اسلامی نظام میں سود کی بنیاد پر بنکنگ نہیں کی جاسکتی اور نہ فریکشنل ریزرو بنکنگ ہی کی کوئی گنجایش ہے۔ یہاں صرف امانتاً رقوم رکھوائی جاسکتی ہیں۔ اگر لوگ اپنی بچتوں پر منافع حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں تو انھیں سرمایہ کاری کھاتوں (Investment Accounts) کی سہولت ہوگی، جس کی بنیاد نفع و نقصان پر ہوگی۔ ایسے نظام میں عدم استحکام کا سوال پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ اثاثوں اور ذمہ داریوں کے درمیان شفاف طور پر برابری ہوتی اور اضطراب کے محرکات کا سدّباب ہوجاتا ہے۔
اس پس منظر میں اب ہم قارئین کو اس اُبھرتے بحران سے آگاہ کریں گے، جس کی پیش گوئی ماہرین کی ایک بڑی تعداد کررہی ہے۔ اس کا نقطۂ آغاز قرضوں کی مقدار میں بے تحاشا اضافہ ہے، جو اس سطح سے بہت زیادہ ہے جو ۲۰۰۸ء کے بحران سے پہلے تھی۔ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل فنانس کی حالیہ رپورٹ کے مطابق: عالمی قرضہ کی سطح ۲۴۱ کھرب ڈالر پر پہنچ گئی ہے، جو دنیا کی مجموعی آمدنی (۷۷ کھرب ڈالر) کی نسبت سے ۳۱۵ فی صد سے زیادہ ہے۔ اس میں سے کارپوریٹ سیکٹر (یا غیر مالیاتی سیکٹر) کا حصہ ۱۸۶ کھرب ڈالر ہے۔ یہ سطح اس سے تقریباً دو گنی ہے جو پچھلے بحران کے موقعے پر تھی۔ اس قرضے کی تشکیل بھی ماضی کی طرز پر ہوئی ہے۔ جیساکہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ بحران سے نمٹنے کے لیے امریکی وزات خزانہ نے ریاست کے سارے خزانے اس نظام کو بچانے کے لیے وقف کردیے تھے۔ اس میں سب سے بڑی مدد مرکزی بنک نے کی تھی، جس نے قریباً صفر شرح سود پر معمولی نوعیت کی سکیورٹیرز کے عوض بڑی مقدار میں قرض جاری کیے جس سے ’مالیاتی خشک سالی‘ (Lack of Liquidity ) کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ یہ کم شرح سود ماضی قریب تک جاری رہی۔
’عالمی مالیاتی فنڈ‘ (آئی ایم ایف) کے سینیر ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکڑ ڈیوڈ لپٹن نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ’’قرضوں کی زیادتی اور کم شرح سود، مارکیٹ کے لیے بڑے خطرات کا باعث ہیں‘‘۔ دوسری طرف خود امریکا کا اپنا قرضہ ۲۱ کھرب ڈالر کو پہنچ گیا ہے، جو اس کی مجموعی آمدنی کا ۱۰۸ فی صد ہے۔ امریکی نیشنل سکیورٹی ڈائریکٹرڈین کوٹس کا کہنا ہے کہ’’امریکی قرضے کی بڑھتی ہوئی سطح سے ہماری معاشی اور قومی سلامتی کو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے‘‘۔
ان خطرات میں اس وقت اضافہ کرنے کے لیے مزید عناصر میدان میں آگئے ہیں:
