اس کا چہرہ گرد سے اَٹا پڑا تھا۔ کپڑوں پر جگہ جگہ پیوند تھے۔ بھوک اور بدحالی چہرے سے صاف جھلک رہی تھی۔میں نے اسے بنک کی دہلیز پر سوتے ہوئے دیکھا۔ سورج کی کرنیں قریب تر ہوتے ہوتے اس کے سینے تک جاپہنچی تھیں۔ لیکن ان کی گرمی ابھی اسے محسوس نہیں ہوئی تھی۔ شاید بھوک کے مارے وہ رات بھرسو نہیں سکا تھا۔
میں اسے دیکھ کر گہری سوچ میں ڈوب گیا:’’اس فقیر کے اور دولت کے خزانے کے درمیان صرف چند میٹر کی دوری ہے۔ بخدا ہم تضادات کی دنیا میں جی رہے ہیں‘‘۔
میں نے جیب میں حرکت محسوس کی۔ ہاتھ ڈالا تو گرم اور متحرک سی چیز ہاتھ آگئی۔ نکال کردیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی، یہ تو روپیہ ہے۔
میں نے کہا: میری جیب میں تمھیں کیا پریشانی تھی جونکلنے کے لیے یوں بے چین تھے؟
روپیہ : میں مدت سے تمھاری جیب میں ہوں، مگر تم نے میرے مقصد ِوجود کے مطابق کبھی میرے ساتھ معاملہ نہیں کیا۔
مـیں: تمھارے وجود کا کیا مقصد ہے؟
روپیہ : یہی کہ ذاتی ضروریات پر خرچ کرنے کے علاوہ اللہ کے بندوں کی مدد کی جائے۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں مجھے خرچ کیا جائے۔
مـیں:لیکن یہ بھی تو بتائو کہ تم میرے پاس کس طرح پہنچے؟
روپیہ : میری کہانی بہت لمبی ہے۔ میںبہت سے ہاتھوں میں گھومتا رہا ہوں۔ ایک شخص نے میرے بدلے شراب خریدی، دوسرے نے مجھے دے کر گندی فلمیں خریدیں،تیسرے نے چوتھے کو رشوت میں پیش کیا۔ اس نے تم سے ایک سامان خریدا اور میں تمھاری جیب میں آگیا۔ وہ سب دولت کے پجاری تھے، البتہ ابھی تمھارے بارے میں زیادہ کچھ معلوم نہیں ہے۔
مـیں: تمھیں کیسے پتا چلا کہ وہ دولت کے پجاری تھے؟
روپیہ : ان کا میرے ساتھ سلوک اس پر گواہ ہے۔ اسی لیے امام حسن بصریؒ نے کہا تھا: ’’ہر قوم کا ایک بت ہوتا تھا جسے وہ لوگ پوجتے تھے ۔اس قوم کا بت درہم و دینار [روپیہ] ہیں‘‘۔
اور یہ بھی سن لو کہ اگر تم نے مجھے بھلائی کے کاموں میں خرچ نہیں کیا تو میں تمھیں جلادوں گا۔
مـیں: ارے یہ کیا کہہ رہے ہو؟
روپیہ : ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’دردناک سزا کی خوش خبری دو ان کو جو سونے اور چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور انھیں خداکی راہ میں خرچ نہیں کرتے؟ ایک دن آئے گا کہ اسی سونے اور چاندی پر جہنم کی آگ دہکائی جائے گی اور پھر اسی سے ان لوگوں کی پیشانیوں ، پہلوئوں اور پیٹھوں کو داغا جائے گا‘‘۔
مـیں: تم تو بہت خطرناک چیز ہو۔
روپیہ : ان کا حال دیکھو، جن کے پاس میں پہلے تھا۔ وہ برائیاں بوتے تھے اور نیکی کے پھلوں کی اُمید رکھتے تھے۔ کیا ببول کے درخت سے انگور بھی ملا کرتے ہیں۔ ان کے راستے سے ہوشیار رہو۔دیکھو، یہ بے چارا بھوک کا مارا فقیر جو تمھارے سامنے ہے، مجھے ا س کے حوالے کردو ۔ میں قیامت کے روز تمھارے حق میں گواہی دوں گا۔ تم اپنے اندر سفیانؒ ابن عیینہ جیسا احساس پیداکرو۔
