یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ بلاضرورت یا ضرورت سے زیادہ شان دار عمارتیں بنانا کوئی منفرد فعل نہیں ہے جس کا ظہور کسی قوم میں اس طرح ہوسکتا ہو کہ اس کی اور سب چیزیں تو ٹھیک ہوں اور بس یہی ایک کام وہ غلط کرتی ہو۔ یہ صورتِ حال تو ایک قوم میں رُونما ہی اُس وقت ہوتی ہے جب ایک طرف اس میں دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اوردوسری طرف اس کے اندر نفس پرستی و مادہ پرستی کی شدت بڑھتے بڑھتے جنون کی حد کو پہنچ جاتی ہے۔ اور یہ حالت جب کسی قوم میں پیدا ہوتی ہے تو اس کا سارا ہی نظامِ تمدن فاسد ہوجاتا ہے۔
[سورئہ شعراء میں متوجہ کیا گیا ہے] کہ اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے میں تو تم اس قدر غلو کرگئے ہو کہ رہنے کے لیے تم کو مکان نہیں محل اور قصر درکار ہیں، اور ان سے بھی جب تمھاری تسکین نہیں ہوتی تو بلاضرورت عالی شان عمارتیں بناڈالتے ہو، جن کا کوئی فائدہ اظہارِ قوت و ثروت کے سوا نہیں ہوتا۔
لیکن تمھارا معیارِ انسانیت اتنا گرا ہوا ہے کہ کمزوروں کے لیے تمھارے دلوں میں کوئی رحم نہیں، غریبوں کے لیے تمھاری سرزمین میں کوئی انصاف نہیں، گردوپیش کی ضعیف قومیں ہوں یا خود اپنے ملک کے پست طبقات، سب تمھارے جبروظلم کی چکّی میں پس رہے ہیں اور کوئی تمھاری چیرہ دستیوں سے بچا نہیں رہ گیا ہے۔ (سیّدابوالاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، سورۃ الشعراء، ترجمان القرآن، جلد ۵۱، عدد۱، اکتوبر ۱۹۵۸ء، ص ۲۳-۲۴)