اوّل: مرکزی بنک نے شرح سود بڑھانا شروع کردی، جس سے مارکیٹ میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اس پالیسی کی شدید مذمت کی ہے اور اس کو معیشت کے لیے مہلک قرار دیا ہے۔ لیکن مرکزی بنک کا بورڈ اس قسم کے بیانات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ وہ تو افراط زر یا قیمتوں میں اضافے کو روکنا چاہتا ہے، جو صرف اس صورت میں ممکن ہوگا جب اشیا کی مجموعی مانگ میں کمی واقع ہو جس کے لیے شرح سود میں اضافہ ناگزیر ہے۔ بہرحال اس سے اُٹھنے والے خطرات کی نوعیت وہی ہے جو ۲۰۰۸ء کے بحران کا باعث بنے تھے۔ لیکن آج رہن بردار قرضوں کا سلسلہ تباہی کا باعث نہیں بنے گا۔ اس کا ذریعۂ انتقال کا معاملہ، شرح تبادلہ پر اس کے منفی اثرات کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ شرح سود بڑھنے سے ڈالر کی مانگ میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے امریکی برآمدات کو شدید دھچکا لگا ہے اور اس کا تجارتی توازن مزید خراب ہوگیا ہے۔
دوم: یہ سب اس موقعے پر ہورہا ہے، جب امریکا نے چین کے ساتھ ایک نامعقول تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی توازن میں چین کی طرف جھکاؤ کا بہانہ بناکر امریکا نے چین سے آنے والی درآمدات پر ٹیرف نافذ کردیے ہیں، جو ’بین الاقوامی تجارتی تنظیم‘ (WTO) کے ضابطوں سے متصادم ہے۔
شرح سود میں اضافہ اور چین امریکا تجارتی جنگ ایسے حالات پیدا کررہے ہیں، جہاں عالمی معیشت کو انجانے خوف و خطرات لاحق ہوگئے ہیں اور دنیا ایک نئے معاشی بحران کی طرف بڑھتی نظر آتی ہے۔ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ بحران شرح تبادلہ میں ہیجانی ردوبدل کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ اور اس کے ابتدائی اثرات ابھرتی معیشتوں کی کرنسیوں میں ڈالر کے مقابلے میں شرح تبادلہ میں زبردست کمی کی صورت میں مرتب ہورہے ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں ارجنٹائن، ترکی، برازیل، جنوبی افریقہ، بھارت اور روس کی کرنسیوں میں ڈالر کے مقابلے میں علی الترتیب ۱۰۷فی صد، ۶۱فی صد، ۲۲فی صد، ۱۵فی صد، ۱۴ فی صد اور ۱۴ فی صد گراوٹ آچکی تھی۔ ایران پر پابندیوں کے باوجود عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں حیران کن کمی کی وجہ سے ان ممالک کی شرح تبادلہ حالیہ دنوں میں کچھ بہتر ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان ممالک میں ترقی کی رفتار میں کمی بلکہ تنزلی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔
شرح تبادلہ میں اس بڑی کمی کی وجہ سے در حقیقت ان ملکوں میں ایک بحرانی کیفیت کا آغاز ہوگیا ہے۔ یہ سارے ممالک مغربی بنکوں کے مقروض ہیں اور ان کے قرضوں کی مالیت کا تعین ڈالر ($) یا یورو ( €€) میں ہوتا ہے۔ شرح تبادلہ میں اس قدر کمی کے باعث مقامی کرنسی میں ان کا بوجھ اسی تناسب سے بڑھ گیا ہے۔ لہٰذا، قرضوں کی ایک خاطر خواہ مقدار اس قابل نہیں رہی کہ ان کے مقروض قرض کی ادایگیوں کو پورا کرسکیں، جس کا نتیجہ دیوالیہ پن کی طرف تیزی سے بڑھنا ہے۔
