جاوید اقبال خواجہ


اگست ۱۹۴۷ء میں دنیا کے نقشے پر دو آزاد مملکتوں، پاکستان اور بھارت کا ظہور جدید ایشیائی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ ہندستان کی انگریزوں کے اقتدار سے آزادی ،ایک طویل تحریک کا نتیجہ تھی، جس میں برصغیر کے بڑے بڑے رہنما شامل تھے۔ لیکن جو شہرت اور اہمیت اس تحریک کے آخری دور میں محمدعلی جناح [م: ۱۹۴۸ء] اور موہن داس کرم چند گاندھی [م: ۱۹۴۸ء]کے حصے میں آئی، وہ کسی دوسرے رہنما کو نصیب نہیں ہوئی۔ ان رہنمائوں کے ہاتھوں آزادی کی تحریک تکمیل کو پہنچی اور ہندستان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ ہوگیا۔ ان کی خدمات کے پیش نظر قوم نے ایک کو قائداعظم اور دوسرے کو مہاتما کا لقب دے کر برصغیر کی تاریخ میں زندئہ جاوید کردیا۔ اس تحریک کے دونوں رہنمائوں کا تعلق گجرات کاٹھیا واڑ کے علاقے سے تھا۔ دونوں میں چند باتیں حیرت انگیز حد تک مشابہہ تھیں اور چند بالکل متضاد۔
دونوں رہنمائوں نے قانون کی تعلیم پائی اور پیشۂ وکالت سے وابستہ تھے۔ دونوں نے مغربی طرزِ سیاست کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ محمدعلی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کی ابتدا ہندستان میں کی، جب وہ ۱۹۰۹ء میں امپریل لیجسلیٹو کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ گاندھی جی کی سیاست کی ابتدا جنوبی افریقہ میں ہندستانیوں کے لیے حقوق حاصل کرنے کی تحریک شروع کرنے سے ہوئی۔ ہندستان میں دونوں انڈین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے سیاست میں داخل ہوئے۔ 
ان میں ایک مسلمان گھرانے کا فرد تھا اور دوسرا ہندو۔ اور دونوں کو فطرتاً اپنی اپنی قوم کے مفادات کا احساس پہلے ہوا اور آخر دم تک اسی احساس نے سیاسی میدان میں اُن کی راہیں اور منزلیں جدا رکھیں۔ دونوں برصغیر کی آزادی کے خواہش مند تھے اور اس کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل، لیکن آزادی کس شکل میں حاصل ہو، اس پر اُن میں بنیادی اختلاف تھا۔ گاندھی جی اور قائداعظم کی شخصیات اور اندازِ سیاست میں اختلاف نے ان رہنمائوں کی سیاسی حکمت عملی کے تعین میں بڑا اہم کردارادا کیا تھا۔ گاندھی جی کی سیاست کا انداز احتجاجی تھا، جب کہ جناح صاحب دستوری جدوجہد کے قائل تھے۔ گاندھی جی نے ہندستان کی سیاست میں ستیہ گرہ، مرن برت اور دن بھر کی خاموشی جیسی اصطلاحوں کو رواج دے کر ایک نئی راہ نکالنے کی کوشش کی تھی، جب کہ جناح صاحب پارلیمانی آدابِ سیاست کے سختی سے پابند تھے۔ گاندھی جی لباس اور عادات و اطوار سے ایک ’تارکِ دُنیا‘ انسان ہونے کا تاثر دیتے تھے اور اُن کے ایک دھوتی پر مشتمل لباس پر چرچل نے ’آدھا ننگا فقیر‘ ہونے کی پھبتی کَسی تھی۔ جناح صاحب کی زندگی ایک بااصول، کھرے، صاف گو، زندگی میں ڈرامائیت سے اجتناب اور انتہائی قابل وکیل کی زندگی تھی اور اُن کی خوش پوشاکی ضرب المثل تھی۔
۱۹۲۰ء تک دونوں کے باہمی تعلقات اچھے رہے اور اس کے بعد تحریک ِ آزادی کے مستقبل اور اُس کی راہ کے بارے میں دونوں لیڈروں میں اختلاف شروع ہوا۔ ۱۹۳۰ء کے اوائل تک جناح صاحب کوشش کرتے رہے کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ہندستان کے سیاسی مستقبل پر کوئی سمجھوتا طے پاجائے، لیکن کانگریس نے کسی قسم کے سمجھوتے کا امکان ردّ کر دیا۔ ۱۹۳۵ء سے جناح صاحب نے مسلم لیگ کی تنظیم نو شروع کی اور اُن کی زیرقیادت ۱۹۴۰ء میں مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کا مطالبہ پیش کر دیا۔ گاندھی جی ، کانگریس کے ترجمان کی حیثیت سے مسلمانانِ ہند کے اس مطالبے کے سب سے بڑے مخالف تھے۔ اُنھوں نے تحریروں ، تقریروں ، خطوط، جلسوں اور اپنی پرارتھنا کی محفلوں میں جناح صاحب کے ساتھ بحث و مباحثے اور پاکستان کی مخالفت کا آغاز کیا۔ ۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۷ء تک دس برس کے عرصے میں ’ہندو انڈیا‘ اور ’مسلم انڈیا‘ کے ترجمانوں کے درمیان ہندستان کے سیاسی مستقبل پر بڑی اہم، دل چسپ اور پُرجوش بحث ہوئی۔اس بحث کے مختلف مراحل سے تحریک ِ پاکستان کے مختلف اَدوار کی تاریخ کا اجمالی نقشہ سامنے آتا ہے۔
اس پوری جدوجہد کے دوران میں مذہب تمام دلائل کا اہم جزو تھا۔قائد کے نزدیک مسلمانانِ ہند کے تحفظ اور بقا کے لیے ضروری تھا کہ وہ ایک علیحدہ، خودمختار ریاست کے مالک ہوں، جہاں وہ غیرمسلم اکثریت کے اقتدار کے بغیر آزادانہ طور پر اپنے دین کے اصولوں کی روشنی میں زندگی بسر کرسکیں۔ گاندھی جی نے خود کو سرتاپا ہندو بنا لیا تھا اور اپنی پوری جدوجہد کا مقصد اپنے مذہب کا تحفظ قرار دیا تھا۔ اُنھوں نے ۱۹۲۰ء ہی سے عوامی سطح پر مذہبی جذبات کو برانگیختہ کر دیا تھا۔ قائداعظم اور مہاتما کے درمیان برصغیر کے سیاسی مستقبل کے بارے میں جو اختلافات تھے، اُنھیں سمجھنے کے لیے ہم دونوں لیڈروں کے درمیان رابطے اور تعلقات کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

جناح - گاندھی تعلقات کا اوّلین دور

دونوں رہنما ایک دوسرے کو کب سے جانتے تھے، اس کی قطعی تاریخی کا کہیں ذکر نہیں۔ تاہم، گاندھی جی کے کاغذات میں ایک خط ریکارڈ پر ہے جو اُنھوں نے ۲۲فروری ۱۹۰۸ء کو Indian Opinion کو لکھا تھا۔ اس میں اُنھوں نے جنوبی افریقہ میں اپنی ستیہ گری تحریک کا دفاع کرتے ہوئے اس الزام کو غلط بتایا کہ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں وہاں ہندوئوں اور مسلمانوں میں پھوٹ پڑگئی ہے۔ اس خط میں گاندھی جی نے لکھا ہے کہ وہ جناح صاحب کو جانتے ہیں اور  اُن کی بہت عزت کرتے ہیں۔
جنوبی افریقہ سے واپسی پر گاندھی جی کے اعزاز میں مختلف تقریبات منعقد ہوئیں۔ ۱۸؍اگست ۱۹۱۴ء کو ’سیسل ہوٹل‘ لندن میں منعقد ہونے والی ایک ایسی تقریب میں جناح صاحب بھی شریک تھے۔ بمبئی میں سر جہانگیر پیٹٹ کے گھر جنوری ۱۹۱۵ء میں ہونے والی اسی طرح کی ایک گارڈن پارٹی میں بھی جناح صاحب مدعو تھے۔ گاندھی جی نے اس پارٹی میں قائد کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’مسٹر جناح گجراتی ہونے کی وجہ سے وہاں موجود تھے، مجھے یاد نہیں کہ اصل مقرر کی حیثیت سے یا صدر کی حیثیت سے ، مگر اُنھوں نے انگریزی میں چھوٹی سی خوب صورت تقریر کی تھی‘‘۔
۳۰دسمبر ۱۹۱۵ء کو بمبئی میں ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں دونوں لیڈر شریک ہوئے ۔ اکتوبر ۱۹۱۶ء میں بمبئی میں صوبائی کانفرنس میں جناح صاحب کو اس کا صدر چنا گیا۔ اس موقعے پر تقریر کرتے ہوئے گاندھی جی نے جناح صاحب کے متعلق کہا: ’’ایک قابل مسلمان، ایک ممتاز وکیل اور نہ صرف لیجسلیٹو کونسل کے ممبر بلکہ ہندستان میں مسلمانوں کی سب سے بڑی انجمن (association)کے صدر بھی‘‘ (جناح صاحب آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر تھے، جسے گاندھی جی نے ایسوسی ایشن قرار دیا)۔
تین ماہ بعد دسمبر ۱۹۱۶ء میں دونوں رہنما پھر لکھنؤ میں کُل ہند مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں جمع ہوئے جہاں گاندھی جی نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ ’’نہ صرف اُردو کی ترویج و ترقی میں حصہ لیں، بلکہ ہندی بھی سیکھیں‘‘۔
۱۶ جون ۱۹۱۸ء کو جناح صاحب اور گاندھی جی نے بمبئی میں ’ہوم رول لیگ‘ کے ایک جلسے سے خطاب کیا، جس میں ۱۵ہزار کے لگ بھگ افراد شریک تھے۔ جناح صاحب نے اس موقعے پر ہندستانی فوج کے متعلق برطانوی پالیسی پر سخت نکتہ چینی کی۔ اس کے برعکس، اس زمانے میں گاندھی جی نے ہندستان سے برطانوی فوج کے لیے بھرتی کی مہم شروع کر رکھی تھی اور جناح صاحب سے اس مہم میں تعاون کے طالب تھے۔
۱۹۲۰ء میں گاندھی جی نے قومی پیمانے پر ’عدم تعاون‘ اور ’سول نافرمانی‘ کی تحریک شروع کردی جو فی الحقیقت تحریک ِ خلافت کا حصہ تھی۔ جناح صاحب کا خیال تھا کہ عوام کی تربیت کے بغیر سول نافرمانی کی تحریک تشدد کی راہ پر چل پڑے گی اور آزادی کی جدوجہد میں رخنہ انداز ہوگی۔ دوسال بعد اُن کا یہ خیال صحیح ثابت ہوا۔ ستمبر۱۹۲۰ء میں کانگریس کے اجلاسِ کلکتہ میں جناح صاحب نے عدم تعاون کی تحریک سے اپنے اختلافات کی نوعیت بیان کرتے ہوئے سبجیکٹ کمیٹی میں   عدم تعاون کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ یوں اس قرارداد کے خلاف واحد ووٹ اُنھی کا تھا۔
دونوں رہنمائوں کے درمیان جدائی کی یہ خلیج دسمبر ۱۹۲۰ء تک اور بڑھ گئی۔ ناگ پور میں کانگریس کے سالانہ اجلاس میں جناح صاحب نے ایک دفعہ پھر عدم تعاون کی مخالفت کرتے ہوئے اس سلسلے میں اپنے شکوک کا اظہار کیا۔ بدقسمتی سے اُن کی تقریر پر ایوان میں زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا۔ یہ کانگریس کا آخری اجلاس تھا جس میں جناح صاحب نے شرکت کی۔
۱۹۲۴ء - ۱۹۲۵ء کے درمیان آل پارٹیز کانفرنس کے دوران میں ان دونوں رہنمائوں کے مابین متعدد مذاکرات ہوئے، جن کا مقصد ہندو مسلم اتحاد کی راہیں تلاش کرنا تھا۔ ۱۹۲۷ء میں دونوں رہنما، وائسرائے لارڈ ارون سے ملنے گئے، جہاں اُنھیں سائمن کمیشن کے تقرر کی اطلاع ملی۔ گاندھی جی اور جناح صاحب ، دونوں نے کمیشن کے بائیکاٹ پر اتفاق کیا۔ دسمبر ۱۹۲۸ء میں آل پارٹیز کانفرنس کے سامنے جناح صاحب نے: ’’مرکزی اسمبلی میں مسلمانوں کی ایک تہائی نمایندگی اور صوبوں کو اختیارات تفویض کرنے کی تجاویز پر اصرار کیا‘‘۔ کانفرنس میں اُن کی یہ تجاویز رد کر دی گئیں اور اُنھیں مسلمانوں کا نمایندہ تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا۔ جناح صاحب نے اس اجلاس کے بعد اپنے دوست جمشید کو بتایا تھا کہ: ’’یہ راستوں کی جدائی کا نقطۂ آغاز ہے‘‘۔ اس کے باوجود کچھ عرصے تک برصغیر کی آزادی کے لیے اُنھوں نے کانگریس کے ساتھ تعاون جاری رکھا۔
لیکن محمدعلی جناح، ہندستان میں جس دستوری طرزِ سیاست کے حامی تھے، وہ گاندھی جی کے احتجاجی اندازِ سیاست کے باعث ختم ہوچکا تھا۔ چنانچہ جناح صاحب نے ہندستان سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے کہا:
ہندو تنگ نظر ہیں اور میرے خیال میں ناقابلِ اصلاح۔ مسلمانوں کا کیمپ بے حوصلہ افراد سے بھرا ہوا ہے، جو مجھ سے کچھ بھی کہیں مگر کوئی کام کرنے سے پہلے ڈپٹی کمشنر سے ضرور پوچھیں گے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ ان دو گروہوں کے درمیان مجھ جیسے آدمی کے لیے جگہ کہاں؟ 

