ڈاکٹر محمد حمید اللہؒ (۱۹۰۸ء-۲۰۰۲ء) اسلام کے بطلِ جلیل، جنھوں نے اپنی ساری زندگی، توانائی اور صلاحیتیں دین و علم کی اشاعت اور خدمت کے لیے وقف کردی۔ تحصیل علم کے بعد قلم و قرطاس سے جو رشتہ و تعلق قائم ہوا وہ تادمِ آخر برقرار رہا۔ انھوں نے بلامبالغہ اس قدر لکھا اور پڑھا کہ اس کا احاطہ آسانی سے ممکن نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے زندگی کے آخری برسوں میں دیارِ مغرب خصوصاً فرانس کے غیر مسلموں کے تاریک سینوں کو دینِ اسلام کے نور سے منور کرنے اور انھیں مشرف بہ اسلام کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کی دینی، علمی اور تحقیقی سرگرمیوں اور دل چسپیوں کا میدان وسیع اور متنوع تھا۔ انھوں نے قرآن، علم القرآن، حدیث، فقہ، سیرت رسولؐ اور اسلامی تاریخ و قانون پر گراںقدر علمی سرمایہ چھوڑا ہے۔ اہل علم و دانش میں سے کسی کے نزدیک وہ ایک بلند پایہ سیرت نگار تھے تو کسی کے نزدیک ماہر قانونِ اسلام وفقہ، اور کوئی ڈاکٹر صاحب کے کثرتِ مطالعہ اور قوتِ مشاہدہ کا معترف ہے تو کوئی ان کی تحقیقی و تخلیقی صلاحیت کا قدر دان۔ڈاکٹر صاحب کی ۹۵ سالہ طویل زندگی اور کثیرالجہت سیرت و شخصیت اور کمالات و افادات کا جائزہ و احاطہ ایک نشست میں ممکن نہیں، تاہم ان کے انتقال کے بعد اُردو میں ان کی جو تالیفات و تصنیفات سامنے آئی ہیں، اس مضمون میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد اقوام عالم میں قانونِ بین الممالک کی اہمیت کا شدت سے احساس پیدا ہوا۔ چنانچہ اقوام متحدہ کے قیام کے ساتھ ہی ایک منشور ترتیب دیا گیا، جس میں باہمی تعلقات کی استواری اور دوسرے مسائل اور نزاعات کے حل کے لیے قوانین وضع کیے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے اقوام متحدہ کے اس منشور کو بھی اردو میں منتقل کیا۔ (ڈاکٹر حمید اللہ، خطبات بہاو ل پور، ص ۱۱۵)
علامہ ابنِ القیم کی کتاب احکام اہل الذمہ ڈاکٹر صجی الصالح کی تحقیق سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے اس پر جو پُرمغز مقدمہ لکھا، وہ بھی اُن کے قانون بین الاقوامی کے شعور کا غماز ہے۔ اس میں انھوں نے اسلام کے ملکی اور بین الاقوامی قوانین، غیر مسلم حکومتوں سے تعلقات اور ’اہل ذمہ‘ کے حقوق و معاملات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس موضوع پر قدما میں امام سرخسی کی شرح الکبیر معرکہ آرا کتاب ہے۔ دراصل اس میں صلح و جنگ کے طریقے، غیر مسلم اقوام سے تعلقات اور تجارت وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ اسلام کے بین الاقوامی قانون کو جاننے کے لیے یہ کتاب بہت اہم ہے۔ امام سرخسی کے زمانے میں، جب کہ صلیبی جنگیں لڑی جارہی تھیں، بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قوانین یقینا زیر بحث رہے ہوں گے۔ اس وقت کے اہم تقاضے کو امام سرخسی نے اس طرح پورا کیا کہ امام محمد کی کتاب کتاب السیر کی شرح لکھوائی۔یہ شرح جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے حیدر آباد دکن اور مصر سے کئی بار شائع ہوچکی ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر یونیسکو (UNESCO) نے اسے فرانسیسی زبان میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چنانچہ یہ کام بھی ڈاکٹر صاحب کے قلم سے پایۂ تکمیل کو پہنچا۔{ FR 644 } تاہم یہ کتاب بہ زبان فرانسیسی ابھی تک شائع نہیں ہوسکی۔