اگر یہ قرضے ناکارہ ہوجاتے ہیں تو مغربی بنکوں کو اس کے عوض اپنے سرمایے کو بڑھانا پڑے گا، جو ایک معاشی بدحالی کے دور میں بآسانی دوسرے سرمایہ کاروں سے حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکی مرکزی بنک نے بھی آسان قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ، جو ۲۰۰۸ء کے بحران سے نمٹنے کے لیے شروع کیا تھا، منقطع کردیا ہے، کیوںکہ وہ تو افراط زر سے نمٹنے کے لیے شرح سود کو متواتر بڑھا رہاہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ مجموعی طلب کو کم کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا، بنکوں کے لیے ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ وہ موجودہ اثاثوں میں سے مطلوبہ مالیت کا ایک حصہ فروخت کرکے اس سرمایے کو حاصل کریں۔ لیکن یہ فروخت ایک اضطراری اقدام ہوگا، کیونکہ یہ سرمایے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے شروع کیا جارہاہے نہ کہ کسی طے شدہ حکمت عملی کے تحت کاروباری تقاضوں کے مطابق۔ ان حالات میں اثاثوں کی وہ مالیت نہیں ملے گی، جو کتابوں میں درج کی گئی ہوگی۔ یوں یہ عمل بذاتِ خود ایک مزید نقصان اور اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے دوبارہ اس کےعوض سرمایے کو بڑھانے کا عمل شروع کرے گا۔ یہ سلسلہ بالآخر بنکوں کے دیوالیہ ہونے پر منتج ہوگا۔
دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کار بنکوں کو جو ابتدائی طور پر نقصانات ہوئے ہیں، انھوں نے نقصانات کا اعلان کرنا شروع کردیا ہے لیکن یہ سلسلہ ابھی محدود ہے اور فی الحال اس سے کوئی اضطراب نہیں پھیلا ہے، جب کہ حکومتیں بھی اس عمل کو محدود رکھنے میں مدد کررہی ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں یہ نظام ’اُلٹے اہرام‘ پر مبنی ہے جہاں زر کا پھیلاؤ اس کی حقیقی مالیت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، لہٰذا اس کا انہدام اسی انداز میں ہوتا ہے جیسے ’اُلٹے اہرام‘ کا ہوگا۔
ایک اور ذریعہ جہاں سے بحران اُٹھ سکتا ہے، وہ عالمی تجارت کی مقدار میں کمی ہے۔ چین اور امریکا میں چھڑنے والی حالیہ ٹیرف جنگ، جو کسی حد تک صدر ٹرمپ نے یورپ میں بھی پھیلادی ہے اور جو برطانیہ کی یورپی یونین سے نکلنے کے بعد مزید خراب ہوگی، وہ عالمی تجارت کی مقدار میں نہ صرف کمی کا باعث ہوگی، بلکہ اس نے دیوار برلن کے انہدام سے شروع ہونے والی عالم گیریت (Globalization) کی تیز رفتار پیش قدمی کو روک دیا ہے۔ دنیا اب پھر ’قومیت‘ اور ’قومی ریاستوں‘ کے بت کی پوجا کرنے نکلی ہے، اور یورپ میں ایک بار پھر اس عفریت کے سیاہ بادل منڈلانے لگے ہیں۔
لیکن تجارت میں کمی سے مرتب ہونے والے اثرات کا سلسلہ بھی بالآخر مالی ترسیلات سے جڑا ہوا ہے۔ ۲۰۰۹ء کے بعد سے اُبھرتی معیشتوں میں ترقی یافتہ ممالک سے اوسطاً ایک کھرب ڈالر کی سالانہ سرمایہ کاری آئی ہے، جو ان ممالک کی آمدنی کا اندازاً ۵۰ فی صد ہے اور جس کی بنیادی وجہ مرکزی بنکوں کی ضرورت کے مطابق آسان مالیاتی پالیسی رہی ہے۔ امریکا، برطانیہ، یورپ، جاپان اور چین کے بنک اس کام میں سرگرم ہیں۔ لہٰذا ،تجارت کی کمی سے بھی اس بحران کے امکانات میں ابھرتی معیشتوں پر پڑنے والے منفی اثرات سے مزید اضافہ ہوگا۔
