اکتوبر ۲۰۱۸

فہرست مضامین

مستحکم پاکستان: مولانا مودودیؒ کا لائحہ عمل

جاوید اقبال خواجہ | اکتوبر ۲۰۱۸ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

مولانا مودودیؒ اسلامی نظام زندگی کےنفاذ کے نقیب اور داعی تھے۔ عصرِحاضر کے اسلامی اسکالروں،مفکرین اور علما میں مولانا مودودیؒ وہ منفرد شخصیت تھے، جنھوں نے اسلامی نظام حیات کے بارے میں ایک مربوط فکر پیش کی۔ اس فکری سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انھوں نے اگست ۱۹۴۱ء میں ایک تنظیم جماعت اسلامی کے نام سے تشکیل دی۔ ان کی فکر نے پاکستان اور پاکستان سے باہر عالم اسلام میں نشاتِ ثانیہ کی ایک لہر کو جنم دیا۔ دنیابھر میں مسلمانوں کی غالب اکثریت اپنے اپنے معاشرے میں مختلف پلیٹ فارموں پر اور مختلف صورتوں میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمان مولانا مودودی کے اوّلین مخاطب تھے۔اگست ۱۹۴۷ء کے بعد پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد آج تک جاری ہے۔ مولانا مودودی نے اس جدوجہد میں قدم قدم پر پیش آنے والی مشکلات کا نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ اس کش مکش میں وہ خود اور ان کی جماعت بار بار آزمایش کا شکار ہوتی رہی۔ اسی پاکستان کے قیام کے صرف چھ سال کے اندر ہی ۱۹۵۳ء میں ملک میں جزوی مارشل لا نافذ کر دیا گیا، جس کی فوجی عدالت نے ایک پمفلٹ قادیانی مسئلہ لکھنے پر مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنادی (جو بعد میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید احتجاج کے باعث عمرقید میں تبدیل کی اور پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ختم ہوئی)۔ مقتدر حلقےآزادی ملنے کے برسوں بعد بھی ملک کو ایک متفقہ آئین نہ دے سکے ۔ نو سال کی کش مکش کے بعد ۱۹۵۶ء میں ایک آئین منظور ہوا، لیکن صرف دو سال کے بعد اس آئین کو منسوخ کرکے پاکستان میں مکمل مارشل لا لگا کر تمام سیاست دانوں، ان کی سیاسی سرگرمیوں، اور جماعت اسلامی سمیت سب سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 

چارسال بعد مارشل لا حکومت نے ۱۹۶۲ء میں ایک نیا آئین دیا، جس میں اقتدار کی ساری طاقت فردِ واحد کے ہاتھ میں تھی۔مولانا اور ان کی جماعت نے فرد واحد کی آمریت اور اقتدار کے ارتکاز کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی، جس کے باعث وہ حاکم وقت کے نزدیک پاکستان کی ناپسندیدہ ترین شخصیت قرار پائے(اس کی تصدیق چند سال پہلے شائع ہونے والی جنرل ایوب خان کی ڈائری سے ہوتی ہے)۔چند سال بعد جنرل یحییٰ خان نے ۱۹۶۹ء میں ایوب خاں کو ہٹاکر مارشل لا لگایا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی مارشل لا کے دوران دو سال کے اندر ملک کا ایک حصہ الگ ہو کر بنگلہ دیش کے نام سے ایک علیحدہ ریاست بن گیا۔ جولائی ۱۹۷۷ءمیں بھٹو حکومت کا خاتمہ ایک اور مارشل لا کے نفاذ سے ہوا۔ اس کے بعد۲۰۰۸ء تک پاکستان کی۳۱ سال کی سیاسی تاریخ، مختلف سول اور فوجی حکومتوں کے اقتدار میں آنے اور رخصت ہونے سے عبارت ہے۔

