۳جنوری ۲۰۱۹ء کو دی پنجاب اسکول [خیابانِ جناح کیمپس] لاہور کے نوتعمیر شدہ ’سیّد مودودی آڈیٹوریم‘ کی افتتاحی تقریب کے موقعے پر ایک مختصر خطاب، جو اپنے اندر ایک جامع پیغام رکھتا ہے۔ ادارہ
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۲۸ۭ (الفتح ۴۸:۲۸) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔
جو آیت آپ کے سامنے تلاوت کی ہے، یہ معروف اور جانی پہچانی آیات میں سے ہے۔
مولانا مودودیؒ نے جس وقت دعوتِ انقلاب لوگوں کے سامنے رکھی، اس وقت ایک بڑی تعداد ایسے بزرگوں کی تھی جنھوں نے بعدازاں اس موضوع پر بڑی وضاحت سے لکھا۔ تب دعوت کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ’اقامت ِ دین‘ تھی۔ اسی زمانے میں مولانا مودودی کے علاوہ کچھ دوسرے لوگ بھی مختلف پیرایے میں اور مختلف انداز سے یہی دعوت پیش کر رہے تھے، اور وہ بڑے جانے پہچانے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایک طبقہ بڑی قوت سے یہ بات کہہ رہا تھا کہ: ’’ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے، اس کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس کی دعوت کو عام نہیں کرتے۔ حالاں کہ ہم سب اس بات کو جانتے ہیں کہ قرآن کے بغیر یہ دعوت کچھ بھی نہیں‘‘۔ پھر ہمارے اسی معاشرے میں ’حکومت ِ الٰہیہ‘ کی بات بھی ہوتی تھی۔ نظامِ اسلامی کا ذکر ہوتا تھا اور ایک عرصہ گزرنے کے بعد نظامِ مصطفےٰؐ کی بات بھی چلی۔ مراد یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ عنوانات بدلتے رہے، تاہم دین کی بات کی جاتی رہی اور دین کی ضرورت کا احساس بڑے طبقے تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی رہی۔
لیکن اب کئی عشروں سے صورتِ حال اس طرح ہے کہ جو لوگ ’اقامت ِ دین‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے اور بڑے پیمانے پر اس کے لیے نفوذ کے راستے تلاش کرتے تھے، اور لوگوں تک پہنچ کر ان کے دلوں پر دستک دیتے تھے، ان کی ایک بڑی تعداد آج کچھ اور عنوانات سے زیادہ متاثر ہوتی نظر آتی ہے۔
عنوانات یا نعرے کچھ بھی ہوں اصل کام تو ہے: غلبۂ دین اور اقامت ِ دین۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب دین غالب ہوگا، حقیقی معنوں میں اسلامی انقلاب اُسی وقت برپا ہوگا۔ اس کے لیے ناگزیر ہے کہ کردار سازی کی جائے، نئے عنوانات کے ذریعے لوگوں کو ربّ کی طرف بلانے کا اہتمام کیا جائے۔ کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ اس طرف دعوت دینے میں کمی پیدا ہوئی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ اس بات کو صحیح طور پر سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ اقامت ِ دین کا مطلب کیا ہے؟
اس بات کی یاد دہانی اور تذکیر درحقیقت بہت اہم ہے اور ضرورت ہے کہ ہمارے اجتماعی معاملات میں اقامت ِ دین کا جو عمل دخل ہوتا تھا، اسے اَزسرِنو تازہ کیا جائے۔ جب یہ تحریک برپا کی گئی، اُس وقت مولانا مودودیؒ کے قریبی رفیق اور بلندپایہ عالم دین مولانا صدرالدین اصلاحی مرحوم [م:۱۳ نومبر۱۹۹۸ء]نے تین بنیادی کتب لکھی تھیں: فریضہ اقامتِ دین، اساسِ دین کی تعمیراور حقیقت نفاق۔ بعد میں انھوں نے نسبتاً آسان زبان میں ایک اور کتاب لکھی: اسلام ایک نظر میں!
