۵جنوری ۲۰۱۹ء میں یہاں لسٹر [برطانیہ]میں نمازِ فجر کی تیاری کے لیے اُٹھا ہی تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی اور برادر عزیز سلیم منصور خالد نے یہ دل خراش اطلاع دی کہ ’’محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ‘‘۔بے ساختہ میری زبان سے نکلا: An Era is over۔ ہماری تحریکی تاریخ کا ایک اہم باب اپنے اختتام کو پہنچا۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب ان خوش نصیب ساتھیوں میں سے تھے، جنھیں قیامِ پاکستان سے پہلے تحریک ِ اسلامی کی رکنیت اختیار کرنے اور دارالاسلام میں ہجرت کرکے منتقل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ بلاشبہہ مولانا مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ نے اس دور میں دینِ حق کی دعوت اس کی اصل شکل میں پیش کرنے اور عملاً اس دعوت کی بنیاد پر اصلاح اور اجتماعی انقلاب کی تحریک برپاکرنے کی سعادت سے نوازا، اور انھوں نے اپنی زندگی کے شب و روز اس خدمت کے لیے وقف کر دیے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جن سعید روحوں نے مولانا محترم کی دعوت پر لبیک کہا اور قیامِ جماعت اور اس کے بعد کے برسوں تحریک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، ان میں سے ہرشخص زمین کے نمک اور پہاڑی کے چراغ کی حیثیت رکھتا ہے۔
مجھے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کی سعادت ۱۹۵۰ء میں اور جماعت اسلامی کی رکنیت کے حلف پڑھنے کا اعزاز ۱۹۵۶ء میں حاصل ہوا۔ مَیں اس حیثیت سے بڑا خوش نصیب ہوں کہ مجھے جماعت کے سابقون الاولون میں سے ایک معقول تعداد کی رفاقت نصیب ہوئی، اور ان سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا۔ پھر ان میں سے کچھ کے ساتھ، خصوصیت سے محترم میاں طفیل محمدصاحب، مولانا مسعودعالم ندوی صاحب، مولاناعبدالغفار حسن صاحب، ملک نصراللہ خاں عزیز صاحب، پروفیسر عبدالحمید صدیقی، سیّدعبدالعزیز شرقی صاحب، خان سردار علی خان صاحب، چودھری غلام محمدصاحب، حکیم اقبال حسین صاحب، چودھری علی احمدخاں صاحب، مولانا معین الدین خٹک صاحب، ملک غلام علی صاحب، نعیم صدیقی، سیّد اسعد گیلانی اور چودھری رحمت الٰہی صاحب کے ساتھ بہت قریب ہونے اور ان سے بے حدوحساب استفادے کا موقع ملا ہے۔ ان کا پیار اور سرپرستی میری زندگی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔ ان کا وژن، ا ن کی مقصدیت اور اس باب میں یکسوئی، دین اور تحریک سے ان کی وفاداری، دیانت، امانت، معاملہ فہمی، صبروتحمل اور حکمت و تدبر کی تابناکی میرے لیے مشعل راہ رہی ہیں۔ اپنے اپنے انداز میں ہر ایک سے مَیں نے بہت کچھ سیکھا اور مجھے جو تھوڑی بہت خدمت انجام دینے کی سعادت حاصل ہوئی، اس میں ان حضراتِ گرامی قدر کی رہنمائی اور رفاقت کا بڑا دخل ہے۔ مولانا مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی تو سرفہرست ہیں، لیکن اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ ان میں سے ہربزرگ اور ساتھی کے مجھ پر بے پناہ احسان ہیں۔
یہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں، جنھوں نے مولانا محترم کے دستِ راست کی حیثیت سے اس تحریک کے قیام اور تشکیل و ترقی میں اہم کردار اداکیا ہے اور جو کچھ تحریک آج ہے، اللہ کے فضلِ خاص کے بعد، ان سب محسنوں کی محنت، خدمت اور کاوش کا حاصل ہے اور ان کے رخصت ہوجانے کے باوجود ان کی برکات سے یہ تحریک ہمیشہ فیض یاب ہوتی رہے گی۔ کسی نے مولاناابوالکلام آزاد مرحوم سے تاج محل کی مضبوطی اور حُسن کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے برملا کہا کہ: ’’اس کا حُسن اور اس کی مضبوطی ہردو کا انحصار اُن پتھروں پر ہے جو نظر نہیں آرہے، لیکن جو اس کی بنیاد میں ہیں اور اسے تھامے ہوئے ہیں۔ مولانا محترم اور ان کے ان ساتھیوں کا معاملہ بھی تحریک کی بنیاد ہی کا سا ہے اور ان شاء اللہ ان مضبوط بنیادوں پر یہ تحریک ہمیشہ قائم رہے گی، بشرطیکہ ہم اور ہمارے بعد آنے والے اللہ سے وفاداری، مقصد کے باب میں یکسوئی، اور دعوت اور تنظیم کے اُصولوں پر قائم رہیں اور دیانت اور حکمت سے اپنا فریضہ انجام دیتے رہیں:
ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۰ۭ وَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًا۲۸ۭ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۰ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّاۗءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاۗءُ بَيْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًا۰ۡسِيْمَاہُمْ فِيْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ۰ۭ ذٰلِكَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرٰىۃِ۰ۚۖۛ وَمَثَلُہُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ۰ۣۚۛ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِہٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِہِمُ الْكُفَّارَ۰ۭ وَعَدَ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا۲۹ (الفتح ۴۸:۲۸-۲۹) وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، تاکہ اُس کو پوری جنسِ دین پر غالب کردے اور اس حقیقت پر اللہ کی گواہی کافی ہے۔ محمدؐ، اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفّار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں۔ تم جب دیکھو گےاُنھیں رکوع وسجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوش نودی کی طلب میں مشغول پائوگے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے اُن کی صفت تورات میں، اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفّار اُن کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجرکا وعدہ فرمایا ہے۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب تحریک کے ان سابقون الاولون میں سے آخری چراغ تھے۔ ان کی وفات پر بے ساختہ میرے دل سے ایک باب اور ایک عہد کے ختم ہونے کی فریاد نکلی، کہ:
داغ چراغ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اِک شمع رہ گئی تھی ، سو وہ بھی خموش ہے
یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ تحریک کی کتابِ زندگی اور میدانِ دعوت کھلے ہوئے ہیں اور ان شاء اللہ کھلے رہیں گے۔ایک باب ضرور مکمل ہوا ہے، لیکن وہ نئے ابواب کا پیش خیمہ اور ان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ چودھری رحمت الٰہی صاحب کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، ان کی قبر کو روشن اور ان کو جنت کے اعلیٰ مقامات سے سرفراز فرمائے اور جو صدقات جاریہ وہ چھوڑ گئے ہیں، انھیں جاری رکھے اور ان کے لیے بلند درجات کا ذریعہ بنائے، آمین!