گاندھی - جناح تعلقات کا دوسرا دور

۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کا عرصہ برصغیر کی تاریخ کا اہم ترین دور ہے۔ ان دس برسوں میں وہ واقعات پیش آئے، جنھوں نے برصغیر کی تاریخ کے مستقبل کا تعین کر دیا۔ قائد کی غیرموجودگی سے مسلم سیاست انتشار کا شکار ہوگئی تھی۔ ہرسطح پر مسلمان رہنمائوں میں اختلافات پیدا ہوچکے تھے۔ ان حالات میں محمدعلی جناح ۱۴دسمبر ۱۹۳۴ء کو انگلستان سے واپس بمبئی کی بندرگاہ پر پہنچے تھے۔ وطن واپسی کے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا: 
مسلمان شدید خطرے میں تھے۔ میں نے ہندستان واپس آنے کا ارادہ کرلیا، کیوںکہ مَیں لندن سے اُن کی بہتری کے لیے کچھ نہیں کرسکتا تھا۔
انگلستان سے واپسی کے بعد محمدعلی جناح کے سیاسی خیالات میں بہت بڑی تبدیلی رُونما ہوچکی تھی۔ اب وہ اس نظریے کے قائل تھے کہ جب تک مسلمان متحد، منظم اور مضبوط نہیں ہوں گے، ہندوئوں کے ساتھ کسی باعزت سمجھوتے کا امکان نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کرنے سے جناح صاحب کے نزدیک ہندو مسلم تعاون کا امکان کسی صورت میں ختم نہیں ہوتا تھا۔ ۱۹۳۶ء سے ۱۹۳۷ء تک وہ مسلسل ہندو مسلم تعاون کے لیے بار بار اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مئی ۱۹۳۷ء میں اُنھوں نے گاندھی جی کو لکھا:’’ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک باعزت سمجھوتے کو مجھ سے زیادہ اور کون پسند کرے گا؟‘‘
’ہندومسلم اتحاد‘ کے بجاے ’ہندو مسلم تعاون‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اب برابری کی سطح پر سیاسی سمجھوتے میں فریق بننا چاہتے تھے۔ مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمایندہ جماعت تسلیم کرنے کے بجاے پنڈت نہرو [م: ۱۹۶۴ء] نے اسے ’اعلیٰ طبقے کے مٹھی بھر نااہلوں کا گروہ‘ قرار دیا جس سے تعاون کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ۱۹۳۷ء کے صوبائی انتخابات کے بعد کانگریس نے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کی ہر پیش کش پاے حقارت سے ٹھکرا دی۔ یہ پالیسی قائد کے جذبۂ تعاون کے لیے ایک چیلنج تھی۔ اُنھوں نے کانگریس کے رویے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: 
کانگریس کی موجودہ قیادت، خصوصاً پچھلے دس برسوں میں، خالص ہندو طرزِعمل اختیار کر کے ہندستان کے مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کی ذمے دار ہے۔ مجھے کہنے کی اجازت دیجیے کہ کانگریس کی موجودہ پالیسی کا نتیجہ طبقاتی کشاکش، فرقہ وارانہ جنگ اور بالآخر برطانوی سامراج کا اقتدار مستحکم کرنے کی صورت میں نکلے گا۔
اس بے لاگ تقریر پر گاندھی جی کا ردعمل جناح صاحب کے نام ایک خط کی صورت میں یوں ظاہر ہوا: ’’آپ کی پوری تقریر اعلانِ جنگ ہے‘‘۔ 
۵نومبر کو جناح صاحب نے جواباً لکھا: ’’مجھے افسوس ہے کہ آپ نے میری لکھنؤ والی تقریر کو اعلانِ جنگ سمجھا۔ اُس کی نوعیت خالص دفاعی ہے۔ ازراہِ کرم اُسے پھر پڑھیے اور سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ معلوم ہوتا ہے آپ نے پچھلے ۱۲ماہ کے دوران میں ہونے والے واقعات پر کوئی توجہ نہیں دی‘‘۔
دونوں رہنمائوں کے درمیان خط کتابت کی رفتار بڑھ گئی۔ گاندھی جی نے جناح صاحب کو بحث میں اُلجھانے کی نئی صورت نکالی۔ فروری ۱۹۳۸ء میں اُنھوں نے لکھا: ’’اپنی تقریروں سے اب آپ مجھے پرانے قوم پرست نظر نہیں آتے۔ جب میں ۱۹۱۵ء میں جنوبی افریقہ سے خود اختیار کردہ جلاوطنی کے بعد ہندستان واپس آیا تو ہرشخص آپ کو پکا قوم پرست سمجھ کر ہندوئوں اور مسلمانوں کی اُمید قرار دیتا تھا۔ کیا آپ اب بھی وہی مسٹرجناح صاحب ہیں؟‘‘ جناح صاحب کی تقریریں گاندھی جی کے نزدیک شاید صرف سودے بازی کے لیے تھیں، تبھی اُنھوں نے اُس خط میں لکھا: ’’اگر آپ کہیں کہ آپ وہی ہیں تو آپ کی تقریروں کے باوجود مَیں آپ کے الفاظ پر یقین کرلوں گا‘‘۔
جناح صاحب خوب سمجھتے تھے کہ ’قوم پرست‘ جیسی فریب کُن ترکیبوں میں اُلجھا کر گاندھی جی اُن کی توجہ اصل مسائل اور زیربحث نکات سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ بارہ دن بعد بڑے اختصار سے جواب میں لکھا: ’’قوم پرستی کسی فردِ واحد کی اجارہ داری نہیں اور آج کل کے زمانے میں اس کی حدود متعین کرنا ناممکن ہے۔ مجھے اس بحث کو مزید طول دینے کی خواہش نہیں‘‘۔
کانگریس اور مسلم لیگ کے رہنمائوں کے درمیان اس کش مکش کا فائدہ براہِ راست انگریزی حکومت کو پہنچ رہا تھا۔ حالات اب اس مقام تک آگئے کہ جناح صاحب کے نزدیک دونوں جماعتوں کے درمیان باہمی سمجھوتا بہت ضروری تھا، تاکہ ہندستان کی آزادی کے لیے اجتماعی طور پر کوشش کی جائے۔ اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ: کانگریس، مسلم لیگ کو مسلمانانِ ہند کی واحد نمایندہ جماعت تسلیم کرلے تاکہ دونوں قوموں کے درمیان تعاون کی راہیں تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ جناح صاحب کا مطالبہ جان لینے کے بعد گاندھی جی نے ۸مارچ ۱۹۳۸ء کو لکھا کہ: ’’کچھ نکات قابلِ بحث ہیں، اور اس کے لیے اُنھوں نے ملاقات کی تجویز پیش کی‘‘۔
۲۸؍اپریل ۱۹۳۸ء کو دونوں رہنمائوں کی بمبئی میں ملاقات ہوئی، جس میں کانگریس کے صدر سبھاش چندر بوس [م: ۱۹۴۵ء] بھی شریک تھے۔ جناح صاحب نے اس ملاقات میں اصرار کیا کہ:’ ’کانگریس، مسلم لیگ کو مسلمانوں کی واحد نمایندہ جماعت تسلیم کرلے‘‘۔ لیکن گاندھی جی اور سبھاش چندر بوس نے یہ موقف مسترد کر دیا۔ چنانچہ بات چیت ناکام ہوگئی۔ اس ملاقات کے بعد بھی سبھاش چندر بوس اور گاندھی جی نے جناح صاحب کے ساتھ خط کتابت جاری رکھی، تاہم گاندھی جی، اس حقیقی تقاضے کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
۱۹۳۸ء میں جناح صاحب کے پیش نظر سب سے اہم مسئلہ مسلم لیگ کی تنظیم نو اور مسلم عوام کی زیادہ سے زیادہ حمایت کا حصول تھا۔ پنڈت نہرو کے نام ایک خط میں انھوں نے لکھا: ’’تنظیم جس قدر اہم ہو، اُسی قدر اُس پر توجہ دی جاتی ہے، لیکن یہ اہمیت اس بات سے پیدا نہیں ہوتی کہ اسے باہر کے لوگ تسلیم کر رہے ہیں، بلکہ یہ اہمیت تنظیم کی اندرونی فطری قوت کی پیداوار ہوتی ہے‘‘۔ گاندھی جی نے محسوس کرلیا کہ جناح صاحب کی شبانہ روز محنت کی بدولت مسلم لیگ ایسی قوت بن چکی ہے جسے نظرانداز کرنا اب ناممکن ہے۔تاہم، مسلم لیگ کی نمایندہ حیثیت تسلیم کر کے براہِ راست معاملہ کرنے کے بجاے اُنھوں نے ایک اور حربہ استعمال کیا۔ وہ یہ کہ ۱۶ جنوری ۱۹۴۰ء کو جناح صاحب کے نام بڑے دوستانہ انداز میں خط میں پہلی بار اُنھوں نے ’قائداعظم‘ کا خطاب استعمال کیا تھا۔
’ڈیئر قائداعظم‘ کے الفاظ سے شروع ہونے والے اس خط کے ساتھ گاندھی جی نے  اخبار ہریجن  میں اشاعت کے لیے بھیجے جانے والے ایک مضمون کی پیشگی کاپی ملفوف کی تھی۔ مضمون میں جناح صاحب کو ایک ’پُرانا رفیق‘ قرار دیتے ہوئے اُنھوں نے لکھا تھا :’ ’اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ہم آج بعض معاملات پر ایک دوسرے سے آمنے سامنے بیٹھ کر بات نہیں کرتے۔ اس سے ان کے لیے (جناح صاحب کے لیے) میرے دل میں جو خلوص ہے، اُس پر کوئی حرف نہیں آتا‘‘۔ اس مضمون میں گاندھی جی نے تجویز پیش کی تھی کہ: ’’اگر جناح صاحب ہندستان کی تمام اقلیتوں پر مشتمل ایک مشترکہ پارٹی تشکیل دے سکیں، تو یہ ہندستان کی بہت بڑی خدمت ہوگی‘‘۔
قائداعظم واضح طور پر ثابت کرچکے تھے کہ: ’’مسلمان، ہندستان میں اقلیت نہیں، ایک الگ قوم ہیں‘‘۔ اسی لیے وہ کانگریس سے برابری کی سطح پر معاملہ کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اُنھوں نے ۲۱جنوری ۱۹۴۰ء کو گاندھی جی کے نام اپنے خط میں لکھا: ’’آپ کے مضمون میں بیش تر مواد صرف وہم کا نتیجہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، اور دوسری یہ کہ  آپ کے خیالات کی رہنما آپ کی ’اندر کی آواز‘ ہے۔ آ پ کا حقیقتوں سے، جنھیں عام اصطلاح میں عملی سیاست کہا جاتا ہے، بہت کم واسطہ رہ گیا ہے‘‘۔
۱۹۴۰ء کے اوائل میں برصغیر کے سیاسی مستقبل کے متعلق بحث ’قومیت‘ کی تعریف کے گرد گھوم ری تھی۔ گاندھی جی کے نزدیک مذہب کی تبدیلی سے قومیت کی حدود پر کوئی حرف نہیں  آتا تھا۔ ۲۷جنوری کو اُنھوں نے اسی موضوع پر ہریجنمیں ایک مضمون لکھا۔ دوسری طرف جناح صاحب اس بحث کو ہمیشہ کے لیے طے کرچکے تھے کہ ہندستان کے مسلمان دنیا کے ہرقانون کے مطابق ایک علیحدہ قوم ہیں۔ اسی بنیاد پر اب قوم کے لیے الگ وطن کی ضرورت تھی۔ مارچ ۱۹۴۰ء میں کُل ہند مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں ایک لاکھ سے زائد افراد کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے مسلمانانِ ہند کی منزل کی نشان دہی کی اور پوری قوت سے اعلان کیا کہ:’ ’ہندستان کو تقسیم کرکے خودمختار ریاستوں کی تشکیل کی جائے‘‘۔
آنے والے برسوں میں پاکستان کا حصول مسلمانانِ ہند کی منزل بن گیا۔ مسلم لیگ کی پالیسی اور پروگرام اسی مقصد کے لیے وقف ہوگئے۔ مسلمان اب اپنی راہیں منتخب اور منزل متعین کرچکے تھے۔ گاندھی جی کے لیے قرارداد لاہور اور جناح صاحب کی تقریر شاید ایک ناقابلِ یقین واقعے کے طور پر سامنے آئی تھی۔ اُن کا ابتدائی ردعمل غصّے اور گہرے صدمے کے اظہار پر مبنی تھا۔ ۶؍اپریل کے ہریجنمیں مسلمانوں کے عزم پر شک کا اظہار کرتے ہوئے اُنھوں نے لکھا: 
مسلمان کبھی ہندستان کی چیرپھاڑ (vivisection) اور واضح خودکشی پر رضامند نہیں ہوںگے، جو تقسیم کا نتیجہ ہوگی۔
قراردادِ لاہور کی شکل میں مسلم لیگ کی طرف سے تقسیم کا مطالبہ، گاندھی جی کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ اس کے بعد اُن کے لہجے میں بڑی تُندی آگئی اور اُن کے قلم سے یکے بعد دیگرے تقسیم ہند کے خلاف مضامین نکلنے لگے۔ ساتھ ہی ساتھ اُنھوں نے قائداعظم کی ذات کو سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا: ’’تقسیم کا تصور بالکل خلافِ حقیقت ہے۔ میری روح اس نظریے کے خلاف بغاوت کرتی ہے کہ اسلام اور ہندو ازم دو مخالفانہ تمدن اور نظریات پیش کرتے ہیں‘‘۔
گاندھی جی نے مسلمانوں کے مطالبے کے خلاف ایک اور دلیل پیش کی کہ ’’ہندو اور مسلمان دراصل ایک ہی قوم کے دو بازو ہیں اور مسلمان، ہندوئوں سے اس لیے زیادہ مختلف نہیں کہ اُنھوں نے اسلام قبول کرلیا ہے‘‘۔اُنھوں نے مزید لکھا: ’’مجھے اس نظریے کی ہرقیمت پر مخالفت کرنی ہے کہ کروڑوں ہندستانی جو کل تک ہندو تھے، اُنھوں نے اسلام کو مذہب کے طور پر قبول کرتے ہی اپنی قومیت بدل لی‘‘۔
قائداعظم نے گاندھی جی کے اس بیان کی کہ: ’ہندستانی کل تک ہندو تھے‘، تردید کرتے ہوئے کہا: ’’ایک ہزار سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت، ایک علیحدہ معاشرے، اپنے علیحدہ فلسفۂ حیات اور علیحدہ عقیدے کے تحت زندگی بسر کرتی چلی آرہی ہے۔ پھر یہ کیسی لغو اور فضول بات ہے کہ عقیدے کی تبدیلی مطالبۂ پاکستان کی بنیاد نہیں بن سکتی!‘‘
اپنی دلیل کے ثبوت میں اب گاندھی جی نے جناح صاحب کا نام مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا:’’اُن کا نام کسی ہندو کا بھی ہوسکتا تھا۔جب میں اُن سے پہلی بار ملا تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ مسلمان ہیں۔ مجھے اُن کا مذہب اُس وقت معلوم ہوا جب مجھے اُن کا پورا نام بتایا گیا۔ اُن کی ہندستانی قومیت اُن کے انداز اور اُن کے چہرے پر نقش تھی‘‘۔
۴مئی کو ہریجن کے شمارے میں ایک دفعہ پھر گاندھی جی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے کہا کہ: ’’مسلمانوں کی اکثریت تقسیم کے منصوبے کو رد کردے گی۔ میں اسے تسلیم نہیں کرسکتا کہ مسلمان واقعی ہندستان کے ٹکڑے کرنا چا ہتےہیں‘‘۔
گاندھی جی کے اندازِ بحث کے جواب میں ۱۹۴۰ء میں قائداعظم نے تقسیم کے خلاف کانگریس اور گاندھی جی کی تمام دلیلوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’متحدہ ہندستان کا تصور برطانوی نوآبادیاتی نظام کی پیداوار ہے‘‘۔ اُنھوں نے مزید کہا:’’حیرت ہے کہ مسٹر گاندھی اور راج گوپال اچاریہ [م: ۱۹۷۲ء] ، قراردادِ لاہور کو ہندستان کو چیرپھاڑ اور بچے کو دو ٹکڑوں میں کاٹنے کی اصطلاحوں سے کیسے تعبیر کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہندستان فطری طور پر پہلے ہی منقسم ہے۔ مسلم انڈیا اور ہندو انڈیا جغرافیے کی صورت میں موجود ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ چیخ پکار کیسی ہے، کہاں ہے وہ ملک جسے تقسیم کیا جارہا ہے؟ کہاں ہے وہ قوم جسے بکھیرا جا رہا ہے؟ انڈیا قومیتوں کا مجموعہ ہے۔ ذاتیں اور گروہ اُس پر مستزاد ہیں‘‘۔
آنے والے مہینوں میں گاندھی جی کی مہم میں تیزی آگئی اور لہجے کی درشتی میں اضافہ ہوگیا۔ ستمبر ۱۹۴۰ء میں تقسیم اور پاکستان کے قیام کے خلاف اُن کی تلخ ترین تحریر سامنے آئی: ’’ہندستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنا طوائف الملوکی سے بھی بدتر ہے‘‘ ۔ اُنھوں نے دھمکی دیتے ہوئے کہا: ’’یہ ایسی چیرپھاڑ ہے جسے برداشت نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
جناح صاحب نے اس پوری مہم کے جواب میں کہا: ’’ہم تقسیم کے نتائج کا سامنا خود کرلیں گے۔ آپ اپنی فکری کریں‘‘۔ 
پاکستان کے قیام کے خلاف گاندھی جی کی جذباتی تحریروں اور تقریروں سے ہندستان بھر میں کشیدگی کی فضا پیدا ہورہی تھی۔ قائداعظم کو معلوم تھا کہ اگر اُنھوں نے اُن کے جواب میں وہی لہجہ اختیار کیا تو اس کا نتیجہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے کی صورت میں نکلے گا۔ اس لیے اُنھوں نے فضا سے کشیدگی کم کرنے کے لیے مسلمانانِ ہند کو ہدایت کی کہ: ’’وہ ہمیشہ معقولیت کو پیش نظر رکھیں اور اپنے مخالفین کو سنجیدگی سے قائل کرنے کی کوشش کریں‘‘۔ اُن کے نزدیک سب سے اہم اور قابلِ توجہ بات یہ تھی کہ:’ ’مسلمان پاکستان کے حصول کو اپنا مطمح نظر بنالیں جو اُن کے لیے موت و حیات کا معاملہ ہے‘‘۔
تقسیم کے متعلق دونوں لیڈروں کے درمیان پوری بحث کا سب سے دل چسپ پہلو یہ ہے کہ گاندھی جی نے تقسیم کی مخالفت کے لیے ایسے بھاری اور بوجھل الفاظ کا انتخاب کیا، جن سے تکلیف اور تشدد کا اظہار ہوتا تھا، جیسے کاٹ دینا (cut)،کاٹ کر علیحدہ کرنا ( carve) ، حصے بخرے کرنا (dismember) اور چیرپھاڑ کرنا (vivisect) ۔ 
اس کے مقابلے میں جناح صاحب کی طرف سے پاکستان کے قیام کے لیے الفاظ کے استعمال میں سنجیدگی اور تقسیم کے مطالبے کا مثبت پہلو نمایاں ہوکر سامنے آتا تھا،جیسے: تشکیل جدید  کرنا (re-construction)،اَزسرِنو ترتیب دینا (re-constitute) اور حدبندی کرنا (demarcate) وغیرہ۔
