گورکھ پور کے ایک متموّل شخص سید سبحان اللہ کا زیر نظر سفر نامہ ان کے ۱۹۰۳ء کے سفرِ حج کی رُوداد پر مشتمل ہے، جو ’’تجربات اور مشاہدات اور سفر نامہ نگار کی دل سوزی ودرد مندی سے عبارت ہے۔ مصنف اس بات پر بہت آزُردہ تھے کہ اس مقدّس سرزمین کے بعض معاملات وحالات نا گفتہ بہ ہیں ‘‘۔ (ص۴)
سفر نامے کا آغاز حمدیہ ہے ۔ گورکھ پور سے ممبئی تک کا سفر ریل اور بیل گاڑیوں پر ہوا۔ بحری جہاز میں سوار ہونے کے لیے بھی سمندر میں ۱۲میل کشتیوں پر سفر کیا ۔پھر جہاز میں سوار ہونے کے مراحل بھی سخت تکلیف دہ تھے۔ ’’جہاز کے کپتان کا جو برتائو میرے ساتھ ہوا یقینا دل خراش تھا۔‘‘ جدہ میں جہاز سے اُتر کر قرنطینہ کے لیے بھاپ گھر میں رکنا پڑا ، جدہ سے مکہ تک دو روز کا سفر اونٹوں پر، فی اونٹ ۳۵روپے،غرض ہندستانیوں کے لیے مہینوں کا سفرِ حج بہت خطرناک اور مشقّت بھرا ہوتا تھا۔ اس زمانے میں عرب قبائلی، حاجیوں کو لوٹ لیتے تھے،اس لیے مولوی سبحان اللہ مدینہ منورہ نہ جا سکے۔ لکھتے ہیں :جس زمانے میں عثمان پاشا یہاں کے والی تھے، پانچ اور چھے اونٹوں کا قافلہ مدینہ منورہ بے کھٹکے چلا جاتا تھا۔ کوئی بال بیکا تک نہ کر سکتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سلطانی [غالباً وظیفہ] مقرر ہ وقت پر پورا پورا قبائل کو مل جاتا تھا… راہ میں بھی تین تین کوس پر فوج [کی ] چوکیاں… ایک ایک گارڈ فوج رہتی ہے‘‘ (ص ۷۶-۷۷)۔ عثمان پاشا رخصت ہوئے تو شریف مکہ حسین کی عمل دار ی میں پھر بدنظمی شروع ہوگئی۔کیوں کہ شریف غریب بدؤوں کو کچھ نہیں دیتا تھا۔ اس لیے وہ لوٹ مار کرتے تھے۔ مجموعی طور پر نظم ونسق بہت خراب تھا۔ مولوی سبحان اللہ نے مکہ سے منیٰ اور وہاں سے عرفات تک اونٹوں پر سفر کیا۔ انھوں نے قارئین کو نصیحت کی ہے کہ عرفات سے واپسی میں عجلت نہ کریں۔ جب تک بڑے بڑے لوگ نہ جا چکیں۔ قربانی کے لیے تین سے پانچ روپے تک فی دنبہ مل گئے۔ اس زمانے میں مکے کی مستقل آبادی ۵۰،۶۰ ہزار تھی مگر بدانتظامی کے سبب شہر میں صفائی عنقا تھی اور رات کے وقت روشنی بہت کم ہوتی تھی۔ حرم میں وضو کے لیے کوئی نل نہیں تھا، نہ استنجا خانہ۔ ترکوں کی عمل داری میں انتظام بہت بہتر تھا۔ بہت سی خرابیوں کا سبب جہالت اور تعلیم کی کمی ہے۔
ڈاکٹر اصغر عباس (سابق صدر شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی) نے یہ سفر نامہ بڑی محنت سے مرتب کیا۔ ان کے طویل معلومات افزا مقدمے سے مزین ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی )
فاضل مصنف نے دیباچے میں بتایا ہے: ’’میں تو اقبال سے صرف محبت کرنے والا ہوں، جو یہ بھی نہیں جانتا کہ میں یہ محبت کیوں کر رہا ہوں؟‘‘ (ص ۷) ۔چنانچہ علامہ اقبال سے اسی محبت کے نتیجے میں انھوں نے اقبالیات پر ایک عمدہ کتاب تصنیف کی ہے۔
اقبال کے فکر وفن پر لکھنے والوں نے ان کے فکر وشعر کی گونا گوں تعبیریں کی ہیں مگر محمد الیاس صاحب نے کہا ہے کہ :’’اسباب ِ زوالِ امّت ِ اسلامیہ نے اقبال کا سینہ داغ داغ کر دیا تھا۔ اور ان کی شاعری سوز ودرد مندی کے انھی داغوں کی بہار ہے‘‘۔ انھوں نے اقبال کی شاعری کا مطالعہ فہم وشعور سے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، قرآن حکیم کے ذہین طالب علم تھے اور اقبال سے بھی محبت رکھتے تھے۔ انھوں نے ایک جگہ کہا ہے کہ ’’اقبال کا فکر جتنا بلند تھا، ان کا عمل اس اعتبار سے بہت ہی نیچے تھا ‘‘۔ محمد الیاس صاحب نے ڈاکٹر صاحب کی اس راے کو قبول نہیں کیا۔ لکھتے ہیں: ’’اگر ڈاکٹراسرار احمد مرحوم ومغفور زندہ ہوتے تو میں ہاتھ باندھ کر، ان سے عرض کرتا کہ اس تبصرے کو واپس لے لیں ‘‘ (ص۵۵۵)۔ دوسری جانب ان کے خیال میں سیدمودودی ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اقبال کو سمجھنے میں غلطی نہیں کی۔
مختلف عنوانات کے تحت رقم شدہ اس کتاب کے اٹھارہ مضامین مل کر اقبال کی سچی اور کھری تصویر پیش کرتے ہیں۔( رفیع الدین ہاشمی )