چودھری رحمت الٰہی صاحب ضلع جہلم میں ۱۹۲۳ء میں پیدا ہوئے اور ۵جنوری ۲۰۱۹ء کو لاہور میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ گریجویشن تک تعلیم حاصل کر کے برٹش انڈین فوج میں ملازمت اختیار کی اور نان کمیشنڈ افسر کی حیثیت سے ۶،۷ سال فوجی خدمات انجام دیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جنوب مشرقی ایشیا خصوصیت سے ملایا (جو اَب ملایشیا ہے) میں وقت گزرا۔ نماز، روزے کی پابندی اس زمانے میں بھی کی اور اس کی پاداش میں کورٹ مارشل اور قید کی سزا بھی بھگتی۔ مولانا مودودیؒ کی تحریروں سے غالباً ۴۶-۱۹۴۵ء میں شناسائی ہوئی۔ دسمبر ۱۹۴۶ء میں سیالکوٹ میں فوجی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مولانا کے جلسے میں شرکت کی اور شہادتِ حق پر مولانا کی شہرئہ آفاق تقریر سنی، اور اسی وقت یہ عزم کرلیا کہ اب زندگی انگریزکی فوج میں نہیں، اللہ کے سپاہی کی حیثیت سے گزارنی ہے۔ فوج نے بھی ڈسپلنری کارروائی کی اور اس طرح طوقِ غلامی سے نجات پاکر نوجوان سپاہی دارالاسلام میں مولانا مودودی کے ساتھ قافلۂ حق میں شریک ہوگیا۔
۱۹۴۷ء کے اوائل میں رکنیت اختیار کی اور اپنے کو جماعت کے حوالے کر دیا۔ تقسیمِ ہند کے موقعے پر دارالاسلام میں مہاجرین کی دیکھ بھال، پھر لاہور کی طرف ہجرت اور وہاں مہاجر کیمپوں میں جماعت کی طرف سے خدمت اور امداد کی سرگرمیوں میں مشغول رہے۔ کچھ عرصے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئے اور یہاں مولانا مسعود عالم ندوی اور جناب عبدالجبار غازی کی شاگردی اختیار کی اور خصوصیت سے عربی اور دینی علوم کے حصول کو منزل بنایا۔ بدقسمتی سے یہ انتظام زیادہ عرصہ نہ چل سکا تو کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں ایک سرکاری دفتر میں ملازمت اختیار کرلی، لیکن پھر ۱۹۵۰ء کے صوبہ پنجاب و بہاول پورکے انتخابات کے موقعے پر تحریکی خدمات کے لیے پنجاب آگئے اور اس کی پاداش میں ملازمت سے فارغ کر دیے گئے۔ ویسے بھی اس زمانے میں سرکاری دفاتر سے جماعت سے متعلق افراد کی چھانٹی ہورہی تھی۔
اس کے بعد کراچی میں حکیم اقبال حسین صاحب، شیخ سلطان احمد صاحب اور صادق حسین صاحب کے دواساز ادارے سے وابستہ ہوگئے۔پھر محترم چودھری غلام محمدصاحب کے ساتھ مل کر ٹنڈوالٰہ یار میں زراعت کے شعبے سے وابستگی اختیار کرلی۔ جہاں تک مجھے علم ہے زراعت سے ان کا تعلق کسی نہ کسی شکل میں باقی رہا، لیکن عملاً ۱۹۵۳ء سے ان کا زیادہ وقت جماعت کے مرکزی نظام میں گزرا۔ تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں جو ابتلا جماعت پر پڑی اور مولانا مودودی کو سزاے موت اور مرکزی قیادت کی گرفتاری سے آزمایش کا جو دور آیا اس میں شیخ سلطان احمد صاحب کی امارت جماعت اسلامی پاکستان میں چودھری رحمت الٰہی صاحب نے بحیثیت قیم گراں قدر خدمات انجام دیں۔
یہی وہ زمانہ ہے جب مجھے پہلی مرتبہ ان سے ملنے اور اس کے بعد مسلسل ان سے ربط میں رہنے کا موقع ملا۔ مَیں اس زمانے میں پہلے صوبہ سندھ میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم تھا اور پھر اگست ۱۹۵۳ء میں ناظم اعلیٰ منتخب ہوا تھا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب ایک سال تک قیم جماعت رہے اور اس کے بعد پھر کچھ عرصے کے لیےدواساز کمپنی ’آئی ساکو‘ اور پھر زراعت سے وابستہ رہے۔ ۱۱دسمبر ۱۹۶۳ء سے عملاً جماعت سے ہمہ وقتی طور پر وابستہ ہوگئے، جو سلسلہ ۲۰۰۹ء تک مختلف شکلوں میں جاری رہا۔