اسی حوالے سے ڈاکٹر حمید اللہ کی دو حصوں پر مشتمل ایک اور اہم تصنیف الوثائق السیاسیۃ فی العھد النبوی و الخلافۃ الراشدہ ہے۔ اس کتاب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوبات اور ان کے دریافت جوابات، فرامین، معاہدے، دعوت اسلامی، عمّال کا تقرر، اراضی کے عطیات، آمان نامے، وصیت نامے وغیرہ شامل ہیں۔ دوسرے حصے میں عہدِخلافتِ راشدہ کی دستاویزات کو یک جا کیا گیا ہے۔ (خطبات بہاولپور، ص ۱۱۸)
اس موضوع پر ڈاکٹر حمید اللہ کی ایک اور اہم کتاب The Muslim Conduct of State ہے۔ اس میں قانون بین الممالک کی غرض، اساس اور اس کے ماخذ سے بحث کی گئی ہے اور ماقبل اسلام قانون بین الممالک کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ موضوع کے دوسرے گوشوں، مثلاً آزادی، اختیارات، سفارت، جنگ، بغاوت، ڈاکا زنی، جنگی قیدیوں اور دشمنوں کے ساتھ سلوک، فوج میں مسلم خواتین وغیرہ جیسے موضوعات پر ڈاکٹر صاحب نے نہایت عمدہ بحث و تحقیق پیش کی ہے۔ اس کے بارے میں مولانا ابو الجلال ندوی رقم طراز ہیں:’’مسلمانوں کے بین الاقوامی آئین پر یہ پہلی کتاب ہے جو اس زمانے کی ضرورتوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ تنگ اور محدود نسلی اور جغرافیائی قومیت کی پیدا کر دہ عالم گیر کش مکش کی وجہ سے اب دنیا کا رجحان بین الاقوامیت کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہ وسعت صرف اسلام ہی میں مل سکتی ہے، اس لیے اسلام کے بین الاقوامی قوانین کو پیش کرنا ایک بڑی خدمت ہے‘‘۔
اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب کے اب تک بارہ ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ ترکی زبان میں اس کا ترجمہ بھی ہوا۔ یہ کتاب، پاکستان، بھارت اور ترکی کے علاوہ جرمنی سے بھی شائع ہوئی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کے ہر ایڈیشن میں اضافے اور نظرثانی کرکے اُسے پہلے سے بہتر بناتے رہے۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک اور کتاب First Written Constitution in the World ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ’میثاق مدینہ‘ پر سیرحاصل بحث کرتے ہوئے اُسے ’پہلا عالمی دستور‘ قرار دیا گیا ہے اور مدلل انداز میں ثابت کیا ہے کہ یہ پہلا کثیر قومی و نسلی اور مذہبی وفاق تھا۔ اس سلسلے کی ایک اور انگریزی کتاب The Prophet Establishing (پاکستان ہجرہ کونسل، اسلام آباد، ۱۹۸۸ء)بھی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی بعض کتابیں بظاہر سیرت پر ہیں، مثلاً رسولِ اکرمؐ کی سیاسی زندگی، عہدنبویؐ کے میدان جنگ، اور عہدنبویؐ میں نظامِ حکمرانی وغیرہ، مگر ان میں بھی قانون بین الممالک کے مختلف پہلوئوں پر بحث کی گئی ہے۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا انداز محققانہ اور مدلل ہے۔ ان کی تمام تحریریں اس کا ثبوت ہیں۔ خاص طور پر قانون بین الممالک کے میدان میں ان کا کام اپنے ہم عصر مفکرین میں نہایت منفرد ہے۔ انھوں نے قدیم نظریۂ سیر میں اضافے کیے ہیں اور اسلامی قانون بین الممالک کے ارتقا اور اس کی تشکیل نو میں ان کا کردار بڑا کلیدی ہے۔ اس کی تصدیق ان کی تحریروں اور خطبات سے ہوتی ہے، جنھیں درج ذیل نکات کی صورت میں سمیٹا جاسکتاہے:
اُردو میں انٹر نیشنل لا ( International Law) کا ترجمہ ’بین الاقوامی قانون‘ کیا جاتا ہے، مگر ڈاکٹر حمیداللہ نے اس کے لیے عموماً ’قانون بین الممالک‘ کی ترکیب استعمال کی ہے۔ وہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ قانون اصل میں سلطنتوں یا حکومتوں کے آپس کے تعلقات سے متعلق ہوتا ہے۔ حالت جنگ میںبھی اور حالت امن میں بھی سلطنت کے باشندوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یعنی دو قوموں کے تعلقات سے اس میں بحث نہیں ہوتی بلکہ مملکتوں کے معاملات و مفادات سے بحث ہوتی ہے، لہٰذا ’قانون بین الممالک‘ کا لفظ زیادہ موزوں ہے۔{ FR 645 } ابتدا میں International law کی جگہ ڈاکٹر حمید اللہ اسے Inter State کہتے اور لکھتے تھے۔
قانون بین الممالک (یعنی علم السیر) ایک ایسا علم ہے، جو مسلمانوں کا رہین منت ہے اور مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اسے علم کے طور پر متعارف کیا، مگر مغربی اہل قلم اور دانش ور کہتے ہیں کہ جدید بین الاقوامی قانون مغربی مفکرین کی کاوشوں کا مر ہونِ منت ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جدید بین الاقوامی قانون کی داغ بیل سترھویں صدی کے ایک مفکر گروشش (۹۹۱ھ تا ۱۰۵۵ھ/ ۱۵۸۳ء تا ۱۶۴۵ء) نے ڈالی۔ ڈاکٹر صاحب نے مغرب کے اس دعوے کو رد کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ بین الاقوامی قانون اپنی عالم گیر اور آفاقی صورت میں صرف مسلمانوں کا مرہونِ منت ہے۔ اس نوع کا قانون بین الممالک سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی وضع کیا۔ یہ قانون بلا تفریق رنگ و نسل، تمام اقوام کے لیے یکساں ہے۔ یہ شریعت کا حصہ ہے اور ہر اسلامی مملکت اور ہرمسلمان حکمران کے لیے واجب الاتباع ہے۔
بعض مغربی اسکالر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ علم پہلے یونانیوں نے متعارف کرایا، لیکن ڈاکٹر حمید اللہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ بعض مغربی مصنفین ہی کے بیانات سے اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔ ان مغربی مصنفین کے بیان کے مطابق یونان کی شہری ریاستوں میں اگر باہمی تعلقات کے حوالے سے کچھ معین قاعدے تھے تو وہ صرف اپنے ہم نسل یونانیوں کے ساتھ برتائو سے متعلق تھے۔ گویا ایک یونانی شہری ریاست دوسری یونانی شہری ریاست کے ساتھ تعلقات میں معین قواعدپر عمل کرتی، دیگر باقی ساری دنیا کو وحشی قرار دے کر انھیں اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے ساتھ کسی معینہ قاعدے قانون کے تحت معاملات کریں۔ یونان کا سب سے بڑا فلسفی ارسطو غیریونانیوں کے بارے میں یہ فیصلہ دیتا ہے کہ ’’فطرت نے انھیں یونانیوں کا غلام بننے کے لیے پیدا کیا ہے اور ان کے متعلق یونانی اپنی صواب دید پر جوچاہے عمل کرسکتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر حمید اللہ بعض یورپی مصنّفین کے اس دعوے کو بھی مسترد کرتے ہیں کہ: ’’یہ بین الاقوامی قانون (International Law) رومیوں کے ہاں ملتا ہے‘‘۔ ان کاکہنا ہے کہ رومیوں کے ہاں جنگ و امن کے حوالے سے کچھ قوانین ضرور تھے لیکن یہ قوانین ساری دنیا کے لیے نہیں تھے۔ صرف ان ممالک کے لیے تھے جن کے ساتھ رومیوں کے معاہدے ہوتے تھے۔ اس موقعے پر ڈاکٹر حمید اللہ مشہور انگریز مؤرخ اوپن ہائم (جس نے انٹرنیشنل لا پر ضخیم کتاب تحریر کی)کے حوالے سے کہتے ہیں کہ رومیوں کا دعویٰ تھا کہ: ’’یہ کرۂ ارض رومیوں کا ہے‘‘۔ یعنی پوری دنیا رومیوں کی ملکیت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ کوئی اپنے گھر کے اندر قانون بین الممالک کا استعمال نہیں کرتا۔ (مجید قدوری Islamic Law of Nation ،بالٹی مور، ۱۹۴۴ء، ص۷)
