منظم اور علمی و اخلاقی اعتبار سے تقویت بہم پہنچانے کی ضرورت ہے، اور جہاں جہاں ہم کوشش کریں گے، ان شاء اللہ اس کے نتائج بھی ملیں گے۔ نشیب وفراز اپنی جگہ، لیکن ان سب کے باوجود ان شاء اللہ حالات بدلیں گے اور تبدیلی کی یہ اُمید بالخصوص نوجوانوں سے ہے ۔ آج مسلم دنیا کی ۵۰سے ۶۰فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک بڑا قیمتی اثاثہ اور بہت بڑی قوت ہے۔ ان سب کے لیے ہمارا ایک ہی مشورہ ہے کہ زندگی کو محض کھانے پینے اور آرام کے لیے استعمال نہ کریں، بلکہ زندگی کا مقصد پہچانیں، سمجھیں اور پھر اس مقصد کے مطابق اپنے آپ کو تیار بھی کریں اور اس مقصد کو بروے کار لانے کی کوشش بھی کریں۔

تبدیلی کے لیے کام انفرادی سطح پر بھی ہورہا ہے اور اجتماعی سطح پر بھی۔ یہ کام کرتے ہوئے جو کچھ ہمیں کرنا ہے، اسے اگر تین لفظوں میں ادا کروں تو وہ ہیں: خداشناسی، خود شناسی اور خلق شناسی۔

  • خداشناسی سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو پہچانیں کہ اُس کے وجود کا جو پیغام ایک بندئہ خاکی کے لیے پیغمبروںؑ نے پہنچایا ہے، اس کے مطابق زندگی گزاریں۔
  • خودشناسی یہ ہے کہ میں خود کیسا ہوں اور اللہ اور اس کے رسولؐ مجھے کیسا دیکھنا چاہتے ہیں اور قرآن وسنت میں میرے لیے کیا نمونہ دیا گیا ہے ، کیا ہدایت دی گئی ہے۔
  • پھر ہے خلق شناسی، یعنی اس کے نتیجے میں اللہ کی مخلوق سے میرے تعلقات کیسے ہوں۔ اپنے اعزا، خاندان، محلے، بہن بھائیوں، دوستوں، دشمنوں،کافروں، مسلمانوں ،اداروں، یعنی خاندان سے لے کرریاست تک اپنی منصبی ذمہ داری معلوم ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے نوجوانوں سے یہی گزارش ہے کہ زندگی کا مقصد متعین کیجیے اوور پھر مقصد کو سنجیدگی سے قبول کرکے اس کے تقاضوں کو قبول کیجیے۔

خواتین کا میدانِ کار

اسی طرح مسلم دنیا میں پروپیگنڈے کے زور پر ایک مسئلہ پیدا کیا گیا ہے، اور وہ ہے: خواتین کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی مسخ شدہ تعبیر اور اتہام بازی۔ اس ضمن میں یہ واضح رہنا چاہیے کہ اسلام کی نظر میں کامیابی کے معیار کے اعتبار سے مردوزن کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ قرآن نے اپنے اسلوب میں اس معاملے میں واضح طور پر وضاحت کی ہے کہ ایمان لانے والے مرد، ایمان لانے والی عورتیں، تقویٰ اختیار کرنے والے مرد، تقویٰ اختیار کرنے والی عورتیں۔پھر امربالمعروف ونہی عن المنکر کو جس طرح مردوں کے لیے فریضہ قرار دیاگیا ہے اسی طرح عورتوں کے لیے بھی حکم دیاگیا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ اپنی صلاحیت ، اپنی ذمہ داریوں اور اپنے ماحول کے اعتبار سے وہاں فرق ہوسکتا ہے، لیکن مقام میں، حقوق میں، اور کردار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ بھی اللہ کا کرم ہے کہ اس نے عقیدے کی بنیادیں تفصیل سے بتا دی ہیں، جن میں نہ کوئی اضافہ ہوسکتا ہے اور نہ کمی۔ عبادات کا معاملہ جو اللہ سے انسانوں کو جوڑتا ہے اور بندوں کو اللہ کی مرضی اور بندگی کے لائق کرتا ہے، اس کی پوری تفصیل دے دی۔ اس میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔  حلال کو حرام نہیں کیاجاسکتا اور حرام کو حلال نہیں کیا جاسکتا۔ رہے زندگی کے اجتماعی اُمور اور تبدیلی کے وسائل کا حصول اور ان کا استعمال، تو زندگی کے اس وسیع دائرے کے باب میںاور ان تمام ہی معاملات میں بڑی حکمت کے ساتھ صرف ضروری ہدایات دے کر آزادی   دی ہے کہ آپ موقعے اور حالات کی مناسبت سے اپنا راستہ خود متعین کریں۔

