کیا ہم اپنے معاشرے کو جانتے ہیں؟ اور کیا ہمارا معاشرہ ہمیں جانتا ہے؟
ان بنیادی سوالات کا جواب تب ہی مل سکتا ہے یا اسی وقت دیا جاسکتا ہے، جب یہ واضح ہو کہ ’جاننے‘ سے کیا مراد ہے؟ یہ عمل کیا ہے اور اس عمل کے تقاضے کیا ہیں؟
ہمارا فوری جواب یہی ہوگا کہ ’ہم معاشرے کو جانتے ہیں اور ہمارا معاشرہ ہمیں جانتا ہے‘۔ ممکن ہے کہ یہ جواب درست ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’جاننے‘ کے عمل سے ہم لاتعلق ہوں اور یوں دونوں سوالات تشنۂ جواب ہی ہوں۔ کسی فلاسفر نے کہا تھا کہ: ’میں یہ جانتا ہوں کہ میں کیا نہیں جانتا‘۔ تاہم، عمومی چلن کے مطابق: جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ ’میں جانتا ہوں‘ اسی کو عالم سمجھا جاتا ہے۔
چند لمحوں کے لیے مان لیجیے کہ: ’’ہم اپنے معاشرے کو نہیں جانتے اور اسی طرح سے یہ معاشرہ بھی ہمیں نہیں جانتا‘‘۔ گذشتہ دو عشروں میں جوان ہونے والی نسل اگر ہمیں نہیں جانتی تو اس کی بنیادی وجہ یہ خوش فہمی ہے کہ ’ہم معاشرے کو جانتے ہیں‘۔
معاشرہ: چند غورطلب پہلو
آئیے چند پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ کسی معاشرے کو جاننے کے لیے کیا ضروری ہے:
پہلا مقدمہ یہ ہے کہ کیا معاشرے کا پورا منظر نامہ ہمارے سامنے موجود ہے یا چند پہلوئوں کو دیکھ کر ہم راے قائم کرلیتے ہیں؟ ایک داعی کے طور پر فرد سے کس طرح ملتے ہیں؟ کیا یہ جانتے ہیں کہ ہمارا مخاطب اور اس کی شخصیت کیسی ہے، اس کے مسائل کیا ہیں اور وہ کن امور پر بات کرنا چاہتا ہے؟ ہم اس کی بات سنتے ہیں یا اسے محض اپنی سناتے ہیں؟
ہمارے معاشرے کی کوئی مخصوص نفسیاتی پہچان ہے یا خود ہماری معاشرت بھی عمومی طور پر اسی رنگ میں رنگی ہے؟ ہم جذباتی کیفیات میں زیادہ وقت گزارتے ہیں یا رویوں پر ٹھیرائو غالب رہتا ہے؟ عملی کیفیات میں داعیانہ جذبہ کس حد تک غالب ہے کہ جو مخاطب کو متاثر کرتا ہے اور کس انداز سے متاثر کرتا ہے؟ کیا ہم نے کبھی اپنے مخاطب کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کی کوشش کی، خواہ ادھورا ہی سہی یا پھر جو پیش نظر ہے، وہی پیش کردیتے ہیں؟
ہمارے معاشرے میں ترقی کی منازل طے کرنے والا ہم عصر کلچر کیا ہے؟ پہلے سے مروج روایات سے یہ کلچر کس حد تک ہم آہنگ ہے؟ معاشرتی سطح پر فرد اور گروہ کے روابط اور تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ کیا ہم ربط اور تعلق کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں یا ربط سے تعلق پیدا کرنے اور مستحکم کرنے کا کام لیتے ہیں؟
مختلف گروہوں ، اداروں اور تنظیموں کا کردار ہمارے زیر مطالعہ رہتا ہے یا ہم ادھورے ابلاغی پروپیگنڈے سے متاثر رہتے ہیں؟ کیا ہم وسعت کو پسند کرتے ہیں یا ’جو ہے اور جہاں ہے‘ ہی کو کافی سمجھتے ہیں؟ اس فرق کو پہچانتے ہیں یا اپنی محدود معلومات کو کافی سمجھتے ہیں؟