۱۹۴۲ء میں حالات نے ایک نئی کروٹ لی۔ یورپ میں دوسری جنگ ِ عظیم اپنے پورے عروج پر تھی اور جنگ میں برطانوی پوزیشن کمزور پڑرہی تھی۔ ہندستان کو جنگی کوششوں میں شامل کرنے اور اُس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے، نیز امریکی دبائو کے پیش نظر، برطانوی حکومت نے کرپس مشن ہندستان بھیجا۔ مشن کی تجاویز کانگریس اور مسلم لیگ،دونوں نے مسترد کر دیں۔ تاہم، مشن سے بات چیت میں یہ امر مستحکم ہوکر سامنے آیا کہ مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ جماعت ہے۔ کانگریس کی قیادت کو احساس ہوا کہ مسلم لیگ کے تعاون کے بغیر آزادی کا حصول ناممکن ہوگا۔ ۱۹؍اپریل کے ہریجن  میں گاندھی جی نے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا:
اگر مسلمانوں کی غالب اکثریت اپنے آپ کو ایک ایسی علیحدہ قوم تصور کرتی ہے، جس کی ہندوئوں اور دوسری قوموں کے ساتھ کوئی چیز مشترک نہیں، تو دنیا کی کوئی طاقت اُنھیں اس کے خلاف سوچنے پر مجبور نہیں کرسکتی۔
گاندھی جی کی اس تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اُنھوں نے تقسیم کے معاملے میں مسلمانوں کے موقف کو تسلیم کرلیا تھا، لیکن وہ کچھ اور سوچ رہے تھے:’’میں ابھی تک مطالبۂ پاکستان کا قائل نہیں ہوا۔ لیکن مَیں اپنے مخالفین سے کہتا ہوں کہ وہ مجھے ملیں اور مجھے دوستانہ طریقے سے قائل کرنے کی کوشش کریں‘‘۔
گویا یہ موقف کی تبدیلی کے بجاے حکمت عملی کی تبدیلی تھی۔ گاندھی جی ۱۹۴۰ء کے بعد جس انداز سے تقسیم اور پاکستان کے قیام کے مطالبے کے خلاف مہم چلا رہے تھے، اُس کے    پیش نظر اُنھیں تقسیم کا بنیادی اصول مان لینے پر قائل کرنا اس لیے ممکن نہ تھا کہ وہ ابھی تک تقسیم کو، مقدس گائے کو دو ٹکڑوں میں کاٹنے کے مترادف قرار دے رہے تھے۔
جناح صاحب نے گاندھی جی کی تجویز کا جواب دیتے ہوئے کہا:’’ گاندھی جی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کی تجویز کا کیا مطلب ہے۔ کسی فانی انسان کے بس کی بات نہیں کہ       وہ مسٹرگاندھی جیسے شخص کو مسلمانوں کے مطالبے کی صحت کا قائل کرسکے۔ اُنھیں تو صرف اُن کی ’اندرونی آواز‘ ہی قائل کرسکتی ہے جسے وہ (گاندھی جی) آسمانی قرار دیتے ہیں‘‘۔
۱۹۴۲ء کے آخر تک دونوں رہنمائوں کے درمیان تقسیم کی بحث سے متعلق بیش تر دلائل کا فیصلہ ہوچکا تھا۔ ۱۹۳۸ء میں قائداعظم نے مطالبہ کیا تھا کہ: ’’وہ مسلم لیگ کو مسلمانانِ ہند کی نمایندہ جماعت تسلیم کرکے بات چیت کرے‘‘۔ ۱۹۴۲ء تک کانگریس اس مطالبے کو واضح طور پر تسلیم کیے بغیر کسی نہ کسی طرح گفت و شنید کر رہی تھی۔ ۱۹۴۲ء میں بحث کا محور یہ تھا کہ پاکستان کے قیام کے مطالبے پر کس انداز سے بات چیت میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔
۱۹۴۳ء کا پور ا سال گاندھی جی نے ’انڈیا چھوڑ دو‘ (Quit India) تحریک شروع کرنے کے جرم میں آغاخان پیلس میں نظربندی میں گزارا۔ ’انڈیا چھوڑ دو‘ کی تحریک کا ظاہری مقصد انگریزوں سے ہندستان کے مستقبل پر کانگریس کا نقطۂ نظر منوانا تھا، تاکہ سارے اختیارات اُس کے ہاتھ میں آجائیں اور اس طرح مسلمانانِ ہند پر اپنی مرضی کا سمجھوتا مسلط کیا جاسکے۔ 
’ہندستان چھوڑ دو‘ کے نعرے کے جواب میں جناح صاحب نے اُس کی تصحیح کرتے ہوئے مطالبہ کیا : ’تقسیم کرو اور چلے جائو‘ (Divide & Quit)۔ اُنھیں معلوم تھا کہ کانگریس، انگریزوں کی نازک پوزیشن کے پیش نظر ملک بھر میں تحریک چلا کر ہندستان کے مستقبل سے متعلق اپنی مرضی کا فیصلہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
گاندھی جی نے جناح صاحب کی پوزیشن کو امتحان میں ڈالنے کے لیے ایک نئی چال چلی اور بیان دیا: ’’ہم انگریز سے لڑ رہے ہیں۔ہمیں توقع ہے کہ آپ ہمارا ساتھ دیں گے‘‘۔     جناح صاحب نے فوراً جواب دیا:’’ہمیں معلوم ہے آپ کس سے لڑ رہے ہیں، اگر آپ واقعی انگریز سے برسرِ جنگ ہیں تو لڑ لیجیے۔ مسلمان کنارہ کش رہیں گے، انگریز کا ساتھ نہیں دیں گے‘‘۔
’Quit India‘ تحریک سے مسلمانوں کی علیحدگی کی وجوہ پر قائداعظم نے ایک بیان میں کہا: ’’آزاد ہندستان کے متعلق اُن (کانگریس) کا تصور ہمارے تصور سے مختلف ہے۔ ہم، ہندوئوں، مسلمانوں اور دوسروں کی آزادی چاہتے ہیں۔ مسٹر گاندھی کے نزدیک آزادی کا مطلب صرف کانگریس راج ہے‘‘۔
پُرجوش اور طاقت ور مطالبۂ پاکستان کے خلاف اب گاندھی جی نے بحث میں ایک اور رُخ کا اضافہ کیا۔ ۲۶ جولائی کو ہریجن میں لکھتے ہوئے اُنھوں نے یہ دلیل اختیار کی کہ: ’’کوئی ملک بخوشی اپنے کسی حصے کو ایک علیحدہ مملکت بنانے پر رضامند نہیں ہوگا، اس لیے کہ یہ آزاد، خودمختار ریاست کل اُسی ملک کے خلاف جنگ شروع کر سکتی ہے جس کا یہ پہلے حصہ تھی‘‘۔
گاندھی جی کا کوئی حربہ جناح صاحب کو اُن کے موقف سے نہ ہٹا سکا ۔ علی گڑھ کے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے ۲نومبر۱۹۴۳ء کو اُنھوں نے واضح کیا: ’’چین اور امریکا کی مشترکہ قوت بھی ہم پر ایسا آئین مسلط نہیں کرسکتی، جس میں مسلمانانِ ہند کے مفادات قربان کر دیے گئے ہوں‘‘۔
مسلم لیگ اور قائداعظم، ہندستان کی برطانوی راج سے آزادی کے اُتنی ہی شدت سے خواہاں تھے، جتنی کانگریس کی قیادت، لیکن مسلم قیادت کا موقف یہ تھا کہ آزادی سے قبل دونوں قوموں کے درمیان سمجھوتا ضروری ہے، جب کہ کانگریس کا مطالبہ تھا کہ انگریزہندستان کو اُس کے حال پر چھوڑ کر چلے جائیں، باقی معاملات ہم خود طے کرلیں گے۔
گاندھی جی اپنی نظربندی کے دوران میں کچھ ایسے اشارات دے رہے تھے، جیسے وہ پاکستان کے مسئلے پر اب واضح بات چیت کرنا چاہتے ہوں۔ جناح صاحب نے ایک بیان میں پوچھا : ’’اگر اُنھوں نے بات چیت کا ارادہ کرلیا ہے، تو مجھے براہِ راست لکھنے میں آخر کیا امر مانع ہے؟‘‘ اس پر گاندھی جی نے ۴مئی کو جواباً لکھا: ’’کیوں نہ ہم دونوں فرقہ وارانہ اتحاد کے عظیم سوال پر ایک مشترکہ حل تلاش کرنے کے لیے باعزم انسانوںکی طرح بات چیت کریں‘‘۔ جناح صاحب کے نزدیک خط کے مفہوم سے گاندھی جی کے رویے میں تبدیلی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ اسی لیے ایک اور سال ختم ہوگیا۔
مئی ۱۹۴۴ء میں گاندھی جی کی نظربندی ختم ہوئی۔ اُس وقت تک ۱۹۴۳ء کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نے ۴۷نشستیں حاصل کی تھیں اور کانگریسی مسلمانوں کے حصے میں صرف چار عدد سیٹیں آئی تھیں۔ اب کانگریس نے محسوس کرلیا کہ مسلم لیگ ایسی قوت بن چکی ہے، جس سے بہرصورت معاملہ کرنا پڑے گا۔
گاندھی جی کی نظربندی کے دوران میں اُن کے ایماسے راج گوپال اچاریہ، پاکستان کے سوال پر جنابِ جناح سے خط کتابت کر رہے تھے۔ راج گوپال اچاریہ فارمولے میں تقسیم کے اصول اور پاکستان کے قیام کو تسلیم کیا گیا تھا، لیکن کانگریس کا مطالبہ تھا کہ مسلم لیگ پہلے کانگریس کا ساتھ دے اور انگریز کو باہر نکالنے میں مدد کرے، اس کے بعد تقسیم ہوگی، جب کہ جنا ح صاحب آزادی سے قبل تقسیم کے خواہاں تھے۔ دراصل اُنھیں کانگریس کے وعدوں کا کوئی اعتبار نہیں تھا۔ جولائی ۱۹۴۴ء میں اس فارمولے کی بنیاد پر ہونے والی بات چیت کی ناکامی کا اعلان کر دیا گیا۔ 
۱۷جولائی کو گاندھی جی نے قائداعظم کے نام ایک خط میں ملاقات کی تجویز پیش کی۔ ۹اور ۲۷ستمبر ۱۹۴۴ء کے درمیان دونوں رہنمائوں کی باہمی بات چیت کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ مذاکرات کے چودہ دور ہوئے۔ اس دوران میں ہونے والی بات چیت، دونوں رہنمائوں نے ۲۴خطوط میں ریکارڈ کی جو ۱۵ہزار سے زائد الفاظ پر مشتمل تھے۔ ان مذاکرات میں قراردادِ پاکستان کی بنیاد پر غوروفکر کا آغاز ہوا۔ 
جنابِ جناح چاہتے تھے کہ گاندھی جی پاکستان کا مطالبہ اصولی طور پر تسلیم کرلیں، مگر   جسے گاندھی جی نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ: ’آپ کے اور میرے درمیان سمندر حائل ہے‘۔ پھر   راج گوپال اچاریہ کے فارمولے کو بنیاد بنا کر بات چیت کرنا چاہی، جسے جناح صاحب پہلے ہی مسترد کرچکے تھے۔ گاندھی جی نے تجویزپیش کی کہ: ’آپ مجھے پاکستان کے جواز پر قائل کرلیں، اور ساتھ یہ شرط بھی رکھی کہ: ’مجھے تمام فرقوں کا نمایندہ تصور کر کے بات چیت کی جائے، جسے قائداعظم نے پہلے ہی مسترد کرتے ہوئے لکھا: ’’یہ بالکل واضح ہے کہ آپ ہندوئوں کے سوا کسی اور گروہ کی نمایندگی نہیں کرتے اور آپ جب تک اپنی صحیح حیثیت اور حقائق کو تسلیم نہیں کرتے، میرے لیے آپ سے بحث کرنا بہت مشکل ہے اور آپ کو قائل کرنا اور بھی زیادہ دُشوار‘‘۔ گاندھی جی ابھی تک نظریاتی بحث میں اُلجھے ہوئے تھے۔ تقسیم کا اصول وہ کسی صورت بھی ماننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ بات چیت کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی۔
ان مذاکرات کا سب سے دل چسپ پہلو یہ تھا کہ گاندھی جی، کانگریس کے کسی عہدے دار کی حیثیت سے نہیں،اپنی ذاتی حیثیت میں بات چیت کر رہے تھے۔ قائداعظم نے گاندھی جی کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلاتے ہوئے لکھا: ’’کسی گفت و شنید اور سمجھوتے پر پہنچنا اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک دونوں پارٹیوںکی پوری نمایندگی نہ ہو۔ یہ معاملہ یک طرفہ ہے، اس لیے کہ کسی تنظیم پر اس کی پابندی عائد نہیں ہوگی، اور اگر سمجھوتا طے پا گیا تو آپ ایک فرد کی حیثیت سے کانگریس اور ملک کے سامنے اس کی سفارش کریں گے، جب کہ مسلم لیگ کا صدر ہونے کی حیثیت سے مجھ پر اس کی پابندی لازم ہوگی‘‘۔
مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان آزادانہ طور پر کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے یہ آخری بات چیت تھی۔ کانگریس کی قیادت اور خصوصاً گاندھی جی، مسلمانانِ ہند کی پاکستان کے قیام کی واضح خواہش کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ملک کی تقسیم کے متعلق راج گوپال اچاریہ اور گاندھی جی کا فارمولا، جنابِ جناح نے پاکستان کے مطالبے کو ڈائنامیٹ کرنے کا منصوبہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔
 وائسرائے لارڈ ویول [م:۱۹۵۰ء]کی تحریک پر ہندستانی رہنما جولائی ۱۹۴۵ء میں گرمائی دارالحکومت شملہ میں جمع ہوئے جن میں قائداعظم اور گاندھی جی بھی شریک تھے، لیکن دونوں رہنمائوں کے درمیان علیحدہ مذاکرات نہ ہوئے۔ شملہ کانفرنس بھی کسی سمجھوتے پر پہنچنے میں ناکام ہوگئی۔ اس کانفرنس میں گاندھی جی نے یہ تاثر دیا گویا بادل نخواستہ بات چیت میں شریک ہیں اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ جنابِ قائد نے بمبئی میں تقریر کرتے ہوئے پوچھا کہ: ’’گاندھی جی اگر کانفرنس میں شرکت نہیں کرنا چاہتے تھے تو وہ شملے گئے کیوں تھے؟‘‘ شملہ کانفرنس کی ناکامی کے بعد قائداعظم نے واضح طور پر اعلان کر دیا کہ: ’’مَیں پاکستان کے لیے زندہ رہوں گا اور پاکستان کے لیے مروں گا‘‘۔
تقسیم کے خلاف ابھی گاندھی جی کے ترکش میں تیر ختم نہیں ہوئے تھے۔ ۱۶؍اکتوبر ۱۹۴۶ء کے ہریجن میں اُنھوں نے مطالبۂ پاکستان کی اسلامی اساس پر حملہ کرتے ہوئے نیا شوشہ چھوڑا اور وہ تھا پاکستان کے مطالبے کو غیراسلامی قرار دینا۔ اُنھوں نے کہا: ’’مجھے پاکستان کا مطالبہ قبول کرنے میں تذبذب نہیں ہوگا، اگر مجھے اس مطالبے کے صحیح ہونے یا اسلام کے لیے مفید ہونے کا قائل کردیا جائے‘‘۔
اس کے ساتھ ہی اُنھوں نے خود فیصلہ صادر کر دیا: ’’مجھے پوری طرح یقین ہے کہ مطالبۂ پاکستان ، جو مسلم لیگ نے پیش کیا ہے ، غیراسلامی ہے اورمجھے اُسے ایک گناہِ عظیم کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں‘‘۔ گاندھی جی کے نزدیک: ’’وہ لوگ، جو ہندستان کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں، ہندستان اور اسلام دونوں کے دشمن ہیں‘‘۔
گاندھی جی اس پورے عرصے میں تقسیم کے خلاف جس طرح دلائل دے رہے تھے اور ان کے رویّے میں جس قدر شدت اور تیزی آرہی تھی، مسلمانانِ ہند اُتنی ہی قوت سے اپنی حمایت کُل ہند مسلم لیگ کے پلڑے میں ڈال چکےتھے۔ تقسیم اب ایک ناگزیر عمل تھا اور قیامِ پاکستان ایک نہ مٹنے والی حقیقت۔ کانگریس کی لیڈرشپ اب گاندھی جی کے اثر سے نکل کر نہرو ، کرشنامینن [م: ۱۹۷۴ء] اور پٹیل [م: ۱۹۵۰ء] کے ہاتھوں میں مرتکز ہوچکی تھی اور تمام تر فیصلے انھی تین افراد کی مرضی سے طے پاتے تھے۔ 
۲۴مارچ ۱۹۴۷ء کو مائونٹ بیٹن [م:۱۹۷۹ء]آخری وائسرائے کے طور پر برطانوی مقبوضہ ہندستان پہنچے، تو تقسیم کے متعلق بحث کے تمام نکات کا فیصلہ ہوچکا تھا۔تاہم، مائونٹ بیٹن ، ہندستان کو ایک متحد ملک کے طور پر اختیارات سونپنے کا تصور اورارادہ لے کر آئے تھے۔ گاندھی جی سے بڑھ کر اُن کو اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے اور کون سی ہستی مل سکتی تھی؟ لیکن قائداعظم نے نئے وائسرائے کے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں واضح کردیا کہ: ’اگر بات چیت ہوگی تو فقط پاکستان کی بنیاد پر‘۔ اب گاندھی جی نے اپنے ترکش کا آخری تیر استعمال کیا۔ اُنھوں نے مائونٹ بیٹن سے کہا کہ: ’وہ مسٹرجناح کو ہندستان کا وزیراعظم نامزد کردیں‘۔ 
غالباً وہ سوچ رہے تھے کہ شاید اس طرح تقسیم اور قیامِ پاکستان کچھ عرصے کے لیے ٹل جائے۔ ۶مئی کو گاندھی جی اور جناح صاحب کے درمیان وائسرائے کی تحریک پر مذاکرات کا ایک اور دور ہوا۔ گاندھی جی نے تقسیم کا اصول ماننے سے انکار کردیا۔ ۲۲جون کو اُنھوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرلیا: ’’ہندستان کی تقسیم ___ جہاں تک انسان دیکھ سکتا ہے، اب حقیقت بن چکی ہے‘‘۔ لیکن گاندھی جی شروع سے جس حقیقت سے انکار کرتے چلے آرہے تھے، اُسے اُنھوں نے اب بھی ماننے سے انکار کر دیا اور کہا:’’میں نے قائداعظم جناح کے دو قومی نظریے کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور نہ کبھی کروں گا‘‘۔
تاہم، پاکستان اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آچکا تھا۔ قیامِ پاکستان کی تحریک کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے ۳۰؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو قائداعظم نے لاہور میں کہا تھا:
ہم لوگ ایک گہری اور سوچی سمجھی سازش کا شکار رہے ہیں جو دیانت، جرأت مندی اور وقار کے بنیادی اصولوں کے خلاف پروان چڑھائی گئی تھی۔ ہم مالکِ حقیقی کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اُس نے ہمیں حوصلے اور یقین کی دولت سے نوازا کہ ہم بدی کی قوتوں سے لڑسکیں۔
[اس مضمون کے لیے مختلف اخبارات،رسائل اور درجہ ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے:

