اپریل ۲۰۱۷

فہرست مضامین

اُمُّ المومنین حضرت سودہؓ

حافظ محمد زاہد | اپریل ۲۰۱۷ | اُمُّ المومنین حضرت سودہؓ

Responsive image Responsive image

بنی نوع انسان کے طبقۂ نسواںمیں سب سے زیادہ فضیلت کی حامل وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں جنھیں ازواجِ مطہراتؓ اور اُمہات المومنینؓ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان ازواج مطہراتؓ میں سے بھی اوّلیت اور افضلیت حضرت خدیجہؓ کو حاصل ہے، جو نبی مکرمؐ کی پہلی زوجہ اور   اس اُمت کی پہلی ’ماں‘ تھیں۔ ان کے بعد حضرت سودہ بنت زَمَعہؓ کا مقام آتا ہے جو اس اُمت کی دوسری ماں ہیں۔

اس مضمون میں حضرت سودہؓ کے مختصر سوانح حیات، خصوصی فضائل اور خدماتِ اسلام کو بیان کیاگیا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اُمت ِ مسلمہ کی تمام عورتیں اُمہات المؤمنینؓ کو اپنا آئیڈیل بنا کر ان کے طرزِ زندگی کو اپنائیں تا کہ گھریلو زندگی میں سکون اور آخرت میں سرخروہوسکیں۔

آپؓ کا نام سودہ اور باپ کا نام زَمعہ بن قیس تھا، جو قریش کے قبیلے عامر بن لُؤیّ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کی ماں کا نام سموس بنت قیس تھا، جو انصار کے خاندان بنو نجار سے تعلق رکھتی تھی۔

  •  بُت پرستی سے نفرت اور ’السابقون الاولون‘ کا اعزاز: اللہ تعالیٰ نے حضرت سودہؓ کو نہایت صالح طبیعت عطا کی تھی۔ دور ِجاہلیت میں بھی چند افراد ایسے تھے جن کو بت پرستی سے نفرت تھی، ان میں حضرت سودہؓ بھی شامل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا دعویٰ کیا اور دین حق کی تبلیغ شروع کی تو حضرت سودہؓ نے فوراً اس دعوت کو قبول کرلیا۔ اس طرح آپؓ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں قرآن نے السابقون الاوّلون  قرار دیا ہے۔

تاریخ کی کتابوں میں یہ مذکور ہے کہ حضرت سودہؓ کے اسلام قبول کرنے سے قریش مکہ کو سخت تکلیف ہوئی۔ اس لیے کہ اِس سے پہلے نو عمر (۱۲ سال سے ۲۵ سال تک کے) لوگ مشرف بہ اسلام ہو رہے تھے، جس پر کفار نے یہ پروپیگنڈا اختیار کیا کہ نوعمر لوگوں کا کسی نئی انقلابی تحریک میں شامل ہونا فطری بات ہے۔ لیکن جب حضرت سودہؓ نے اسلام قبول کیا تو اس وقت اُن کی عمر ۴۰سال کے قریب تھی۔ اس طرح کفار کا یہ پروپیگنڈا ختم ہو گیا اور قریش مکہ بہت سیخ پا ہوئے۔