جب اسلامی جمعیت طلبہ کا کوئی کارکن رکنیت کی درخواست دیتا تھا تو اسے یہ تین کتابیں ابتدا ہی میں سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی تھیں۔ اگرچہ ان کی زبان دقیق تھی، لیکن ذہن سازی کے لیے یہ نہایت مؤثر استدلال فراہم کرتی تھیں ۔ ان کو مطالعاتی مجالس (study circles) کے ذریعے ذہن نشین کیا جاتا تھا اور پھر کارکن پُراعتماد ہوکر ایک ایک طالب علم، ایک ایک نوجوان تک اور اگر ممکن ہوتا تو دس آدمیوں کی مجلس میں پورے یقین کے ساتھ مدّعا بیان کرتا تھا کہ جب تک غلبۂ دین نہیں ہوگا تو کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اس کی بات سن کر لوگ حیران ہوتے تھے کہ اس کو کہاں سے یہ بات معلوم ہوئی ہے؟
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سفر کو وہیں سے دوبارہ شروع کرنا ہوگا، جہاں سے بظاہر ختم ہوگیا تھا۔ اس قافلۂ حق میں جو اہلِ علم اور پڑھے لکھے لوگ ہیں، ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اقامت ِ دین، اساسِ دین اور اسلامی انقلاب کے کاموں کو سرفہرست رکھ کر ان پر بات کریں اور صحیح معنوں میں فہم دین پیدا کرنے میں کارکنوں کی مدد کریں اور انھیں رہنمائی فراہم کریں۔ دین کی وسعتوں اور پہنائیوں سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ جب تک کارکنوں کے اندر دین کی ہمہ پہلو اُمنگ پیدا نہ ہو، اس وقت تک اس کام سے غفلت نہ برتی جائے۔
اس لیے خود جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ اور دیگر برادر تنظیموں کو اپنے تربیتی اور تنظیمی دائروں میں اور دعوت کے عنوانات میں فریضۂ اقامت دین کی بحث کو اَزسرنو اُٹھانا ہوگا۔ ہمارے اندر ایک بڑی تعداد ایسے اہلِ علم کی موجود ہے، جو اس موضوع پر مطالعاتی حلقوں (اسٹڈی سرکلز) کا اہتمام کرسکتے ہیں، اور اس طرح لوگوں کو آگاہ کرسکتے ہیں کہ کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا مطلب کیا ہے؟ ہمیں کلمۂ طیبہ کے پیغام اور اس کے تقاضوں کو ذہن نشین کرنا اور کرانا ہے کہ اس کے بغیر دین کا کام ممکن نہیں۔
یہ جو ہم اکثر اپنے گردو پیش کے حالات پر تبصرہ کرتے ہیں، ان تبصروں میں بہت سی باتیں بڑی معقول اور نہایت سنجیدہ اور بہت کچھ کرگزرنے کا عنوان اپنے اندر سموئے ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اہلِ علم کی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جس نے مولانا مودودی کو پڑھا اور سمجھا ہے اور فی الحقیقت لوگوں تک پہنچنے کے لیے دعوتی موضوعات اور عنوانات کی کہکشاں سجائی ہے۔ ان کو اپنی سطح پر یہ کام شروع کر دینا چاہیے۔
جن لوگوں نے اسلامی انقلا ب کے نعرے کو سمجھ لیا ہے انھیں بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اسلامی انقلاب کا نعرہ تو بہت پُرکشش ہے اورسننے والوں کے دلوں میںگرمی اور سوز پیدا کرتا ہے۔ لیکن اس کی روح، بنیاد اور تقاضوں کو سمجھنا نعروں کی گونج سے زیادہ ضروری ہے۔ مگر بہرحال یہ بات سمٹتی، سکڑتی اور محدود ہوتی جارہی ہے۔
کل جس لمحۂ تاریخ میں اقامت ِ دین کے حوالے سے بات کی گئی تھی، آج کا یہ عہد اُس سے بھی زیادہ اس کا مستحق ہے کہ اس پیغام کو تروتازہ کیا جائے۔ دلوں کے اندر اس کے پیغام کو سمویا جائے، سوتوں کو جگایا جائے اور فی الحقیقت اقامت ِ دین کی اصطلاح کو نووارد رفقا تک پہنچانے کے لیے جس توجہ اور دماغ سوزی کی ضرورت ہے، اس کا اہتمام کیا جائے۔