کراچی اور سندھ کے قیام کے دوران انھوں نے پرائیویٹ طالب علم کے طور پر ایم اے بھی کیا اور اچھے نمبروں سے کامیاب ہوئے۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب اور سیّد اسعد گیلانی صاحب نے میری ذاتی لائبریری سے بھی بھرپور استفادہ کیا۔ یہ ایک بڑی چشم کشا اور قابلِ توجہ خوبی تھی کہ جماعت کے اوّلین ارکان میں سے ہر فرد کا مَیں نے کتاب سے بڑے قریبی رشتے کا مشاہدہ کیا۔ بلالحاظ اس کے کہ ان کے پاس ڈگری تھی یا نہیں، یا کس شعبۂ زندگی سے وہ متعلق ہیں۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب فوج کے پس منظر سے آئے تھے، چودھری علی احمد خاں صاحب پولیس سروس سے آئے تھے، چودھری غلام محمد صاحب صرف میٹرک تھے اور ریلوے سروس سے آئے تھے، مگر ان میں ہر ایک سنجیدہ مطالعے کا شوقین تھا۔ صرف جماعت کا لٹریچر تو ان کا اوڑھنا بچھونا تھا ہی، وہ تفسیر، حدیث، فقہ، سیاست، تاریخ، بین الاقوامی اُمور، مذہب، اشتراکیت، ادب، مغربی تہذیب اور جدید مباحث پر بصد ذوق و شوق کتابوں کا مطالعہ کرتے۔ آج جہاں وطنِ عزیز میں بحیثیت مجموعی کتاب کا کردار کم ہو رہا ہے، وہیں خود تحریک میں بھی کتاب سے رشتہ کمزور ہوگیا ہے اور اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب نے محترم سلطان احمد صاحب کی امارت میں ایک سال، اور پھر محترم مولانا مودودی صاحب کی امارت میں سات سال، ازاں بعد محترم میاں طفیل محمد کی امارت میں پانچ سال بحیثیت قیم جماعت خدمات انجام دیں۔ محترم قاضی حسین احمد صاحب کے دور میں ۱۹۷۹ء سے ۲۰۰۹ تک نائب امیر جماعت رہے۔ ۱۹۶۴ء میں جماعت پر پابندی کے دور میں وہ عملاً جماعت کے کرتا دھرتا تھے اور ساری قانونی اور سیاسی جنگ انھی کی قیادت میں لڑی گئی۔ اس کے علاوہ جماعت کے نصف درجن سے زیادہ اہم اداروں کے سربراہ یا کسی بھی مفوضہ ذمہ داری پر مامور رہے اور ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو بہترین صلاحیت، دیانت، معاملہ فہمی ،حکمت اور خوش اسلوبی سے انجام دیا۔اس طرح جماعت کی تاریخ کے بڑے حصے پر(یعنی تقریباً ۶۳برس) ان کی گراں قدر خدمات کے نقوش دیکھے جاسکتے ہیں۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب سے میرا ذاتی طور پر بڑا گہر ا تعلق رہا ہے، جو ۱۹۵۳ء سے ان کی آخری بیماری تک کے طویل عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ میرے لیے وہ ایک بڑے بھائی اور تحریکی قائد تھے، مگر انھوں نے ہمیشہ جس محبت اور عزت سے معاملہ کیا، وہ میرے لیے زندگی کا سرمایہ اور ان کے کردار کا روشن ستارہ ہے۔ انھوں نے کبھی مجھے اپنے سے کم عمر محسوس نہیں ہونے دیا اور یہ ان کی عظمت کا ثبوت ہے۔