  • ملک کی ابتر صورتِ حال کا سبب: مولانا مودودی نے اپنی تحریروں، تقاریر اور سوالات و جوابات کی مجلسوں میں بڑی تفصیل سے ان اسباب کو واضح کیاہےکہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے گروہی ،لسانی، مذہبی اور معاشرتی ا ختلافات بھلاکر جس بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا ، آخر کیا ہوا کہ وہ پاکستان کے قیام کے بعد قائم نہیں رہ سکا؟ پاکستان جن مقاصد کے حصول کے لیے عمل میں آیا تھا، وہ مقاصد کیوں نہیں حاصل کیے جاسکے؟ قومی وحدت مضبوط ہونے کے بجاے کمزور سے کمزور تر کیوں ہوتی چلی گئی اور ڈھلوان کی سمت کا یہ سفر اب تک کیوں جاری ہے ؟ جمہوریت کے سفر میں آمریت کا دور بار بار کیوں آتا جاتا رہا ہے؟ جمہوریت آتی ہے تو اس کے منسوخ ہونے کا خطرہ سر پر کیوں منڈلاتا رہتا ہے؟ اسلامی نظام حیات کےقیام کا خواب کیوں پورا نہیں ہوسکا؟عوام کی عظیم اکثریت کو نہ سماجی انصاف مل سکا ہے اور نہ ان کی معاشی حالت بہتر ہو سکی ہے۔ اس پر مستزاد گروہی، لسانی، فرقہ وارانہ اور علاقائی قوتیں کیوںمضبوط سے مضبوط ہوتی چلی گئیں؟ جس نے ایک اسلامی جمہوری ریاست کی تعمیر روک رکھی ہے۔

مولانا مودودی نےصورت حال کا تجزیہ کرکےقوم کو یاد دلایا کہ:

ہمیںاپنی مرضی سےزندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [آزادی حاصل ہوئے] ایک طویل مدت گزر چکی ہے، مگر جہاںہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنےاور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابل ذکر کوشش نہ کرسکے۔

مولانا کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ آزادی کے بعد بھی، سامراجی نظامِ حکومت کا  جوں کا توں قائم رہنا ہے:’’ہمارا انتظامی ڈھانچا اور اس کا مزاج وہی ہے۔ قانونی نظام وہی ہے۔ تعلیمی نظام وہی ہے۔معاشی نظام وہی ہے۔ اخلاق اور معاشرت کا حال وہی ہے۔مذہبی حالت وہی ہے۔ کسی چیز کی اصلاح وترقی کے لیے ہم کوئی قدم نہ اٹھا سکے، بلکہ قدم اٹھانے کے لیے اس کی سمت تک متعین نہ کر سکے‘‘۔

اس کوتاہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ: ’’فکرونظر کے اختلافات ،اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں ا ور ٹولیوں کے اختلافات ،علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور ابھرتےچلے آ رہے ہیں ۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے، دوسرا اس راہ میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا‘‘۔اس صورتِ حال کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نےتوجہ دلائی ہے: ’’تعمیررُکی ہوئی ہے،اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے، خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو‘‘۔

  • استحکام کی راہ: اس حوصلہ شکن صورتِ حال کی طرف توجہ دلانے اور اس کا   بے لاگ تجزیہ کرنے کے بعد مولانا مودودی کی ہمہ گیر شخصیت کا نیا پہلو سامنے آتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک پرامید شخصیت تھے۔ مسائل کے گرداب میں گھرے ہوئے عوام اور قوم کے لیے ان کا پیغام عزم اور اُمید پر مبنی تھا۔ اگرچہ وہ اس حقیقت کا پوری طرح ادراک رکھتے تھے کہ پاکستان کو بہت سے مسائل درپیش ہیں، جن کی طرف توجہ کرنے اوران کو حل کرنے کی وہ سخت ضرورت محسوس کرتے تھے۔ ان کویقین تھا کہ ملک وقوم کو درپیش چیلنجوںپر اسی صورت میں قابو پایا جا سکتا ہے، جب ملک کے تمام مختلف گروہ ، جماعتیں اور افراد ایک مستحکم پاکستان کی تعمیرکے لیے اتحاد اور اتفاق کےچند بنیادی اصولوں پر متفق ہو جائیں۔ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو۔ قرآن و سنت پر مبنی اسلامی نظام حیات جمہور کی اکثریت کی منشا سے نافذ ہواور اس کے لیے کسی مختصر راستے یا مہم جویانہ طریقے کو اختیار کرنے کے بجاے صرف جمہوری طریقہ اپنایا جائے۔ مولانا کو اس بات کا قلق تھا کہ: ’’اختلاف اورمخالفت و مزاحمت نے ایک اندھے جنون کی صورت اختیار کر لی ہے‘‘ ۔وہ چاہتے تھے:’’ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجاے اپنی تعمیر میں لگیں ‘‘۔