مقاصد ِ شریعت کی روشنی میں متعین احکامات کا مکمل احترام کرتے ہوئے حکمت عملی کے ساتھ اپنا راستہ نکالیں۔ ایک طرف دین کے مکمل فریم ورک کا احترام کریں اور حدود اللہ کے اندر تمام معاملات کو طے کریں، تو دوسری طرف اس وسعت (flexibility) سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی ہے۔ اس طرح تسلسل اور تبدیلی دونوں کی برکتوں سے فیض یاب ہوں۔

واضح رہے کہ خاندان کے بارے میں قرآن میں تفصیل سے رہنمائی دی گئی ہے۔ البتہ معاشی، سیاسی، اجتماعی اور بین الاقوامی معاملات کے بارے میں صرف رہنما اصول (guide lines) دیے ہیں، تاکہ حالات کے مطابق اور زمانے کی ضروریات کی مناسبت سے ان کی روشنی میں راستہ بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور پاکؐ نے جہاں قرآن پہنچایا، اور اس کی تعلیم دی، وہیں قرآن کے مطابق تزکیہ کیا اور حکمت کی تعلیم دی۔ حکمت کی تعلیم نام ہے اس بات کا کہ الہامی ہدایت کی روشنی میں آپ اپنے دور میں، اپنے حالات کے مطابق کیسے کام کریں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے یہ کردکھایا۔ اس لیے سنت وحدیث میں ہمارے لیے یہی نمونہ ہے۔ یہ ایک طرزِ فکروعمل ہے، جس نے ہر دور میں اُمت کو اور افراد کو بھی راستہ دکھایا ہے۔

عصرِحاضر کے تقاضے اور فکرو تحقیق

عصرِحاضر کے تقاضوں کو جاننے کے لیے علمی و تحقیقی جدوجہد ناگزیر ہے۔ تحقیق کے باب میں میری درخواست یہ ہے کہ تحقیق سے پہلے پڑھنے کی عادت ڈالیے۔ مجھےیہ دیکھ کر دُکھ ہوتا ہے کہ ہماری قوم میں بحیثیت مجموعی پڑھنے کی عادت کم ہورہی ہے۔ یہ اس امت کا بہت بڑا نقصان ہے۔ اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے جو کتاب بھیجی ہے اس کے معنی ہی یہ ہیں کہ پڑھنا، سننا۔ جدید ٹکنالوجی سے ضرور آپ فائدہ اٹھائیں، لیکن کتاب سے آپ کا تعلق رہنا چاہیے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ سوچنا سمجھنا اور پھر تحقیق کے لیے اداراتی سطح پر کام کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ تحقیقی ذوق کے بغیر مکھی پہ مکھی مارناسخت کمزوری بلکہ حماقت کی بات ہے۔ ایک غالب و قاہر تہذیب کے مقابلے میں آگے بڑھ کر اسلامی تہذیب کو پیش کرنے کے لیے ماضی سے ربط، غوروفکر اور آج کے پیش آمدہ مسائل و مشکلات کا جواب دینے کی صلاحیت پروان چڑھانا اشد ضروری ہے۔

