قیامِ پاکستان کے ۱۱ سال اور ۵۴ روز بعد، ۷؍اکتوبر۱۹۵۸ء رات کےساڑھے دس بجے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پہلےصدر اسکندر مرزا [م:۱۳ نومبر ۱۹۶۹ء]نے ملک میں مارشل لا نافذکرکے قومی اور صوبائی حکومتوں کو برطرف ،مرکز اور صوبوں میں اسمبلیوں کو برخواست،سیاسی جماعتوں پر پابندی اور سپہ سالار جنرل محمد ایوب خان [م: ۱۹؍اپریل ۱۹۷۴ء]کو مسلح افواج کا سپریم کمانڈر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے کا اعلان جاری کیا۔اس اعلان کے ساتھ ہی پاکستان میں سول حکومتوں کے خاتمے اورفوجی حکمرانی کے ۱۳ سالہ طویل دور کا آغاز ہوا، جس کا اختتام ۲۰دسمبر ۱۹۷۱ء کو اُس وقت ہوا، جب آمریت کے تضادات، داخلی تصادم اور بھارتی یلغار کے نتیجے میں مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔
اس زمانے میں مغربی دانش وَر اورمؤثر حلقے تسلسل سے یہ نظریہ پیش کر رہے تھے کہ: ’’فوج ترقی پذیر ممالک میں سب سے منظم اور جدید تعلیم یافتہ ادارہ ہے اور ان ملکوں میں فوجی اقتدار ہی ایک مؤثر نظام حکومت فراہم کر سکتا ہے جس کے ذریعے یہ ریاستیں ترقی کرسکتی ہیں‘‘۔
جنرل محمد ایوب خان پاکستان کےپہلے فوجی حکمران تھے۔وہ ۱۷جنوری ۱۹۵۱ء کو پاکستانی افواج کے اولین کمانڈر انچیف بنے۔ انھوں نے اکتوبر۱۹۵۸ء سے مارچ ۱۹۶۹ء تک کے زمانے میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، فیلڈ مارشل اور پھر صدر کی حیثیت سے مجموعی طور پر ۱۰ سال سے زائد عرصہ تک متحدہ پاکستان میں حکومت کی۔ ان کی خواہش کے مطابق تیار کردہ ۱۹۶۲ء کا آئین، پارلیمانی نظام کے بجاے صدارتی نظام پر مبنی تھا، جو پوری طرح جنرل ایوب خان کی ذات کے گرد گھومتا تھا۔ ان کے دورِ حکومت میں پاکستان میں ایک نا ہموار اور غیر متوازان معاشی ، صنعتی اور زرعی ترقی ہوئی۔ تاہم، ان کے کئی ہمدرد آج تک انھیں ایک ’خیراندیش‘ آمر (Benevolent Dictator) کی حیثیت سے یاد کرتے ہیں۔
جنرل ایوب خان کا نظریہ تھا کہ: ’’دورِجدید کے سیکولر نظام حکومت کو اپنا کر ہی پاکستان ترقی کر سکتا ہے‘‘۔ اپنے ۱۰ سالہ دور اقتدار میں انھوں نے پاکستانی عوام کوہمیشہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مسائل کا حل جدید دور کے نظریات ہی کی مدد سے ممکن ہے۔ انھیں اپنے بارے میں یقین تھا کہ صرف وہی پاکستان کے نجات دہندہ ہیں اور تمام ’رجعت پسند‘ (Reactionaries) اور ’بنیاد پرست‘ (Fundamentalists ) قوتوں کو بے اثر کرسکتے ہیں، جو ان کے بقول: ’’اسے پتھر کے زمانے کی غاروں میں واپس دھکیلنا چاہتے ہیں‘‘۔
اس پورے عرصے میں ایک پالیسی کے تحت مولانا مودودی [م:۲۲ستمبر ۱۹۷۹ء]کی ذات اورجماعت اسلامی، جنرل ایوب صاحب کا خاص ہدف تھی۔ جس کی وجوہ سیاسی اور نظریاتی بھی تھیں۔ اس دور میں جماعت اسلامی واحد سیاسی اور دینی پارٹی تھی، جو مولانا مودودی کی قیادت میں ایک واضح نصب العین کے ساتھ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام ، قانون کی حکمرانی کے احیا اور فوجی آمریت کے خلاف، جمہوریت پسند قوتوں سے مل کر بھرپور سیاسی جدوجہد کر رہی تھی۔
میاں طفیل محمد [م:۲۵ جون ۲۰۰۹ء]کے مطابق: ’’[ جنرل ایوب خان ] پاکستان میں مستقلاً غیر محدود حکمرانی کا اختیار حاصل کرنا چاہتے تھے اور مولانا مودودی کو اپنی راہ کی بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے مولانا مودودی کو لاہور کے گورنر ہاؤس میں بلا کران سےطویل ملاقات کی۔ میاں طفیل محمد جو اس میٹنگ میں مولانا کے ساتھ شریک تھے ،انھوں نے اس بات چیت کےبارے میں لکھا ہے کہ جنرل ایوب نے مولانا کو سمجھاتے ہوئے بہت ’مشفقانہ انداز‘ میں فرمایا: ’مولانا یہ سیاست تو بہت گندا کام ہے۔ آپ جیسے بلندکردار اور پاکیزہ نفس لوگ اس میں کیوں پڑگئے ہیں؟ آپ اسے چھوڑیں اور ملک کے اندر بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اسلام کی تبلیغ فرمائیں۔ سیاست، سیاسی لوگوں کو کرنے دیں۔ اس دلدل میں تو جو بھی قدم رکھے گا، کیچڑ سے لت پت ہوگا ۔ آپ مذہب کا اور تبلیغ کا کام کریں تو ہماری حکومت آپ سے تعاون کرے گی‘۔ مولانا نے اس کے جواب میں فرمایا:’جنرل صاحب، آپ ٹھیک ہی فرماتے ہیں کہ اس وقت سیاست کو غلط کار اور خوفِ خدا سے عاری لوگوں نے ایک گندا کھیل بنا دیا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ حکومت کی خرابی تمام خرابیوں کی جڑ ہے اور اس خرابی نے ہماری زندگی کے ہردوسرے شعبے کو فلتھ ڈپو [گندگی کا مرکز]بنا دیا ہے۔ اس لیے جب تک سیاست کو گندگی سے پاک نہیں کیا جائے گا، زندگی کے کسی شعبے کو بھی درست اور صحت مند نہیں بنایا جاسکتا۔ اجتماعی نظامِ زندگی سے اس گندگی کو دُور کرنے کی کوشش ہمارے نزدیک کوئی سیاسی کام نہیں، بلکہ سراسر ایک دینی فریضہ ہے‘‘۔
ایوب خان نے فرمایا: ’’مولانا، پھر یہ کام کرتے ہوئے تو آپ اپنے کو غلاظت کی آلودگی سے نہیں بچا سکتے‘‘۔ مولانا نے جواب دیا:’’اس میں کیا شک ہے کہ جو شخص بھی غلاظت اور سیوریج صاف کرنے کا کام کرے گا، وہ چاہے کتنی ہی احتیاط برتے، کچھ نہ کچھ چھینٹے تو اس کے کپڑوں پر ضرور پڑیں گے۔ لیکن اگر اس خوف سے سیوریج صاف ہی نہ کیا جائے تو پھر لامحالہ سارے شہر کی صحت خطرے میں پڑ جائے گی‘‘۔(مشاہدات ،میاں طفیل محمد،نومبر ۲۰۰۰ء، ص ۳۲۲)
مولانا مودودی کو سیاست سے دست بردار کرنے میں ناکامی کے باعث ایوب خان اور ان کے ساتھیوں کی سوچ میں، جماعت اسلامی اور امیر جماعت مولانا مودودی کے خلاف پہلے سے موجودمخاصمت میں اور بھی شدت آگئی۔
–ایوب خان اپنے دورِ اقتدار میں جماعت اسلامی اور مولانا مودودی کے خلاف جارحانہ رویےپر قائم رہے ۔ اس منفی سوچ کا اندازہ ان کی خود نوشت Friends not Masters (’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘) کے مطالعے سے ہوتا ہے، یا پھر ان کی تحریر کردہ ڈائری کے مندرجات سے، جو ۲۰۰۷ء میں امریکی مصنف اور سفارت کار کریگ بیکسٹر (Craig Baxter ) نے: Diaries of Field Marshal Muhammad Ayub Khan (1966-1972) کے نام سے مرتب کی اور اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم مولانا مودودی کے بارے میں جنرل ایوب خان کی انتہائی آرا سے آگاہی حاصل کریں ،ایوب خان کےعروج اور زوال کے عوامل کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں:
ایوب خان جنوری ۱۹۴۸ء میں مشرقی پاکستان میں جرنل آفیسر کمانڈنگ مقرر ہوئے۔ اس تقرر کے دوران انھیں وہاں کے تمام قابل ذکر سیاست دانوں سے ملنے کا موقع ملا اور ان کی باہمی چپقلش کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ پھر سیاست دانوں کے بارے میں فرض کر لیا کہ: ’’سیاست دان ملک کو ایک مضبوط اور مستحکم لیڈرشپ فراہم نہیں کر سکتے‘‘۔ ۱۹۵۰ء میں مشرقی پاکستان سے واپسی پر فوج کے ہیڈ کوارٹر (GHQ) راولپنڈی میں ایڈجوٹنٹ جنرل مقرر ہوئے۔ وہ فوجی افسروں کے سامنے مختلف لیکچرز میں بار بار یہ کہتے: ’’پاکستان کو چلانے کے لیے سیاست دانوں پر بھروسا نہیں کیا جاسکتا‘‘۔
اس دوران ان کے تعلقات اسکندر مرزا سے استوار ہوئے، جو اس وقت پاکستان کےسیکریٹری دفاع تھے۔ اسکندر مرزا ہی کی حمایت سے ایوب خان جنوری ۱۹۵۱ء میں پہلے پاکستانی کمانڈر ان چیف مقرر ہوئے۔ اسی سال پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران ۱۶؍اکتوبر کو گولی مار کر شہید کردیا گیااورملک غلام محمدگورنر جنرل بن گئے [ملک غلام محمدکا تعلق بیورو کریسی کی آڈٹ اور اکاؤنٹ سروس سے تھا اور ۱۹۵۱ءمیں وہ پاکستان کے وزیر خزانہ تھے]۔ انھوں نے گورنر جنرل کے اختیارات کو ایک سویلین آمر کی طرح استعمال کیا اور دستور ساز اسمبلی ۲۴؍اکتوبر۱۹۵۴ء کو برخواست کر دی۔ ۱۹۵۵ء میں اسکندر مرزا نے ملک غلام محمد کو مستعفی ہونے پر مجبور کرکے خود گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔اس دوران ملک میں یکے بعد دیگرے تین وزیر اعظم تبدیل ہوئے، جب کہ دوسری جانب ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۸ء تک کے عرصے میں جنرل ایوب کو کمانڈر ان چیف کے عہدےپر (الطاف گوہر کے مطابق دوبار چار چار سال کی،جب کہ امریکی محقق ہربرٹ فیلڈمین کے مطابق انھیں دونوں مرتبہ پانچ پانچ سال کی) توسیع ملتی رہی۔ ۱۹۵۳ء میں ایوب خان نے ترکی کا دورہ کیا تو ترک فوج ان کی آئیڈیل بن گئی اور پھر ۱۹۵۴ء میں امریکا کے تفصیلی دورے میں ایوب خان امریکیوں کو یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ :’’میری سر براہی میں پاکستانی فوج خطے میں کمیونزم کو پھیلنے سے روک سکتی ہے‘‘۔ ایوب خان ہی کی کوششوں سے پاکستان سیٹو اور سینٹو کا ممبر بنا اور۱۹۵۵ءمیں امریکا اور پاکستان کے درمیان ’باہمی دفاعی معاہدہ‘طے پایا، جس سے پاکستان میں امریکی اثر ورسوخ اور قومی اُمور میں مداخلت میں بے حداضافہ ہوا۔یادرہے کہ ایوب خان۱۹۵۴ء سے کمانڈر انچیف کے ساتھ ساتھ وزیردفاع کے عہدے پر فائز تھے، اور اس حیثیت میں مرکزی کابینہ کے ایک انتہائی بااثر رکن تھے۔
۱۹۶۷ء میں شائع ہونے والی اپنی خودنوشتFriends Not Masters میں ایوب خان صاحب لکھتے ہیں: ’’آغاخان سوم [م:۱۱جولائی ۱۹۵۷ء]کی دُور اندیشی سے مَیں بہت متاثر تھا۔ مجھے ان سے بارہا گفتگو کا موقع ملا۔ لیاقت علی خاں کے قتل کے کچھ ہی دن بعد جب مَیں برطانیہ گیا ہوا تھا، آغاصاحب کی دعوت پر سمندر کے کنارے ایک پُرفضا مقام یاکی مور، نیس[فرانس] میں مَیں اُن کا مہمان تھا۔تب ان سے میری ایک دل چسپ ملاقات ہوئی۔ انھوں نے مجھے کہا: ’میں کہے دیتا ہوں کہ اگر آپ نے پارلیمانی نظام اختیار کیا تو پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ دراصل میں نے یہی بتانے کے لیے تمھیں یہاں بلوایا ہے، اور تنہا تم ہی وہ شخص ہو جو پاکستان کو بچاسکتے ہو‘۔ میں نے پوچھا: ’آپ کے خیال میں کس طرح بچا سکتا ہوں؟‘۔وہ بولے: ’اس نظام کو بدل دو، اور یہ کام حقیقت میں تم ہی کرسکتے ہو‘‘(ص ۱۹۲)۔اور جنرل صاحب نے اس بات کو بطور ’وصیت‘ پلّے باندھ لیا۔
صدر اسکندرمرزا نے ۷؍اکتوبر۱۹۵۸ء کو ۱۹۵۶ء کا متفقہ پارلیمانی آئین منسوخ کردیا، اور پورے ملک میں مارشل لا نافذ کرکے ایوب خان کونہ صرف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بلکہ مسلح افوا ج کا سپریم کمانڈر بھی مقرر کردیا۔حالاں کہ ۱۹۵۶ء کے آئین کے مطابق یہ عہدہ صدر پاکستان کے لیے مخصوص تھا۔ پھر جنرل ایوب خان سپریم کمانڈر نے اپنے ہی اعلان کردہ مارشل لا نظام میں ۲۷؍اکتوبر کو اسکندرمرزا سےاستعفا لیا ، خودصدر بن گئے اورمرزا صاحب کو لندن جلاوطن کر دیا۔ پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ اس وقت تک کئی دھڑوں میں تقسیم ہو کر مختلف ناموں سے کام کررہی تھی۔ تب پاکستان میں مولانا مودودی کی سر براہی میں جماعت اسلامی وہ واحد سیاسی قوت تھی، جو پورے پاکستان میں ایک مضبوط تنظیم اور مربوط منشور کے ساتھ سرگرم عمل تھی۔
جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی سخت گیر مارشل لا کی دہشت بٹھاکر اقتدار مستحکم کرلیا۔ ۱۹۵۹ء میں تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی، اور آزاد صحافت بھی قدغن کا شکار بن کر رہ گئی۔ ایوب دور میں عوام کی سیاسی عمل میں شرکت صرف ’بنیادی جمہوریت‘ کے نئے نظام کے تحت ہی ممکن بنائی گئی ۔ پاکستان کا صدر منتخب کرنے کا حق صرف ۸۰ ہزار مقامی رہنماؤں کو دے کرایوب خان نے یہ فرض کرلیا کہ اب وہ ہرقسم کے احتساب سے آزاد ہیں۔ ان کی حکومت کا دارو مدار بیورو کریسی پر تھا۔
ایوب خان کے قائم کردہ شخصی نظام میں حکومت پر جائز تنقید، بازپُرس اور اس کے احتساب کی کوئی گنجاش نہیں تھی۔جو بھی ان کے حکومتی اقدامات پر تنقید یا اعتراض کرنے کی کوشش کرتا تو اسے ’اقتدار کا بھوکا‘ اور ’غیر محب وطن‘ ٹھیرایا جاتا۔ مذہبی طبقے،علمااور خصوصاً مولانا مودودی، ایوب خان کی ناراضی کااس لیے خاص ہدف تھےکہ وہ منظم ترین پارٹی جماعت اسلامی کو اپنی تخلیق کردہ کنونشن مسلم لیگ کا اصل حریف سمجھتے تھے۔