بڑھتی شرح سود، مضبوط ڈالر اور ابھرتی معیشتوں میں گرتی شرح تبادلہ وہ ایندھن ہیں، جو حد سے بڑھے ہوئے عالمی قرضے کے ڈھیر کو آگ لگا سکتے ہیں۔ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اس وقت عالمی قرضہ عالمی آمدنی کا ۳۰۷ فی صد ہوگیا ہے، اور یہ سطح ۲۰۰۸ءکے بحران سے دو گنا زیادہ ہے۔ لیکن ماہرین کو اب یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر نیا بحران آتا ہے، تو اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے کون سا ہتھیار استعمال کیا جائے گا؟ کیوںکہ ماضی میں تو مرکزی بنک اور وزرات خزانہ نے تقریباً صفر شرح سود پر قرضوں کی فراہمی کا سلسلہ( Quantative Easing )شروع کیا تھا، جو اَب منقطع ہوچکا ہے اور اس کی وجہ افراط زر کو قابو میں رکھنا ہے۔ لہٰذا، اس کو دوبارہ شروع کریں گے تو انجامِ کار ایک نئی مصیبت درآئے گی۔
دوسری جانب اُبھرتی معیشتوں میں مختلف وجوہ کی بنا پر، جس میں شرح تبادلہ کی گراوٹ بھی شامل ہے، بنکوں کے پاس موجود ’بیماری زدہ قرضوں‘ کی سطح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ان قرضوں کی تنظیم نو (restructuring ) ناگزیر ہوگئی ہے، لیکن اس کے لیے دست یاب وسائل ناکافی ہیں، کیوںکہ ان معیشتوں میں مالیاتی اور بیرونی ادایگیوں کے توازن پہلے ہی بگڑے ہوئے ہیں۔ اس تنظیم نو کے لیے وسائل مہیا کرنے سے یہ توازن مزید بگڑ جائیں گے۔ لہٰذا، عافیت اسی میں ہے کہ فی الحال اسے التوا میں رکھا جائے۔ ان معیشتوں کو تیل کی قیمتوں سے بھی شدید خدشات لاحق ہیں، جو حالیہ دنوں میں کچھ کم ہوگئے ہیں۔
اس بحران کے پاکستان جیسی معیشت پر کیا اثرات ہوں گے؟ مختصراً ہم یہ عرض کریں گے کہ پاکستان نسبتاً اس بحران کے بھنور میں نہیں ہوگا (ہم بدقسمتی سے پہلے ہی دہشت گردی کے طوفان میں دو عشروں سے پِس رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں پر بیرونی سرمایہ کاری کا فقدان رہا ہے)۔ اس مالیاتی بحران کے پاکستان پر محدود اثرات ہوں گے، کیوںکہ ہم دنیا کے مالیاتی نظام میں کسی قابل ذکر مقام کے حامل نہیں ہیں۔ یہاں بیرونی سرمایہ بہت محدود مقدار میں آیا ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں تو جو آیا تھا اس کا بڑا حصہ گذشتہ دو برسوں کے دوران واپس جا چکا ہے۔ ہم نے کچھ بانڈز اور سکوک فروخت کیے ہیں، جن کی مالیت میں بڑی گراوٹ آچکی ہے کیونکہ ہماری اقتصادی پالیسیاں اس دوران زبردست بگاڑ کا شکار رہی ہیں، جس کی وجہ سے عالمی سرمایہ کاروں نے ان میں دل چسپی لینا چھوڑ دی ہے۔