  •  تبلیغِ اسلام اور ہجرتِ حبشہ: حضرت سودہؓ نے اسلام قبول کرنے کے بعد دین کی تبلیغ میں حضوؐر کا ساتھ دیا اور آپ کی تبلیغ سے آپ کے سلیم الفطرت شوہر نے بھی اسلام قبول کیا اور ان کے خاندان کے بھی کئی افراد مشرف بہ اسلام ہوئے، جن میں حضرت سکران بن عمروؓ کے بھائی اور اُن کی بیویاں قابل ذکر ہیں۔ قریش مکہ کو جب حضرت سودہؓ اور اُن کے شوہر کے قبولِ اسلام اور تبلیغ اسلام کا پتا چلا تو انھوں نے اس سلیم الفطرت جوڑے پر ظلم و ستم شروع کر دیا اور ان کو    طرح طرح سے اذیتیں دی جانے لگیں۔ جب یہ ظلم و ستم بڑھتا ہی چلا گیا تو حضرت سودہؓ اور حضرت سکرانؓ رسولؐ اللہ کے مشورے پر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے اور کئی برس وہاں رہنے کے بعد واپس مکہ آئے اور دوبارہ سے تبلیغ اسلام کے کام میں آپؐ کے شانہ بشانہ شامل ہو گئے۔
  •  خواب میں نبی کریمؐ کی زوجہ    ٔ  مطہرہ بننے کی بشارت:طبقات ابن سعد میں مذکور ہے کہ حبشہ سے واپسی پرحضرت سودہؓ کو خواب کے ذریعے نبی کریمؐ کے ساتھ نکاح کی بشارت دی گئی۔ ایک رات خواب میںآپ نے دیکھا کہ نبی کریمؐ آپ کے گھر تشریف لائے اور آپ کو گردن سے پکڑا۔ اس کی تعبیر حضرت سکرانؓ نے یہ بیان کی کہ میرے فوت ہوجانے کے بعد تم نبی کریمؐ کے نکاح میں آؤ گی۔ اس کے بعد ایک رات آپؓ نے خواب میں دیکھا کہ آپؓ تکیہ کے سہارے لیٹی ہیں کہ آسمان پھٹا اور چاند ان پر گر پڑا۔ اس خواب کی تعبیر بھی ان کے شوہر نے یہ بیان کی کہ میں بہت جلد فوت ہو جاؤں گا اور تم عرب کے چاند محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں   آئو گی۔چند دن بعد ان خوابوں نے حقیقت کا رُوپ دھارا اور حضرت سکرانؓ اچانک بیمار ہوگئے اور کچھ ہی دنوں بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح حضرت سودہؓ بیوہ ہو گئیں۔
  •  نبی کریمؐ کی طرف سے پیغامِ نکاح: حضرت سکرانؓ کی وفات ۱۰ نبوی کو ہوئی اور اسی سال حضرت خدیجہؓ اور آپؐ کے چچا ابوطالب بھی وفات پا گئے۔ آپؐ نے اس سال کو ’عام الحزن‘ یعنی غم کا سال قرار دیا۔ ایک طرف نبی اکرمؐ اس حوالے سے پریشان تھے تو دوسری طرف آپؐ کی طبیعت بن ماں کی بچیوں کو دیکھ کر افسردہ رہتی تھی۔ اس کے علاوہ مشرکین نے بھی  اس موقعے پر آپؐ پر ظلم و زیادتی کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیے۔ اس صورتِ حال میں رسول کریمؐ کی ایک جاں نثار صحابیہ حضرت خولہ بنت حکیمؓ (زوجہ عثمان بن مظعونؓ) نے ایک دن بارگاہِ نبویؐ میں حاضر ہو کر آپؐ کی دوسری شادی کی بات کی۔ یہ گفتگو ایک مکالمے کی شکل میں ہوئی:

خولہؓ:یا رسولؐ اللہ! خدیجہؓ کی وفات کے بعد میں آپؐ کو ہمیشہ غم زدہ دیکھتی ہوں۔

محمدؐ:ہاں، گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت خدیجہؓ ہی کے سپرد تھی۔

خولہؓ:آپ کو ایک رفیق و غم گسار کی ضرورت ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں آپؐ کے نکاحِ ثانی کے لیے کوشش کروں۔

محمدؐ:تمھاری نگاہ میں ایسی کون سی خاتون ہے جن کو تم ان حالات میں مناسب سمجھتی ہو؟

خولہؓ:سودہ بنت زمعہ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خولہؓ کی یہ باتیں سن کر فرمایا کہ تم ہی ان کو میرا پیغام پہنچاؤ۔ حضرت خولہؓ سیدھا حضرت سودہؓ کے پاس گئیں اور ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش بیان کی، جس پر حضرت سودہؓ نے بخوشی اپنی رضا مندی ظاہر کر دی، لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اس سلسلے میں میرے والد سے بات کرو۔ حضرت خولہؓ آپ کے والد زَمعہ کے پاس گئیں تو انھوں نے بھی بخوشی اس رشتے کو قبول کر لیا۔