پاکستان کے زندہ معاشرتی مسائل اور مقدمات کیا ہیں؟ ان امور میں سے کتنے اُمور واقعی مسائل بن چکے ہیں اور کتنے مسائل، بڑے چیلنج بننے جارہے ہیں؟ ہم ان امور کو مسائل اور پھر چیلنج بننے سے کس حد تک روکنے میں کامیاب ہیں؟ اس کش مکش کو سمجھتے ہیں یا اس عمل سے الگ ہیں؟ ان سوالات کا جواب پانے کی کوشش کرتے ہیں یا امور اور مسائل کی جنگ میں خاموش اور غیر جانب دار ناظر ہیں؟
آج کے زندہ رجحانات کیا ہیں؟ ’زندہ‘ سے مراد صرف ’مثبت‘ نہیں ہے، اس سے مراد ’منفی‘ بھی ہے۔ ہر ایسا رجحان ’زندہ‘ ہے جو معاشرے میں رائج ہے یا رواج پانے کو بے تاب ہے، خواہ اس کے اثرات مثبت ہیں یا منفی ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ ہم کسی بھی رجحان سے اس کی جملہ حرکیات، اسباب اور انجام سے آگاہ ہیں یا آگاہ ہونے کی کوشش میں ہیں؟
معاشرے میں رہنے سہنے اورملنے جلنے کے انداز اور معاملات میں تبدیلی آرہی ہے، لباس تبدیل ہو رہے ہیں، خواہ یہ مردانہ ہوں یا زنانہ۔ رویے اور میل ملاپ میں تبدیلی آرہی ہے۔ ہم ان تبدیلیوں کو کس حد تک محسوس کرتے ہیں؟ کیا ہم ان میں روپذیر منفی رویوں پر کڑھتے رہتے ہیں؟ ہم عملی سطح پر حکمت آزماتے ہیں یا تنقید سے کام چلاتے ہیں؟ قطع تعلق کرتے ہیں یا حوصلہ بڑھاتے ہیں؟
دین اور مذہب کے بارے میں لوگوں کی سوچ بدل رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سوچ کس طرح بدل رہی ہے؟ کیا ہم ہر نئی سوچ اور نئے عمل کو سیکولر اور لبرل کہہ کر تو فارغ نہیں ہوجاتے؟ کیا محض یہ سوچ لینا ہی مطلوب ہے؟ کیا یہ رویہ ایسی سوچ کا حصہ بن کر اپنا حصہ تو نہیں ڈالتا؟ یا اس سے جدا ہو کر اسے منافقت، گمراہی ، بے راہ روی وغیرہ قرار دینا ہی کافی ہے؟ اگر ایسا ہے بھی، تو کیا اسے درست کرنے کی حکمت بھی آزماتے ہیں؟
مجموعی طور پرلوگوں کا کردار وراثتی ہوتا ہے، جو نسل در نسل چلتا ہے۔ ہر کام کا ایک مخصوص پس منظر ہوتا ہے اور اکثر اسی پس منظر کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔ کیا ہم اسی پس منظر کو جانتے ہیں؟ یا خود کو اس کی جگہ رکھ کر غور کرتے ہیں؟ کیا ہم لوگوں پر تنقید، پس منظر کو سمجھے بغیر تو نہیں کرتے؟
خانگی روایات، تعلیمی کیفیات، شخصی رجحانات، گروہی نظریات، فکری مطالبات بہ یک وقت سرگرمِ عمل ہوتے ہیں۔ معاشرے کی عمومی قوت، اقدار کے انداز، روایات کے اسلوب سمیت بے شمار جہتیں ہیں اور ہر جہت ایک قوت ہے۔ کیا ہم ان سب کو اپنے خلاف کرلیتے ہیں، یا انھیں فطری سطح پر اپنےخلاف پاتے ہیں؟ ان کو اپنے حق میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں؟ یا پھر یہ کہتے ہیں کہ وہ جانے اور اُس کا کام!