  1. An Autobiography: by M K Ghandi. This Book was also Published with title: The Story of My Experiments with Truth:  (translated from the original  Gujarati by  Mahadev Desi).
  2. Speaches & Writings of Mr Jinnah: Collected & Edited by Jamil-ud-Din Ahmed.
  3. Re: Hindu-Muslin Settlement: Correspondence Between Mr Ghandi  & Mr Jinnah published by: S.Shamsul Hasan, Assistant Secretary, All India Muslim League.
  4. Jinnah & Gandhi –Their Role in India’s Quest for Freedom:  by S K Majumdar Jinnah Gandhi Talks:  Text  of   correspondence  and  other relevant documents etc, Forward by Nawabzada Liaqat Ali Khan.
  5. The Partition of India; Policies and Perspective: 1935-1947, Edited by C H Philips, Director SOAS, University of London. 

قیامِ پاکستان کے ۱۱ سال اور ۵۴ روز بعد، ۷؍اکتوبر۱۹۵۸ء رات کےساڑھے دس بجے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلےصدر اسکندر مرزا [م:۱۳ نومبر ۱۹۶۹ء]نے ملک میں مارشل لا نافذکرکے قومی اور صوبائی حکومتوں کو برطرف ،مرکز اور صوبوں میں اسمبلیوں کو برخواست،سیاسی جماعتوں پر پابندی اور سپہ سالار جنرل محمد ایوب خان [م: ۱۹؍اپریل ۱۹۷۴ء]کو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا اعلان جاری کیا۔اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان میں سول حکومتوں کے خاتمے اورفوجی حکمرانی کے ۱۳ سالہ طویل دور کا آغاز ہوا، جس کا اختتام ۲۰دسمبر ۱۹۷۱ء  کو اُس وقت ہوا، جب آمریت کے تضادات، داخلی تصادم اور بھارتی یلغار کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔
اس زمانے میں مغربی دانش وَر اورمؤثر حلقے تسلسل سے یہ نظریہ پیش کر رہے تھے کہ: ’’فوج ترقی پذیر ممالک میں سب سے منظم اور جدید تعلیم یافتہ ادارہ ہے اور ان ملکوں میں فوجی اقتدار ہی ایک مؤثر نظام حکومت فراہم کر سکتا ہے جس کے ذریعے یہ ریاستیں ترقی کرسکتی‎ ہیں‘‘۔ 
جنرل محمد ایوب خان پاکستان کےپہلے فوجی حکمران تھے۔وہ ۱۷جنوری ۱۹۵۱ء کو پاکستانی افواج کے اولین کمانڈر انچیف بنے۔ انھوں نے اکتوبر۱۹۵۸ء سے مارچ ۱۹۶۹ء تک کے زمانے میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، فیلڈ مارشل اور پھر صدر کی حیثیت سے مجموعی طور پر ۱۰ سال سے زائد عرصہ تک متحدہ پاکستان میں حکومت کی۔ ان کی خواہش کے مطابق تیار کردہ ‎۱۹۶۲ء کا آئین، پارلیمانی نظام کے بجاے صدارتی نظام پر مبنی تھا، جو پوری طرح جنرل ایوب خان کی ذات کے گرد گھومتا تھا۔  ان کے دورِ حکومت میں پاکستان میں ایک نا ہموار اور غیر متوازان معاشی ، صنعتی اور زرعی ترقی ہوئی۔ تاہم، ان کے کئی ہمدرد آج تک انھیں ایک ’خیراندیش‘ آمر (Benevolent Dictator) کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں۔
جنرل ایوب خان کا نظریہ تھا کہ: ’’دورِجدید کے سیکولر نظام حکومت کو اپنا کر ہی پاکستان ترقی کر سکتا ہے‘‘۔ اپنے ۱۰ سالہ دور اقتدار میں انھوں نے پاکستانی عوام کوہمیشہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مسائل کا حل جدید دور کے نظریات ہی کی مدد سے ممکن ہے۔ انھیں اپنے بارے میں یقین تھا کہ صرف وہی پاکستان کے نجات دہندہ ہیں اور تمام ’رجعت پسند‘ (Reactionaries) اور   ’بنیاد پرست‘ (Fundamentalists ) قوتوں کو بے اثر کرسکتے ہیں، جو ان کے بقول: ’’اسے پتھر کے زمانے کی غاروں میں واپس دھکیلنا چاہتے ہیں‘‘۔
اس پورے عرصے میں ایک پالیسی کے تحت مولانا مودودی [م:۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء]کی ذات اورجماعت اسلامی، جنرل ایوب صاحب کا خاص ہدف تھی۔ جس کی وجوہ سیاسی اور نظریاتی بھی تھیں۔ اس دور میں جماعت اسلامی واحد سیاسی اور دینی پارٹی تھی، جو مولانا مودودی کی قیادت میں ایک واضح نصب العین کے ساتھ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام ، قانون کی حکمرانی کے احیا اور فوجی آمریت کے خلاف، جمہوریت پسند قوتوں سے مل کر بھرپور سیاسی جدوجہد کر رہی تھی۔
میاں طفیل محمد [م:۲۵ جون ۲۰۰۹ء]کے مطابق: ’’[ جنرل ایوب خان ] پاکستان میں مستقلاً غیر محدود حکمرانی کا اختیار حاصل کرنا چاہتے تھے اور مولانا مودودی کو اپنی راہ کی بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے مولانا مودودی کو لاہور کے گورنر ہاؤس میں بلا کران سےطویل ملاقات کی۔ میاں طفیل محمد جو اس میٹنگ میں مولانا کے ساتھ شریک تھے ،انھوں نے اس بات چیت کےبارے میں لکھا ہے کہ جنرل ایوب نے مولانا کو سمجھاتے ہوئے بہت ’مشفقانہ انداز‘  میں فرمایا: ’مولانا یہ سیاست تو بہت گندا کام ہے۔ آپ جیسے بلندکردار اور پاکیزہ نفس لوگ اس میں کیوں پڑگئے ہیں؟ آپ اسے چھوڑیں اور ملک کے اندر بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی تبلیغ فرمائیں۔ سیاست، سیاسی لوگوں کو کرنے دیں۔ اس دلدل میں تو جو بھی قدم رکھے گا، کیچڑ سے لت پت ہوگا ۔ آپ مذہب کا اور تبلیغ کا کام کریں تو ہماری حکومت آپ سے تعاون کرے گی‘۔ مولانا نے اس کے جواب میں فرمایا:’جنرل صاحب، آپ ٹھیک ہی فرماتے ہیں کہ اس وقت سیاست کو غلط کار اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے ایک گندا کھیل بنا دیا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے اور اس خرابی نے ہماری زندگی کے ہردوسرے شعبے کو فلتھ ڈپو [گندگی کا مرکز]بنا دیا ہے۔ اس لیے جب تک سیاست کو گندگی سے پاک نہیں کیا جائے گا، زندگی کے کسی شعبے کو بھی درست اور صحت مند نہیں بنایا جاسکتا۔ اجتماعی نظامِ زندگی سے اس گندگی کو دُور کرنے کی کوشش ہمارے نزدیک کوئی سیاسی کام نہیں، بلکہ سراسر ایک دینی فریضہ ہے‘‘۔
ایوب خان نے فرمایا: ’’مولانا، پھر یہ کام کرتے ہوئے تو آپ اپنے کو غلاظت کی آلودگی سے نہیں بچا سکتے‘‘۔ مولانا نے جواب دیا:’’اس میں کیا شک ہے کہ جو شخص بھی غلاظت اور سیوریج صاف کرنے کا کام کرے گا، وہ چاہے کتنی ہی احتیاط برتے، کچھ نہ کچھ چھینٹے تو اس کے کپڑوں پر ضرور پڑیں گے۔ لیکن اگر اس خوف سے سیوریج صاف ہی نہ کیا جائے تو پھر لامحالہ سارے شہر کی صحت خطرے میں پڑ جائے گی‘‘۔(مشاہدات ،میاں طفیل محمد،نومبر ۲۰۰۰ء، ص ۳۲۲)
مولانا مودودی کو سیاست سے دست بردار کرنے میں ناکامی کے باعث ایوب خان اور ان کے ساتھیوں کی سوچ میں، جماعت اسلامی اور امیر جماعت مولانا مودودی کے خلاف پہلے سے موجودمخاصمت میں اور بھی شدت آگئی۔ 
 –ایوب خان اپنے دورِ اقتدار میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف جارحانہ رویےپر قائم رہے ۔ اس منفی سوچ کا اندازہ ان کی خود نوشت Friends not Masters (’جس رزق   سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘) کے مطالعے سے ہوتا ہے، یا پھر ان کی تحریر کردہ ڈائری کے مندرجات سے، جو ۲۰۰۷ء میں امریکی مصنف اور سفارت کار کریگ بیکسٹر (Craig Baxter ) نے: Diaries of Field Marshal Muhammad Ayub Khan (1966-1972) کے نام سے مرتب کی اور اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔   
 اس سے پہلے کہ ہم مولانا مودودی کے بارے میں جنرل ایوب خان کی انتہائی آرا سے آگاہی حاصل کریں ،ایوب خان کےعروج اور زوال کے عوامل کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں: 
ایوب خان جنوری ۱۹۴۸ء میں مشرقی پاکستان میں جرنل آفیسر کمانڈنگ مقرر ہوئے۔ اس تقرر کے دوران انھیں وہاں کے تمام قابل ذکر سیاست دانوں سے ملنے کا موقع ملا اور ان کی باہمی چپقلش کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ پھر سیاست دانوں کے بارے میں فرض کر لیا کہ: ’’سیاست دان ملک کو ایک مضبوط اور مستحکم لیڈرشپ فراہم نہیں کر سکتے‘‘۔ ۱۹۵۰ء میں مشرقی پاکستان سے واپسی پر فوج کے ہیڈ کوارٹر (GHQ) راولپنڈی میں ایڈجوٹنٹ جنرل مقرر ہوئے۔ وہ فوجی افسروں کے سامنے مختلف لیکچرز میں بار بار یہ کہتے: ’’پاکستان کو چلانے کے لیے سیاست دانوں پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اس دوران ان کے تعلقات اسکندر مرزا سے استوار ہوئے، جو اس وقت پاکستان کےسیکریٹری دفاع تھے۔ اسکندر مرزا ہی کی حمایت سے ایوب خان جنوری ۱۹۵۱ء میں پہلے پاکستانی کمانڈر ان چیف مقرر ہوئے۔ اسی سال پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران ۱۶؍اکتوبر کو گولی مار کر شہید کردیا گیااورملک غلام محمدگورنر جنرل بن گئے [ملک غلام محمدکا تعلق بیورو کریسی کی آڈٹ اور اکاؤنٹ سروس سے تھا اور ۱۹۵۱ءمیں وہ پاکستان کے وزیر خزانہ تھے]۔ انھوں نے گورنر جنرل کے اختیارات کو ایک سویلین آمر کی طرح استعمال کیا اور دستور ساز اسمبلی ۲۴؍اکتوبر۱۹۵۴ء کو برخواست کر دی۔ ۱۹۵۵ء میں اسکندر مرزا نے ملک غلام محمد کو مستعفی ہونے پر مجبور کرکے خود گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔اس دوران ملک میں یکے بعد دیگرے تین وزیر اعظم تبدیل ہوئے، جب کہ دوسری جانب ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۸ء تک کے عرصے میں جنرل ایوب کو کمانڈر ان چیف کے عہدےپر (الطاف گوہر کے مطابق دوبار چار چار سال کی،جب کہ امریکی محقق ہربرٹ فیلڈمین کے مطابق انھیں دونوں مرتبہ پانچ پانچ سال کی) توسیع ملتی رہی۔ ۱۹۵۳ء میں ایوب خان نے ترکی کا دورہ کیا تو ترک فوج ان کی آئیڈیل بن گئی اور پھر ۱۹۵۴ء میں امریکا کے تفصیلی دورے میں ایوب خان امریکیوں کو یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ :’’میری سر براہی میں پاکستانی فوج خطے میں کمیونزم کو پھیلنے سے روک سکتی ہے‘‘۔   ایوب خان ہی کی کوششوں سے پاکستان سیٹو اور سینٹو کا ممبر بنا اور۱۹۵۵ءمیں امریکا اور پاکستان کے درمیان ’باہمی دفاعی معاہدہ‘طے پایا، جس سے پاکستان میں امریکی اثر ورسوخ اور قومی اُمور میں مداخلت میں بے حداضافہ ہوا۔یادرہے کہ ایوب خان۱۹۵۴ء سے کمانڈر انچیف کے ساتھ ساتھ وزیردفاع کے عہدے پر فائز تھے، اور اس حیثیت میں مرکزی کابینہ کے ایک انتہائی بااثر رکن تھے۔
۱۹۶۷ء میں شائع ہونے والی اپنی خودنوشتFriends Not Masters میں ایوب خان صاحب لکھتے ہیں: ’’آغاخان سوم [م:۱۱جولائی ۱۹۵۷ء]کی دُور اندیشی سے مَیں بہت متاثر تھا۔ مجھے ان سے بارہا گفتگو کا موقع ملا۔ لیاقت علی خاں کے قتل کے کچھ ہی دن بعد جب مَیں برطانیہ گیا ہوا تھا، آغاصاحب کی دعوت پر سمندر کے کنارے ایک پُرفضا مقام یاکی مور، نیس[فرانس] میں مَیں اُن کا مہمان تھا۔تب ان سے میری ایک دل چسپ ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھے کہا: ’میں کہے دیتا ہوں کہ اگر آپ نے پارلیمانی نظام اختیار کیا تو پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ دراصل میں نے یہی بتانے کے لیے تمھیں یہاں بلوایا ہے، اور تنہا تم ہی وہ شخص ہو جو پاکستان کو بچاسکتے ہو‘۔ میں نے پوچھا: ’آپ کے خیال میں کس طرح بچا سکتا ہوں؟‘۔وہ بولے: ’اس نظام کو بدل دو، اور یہ کام حقیقت میں تم ہی کرسکتے ہو‘‘(ص ۱۹۲)۔اور جنرل صاحب نے اس بات کو بطور ’وصیت‘ پلّے باندھ لیا۔
صدر اسکندرمرزا نے ۷؍اکتوبر۱۹۵۸ء کو ۱۹۵۶ء کا متفقہ پارلیمانی آئین منسوخ کردیا، اور پورے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے ایوب خان کونہ صرف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بلکہ مسلح  افوا ج کا سپریم کمانڈر بھی مقرر کردیا۔حالاں کہ ۱۹۵۶ء کے آئین کے مطابق یہ عہدہ صدر پاکستان کے لیے مخصوص تھا۔ پھر جنرل ایوب خان سپریم کمانڈر نے اپنے ہی اعلان کردہ مارشل لا نظام میں ۲۷؍اکتوبر کو اسکندرمرزا سےاستعفا لیا ، خودصدر بن گئے اورمرزا صاحب کو لندن جلاوطن کر دیا۔ پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ اس وقت تک کئی دھڑوں میں تقسیم ہو کر مختلف ناموں سے کام کررہی تھی۔ تب پاکستان میں مولانا مودودی کی سر براہی میں جماعت اسلامی وہ واحد سیاسی قوت تھی، جو پورے پاکستان میں ایک مضبوط تنظیم اور مربوط منشور کے ساتھ سرگرم عمل تھی۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی سخت گیر مارشل لا کی دہشت بٹھاکر اقتدار مستحکم کرلیا۔ ۱۹۵۹ء میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی، اور آزاد صحافت بھی قدغن کا شکار بن کر رہ گئی۔ ایوب دور میں عوام کی سیاسی عمل میں شرکت صرف ’بنیادی جمہوریت‘ کے نئے نظام کے تحت ہی ممکن بنائی گئی ۔ پاکستان کا صدر منتخب کرنے کا حق صرف ۸۰ ہزار مقامی رہنماؤں کو دے کرایوب خان نے یہ فرض کرلیا کہ اب وہ ہرقسم کے احتساب سے آزاد ہیں۔ ان کی حکومت کا دارو مدار بیورو کریسی پر تھا۔
ایوب خان کے قائم کردہ شخصی نظام میں حکومت پر جائز تنقید، بازپُرس اور اس کے احتساب کی کوئی گنجاش نہیں تھی۔جو بھی ان کے حکومتی اقدامات پر تنقید یا اعتراض کرنے کی کوشش کرتا تو اسے ’اقتدار کا بھوکا‘ اور ’غیر محب وطن‘ ٹھیرایا جاتا۔ مذہبی طبقے،علمااور خصوصاً مولانا مودودی، ایوب خان کی ناراضی کااس لیے خاص ہدف تھےکہ وہ منظم ترین پارٹی جماعت اسلامی کو اپنی تخلیق کردہ کنونشن مسلم لیگ کا اصل حریف سمجھتے تھے۔
Friends Not Masters  میں علما پر عموماً اور مولانا مودودی پر خصوصاً تنقید کی ہے۔ پھر ایوب خان نے نام لے کر تاریخی حقائق کے برعکس مولانا کو قوم پرست علمامیں شامل کرکے     لکھا ہے:’’جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودی نے جو پاکستان کے شدید مخالف تھے، پاکستان آتے ہی پاکستانی حکومت کو غیراسلامی قرار دے کر اسے اسلامی بنانے کی تحریک شروع کردی‘‘ [ص ۲۰۲، ۲۰۳]۔ ایوب خان کو دوسرے دیگربہت سے جدیدیت زدہ افراد کی طرح کاروبارِ مملکت میں اسلام کا نام لینے سے چِڑ تھی۔ ایوب خان صاحب کے دماغ میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ اسلامی دستور کی ساری جدوجہد کا مقصد صرف اقتدار کا حصول ہے۔ وہ سیاست دانوں اور دینی رہنماؤں پر بھروسا کرنے کے بجاے اپنے آپ کو پاکستان کا واحد خیرخواہ اور اس پر بلاشرکت غیرےحکمرانی کا جائزحق دار سمجھتے تھے۔
ایوب خان کی یہ ڈائری ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۲ء تک کے برسوں پر محیط ہے۔ ایوب خان کے بارے میں الطاف گوہر کی کتاب Ayub Khan - Pakistan’s First Military Ruler  کے مطالعےسے معلوم ہوتا ہے کہ اس ڈائری کے پہلے حصے کا مسودہ بھی موجود ہے، جو ۱۹۶۶ء سے پہلے کے برسوں پر مشتمل ہے، لیکن یہ جِلد ابھی تک کہیں نہیں چھپی۔ ایوب خان جب تک اقتدار میں رہے، انھوں نے ڈائری میں مولانا کا ذکر ہر جگہ صرف ’مودودی‘ کے نام سے کیا ہے (ہم نے ایوب خان کی تحریر کا ترجمہ کرتے ہوئے مجبوراً مولانا کے لیے صیغۂ واحد میں وہی لفظ استعمال کیا ہے)۔  
اس ڈائری میں مولانا مودودی کے حوالے سے پہلا نوٹ ۶ستمبر۱۹۶۶ءکو ایک ’سابق احراری عالم‘ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب [م:۲۳فروری ۱۹۸۴ء]کی مناسبت سےلکھا گیا ہے: ’’انھوں [صاحبزادہ فیض الحسن] نے کل مجھے بتایا کہ ’’مودودی کے حامی، دیوبندی گروپ اور احرار وغیرہ، میرے [یعنی ایوب خان کے] خلاف نفرت پھیلا رہےہیں۔وہ عائلی قوانین پر تنقید کر رہے ہیں، جن کے ذریعے غریب خواتین، یتیموں اور مجبور لوگوں کو بڑی مدد ملی ہے اور وہ خاندانی منصوبہ بندی اسکیم کی مخالفت کررہے ہیں‘‘ [ایضاً، ص ۵]۔ ایوب خان چاہتے یہ تھے کہ وہ جو بھی تبدیلی لائیں ہرطبقہ اسے من وعن تسلیم کر لے۔ اسی لیے اپنے نافذ کردہ عائلی اور ضبط ولادت کے قوانین پر تنقید کرنے والوں کو وہ ’اسلام کے نام پر ترقی کے سخت دشمن‘قرار دیتے اور الزام عائد کرتے ہیں کہ: ’’ان کے مذہبی فلسفے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیا سی شعوررکھنے والے لوگ مذہب سے دُور ہورہے ہیں۔ انھوں [علما] نے حسد کی وجہ سے ان لوگوں کو کافر قرار دیا ہے، جنھوں نے ملت ِاسلام میں محض روشن خیالی لانے کی کوشش کی ہے‘‘۔  [ڈائریز آف فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، ص۵]
۲؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو ڈائری میں لکھتے ہیں: ’’گورنرموسیٰ [ملک امیر محمد خان کی جگہ نئے گورنر] سے میٹنگ میں مودودی کی شرپسندانہ سرگرمیوں کا توڑ کرنے پر بات ہوئی ہے‘‘ [ایضاً،ص ۱۴]۔ حالاں کہ جماعت کی تمام تر سرگر میاں ہمیشہ کی طرح سیاسی اور قانونی دائرے کے اندر جاری تھیں۔