ہمیں سب سے بڑا خطرہ تیل کی قیمت سے ہے، جس کے بُرے اثرات پہلے ہی مرتب ہورہے ہیں۔ خوش قسمتی سے تیل کی مارکیٹ میں قیمتوں میں حالیہ گراوٹ کچھ ڈھارس بندھا رہی ہے، لیکن اس کی پاےداری مشتبہ ہے۔ لہٰذا، یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ آیندہ یہ قیمت کس سمت میں سفر کرے گی۔ ایک دوسرا خطرہ جو ہمارے سر پر کھڑا ہے وہ ایک ارب ڈالر کے پانچ سالہ بانڈز اور سکوک ہیں، جن کا اجرا اپریل ۲۰۱۴ء میں ہوا تھا اور جو اس سال اپریل میں ادا کرنا ہوںگے۔ عموماً ان بانڈز کو ادا کرنے کے لیے نئے بانڈز جاری کردیے جاتے ہیں، جب کہ سرمایہ دار بھی اس طرف مائل ہوتے ہیں۔ لیکن آج ہماری معیشت جس مخدوش حالت سے دوچار ہے اور آئی ایم ایف کا پروگرام اور اس کی طرف سے جاری شدہ ’صحت مندی کا سرٹیفکیٹ‘ بھی ہمارے پاس نہیں ہے، تو ہمیں اس عمل میں دشواری کا سامنا ضرور ہوگا، خصوصاً ایسے موقعے پر جب عالمی بحران کے آثار نمایاں ہورہے ہوں۔
اسی طرح بحران کا ایک دوسرا امکان دیکھیے: ہم نے عرض کیا تھا کہ بڑھتی شرح سود، مضبوط ڈالر اور ابھرتی معیشتوں میں گرتی شرح تبادلہ وہ ایندھن ہیں جو حد سے بڑھے ہوئے عالمی قرضے کے ڈھیر کو آگ لگا سکتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان عوامل کا امتزاج ابھرتی معیشتوں سے ہٹ کر خود امریکا کے اپنے اندر سے پیدا ہوگا۔ ریمنڈ ڈالیو، جو ایک ارب ڈالر ہیج فنڈ کے مالک ہیں، ان کی شہرت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ ایک ممتاز فنڈ مینیجر ہیں جو دنیا کے ۱۰۰ امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ۲۰۰۸ء کے بحران کی قبل از وقت پیش گوئی کردی تھی۔
ڈالیو نے حال میں یہ پیش گوئی کی ہے کہ:’’ امریکا ایک بڑے مالی بحران سے دو سال کے فاصلے پر ہے، جس کے دوران امریکی ڈالر زبردست گراوٹ کا سامنا کرے گا کیوںکہ امریکا اپنے بڑھتے ہوئے بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے ڈالر کو بڑی تعداد میں چھاپے گا، جب کہ اس کی عالمی مانگ میں زبردست کمی ہونے والی ہے‘‘۔ جب ڈالر کی مانگ کم اور اس کی فراہمی زیادہ ہو تو اس کی قدر، دیگر عالمی کرنسیوں کے مقابلے میں گرنی شروع ہوجائے گی۔ یہ اس وجہ سے بھی ہوگا کہ امریکا میں دوسرے ملکوں کے مقابلے میں افراط زر بڑھ جائے گا اور کرنسیوں کی مالیت کے درمیان طویل المدت مساوات (Purchasing Power Parity) کا قانون ڈالر کی مالیت کو کم کردے گا۔
یہ سب کچھ کیوںکر ہوگا؟ گذشتہ سال صدر ٹرمپ نے ٹیکسوں میں امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ٹیکس چھوٹ (tax cut) کا اعلان کیا تھا۔ اس چھوٹ سے ٹیکس دہندگان کو آیندہ دس سال میں ۵ء۵ کھرب ڈالر یا، کچھ اور اندازوں کے مطابق، اس سے زیادہ فائدہ ہوگا۔ لیکن یہ چھوٹ بجٹ خسارے کا باعث بنے گی۔ ان مراعات کے عوض صدر ٹرمپ نے ایسی کوئی تجاویز نہیں دیں جو بجٹ کے اس خسارے کو پورا کردیں۔ ان کی پارٹی کا موقف یہ رہاہے کہ ٹیکسوں کی کٹوتی سے معاشی سرگرمیوں کو تقویت ملے گی، جس سے ترقی ہوگی، جو بالآخر ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافے کا باعث ہوگی۔ لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں کی چھوٹ سے ہونے والی بچت اس قدر معاشی ترقی کو فروغ نہیں دے گی کہ اس سے ہونے والی ٹیکسوں کی آمدنی میں اتنا اضافہ ہو، جو نقصان کو پورا کردے۔ ایک ایسے ٹیکس نظام میں جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی ہو کہ ایک متمول ٹیکس گزار اپنی بڑھتی آمدنی کا ایک بڑھتا حصہ بصورت ٹیکس ادا کرے گا،جب کہ ٹیکسوں کی آمدنی عوامی فلاح و بہبود پر لگائی جائے گی، وہاں اتنی بڑی چھوٹ متمول ٹیکس گزاروں کو زیادہ فائدہ پہنچائے گی اور ملک میں تقسیم دولت کو ان کے حق میں کردے گی۔