وقت بہت بڑا عامل، معالج اور استاد ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا آج کا نوجوان مولانا مودودیؒ کے نام اور کام سے واقف ہے؟ کیا آج کا معاشرہ جماعت اسلامی کو اس کی اصل پہچان کے حوالے سے جانتا ہے؟ کیا آج کا معاشرہ جماعت اسلامی کا تاثر قائم ہوتے دیکھ رہا ہے؟ کیا وہ اس کے تاثر کو آگے بڑھاتا ہے یا اس کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے؟ اسے آگے بڑھانا ہے تو حکمت عملی کیا ہے یا پھر کسی حکمت عملی کی ضرورت ہے بھی یا نہیں؟
معاشرے میں حقوق و فرائض کا کیا تصور کام کر رہا ہے؟ کیا یہ تصور دینِ اسلام میں حقوق و فرائض کے تابع ہے، یا پھر یہ جدیدیت کے تابع ہے؟ کیا ہر حق (Right) سیکولر ہوتا ہے، اور کیا ہرفرض مذہبی ہوتا ہے، اور کیا معاشرے کو واضح سوچ دینے کی ضرورت ہے؟
یہاں داعیانہ پہلوئوں کی طرف کہیں کہیں اشارہ اس لیے کیا ہے، تاکہ ہم اپنے ’جاننے کے دعوے‘ کو جان سکیں۔ ہم میں سے ہرکارکن خود سے یہ سوال ضرور پوچھے: ¤ ان پہلوئوں کو پورا جانتا ہے یا نہیں جانتا ہے! ¤ ان پہلوئوں کو ادھورا جانتا ہے یا کچھ کو جانتا ہے! ¤ جس قدر جانتا ہے، اس کا استعمال کرتا ہے ہیں یا نہیں کرتا!
پہلی صورت کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ اگر ہم ان پہلوئوں کو نہیں جانتے، تو گویا اپنی دعوت کو بھی کماحقہ نہیں جانتے۔ اس کمی کو دُور کرنے کے لیے ہمیں داعی اور دعوت کے بارے میں بنیادی لٹریچر کا بھرپور مطالعہ کرنا چاہیے،اور یہ مطالعہ سمجھ کر ہی کرنا چاہیے، ورق گردانی نہیں!
یہاں ایک مثال پیش ہے۔ امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کی حراست کے دنوں میں ایک ورکشاپ میں ہمارے ناظمین نشرو اشاعت شریک تھے۔ جماعت اسلامی اس معاملے کو پوری قوت سے لے کر چل رہی تھی۔ راقم نے نشست میں سوالات پیش کیے: ¤ یہ قاتل کتنے دنوں سے اور کہاں قید ہے؟¤ اسے ریمانڈ کے لیے کب اور کہاں پیش کیا گیا؟¤ متاثرہ پاکستانی خاندانوں کا وکیل کون ہے؟¤ امریکی سفارت خانے کی گاڑی نے کس نوجوان کو کچل کر مار ڈالا؟
اسی طرح کے دس بارہ سوالات اُٹھائے، مگر کسی کے پاس ان کا مکمل جواب نہیں تھا۔ تقریباً ۲۵فی صد نے تاریخ صحیح بتائی۔ کئی شرکا کو مقتول عباد الرحمٰن کے نام کا علم نہیں تھا۔ ۵۰فی صد کو علم نہیں تھا کہ وکیل کون ہے اور وکیل کا جماعت سے کیا تعلق ہے؟
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت کارکن زیادہ تر، موقف کی چند سطروں کی واقفیت تک محدود رہتے ہیں۔ جس دن اس کیفیت سے نکل کر معاشرے میں اُتریں گے اور جماعت اسلامی میں رہنے لگیں گے تو ہم معاشرے میں بھی رہنے لگیں گے۔ محض تصور میں رہ کر ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ جماعت اسلامی کی پالیسی اور پروگرام کے تحت کام کر رہے ہیں، جو درست مفروضہ نہیں ہے۔ جب کارکن پالیسی کو پوری طرح سمجھ نہ رہا ہو، تو وہ گہری لگن کے ساتھ کام بھی نہیں کرسکے گا۔