تحریک کے جس وژن کو انھوں نے جوانی میں قبول کیا تھا، پورے اعتماد اور یکسوئی کے ساتھ وہ اس پر قائم رہے اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ پیش آمدہ معاملات پر غوروفکر کرتے اور مسائل کا حل نکالتے رہے۔معاملہ فہمی، حالات کا تجزیہ، ٹھنڈے دل و دماغ سے معاملات پر غور کرنا اور سارے ممکنہ پہلوئوں کا ادراک کرکے راے قائم کرلینا اور جو راے سوچ بچار کے نتیجے میں قائم کرلیں اسے دلیل اور سلیقے سے،کسی رو رعایت کے بغیر پیش کرنا ان کا معمول تھا۔ دوسرے کی بات کو سننا اور اس پر غور کرنا، اتفاق یا اختلاف کو دلیل کے ساتھ معقول انداز میں اور بڑے توازن کے ساتھ بیان کرنا اور پھر جو بات سب کے اتفاق یا کثرت راے سے طے ہوجائے، اس پر دیانت داری اور انہماک سے عمل کرنا___ یہ ان کا طریقہ تھا۔ میں نے انھیں کبھی اُونچی آواز میں بات کرتے نہیں سنا۔ مَیں گواہی دیتا ہوں کہ کئی معاملات پر میری اور ان کی، یا ان کی اور امیرجماعت کی راے میں اختلاف ہوا، لیکن اختلاف کو جس سلیقے سے انھوں نے پیش کیا، وہ اتنا عمدہ تھا کہ اس کا نقش دل سے کبھی دُور نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح مجھے اس امر کا بھی اعتراف ہے کہ چند معاملات پر بعد میں ثابت ہوا اور خود مَیں نے اعتراف کیا کہ ان کی راے صحیح اور میری یا میرے دوسرے ساتھیوں کی راے درست نہیں تھی۔ اس سلسلے میں ۲۰۰۸ء کے انتخابات کا بائیکاٹ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر اگر چودھری رحمت الٰہی صاحب کی راے پر عمل ہوتا تو مجھے اعتراف ہے کہ وہ تحریک اور ملک کے لیے کہیں بہتر ہوتا۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب اپنے مقصد ِ زندگی کے بارے میں نہایت یکسو تھے اور اسی وجہ سے اپنے وژن اور معاملات کی تفہیم کے باب میں بہت واضح ذہن رکھتے تھے۔ تحریک کے متعلق ان کی راست فکری بے حد نمایاں اورمتاثرکن تھی۔ ان کی دیانت اور امانت اور جماعت کے اثاثوں کے بارے میں حساسیت اپنی مثال آپ تھی۔ اجتماعی زندگی کے معاملات میں اعتدال اور میانہ روی ان کا طرئہ امتیاز تھا۔ سادگی، صفائی اور نظافت ان کے مزاج کے مظاہر تھے۔ معاملات میں مشاورت، دوسرے کی راے کو سننا، اس پر غور کرنا اور سلیقے سے ردعمل ظاہر کرنا ان کا شعار اور مشاورت کے نظام کو فروغ دینے میں ممدومعاون تھا۔وہ تحمل اور بُردباری کا ایک نہایت قابلِ قدر نمونہ تھے اور اصول اور ضابطے کی پاسداری میں اپنی مثال آپ تھے۔ اقبال کے الفاظ میں اگر مَیں ان کی شخصیت کا خلاصہ بیان کروں تو کہہ سکتا ہوں کہ:
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
ان کی شخصیت کے دو پہلو مزید ایسے ہیں، جن کا ذکر کیے بغیر بات نامکمل رہے گی۔ مَیں نے اُن میں Crisis Management (یعنی بحرانی صورتِ حال سے نمٹنے) کی غیرمعمولی صلاحیت کا بار بار مشاہدہ کیا۔ ایک انسان کا اور خصوصیت سے ایک قائد اور ذمہ دار شخص کا سب سے بڑا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اسے کسی بحران یا چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خواہ اندرونی ہو یا بیرونی۔ میں نے محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب کو بحران کی دونوں صورتوں میں بڑا متحمل، متوازن، معاملہ فہم اور مشکلات اور غلط فہمیوں میں سے راستہ نکالنے والا پایا۔