Friends Not Masters میں علما پر عموماً اور مولانا مودودی پر خصوصاً تنقید کی ہے۔ پھر ایوب خان نے نام لے کر تاریخی حقائق کے برعکس مولانا کو قوم پرست علمامیں شامل کرکے لکھا ہے:’’جماعت اسلامی کے سربراہ مولانا مودودی نے جو پاکستان کے شدید مخالف تھے، پاکستان آتے ہی پاکستانی حکومت کو غیراسلامی قرار دے کر اسے اسلامی بنانے کی تحریک شروع کردی‘‘ [ص ۲۰۲، ۲۰۳]۔ ایوب خان کو دوسرے دیگربہت سے جدیدیت زدہ افراد کی طرح کاروبارِ مملکت میں اسلام کا نام لینے سے چِڑ تھی۔ ایوب خان صاحب کے دماغ میں یہ بات راسخ ہوچکی تھی کہ اسلامی دستور کی ساری جدوجہد کا مقصد صرف اقتدار کا حصول ہے۔ وہ سیاست دانوں اور دینی رہنماؤں پر بھروسا کرنے کے بجاے اپنے آپ کو پاکستان کا واحد خیرخواہ اور اس پر بلاشرکت غیرےحکمرانی کا جائزحق دار سمجھتے تھے۔
ایوب خان کی یہ ڈائری ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۲ء تک کے برسوں پر محیط ہے۔ ایوب خان کے بارے میں الطاف گوہر کی کتاب Ayub Khan - Pakistan’s First Military Ruler کے مطالعےسے معلوم ہوتا ہے کہ اس ڈائری کے پہلے حصے کا مسودہ بھی موجود ہے، جو ۱۹۶۶ء سے پہلے کے برسوں پر مشتمل ہے، لیکن یہ جِلد ابھی تک کہیں نہیں چھپی۔ ایوب خان جب تک اقتدار میں رہے، انھوں نے ڈائری میں مولانا کا ذکر ہر جگہ صرف ’مودودی‘ کے نام سے کیا ہے (ہم نے ایوب خان کی تحریر کا ترجمہ کرتے ہوئے مجبوراً مولانا کے لیے صیغۂ واحد میں وہی لفظ استعمال کیا ہے)۔
اس ڈائری میں مولانا مودودی کے حوالے سے پہلا نوٹ ۶ستمبر۱۹۶۶ءکو ایک ’سابق احراری عالم‘ صاحبزادہ فیض الحسن صاحب [م:۲۳فروری ۱۹۸۴ء]کی مناسبت سےلکھا گیا ہے: ’’انھوں [صاحبزادہ فیض الحسن] نے کل مجھے بتایا کہ ’’مودودی کے حامی، دیوبندی گروپ اور احرار وغیرہ، میرے [یعنی ایوب خان کے] خلاف نفرت پھیلا رہےہیں۔وہ عائلی قوانین پر تنقید کر رہے ہیں، جن کے ذریعے غریب خواتین، یتیموں اور مجبور لوگوں کو بڑی مدد ملی ہے اور وہ خاندانی منصوبہ بندی اسکیم کی مخالفت کررہے ہیں‘‘ [ایضاً، ص ۵]۔ ایوب خان چاہتے یہ تھے کہ وہ جو بھی تبدیلی لائیں ہرطبقہ اسے من وعن تسلیم کر لے۔ اسی لیے اپنے نافذ کردہ عائلی اور ضبط ولادت کے قوانین پر تنقید کرنے والوں کو وہ ’اسلام کے نام پر ترقی کے سخت دشمن‘قرار دیتے اور الزام عائد کرتے ہیں کہ: ’’ان کے مذہبی فلسفے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیا سی شعوررکھنے والے لوگ مذہب سے دُور ہورہے ہیں۔ انھوں [علما] نے حسد کی وجہ سے ان لوگوں کو کافر قرار دیا ہے، جنھوں نے ملت ِاسلام میں محض روشن خیالی لانے کی کوشش کی ہے‘‘۔ [ڈائریز آف فیلڈ مارشل محمد ایوب خان، ص۵]
۲؍ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو ڈائری میں لکھتے ہیں: ’’گورنرموسیٰ [ملک امیر محمد خان کی جگہ نئے گورنر] سے میٹنگ میں مودودی کی شرپسندانہ سرگرمیوں کا توڑ کرنے پر بات ہوئی ہے‘‘ [ایضاً،ص ۱۴]۔ حالاں کہ جماعت کی تمام تر سرگر میاں ہمیشہ کی طرح سیاسی اور قانونی دائرے کے اندر جاری تھیں۔
اگرچہ ایوب خان صاحب کو اپنی ’روشن خیالی‘ پر بڑا ناز تھا اور وہ خود کو’ جدیدیت‘ کا علَم بردار تصور کرتے تھے۔ لیکن رؤیتِ ہلال کے مسئلے پر ان کی توہم پرستانہ اقتدار پسندی کھل کر سامنے آتی ہے ۔ ۱۳جنوری ۱۹۶۷ء کے روز عید جمعے کو ہونے کا قوی امکان تھا ۔بدھ کی شام پورے ملک کے کسی علاقے سے رؤیتِ ہلال کی مصدقہ اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔ کسی نے ایوب خان کے دل میں یہ وہم ڈال رکھا تھا کہ: ’’عید جمعے کے دن نہیں ہونی چاہیے، کیوںکہ جمعے کے دن دو خطبے حکمرانوں پر بھاری ہوتے ہیں‘‘۔ اس لیے رات گئے ۱۲جنوری ۱۹۶۷ء جمعرات کو سرکاری طور پرعید منانے کا اعلان ہوگیا، جب کہ ہر مکتب ِ فکر کے علما نےزبردستی کی سرکاری عید منانے سے انکار کر دیا۔