مثال کے طور پر مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد ارکان سے یہ سوال کیا جانا چاہیے کہ:
آپ نے نظم سے رابطہ کر کے دریافت کیا کہ موجودہ حالات میں جماعت کی پالیسی کیا ہے؟
جماعت اسلامی نے جن قراردادوں کی منظوری دی ہے، ان کے موضوعات کیا ہیں؟
کیا سیاسی صورت حال پر جماعت کی موجودہ اور سابقہ قرارداد کا فرق جانتے ہیں؟
اگر اپنا بے لاگ جائزہ لیں تو اپنے بارے میں درست فیصلہ کرنا کچھ مشکل محسوس نہیں ہوگا کہ کیفیت کیا ہے؟ اگر ہم کو سارے یا بیش تر امور کا علم ہے، نظم سے رابطہ کر کے فہم حاصل کیا ہے تو ہم جماعت میں رہتے ہیں۔ دوسری صورت میں ہم جماعت سے محض ثقافتی یا واجبی سا تعلق رکھتے ہیں، حقیقی تعلق نہیں رکھتے۔ یہ ایک خطرناک صورت ہے جس سے ہماری خاصی تعداد متاثر ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم کنارے پر چلنے کے بجاے جماعت اسلامی میں رہنا شروع کر دیں۔ حالات و واقعات پر گہری نگاہ رکھیں۔ پھر ہماری دعوت کو بھی معاشرے سے جدا اور تصوراتی نہیں ہونا چاہیے، کہ اس کے بغیر ہم دعوت نہیں پھیلا سکتے ۔
یقین مانیے، جماعت سے جدا رہنے کا مطلب، معاشرے سے جدا رہنا ہے۔ اسی لیے ہم کسی حلقے میں دس افراد ہیں تو دس سال بعد بھی غالباً دس یا گیارہ ہی ہیں، یعنی ’کوئی خود ہم سے آن ملے، ہم کسی سے کیوں جاکر ملیں‘۔ جب کارکن اس عادت سے ہٹ کر کام کرتا ہے تو معاشرے کے قریب ہو جاتا ہے۔
ہم درس قرآن، ہلکا پھلکا اجتماعی مطالعہ یا دیگر پروگرام کرتے ہیں، لیکن اپنے اردگرد کے ماحول کو نظر انداز کرکے۔ یہ نہیں جانتے کہ اڑوس پڑوس میں کیا صورتِ حال ہے؟ ہمارے بارے یہ تاثر رہا ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت ہے۔ ہمارے حلقے میں ایک رکن جماعت ہوا کرتے تھے، انھیں پورا محلہ نہیں بلکہ پورا علاقہ جانتا تھا کہ یہ رکن جماعت ہیں ۔ ہر موقعے پر موجود، ہر مسجد میں حاضر، ہر خوشی اور غمی میں لوگوں کے ساتھی تھے۔ وہ سرگرم رہے، کوشش کرتے کرتے ربّ کے حضور پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ والے اب بھی موجود ہیں، لیکن وہی چار، چھے اور کبھی دس۔ وجہ یہ ہے کہ عام آدمی سے رابطہ نہیں ہے۔ جماعت کا نام موجود ہے، مگر جماعت کا تصور موجود نہیں ہے اور کسی سےرابطے کی طلب اور پیاس بھی کم تر ہے۔
معاشرتی شناخت کے تقاضے
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا معاشرہ ہمیں جانتا ہے؟ یہاں چند سوالات غور طلب ہیں:
کیا معاشرہ یہ جانتا ہے کہ ہم دین و سیاست سے علیحدہ ہونا درست نہیں سمجھتے؟ جی نہیں، آج کا معاشرہ یہ بات نہیں جانتا۔ اب بات یہ ہوتی ہے کہ’ مذہبی جماعتیں باز کیوں نہیں آتیں، ان کو بڑی جماعتوں کا ووٹ بنک خراب کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے‘ وغیرہ۔
ہمارا معاشرہ ہماری دعوت کو نہیں جانتا تو اس کی ذمہ داری ہماری طرف سے پہچان نہ کرانے پر ہے۔ اسی میں پوشیدہ یہ پہلو بھی ہے کہ کیا آج کا نوجوان ہماری ہرسطح کی قیادت کو دعوت کے ماڈل کے طور پر جانتا ہے؟
مشاہدہ ہے کہ سوشل میڈیا پر ہمارا کام مثبت سمت میں نہیں جارہا۔ ہم جواب آں غزل میں اُلجھ جاتے ہیں۔ لوگ ہمارے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں، لیکن ہم انھیں محض تنقید سمجھ کر مزید اُلجھ جاتے ہیں۔ داعی کو جواب دینا چاہیے ، مگر اکثر صورتوں میں جواب مسائل پیدا کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا کی اپنی حرکیات ہیں۔ ہمارے سوشل میڈیا کے ماہرین چُست جملے میں جواب دینے کو سوشل میڈیا کا درست استعمال سمجھ بیٹھے ہیں۔ چست جواب دینا کسی عام سیاسی گروہ کا معاملہ تو ہو سکتا ہے،جماعت اسلامی کا نہیں۔ جماعت اسلامی کو سوشل پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور صرف دعوت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
ایک اور پہلو نہایت اہم اور حسّاس ہے، وہ ہے عورت اور خاندان سے مخاطب ہونے کا معاملہ، مرد اور خاندان سے مخاطب ہونے کا معاملہ۔ جماعت کے حلقۂ خواتین کے وجود کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ خاندان اور اس سے متعلقہ امور پر صرف حلقۂ خواتین ہی مخاطب ہو اور جواب دے۔ بات وہی درست ہے کہ پوری جماعت کو ان امور پر مخاطب ہو کر معاشرے سے بات کرنی ہے۔ ہم نصف آبادی، یعنی مرد آبادی کو خانگی و معاشرتی حوالوں سے مخاطب نہیں کر رہے۔ یہ حلقہ خواتین کے کام میں مداخلت نہیں بلکہ گھر کے مرد سے مخاطبت کرنے کا معاملہ ہے۔ ہمارا معاشرہ ضرور جاننا چاہے گا کہ ہم گھر، خاندان، مرد و عورت اور نوجوان نسل کے بارے میں کیا اور کس طرح کہنا چاہتے ہیں؟
مذکورہ نکتے کو تعلیم، روزگار، عملی زندگی کے مسائل کے حل پر بھی منطبق کیا جائے تو نظر آئے گا کہ معاشرہ ہم سے اور ہم معاشرے سے کتنے فاصلے پر ہیں۔
یہ محض چند مثالیں ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ ہم ان مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، مگر ہم اس دبائو میں زندہ ہیں کہ اب معاشرہ لٹریچر کا نہیں ہے، اور الیکٹرانک میڈیا کا دبائو ہے۔ ایسا نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اسے لٹریچر کی طرف لانا بھی ہماری اور معاشرے کی ضرورت ہے۔