تیسری چیز یہ ہے کہ حقائق (Facts)  کے بارے میں کبھی کمپرومائز نہ کیجیے۔ حقائق کے بارے میں نہ انکار کیجیے اور نہ اس کے باب میں من مرضی (selective)کے اسیر بنیے۔ یہ ضرور متعین کیجیے کہ کیاحقائق ہیں اور کیا زیبِ داستاں ہے؟ پھر حقائق کی روشنی میں زیرمطالعہ مسئلے کی تفہیم کیجیے۔ حقائق راستہ نہیں روکتے، وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ کیا چیلنجز اور کیا امکانات ہیں، یعنی حقائق، تحقیق اور تفہیم کا کام بہت باریک اور نازک ہے۔ اس ضمن میں سہل انگاری کی کوئی گنجایش نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جو لوگ محنت نہیں کرتے،ان کی تحقیق معیار کے اعتبار سے کمزور چیز ہوتی ہے۔اس عیب سے بچنے کی ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ ہمارا سارا کام پروفیشنل انداز میں ہوناچاہیے۔

o

سوال: میں نے عملی زندگی میں قدم رکھا تو میں یہ مشن لے کر چلاتھا کہ زندگی بھر صادق اور امین رہوں گا۔ ۱۵سال تک کوشش کرتا رہا مگر یہ صداقت اور امانت مشاہدے میں نہیں آئی۔ کیا یہ انتظامی مسئلہ ہے، یا ہمارے سماجی اخلاقی نظام کا بحران ہے؟    میں کس منڈی میں اسے دیکھوں اور کس منڈی سے اسے خریدوں؟

جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ صادق اور امین ہونا کوئی قانونی یا آفیشل بات نہیں ہے۔ ایک اچھا انسان ہونا ہماری زندگی کا لازمی جزو ہے۔ آپ اگر کسی کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں تو کیا آپ یہ توقع نہیں کرتے کہ وہ جو بھی معاملہ آپ سے کرے، وہ معاملہ شفاف ہو اور اس میں دھوکا    نہ ہو۔ آپ کسی کو قرض دیتے ہیں یا کسی سے قرض لیتے ہیں، اس وقت کیا نیت اور توقع رکھتے ہیں! جس مقام پر آپ کام کررہے ہیں، وہاں وقت کو آپ کس طرح استعمال کر رہے ہیں؟ گویا صادق اور امین ہونا تو انسان کا شرف ہے اور قدم قدم پر اس کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو ہماری زندگی ایک خوف ناک خلا ہی میں رہے گی۔

صداقت اور امانت ایسی بنیادی انسانی خوبیاں ہیں کہ اس کے لیے مسلمان اور غیر مسلم کے اندر فرق کی بھی زیادہ گنجایش نہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے پہلے بھی صادق اور امین تھے اور ان کا صدق اور امانت اس معیار کا تھا کہ جنھوں نے نبوت کا انکارکیا، انھوں نے ہی آپؐ کے بارے میں برملا کہا کہ: ’’آپؐ صادق اور امین ہیں‘‘۔جو آپؐ کے خون کے پیاسے تھے، انھوں نے اپنی امانتیں بھی آپ ہی کے پاس رکھیں۔ نبی پاکؐ کی دیانت کا یہ عالم تھا کہ ہجرت کے وقت آپؐ نے وہ تمام امانتیں جو مشرکینِ مکہ کی تھیں، حضرت علی ؓکے سپرد کیں کہ یہ  فلاں فلاں کی امانت ہے ان کو واپس کردینا۔ یہ ہے صداقت اور امانت کا بلندترین معیار۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ صداقت اور امانت محض سیاست کے لیے نہیں بلکہ یہ خوبی شوہر اور بیوی کے درمیان، باپ اور بیٹے کے درمیان، آجر اور ملازم کے درمیان، یعنی ہر جگہ نافذالعمل ہونی چاہیے، قطع نظر مذہب و عقیدہ کے۔

 سر آئیورجننگز ((Ivor Jennings کا نام پولیٹیکل سائنس میں ایک اتھارٹی ہے۔ ان کی کتاب Cabinet Government ملاحظہ کیجیے۔ انھوں نے کہا ہے کہ: برٹش نظام میں ایک وزیرکے لیے عالم اور ماہر ہونا ضروری نہیں ہے کیوں کہ ان مہارتوں میں اہلِ علم اور ماہرین سے مدد لی جاسکتی ہے۔ لیکن وزارت کا قلم دان سنبھالنے کے لیے صداقت و امانت (integraty ) کا ہونا نہایت ضروری ہے ،اور اگر یہ صداقت و امانت نہیں ہے تو پھروہ عوامی اعتماد کا حق دار نہیں ہوسکتا۔ دراصل یہ ایک آفاقی، عالمی اور انسانی ضرورت ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس خوبی کو بازار سے خریدا نہیںجاسکتا، یہ تو انسان کے کردار کا جوہر ہے۔

