’اسلامی تہذیب کے چودہ اصول‘ (مارچ ۲۰۱۷ء) معنویت اور سادہ بیانی کا بہترین نمونہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سیّدابوالاعلیٰ مودودی کو اَجرِعظیم عطا فرمائے۔
حبیب الرحمٰن چترالی کی تحریر ’پاکستانی قومی بیانیے کی تشکیل‘ (مارچ ۲۰۱۷ء) ایک عمدہ ہے۔ مولانا مودودی کے بیان کردہ ’اسلامی تہذیب کے چودہ اصول‘ بہترین بحث ہے، مگر بدقسمتی سے اس حوالے سے ترجیحی بنیادوں پر کوئی کام نہیں ہورہا۔ لہٰذا، یہ لگتا ہے کہ اتنی قیمتی تحریر بھی بس شائع ہوکر رہ جائے گی۔
’اُمت کے فیصلے ، اُمت کے مشورے سے‘ (فروری، مارچ ۲۰۱۷ء) بہترین مضمون ہے۔ خدا کرے کہ قارئین ترجمان اس کے مطالعے سے محروم نہ رہیں۔ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص (الشوریٰ ۴۲:۳۸) کی یہ تشریح کہ: ’’قرآن نے اسے الگ حق سے زیادہ ایک فرض قرار دیا ہے‘‘ دل کو بہت بھلی لگتی ہے۔ اللہ ہمیں اپنی بساط کے مطابق گھروں سے لے کر اداروں تک شورائیت کا نظام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
فروری ۲۰۱۷ء کے شمارے کا ہر مضمون اپنی اپنی جگہ اہم اور معلومات لیے ہوئے ہے۔ صائمہ اسما نے ’تحریکی خواتین :کام کی راہیں‘ میں بہت ہی کم الفاظ میں بڑے مؤثر طریقے سے نہ صرف حلقۂ خواتین کی تاریخ بیان کی ہے، بلکہ ماضی میں کیے گئے کام کی تفصیل، موجودہ دور میں اس کام میں پیش آنے والی مشکلات اور کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہوئے ان کا حل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ صورت حال صرف خواتین کے کام کی نہیں بلکہ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک تحریک سے متعلق کئی حلقے بھی انھی پریشانیوں میں مبتلا ہیں۔
ان کی یہ بات بہت اہم ہے کہ گذشتہ ۲۰برسوں میں معاشرے کا فکری اور سماجی توازن بڑی تیزی سے تبدیل ہوا ہے، جس کا ادراک کرنا بھی مشکل ہے۔ صاف دکھائی دےر ہا ہے کہ نئے مؤثر تعلیم یافتہ طبقات میں دینی حلقوں کا اثرورسوخ محدود تر ہوتا جارہا ہے۔سماجی سطحوں پر دعوت کے دائرے میں زیادہ وسعت نہ آنے کے باعث، حال اس انجن کا ہے جس کی ساری توانائی اپنی ہی مشینری کو رواں رکھنے میں صرف ہورہی ہوتی ہے۔
پروفیسر خورشید احمد صاحب نے۲۰ سال قبل ہمارے حلقے کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے مستقبل میں کام کے لیے پروفیشنلزم اور جدید ترین مہارتوں کے حصول کی نشان دہی کی تھی۔اگر ہمیں ا س صورت حال سے نکلنا ہے تو ان کی نصیحت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اپنے دعوتی ،تنظیمی اور تربیتی پروگراموں کو پروفیشنل انداز سے ترتیب دینا اور اپنے کام کو جدید تقاضوں کے مطابق استوار کرنا ہوگا۔ ہرسطح پر قیادت کی جدید خطوط پر تربیت ضروری ہے۔ کیوںکہ جب تک قیادت ذہنی طور پر اس کے لیے تیار نہیں ہوگی ارکان کی تربیت ممکن نہیں ہوگی۔
’’لَا تَحْزَنْ،غم نہ کر‘‘(فروری ۲۰۱۷ء) میں عرب دنیا میں مسلمانوں بالخصوص اخوان المسلمون کے تعذیب کے حالات ایک دُکھ اور درد دینے والی داستان ہے۔ صحیح نشان دہی کی گئی ہے کہ دشمن تو ہمارا دشمن ہے اس سے ہم کیوں گلہ کریں، مسلمانوں کے حکمران کیوں ان کے آلۂ کار بنتے ہیں اور پھر عوام کیوں اس پر خاموش ہیں۔ جملہ مسلم ممالک کا رویّہ بھی اُمت مسلمہ کے لیے قابلِ تعریف نہیں ہے۔ رینڈ کارپوریشن کی سفارشات کہ ’’سیاسی اسلام کا خاتمہ دُنیا کی ترجیح اوّل ہونا چاہیے‘‘ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے بعض سادہ لوح دین دار طبقے بھی اس حوالے سے غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
’سیرتِ رسولؐ اور حُسنِ اعتدال‘ (جنوری ۲۰۱۷ء) بہت ہی دل چسپ مضمون ہے۔ قرآنِ مجید نے اعتدال کو نہ صرف پسند کیا ہے بلکہ کافروں کے باطل خدائوں، یعنی بتوں کو گالیاں دینے سے بھی منع کیا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ راہِ اعتدال سے ہٹ کر اور ضد میں آکر مسلمانوں کے سچے واحد خدا کو ہی بُرا بھلا نہ کہنا شروع کردیں: ’’اور(اے مسلمانو) یہ لوگ اللہ کے سواجن کو پکارتے ہیں انھیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں‘‘۔(الانعام ۶:۱۰۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علم و عمل اور عبادت و ریاضت کے ہرشعبے میں ہمیشہ اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ صحابہ کرامؓ نے بھی نبی اقدس ؐ کے اعمال و افعال اور اقوال و گفتار کی اِتباع کر کے اعتدال کو اپنی زندگی کا عملی سرمایہ بناکر دائمی سرخروئی حاصل کی ہے۔ فقہاے کرام نے دلیل کی بنیاد پر باہم اختلاف کے باوجود اعتدال کی اخلاقی صفت کو کبھی نظرانداز نہیں کیا، بلکہ ہرممکن حدتک اس پر عمل کیا ہے۔ صالحین و عابدین نے بھی علمی و عملی اور معاشی و معاشرتی زندگی میں میانہ روی، اخلاقی اقدار، رواداری، برداشت اور اعتدال کے راستے پر عمل کیا ہے، جو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ جملہ شعبہ ہاے زندگی میں ہرشخص کے لیے اس پر عمل کرنے میں ہی عافیت اور سلامتی ہے۔