اس کے بعد یکایک ہزار سال کی جست لگا کر یورپی مؤرخین کہتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون چودھویں، پندرھویں صدی میں شروع ہوتا ہے۔ اس دوران گزرنے والے اسلامی دور کا، مغربی مؤرخین کچھ تذکرہ نہیں کرتے۔ بہرحال مغربی مؤرخین جسے، ’جدید بین الاقوامی قانون‘ (Modern International Law ) کہتے ہیں، ڈاکٹر حمید اللہ اس کو بھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ۱۲۷۲ھ؍۱۸۵۲ء میں پہلی مرتبہ مجبوراً یورپی عیسائی سلطنتوں نے اعتراف کیا کہ ان قوانین کا اطلاق ایک غیر عیسائی سلطنت (یعنی سلطنت عثمانیہ) کے ساتھ بھی ہوگا۔ تاہم، اس کے بعد پھر ۶۰،۷۰ سال تک کسی غیر عیسائی ریاست کو ان قوانین کا حق دار نہیں سمجھا گیا۔{ FR 649 }
ڈاکٹر حمید اللہ لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل لا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کیوں کہ اقوام متحدہ میں بھی ہر ملک کو اپنی ذاتی حیثیت سے رکن نہیں بنایا جاتا جب تک کہ کم از کم دوایسی سلطنتیں جو پہلے سے اقوام متحدہ کی ممبر ہوں، سفارش نہ کریں، اور یہ اطمینان نہ دلائیں کہ یہ واقعی متمدن سلطنتیں ہیں اور اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کے ساتھ انٹرنیشنل لا کے مطابق عمل کیا جائے۔ اس کے برعکس اسلامی انٹرنیشنل لا میں اس فرق اور امتیاز کی کوئی گنجایش نہیں کہ کوئی دوسرا ملک مسلمانوں کے معیار کے قواعد و ضوابط پر عمل کرتا ہے یا نہیں۔(ڈاکٹر حمید اللہ The Muslim Conduct of State ،ص ۱۶)
ڈاکٹر حمید اللہ کے نزدیک قانون بین الممالک جو حقیقت میں قانون بھی ہے اور بین الممالک بھی ہے ،مسلمانوں سے شروع ہوتا ہے اور اس کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہوتا ہے۔ ہجرت سے قبل مکہ میں ’ریاست در ریاست‘ کی کیفیت اور ازاں بعد مدینہ میں جب ایک اسلامی ریاست کی داغ بیل ڈالی گئی تو دیگر ممالک اور خود مختار اکائیوں سے ان کے تعلقات، امن و جنگ کا آغاز ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل مسلمانوں کے لیے نظیر بنتا گیا۔ گویا رسولؐ اللہ کی سیرت اور بعد ازاں ان کے خلفاؓ کے طریق کار میں وہ تمام اصول وضع ہوگئے جن پر آگے چل کر فقہا اضافہ کرتے رہے اور ایک واقعی ہمہ گیر نوعیت کا انٹرنیشنل لا وجود میں آیا جس کو ’علم السیر‘ کا نام دیا گیا۔
اسلامی قانون بین الممالک تمام حکومتوں (خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم) کے لیے ہے۔ اس میں مذہب، علاقہ، نسل وغیرہ کی بنیاد پر کسی قوم کے ساتھ کوئی امتیاز رو انھیں رکھا گیا ہے۔ ’اسلامی قانون بین الممالک‘، اسلامی شریعت کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ غیر مسلم اقوام کے ساتھ بھی معاہدات کی پابندی اسی طرح واجب ہے، جس طرح دیگر احکام۔ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں اسلامی قانون بین الممالک کا مقصد غیر مسلم قوموں کے ساتھ عدل و انصاف پر مبنی تعلقات استوار کرنا ہے۔ یہ قانون اپنے پیچھے ایک مضبوط اور مؤثر قوتِ نافذہ رکھتا ہے۔ اس کی قوت نافذہ جہاں ریاست کی قوتِ قاہرہ اور اس کا قانونی نظام ہے، وہیں اس میں اللہ کے سامنے جواب دہی جیسے مفاہیم بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مسلمانوں کے ’علم السیر‘ کے ارتقا کی تاریخ بتاتے ہوئے اطلاع دیتے ہیں کہ قدیم ترین تحریر امام زید ابن علی (م: ۱۲۰ھ/۷۳۸ء) کی کتاب المجموع فی الفقہ کا ایک باب ہے، جس کو کتاب السیر کا نام دیا گیا ہے۔