اس ضمن میں میرا پہلا تجربہ اس وقت سے متعلق ہے جب مَیں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا اور ڈاکٹر اسراراحمد بھائی نے ایک زوردار تقریر کر کے جمعیت کو اندرونی طور پر بڑے تنظیمی بحران سے دوچار کر دیا تھا۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب اس وقت قیم جماعت تھے، اگرچہ وہ بلاواسطہ اس کمیٹی میں نہیں تھے جس نے معاملات کا جائزہ لے کر اس بحران سے جمعیت کو محفوظ کیا۔ لیکن ذاتی طور پر میں پہلی مرتبہ ان سے اس موقعے پر ملا اور ان کی گفتگو اور دلائل سے دل پر بڑا گہرا نقش ثبت ہوا۔ اسرار بھائی کے خیال میں حالات کا تقاضا یہ تھا کہ: ’’جماعت اور جمعیت کو ایک نظم میں آنا چاہیے‘‘۔ لیکن چودھری رحمت الٰہی صاحب نے بڑے سلیقے اور ٹھنڈے انداز میں جداگانہ نظم کی حکمتوں پر روشنی ڈالی اور اس سے مجھے بہت تقویت محسوس ہوئی۔
پھر جب ۱۹۶۴ء میں جنرل ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی پر پابندی لگی تو اس موقعے پر پوری قانونی اور سیاسی لڑائی میں چودھری رحمت الٰہی صاحب کا کردار قائدانہ تھا۔ جماعت کے اندر نظم کو قائم رکھنا اور جماعت کے باہر کے عناصر سے ربط اور ان سے تعاون کا حصول، اے کے بروہی صاحب اور پوری قانونی ٹیم کو ضروری معلومات فراہم کرنا اور ان سے قانونی معاملات طے کرنا، پھر اسی پس منظر میں ملک کی دوسری سیاسی قوتوں کو جمع کر کے ’متحدہ حزبِ اختلاف‘ (Combined Opposition Parties - COP) کا قیام اور اس میں جماعت کا کردار، اور پھر محترمہ فاطمہ جناح کو صدر جنرل ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی اُمیدوار کے لیے لانا، اس کے لیے جماعت کے اندر اور باہر فضا ہموار کرنا، اس مقصد کے لیے مولانا مودودی اور جماعت کی زیرحراست قیادت سے ربط و مشورہ___ یہ پورا دور غیرمعمولی دبائو، کش مکش، اشتعال اور تنازعے کا دور تھا۔ تاہم، چودھری رحمت الٰہی صاحب نے جس سمجھ داری، تحمل، حکمت اور تحریکی وفاداری کے ساتھ یہ معرکہ سر کیا، اس نے دل میں ان کے مقام کو بلند اور محکم کر دیا۔
اسی طرح جب ۱۹۹۴ء میں کچھ خاص اندرونی حالات کی وجہ سے محترم قاضی حسین احمد صاحب سخت دل برداشتہ ہوکر جماعت کی امارت سے مستعفی ہوگئےتھے۔ ان چند مہینوں میں بھی قائم مقام امیر کی حیثیت سے محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب نے تمام معاملات کو حکمت و دانائی اور دستورِ جماعت کے فریم ورک میں رہتے ہوئے سلجھایا اور محترم قاضی صاحب نے پھر انتخابِ امارت کے بعد ذمہ داری سنبھالی۔
بیرونِ ملک بھی ایک اسلامی تحریک کے اندرونی خلفشار کے عالم میں اس کے ارکان نے محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور مجھے معاملات کو سلجھانے کی ذمہ داری سونپی اور میں نے دیکھا کہ اللہ کے فضل اور چودھری صاحب کی بالغ نظری کی وجہ سے ایک ہفتے ہی میں معاملات کو سنبھال لیا گیا۔ یہ ان کی غیرمعمولی صلاحیت اور خدمت تھی۔جزاھم اللہ خیر الجزاء۔
دوسرا تذکرہ ہے ان کے اس کردار کا، جو بحیثیت وزیربجلی اور توانائی انھوں نے انجام دیا۔ مجھے ان کے ساتھ پاکستان قومی اتحاد کی مرکز میں حکومت میں آٹھ ماہ گزارنے کا موقع ملا۔ ڈیڑھ مہینے تک میں ان کے اور پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب اور برادرم محموداعظم فاروقی کے ساتھ واپڈا گیسٹ ہائوس میں رہا ہوں، جو انھی کی وزارت کے تحت تھا۔ وہ خود تقریباً پانچ مہینے وہاں رہے اور پروفیسر عبدالغفور صاحب اور محموداعظم فاروقی صاحب وزارت کے پورے زمانے میں وہیں مقیم رہے۔ وزارت اور کابینہ میں اور عوام اور انتظامیہ کے ساتھ نیز فوجی قیادت کے ساتھ، جس طرح وہ معاملہ کرتے تھے اور جس اعتماد اور خوب صورتی سے اپنی راے کا اظہار کرتے تھے، وہ نہایت متاثرکن تھا۔ حالاں کہ ہم سب کا حکومت میں یہ پہلا تجربہ تھا لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جماعت سے متعلق چاروں وزرا نے اپنے اپنے شعبوں میں، اور بحیثیت مجموعی ان تمام افراد پر جن سے سابقہ پیش آیا ایک منفرد مثال قائم کی۔