  •  نکاح کی تقریب:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہؓ کے گھر گئے، وہاں حضرت سودہؓ کے والد زَمعہ نے اپنی بیٹی کا نکاح نبی کریمؐ سے چار سو درہم بحق مہر کے خود پڑھایا (تاریخ ابن کثیر میں ہے کہ ان کا نکاح حضرت ابوبکر صدیقؓ نے، جب کہ طبقات ابن سعد میں ہے کہ حضرت حاطب بن عمروؓ نے پڑھایا)۔ حضرت سودہؓ کے بھائی عبد اللہ بن زَمعہ، جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے، مکہ سے باہر تھے۔ جب وہ واپس آئے تو اس نکاح کا سن کر سخت رنجیدہ ہوئے اور اپنے سر پر خاک ڈالی۔ کچھ مدت بعد انھوں نے اسلام قبول کر لیا اور شرف ِصحابیت سے سرفراز ہوئے، لیکن انھیں ساری عمر اپنی اس نادانی کا بہت افسوس رہا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت سودہؓ کا نکاح شوا ل ۱۰ نبوی میں ہوا۔ اُس وقت آپ کی عمر ۵۰ سال تھی۔

  •  نبی اکرم ؐ کی زوجہ ثانیہ: حضرت سودہؓ یا حضرت عائشہؓ؟: تاریخ ابن کثیر میں مذکور ہے کہ جب حضرت خولہؓ نے آپؐ سے دوسری شادی کی بات کی تو آپؐ نے فرمایا: کس سے؟ خولہ نے پوچھا: دوشیزہ کا بتاؤں یا ثیّبہ، یعنی شوہر دیدہ کا؟ آپؐ نے فرمایا: دوشیزہ کون اور شوہر دیدہ کون؟ خولہؓ نے کہا: دوشیزہ عائشہؓ بنت ابی بکر اور شوہر دیدہ سودہ بنت زمعہ۔ آپؐ نے فرمایا: تم خود ہی جاؤ اور ان سے میرے نکاح کی بات کرو۔ حضرت خولہؓ حضرت سودہؓ کے پاس بھی گئیں اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ سے نبی کریمؐ کے نکاح کے لیے گئیں۔ دونوں نے ہی نبی اکرمؐ کے رشتہ کو قبول فرمایا اور دونوں ہی آپؐ کی زوجیت میں آگئیں۔ امام ابن سعد (طبقات ابن سعد)، علامہ ابن اثیر (اُسد الغابہ)، علامہ ابن حجر عسقلانی (الاصابہ) اور اکثر مؤرخین کی راے یہ ہے کہ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد حضرت سودہؓ نبی کریمؐ کے نکاح میں آئیں اور ان کے بعد حضرت عائشہؓ، جب کہ امام ابن کثیر اور بعض مؤرخین کی راے اس کے برعکس ہے۔ البتہ اس میں تو سب کا اتفاق ہے کہ نبی کریمؐ اور حضرت سودہؓ کا ازدواجی تعلق مکہ میں ۱۰نبوی میںقائم ہوا، جب کہ حضرت عائشہؓ کی رخصتی ہجرت کے بعد ہوئی اور ازدواجی تعلق مدینہ میں قائم ہوا۔ ازدواجی تعلق کی اس ترتیب کا لحاظ کرتے ہوئے حضرت سودہؓ کو زوجہ ثانیہ قرار دیا جاسکتا ہے۔
  •  خدمت گزار بیوی اور مثالی ماں:حضرت سودہؓ کا نکاح جب نبی کریمؐ سے ہوا تو اُس وقت آپؐ کی بیٹیاں کم عمر تھیں۔ حضرت سودہؓ نے ان کی پرورش بہت اعلیٰ انداز میں کی اور انھیں حقیقی ماں کی طرح پیار بھی دیا اور شفقت بھی۔ اس طرح نبی کریمؐ کی طبیعت جو بن ماں کے بچیوں کو دیکھ کر افسردہ رہتی تھی، وہ افسردگی ختم ہو گئی۔ پھر حضرت سودہؓ نے ان بچیوں کی شادیوں کا اہتمام بھی بڑے احسن طریقے سے کیا۔