ایوب صاحب نے علما کےبائیکاٹ کا سارا غصّہ مولانا مودودی اور کسی حد تک مولانا احتشام الحق تھانوی [م: ۱۱؍اپریل ۱۹۸۰ء] پر ظاہر کیا اور پیر آف دیول شریف [م: ۲۵ستمبر۱۹۹۵ء] کے حوالے سے لکھا ہے کہ: ’’یہ لوگ لاؤڈ اسپیکروں پر اعلانات کرکے لوگوں کو ۱۲ تاریخ کو عید منانے سے منع کررہے تھے‘‘۔ ایوب خان کا کہنا ہے کہ: ’’یہ لوگ متوازی حکومت چلانے، اور عوام کی بے خبری و معصومیت کو سیاسی استحصال کے لیے برتنے کی کوشش کر رہے ہیں… میں ایسی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اسلام صرف رسم ورواج اور تقریبات منانے، دوسرے الفاظ میں ’مُلّا ازم‘ تک محدود نہ رہ جائے بلکہ یہ زندگی کا ایک متحرک فلسفہ بن جائے‘‘[ایضاً،ص ۴۸]۔ گویا کہ عید جیسے دینی شعار بھی ’رسم ورواج‘ میں شامل ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’یہ معاملہ سمجھ لینا چاہیے کہ مُلائوں میں شرپسند عناصر کو پیش قدمی نہیں کرنے دی جائے گی اور نتیجہ وہی ہوگا کہ جو معاملہ عیسائیت کے ساتھ ہوا یا پھر ترکی میں اسلام کے ساتھ، اور دیگر بہت سے ممالک میں بھی‘‘ [ایضاً،ص ۴۸]۔یادرہے کہ سرکاری عید کو تسلیم نہ کرنے والے علما میں مولانا مودودی بھی شامل تھے اور ان کو گرفتار کرکے بنوں [خیبرپختونخوا]میں قید کردیا گیا تھا۔ ’ترقی‘ اور ’روشن خیالی‘ کی اس سے بہتر کیا اور مثال ہو سکتی تھی کہ جعلی عید نہ منانے والوں کی آزادی سلب کر کے ان کو دُور دراز کے علاقوں کی جیلوںمیں بند کر دیا جائے۔
ایوب خان کی اس پسندیدگی سے حوصلہ پاکر فیض الحسن صاحب نےبھانپ لیا تھا کہ مولانا مودودی کی مخالفت کے نام پر مفادات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ ۹فروری ۱۹۶۷ء کو ڈائری میں لکھتے ہیں: ’’انھوں [یعنی فیض الحسن صاحب] نےمطالبہ کیا کہ انھیں اپنی فیملی کے اخراجات اور مودودی کے خلاف جارحانہ مہم چلانے کے لیے وسائل فراہم کیے جائیں۔ اس مطالبے کا خلاصہ یہ تھا کہ:انھیں بسوں کے نئے روٹ پرمٹ اورایک چھوٹی انڈسٹری شروع کرنے کے لیے سرمایہ دیا جائے ۔ میں، فیض الحسن سے بے تکلفی سے بات کرسکتا ہوں۔ وہ ایک تعلیم یافتہ، آزاد خیال اور حسِ مزاح کے حامل انسان ہیں‘‘۔[ایضاً، ص ۵۹]
۱۸فروری ۱۹۶۷ء کو ایوب خان صاحب، جماعت اسلامی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’مغربی پاکستان کی کابینہ کے اجلاس میں ، خرابی پیدا کرنے والی جماعت اسلامی اور سیاسی مُلاؤں کا معاملہ زیربحث آیا، اور متعدد اقدامات تجویز کیے گئے۔ میں نے کہا: اصل مسئلہ یہ ہے کہ مُلّا اپنے آپ کو اسلام کی تعبیر کا اجارہ دار سمجھتا ہے‘‘۔ [ایضاً، ص ۶۳]
مولانا مودودی کے خلاف مہم کے ذریعے فائدہ حاصل کرنے کے متمنی صاحبزادہ صاحب تنہا نہیں تھے۔ ۲۰فروری ۱۹۶۷ء کو ڈائری کے اندراج سے معلوم ہوتا ہے: ’’کوثر نیازی [م: ۱۹مارچ ۱۹۹۴ء ] ملنے آئے۔ وہ بڑے ترقی پسند مُلّا ہیں، جو مودودی کے گمراہ کن فلسفےاور طرزِ عمل کے مکمل طور پر مخالف ہیں۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے مودودی کی سرگرمیوں کا توڑ کرنے کے لیے ایک تفصیلی یادداشت دیں گے اور بتائیں گےکہ مسلم لیگ کو اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے… بعدازاں [چودھری غلام احمد- م: ۲۴فروری ۱۹۸۵ء] پرویز صاحب بھی ملے، انھوں نے ماوزے تنگ [م: ۹ستمبر ۱۹۷۶ء]کے فلسفے پر بڑا فکرکشا مطالعہ لکھا ہے۔ حقیقت ہے کہ اسلام میں حیات بخش فلسفہ ہے، جسے مُلّاازم کی گہری زنگ آلودگی سے صاف کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔[ایضاً،ص۶۴، ۶۵]