پاکستان میں قومی وحدت کی بنیادیں مستحکم کرنے اور قوم میں اتحاد و اتفاق کے فروغ   کے لیے مولانا نے بڑی دردمندی اور دل سوزی سے قوم کے سامنے مختلف تجاویز رکھتے ہوئے اپنی قوم اور اس کے رہنماؤں سے اپیل کی تھی کہ:’’ہر حال میں صداقت و انصاف کا احترام کیا جائے‘‘۔ ’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘ کے فکروفلسفے کو ایک ابلیسی اور شیطانی اصول قرار دیتے ہوئے انھوں نے سختی سے رد کر دیا تھا۔ وہ اس بات کو انتہائی ناپسند کرتے تھے کہ کوئی بھی اپنے مخالف پر ہر طرح کے جھوٹے الزام لگائے، اس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے ،اور اس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے۔ سیاسی اختلاف ہو تواسے غدار اور دشمن وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو متہم کر ڈالے ،اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصد زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا: ’’بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیساہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں‘‘۔

  • ’’قومی وحدت کی بنیاد: مولانا مودودی کی راے میں: قومی وحدت کی بنیاد صرف اور صرف اختلافات میں رواداری، ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش ،اوردوسروں کے حق راے کو تسلیم کرنے کا جذبہ اپنانے سے ہی مضبوط ہو سکتی ہے.... بدگمانی اور خود پسندی کا مرض ہمارے ملک میں ایک وباے عام کی صورت اختیار کر چکا ہے۔حکومت، ارباب اقتدار، سیاسی پارٹیاں اور مذہبی گروہ اس میں مبتلا ہیں‘‘۔ ان کے نزدیک: ’’اس بیماری کا مداوا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں، اپنی روش تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیر اثر لوگوں کو تحمل وبرداشت اور وسعت ظرف کا سبق دیں‘‘۔

ملک کے تمام طبقوں کو مخاطب کرکے مولانا مودودی نے اس اصول پر زور دیا تھا کہ: ’’اختلاف براے اختلاف سے اجتناب کرتے ہوئے ہر شخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے‘‘۔ انھیں اس بات پر بہت دُکھ تھا کہ: ’’یہاںزیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جا تاہےکہ دوسرے جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کردی جائے۔ بعض لوگ تو اس منفی کام سے آگے بڑھ کر سرے سے کوئی مثبت کام کرتے ہی نہیں ،اور کچھ دوسرے لوگ اپنے مثبت کام کے فروغ کا انحصار اس پر سمجھتے ہیں کہ میدان میں ہر دوسرا شخص جو موجود ہے اس کی اور اس کے  کام کی پہلے مکمل نفی ہوجائے‘‘۔ اس طرزِ عمل کے مضمرات واضح کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ: ’’یہ روش خصوصیت کے ساتھ ہمارے ملک کے لیے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا پایا جاتا ہے، جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے‘‘۔ مولانا مودودی کا استدلال تھا کہ: ’’اجتماعی طاقت سے ہی کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا ۔ لیکن اگر صورتِ حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسرے کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا‘‘۔

قوم میں اتفاق اور اتحاد پیدا کرنے کے لیے مولانا مودودی نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی: ’’جبرو دھونس کے بجاے دلیل و ترغیب کا طریقہ اپنایا جائے‘‘ ۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ: ’’اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے ۔جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہے وہ جبر سے نہیں دلائل سے منوائے،اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب وتلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے‘‘۔ان کا موقف تھا کہ: ’’ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہو سکتی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکتی، – کیوںکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے‘‘۔

 مولانا مودودی نے بات کو منوانے کے لیے طاقت کے استعمال کو انتہائی غلط قرار دیتے ہوئے یاد دلایا تھا: ’’دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی زبردستیوں نے بالا آخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہہ وبالاکر دیے ہیں اوران کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹا کر بے تکے تغیرات اور انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے‘‘۔مولانا نے پاکستان کے بااثر لوگوں کو باور کرایا تھا: ’’اگر آپ واقعی اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں تو دھونس کے بجاے دلیل سے اور جبر کے بجاے تر غیب سے کام لینے کی عادت ڈالنی چاہیے‘‘۔

مو لانا مودودی نے پوری قوم سے اپیل کی تھی کہ: ’’ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ یادرہے کہ ہر تعصب لازماً جواب میں ایک تعصب پیدا کر دیتا ہےاور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بھلا اس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کیے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں؟‘‘