{ FR 650 } پھر ’علم السیر‘ پر پہلی کتاب امام ابوحنیفہ (م:۱۵۰ھ/۷۲۷ء) کی تھی، جس کے بعض نکات سے ان کے ہم عصر امام اوزاعیؒ نے اختلاف کیا اوراس کے خلاف ایک رسالہ لکھا۔ تاہم، یہ دونوں کتابیں (امام ابوحنیفہؒ کی کتاب اور امام اوزاعیؒ کا رسالہ) ضائع ہوگئیں۔ امام ابو حنیفہؒ کے ایک اور اہم شاگرد امام ابو یوسف (م:۱۸۳ھ/۷۶۹ء) نے امام اوزاعیؒ کے نکات کو رد کرتے ہوئے الرد علی سیر الاوزاعی کتاب لکھی۔ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس سے امام ابو حنیفہؒ اور امام اوزاعیؒ کے اختلافی نکات وغیرہ سامنے آتے ہیں۔ امام شافعیؒ کی کتاب الام میں بھی امام اوزاعی کے رسالے کے کچھ اقتباسات ملتے ہیں۔
امام ابو حنیفہ کے تین اور شاگردوں نے علم السیر کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ ان میں امام محمد الشیبانیؒ، امام زفرؒ اور فزاریؒ کے نام شامل ہیں۔ اول الذکرنے اس موضوع پر دو کتابیں لکھیں:۱- کتاب السیر الکبیر، ۲-کتاب السیر الصفیر۔
اول الذکر کی شرح پانچویں صدی ہجری کے مشہور حنفی فقیہ امام سرخسیؒ نے کی۔ آج دنیا میں اس موضوع پر محفوظ رہ جانے والی اور شائع ہونے والی قدیم ترین کتاب یہی شرح السیر الکبیر ہے۔ بعض اور ممتاز فقہا اور علما نے اس موضوع پر کام کیا، چنانچہ امام مالکؒ (م:۱۷۹ھ؍۷۹۵ء) نے بھی کتاب السیر کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب اب ناپید ہے۔ اسی طرح ان کے ایک اور معاصر مؤرخ واقدی نے بھی کتاب السیر کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ وہ بھی اب نایاب ہے۔ تاہم، امام شافعیؒ کی کتاب الام میں ’سیر الواقدی‘ کے عنوان سے ایک طویل اقتباس شامل ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ علم السیر پر لکھی جانے والی ان کتابوں اور رسائل کو ابتدائی اور آخری قرار دیتے ہیں۔ یعنی ایک خاص زمانے میں کسی خاص ضرورت سے مستقل کتابیں لکھی جانے لگیں۔ پھر اس کے بعد شاید ضرورت نہ رہی اور یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ لیکن اس علم سے مسلمانوں کی دل چسپی برابر قائم رہی۔ وہ اس طرح کہ فقہ کی جتنی کتابیں ابتدا سے لے کر آج تک لکھی گئی ہیں، ان سب میں کتاب السیر کا باب ضرور ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سترھویں صدی عیسوی میں مرتب کی جانے والی فتاویٰ عالم گیری میں بھی اس پر ایک باب ہے۔
بعض مستشرقین کے خیال میں ’اسلام میں غیر جانب داری کا تصور نہیں‘ ہے۔ اس وجہ سے اسلام دُنیا کو ’دارالاسلام‘ اور ’دار الحرب‘ کے دو متحارب بلاکوں میں تقسیم کرتا ہے اور ان کے درمیان کسی تیسرے بلاک کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ نظریہ ایک مستشرق مجید قدوری نے Islamic Law for War and Peace (۱۹۵۵ء) میں پیش کیا۔ اسی طرح برنارڈلیوس نے بھی Political Language of Islam (شکاگویونی ورسٹی ، ۱۹۸۸ء) میں اس خیال کا اظہار کیا اور اسلام کو ایک استعماری نظام کے طور پر پیش کیا۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے ان مستشرقین کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا۔ بون یونی ورسٹی میں پیش کردہ ڈاکٹر صاحب کے مقالے کا عنوان ہی ’اسلام کے بین الاقوامی تعلقات میں غیرجانب داری کے اصول‘ تھا جس کے بعد مستشرقین کے مذکورہ بالا نظریات خود ہی بے بنیاد ٹھیرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے خیال میں گو کہ اسلام کا پیغام عالمی و آفاقی ہے، جس کا تقاضا پوری دنیا میں اللہ کے دین کا غلبہ اور اس کے نظام کا قیام ہے، تاہم اس کا مطلب غیر مسلم ریاستوں کے حقِ بقا کی نفی نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام کے نظریۂ سیر میں ریاستوں کے پُرامن بقاے باہمی کا وہ اصول تسلیم کیا گیا ہے، جو آج کے بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد ہے اور ڈاکٹر حمیداللہ نے اس تصور کو اہل علم اور اہل مغرب کے سامنے پورے استدلال سے پیش کیا ہے، جس نے جدید نظریۂ سیر پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔
ایک اور مسئلہ جو بعض مستشرقین کی طرف سے پیش کیا گیا، یہ ہے کہ دنیا کے باقی قوانین کے برعکس اسلامی قانون کا دائرہ اختصاص اور اس کی علاقائی حدودِ عمل متعین نہیں ہیں۔ یہ ایک شخصی قانون ہے جو دنیا کے ہر خطے میں رہنے والے مسلمانوں پر لاگو ہوتا ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے بہت مدلل انداز میں اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اسلامی قانون جہاں شخصی قانون ہے، وہیں یہ ایک متعین علاقائی دائرۂ اختصاص بھی رکھتا ہے۔ ایک اسلامی ریاست اپنے فوج داری و تعزیری قوانین صرف انھی لوگوں پر نافذ کرسکتی ہے، جو اس کے اپنے حدود عمل میں رہتے ہیں۔ ریاست کے حدود عمل کا متعین حدودارض تک ہونے کا جو تصور ڈاکٹر حمید اللہ نے پیش کیا ہے، وہ در حقیقت معاصر سیاسی فکر، یعنی علاقائی اقتدار اعلیٰ (Territorial Sovereignty) کی ایک بازگشت ہے۔ اس سے اسلامی ریاست ان اُلجھنوں اور اشکالات سے بچ جاتی ہے، جو اسلامی ریاست کے ماورا الحدود قرار دینے سے پیدا ہوتی ہیں۔
ڈاکٹر حمید اللہ عصرحاضر میں مسلمانوں میں قانون بین الممالک کے پہلے ایسے ماہر ہیں، جنھوں نے مختلف زبانوں سے واقفیت کے سبب، مختلف قدیم، جدید قوموں اور ملکوں کے بین الممالک اصول و تصورات اور قوانین کا مطالعہ کیا اور کتابیں و مقالات قلم بند کیے۔ وہ مغرب کے قدیم و جدید قوانین بین الممالک سے اسلام کے قوانین بین الممالک کا بعض مقامات پر موازنہ و مقابلہ کرکے واضح کیا کہ اسلامی قوانین ہر لحاظ سے بہتر ہیں۔ وہ قانون بین الممالک کی تشریح میں مغرب اور امریکا کے ساتھ تاریخ اسلام اور فقہ اسلامی سے بھی استدلال کرتے ہیں، کیوں کہ وہ خوب واقف ہیں کہ مغربی اہل قلم عموماً اسلامی تاریخ کے محاسن کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ چوںکہ مستشرقین کے طریق عمل و تحقیق سے خوب واقف تھے، اس لیے وہ دلائل و براہین کے ساتھ ابتدائی مآخذ کے حوالے دے کر یورپ کے پیمانۂ تحقیق ہی کے مطابق ان کو جوابات دیتے ہیں۔
ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے بقول:’’ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو بلاخوف و خطر دور جدید میں اسلام کے بین الاقوامی قانون کا مجدّد اور مؤسسِ نوقرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر امام محمد بن حسن شیبانی قدیم علم السیر کے مؤسسِ اوّل اور مدون ہیں تو ڈاکٹر حمید اللہ یقینا جدید بین الاقوامی اسلامی قانون کے مؤسس و مدوّن ہیں اور ۲۰ویں صدی کے شیبانی کہلائے جانے کے بجا طور پر مستحق ہیں‘‘۔