۲۵فروری کو ڈائری میں ایوب خان صاحب لکھتے ہیں: ’’گورنروں کی کانفرنس میں جماعت اسلامی کی طرف سے پیدا کیا جانے والا دبائو زیربحث آیا، اور حسب ذیل نکاتِ کار کی مناسبت سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی: اوّل یہ کہ علما اور مساجد کو کس طرح قومی پالیسی کی ترویج کا ذریعہ بنایا جائے؟ دوم یہ کہ مخالفت کرنے والوں کو کس طرح بے اثر بنایا جائے؟ سوم یہ کہ جماعت اسلامی جیسی سیاسی پارٹی نے مذہب کے لبادے میں موجودہ حکومت کو غیراسلامی قرار دینے کی مہم چلا رکھی ہے۔ اس سے کس طرح نبٹاجائے؟‘‘[ایضاً، ص ۶۶،۶۷]
اندازہ ہوتاہے کہ ایوب خان صاحب ہر اس شخص کی بات پر یقین کرکے اس کی مدد لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، جو انھیں مولانا مودودی کی مخالفت کرتے ہوئے ملتا ہے۔ ۲۷مارچ ۱۹۶۷ء کو لکھتے ہیں: ’’صاحبزادہ فیض الحسن اپنی سربراہی میں ۲۰علما کا ایک وفدلے کر مجھے ملنے آئے۔ انھوں [صاحبزادہ صاحب ]نے مودودی کی سرگرمیوں کے خلاف ناراضی ظاہر کرتے ہوئے راے ظاہر کی ہے کہ اس کی سرگرمیاں انتشار انگیز اور سیاسی محرکات کی حامل ہیں اور پھر اس ارادے کا اظہار کیا کہ ہم ہر طرح سے ان [یعنی مولانا مودودی]کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں… علما کے اس وفد نے میرے دستور پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط مرکز کی وجہ سے [ایوبی] دستوراسلامی تصور کے بہت قریب ہے… صاحبزادہ صاحب نے علیحد گی میں مجھے یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ علما[جنھیں وہ خود لائے تھے] اگرچہ مودودی کے مقابلے میں بہت اچھا کام کر سکتے ہیں، لیکن روپے پیسے کے معاملے میں ان کی دیانت کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی‘‘[ایضاً، ص۷۵]۔ اس کا مطلب بالکل واضح ہے کہ مالی وسائل صاحبزادہ فیض الحسن صاحب کے تصرف میں دیے جائیں۔
ایوب خان صاحب کی طرف سےمولانا مودودی کے خلاف سلگتی ہوئی مخاصمت کا اندازہ ۴؍اپریل ۱۹۶۷ء کے اس نوٹ سے ہوتاہے: ’’عربی زبان میں لکھا ہوا ایک کتابچہ میرے نوٹس میں لایا گیا ہے جس پر میرا اور پاکستان کا ذکر سخت بُرے الفاظ میں کرتے ہوئے بتایا گیا ہےکہ پاکستان میں مُلّاازم کی اجازت نہیں ہے اور میری پالیسیاں غیر اسلامی ہیں۔اگرچہ اس کتابچے پر مصنف کا نام نہیں دیا گیا لیکن گمان یہی ہے کہ یہ مودودی کی تصنیف ہے ۔یہ کتابچہ عرب دنیا میں وسیع پیمانے پر تقسیم کے لیے لکھا گیا ہے‘‘[ایضاً، ص ۷۹]۔ ایوب خان نے اگلے جملے میں مولانا پر انتہائی گندے الفاظ میں تنقید کرتے ہوئے انھیں ’پاکستان کا غدار اور اسلام کا دشمن‘ قرار دیا ہے۔
تاریخی اعتبار سے امرواقعہ ہے کہ مولانا نے کوئی تحریر اپنے نام کے بغیر کبھی شائع نہیں کی۔ حتیٰ کہ بیرون ملک سفر کے دوران پاکستان کے اندرونی حالات پر تبصرہ کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ امپیکٹ انٹرنیشنل، لندن کے ایڈیٹر حاشر فاروقی صاحب راوی ہیں کہ: ’’۱۹۶۸ء میں جب مولانا مودودی لندن تشریف لائے اور بی بی سی اردو سروس کے براڈکاسٹر انعام عزیز نے ان سے پاکستان کی سیاسی صورتِ حال کے بارے میں سوال کیا، تو مولانا نے بیرونِ ملک ہونے کے باعث تبصرہ کرنے سے معذرت کی ۔ اسی دورے میں پاکستانیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران بھی مولانا نے پاکستان کے حالات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔
ایوب خان کی اس تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اقتدار کا رنگ پھیکا اور ترقی کا غلغلہ اپنی کشش کھورہا تھا۔ ملک میں بے چینی کی لہر بڑھتی جا رہی تھی۔ حزب اختلاف مختلف جماعتوں میں منتشر تھی۔ایوب حکومت کی تمام تر الزام تراشیوں اور بدنام کرنے کی تمام کوششوں کے باوجود مولانا مودودی کی سربراہی میں جماعت اسلامی اپنے اصولی اور جمہوری موقف کے ساتھ حزب اختلاف کا کردار ادا کر رہی تھی۔اس کا حل ایوب خان کے قلم سے ۲۲؍ اپریل ۱۹۶۷ء کو یہ سامنے آتا ہے: ’’الطاف گوہر [سیکرٹری اطلاعات] سے علما کے معاملے پر بات چیت کے دوران انھیں ہدایت کی ہے کہ مودودی اور اس کی پارٹی کے ساتھ صرف اور صرف سیاست دانوں کے طور پر معاملہ کیا جائے، جنھوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے‘‘۔[ایضاً، ص ۸۵]