اگرچہ ایوب خان صاحب کو اپنی ’روشن خیالی‘ پر بڑا ناز تھا اور وہ خود کو’ جدیدیت‘ کا علَم بردار تصور کرتے تھے۔  لیکن رؤیتِ ہلال کے مسئلے پر ان کی توہم پرستانہ اقتدار پسندی کھل کر سامنے آتی ہے ۔ ۱۳جنوری ۱۹۶۷ء کے روز عید جمعے کو ہونے کا قوی امکان تھا ۔بدھ کی شام پورے ملک کے  کسی ‏علاقے سے رؤیتِ ہلال کی مصدقہ اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔ کسی نے ایوب خان کے دل میں یہ وہم ڈال رکھا تھا کہ: ’’عید جمعے کے دن نہیں ہونی چاہیے، کیوںکہ جمعے کے دن دو خطبے حکمرانوں پر بھاری ہوتے ہیں‘‘۔ اس لیے رات گئے ۱۲جنوری ۱۹۶۷ء جمعرات کو سرکاری طور پرعید منانے کا اعلان ہوگیا، جب کہ ہر مکتب ِ فکر کے علما نےزبردستی کی سرکاری عید منانے سے انکار کر دیا۔ 
ایوب صاحب نے علما کےبائیکاٹ کا سارا غصّہ مولانا مودودی اور کسی حد تک مولانا احتشام الحق تھانوی [م: ۱۱؍اپریل ۱۹۸۰ء] پر ظاہر کیا اور پیر آف دیول شریف [م: ۲۵ستمبر۱۹۹۵ء] کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’یہ لوگ لاؤڈ اسپیکروں پر اعلانات کرکے لوگوں کو ۱۲ تاریخ کو عید منانے سے منع کررہے تھے‘‘۔ ایوب خان کا کہنا ہے کہ: ’’یہ لوگ متوازی حکومت چلانے، اور عوام کی   بے خبری و معصومیت کو سیاسی استحصال کے لیے برتنے کی کوشش کر رہے ہیں… میں ایسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اسلام صرف رسم ورواج اور تقریبات منانے، دوسرے الفاظ میں ’مُلّا ازم‘ تک محدود نہ رہ جائے بلکہ یہ زندگی کا ایک متحرک فلسفہ بن جائے‘‘[ایضاً،ص ۴۸]۔ گویا کہ عید جیسے دینی شعار بھی ’رسم ورواج‘ میں شامل ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’یہ معاملہ سمجھ لینا چاہیے کہ مُلائوں میں شرپسند عناصر کو پیش قدمی نہیں کرنے دی جائے گی اور نتیجہ وہی ہوگا کہ جو معاملہ عیسائیت کے ساتھ ہوا یا پھر ترکی میں اسلام کے ساتھ، اور دیگر بہت سے ممالک میں بھی‘‘ [ایضاً،ص ۴۸]۔یادرہے کہ سرکاری ‏عید کو تسلیم نہ کرنے والے علما میں مولانا مودودی بھی شامل تھے اور ان کو گرفتار کرکے بنوں [خیبرپختونخوا]میں قید کردیا گیا تھا۔ ’ترقی‘ اور ’روشن خیالی‘ کی اس سے بہتر کیا اور مثال ہو سکتی تھی کہ جعلی عید نہ منانے والوں کی آزادی سلب کر کے ان کو دُور دراز کے علاقوں کی جیلوںمیں بند کر دیا جائے۔
ایوب خان کی اس پسندیدگی سے حوصلہ پاکر فیض الحسن صاحب نےبھانپ لیا تھا کہ     مولانا مودودی کی مخالفت کے نام پر مفادات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ۹فروری ۱۹۶۷ء کو ڈائری میں لکھتے ہیں: ’’انھوں [یعنی فیض الحسن صاحب] نےمطالبہ کیا کہ انھیں اپنی فیملی کے اخراجات اور مودودی کے خلاف جارحانہ مہم چلانے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ اس مطالبے کا خلاصہ یہ تھا کہ:انھیں بسوں کے نئے روٹ پرمٹ اورایک چھوٹی انڈسٹری شروع کرنے کے لیے سرمایہ دیا جائے ۔ میں، فیض الحسن سے بے تکلفی سے بات کرسکتا ہوں۔ وہ ایک تعلیم یافتہ، آزاد خیال اور حسِ مزاح کے حامل انسان ہیں‘‘۔[ایضاً، ص ۵۹]
۱۸فروری ۱۹۶۷ء کو ایوب خان صاحب، جماعت اسلامی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مغربی پاکستان کی کابینہ کے اجلاس میں ، خرابی پیدا کرنے والی جماعت اسلامی اور سیاسی مُلاؤں کا معاملہ زیربحث آیا، اور متعدد اقدامات تجویز کیے گئے۔ میں نے کہا: اصل مسئلہ یہ ہے کہ مُلّا اپنے آپ کو اسلام کی تعبیر کا اجارہ دار سمجھتا ہے‘‘۔ [ایضاً، ص ۶۳]
مولانا مودودی کے خلاف مہم کے ذریعے فائدہ حاصل کرنے کے متمنی صاحبزادہ صاحب تنہا نہیں تھے۔ ۲۰فروری ۱۹۶۷ء کو ڈائری کے اندراج سے معلوم ہوتا ہے: ’’کوثر نیازی [م: ۱۹مارچ ۱۹۹۴ء ] ملنے آئے۔ وہ بڑے ترقی پسند مُلّا ہیں، جو مودودی کے گمراہ کن فلسفےاور  طرزِ عمل کے مکمل طور پر مخالف ہیں۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے مودودی کی سرگرمیوں کا توڑ کرنے کے لیے ایک تفصیلی یادداشت دیں گے اور بتائیں گےکہ مسلم لیگ کو اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے… بعدازاں [چودھری غلام احمد- م: ۲۴فروری ۱۹۸۵ء] پرویز صاحب بھی ملے، انھوں نے ماوزے تنگ [م: ۹ستمبر ۱۹۷۶ء]کے فلسفے پر بڑا فکرکشا مطالعہ لکھا ہے۔ حقیقت ہے کہ  اسلام میں حیات بخش فلسفہ ہے، جسے مُلّاازم کی گہری زنگ آلودگی سے صاف کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔[ایضاً،ص۶۴، ۶۵]
 ۲۵فروری کو ڈائری میں ایوب خان صاحب لکھتے ہیں: ’’گورنروں کی کانفرنس میں جماعت اسلامی کی طرف سے پیدا کیا جانے والا دبائو زیربحث آیا، اور حسب ذیل نکاتِ کار کی مناسبت سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی: اوّل یہ کہ علما اور مساجد کو کس طرح قومی پالیسی کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے؟ دوم یہ کہ مخالفت کرنے والوں کو کس طرح بے اثر بنایا جائے؟ سوم یہ کہ جماعت اسلامی جیسی سیاسی پارٹی نے مذہب کے لبادے میں موجودہ حکومت کو غیراسلامی قرار دینے کی مہم چلا رکھی ہے۔ اس سے کس طرح نبٹاجائے؟‘‘[ایضاً، ص ۶۶،۶۷]
اندازہ ہوتاہے کہ ایوب خان صاحب ہر اس شخص کی بات پر یقین کرکے اس کی مدد لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، جو انھیں مولانا مودودی کی مخالفت کرتے ہوئے ملتا ہے۔ ۲۷مارچ ۱۹۶۷ء کو لکھتے ہیں: ’’صاحبزادہ فیض الحسن اپنی سربراہی میں ۲۰علما کا ایک وفدلے کر مجھے ملنے آئے۔ انھوں [صاحبزادہ صاحب ]نے مودودی کی سرگرمیوں کے خلاف ناراضی ظاہر کرتے ہوئے راے ظاہر کی ہے کہ اس کی سرگرمیاں انتشار انگیز اور سیاسی محرکات کی حامل ہیں اور پھر اس ارادے کا اظہار کیا کہ ہم ہر طرح سے ان [یعنی مولانا مودودی]کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں… علما کے اس وفد نے میرے دستور پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط مرکز کی وجہ سے [ایوبی] دستوراسلامی تصور کے بہت قریب ہے… صاحبزادہ صاحب نے علیحد گی میں مجھے یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ علما[جنھیں وہ خود لائے تھے] اگرچہ مودودی کے مقابلے میں بہت اچھا کام کر سکتے ہیں، لیکن روپے پیسے کے معاملے میں ان کی دیانت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی‘‘[ایضاً، ص۷۵]۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ مالی وسائل صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کے تصرف میں دیے جائیں۔
ایوب خان صاحب کی طرف سےمولانا مودودی کے خلاف سلگتی ہوئی مخاصمت کا اندازہ  ۴؍اپریل ۱۹۶۷ء کے اس نوٹ سے ہوتاہے: ’’عربی زبان میں لکھا ہوا ایک کتابچہ میرے نوٹس میں لایا گیا ہے جس پر میرا اور پاکستان کا ذکر سخت بُرے الفاظ میں کرتے ہوئے بتایا گیا ہےکہ پاکستان میں مُلّاازم کی اجازت نہیں ہے اور میری پالیسیاں غیر اسلامی ہیں۔اگرچہ اس کتابچے پر مصنف کا نام نہیں دیا گیا لیکن گمان یہی ہے کہ یہ مودودی کی تصنیف ہے ۔یہ کتابچہ عرب دنیا میں وسیع پیمانے پر تقسیم کے لیے لکھا گیا ہے‘‘[ایضاً، ص ۷۹]۔ ایوب خان نے اگلے جملے میں مولانا پر انتہائی گندے الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے انھیں ’پاکستان کا غدار اور اسلام کا دشمن‘ قرار دیا ہے۔
تاریخی اعتبار سے امرواقعہ ہے کہ مولانا نے کوئی تحریر اپنے نام کے بغیر کبھی شائع نہیں کی۔ حتیٰ کہ بیرون ملک سفر کے دوران پاکستان کے اندرونی حالات پر تبصرہ کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ امپیکٹ انٹرنیشنل، لندن کے ایڈیٹر حاشر فاروقی صاحب راوی ہیں کہ: ’’۱۹۶۸ء میں جب مولانا مودودی لندن تشریف لائے اور بی بی سی اردو سروس کے براڈکاسٹر انعام عزیز نے ان سے پاکستان کی سیاسی صورتِ حال کے بارے میں سوال کیا، تو مولانا نے بیرونِ ملک ہونے کے باعث  تبصرہ کرنے سے معذرت کی ۔ اسی دورے میں پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران بھی مولانا نے پاکستان کے حالات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ 
ایوب خان کی اس تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اقتدار کا رنگ پھیکا اور ترقی کا غلغلہ اپنی کشش کھورہا تھا۔ ملک میں بے چینی کی لہر بڑھتی جا رہی تھی۔ حزب اختلاف مختلف جماعتوں میں منتشر تھی۔ایوب حکومت کی تمام تر الزام تراشیوں اور بدنام کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود مولانا مودودی کی سربراہی میں جماعت اسلامی اپنے اصولی اور جمہوری موقف کے ساتھ حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی تھی۔اس کا حل ایوب خان کے قلم سے ۲۲؍ اپریل ۱۹۶۷ء کو یہ سامنے آتا ہے: ’’الطاف گوہر [سیکرٹری اطلاعات] سے علما کے معاملے پر بات چیت کے دوران انھیں ہدایت کی ہے کہ مودودی اور اس کی پارٹی کے ساتھ صرف اور صرف سیاست دانوں کے طور پر معاملہ کیا جائے، جنھوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے‘‘۔[ایضاً، ص ۸۵]
پاکستان نیوی میں مبینہ سازش کے حوالے سے۲۱مئی ۱۹۶۷ء کو ایوب خان کے بقول: ’’گورنر موسیٰ اور ڈی آئی جی ترین صبح مجھے ملنے آئے اور رپورٹ دی کہ پاکستان نیوی کے ایک معمولی افسر فیض حسین نے مارشل لا لگانے، گورنروں اور فوجی قیادت کو برطرف کرنے،مشرقی پاکستان میں [جنرل] اعظم اور مغربی پاکستان میں مولوی فرید احمد کو گورنر اور مودودی کو وزیرقانون مقرر کرنے کی سازش کی ہے‘‘ [ایضاً، ص ۹۸]۔ اس بے سروپا سازش کو ’بے نقاب‘ کرنے پر ایوب خان نے پولیس کی تعریف، جب کہ آئی ایس آئی اور نیول انٹیلی جنس کو کوتاہی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ اگرچہ ایوب خان نے اس سازش میں مولانا کو ملوث نہیں کیا کیوںکہ انھیں اچھی طرح علم تھا کہ مولانا مودودی صرف اور صرف جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے اور تبدیلی کے لیے کسی سازش، شارٹ کٹ یا پُرتشدد طریقوں کے سخت مخالف ہیں۔ ایوب خان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو لاہور میں جماعت کے کُل پاکستان اجتماع پر سرکاری غنڈوں نے مولانا مودودی پر براہِ راست اندھا دھند فائرنگ کرکے جماعت کے ایک کارکن اللہ بخش کو شہید کر دیا، لیکن اس موقعے پر بھی مولانا نے گولی کا جواب تشدد سے دینے سے منع کردیا۔ اپنے کارکنوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے پُرامن طریقے سے اپنی جدوجہد پر قائم رہنے کا سبق دیا تھا۔
ایک سال اور پانچ ماہ بعد ۱۴؍اکتوبر ۱۹۶۸ء کو ایوب خان صاحب لکھتے ہیں: ’’حیدرآباد اور کراچی کے اسکولوں میں خسرے کے خلاف حفاظتی ٹیکوں کے لگانے پر بے چینی پھیلانے میں جماعت اسلامی کا ہاتھ لگتا ہے۔ ہمارے لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور ہراحمقانہ بات کو مان لیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ صوبائی حکومت ان شرپسندوں کو پکڑے گی اور ان کی گردن مروڑ دے گی‘‘ [ایضاً، ص۲۷۲]۔یاد رہے یہی ہے وہ زمانہ کہ جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے طول و عرض میں ایوب حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ہورہے تھے، مگر وہ اپنا غصّہ صرف جماعت اسلامی پر نکالتے نظر آتے ہیں۔
ایوب خان اقتدارسے محروم ہونے کے حالات کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک سال دو ماہ بعد، ۱۸جنوری ۱۹۷۰ءکو انھوں نےڈائری میں ایک بار پھر ذکر کیا، مگر پہلی دفعہ مولانا مودودی کے نام کے ساتھ ’مولانا‘ کا لفظ استعمال کیا۔ یاد رہے اس روز عوامی لیگ نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کرکے سیکڑوں کارکنوں کو زخمی اور چھےکارکنوں کو قتل کر دیا تھا۔ ایوب خان نے لکھا ہے کہ:’’صبح کی خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ  مولانا مودودی کے حامیوں اور دوسروں کے درمیان ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسۂ عام کے دوران لڑائی ہوئی ہے۔ ایک آدمی کے قتل ہونے کی خبر ہے، جب کہ ۴۰۰ زخمی ہوئے۔ جلسہ منتشر کردیا گیا اور ڈایس کو آگ لگا دی گئی۔ مولانا کا ان کی قیام گاہ تک تعاقب کیا گیا‘‘[ایضاً، ص۳۵۷]۔ ایوب خان کو اس میں تعجب نہیں ہونا چاہیے تھا کہ انھوں نے اپنے طویل دور حکومت میں جس طرح مولانا مودودی کے خلاف جذباتی انداز سے نفرت کی سوچ کو پروان چڑھایا تھا، عوامی لیگ کے دہشت گرد اور کمیونسٹ انتہاپسند اس کا عملی مظاہرہ پیش کر رہے تھے۔
۱۴؍اگست ۱۹۷۰ء کو ایوب خان لکھتے ہیں: ’’راولپنڈی کے جلسے میں پیپلزپارٹی کے مقررین نے میرے اور مودودی کے خلاف تقریریں کیں‘‘ [ص ۴۰۴] اور ۲۸ستمبر کو لکھا کہ: ’’مودودی اور دولتانہ کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہوئے قادیانی، حتیٰ کہ شیعہ بھی بھٹو کی حمایت اور مدد کر رہے ہیں‘‘ [ایضاً،ص ۴۰۷]۔ ۲۳دسمبر ۱۹۷۰ء کو تحریر کیا: ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ مودودی جیسے لوگ انتخابات میں مجیب اور بھٹو کی ناقابلِ مثال کامیابی میں خطرات دیکھتے ہیں‘‘۔ [ایضاً، ص ۴۲۸]
۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو لکھا ہے: ’’آج روزنامہ جنگ  بھٹو اور اس کے ساتھیوں کی بہت سی تصویروں سے بھرا پڑا ہے۔ دراصل یہ سب اس کی دل جوئی کا سامان ہے کیوں کہ بھٹو کے آدمیوں نے حمایت نہ کرنے پر جنگ کی تنصیبات کو آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ پھر اس بات کے آثار بھی موجود ہیں کہ پیپلزپارٹی کے یہ لوگ مودودی کے گھر کو آگ لگانا چاہتے ہیں‘‘۔ [ایضاً، ص ۴۶۷]
ایک سال دو ماہ بعد بھٹوصاحب کے دورِ حکومت میں ۱۹جون ۱۹۷۲ء کو لکھتے ہیں: گذشتہ مہینے متعدد سیاسی قتل ہوئے، جن میں جماعت اسلامی کے نمایاں افراد بھی شامل ہیں۔ اس ضمن میں جنرل اکبر نے بھٹو کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ بلاشبہہ جماعت اسلامی ایک تشدد پسند جماعت نہیں ہے‘‘۔[ایضاً، ص ۵۳۰]
اسی طرح ایوب خان صاحب کی بے خبری دیکھیے کہ۱۴نومبر ۱۹۷۲ء کو لکھتے ہیں: ’’اگر بھٹو نہیں تو پھر کون؟‘‘ کا نعرہ جماعت اسلامی نے گھڑ ا اور پھیلایا ہے‘‘[ایضاً،ص ۵۴۲]۔ حالاں کہ یہ وہ زمانہ ہے جب بھٹوحکومت بڑے پیمانے پر اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈال رہی تھی۔ معلوم نہیں یہ نکتہ کس طرح موصوف کے حاشیۂ خیال میں آیا؟
سابق صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب کی یہ ڈائری بڑے سائز کے ۵۵۲ صفحات کے خودنوشت اندراجات،۵۰ صفحات پر ذاتی تصاویر اور ۴۶صفحات کے تعارفی و ادارتی حاشیوں کے ساتھ کُل ۶۴۹ صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہاں پر ڈائری کے صرف ان مندرجات کو سمجھنے اور تبصرہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن کا تعلق مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے ہے۔ یہ ڈائری ایوب خان صاحب کےصاحبزادے گوہر ایوب صاحب کے پاس محفوظ تھی۔ ایوب صاحب کی خواہش تھی کہ الطاف گوہر اس ڈائری کو مرتب کریں۔ واقعات اور شخصیات کی حساسیت کے باعث اس کی اشاعت پر کچھ عرصہ کے لیے رضاکارانہ پابندی لگائی ہوئی تھی۔ جب اس کی اشاعت کا وقت آیا تو الطاف گوہر صاحب کا انتقال [۱۴نومبر۲۰۰۰ء]ہو چکا تھا۔
 فیلڈ مارشل جنرل محمدایوب خان کی ڈائری کے مطالعے سے ان کے ’نظریۂ حکمرانی‘ کی بنیاد دیکھی جاسکتی ہے کہ: ’’جب ایک لیڈراقتدار سنبھال لے تو اس کے پاس اتنی زیادہ طاقت ہونی چاہیے کہ وہ خودحکومتی اُمور کنٹرول کر سکے۔ایک مضبوط مرکزی اتھارٹی [شخصیت ] کے بغیر ملک کو  متحد نہیں رکھا جا سکتا‘‘۔ اس وقت پاکستان میں اور بھی مذہبی جماعتیں موجودتھیں، لیکن ایوب خان صرف مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے ہی کیوں خائف تھے؟ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایوب خان اپنی سیکولر سوچ کے تحت اسلام کے حرکی تصور سے ہراساں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ  مولانا مودودی کی سربراہی میں جماعت اسلامی نہ صرف ایک منظم سیاسی قوت ہے بلکہ اسلام کو  ایک مکمل ضابطۂ حیات مانتے ہوئےاسلام پر مبنی نظام حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔   پاکستانی حکمرانوں میں ایوب خان وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نےمنظم اسلامی قوتوں کے ’خطرے‘ کو محسوس کیا ۔پھر اسلامی قوتوں کی طرف سے سیکولرزم اور لبرلزم کو بے اثر کرنے کی سعی کی مزاحمت کے لیے اپنی سی کوششیں کیں۔