قومی سطح پر ہمارے ہاں اس وقت نظریاتی انتشار اور اخلاقی بگاڑ ہے ۔ ادارے تباہ حال ہیں اور احتساب کانظام موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم مایوس ہوجائیں۔ نہیں، بلکہ انھیں درست کرنے کے لیے کوشش جاری رکھیے۔ اپنی مثال بہتر سے بہتر قائم کیجیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ اس کے مثبت اثرات رُونما ہوں گے۔

ذاتی تجربے اور مشاہدے کی صرف ایک مثال دیتا ہوں کہ جب میں نے ۱۹۷۸ء میں پلاننگ کمیشن کا چارج سنبھالا تو پہلا کام یہ کیا کہ کمیشن میں کام کرنے والے افسروں اور ملازموں کے لیے قواعد و ضوابط بنائے تاکہ ان اصولوں کے تحت جس کی کوئی ذمہ داری ہو یا اس کے نتیجے میں اسے کوئی فائدہ پہنچتا ہو اس کو وہ فائدہ پہنچنا چاہیے، اور یہ کام اصول اور ضابطے کے مطابق خود بخود ہونا چاہیے۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ ان قواعد کے نافذ ہونے کے بعد سب سے پہلے جس فرد کو فائدہ پہنچا، وہ صاحب قادیانی تھے۔اُس وقت کے سیکرٹری پلاننگ کمیشن میرے پاس آئے اور اُس فرد کی مذہبی شناخت بتاتے ہوئے اظہار کیا کہ ’’اب کیا کیا جائے؟‘‘ میں نے ان سے کہا کہ: ’’یہ بتانے کے لیے آپ کو میرے پاس نہیں آنا چاہیے تھا۔ بلاشبہہ وہ قادیانی ہے، مگر ہمارے دفتر میں ملازم ہے۔ اگر ان قواعد کے مطابق اس کا فائدہ ہوتا ہے اور اس نے جاپان جانا ہے تو بھیج دیا جائے‘‘۔ یہ بتانے سے مقصود یہ ہے کہ اگر آپ اپنی اپنی جگہ اس طرح مثال قائم کرنی شروع کردیں تو ان شاء اللہ حالات بدلتے ہیں۔

سوال: قومیت اور دو قومی نظریے میں ہم توازن کس طرح رکھ سکتے ہیں؟خود اقبال نے بھی وطن پرستی پر تنقید کی ہے، یعنی: ’’اِن تازہ خدائوں میں بڑاسب سے وطن ہے‘‘۔ اس کے علاوہ مولانا مودودی نے بھی جو اسلامی ریاست کی بنیاد بتائی ہے، اس میں اقتدارِ اعلیٰ کے بعد دوسرا نکتہ قومیت ہے۔ ہم بحیثیت پاکستانی ایک طرف پاکستانیت کا نعرہ بلند کرتے ہیں، دوسری طرف ایک ایرانی اور ایک افغانی اپنی قومیت کا نعرہ بلند کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اس میں اور ایک امت کے تصور میں توازن کیسے ہوسکتا ہے؟

جواب: بہت ہی اہم سوال ہے، جزا ک اللہ خیر۔ دیکھیے مولانا مودودی ہوں یا علامہ اقبال یا دیگر مفکرین ، انھوں نے یہ بات کہی ہے کہ اگر قومیت کی بنیاد علاقے سے اس طرح جڑی ہوئی ہو کہ میرا ملک چاہے غلط ہے یا صحیح، میں اپنے ملک کا وکیل ہوں۔ یہ چیز اسلام کی بنیاد سے متصادم ہے۔ اس بنیاد پر بننے والی قومیت اپنے حتمی نتیجے میں انسانیت کے لیے فساد کا ذریعہ ہے، اور    اس سے خیر رُونما نہیں ہوسکتا۔