سیاسی پارٹیوں کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا محترم کا کہنا تھا کہ: ’’سیاسی پارٹیاں فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور اختلاف معقول اور شریفانہ طریقوں تک محدود رہے‘‘۔ مولانا نے ہر ایسی سیاسی پارٹی کو ’قزاقوں کی ٹولی‘ قرار دیا تھا، جو پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو سعی وجہد کا مرکز و محور بنا کر بیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا ہ نہ کرے۔

  • قرآن و سنت کی بالادستی:پھر مولانا اس بات پر پوری طرح یکسو تھے کہ: ’’ایک صحیح مصالحانہ فضا پیدا کیے بغیر ملک کا نظام زندگی تعمیر نہیں کیا جا سکتا‘‘۔پاکستان میں نظامِ حکومت کے بارے میں مولانا مودودی پہلے دن سے ہی بہت واضح ذہن رکھتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ یہی مطالبہ کیا تھا اور قیام پاکستان کے آغاز سےہی وہ اسی کے لیے میدان عمل میں سرگرم تھے کہ: ’’قرآن و سنت کو ملک کے آیندہ نظام کے لیے منبع ہدایت اور اوّلین ماخذ قانون تسلیم کیا جائے‘‘۔ قرآن و سنت کی بالادستی کے حق میں ان کا استدلال تھا کہ: ’’ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان کا عقیدہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور ان کی تہذیب اور قومی روایات اس امر کا تقاضا کرتی ہیں اور ان کی ما ضی قریب کی تاریخ بھی اس کا تقاضا کرتی ہے۔ ان کے لیے یہ گواراکرنا سخت مشکل ہے بلکہ محال ہے کہ جس خدا اور جس رسولؐ پر وہ ایمان رکھتے ہیں، اس کے احکام سے وہ جان بوجھ کر منہ موڑ لیں اور اس کی ہدایات کے خلاف دوسرے طریقے اور قوانین  خود اپنے اختیار سے جاری کریں۔ وہ کبھی ان طریقوں کو جاری کرنے میں سچے دل سے تعاون نہیں کرسکتے اور نہ ان قوانین کی برضا و رغبت پیروی کر سکتے ہیں کہ جن کو وہ عقیدۂ باطل اور غلط سمجھتے ہیں۔ ان کے اندر آزادی کا جذبہ جس چیز نے بھڑکایا اور جس چیز کی خاطر انھوں نے جان و مال اور آبرو کی ناقابلِ تصور قربانیاں دیںوہ صرف یہ تھی کہ انھیں غیر اسلامی نظام زندگی کے تحت جینا گوارا نہ تھا اور وہ اسے اسلامی نظام زند گی سے بدلنا چاہتے تھے۔ اب ان سے یہ توقع کرنا بالکل بے جا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد وہ بخوشی اس اصل مقصد ہی سے دست بردار ہو جائیں گے کہ جس کے لیے انھوں نے اتنی گراں قیمت پر آزادی خریدی ہے‘‘۔

مولانا مودودی نے واضح کیا تھا کہ: ’’اگر کوئی جابر طاقت زبردستی اس مقصد کے حصول میں مانع ہو جائے، اور ان پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا ضابطۂ حیات مسلط کردے تو وہ اسی مجبوری کے ساتھ اسے برداشت کرلیں کہ جس طرح انگریزی تسلط واقع ہونے کے بعد انھوں نے اسے برداشت کیا تھا۔ لیکن جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ ایک نارضامند آبادی پر جبر سے ایک نظام مسلط کرکے ا س کو کامیابی سے چلایا بھی جا سکتا ہے، تو وہ یقینا سخت نادان ہے‘‘۔

مولانا مودودی نے پاکستان میں قرآن و سنت پر مبنی اسلامی نظام حیات کےنفاذ کی مخالف بااثر قوتوں کی نشان دہی کرتےہوئے چار طبقوں کی نشان دہی کی تھی:

  •                 ’’ایک وہ مسلمان جو اخلاق، تہذیب اور معاشرت میں اس حد تک مغربی رنگ اختیار کر چکے ہیں کہ اب انھیں اسلامی طرز زندگی کی طرف پلٹنے کے تصور ہی سے وحشت ہونے لگتی ہے۔
  •                 ’’دوسرے وہ مسلمان جو مسلمان ہونے سے تو منکر نہیں مگر مغربی افکار و نظریات سے اس حد تک متاثر ہو چکے ہیں کہ انھیں اب اسلام پر اعتقاد باقی نہیں رہا۔ یہ دونوں طبقے اپنے مخصوص رجحانات کے سبب ایک لادینی (سیکولر) نظام اختیار کرنے پر اصرار کرتے ہیں کیونکہ وہی ان کے مزاج و مذاق سے مناسبت رکھتا ہے ۔
  •                 ’’تیسرا طبقہ ان مسلمانوں پر مشتمل ہے جو اسلامی نظام سےتو انکار نہیں کرتے مگر سنت کو چھوڑ کر صرف قرآن کو لینا چاہتے ہیں۔
  •                 ’’چوتھے طبقے میں پاکستان کی غیر مسلم اقلیتیں شامل ہیں جومسلمانوں کے دینی نظام کی نسبت ایک غیر دینی نظام کو ترجیح دیتی ہیں ۔

’’ان میں سے پہلے تین طبقے مسلمانوں کی آبادی میں مجموعی طور پر ایک فی ہزار کی نسبت بھی نہیں رکھتے۔ اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ملک کا انتظام اس بنیاد پر تعمیر ہو نہ سکے جسےکروڑوں آدمی چاہتے ہیں اور اس بنیاد پر تعمیر ہو جسے چاہنے والے چند ہزار آدمیوں سے زیادہ نہیں‘‘۔

مولانا نے اسلامی نظام حیات کے مخالفین کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا: ’’ملک کی بھلائی ایسی ہی بنیادوں پر اس کا نظامِ زندگی تعمیر کرنے میں ہے، جن پر زیادہ سے زیادہ اتفاق ممکن ہو ۔اور یہ اتفاق بہرحال لا دینی پر یا قرآن بلا سنت پر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا، آپ اپنے خیالات جو کچھ بھی ہیں رکھیں مگر مزاحمت چھوڑ دیں‘‘۔

مولانا نے غیرمسلموں کو یقین دلایا تھا کہ: ’’مسلمانوں کا مذہب آپ پر مسلط نہیں کیا جائے گا، اور آپ کے مذہب اور تہذیب میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ آپ کا پرسنل لا آپ کے لیے محفوظ رہے گا ،اورآپ کو زندگی کے ہر شعبے میں یہاں عملاً اس سے زیادہ حقوق حاصل ہوں گے، جو دنیا میں کہیں اقلیتوں کو حاصل ہوتے ہیں‘‘۔

  • جمہوریت کا فروغ: اسلامی نظام حکومت کے قیام کے لیے مولانا صرف جمہوری طریقۂ کار کو اپنانے کے حق میں تھے۔ ان کے نزدیک: ’’یہ خود قرآن وسنت کامنشا بھی ہے اور باشندگانِ ملک کی خواہشات کا تقاضا بھی‘‘۔ مولانا کی دلیل یہ تھی کہ: ’’یہ ملک کسی خاص شخص یا طبقے اور گروہ کا نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کا ہے جو اس میں رہتے ہیں۔ لہٰذا، اس کا انتظام ان سب کی، یا  کم از کم ان کی اکثریت کی مرضی کے مطابق چلنا چاہیے اور ان کو اصولاً یہ حق اور عملاً یہ موقع حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے حکمران اپنی آزاد مرضی سے چنیں اور اپنی آزاد مرضی ہی سے ان کو تبدیل کرسکیں‘‘۔ ان کو اس بات کا پوری طرح ادراک تھا کہ جمہوریت کی دنیا میں جو مختلف شکلیں پائی جاتی ہیں اس کے باعث اس نظام کی موزونیت اور افادیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس امر کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا زور اس بات پر تھا کہ: ’’بحث اس [جمہوریت ] کی کسی خاص شکل میں نہیں بلکہ اس امر میں ہے کہ جو شکل بھی یہاں اختیار کی جاتی ہے، اس میں جمہوریت کی یہ حقیقت   فی الواقع موجود ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر یہاں کوئی ایسا نظام قائم کردیا جائے کہ جس میں باشندگان ملک کونہیں بلکہ کسی خاص طبقے کی مرضی کو غلبہ حاصل ہو تو خواہ اس پر کتنے ہی جلی حروف میں’ جمہوریت‘ کا سر عنوان لکھ دیا جائے، اس پر عام لوگوں کا مطمئن ہونا اور مطمئن رہنا بہرحال ممکن نہیں‘‘۔جمہوریت کے نام پر فردِ واحد یا کسی خاص گروہ کی بالادستی مولانا کے نزدیک: ’’ملک کی فلاح و بہبود کی ضامن نہیں ہو سکتی‘‘۔ وہ اس نقصان دہ صورتِ حال میں مبتلا ہونے سے ملک کو بچانا ضروری سمجھتے ہوئے تجویز کرتے ہیں:  ’’وہ تمام لوگ جو ملک کے آئندہ نظام کی تشکیل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، پہلے جمہوریت کے اصول کو صدقِ دل سے قبول کرلیں اور پھر نیک نیتی کے ساتھ ایسا نظام بنائیں، جس میں یہ اصول [اصل جمہوری روح] ٹھیک ٹھیک کارفرما ہو‘‘۔