’فی الواقع گورنمنٹ برطانیہ ایک ڈھال ہے، جس کے نیچے احمدی جماعت آگےہی آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس ڈھال کو ذرا ایک طرف کردو اور دیکھو کہ کیسےزہریلے تیروں کی کیسی خطرناک بارش تمھارے سروں پر ہوتی ہے۔پس کیوں ہم اس گورنمنٹ کے شکرگزارنہ ہوں۔ اس گورنمنٹ کی تباہی ہماری تباہی ہے اور اس گورنمنٹ کی ترقی ہماری ترقی۔جہاں جہاں اس گورنمنٹ کی حکومت پھیلتی جاتی ہے،ہمارے لیے تبلیغ کا ایک میدان نکل آتاہے‘۔(الفضل ،قادیانیوں کا ترجمان اخبار،۱۹؍اکتوبر ۱۹۱۵ء)

’میرے حلقۂ انتخاب میں واقع احمدی کمیونٹی کی عبادت گاہ یورپ کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے جس میں ۱۰ہزار لوگ بیک وقت عبادت کر سکتے ہیں۔ اس علاقے میں احمدی (قادیانی) کمیونٹی خوب ترقی کر رہی ہے… اس کمیونٹی کے سربراہ برطانیہ میں رہایش پذیرہیں‘۔ (ممبر برطانوی پارلیمنٹ اور قادیانی کمیو نٹی سے متعلق کل جماعتی پارلیمانی گروپAPPG کی سربراہ سائیوبھین میکڈونگ کاپارلیمنٹ میں بیان)

قادیانیوں اور برطانیہ کا آپس میں گہرا تعلق اور تعاون ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اپنی ابتدا ہی سے اس جماعت کے بانی بر صغیر کے باقی طبقوں کے برعکس ،ہندستان میں استعماری برطانوی حکومت کے ہمیشہ حامی رہے ہیں ۔ انگریزی سلطنت کو ’رحمت ، باعث برکت اور ایک سپر‘قرار   دیتے ہوئے انھوں نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کی ہے کہ ’’تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو‘‘۔ اپنی مختلف کتابوں،تقاریر اور بیانات میں انھوں نے اور ان کے بعد آنے والے قادیانی رہنماؤں نے ہر معاملے میں برطانیہ کا ساتھ دیاہے اور برطانیہ نے بھی کھل کر ان کی سر پرستی کی ہے۔ بقول مولانا مودودی: ’’کفار کی غلامی جو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے ،[جھوٹے] مدعیان نبوت کے لیے وہی عین رحمت اور فضل ایزدی ہے ،کیونکہ اسی کے زیر سایہ ان لوگوں کو اسلام میں نئی نئی نبوتوں کے فتنے اٹھانے اور مسلم معاشرے کی قطع وبُرید کی آزادی حاصل ہو سکتی ہے۔اس کے بر عکس مسلمانوں کی اپنی آزاد حکومت ،جو مسلمانوں کے لیے ایک رحمت ہے ان لوگوں کے لیے وہی ایک آفت ہے کیوں کہ با اختیارمسلمان بہر حال اپنے ہی دین اور اپنے ہی معاشرے کی قطع و بُرید کو بخوشی برداشت نہیں کر سکتے‘‘۔(قادیانی مسئلہ،۱۹۵۳ء، لاہور)

 اسی دیرینہ اور تاریخی تعلق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قادیانی جماعت کی بین الاقوامی بشمول برطانیہ سیاسی اور سفارتی سرگرمیوں میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ قادیانیوں کے موجودہ سربراہ مرزا منصور آج کل امریکا کے دورے پر ہیں۔ برطانیہ میں قیام کے باعث ان کے لیے دوسرے ممالک میں دورے کرنے میں بہت آسانی ہے۔ ان کے ایما پر پارلیمنٹ کے اندر ایک کُل جماعتی پارلیمانی گروپ کا قیام عمل میں آیا ہے جس میں پارلیمنٹ میں موجود تمام پارٹیوں کے ممبر پارلیمنٹ شامل ہیں۔ برطانیہ میں موجودہ برسرِ اقتدارحکومت میں ان کے اثر و رسوخ کا یہ عالم ہے کہ وزیر اعظم تھریسامے نے اپنی پارٹی کے ایک قادیانی وزیر لارڈ طارق محمود احمد جو فارن آفس کے وزیر اور ہاؤس آف لارڈز (ایوانِ بالا) کے ممبر بھی ہیں کو دنیا بھر میں ’مذہب اور عقیدے کی آزادی کو فروغ دینے کے لیے اپنا خصوصی ایلچی‘ (Prime  Minister’s Special Envoy on Freedom of Religion and Belief ) مقرر کیا ہے۔

لارڈ طارق نے عہدہ سنبھالتے ہی اپنا پہلا دورہ اسرائیل سے شروع کیا۔ دورے سے قبل برطانوی ہاؤس آف لارڈز میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے فلسطینیوں پر واضح کیا کہ: ’’جو لوگ اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کرتے انھیں امن مذاکرات کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا‘‘۔ لارڈ طارق نے اسرائیل میں حیفہ شہر کا خصوصی دورہ کیا اور وہاں اپنی جماعت کے ہیڈکوارٹر بھی گئے۔ انھوں نے وہاں رہایش پذیر پاکستانی قادیانیوں سے ملاقات کی اور تسلیم کیا کہ اسرائیل میں مقیم قادیانی دوسری کمیونٹیز کے ساتھ وہاں خوشی سے رہ رہے ہیں‘‘۔انھوں نے قادیانیوں کی اسرائیل میں موجودگی کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ: ’’انھیں پاکستان ،الجزائر اور انڈونیشیا میں تنگ کیا جاتاہے‘‘۔ درحقیقت بیرونِ ملک قادیانیوں کی موجودگی کا بہت بڑا سبب معاشی ہے، جسے مذہبی رنگ دے کر زیادہ سے زیادہ قادیانی خاندانوں کو مختلف ممالک میں آباد کر رہے ہیں۔ ’مذہبی جبر‘ کی آڑ میں مَیں پناہ گزینوں کا درجہ حاصل کر کے، میزبان ملکوں سے زیادہ سے زیادہ معاشی فوائد حاصل کیے جارہے ہیں، اور اس پردے میں مفاد حاصل کرنے والوں کو بھی اپنے مذہب میں ترقی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

قادیانیوں نے مغربی ممالک کے بااثر اور مقتدر حلقوں میں اپنے نیٹ ورک کے ذریعے خاصا رُسوخ حاصل کر لیاہے ۔حال ہی میں ایک پاکستانی نژاد برطانوی قادیانی بیرسٹر کریم اسد احمد خان کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے داعش کے خلاف تحقیقات کے لیے سربراہ مقرر کیا ہے۔ اس تقرر کی خبر دیتے ہوئے قادیانیوں کے اخبار ربوہ ٹائمز (Rabwah Times)نے بیرسٹر  کریم اسد احمد خان کا تعلق قادیانی کمیونٹی سے ظاہر کیا ہے۔ قادیانی  بین الاقوامی ہمدردیاں سمیٹنے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے ایک منظم اور سوچے سمجھے طریقے سےاپنے آپ کو ایک مظلوم گروپ (Persecuted Community) کے طور پر پیش کر رہے ہیں حالاںکہ بیرسٹر کریم ایک برطانوی شہری ہیں۔ بیرون ملک اپنے حامیوں کے ذریعے قادیانی پاکستان پربین الاقوامی دباؤ میں اضافہ کر رہے ہیں۔ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے وہ اس بات کا مسلسل پروپیگنڈاکررہے ہیں کہ وہاں انھیں ایذا رسانی اور عقوبت (Persecution) کا سامنا ہے۔ ان کے بقول قادیانی پاکستان میں خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

دراصل جب سے پاکستان کی پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ءمیں قادیانیوں کوآئینی ترمیم کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا ہے، یہ پچھلے ۴۰سال سے اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان کے آئین میں یہ ترمیم ختم کر دی جائے اور انھیں مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ تصورکیا جائے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں  ان کی حمایت میں قائم ہونے والے گروپ کی سربراہ نے تسلیم کیا ہے کہ: ’’احمدی اپنے آپ کو ’مسلم‘ گردانتے ہیں لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ محمدؐانسانیت کو ہدایت کرنے والے آخری نبی نہیں تھے اور  اس وجہ سے ان کو غیر مسلم قرار دے کر انھیں ایذا دی جاتی ہے‘‘۔ قادیانیوں کی علمی اور سیاسی بدیانتی کا عالم یہ ہے کہ اپنے حمایتیوں کو کبھی بھی باور نہیں کراتے کہ ہم اپنے بانی پر ایمان نہ لانے والوں کو خود مسلمان تصور نہیں کرتے اور انھیں کافر قرار دیتے ہیں۔ ان کی حامی کُل جماعتی پارلیمانی گروپ کی لیڈر سائیوبھین میکڈونگ عیسائی کیتھولک فرقے سے تعلق رکھتی ہیں لیکن ان کی جانب سے قادیانیوں کے لیے پُرجوش حمایت سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ قادیانیوں کے عیسائیوں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بارے میں گمراہی پر مبنی عقائد سے بالکل بے خبر ہیں۔

 حقیقت یہ ہے کہ قادیانیوں کا یہ شروع سے ہی عقیدہ ہے کہ ’مسلمان‘ ہم ہیں اور ہمارے بانی (مرزا غلام احمد)کو نبی نہ ماننے والے دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔مولانا مودودی نے قادیانی مسئلہ میں ان کے عقیدے کا جائزہ لیتے ہوئےخود ان کی تحریروں سے ثابت کیا ہے کہ وہ ان تمام مسلمانوں کو اپنی تحریر و تقریر میں علانیہ کافر قرار دیتے ہیں جو مرزا غلام احمد کو نبی نہیں مانتے۔ وہ صرف یہ نہیں کہتے کہ مسلمانوں سے ان کا اختلاف محض مرزا صاحب کی نبوت کے معاملے میں ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ،ہمارا اسلام، ہمارا قرآن، ہماری نماز، ہمارا روزہ، غرض ہماری ہر چیز مسلمانوں سے الگ ہے۔

اُمت ِ مسلمہ سے قادیانیوں کی علیحدگی کے بارے میں مولانا مودودی کا استدلال یہ ہے کہ: ’’قادیانیوں کا مسلمانوں سے الگ ایک امت ہونا اس پوزیشن کا ایک لازمی منطقی نتیجہ ہے جو انھوں نے خود اختیار کی ہے ۔وہ اسباب ان کے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں جو انھیںا مسلمانوں سے کاٹ کر ایک جداگانہ ملت بنادیتے ہیں۔  [چودہ سوچالیس سال] سے تمام مسلمان بالاتفاق یہ مانتے رہے ہیں اور آج بھی یہی مانتے ہیں کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپؐ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ہے۔ ختم نبوت کے متعلق قرآن مجید کی تصریح کا یہی مطلب صحابہ کرامؓ نے سمجھا تھا اور اسی لیے انھوں نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے حضوؐر کے بعد دعویٰ نبوت کیا۔ پھر یہی مطلب بعد کے ہر دور میں تمام مسلمان سمجھتے رہے ہیں جس کی بنا پر مسلمانوں نے اپنے درمیا ن کبھی کسی ایسے شخص کو برداشت نہیں کیا جس نے نبوت کا دعویٰ کیاہو۔ لیکن قادیانی حضرات نے تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتم النبیینؐ کی یہ نرالی تفسیرکی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبیو ں کی مہر ہیں اور اس کا مطلب یہ بیان کیا کہ حضوؐر کے بعد اب جو بھی نبی آئے گا اس کی نبوت آپؐ کی مہر تصدیق لگ کر مصدقہ ہوگی۔ان کی نبوت کے دعوے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو شخص بھی اس [جھوٹی] نبوت پر ایمان نہ لائے وہ کافر قرار دیا جائے۔ چنانچہ قادیانیوں نے یہی کیا۔ (قادیانی مسئلہ،۱۹۷۳ء، لاہور)

مولانا مودودی مرحوم و مغفور نے یاد دلایا ہےکہ ’’پاکستان کے کروڑوں آدمی اس بات کے شاہد ہیں کہ قادیانی عملاً بھی مسلمانوں سے کٹ کر ایک الگ اُمت بن چکے ہیں۔ نہ وہ ان کے ساتھ نماز کے شریک، نہ جنازےکے،نہ شادی بیاہ کے۔ اب اس کے بعد آخر کون سی معقول وجہ رہ جاتی ہے کہ ان کو اور مسلمانوں کو زبردستی ایک امت میں باندھ کر رکھا جائے‘‘۔

قادیانیوں کا معاملہ محض ایک سیدھا سادا مذہبی مسئلہ نہیں ہے، اس مسئلےکی نوعیت سیاسی بھی ہے۔ ان کے بعض ایسے خطرناک سیا سی رجحانات ہیں جن کے باعث ان کی پُرجوش بین الاقوامی سرگرمیاں ہرمحبِ وطن کے دل میں لازمی طور پرتشویش پیدا کرتی ہیں۔ وہ پاکستانی ریاست کے اندر اپنی ایک قادیانی ریاست کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان کے قیام کے فوراً بعد قادیانیوں کا خیال تھا کہ وہ بلوچستان کو جس کی آبادی بہت کم تھی ، ایک قادیانی صوبہ بنا سکتے ہیں تاکہ یہ خطہ پاکستان کے اندر ایک قادیانی ریاست کی بنیاد (base)بن سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں کلیدی عہدوں پر قادیانی عقیدہ رکھنے والے یا ان کے ہمدردوں کی تعیناتی ان کی سوچی سمجھی پالیسی رہی ہے اور وہ ماضی میں اس معاملے میں خاصے کامیاب رہے ہیں۔

وہ پاکستان میں اپنے لیے ہمیشہ سے ایسا ماحول چاہتے ہیں جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے گمراہ کن عقائد کی تبلیغ کرسکیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو قادیانی بناسکیں۔ ریاست کے تمام اداروں میں ان کا اتنا رسوخ ہوکہ وہ ریاست کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوکر اپنے حق میں استعمال کریں۔ انھیں ادراک ہے کہ آئینی اور قانونی طور پر غیرمسلم ہونے کے باعث عوام الناس کی عظیم اکثریت اب ان کی شکارگاہ نہیں رہی، لیکن وہ بین الاقوامی مہم کے ذریعے پاکستانی حکومتوں کو دبائو میں لا کر اپنے لیے گنجایش پیدا کرنے کے لیے پوری دنیا، خصوصاً مغربی ممالک بشمول برطانیہ میں ہر طرح سے سرگرمِ عمل ہیں۔  برطانیہ سے قادیانیوں کا ایک صدی سے زائد عرصے کا تعلق آئے دن گہرا ہورہا ہے اور ان کے ہم عقیدہ افراد اب وزیر اور مشیر کی حیثیت سے برطانوی حکومت کا حصہ ہیں۔

مولانا مودودیؒ اسلامی نظام زندگی کےنفاذ کے نقیب اور داعی تھے۔ عصرِحاضر کے اسلامی اسکالروں،مفکرین اور علما میں مولانا مودودیؒ وہ منفرد شخصیت تھے، جنھوں نے اسلامی نظام حیات کے بارے میں ایک مربوط فکر پیش کی۔ اس فکری سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اور اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انھوں نے اگست ۱۹۴۱ء میں ایک تنظیم جماعت اسلامی کے نام سے تشکیل دی۔ ان کی فکر نے پاکستان اور پاکستان سے باہر عالم اسلام میں نشاتِ ثانیہ کی ایک لہر کو جنم دیا۔ دنیابھر میں مسلمانوں کی غالب اکثریت اپنے اپنے معاشرے میں مختلف پلیٹ فارموں پر اور مختلف صورتوں میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہے۔

جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمان مولانا مودودی کے اوّلین مخاطب تھے۔اگست ۱۹۴۷ء کے بعد پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے لیے جماعت اسلامی کی جدوجہد آج تک جاری ہے۔ مولانا مودودی نے اس جدوجہد میں قدم قدم پر پیش آنے والی مشکلات کا نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ اس کش مکش میں وہ خود اور ان کی جماعت بار بار آزمایش کا شکار ہوتی رہی۔ اسی پاکستان کے قیام کے صرف چھ سال کے اندر ہی ۱۹۵۳ء میں ملک میں جزوی مارشل لا نافذ کر دیا گیا، جس کی فوجی عدالت نے ایک پمفلٹ قادیانی مسئلہ لکھنے پر مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنادی (جو بعد میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر شدید احتجاج کے باعث عمرقید میں تبدیل کی اور پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ختم ہوئی)۔ مقتدر حلقےآزادی ملنے کے برسوں بعد بھی ملک کو ایک متفقہ آئین نہ دے سکے ۔ نو سال کی کش مکش کے بعد ۱۹۵۶ء میں ایک آئین منظور ہوا، لیکن صرف دو سال کے بعد اس آئین کو منسوخ کرکے پاکستان میں مکمل مارشل لا لگا کر تمام سیاست دانوں، ان کی سیاسی سرگرمیوں، اور جماعت اسلامی سمیت سب سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 

چارسال بعد مارشل لا حکومت نے ۱۹۶۲ء میں ایک نیا آئین دیا، جس میں اقتدار کی ساری طاقت فردِ واحد کے ہاتھ میں تھی۔مولانا اور ان کی جماعت نے فرد واحد کی آمریت اور اقتدار کے ارتکاز کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی، جس کے باعث وہ حاکم وقت کے نزدیک پاکستان کی ناپسندیدہ ترین شخصیت قرار پائے(اس کی تصدیق چند سال پہلے شائع ہونے والی جنرل ایوب خان کی ڈائری سے ہوتی ہے)۔چند سال بعد جنرل یحییٰ خان نے ۱۹۶۹ء میں ایوب خاں کو ہٹاکر مارشل لا لگایا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اسی مارشل لا کے دوران دو سال کے اندر ملک کا ایک حصہ الگ ہو کر بنگلہ دیش کے نام سے ایک علیحدہ ریاست بن گیا۔ جولائی ۱۹۷۷ءمیں بھٹو حکومت کا خاتمہ ایک اور مارشل لا کے نفاذ سے ہوا۔ اس کے بعد۲۰۰۸ء تک پاکستان کی۳۱ سال کی سیاسی تاریخ، مختلف سول اور فوجی حکومتوں کے اقتدار میں آنے اور رخصت ہونے سے عبارت ہے۔

  • ملک کی ابتر صورتِ حال کا سبب: مولانا مودودی نے اپنی تحریروں، تقاریر اور سوالات و جوابات کی مجلسوں میں بڑی تفصیل سے ان اسباب کو واضح کیاہےکہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے گروہی ،لسانی، مذہبی اور معاشرتی ا ختلافات بھلاکر جس بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کیا تھا ، آخر کیا ہوا کہ وہ پاکستان کے قیام کے بعد قائم نہیں رہ سکا؟ پاکستان جن مقاصد کے حصول کے لیے عمل میں آیا تھا، وہ مقاصد کیوں نہیں حاصل کیے جاسکے؟ قومی وحدت مضبوط ہونے کے بجاے کمزور سے کمزور تر کیوں ہوتی چلی گئی اور ڈھلوان کی سمت کا یہ سفر اب تک کیوں جاری ہے ؟ جمہوریت کے سفر میں آمریت کا دور بار بار کیوں آتا جاتا رہا ہے؟ جمہوریت آتی ہے تو اس کے منسوخ ہونے کا خطرہ سر پر کیوں منڈلاتا رہتا ہے؟ اسلامی نظام حیات کےقیام کا خواب کیوں پورا نہیں ہوسکا؟عوام کی عظیم اکثریت کو نہ سماجی انصاف مل سکا ہے اور نہ ان کی معاشی حالت بہتر ہو سکی ہے۔ اس پر مستزاد گروہی، لسانی، فرقہ وارانہ اور علاقائی قوتیں کیوںمضبوط سے مضبوط ہوتی چلی گئیں؟ جس نے ایک اسلامی جمہوری ریاست کی تعمیر روک رکھی ہے۔

مولانا مودودی نےصورت حال کا تجزیہ کرکےقوم کو یاد دلایا کہ:

ہمیںاپنی مرضی سےزندگی کی تعمیر کرنے کا اختیار حاصل ہوئے [آزادی حاصل ہوئے] ایک طویل مدت گزر چکی ہے، مگر جہاںہم پہلے روز کھڑے تھے وہیں آج بھی کھڑے ہیں۔ بے اختیاری کے زمانے میں جو کچھ اور جیسے کچھ ہمارے حالات تھے، اختیار پاکر بھی ہم ان کو بدلنےاور بہتر بنانے کے لیے کوئی کامیاب اور قابل ذکر کوشش نہ کرسکے۔

مولانا کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ آزادی کے بعد بھی، سامراجی نظامِ حکومت کا  جوں کا توں قائم رہنا ہے:’’ہمارا انتظامی ڈھانچا اور اس کا مزاج وہی ہے۔ قانونی نظام وہی ہے۔ تعلیمی نظام وہی ہے۔معاشی نظام وہی ہے۔ اخلاق اور معاشرت کا حال وہی ہے۔مذہبی حالت وہی ہے۔ کسی چیز کی اصلاح وترقی کے لیے ہم کوئی قدم نہ اٹھا سکے، بلکہ قدم اٹھانے کے لیے اس کی سمت تک متعین نہ کر سکے‘‘۔

اس کوتاہی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ: ’’فکرونظر کے اختلافات ،اغراض اور خواہشات کے اختلافات، گروہوں ا ور ٹولیوں کے اختلافات ،علاقوں اور صوبوں کے اختلافات نت نئی شان سے اُبھرتے رہے ہیں اور ابھرتےچلے آ رہے ہیں ۔ جو کچھ ایک بنانا چاہتا ہے، دوسرا اس راہ میں مزاحم ہوتا ہے، اور دوسرا جو کچھ بنانا چاہتا ہے کوئی تیسرا اسے بگاڑنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ کوئی کچھ بھی نہیں بنا سکتا‘‘۔اس صورتِ حال کی سنگینی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نےتوجہ دلائی ہے: ’’تعمیررُکی ہوئی ہے،اور تخریب آپ سے آپ اپنا کام کر رہی ہے، خواہ ہم میں سے کوئی بھی اس کا دل سے خواہاں نہ ہو‘‘۔

  • استحکام کی راہ: اس حوصلہ شکن صورتِ حال کی طرف توجہ دلانے اور اس کا   بے لاگ تجزیہ کرنے کے بعد مولانا مودودی کی ہمہ گیر شخصیت کا نیا پہلو سامنے آتا ہے۔ وہ بنیادی طور پر ایک پرامید شخصیت تھے۔ مسائل کے گرداب میں گھرے ہوئے عوام اور قوم کے لیے ان کا پیغام عزم اور اُمید پر مبنی تھا۔ اگرچہ وہ اس حقیقت کا پوری طرح ادراک رکھتے تھے کہ پاکستان کو بہت سے مسائل درپیش ہیں، جن کی طرف توجہ کرنے اوران کو حل کرنے کی وہ سخت ضرورت محسوس کرتے تھے۔ ان کویقین تھا کہ ملک وقوم کو درپیش چیلنجوںپر اسی صورت میں قابو پایا جا سکتا ہے، جب ملک کے تمام مختلف گروہ ، جماعتیں اور افراد ایک مستحکم پاکستان کی تعمیرکے لیے اتحاد اور اتفاق کےچند بنیادی اصولوں پر متفق ہو جائیں۔ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو۔ قرآن و سنت پر مبنی اسلامی نظام حیات جمہور کی اکثریت کی منشا سے نافذ ہواور اس کے لیے کسی مختصر راستے یا مہم جویانہ طریقے کو اختیار کرنے کے بجاے صرف جمہوری طریقہ اپنایا جائے۔ مولانا کو اس بات کا قلق تھا کہ: ’’اختلاف اورمخالفت و مزاحمت نے ایک اندھے جنون کی صورت اختیار کر لی ہے‘‘ ۔وہ چاہتے تھے:’’ہماری قوتیں اپنی تخریب کے بجاے اپنی تعمیر میں لگیں ‘‘۔

پاکستان میں قومی وحدت کی بنیادیں مستحکم کرنے اور قوم میں اتحاد و اتفاق کے فروغ   کے لیے مولانا نے بڑی دردمندی اور دل سوزی سے قوم کے سامنے مختلف تجاویز رکھتے ہوئے اپنی قوم اور اس کے رہنماؤں سے اپیل کی تھی کہ:’’ہر حال میں صداقت و انصاف کا احترام کیا جائے‘‘۔ ’جنگ میں سب کچھ حلال ہے‘ کے فکروفلسفے کو ایک ابلیسی اور شیطانی اصول قرار دیتے ہوئے انھوں نے سختی سے رد کر دیا تھا۔ وہ اس بات کو انتہائی ناپسند کرتے تھے کہ کوئی بھی اپنے مخالف پر ہر طرح کے جھوٹے الزام لگائے، اس کی طرف جان بوجھ کر غلط باتیں منسوب کرے ،اور اس کے نقطۂ نظر کو قصداً غلط صورت میں پیش کرے۔ سیاسی اختلاف ہو تواسے غدار اور دشمن وطن ٹھیرائے، مذہبی اختلاف ہو تو اس کے پورے دین و ایمان کو متہم کر ڈالے ،اور ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے اس طرح پڑجائے کہ گویا اب مقصد زندگی بس اسی کو نیچا دکھانا رہ گیا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا: ’’بھلائی اسی میں ہے کہ ہمیں کسی سے خواہ کیساہی اختلاف ہو، ہم صداقت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اس کے ساتھ ویسا ہی انصاف کریں جیسا ہم خود اپنے لیے چاہتے ہیں‘‘۔

  • ’’قومی وحدت کی بنیاد: مولانا مودودی کی راے میں: قومی وحدت کی بنیاد صرف اور صرف اختلافات میں رواداری، ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش ،اوردوسروں کے حق راے کو تسلیم کرنے کا جذبہ اپنانے سے ہی مضبوط ہو سکتی ہے.... بدگمانی اور خود پسندی کا مرض ہمارے ملک میں ایک وباے عام کی صورت اختیار کر چکا ہے۔حکومت، ارباب اقتدار، سیاسی پارٹیاں اور مذہبی گروہ اس میں مبتلا ہیں‘‘۔ ان کے نزدیک: ’’اس بیماری کا مداوا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب لوگ جو اپنے اپنے حلقوں میں نفوذ و اثر رکھتے ہیں، اپنی روش تبدیل کریں اور خود اپنے طرزِعمل سے اپنے زیر اثر لوگوں کو تحمل وبرداشت اور وسعت ظرف کا سبق دیں‘‘۔

ملک کے تمام طبقوں کو مخاطب کرکے مولانا مودودی نے اس اصول پر زور دیا تھا کہ: ’’اختلاف براے اختلاف سے اجتناب کرتے ہوئے ہر شخص اپنی قوتیں دوسروں کی تردید میں صرف کرنے کے بجاے اپنی مثبت چیز پیش کرنے پر صرف کرے‘‘۔ انھیں اس بات پر بہت دُکھ تھا کہ: ’’یہاںزیادہ تر زور اس بات پر صرف کیا جا تاہےکہ دوسرے جو کچھ کر رہے ہیں، اس کی مذمت کی جائے اور اس کے متعلق لوگوں کی راے خراب کردی جائے۔ بعض لوگ تو اس منفی کام سے آگے بڑھ کر سرے سے کوئی مثبت کام کرتے ہی نہیں ،اور کچھ دوسرے لوگ اپنے مثبت کام کے فروغ کا انحصار اس پر سمجھتے ہیں کہ میدان میں ہر دوسرا شخص جو موجود ہے اس کی اور اس کے  کام کی پہلے مکمل نفی ہوجائے‘‘۔ اس طرزِ عمل کے مضمرات واضح کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ: ’’یہ روش خصوصیت کے ساتھ ہمارے ملک کے لیے بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہے۔ اس وقت ہماری قومی زندگی میں ایک بہت بڑا خلا پایا جاتا ہے، جو ایک قیادت پر سے عوام کا اعتماد اُٹھ جانے اور دوسری کسی قیادت پر نہ جمنے کا نتیجہ ہے‘‘۔ مولانا مودودی کا استدلال تھا کہ: ’’اجتماعی طاقت سے ہی کوئی تعمیری کام ممکن ہوگا ۔ لیکن اگر صورتِ حال یہ رہے کہ ہر ایک اپنا اعتماد قائم کرنے کے بجاے دوسرے کا اعتماد ختم کرنے میں لگا رہے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ کسی کا اعتماد بھی قائم نہ ہوسکے گا‘‘۔

قوم میں اتفاق اور اتحاد پیدا کرنے کے لیے مولانا مودودی نے یہ تجویز بھی پیش کی تھی: ’’جبرو دھونس کے بجاے دلیل و ترغیب کا طریقہ اپنایا جائے‘‘ ۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ: ’’اپنی مرضی دوسروں پر زبردستی مسلط کرنے کا حق کسی کو نہیں ہے ۔جو کوئی بھی اپنی بات دوسروں سے منوانا چاہتا ہے وہ جبر سے نہیں دلائل سے منوائے،اور جو کوئی اپنی کسی تجویز کو اجتماعی پیمانے پر نافذ کرنا چاہتا ہو وہ بزور نافذ کرنے کے بجاے ترغیب وتلقین سے لوگوں کو راضی کرکے نافذ کرے‘‘۔ان کا موقف تھا کہ: ’’ایسے طریقوں سے ایک چیز مسلط تو ہو سکتی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوسکتی، – کیوںکہ کامیابی کے لیے لوگوں کی قبولیت اور دلی رضامندی ضروری ہے‘‘۔

 مولانا مودودی نے بات کو منوانے کے لیے طاقت کے استعمال کو انتہائی غلط قرار دیتے ہوئے یاد دلایا تھا: ’’دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی زبردستیوں نے بالا آخر قوموں کا مزاج بگاڑ دیا ہے، ملکوں کے نظام تہہ وبالاکر دیے ہیں اوران کو پُرامن ارتقا کے راستے سے ہٹا کر بے تکے تغیرات اور انقلابات کے راستے پر ڈال دیا ہے‘‘۔مولانا نے پاکستان کے بااثر لوگوں کو باور کرایا تھا: ’’اگر آپ واقعی اپنے ملک کے خیرخواہ ہیں تو دھونس کے بجاے دلیل سے اور جبر کے بجاے تر غیب سے کام لینے کی عادت ڈالنی چاہیے‘‘۔

مو لانا مودودی نے پوری قوم سے اپیل کی تھی کہ: ’’ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی عصبیتوں کو ختم کر کے مجموعی طور پر پورے ملک اور ملت کی بھلائی کے نقطۂ نظر سے سوچنے کا خوگر ہونا چاہیے۔ یادرہے کہ ہر تعصب لازماً جواب میں ایک تعصب پیدا کر دیتا ہےاور تعصب کے مقابلے میں تعصب کش مکش پیدا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ بھلا اس قوم کی خیر کیسے ہوسکتی ہے جس کیے اجزاے ترکیبی آپس ہی میں برسرِپیکار ہوں؟‘‘

سیاسی پارٹیوں کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا محترم کا کہنا تھا کہ: ’’سیاسی پارٹیاں فی الواقع نیک نیتی کے ساتھ ملک کی بھلائی ہی کے لیے خواہاں اور کوشاں ہوں۔ ایک دوسرے کے ساتھ ان کی مسابقت یا مصالحت اصولی ہو اور اختلاف معقول اور شریفانہ طریقوں تک محدود رہے‘‘۔ مولانا نے ہر ایسی سیاسی پارٹی کو ’قزاقوں کی ٹولی‘ قرار دیا تھا، جو پارٹی اپنے مفاد اور اپنے چلانے والوں کے مفاد ہی کو سعی وجہد کا مرکز و محور بنا کر بیٹھے اور اس فکر میں ملک کے مفاد کی پروا ہ نہ کرے۔

  • قرآن و سنت کی بالادستی:پھر مولانا اس بات پر پوری طرح یکسو تھے کہ: ’’ایک صحیح مصالحانہ فضا پیدا کیے بغیر ملک کا نظام زندگی تعمیر نہیں کیا جا سکتا‘‘۔پاکستان میں نظامِ حکومت کے بارے میں مولانا مودودی پہلے دن سے ہی بہت واضح ذہن رکھتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ یہی مطالبہ کیا تھا اور قیام پاکستان کے آغاز سےہی وہ اسی کے لیے میدان عمل میں سرگرم تھے کہ: ’’قرآن و سنت کو ملک کے آیندہ نظام کے لیے منبع ہدایت اور اوّلین ماخذ قانون تسلیم کیا جائے‘‘۔ قرآن و سنت کی بالادستی کے حق میں ان کا استدلال تھا کہ: ’’ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ان کا عقیدہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور ان کی تہذیب اور قومی روایات اس امر کا تقاضا کرتی ہیں اور ان کی ما ضی قریب کی تاریخ بھی اس کا تقاضا کرتی ہے۔ ان کے لیے یہ گواراکرنا سخت مشکل ہے بلکہ محال ہے کہ جس خدا اور جس رسولؐ پر وہ ایمان رکھتے ہیں، اس کے احکام سے وہ جان بوجھ کر منہ موڑ لیں اور اس کی ہدایات کے خلاف دوسرے طریقے اور قوانین  خود اپنے اختیار سے جاری کریں۔ وہ کبھی ان طریقوں کو جاری کرنے میں سچے دل سے تعاون نہیں کرسکتے اور نہ ان قوانین کی برضا و رغبت پیروی کر سکتے ہیں کہ جن کو وہ عقیدۂ باطل اور غلط سمجھتے ہیں۔ ان کے اندر آزادی کا جذبہ جس چیز نے بھڑکایا اور جس چیز کی خاطر انھوں نے جان و مال اور آبرو کی ناقابلِ تصور قربانیاں دیںوہ صرف یہ تھی کہ انھیں غیر اسلامی نظام زندگی کے تحت جینا گوارا نہ تھا اور وہ اسے اسلامی نظام زند گی سے بدلنا چاہتے تھے۔ اب ان سے یہ توقع کرنا بالکل بے جا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد وہ بخوشی اس اصل مقصد ہی سے دست بردار ہو جائیں گے کہ جس کے لیے انھوں نے اتنی گراں قیمت پر آزادی خریدی ہے‘‘۔