حضور پاکؐ نے اسی بات کو ایک اور پس منظر میں، لیکن انتہائی خوب صورتی سے بیان فرمایا ہے کہ اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ ذہن میں رکھیے کہ عربوں میں ایک محاورہ تھا: ’’میرا بھائی درست ہویا  نادرست، مجھے اپنے بھائی کا ساتھ دینا ہے۔ اپنے قبیلے کا ساتھ دینا ہے چاہے وہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ اس پر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ: ’’اپنے بھائی کا ساتھ دو، خواہ وہ حق پر ہو یا ناحق پر‘‘۔ اس فرمان پر صحابہؓ چونک گئے کہ یہ تو اسلام میں ہو ہی نہیں سکتا۔ انھوں نے پوچھا: ’’حضوؐر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اگر ہمارا بھائی حق پر ہے تو اس کی مدد بجا لیکن اگر ناحق پر ہے تو اس کی مدد کیسے کرسکتے ہیں؟‘‘ حضوؐر نے فرمایا: ’’اگر وہ حق پر ہے تو اس کا ساتھ دیجیے اور اگر ناحق پر ہے تو اس سے اسے روک کر اس کا ساتھ دیجیے‘‘۔

یہ ہے قومیت کا وہ تصور جس کو ہم نے آئیڈیل بنانا ہے۔ لیکن اگرکہیں علاقہ خود مسئلہ بن جائے تو پھر ان کے درمیان مطابقت کا سوال ضرور پیدا ہوگا۔ حدیث میں آتا ہے کہ اپنے وطن سے تعلق اور لگائو ایک فطری عمل ہے۔ اپنی پیدایشی زمین سے ایک انس اور محبت فطری چیز ہے۔ مکہ اور بیت اللہ کا تو معاملہ ایسا تھا کہ اس کے لیے انسان تڑپے، لیکن چونکہ ایک وقت خود بیت اللہ کے قرب میں رہنا حق کی مصلحت کے منافی ہوگیا تھا، تو ہجرت کا مرحلہ آن پہنچا۔ وہ بیت اللہ جسے صحابہؓ اور حضور پاکؐ شوق سے دیکھا کرتے تھے، اسے چھوڑنا پڑا۔ عقیدہ اور حق پرستی کو اولیت حاصل ہے لیکن جب معاملہ ایک سے زیادہ شناختوں کا ہو، جو فطری ہے، تو ان میں تطبیق کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے قرآن نے جہاں یہ کہا ہے کہ تمھیں ایک ماں باپ سے پیدا کیا ہے وہیں یہ بھی  نشان دہی کردی کہ شعوب و قبائل میں تقسیم بھی اک فطری عمل ہے لیکن صرف شناخت کے لیے۔ اصل چیز تقویٰ کا دامن تھامنا ہے اور معاملات کو طے کرنے میں حق پرستی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اس وجہ سے اللہ کو سب سے زیادہ وہ انسان پسند ہے جو تقویٰ میں سب سے آگے ہو۔

اس طرح فکری اور نظریاتی طور پر صحیح رویہ اختیار کرنے کے بعد جس امر پر غور کرنا ہے، وہ یہ کہ ان کے درمیان مطابقت اور توازن کیسے پیدا کیا جائے؟ اسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