پاکستان نیوی میں مبینہ سازش کے حوالے سے۲۱مئی ۱۹۶۷ء کو ایوب خان کے بقول: ’’گورنر موسیٰ اور ڈی آئی جی ترین صبح مجھے ملنے آئے اور رپورٹ دی کہ پاکستان نیوی کے ایک معمولی افسر فیض حسین نے مارشل لا لگانے، گورنروں اور فوجی قیادت کو برطرف کرنے،مشرقی پاکستان میں [جنرل] اعظم اور مغربی پاکستان میں مولوی فرید احمد کو گورنر اور مودودی کو وزیرقانون مقرر کرنے کی سازش کی ہے‘‘ [ایضاً، ص ۹۸]۔ اس بے سروپا سازش کو ’بے نقاب‘ کرنے پر ایوب خان نے پولیس کی تعریف، جب کہ آئی ایس آئی اور نیول انٹیلی جنس کو کوتاہی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ اگرچہ ایوب خان نے اس سازش میں مولانا کو ملوث نہیں کیا کیوںکہ انھیں اچھی طرح علم تھا کہ مولانا مودودی صرف اور صرف جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتے اور تبدیلی کے لیے کسی سازش، شارٹ کٹ یا پُرتشدد طریقوں کے سخت مخالف ہیں۔ ایوب خان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ۲۷؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو لاہور میں جماعت کے کُل پاکستان اجتماع پر سرکاری غنڈوں نے مولانا مودودی پر براہِ راست اندھا دھند فائرنگ کرکے جماعت کے ایک کارکن اللہ بخش کو شہید کر دیا، لیکن اس موقعے پر بھی مولانا نے گولی کا جواب تشدد سے دینے سے منع کردیا۔ اپنے کارکنوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے پُرامن طریقے سے اپنی جدوجہد پر قائم رہنے کا سبق دیا تھا۔
ایک سال اور پانچ ماہ بعد ۱۴؍اکتوبر ۱۹۶۸ء کو ایوب خان صاحب لکھتے ہیں: ’’حیدرآباد اور کراچی کے اسکولوں میں خسرے کے خلاف حفاظتی ٹیکوں کے لگانے پر بے چینی پھیلانے میں جماعت اسلامی کا ہاتھ لگتا ہے۔ ہمارے لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اور ہراحمقانہ بات کو مان لیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ صوبائی حکومت ان شرپسندوں کو پکڑے گی اور ان کی گردن مروڑ دے گی‘‘ [ایضاً، ص۲۷۲]۔یاد رہے یہی ہے وہ زمانہ کہ جب مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے طول و عرض میں ایوب حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ہورہے تھے، مگر وہ اپنا غصّہ صرف جماعت اسلامی پر نکالتے نظر آتے ہیں۔
ایوب خان اقتدارسے محروم ہونے کے حالات کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک سال دو ماہ بعد، ۱۸جنوری ۱۹۷۰ءکو انھوں نےڈائری میں ایک بار پھر ذکر کیا، مگر پہلی دفعہ مولانا مودودی کے نام کے ساتھ ’مولانا‘ کا لفظ استعمال کیا۔ یاد رہے اس روز عوامی لیگ نے ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسے پر حملہ کرکے سیکڑوں کارکنوں کو زخمی اور چھےکارکنوں کو قتل کر دیا تھا۔ ایوب خان نے لکھا ہے کہ:’’صبح کی خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ مولانا مودودی کے حامیوں اور دوسروں کے درمیان ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جماعت اسلامی کے جلسۂ عام کے دوران لڑائی ہوئی ہے۔ ایک آدمی کے قتل ہونے کی خبر ہے، جب کہ ۴۰۰ زخمی ہوئے۔ جلسہ منتشر کردیا گیا اور ڈایس کو آگ لگا دی گئی۔ مولانا کا ان کی قیام گاہ تک تعاقب کیا گیا‘‘[ایضاً، ص۳۵۷]۔ ایوب خان کو اس میں تعجب نہیں ہونا چاہیے تھا کہ انھوں نے اپنے طویل دور حکومت میں جس طرح مولانا مودودی کے خلاف جذباتی انداز سے نفرت کی سوچ کو پروان چڑھایا تھا، عوامی لیگ کے دہشت گرد اور کمیونسٹ انتہاپسند اس کا عملی مظاہرہ پیش کر رہے تھے۔