مولانا مودودی نے واضح کیا تھا کہ: ’’اگر کوئی جابر طاقت زبردستی اس مقصد کے حصول میں مانع ہو جائے، اور ان پر اسلام کے سوا کوئی دوسرا ضابطۂ حیات مسلط کردے تو وہ اسی مجبوری کے ساتھ اسے برداشت کرلیں کہ جس طرح انگریزی تسلط واقع ہونے کے بعد انھوں نے اسے برداشت کیا تھا۔ لیکن جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ ایک نارضامند آبادی پر جبر سے ایک نظام مسلط کرکے ا س کو کامیابی سے چلایا بھی جا سکتا ہے، تو وہ یقینا سخت نادان ہے‘‘۔

مولانا مودودی نے پاکستان میں قرآن و سنت پر مبنی اسلامی نظام حیات کےنفاذ کی مخالف بااثر قوتوں کی نشان دہی کرتےہوئے چار طبقوں کی نشان دہی کی تھی:

  •                 ’’ایک وہ مسلمان جو اخلاق، تہذیب اور معاشرت میں اس حد تک مغربی رنگ اختیار کر چکے ہیں کہ اب انھیں اسلامی طرز زندگی کی طرف پلٹنے کے تصور ہی سے وحشت ہونے لگتی ہے۔
  •                 ’’دوسرے وہ مسلمان جو مسلمان ہونے سے تو منکر نہیں مگر مغربی افکار و نظریات سے اس حد تک متاثر ہو چکے ہیں کہ انھیں اب اسلام پر اعتقاد باقی نہیں رہا۔ یہ دونوں طبقے اپنے مخصوص رجحانات کے سبب ایک لادینی (سیکولر) نظام اختیار کرنے پر اصرار کرتے ہیں کیونکہ وہی ان کے مزاج و مذاق سے مناسبت رکھتا ہے ۔
  •                 ’’تیسرا طبقہ ان مسلمانوں پر مشتمل ہے جو اسلامی نظام سےتو انکار نہیں کرتے مگر سنت کو چھوڑ کر صرف قرآن کو لینا چاہتے ہیں۔
  •                 ’’چوتھے طبقے میں پاکستان کی غیر مسلم اقلیتیں شامل ہیں جومسلمانوں کے دینی نظام کی نسبت ایک غیر دینی نظام کو ترجیح دیتی ہیں ۔

’’ان میں سے پہلے تین طبقے مسلمانوں کی آبادی میں مجموعی طور پر ایک فی ہزار کی نسبت بھی نہیں رکھتے۔ اب یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ملک کا انتظام اس بنیاد پر تعمیر ہو نہ سکے جسےکروڑوں آدمی چاہتے ہیں اور اس بنیاد پر تعمیر ہو جسے چاہنے والے چند ہزار آدمیوں سے زیادہ نہیں‘‘۔

مولانا نے اسلامی نظام حیات کے مخالفین کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا: ’’ملک کی بھلائی ایسی ہی بنیادوں پر اس کا نظامِ زندگی تعمیر کرنے میں ہے، جن پر زیادہ سے زیادہ اتفاق ممکن ہو ۔اور یہ اتفاق بہرحال لا دینی پر یا قرآن بلا سنت پر ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا، آپ اپنے خیالات جو کچھ بھی ہیں رکھیں مگر مزاحمت چھوڑ دیں‘‘۔

مولانا نے غیرمسلموں کو یقین دلایا تھا کہ: ’’مسلمانوں کا مذہب آپ پر مسلط نہیں کیا جائے گا، اور آپ کے مذہب اور تہذیب میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔ آپ کا پرسنل لا آپ کے لیے محفوظ رہے گا ،اورآپ کو زندگی کے ہر شعبے میں یہاں عملاً اس سے زیادہ حقوق حاصل ہوں گے، جو دنیا میں کہیں اقلیتوں کو حاصل ہوتے ہیں‘‘۔

  • جمہوریت کا فروغ: اسلامی نظام حکومت کے قیام کے لیے مولانا صرف جمہوری طریقۂ کار کو اپنانے کے حق میں تھے۔ ان کے نزدیک: ’’یہ خود قرآن وسنت کامنشا بھی ہے اور باشندگانِ ملک کی خواہشات کا تقاضا بھی‘‘۔ مولانا کی دلیل یہ تھی کہ: ’’یہ ملک کسی خاص شخص یا طبقے اور گروہ کا نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کا ہے جو اس میں رہتے ہیں۔ لہٰذا، اس کا انتظام ان سب کی، یا  کم از کم ان کی اکثریت کی مرضی کے مطابق چلنا چاہیے اور ان کو اصولاً یہ حق اور عملاً یہ موقع حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنے حکمران اپنی آزاد مرضی سے چنیں اور اپنی آزاد مرضی ہی سے ان کو تبدیل کرسکیں‘‘۔ ان کو اس بات کا پوری طرح ادراک تھا کہ جمہوریت کی دنیا میں جو مختلف شکلیں پائی جاتی ہیں اس کے باعث اس نظام کی موزونیت اور افادیت پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ اس امر کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا زور اس بات پر تھا کہ: ’’بحث اس [جمہوریت ] کی کسی خاص شکل میں نہیں بلکہ اس امر میں ہے کہ جو شکل بھی یہاں اختیار کی جاتی ہے، اس میں جمہوریت کی یہ حقیقت   فی الواقع موجود ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر یہاں کوئی ایسا نظام قائم کردیا جائے کہ جس میں باشندگان ملک کونہیں بلکہ کسی خاص طبقے کی مرضی کو غلبہ حاصل ہو تو خواہ اس پر کتنے ہی جلی حروف میں’ جمہوریت‘ کا سر عنوان لکھ دیا جائے، اس پر عام لوگوں کا مطمئن ہونا اور مطمئن رہنا بہرحال ممکن نہیں‘‘۔جمہوریت کے نام پر فردِ واحد یا کسی خاص گروہ کی بالادستی مولانا کے نزدیک: ’’ملک کی فلاح و بہبود کی ضامن نہیں ہو سکتی‘‘۔ وہ اس نقصان دہ صورتِ حال میں مبتلا ہونے سے ملک کو بچانا ضروری سمجھتے ہوئے تجویز کرتے ہیں:  ’’وہ تمام لوگ جو ملک کے آئندہ نظام کی تشکیل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، پہلے جمہوریت کے اصول کو صدقِ دل سے قبول کرلیں اور پھر نیک نیتی کے ساتھ ایسا نظام بنائیں، جس میں یہ اصول [اصل جمہوری روح] ٹھیک ٹھیک کارفرما ہو‘‘۔

مولانا کو اس بات کا پوری طرح اِدراک تھا کہ: ’’جمہوریت میں بھی بہت سے نقائص ہوتے ہیں، اور وہ نقائص اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جب کسی ملک کی آبادی میں شعور کی کمی ہو، ذہنی انتشار موجود ہو ،اخلاق کمزور ہو ں اور ایسے عناصر کا زور ہو جو ملک کے مجموعی مفاد کی نسبت اپنے ذاتی، نسلی، صوبائی اورگروہی مفاد کو عزیز رکھتے ہو ں‘‘۔ لیکن جمہوریت کے حق میں  مولانا کی دلیل یہ تھی کہ: ’’ان سب حقائق تسلیم کرنے کے بعد بھی یہ عظیم تر حقیقت اپنی جگہ پر قائم رہتی ہے کہ ایک قوم کی ان کمزوریوں کو دور کرنے اور بحیثیت مجموعی ایک بالغ قوم بنانے کا راستہ جمہوریت ہی ہے‘‘۔ جمہوریت کے حق میں اپنی راےکی مزید تشریح کرتے ہوئے مولانا نے باور کرایا ہے: ’’جمہوری نظام ہی وہ ایک نظام ہے جو ایک ایک شخص میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ ملک اس کا ہے، ملک کی بھلائی اور برائی اس کی اپنی بھلائی اور برائی ہے ۔یہی چیز افراد میں اجتماعی شعور بیدا رکرتی ہے۔ اور اس سے فرداً فرداً لوگوں کے اندر اپنے ملک کے معاملات سے دل چسپی پیدا ہوتی ہے۔ جمہوریت تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ عام لوگ خود اپنے قومی اور ملکی معاملات کو چلانے کے ذمہ دار ہوں اور وہ تجربے سے سبق سیکھ سیکھ کر اپنی غلطیوں کی تلافی کرتے چلے جائیں، یعنی ایک یا چند مرتبہ اگر ان کا انتخاب غلط ثابت ہواور اس کے نقصانات ان کے سامنے آجائیں تو کوئی دوسرا مداخلت کرکے اس کی اصلاح کرنے نہ آئے بلکہ وہ خود ہی ایک معروف ومسلّم ضابطے کے مطابق اس کی اصلاح کرتےرہیں‘‘۔ جمہوریت کے مقابلے میں دوسرے نظاموں (بادشاہی، ڈکٹیٹرشپ، اشرافیت) پر تنقید کرتے ہوئے مولانا نے لکھا تھا:’’اس میں عوام الناس، حالات کے محض تماشائی بن کر رہتے ہیں اور جب ان حالات کے ردوبدل یا بناؤ اور بگاڑ میں ان کی راے اور مرضی کا دخل نہیں ہوتا، تو وہ ان میں دل چسپی بھی لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ جمہوریت کے جو اور جیسے بھی نقائص ہوں، انھیں اس نقصان عظیم سے بہرحال کوئی نسبت نہیں ہے‘‘۔

مولانا مودودی نے ان لوگوں پر سخت گرفت کی تھی جو یہ کہتے ہیں کہ: ’’یہاں [پاکستان میں] جمہوریت ناکام ہو چکی ہے اوریہ ثابت ہوگیا ہے کہ اس ملک کے باشندے اس کے اہل نہیں ہیں۔ یہ حضرات وقتاً فوقتاً اس کے لیے مختلف قسم کی متبادل صورتیں پیش کرتے رہتے ہیں‘‘۔ مولانا کا کہنا تھا: ’’وہ متبادل صورتیں جو جمہوری نظام کے مقابلے میں پیش کی جاتی ہیں، ان کے بارے میں یہ بات ہم کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جمہوریت درہم برہم کر کے آمریت کی راہ پر چل پڑنا جتنا آسان ہے، جمہوریت کی طرف پھر پلٹ آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ آمریت خواہ پُرامن طریقے سے ہی قائم ہو، بہرحال پُرامن طریقے سے دفع نہیں ہوسکتی‘‘۔ آمریت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے مولانا نے اس کے معکوس نتائج کو بڑ ی تفصیل سے واضح کیا تھا: ’’آمریت خواہ کتنی ہی خیراندیش ہو اور کیسی ہی نیک نیتی سے قائم کی جائے ،اس کا مزاج اس کے اندر لازماً چند خصوصیات پیدا کر دیتا ہے، جو اس سے کبھی دُور نہیں ہو سکتیں اور ان خصوصیات کے چند لازمی اثرات ہوتے ہیں جو مرتب ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ وہ تنقید کو برداشت نہیں کرتی ۔وہ خوشامد پسند ہوتی ہے ۔وہ اپنے محاسن کا اشتہار دیتی اور عیوب پر پردہ ڈالتی ہے۔اس میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ خرابیاں بروقت نمایاں ہوجائیں اور ان کا تدارک کیا جاسکے ۔وہ راے عامہ اور افکار اور نظریات سے غیر متاثر ہوتی ہے۔ اس میں ردوبدل کسی کھلے کھلے طریقے سے نہیں بلکہ محلاتی سازشوں اور جوڑ توڑ سے ہوتا ہے، جنھیں عوام الناس صرف تماشائی ہونے کی حیثیت سے دیکھتے رہتےہیں۔ اس میں صرف ایک محدود طبقہ ملک کے سارے دروبست پر متصرف ہوتا ہے، اور باقی سب بے بس محکوم بن کر رہتے ہیں۔اس کا آغاز چاہے کیسی ہی نفع رسانی کے ساتھ ہو، انجام کار وہ ایک جابر طاقت بنے بغیر نہیں رہتی اور عام لوگ بے زار ہوکراس سے خلاصی کی تدبیریں سوچنے لگتے ہیں، مگر خلاصی کے جتنے پُرامن راستے ہوتےہیں یہ ان کو چُن چُن کر بند کر دیتی ہے،اور مجبوراً ملک ایسے انقلابات کی راہ پر چل پڑتاہے،جو مشکل ہی سے اس کو کسی منزل خیر پر پہنچنے دیتے ہیں‘‘۔

مو لانا چاہتے تھے کہ: ’’پاکستان میں جمہوری نظام کے بارے میں ہمیں یکسو ہونا چاہیے‘‘ لیکن وہ یہ ضروری سمجھتے تھے کہ: ’’ہم جمہوریت کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ اختیار کریں اور اس میں آمریت کے لوازم اور خصائص کی آمیزش نہ کریں ،کیوں کہ اس کے بغیر جمہوریت صیحح طریقے سے کام نہیں کر سکتی اور نہ وہ نتائج دکھاسکتی ہے، جو اس سے مطلوب ہیں‘‘۔

پاکستان میں حقیقی جمہوریت کے قیام اور استحکام کے لیے مولانا نے پانچ اصول پیش کیے:

                ۱-            تقسیم اختیارات کا اصول، یعنی ریاست کے تینوں شعبوں انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ کے  دائرۂ اختیار کا واضح طور پر الگ ہونا۔

                ۲-            شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کی ضمانت اور عدلیہ کا ان کے تحفظ پر قادر ہونا۔

                ۳-            انتخابات کی آزادی اور اس کی حفاظت کے لیے ایسی قانونی و انتظامی تدابیر، جن سے یہ اطمینان ہو سکے کہ انتخابات کے نتائج فی ا لحقیقت راے عام کے مطابق نکل سکیں گے۔

                ۴-            قانون کی حکمرانی ،یعنی یہ امر کہ راعی اور رعایا کے لیے ایک ہی قانون ہو، اور سب اس کے پابند ہوں، اور عدالتوں کو یہ حق ہو کہ سب پر بے لاگ طریقے سے وہ اس کو نافذ کرسکیں۔

                ۵-            ملازمین حکومت کا خواہ وہ سول سروس سے تعلق رکھتے ہوں یا فوج سے، سیاست میں دخیل نہ ہونا اور اس ہیئت ِحاکمہ کی اطاعت قبول کرنا کہ جسے باشندوں کی اکثریت آئینی طریقے پر ملک کا اقتدار سونپ دے‘‘۔

  • آمریت کی نفی:جمہوریت کی بقا کے لیے مولانا مودودی نے اس بات پر زور دیا تھا: ’’حکمرانوں کو یہ حق حاصل نہیں ہونا چاہیے کہ وہ جب چاہیں لوگوں کی آزادیِ ذات، آزادیِ تحریر و تقریر، آزادیِ اجتماع اور آزادیِ نقل و حرکت سلب کر لیں۔ جمہوریت کبھی ایسے ماحول میں زندہ نہیں    رہ سکتی، جہاں حکومت پر تنقید کرنا دشوار ،اور حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا دشوار تر ہوجائے۔ ایسی جگہ تو جو ایک دفعہ برسرِ اقتدار آجائے گا، وہ پھر زبردستی اقتدار پر قابض رہے گا اور اس کا نام بہرحال جمہوریت نہیں ہے‘‘۔

 جمہوریت میں آزادی کے ساتھ انتخاب کی آزادی پر مولانا نے بہت زور دیا ہے۔     ان کے نزدیک: ’’جمہوریت تو نام ہی اس چیز کا ہے کہ لوگ اپنی آزاد مرضی سے جس کو چاہیں حکمرانی کے لیے منتخب کریں اور جب چاہیں اپنی آزاد مرضی سے ان کو تبدیل کر دیں۔ اگر دباؤ اور لالچ اور فریب اور حیلوں سے انتخابات کے نتائج اصلی راے عام کے بالکل برعکس برآمد کیے جاسکتے ہوں تو ایسی حالت میں لوگوں کو راے اور انتخاب کا حق دینا اور نہ دینا دونوں برابر ہیں۔

  • آئین اور قانون کی حکمرانی: جمہوری نظام کی کامیابی کو مولانا نے آئین اور قانون کی سب کے لیے یکساں حکمرانی کو بنیادی شرط قرار دیا تھا: ’’ملک میں آئین وقانون اور ضابطہ سب کے لیے یکساں ہو، سب پر غالب ہو اور کوئی اس کی خلاف ورزی کرنے کا مجازنہ ہو ۔جہاں قانون کی ساری پابندیاں صرف کمزوروں کے لیے ہو ں اور طاقت والے ہر وقت آئین اور قانون کو بالاےطاق رکھ کر اپنی من مانی کر سکتے ہوں اور جہاں عدل و انصاف کی طاقت زورآورں کے مقابلے میں قانون کو نافذ کرنے سے عاجز ہو، وہاں جمہوریت کبھی قائم نہیں ہو سکتی اور قائم ہوجائے تو زندہ نہیں رہ سکتی۔ جمہوریت توسب لوگوں کی برابری کا نام ہے اور برابری کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ضابطہ سب کےلیے ایک ہو اور سب پر یکساں نافذ ہو‘‘۔

سیاست میں مقتدر اور محافظ حلقوں کی مداخلت کومولانا مودودی نےسخت ناپسند کرتے ہوئےاس عمل کو ایک بہت بڑی خیانت اور نتائج کے اعتبار سے پاکستان کے لیے ایک خطرناک چیز قرار دیا تھا۔ انھوں نے حکومت کے کارپرداز اور محافظوں کو سچے دل سے جمہوریت کے اصول کو تسلیم کرنے کی یادہانی کراتے ہوئے کہا تھا کہ: ’’وہ اس بات کو مان لیں کہ ملک باشندوں کا ہے اور باشندوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنی آزاد مرضی سےجن لوگوں کو چاہیں اپنے ملک کا کارفرما بنائیں‘‘ ۔

مولانا مودودی کا نظریہ تھا کہ: ’’ہمارے ملک کو بہت سے درپیش مسائل کی طرف توجہ کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ لوگوں کی اخلاقی و دینی حالت درست کرنی ہے ۔معاشی بدحالی کا علاج کرنا ہے۔ عام جہالت کو دُور کرنا ہے۔ نظام تعلیم کی اصلاح کرنی ہے اور ایسے ہی بہت سے مسائل ہیں‘‘۔ لیکن ان کے نزدیک سب سے مقدم بات یہ تھی کہ: ’’ہم اپنے نظام زندگی کی بنیادوں پر اتفاق کرلیں اور یہ اتفاق صحیح بنیادوں پر ہو‘‘۔مولانا مودودی کو یقین تھا کہ ہم سب اسی لائحہ عمل کے تحت اپنے مسائل کو حل کر نے کی طرف قدم بڑھاسکیں گے اور ایک مستحکم پاکستان تعمیر کر سکیں گے۔