ڈالیو کو یہ بھی کہنا ہے کہ: صدر ٹرمپ کی دی ہوئی ٹیکس چھوٹ کے اثرات ۱۸ مہینوں میں زائل ہوجائیں گے، جب کہ سوشل سیکیورٹی اور پنشن کی بڑھتی ذمہ داریوں کے سامنے ٹیکسوں کی آمدنی میں کمی ہو رہی ہوگی۔ دوسری جانب شرح سود میں اضافہ ہونے سے مجموعی قرضے اور اس پر سود کی ادایگی میں اضافہ ہوگا اور یوں بجٹ کا خسارہ خطرناک حد تک بڑھ جائے گا (واضح رہے کہ امریکا کا مجموعی قرضہ پہلے ہی اس کی آمدنی کا ۱۰۸ فی صد ہوچکا ہے)۔ ایسی صورت میں ترقی کے عمل میں زبردست کمی واقع ہوگی۔ ڈالیو مزید کہتے ہیں کہ: ’’حکومت کو بڑی مقدار میں بانڈز فروخت کرنا پڑیں گے اور امریکی عوام اتنی بڑی مقدار میں بانڈز نہیں خرید سکتے۔ لہٰذا مرکزی بنک کو (بانڈز خریدنے کے لیے) نوٹ چھاپنا پڑیں گے تاکہ خسارے کو پورا کیا جاسکے۔ لیکن یہ ڈالر کی قدر میں گراوٹ کا باعث ہوگا‘‘۔
در حقیقت یہ ایک بڑا خوف ناک منظرنامہ ہے۔ جس بات کا ذکر یہاں ڈالیو نے نہیں کیا وہ یہ ہے کہ نہ صرف امریکی عوام بانڈز نہیں خرید سکیں گے بلکہ دنیا میں امریکا کے بانڈز کے خریدار بھی نہیں ہوں گے۔ جس کی وجہ سے مرکزی بنک کو نوٹ چھاپ کر حکومت کو قرضے دینے پڑیں گے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی ڈالر نے دنیا پر تنہا حکمرانی کی ہے۔ شروع میں جب ڈالر دنیا کی ریزرو (reserve) کرنسی بنا تو اس نے تمام ممالک سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ ڈالر کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے ہمیشہ اس کے بدلے ایک خاص مقدار میں سونا فروخت کرے گا۔ لیکن جب ۱۹۷۱ء میں فرانس نے اپنے ڈالر کے ذخائر کے عوض سونا مانگا تو اس نے انکار کردیا اور ’ڈالر سونا تبادلے‘ کا وعدہ ختم کردیا۔ لیکن اس کے بعد امریکی معیشت کی ترقی اور اس کی سیاسی طاقت نے ڈالر کی مانگ کو نہ صرف مستحکم رکھا، بلکہ اس میں اضافہ ہوتا رہا، کیوںکہ دنیا کے ترقی پذیر ممالک نے ہمیشہ اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکی بنکوں میں رکھنا محفوظ تصور کیا ہے۔ اشتراکی روس کے خاتمے کے بعد ڈالر کو کوئی مزید خطرہ باقی نہ رہا۔ دیوار برلن کے انہدام اورعالم گیریت کے آغاز نے ڈالر کی شہنشاہی کو چار چاند لگا دیے۔
لیکن گذشتہ دو عشروں سے جاری متعدد جنگوں نے امریکی معیشت کو تہ و بالا کردیا ہے، جب کہ چین کی شکل میں ایک نئی معاشی طاقت امریکا کے مقابل یوں آ کھڑی ہوئی ہے کہ وہ بس آگے نکلا ہی چاہتی ہے۔ پھر یورپ نے بھی خود کو امریکا سے دُور کرنے کے عمل کا آغاز کردیا ہے۔ ان حالات میں ڈالر کی وہ حیثیت نہیں رہی ہے جو اس نئی صدی کے آغاز پر تھی بلکہ اب اس کی مانگ گررہی ہے اور کچھ بعید نہیں کہ اس کی بادشاہی مکمل ختم ہوجائے۔