مولانا کو اس بات کا پوری طرح اِدراک تھا کہ: ’’جمہوریت میں بھی بہت سے نقائص ہوتے ہیں، اور وہ نقائص اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جب کسی ملک کی آبادی میں شعور کی کمی ہو، ذہنی انتشار موجود ہو ،اخلاق کمزور ہو ں اور ایسے عناصر کا زور ہو جو ملک کے مجموعی مفاد کی نسبت اپنے ذاتی، نسلی، صوبائی اورگروہی مفاد کو عزیز رکھتے ہو ں‘‘۔ لیکن جمہوریت کے حق میں  مولانا کی دلیل یہ تھی کہ: ’’ان سب حقائق تسلیم کرنے کے بعد بھی یہ عظیم تر حقیقت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے کہ ایک قوم کی ان کمزوریوں کو دور کرنے اور بحیثیت مجموعی ایک بالغ قوم بنانے کا راستہ جمہوریت ہی ہے‘‘۔ جمہوریت کے حق میں اپنی راےکی مزید تشریح کرتے ہوئے مولانا نے باور کرایا ہے: ’’جمہوری نظام ہی وہ ایک نظام ہے جو ایک ایک شخص میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ملک اس کا ہے، ملک کی بھلائی اور برائی اس کی اپنی بھلائی اور برائی ہے ۔یہی چیز افراد میں اجتماعی شعور بیدا رکرتی ہے۔ اور اس سے فرداً فرداً لوگوں کے اندر اپنے ملک کے معاملات سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔ جمہوریت تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ عام لوگ خود اپنے قومی اور ملکی معاملات کو چلانے کے ذمہ دار ہوں اور وہ تجربے سے سبق سیکھ سیکھ کر اپنی غلطیوں کی تلافی کرتے چلے جائیں، یعنی ایک یا چند مرتبہ اگر ان کا انتخاب غلط ثابت ہواور اس کے نقصانات ان کے سامنے آجائیں تو کوئی دوسرا مداخلت کرکے اس کی اصلاح کرنے نہ آئے بلکہ وہ خود ہی ایک معروف ومسلّم ضابطے کے مطابق اس کی اصلاح کرتےرہیں‘‘۔ جمہوریت کے مقابلے میں دوسرے نظاموں (بادشاہی، ڈکٹیٹرشپ، اشرافیت) پر تنقید کرتے ہوئے مولانا نے لکھا تھا:’’اس میں عوام الناس، حالات کے محض تماشائی بن کر رہتے ہیں اور جب ان حالات کے ردوبدل یا بناؤ اور بگاڑ میں ان کی راے اور مرضی کا دخل نہیں ہوتا، تو وہ ان میں دل چسپی بھی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ جمہوریت کے جو اور جیسے بھی نقائص ہوں، انھیں اس نقصان عظیم سے بہرحال کوئی نسبت نہیں ہے‘‘۔