 اسلام یہ کہتا ہے کہ قومیت کی بنیاد نظریے پر ہے۔ اسلام کو اپنا دین ماننے والے ایک امت ہیں، خواہ ان کی زبان، ان کی نسل اور ان کا وطن کوئی بھی ہو۔ وہ کہیں پر بھی رہ رہے ہوں یا ان کا رنگ کیسا ہی ہو۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان اللہ کاخلیفہ ہے تو جس بنیاد پر انسان کو اپنی زندگی کامقصد اور اپنی زندگی کی روش طے کرنی چاہیے، اسے بنیاد کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے، جو ہر ایک کے لیے ممکن ہو۔ آپ اپنا رنگ نہیں بدل سکتے، زبان شاید بدل سکیں لیکن پھر بھی فرق رہتا ہے ۔ نسل میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔ زمیں بدل کر آپ ہجرت کر سکتے ہیں۔ مگر اسلام نے قومیت کی اصل بنیاد عقیدے کورکھا، تاکہ ہر نسل، ہر مقام اور ہر زبان بولنے والے اس میں آسکیں اور سب آکرکے ایک ہوجائیں۔ لیکن خوبی اس کی یہ رہی کہ اس نے سب کو ایک بنانے کے بعد بھی معاشرے میں تشخص اور تنوع کو ختم نہیں کیا۔ زبان اور نسل کی نفی نہیں کی، رنگ کی نفی نہیں کی، بلکہ یہ کہا گیا کہ یہ سب ہم نے اس لیے بنائے ہیں کہ لِتَعَارَفُوْا  (تمھاری پہچان کے لیے)۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ تمھارے سامنے زندگی گزارنے اور فیصلے کرنے کا معیار ، اخلاق اور اصول ہونا چاہیے اور وہ ہے: اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ  ط(الحجرات ۴۹:۱۳)’’درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے‘‘۔  یہ بھی بتادیا کہ تمھاری صف ایک ہی ہے ، کچھ اُمور میں اگر اختلاف ہے تو اختلاف کو تسلیم کرنا، اختلاف میں ہم آہنگی و مطابقت (accommodation ) پیدا کرنا اور اس کو ایک نظام کے تحت لینا آپ کی ذمہ داری ہے۔

جب ہم تصورِ قومیت دیتے ہیں تو اس سے ان باقی عناصر کی نفی نہیں کرتے۔ ہم انھیں صرف ایک تصور کے دائرے میں اپنے وجود کے ساتھ جمع کرتے ہیں۔ اس میں وطن سے محبت یقینا ایک جائز اور فطری چیز ہے۔ میثاق مدینہ میں نبی پاکؐ نے ہمارے سامنے وہ ماڈل بھی رکھ دیا کہ جس میں ایک سے زیادہ قومیں، ایک سے زیادہ مذاہب کے لوگ مل کر ایک ریاست بناسکیں۔  اگر آپ اس کا مطالعہ کریں تو اس کی کُل ۸۸ شقیں ہیں۔ جن میں سے ۴۴ کا تعلق مسلمان امت سے ہے اور۴۴ کا تعلق دیگر قبائل و مذاہب سے ہے۔ ان میں صاف طور پر لکھا اور تسلیم کیا گیا ہے کہ تمھارا تشخص ، تمھارا مذہب، تمھاری روایات کو تحفظ حاصل ہوگا۔لیکن اس پورے نظام کا جو سربراہ ہوگا وہ نبی پاکؐ ہوں گے، وہی آخری اتھارٹی ہوں گے اور سیاسی بالادستی اور فیصلہ کُن حیثیت نبی پاکؐ کو حاصل ہوگی۔ اس فریم ورک میں ان سب کو لے کر چلا گیا۔یہ ہماری تاریخ ہے کہ اس میں یہودی، عیسائی، ہندو، بدھسٹ، اللہ کو نہ ماننے والے، سب موجود رہے اور انھیں ان کے حقوق دیے گئے۔ ان کے لیے ایک مقام رکھا گیا اور اسی کی مناسبت سے ان سے توقعات بھی وابستہ کی گئیں۔

عالمی تناظر میں ہمارے فقہا نے انٹرنیشنل لا میں بلاشبہہ دنیا کو ایک بڑی حد تک اور   اُس دور کے حالات کی روشنی میں ’دارالحرب‘ اور ’دارا لاسلام‘ میں تقسیم کیا ہے اور اس پہلو سے ’دارالحرب‘ اور ’دارا لاسلام‘ ایک بنیادی تقسیم ہے، لیکن دنیا صرف ان دو ماڈلز تک محدود نہیں ہے۔   اگر کسی ملک سے آپ برسرِجنگ ہیں تو یہی تقسیم اور اس کے احکام فیصلہ کن ہوں گے۔ لیکن اس کے علاوہ اور درجہ بندیاں ہمارے انٹرنیشنل لا کے اندر موجود ہیں، جن میں دو اور نوعیتیں قابلِ ذکر ہیں، یعنی: ’دارالامن‘ کہ جن سے آپ جنگ نہیں کررہے اور وہ غیرمسلم ہیں، اور ’دارالعہد‘ کہ جہاں غیرمسلم ہوں جن سے آپ کا کوئی معاہدہ اور کوئی معاملہ فہمی (انڈرسٹینڈنگ) ہو۔ اس کی بنیاد پر ایک فریم ورک ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ حبشہ میں عیسائیوں کی حکومت رہی، لیکن مسلمانوں نے کبھی اس پر چڑھائی نہیں کی اور اسے کبھی ’دارالحرب‘ قرار نہیں دیا گیا۔