اس کے ساتھ آپؓ نے نبی کریمؐ کا بھی ہر طرح سے نہ صرف خیال رکھا بلکہ ان مشکل حالات میں جب مکہ میں ہر طرف نبی کریمؐ کی مخالفت ہو رہی تھی، آپؐ کا ہمیشہ حوصلہ بڑھایا اور آپؐ کی خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمؐ گھر کی طرف سے بے فکر ہو کر ہمہ وقت اسلام کی تبلیغ میں لگ گئے۔ حضرت سودہؓ نے دعوت و تبلیغ دین میں بھی آپؐ کا ساتھ دیا۔

  •  ہجرت مدینہ اور کاشانہ   ٔ   نبوت کی تعمیر: نبوت کے تیرھویں سال اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کرگئے اور اپنی بیٹیوں کو حضرت سودہؓ کے حوالے کرگئے۔ آپؐ نے اس موقعے پر بھی بڑی بہادری اور خوش اسلوبی سے یہ ذمے داری پوری کی اور تقریباً سات ماہ آپؓ نے اکیلے ہی مکہ میں گزارے۔ جب مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ کی تعمیر مکمل ہوئی تو آپؐ نے مسجد کے ساتھ ہی حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ کے حجرے بنوائے۔ پھر آپؐ نے حضرت سودہؓ اور اپنی بیٹیوں کو مدینہ بلا لیا۔

حضرت سودہؓ کا حجرہ صرف ایک مکا ن نہیں تھا بلکہ کاشانۂ نبوتؐ کا درجہ رکھتا تھا، جہاں  نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی رہایش تھی اور یہیں سے تمام احکامات جاری ہوتے تھے۔

  •  معاشی تنگ دستی میں بھی شکر کے جذبات:نبی اکرمؐ نبوت سے پہلے تو تجارت کیا کرتے تھے، لیکن جب آپؐ کو نبوت ملی تو اس کے بعد آپؐ کی کسی تجارت کا ذکر تاریخ میں نہیں ملتا۔ آپؐ ہمہ وقت دین کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہتے تھے، اس لیے معاش کا کوئی انتظام نہ تھا۔ اس طرح گھر کی معاشی حالت کبھی فاقوں تک بھی پہنچ جاتی تھی۔ اس حوالے سے حضرت ابوہریرہؓ کا ایک قول ملاحظہ ہو:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے مسلسل تین دن بھی آسودہ ہو کر کھانا نہیں کھایا، یہاں تک آپؐ کی وفات ہو گئی‘‘___ (بخاری)

اس معاشی حالت کے باوجود حضرت سودہؓ کے ماتھے پرکبھی کوئی شکن نہیں آئی اور نہ کبھی آپؓ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حوالے سے کوئی شکایت کی، بلکہ آپ تو ان حالات میں نبی اکرمؐ کو دلاسہ دیا کرتی تھیں۔ حضرت سودہؓ کا یہ رویہ آپؐ اور کاشانۂ نبوت کے لیے سکون کا ذریعہ ثابت ہوا۔ اگر آج کی عورتیں بھی حضرت سودہؓ کا یہ رویہ اپنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کے گھروں میں بھی سکون اورراحت میسر آجائے اور اُن کے شوہروں کے دلوں میں اُن کے لیے محبت اور تعظیم کے جذبات پیدا ہوں۔