مـیں: ابن عیینہ کون تھے اور ان کا احساس کیسا تھا؟ کچھ بتائو بھی تو سہی۔
روپیہ : وہ عظیم تابعی تھے ۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں آگے آگے رہتے تھے۔ ایک بار اپنے شاگرد کے ساتھ جارہے تھے کہ راستے میں ایک سائل ملا۔ اس دن ان کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ وہ رونے لگے۔ شاگرد نے کہا: ’’استاد محترم آپ رو کیوں رہے ہیں؟ ‘‘ انھوں نے جواب دیا: ’’کسی آدمی کے لیے اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی کہ اس سے بھلائی کی توقع کی جائے اور وہ توقع پوری نہ ہوسکے‘‘۔
مـیں: یہ تو بڑا لطیف احساس ہے۔
روپیہ : یہ احساس پیدا کرواور اپنی جوانی کے ان سنہرے اوقات کی قدر کرو، تاکہ اجر وثواب میں کئی گنا اضافہ ہو۔
مـیں: تو کیا بھلائی کے کاموں پر بڑھاپے اور جوانی کا فرق بھی اثر انداز ہوتا ہے؟
روپیہ : ہاں، ایک شخص رسول پاکؐ کے پاس آیا اور پوچھا: اے اللہ کے رسولؐ سب سے عظیم صدقہ کیا ہے؟
آپؐ نے جواب دیا : وہ صدقہ جو تم تندرستی کی حالت میں دو ، دل میں مال کی محبت ہو اور فقیر ہوجانے کا اندیشہ ہو۔
علامہ ابن بطالؒ اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں: ’’چونکہ صحت ہوتی ہے تو مال سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے اس وقت صدقہ کرنا سچی نیت کی علامت اور زیادہ ثواب کا باعث قرار پایا۔ اس کے برخلاف ایک وہ آدمی ہوتا ہے جو اپنی زندگی سے مایوس ہوچکا ہوتا ہے اور اسے صاف نظر آتا ہے کہ اس کا مال اب دوسرے کی جھولی میں جانے والا ہے‘‘۔
مـیں: بخدا تم نے میرے ذہن کے کئی بند گوشے کھول دیے۔ لیکن کیا تمھیں ایسا نہیں لگتا کہ تم فتنے کا سبب ہو؟
روپیہ : یقینا میں ایک فتنہ ہوں۔ عام لوگوں کی بات چھوڑو۔ کتنے عالم، زاہد اور دین کے داعی ہیں جو میرے جال میں پھنس گئے۔ تم بہت سارے لوگوں سے ملوگے، جن کا لباس دین دارانہ اور جن کا دسترخوان زاہدانہ نظر آئے گا، لیکن وہ میری چمک اور کھنک برداشت نہیں کرپاتے۔
مـیں: تم درست کہہ رہے ہو۔ خدا مجھے فتنوں سے محفوظ رکھے اور قناعت کی دولت نصیب کرے۔پھر میں آہستہ سے فقیر کے قریب جابیٹھا۔اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھا۔ وہ چونک کر اُٹھ بیٹھا۔ میں نے کہا:
ڈرو مت، میں بھلا آدمی ہوں۔ یہ روپیہ لو اور اپنی مصیبتوں سے مقابلہ کرو۔
اس نے بے نیازی سے روپے لینے سے انکار کردیا اور بولا میں بھکاری نہیں ہوں۔
میں نے کہا: تم بھکاری نہیں ہو، لیکن ضروت مند توہو۔
میرے اصرار پر اس نے وہ روپیہ لے لیا۔
فجر سے کچھ پہلے اس کی آنکھ کھلی۔ اسے شدید پیاس کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ بستر سے باہر نکلا۔ یکایک اسے فرش کی طرف سے کراہنے کی آواز آئی ۔ وہ غور سے دیکھنے لگا۔ آواز غائب ہوگئی۔ وہ پانی کے جگ کی طرف گیا، ایک گلاس پانی پیا اور دوبارہ آکر بستر میں گھس گیا۔
