[فیڈرل شریعت کورٹ پاکستان نے اورینٹل کالج پنجاب یونی ورسٹی، لاہور کے پروفیسر ایمریطس ڈاکٹر ظہور احمد ظہور کی اپیل پر ۲۲؍اکتوبر ۲۰۱۲ء کو پاکستان کی تمام صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو پابند کیا کہ وہ دستورِ پاکستان کی واضح ہدایت کے مطابق پرائمری سے اعلیٰ ثانوی درجے کی تعلیم کے دوران، عربی زبان کی لازمی تدریس کا انتظام کریں(شریعت کورٹ ایکٹ کے مطابق، اگر شریعت کورٹ کے فیصلے کو چیلنج نہ کیا جائے تو وہ چھ ماہ بعد آئینی طور پر نافذالعمل ہوجاتا ہے)۔ اس فیصلے کو اُس وقت پاکستان کے تین صوبوں (سندھ، خیبر، بلوچستان) اور وفاقی حکومت میں پیپلزپارٹی اور اے این پی نے تسلیم کرکے قرآن و عربی کی تدریس کے لیے عملی اقدامات بھی شروع کردیے، لیکن شہبازشریف حکومت نے سردمہری کا مظاہرہ کیا۔ پھر جب مارچ ۲۰۱۳ء میں نجم سیٹھی پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ مقرر ہوئے، تو ان کی ہدایت پر پنجاب کے چیف سیکرٹری نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف باقاعدہ اپیل کردی کہ فیصلے کو بدلا جائے اور کہا: ’عربی عربوں کے لیے ہے‘ (اور گویا قرآن بھی عربوں ہی کے لیے ہے)۔ مئی ۲۰۱۳ء میں مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف دوبارہ وزیر اعلیٰ بن گئے (ان کے دونوں اَدوار میں نجم سیٹھی تسلسل کی کڑی تھے)۔ تب، جامعہ اشرفیہ لاہور سے ممتاز عالمِ دین جناب فضل الرحیم اشرفی نے نواز،شہباز برادران کو سمجھایا کہ آپ اس اپیل کو واپس لے لیں، مگر اپنے عمل سے انھوں نے مسلسل پانچ برس تک ٹال مٹول سے کام لیا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ اپریل ۲۰۱۳ء سے لے کر ۱۹؍ستمبر ۲۰۱۸ء تک سپریم کورٹ نے ایک بار بھی اس کیس کی سماعت نہیں کی، نہ ڈاکٹر ظہوراحمد ظہور صاحب یا ان کے وکیل محمد تنویرہاشمی کو کوئی عدالتی نوٹس دیا گیا، بلکہ اچانک ۱۹ستمبر کو دستور، اسلام اور عدالتی اخلاقیات سے ٹکراتا فیصلہ سناکر، دستور اور اسلام کا مذاق اُڑایا گیا ہے۔ اب یہ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دستور کا تحفظ کرے۔ادارہ]
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق پنجاب حکومت نے اس اپیل میں یہ بات بھی کہی کہ ’’عربی اسلام کی نہیں بلکہ عربوں کی زبان ہے‘‘۔ ایک طرف پنجاب حکومت کی اپیل پڑھ کر حیرانی کے ساتھ ساتھ افسوس ہوا، تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے فیصلے نے دُکھی کیا۔ انگریزی زبان لازم کر دو تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں، لیکن اعتراض عربی زبان پڑھانے پر ہے جو قرآن و حدیث کی زبان ہے۔ قرآن پاک میں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۲ (یوسف ۱۲:۲) ’’ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن بنا کر عربی زبان میں تاکہ تم اس کو اچھی طرح سمجھ سکو‘‘۔
معلوم نہیں سپریم کورٹ نے پنجاب حکومت کی اپیل کیسے منظور کرلی، جب کہ آئین پاکستان بھی انگریزی یا کوئی دوسری زبان پڑھانے کی بات نہیں کرتا، بلکہ آرٹیکل۳۱( ۲، الف){ FR 645 } میں ریاست اور ریاستی اداروں پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ قرآن پاک کی تعلیم لازمی قرار دینے کے ساتھ ساتھ عربی زبان سیکھنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کے لیے سہولت بہم پہنچائی جائے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا المیہ دیکھیں کہ پاکستان میں شراب کی فروخت پر پابندی کے لیے عدالتی جنگ اقلیتی ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار لڑ رہے تھے، جن کا کہنا ہے کہ: ’’ہندو مذہب میں شراب پر پابندی ہے، جب کہ سندھ بھر میں ایسے شراب خانے موجود ہیں جو مساجد، مندروں اور گرجا گھروں کے قریب ہیں‘‘۔ اُن کا یہ بھی رونا تھا کہ: ’’شراب ہندوئوں اور دوسری اقلیتوں کے نام پر بیچی جاتی ہے،جب کہ پینے والوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے‘‘۔ آج دوبارہ جب میری ڈاکٹر رمیش کمار سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ: ’’میں پہلے ہی سپریم کورٹ میں درخواست پیش کرچکا ہوں کہ میرا کیس سنا جائے اور شراب پر پابندی لگائی جائے‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رمیش نے بتایا کہ اُن کا ایک آئینی ترمیمی بل بھی ایک دو روز میں قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جس کے ذریعے وہ اقلیتوں اور ہندوئوں کے نام پر شراب کی فروخت پر پابندی چاہتے ہیں۔ ایک اقلیتی ممبر پاکستان میں شراب پر پابندی کی تحریک چلا رہا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ اُس کا ساتھ دینے والے کوئی نہیں۔ اگرچہ شراب پاکستان بھر میں پینے والوں کے لیے وافر مقدار میں دستیاب ہے، لیکن صوبہ سندھ میں یہ کاروبار سب سے زیادہ عام ہے، جس کے لیے اقلیتوں کا نام استعمال کیا جاتا ہے۔