مولانا مودودی نے ان لوگوں پر سخت گرفت کی تھی جو یہ کہتے ہیں کہ: ’’یہاں [پاکستان میں] جمہوریت ناکام ہو چکی ہے اوریہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس ملک کے باشندے اس کے اہل نہیں ہیں۔ یہ حضرات وقتاً فوقتاً اس کے لیے مختلف قسم کی متبادل صورتیں پیش کرتے رہتے ہیں‘‘۔ مولانا کا کہنا تھا: ’’وہ متبادل صورتیں جو جمہوری نظام کے مقابلے میں پیش کی جاتی ہیں، ان کے بارے میں یہ بات ہم کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت درہم برہم کر کے آمریت کی راہ پر چل پڑنا جتنا آسان ہے، جمہوریت کی طرف پھر پلٹ آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ آمریت خواہ پُرامن طریقے سے ہی قائم ہو، بہرحال پُرامن طریقے سے دفع نہیں ہوسکتی‘‘۔ آمریت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے مولانا نے اس کے معکوس نتائج کو بڑ ی تفصیل سے واضح کیا تھا: ’’آمریت خواہ کتنی ہی خیراندیش ہو اور کیسی ہی نیک نیتی سے قائم کی جائے ،اس کا مزاج اس کے اندر لازماً چند خصوصیات پیدا کر دیتا ہے، جو اس سے کبھی دُور نہیں ہو سکتیں اور ان خصوصیات کے چند لازمی اثرات ہوتے ہیں جو مرتب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ وہ تنقید کو برداشت نہیں کرتی ۔وہ خوشامد پسند ہوتی ہے ۔وہ اپنے محاسن کا اشتہار دیتی اور عیوب پر پردہ ڈالتی ہے۔اس میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ خرابیاں بروقت نمایاں ہوجائیں اور ان کا تدارک کیا جاسکے ۔وہ راے عامہ اور افکار اور نظریات سے غیر متاثر ہوتی ہے۔ اس میں ردوبدل کسی کھلے کھلے طریقے سے نہیں بلکہ محلاتی سازشوں اور جوڑ توڑ سے ہوتا ہے، جنھیں عوام الناس صرف تماشائی ہونے کی حیثیت سے دیکھتے رہتےہیں۔ اس میں صرف ایک محدود طبقہ ملک کے سارے دروبست پر متصرف ہوتا ہے، اور باقی سب بے بس محکوم بن کر رہتے ہیں۔اس کا آغاز چاہے کیسی ہی نفع رسانی کے ساتھ ہو، انجام کار وہ ایک جابر طاقت بنے بغیر نہیں رہتی اور عام لوگ بے زار ہوکراس سے خلاصی کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں، مگر خلاصی کے جتنے پُرامن راستے ہوتےہیں یہ ان کو چُن چُن کر بند کر دیتی ہے،اور مجبوراً ملک ایسے انقلابات کی راہ پر چل پڑتاہے،جو مشکل ہی سے اس کو کسی منزل خیر پر پہنچنے دیتے ہیں‘‘۔

مو لانا چاہتے تھے کہ: ’’پاکستان میں جمہوری نظام کے بارے میں ہمیں یکسو ہونا چاہیے‘‘ لیکن وہ یہ ضروری سمجھتے تھے کہ: ’’ہم جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ اختیار کریں اور اس میں آمریت کے لوازم اور خصائص کی آمیزش نہ کریں ،کیوں کہ اس کے بغیر جمہوریت صیحح طریقے سے کام نہیں کر سکتی اور نہ وہ نتائج دکھاسکتی ہے، جو اس سے مطلوب ہیں‘‘۔

پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے قیام اور استحکام کے لیے مولانا نے پانچ اصول پیش کیے:

                ۱-            تقسیم اختیارات کا اصول، یعنی ریاست کے تینوں شعبوں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے  دائرۂ اختیار کا واضح طور پر الگ ہونا۔

                ۲-            شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کی ضمانت اور عدلیہ کا ان کے تحفظ پر قادر ہونا۔

                ۳-            انتخابات کی آزادی اور اس کی حفاظت کے لیے ایسی قانونی و انتظامی تدابیر، جن سے یہ اطمینان ہو سکے کہ انتخابات کے نتائج فی ا لحقیقت راے عام کے مطابق نکل سکیں گے۔

                ۴-            قانون کی حکمرانی ،یعنی یہ امر کہ راعی اور رعایا کے لیے ایک ہی قانون ہو، اور سب اس کے پابند ہوں، اور عدالتوں کو یہ حق ہو کہ سب پر بے لاگ طریقے سے وہ اس کو نافذ کرسکیں۔

                ۵-            ملازمین حکومت کا خواہ وہ سول سروس سے تعلق رکھتے ہوں یا فوج سے، سیاست میں دخیل نہ ہونا اور اس ہیئت ِحاکمہ کی اطاعت قبول کرنا کہ جسے باشندوں کی اکثریت آئینی طریقے پر ملک کا اقتدار سونپ دے‘‘۔