سردی اچھی خاصی تھی۔ کراہنے کی آواز دوبارہ سنائی دی۔ اس مرتبہ آواز اور تیز تھی۔ لگ رہا تھا کہ کوئی رو رہا ہے۔ اس نے لیٹے ہی لیٹے فرش کو ٹٹولا اس کے ہاتھ میں وہاں رکھی ہوئی جانماز آگئی۔ جانماز ہاتھ آتے ہی آواز بند ہوگئی۔
اس نے تعجب سے کہا: کیا تم ہی کراہ رہی تھیں؟
جانماز: ہاں۔
وہ: لیکن کیوں؟
جانماز:تمھیں تو تمھاری پیاس نے جگادیا۔ تم پانی پی کر سیر بھی ہوگئے۔ مجھے بھی تو پانی کی ضرورت ہے، لیکن مجھے سیراب کرنے والا کوئی نہیں ملتا۔
وہ: تو کیا تم چاہتی ہو کہ میں ایک گلاس پانی تمھارے اوپر لا کر انڈیل دوں؟
جانماز:نہیں یہ پانی میری پیاس نہیں بجھائے گا، میری پیاس تو عبادت وانابت کرنے والے اللہ کے نیک بندوں کے آنسوئوں سے بجھے گی۔
وہ: میں تمھیں ایسے آنسو کہاں سے لاکر دو ں، میری جانماز؟
جانماز:یہی تو میرے رونے کی وجہ ہے۔ اُٹھو رات کے اس اندھیرے میں دو رکعت نماز اللہ کے حضور ادا کرو۔ یہ نماز قبر کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اُجالا کرے گی۔ رات تھوڑی سی ہی بچی ہے۔ وقت کم ہے ۔ پھر فجر کا مؤذن اذان دے دے گا۔
وہ: تم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو (وہ سوجاتا ہے)۔
جانماز: اٹھو فجر کی نماز تو پڑھ لو کہ فجر کی نماز قلب وروح کی زندگی ہے۔ دیکھو، مؤذن پکار رہا ہے: الصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِنَ النَّوْمِ ’’نماز نیند سے بہتر ہے‘‘۔ تم … تم دن رات دنیا کی پکار پر دوڑتے رہتے ہو مگر خداے ذوالجلال کی پکار پر تمھارے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ آخر تمھیں کیا ہوگیا ہے؟
وہ: (جھنجھلاہٹ سے) مجھے سونے دو۔ تم روز مجھے دیکھتی ہو میں رات کو تھکا ہوا آتا ہوں، مجھے جی بھر کر سو لینے دو۔ وہ پھر نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
جانماز: سنو! کیا تم اپنی زندگی، دین سے زیادہ دنیا کی نذر کردو گے؟
وہ: (سختی سے) اب خاموش ہوجائو۔ میں تھکا ہوا ہوں، مجھے سونے دو۔
جانماز: (غمگین لہجے میں) آہ کہاں گئے وہ فجر کے نمازی! کہاں گئے وہ فجر والے!
سنو! کیا تم نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ خوش خبریاں نہیں سنیں:
وہ: چونک پڑا! اس کا مطلب ہے کہ فجر کی نماز بہت اہم ہے۔
جانماز: یہی تو بات ہے۔ اب اُٹھو ، اٹھ کر نماز کی تیاری کرو۔
وہ: دیکھو میں کل سے ضرور نماز شروع کردو ں گا لیکن آج مجھے سونے دو۔ آج تھکا ہوا ہوں۔
جانماز: (افسوس سے) جسے عمل کے ثواب کا یقین نہ ہو، اس پر ہر حالت گراں ہوتی ہے۔ سونے کے لیے قبر کی کوٹھری بہت کافی ہے، مدتوں سوتے رہو گے، پھر میری نصیحت یاد آئے گی۔
جانماز خاموش ہوگئی۔ وہ دوبارہ سوگیا۔ لیکن یہ کیا! یہ تو اس کی آخری نیند تھی۔ وہ سویا مگر پھر اس کی آنکھ نہیں کھل سکی…!