اس پس منظر میں ڈالیوکا کہنا ہے کہ: ’’انھیں دو باتوں کا خوف ہے: ایک یہ کہ دولت کی تقسیم میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات کی موجودگی سے معاشرے میں تناؤ بڑھ گیا ہے، لہٰذا اگلا بحران ۲۰۰۸ءکے مقابلے میں ایک بڑے سماجی تصادم کا باعث بنے گا۔ دوسرے یہ کہ پالیسی سازوں کے پاس بحران سے نمٹنے کے لیے کم طریقے اور محدود اختیارات ہوں گے کیوںکہ شرح سود ابھی بھی کم ہے، لہٰذا ماضی کی طرح کوئی حل بھی میسر نہیں ہوگا‘‘۔ ڈالیو مزید کہتے ہیں کہ: ’’وہ پالیسی سازوں اور سرمایہ کاروں کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ ’کاروباری چکر‘ (Business Cycle) ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ قرضوں کا سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور ناقابلِ برداشت سطح تک پہنچ جاتا ہے۔ ’کاروباری چکّر ‘میں جب سمٹنے یا مندی کا مرحلہ آتا ہے تو دیوالیہ پن ہر طرف پھیلنے لگتا ہے اور مالیاتی ادارے ڈوبنے لگتے ہیں‘‘۔ ایسے موقعوں پر مجموعی مانگ کو مصنوعی طور پر بڑھانے کی کوششیں جیساکہ ٹرمپ انتظامیہ نے ٹیکس کی چھوٹ دے کر کیا ہے وہ ناگزیر نتائج کو مؤخر ضرور کرتے ہیں، لیکن آخرکار ابتری کا باعث ہوتے ہیں۔
ڈالیو کا یہ بھی کہنا ہے کہ: ’’قرضوں کا بحران کیا اثرات مرتب کرے گا؟ اس کا تعین اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے کیا طریق کار اپنایا جارہا ہے؟‘‘ انھوں نے تجویز دی ہے کہ: ’’اگلے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک نئی قانون سازی کی ضرورت ہے، جس میں ایک صدارتی کونسل قائم کی جائے، جو صدر، اسپیکر، سینیٹ کے قائد اکثریت اور مرکزی بنک کے چیئرمین پر مشتمل ہو اور جس کے پاس اس بحران سے نمٹنے کے لیے مکمل اختیارات ہوں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ قانونی ڈھانچا آمدہ چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مطلوبہ گنجایش فراہم نہیں کرتا‘‘۔
اس بحث کے اختتام پر ہم چند گزارشات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جیساکہ کہہ چکے ہیں کہ قرض کا معاہدہ اپنی تعمیر میں ایک خرابی کا باعث ہے اور اس سے بہر صورت تباہ کن نتائج مرتب ہوتے رہیں گے۔ علاوہ ازیں سرمایہ داری کا نظام بھی اپنے اندر خرابیِ صورت کا حامل ہے۔ جب تک معاشرے میں باہمی اعتماد، محبت، ہمدردی اور بھائی چارگی کے احساسات پیدا نہیں ہوں گے، انسانی معاشرہ جنگل کے مناظر پیش کرتا رہے گا۔ ترقی کی ہوس، ذاتی منفعت کی فوقیت، غیر ضروری مقابلے کا رجحان، اجارہ داری کے حصول کی کوششیں، اور کمزوروں کو دبانے کی تیزخواہش وہ شیطانی جذبے اور محرکات ہیں جو دنیا کو امن کا گہوارہ نہیں بنائیں گے اور بد امنی، جنگیں اور معاشی بحران وقتاً فوقتاً دنیا کو بے چین رکھیں گے۔