صلاحیت ِکار اور دیانت دونوں پہلوئوں سے اپنے نقوش چھوڑے اور پاکستان کی تاریخ میں صرف ایک ہی بار ایسا ہوا ہے کہ جب وزیروں نے استعفا دے کر حکومت چھوڑی ہو، اور وزارت کے لوگوں نے اجتماعی طور پر دعوت کی شکل میں رخصت کرنے کا اہتمام کیا ہو۔ جماعت کے چاروزرا کے علاوہ کسی دوسرے وزیر کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، اور اس سے پہلے اور اس کے بعد اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزارت میں آنے کے وقت خوش آمدید کہنے کی مثالیں تو موجود ہیں، لیکن وزارت چھوڑتے وقت اس طرح رخصت کرنے کی مثال کم از کم ہمارے ملک میں تو نہیں۔ محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب کے وزارت چھوڑنے پر وزارت کے اسٹاف کو سخت افسوس تھا۔ واپڈا کے اس وقت کے چیئرمین فضل رزاق صاحب جو صوبہ سرحد کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل فضل حق کے بھائی تھے، ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے، وہ بھی ان سے متاثر تھے اور ہمیشہ ان کا ذکر احترام سے کرتے تھے:
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
جماعت کا ۱۹۵۸ء کے انتخاب کے لیے جو منشور مرتب ہوا، اس کا پہلا ڈرافٹ جس کمیٹی نے بنایا، اس کے سربراہ بھی چودھری رحمت الٰہی صاحب تھے اور اس کمیٹی میں چودھری غلام محمد صاحب اور مجھے اس کی رکنیت کا شرف حاصل ہے۔آخری ڈرافٹ بہرحال مولانا مودودی نے مرتب فرمایا تھا، لیکن اس میں ہمارے ڈرافٹ کا بڑا حصہ شامل تھا۔ ایک مدت تک مرکزی مجلس شوریٰ کی قرارددوں کو جو کمیٹی مرتب کرتی یا آخری شکل دیتی رہی، اس میں پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب، چودھری رحمت الٰہی صاحب اور مجھے یہ خدمت انجام دینے کی سعادت حاصل رہی۔چودھری صاحب کی اُردو تحریر جامع، مختصر اور واضح ہوتی تھی اور جس تحریر کو وہ دیکھ لیتے تھے اس کے بارے میں اطمینان ہوجاتا تھا کہ وہ نقص سے پاک ہے۔
چودھری رحمت الٰہی صاحب اپنے خاندان اور اس سے بڑھ کر اپنے وسیع تر نظریاتی اور تحریکی خاندان کے لیے اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت تھے۔ موت برحق ہے اور کسی کو بھی اس سے مفر نہیں، لیکن ان کے اُٹھ جانے سے جو خلا واقع ہوا ہے اس کا بھرنا بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔ مگر یقین ہے کہ اللہ کے دین کی یہ دعوت دنیا کے آخری لمحے تک کے لیے ہے اور جس ربّ نے یہ رہنمائی کمالِ مہربانی سے عنایت فرمائی ہے، وہ برابر ایسے افراد بھی ذمہ داری کے مناصب پر مامور کرتا رہے گا، جو دین حق کو اس کی اصل شکل میں، اپنے دور کے حالات کی اصلاح اور تشکیل نو کے لیے برپا کرتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی دُعا ہے کہ ہمارے رخصت ہونے والے بھائی پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا رہے اور ان کی اس ابدی زندگی کو روشن اور تابناک بنائے، آمین!