۱۴؍اگست ۱۹۷۰ء کو ایوب خان لکھتے ہیں: ’’راولپنڈی کے جلسے میں پیپلزپارٹی کے مقررین نے میرے اور مودودی کے خلاف تقریریں کیں‘‘ [ص ۴۰۴] اور ۲۸ستمبر کو لکھا کہ: ’’مودودی اور دولتانہ کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہوئے قادیانی، حتیٰ کہ شیعہ بھی بھٹو کی حمایت اور مدد کر رہے ہیں‘‘ [ایضاً،ص ۴۰۷]۔ ۲۳دسمبر ۱۹۷۰ء کو تحریر کیا: ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ مودودی جیسے لوگ انتخابات میں مجیب اور بھٹو کی ناقابلِ مثال کامیابی میں خطرات دیکھتے ہیں‘‘۔ [ایضاً، ص ۴۲۸]
۲۳ مارچ ۱۹۷۱ء کو لکھا ہے: ’’آج روزنامہ جنگ بھٹو اور اس کے ساتھیوں کی بہت سی تصویروں سے بھرا پڑا ہے۔ دراصل یہ سب اس کی دل جوئی کا سامان ہے کیوں کہ بھٹو کے آدمیوں نے حمایت نہ کرنے پر جنگ کی تنصیبات کو آگ لگانے کی کوشش کی تھی۔ پھر اس بات کے آثار بھی موجود ہیں کہ پیپلزپارٹی کے یہ لوگ مودودی کے گھر کو آگ لگانا چاہتے ہیں‘‘۔ [ایضاً، ص ۴۶۷]
ایک سال دو ماہ بعد بھٹوصاحب کے دورِ حکومت میں ۱۹جون ۱۹۷۲ء کو لکھتے ہیں: گذشتہ مہینے متعدد سیاسی قتل ہوئے، جن میں جماعت اسلامی کے نمایاں افراد بھی شامل ہیں۔ اس ضمن میں جنرل اکبر نے بھٹو کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ بلاشبہہ جماعت اسلامی ایک تشدد پسند جماعت نہیں ہے‘‘۔[ایضاً، ص ۵۳۰]
اسی طرح ایوب خان صاحب کی بے خبری دیکھیے کہ۱۴نومبر ۱۹۷۲ء کو لکھتے ہیں: ’’اگر بھٹو نہیں تو پھر کون؟‘‘ کا نعرہ جماعت اسلامی نے گھڑ ا اور پھیلایا ہے‘‘[ایضاً،ص ۵۴۲]۔ حالاں کہ یہ وہ زمانہ ہے جب بھٹوحکومت بڑے پیمانے پر اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے کارکنوں کو پکڑ پکڑ کر جیلوں میں ڈال رہی تھی۔ معلوم نہیں یہ نکتہ کس طرح موصوف کے حاشیۂ خیال میں آیا؟
سابق صدرِ پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب کی یہ ڈائری بڑے سائز کے ۵۵۲ صفحات کے خودنوشت اندراجات،۵۰ صفحات پر ذاتی تصاویر اور ۴۶صفحات کے تعارفی و ادارتی حاشیوں کے ساتھ کُل ۶۴۹ صفحات پر مشتمل ہے ۔ یہاں پر ڈائری کے صرف ان مندرجات کو سمجھنے اور تبصرہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن کا تعلق مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے ہے۔ یہ ڈائری ایوب خان صاحب کےصاحبزادے گوہر ایوب صاحب کے پاس محفوظ تھی۔ ایوب صاحب کی خواہش تھی کہ الطاف گوہر اس ڈائری کو مرتب کریں۔ واقعات اور شخصیات کی حساسیت کے باعث اس کی اشاعت پر کچھ عرصہ کے لیے رضاکارانہ پابندی لگائی ہوئی تھی۔ جب اس کی اشاعت کا وقت آیا تو الطاف گوہر صاحب کا انتقال [۱۴نومبر۲۰۰۰ء]ہو چکا تھا۔
فیلڈ مارشل جنرل محمدایوب خان کی ڈائری کے مطالعے سے ان کے ’نظریۂ حکمرانی‘ کی بنیاد دیکھی جاسکتی ہے کہ: ’’جب ایک لیڈراقتدار سنبھال لے تو اس کے پاس اتنی زیادہ طاقت ہونی چاہیے کہ وہ خودحکومتی اُمور کنٹرول کر سکے۔ایک مضبوط مرکزی اتھارٹی [شخصیت ] کے بغیر ملک کو متحد نہیں رکھا جا سکتا‘‘۔ اس وقت پاکستان میں اور بھی مذہبی جماعتیں موجودتھیں، لیکن ایوب خان صرف مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے ہی کیوں خائف تھے؟ غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایوب خان اپنی سیکولر سوچ کے تحت اسلام کے حرکی تصور سے ہراساں تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مولانا مودودی کی سربراہی میں جماعت اسلامی نہ صرف ایک منظم سیاسی قوت ہے بلکہ اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات مانتے ہوئےاسلام پر مبنی نظام حکومت کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستانی حکمرانوں میں ایوب خان وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نےمنظم اسلامی قوتوں کے ’خطرے‘ کو محسوس کیا ۔پھر اسلامی قوتوں کی طرف سے سیکولرزم اور لبرلزم کو بے اثر کرنے کی سعی کی مزاحمت کے لیے اپنی سی کوششیں کیں۔