  •  نبی آخر الزماںؐ کی مسکراہٹ کا ذریعہ: حضرت سودہؓ کے مزاج میں تیزی کے ساتھ ظرافت بھی تھی، جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے تھے۔ حضرت سودہؓ کبھی کبھی جان بوجھ کر بے ڈھنگے پن سے چلتی تھیں کہ حضوؐر دیکھتے تو بے ساختہ مسکرا دیتے۔ ایک رات نبی کریمؐ نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت سودہؓ بھی آکر ساتھ کھڑی ہو گئیں۔ نبی کریمؐ نے طویل رکوع کیا۔  صبح ہوئی تو حضرت سودہؓ نے نبی کریمؐ سے عرض کیا کہ گذشتہ شب میں نے آپؐ کے پیچھے نماز پڑھی اور آپؐ نے اتنا لمبا رکوع کیا کہ میں نے اپنی نکسیر پھوٹنے کے اندیشے سے اپنی ناک پکڑ لی۔   نبی کریمؐ آپؓ کے اس اندازِ بیان پر مسکرا دیے۔ اس طرح حضرت سودہؓ اپنی باتوں اور حرکات سے نبی کریمؐ کی مسکراہٹ کا ذریعہ بنتی تھیں۔
  •  سخاوت و فیاضی جیسی صفات کی مالکہ:حضرت سودہؓ نہایت اعلیٰ اخلاق کی مالکہ، رحم دل اور سخی تھیں۔ جو کچھ ان کے ہاتھ آتا وہ سب حاجت مندوں میں تقسیم کر دیتی تھیں۔ حضرت سودہؓ دستکار تھیں اور اس سے جو آمدنی ہوتی تھی اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتی تھیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک دفعہ ان کی خدمت میں درہموں کی ایک تھیلی ہدیتاً بھیجی۔ انھوں نے پوچھا: اس تھیلی میں کیا ہے؟ بتایاگیا: ’درہم‘ تو جواب دیا: ’’کیا درہم بھی کھجوروں کی طرح تھیلی میں؟‘‘ اوریہ کہہ کر تمام درہم ضرورت مندوں میں اس طرح بانٹ دیے جس طرح کھجوریں تقسیم کی جاتی ہیں۔
  •  حضورؐ کی خدمت گزاری کا منفرد  اعزاز:حضرت سیّدہ خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپؓ ۱۰نبوی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ بنیں اور ۲ ہجری، یعنی چار سال بعد حضرت عائشہؓ کی رخصتی ہوئی۔ اس طرح آپ چار سال تک تنہا نبی کریمؐ کے ساتھ رہیں اور آپ کی خدمت گزاری میں کوئی کسر نہ آنے دی۔ یہ ایسا اعزاز ہے جو حضرت سیّدہ خدیجہؓ کے بعد انھیں حاصل ہوا۔ ان دو اَزواج کے علاوہ کسی کو اس طرح کا کوئی اعزاز حاصل نہیں ہے۔
  •  اَزواج مطہرات کے ساتھ مشفقانہ سلوک:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور باقی ازواج کی شادیاں حضرت سودہؓ کی موجودگی میں ہوئیں۔ آپ نے باقی ازواج سے ایسا مشفقانہ رویہ رکھا جس کی مثال آج کے دور میں ملنا تقریباً ناممکن ہے۔

حضرت سودہؓ کے پاکیزہ اخلاق، رفعت ِکردار اور اُن کے باقی ازواج کے ساتھ مشفقانہ رویوں کا اندازہ اس بات سے آسانی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: ’’مجھے سودہ بنت زمعہ سے زیادہ عزیز کوئی عورت نہ تھی اور میری یہ تمنا تھی کہ کاش!  ان کے جسم میں میری روح ہوتی‘‘۔( مسلم)

جس عورت پر اس کی سوتن (اور وہ بھی حضرت عائشہ صدیقہؓ جیسی) کو رشک آئے تو آپ اس پاکیزہ خاتون کی فضیلت کا کیا اندازہ لگا سکتے ہیں۔

  •  رضاے نبویؐ کے لیے اپنی باری حضرت عائشہؓ کو دے دی:حضرت سودہؓ ایک طرف تو نبی کریمؐ کو اپنی باتوں او ر مختلف قسم کی حرکات سے خوش کرتی تھیں تو دوسری طرف آپ نے اپنی باری بھی حضرت عائشہؓ کو دے دی تھی، جس کا واحد مقصد نبی کریمؐ کی رضا اور خوشی کا حصول تھا۔ حضرت سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں:’’رسولؐ اللہ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواجِ مطہراتؓ کے درمیان قرعہ ڈالتے اور جس کا نام قرعہ میں نکلتا، اُسے سفر میں ساتھ لے کر جاتے۔ آپؐ نے اپنی ازواج کے درمیان ایک دن رات کی باری مقرر کی تھی ماسوائے اس کے کہ سودہ بنت زمعہ نے اپنی باری مجھے دے دی تھی اور اس کا مقصد نبی کریمؐ کی رضا مندی تھی‘‘۔( بخاری)
  •  حضرت سودہؓ اور حجاب کا حکم:حجاب کے حکم کے نزول سے قبل حضرت سودہؓ قضاے حاجت وغیرہ کے لیے باہر تشریف لے جاتی تھیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کا خیال تھا کہ ازواجِ مطہرات کو باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ اس حوالے سے انھوں نے ایک مرتبہ نبی کریمؐ سے عرض بھی کیا لیکن آپؐ خاموش رہے۔ ایک دن حضرت سودہؓ قضاے حاجت کے لیے جنگل کی طرف جا رہی تھیں کہ راستے میں حضرت عمرؓ مل گئے۔ حضرت سودہؓ چونکہ دراز قد تھیں، اس لیے حضرت عمرؓ نے انھیں پہچان لیا اور کہا: ’’سودہ میں نے تم کو پہچان لیا ہے‘‘۔ حضرت سودہؓ کو حضرت عمرؓ کا یہ جملہ ناگوار گزرا اور انھوں نے رسول کریمؐ سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ بخاری میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد آیت حجاب نازل ہوئی اور تمام خواتین کے لیے پردہ کو لازم کر دیا گیا:

یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَ زْوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَــیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَــلَا یُـؤْذَیْنَ ط وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo (الاحزاب۳۳:۵۹) اے نبیؐ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اُوپر اپنی چادروں کے پلّو لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں، اللہ تعالیٰ غفور الرحیم ہے۔

  •  حج بیت اللہ کے موقع پر ایک منفرد اعزاز: ۱۰ ہجری میں جب تمام ازواجِ مطہراتؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج پر گئیں، اس موقعے پر بھی حضرت سودہؓ کو ایک اعزاز حاصل ہوا، جس کے بارے میں حضرت عائشہؓ فرمایا کرتی تھیں کہ کاش! مجھے بھی وہ اعزاز ملتا۔

اس بارے میں حضرت عائشہؓ ہی کی ایک روایت ملاحظہ ہو:’’حضرت سیّدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت سودہؓ نے مزدلفہ کی رات رسولؐ اللہ سے اجازت مانگی کہ وہ آپؐ سے پہلے منیٰ چلی جائیں اور لوگوں کے ہجوم سے پہلے نکل جائیں کیوںکہ  وہ بھاری بدن کی عورت تھیں۔ آپؐ نے حضرت سودہؓ کو اجازت دے دی اور وہ آپؐ سے پہلے نکل گئیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ  اگر میں بھی رسولؐ اللہ سے اجازت لے لیتی جیسے حضرت سودہؓ نے اجازت لی تھی تو آپؐ کی اجازت سے جانا مجھے اُس چیزسے زیادہ پسند تھا، جس سے میں خوش ہورہی تھی‘‘۔( مسلم)

  •  بیٹے کی شہادت:  تمام ازواجِ مطہراتؓ میں یہ واحد بلند ہمت خاتون ہیں جن کی زندگی میں ان کے بیٹے نے جامِ شہادت نوش کیا۔ نبی کریمؐ سے تو اِن کی کوئی اولاد نہیں ہوئی، جب کہ ان کے سابق شوہر حضرت سکرانؓ سے ان کا ایک بیٹا عبد الرحمٰنؓ تھا، جس کی پرورش اور تربیت بھی نبی اکرمؐ نے کی تھی۔ انھوںنے خلافت فاروقی میں ۱۶ھ میں جنگِ جَلُولاء میں جامِ شہادت نوش کیا۔ یہ بھی حضرت سودہؓ کا ایک منفرد اعزاز ہے جو ان کے علاوہ کسی اور زوجہ کو حاصل نہیں۔
  •  مروی روایات:  حضرت سودہؓ سے پانچ احادیث مروی ہیں۔ ان میں سے ایک بخاری میں اور چار احادیث کی باقی کتابوں میں ہیں۔
  •  وفات: حضرت سودہؓ کی وفات کے بارے میں امام بخاریؒ کہتے ہیں کہ آپؓ کی وفات ۲۲ہجری میں، حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت میں ہوئی۔ روایات میں آتا ہے کہ آخری وقت میں انھوں نے اپنا حجرہ بھی حضرت عائشہؓ کو ہبہ کر دیا تھا۔