اس فریم ورک کی روشنی میں آج کے دور اور آج کے حالات کے مطابق ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری نظریاتی اساس اسلامی قومیت ہے۔ پھر جس ریاست میں ہم عملاً رہ رہے ہیں، اس میں ایک سے زیادہ اگر قومیں رہتی بستی ہیں تو ان قوموں کے وجود اور حقوق کا اتنا ہی پاس و لحاظ کیا جائے گا۔ قانون کی نظر میں ان کے ساتھ برابری اور مشترکہ قومی مفادات میں مل کرکام کرنا لازم ہے۔ اسی ماڈل کو سامنے رکھ کر علما نے ۱۹۵۱ءمیں اسلامی ریاست کے جو ۲۲ اُصول مرتب کیے تھے،  اگر آپ انھیں پڑھیں تو ان میں علما نے یہ بتایا ہے کہ آج کے دور میں ہم کس طرح اس نظریے کو ایک طبعی و جغرافیائی ریاست کے اندر سمو سکتے ہیں۔ اسی کی روشنی میں پہلے قرارداد مقاصد پاس ہوئی اور پھر پاکستان کا دستور بنا ۔

پاکستان کا دستور ہمیں وہ فریم ورک دیتا ہے جس کے اندر سب کے لیے مل جل کر رہنے کا پورا پورا حق موجود ہے۔اس جغرافیائی ملک سے وفاداری اور اس کی خدمت اور تشکیل و تعمیر و ترقی کے ساتھ ہماری یہ کوشش رہے گی کہ مسلمان ممالک آپس میں ملیں اور قریب آئیں۔ پاکستان کے دستور کا آرٹیکل۴۱ بھی اس کوشش کو ایک رہنما اصول قرار دیتا ہے کہ تمام مسلم ممالک کے ساتھ ہمارے خصوصی تعلقات ہوں گے اور زیادہ سے زیادہ اسلامی اتحاد اور تعاون و مفاہمت کے لیے ہم کوشش کریں گے۔اقبال نے اپنے انگریزی خطبات Reconstruction of Religious Thought in Islam  میں یہ بات بڑی خوب صورتی سے کہی ہے کہ آئیڈیل اگرچہ خلافت ہے، لیکن موجودہ دور میںمسلم دنیا کی دولتِ مشترکہ (Common Wealth of Muslim Nations)  اس کا متبادل فراہم کرسکتی ہے، اور OIC (اسلامی تعاون تنظیم) اسی سوچ کا ایک نتیجہ ہے، جو بدقسمتی سے حکمرانوں کے ہاتھوں اب تک غیرمؤثر ہے۔

اسلامی تاریخ میں یہ بڑی دل چسپ بات ہے کہ جو لہر مصر تک گئی، اس میں اسلامائزیشن اور عربائزیشن ساتھ ساتھ تھے ،لیکن ایران اور اس کے ساتھ کے علاقوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ زبان اور مقامی کلچر، مقامی روایات ان سب کو باقی رکھنے کا پورا پورا اہتمام کیاگیا۔ کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ علاقائی زبانوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہو، یا ان علاقوں کے لوگوں کو ان کے حقوق نہ دیے گئے ہوں۔ خلافت ِ عثمانیہ میں کم ازکم سات وزیراعظم ایسے ہیں، جن کا تعلق بوسنیا ہرزیگووینا کے علاقے سے تھا۔ گویا احساسِ شراکت کے ساتھ ان کو خودمختاری بھی ملتی تھی اور جو والی یا گورنر بنائے جاتے تھے، وہ بالعموم وہیں سے بنائے جاتے تھے باہر سے نہیں لائے جاتے تھے۔