  • آمریت کی نفی:جمہوریت کی بقا کے لیے مولانا مودودی نے اس بات پر زور دیا تھا: ’’حکمرانوں کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ جب چاہیں لوگوں کی آزادیِ ذات، آزادیِ تحریر و تقریر، آزادیِ اجتماع اور آزادیِ نقل و حرکت سلب کر لیں۔ جمہوریت کبھی ایسے ماحول میں زندہ نہیں    رہ سکتی، جہاں حکومت پر تنقید کرنا دشوار ،اور حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا دشوار تر ہوجائے۔ ایسی جگہ تو جو ایک دفعہ برسرِ اقتدار آجائے گا، وہ پھر زبردستی اقتدار پر قابض رہے گا اور اس کا نام بہرحال جمہوریت نہیں ہے‘‘۔

 جمہوریت میں آزادی کے ساتھ انتخاب کی آزادی پر مولانا نے بہت زور دیا ہے۔     ان کے نزدیک: ’’جمہوریت تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ لوگ اپنی آزاد مرضی سے جس کو چاہیں حکمرانی کے لیے منتخب کریں اور جب چاہیں اپنی آزاد مرضی سے ان کو تبدیل کر دیں۔ اگر دباؤ اور لالچ اور فریب اور حیلوں سے انتخابات کے نتائج اصلی راے عام کے بالکل برعکس برآمد کیے جاسکتے ہوں تو ایسی حالت میں لوگوں کو راے اور انتخاب کا حق دینا اور نہ دینا دونوں برابر ہیں۔

  • آئین اور قانون کی حکمرانی: جمہوری نظام کی کامیابی کو مولانا نے آئین اور قانون کی سب کے لیے یکساں حکمرانی کو بنیادی شرط قرار دیا تھا: ’’ملک میں آئین وقانون اور ضابطہ سب کے لیے یکساں ہو، سب پر غالب ہو اور کوئی اس کی خلاف ورزی کرنے کا مجازنہ ہو ۔جہاں قانون کی ساری پابندیاں صرف کمزوروں کے لیے ہو ں اور طاقت والے ہر وقت آئین اور قانون کو بالاےطاق رکھ کر اپنی من مانی کر سکتے ہوں اور جہاں عدل و انصاف کی طاقت زورآورں کے مقابلے میں قانون کو نافذ کرنے سے عاجز ہو، وہاں جمہوریت کبھی قائم نہیں ہو سکتی اور قائم ہوجائے تو زندہ نہیں رہ سکتی۔ جمہوریت توسب لوگوں کی برابری کا نام ہے اور برابری کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ضابطہ سب کےلیے ایک ہو اور سب پر یکساں نافذ ہو‘‘۔

سیاست میں مقتدر اور محافظ حلقوں کی مداخلت کومولانا مودودی نےسخت ناپسند کرتے ہوئےاس عمل کو ایک بہت بڑی خیانت اور نتائج کے اعتبار سے پاکستان کے لیے ایک خطرناک چیز قرار دیا تھا۔ انھوں نے حکومت کے کارپرداز اور محافظوں کو سچے دل سے جمہوریت کے اصول کو تسلیم کرنے کی یادہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’وہ اس بات کو مان لیں کہ ملک باشندوں کا ہے اور باشندوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سےجن لوگوں کو چاہیں اپنے ملک کا کارفرما بنائیں‘‘ ۔

مولانا مودودی کا نظریہ تھا کہ: ’’ہمارے ملک کو بہت سے درپیش مسائل کی طرف توجہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ لوگوں کی اخلاقی و دینی حالت درست کرنی ہے ۔معاشی بدحالی کا علاج کرنا ہے۔ عام جہالت کو دُور کرنا ہے۔ نظام تعلیم کی اصلاح کرنی ہے اور ایسے ہی بہت سے مسائل ہیں‘‘۔ لیکن ان کے نزدیک سب سے مقدم بات یہ تھی کہ: ’’ہم اپنے نظام زندگی کی بنیادوں پر اتفاق کرلیں اور یہ اتفاق صحیح بنیادوں پر ہو‘‘۔مولانا مودودی کو یقین تھا کہ ہم سب اسی لائحہ عمل کے تحت اپنے مسائل کو حل کر نے کی طرف قدم بڑھاسکیں گے اور ایک مستحکم پاکستان تعمیر کر سکیں گے۔