ہم کھلے دل سے یہ تسلیم کرلیں کہ ہم اور معاشرہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی بنتے دکھائی دیتے ہیں، جو اس درجہ پہلے نہیں تھا۔ ایسا ماننا ہی ہم کو مسئلے کے حل کی جانب لے جائے گا (اس اجنبی پن کی وجوہ بہت سی ہیں، تاہم اس وقت وہ پہلو زیربحث نہیں)۔ زیربحث بات یہ ہے کہ ہم اس اجنبیت کی دیوار کو کس طرح توڑ سکتے ہیں؟
معاشرے میں نفوذ کی راہ
اس دیوار کو گرانے کے لیے ہمیں پہلے مرحلے میں دیوار کے اس پار جانا ہوگا، جہاں معاشرہ بس رہا ہے۔ ہم اکیلے یہ دیوار نہیں گرا سکتے، اس کام کے لیے ہمیں معاشرے کا ساتھ درکار ہے۔ ہم اس دیوار کے اس پار کس طرح اور کیوں کر جاسکتے ہیں؟ یہ ایک چیلنج بھی ہے اور دعوت و تحریک کا تقاضا بھی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا وسائل ہیں، جن سے یہ سفر طے کیا جاسکتا ہے:
ہمارے مادی اور عددی وسائل بہت سے ہیں، مگر ان کا استعمال یک طرفہ، یکسانیت زدہ اور معیارِ مطلوب سے کم تر ہے۔ مثال کے طور پر:
ہمارے پاس کارکن موجود ہیں، لٹریچر موجود ہے، انداز موجود ہے، صلاحیت اور طریقۂ استعمال موجودہے، لیکن ’داعی کارکن‘ موجود نہیں ہے۔
ہمارے پاس دعوت کے ذرائع متنوع اور روزافزوں ترقی پانے والے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ افراد تک پہنچنا سب سے بڑی نیکی ہے۔ ہم کم زور، کم وسائل اور کم حیثیت تحریک نہیں، مگر بن رہے ہیں۔ ہمیں اس نفسیاتی خول سے باہر نکل کر اپنے داعیانہ مقام، وسائل، حیثیت اور اثر پذیری سے معاشرے کو مخاطب کرنا ہے۔
جو چیز کم ہو رہی ہے، وہ ’اُمید‘ ہے اور جو بڑھ رہی ہے، وہ ’یاس‘ ہے۔ ہماری اُمید اقامتِ دین ہے اور ہماری یاس سیاسی ناکامی ہے، داعیانہ ناکامی نہیں۔ افسوس کہ ہم نے سیاسی ناکامی کو داعیانہ کمزوری سمجھ لیا ہے۔ ہمارا اپنا تاثر یہ ہے کہ: ’لوگ بات نہیں سن رہے‘۔ اصل بات یہ ہے کہ ’ہم بات سنا نہیں رہے‘۔ اور جو نہیں ہے، اس کے ہونے کے ہم سب منتظر ہیں، مگر جو موجود ہے، اسے جاننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ہم کیا کریں؟ ہم اپنی پہچان کرائیں یا ہماری دعوت ہماری پہچان کرائے؟ ہمیں یہ دونوں کام کرنا ہوں گے۔ یہ دعوت کی ٹھوس ضرورت ہے۔ ہمیں اس کردار میں سامنے آنا چاہیے۔ ہم کس طرح اس کردار میں ڈھل سکتے ہیں؟ یہ بہت آسان ہے، مگر بہت نظر انداز پہلو ہے۔
یہ تاثر موجود ہے کہ ہم جملہ سرگرمیوں میں اپنا داعیانہ کردار محدود کر رہے ہیں یا پھر رفتہ رفتہ یہ کردار ختم ہورہا ہے۔ اس تاثر اور اسباب پر جماعت کے نظام میں مقامات کی سطح پر اور بالائی سطحوں پر بات ہونی چاہیے۔ ان تنظیمی اکائیوں میں بات تسلیم کرکے غوروفکر کرنا ہوگا کہ عام آدمی کی نگاہ میں ہم داعی نہیں، بلکہ ایک سیاسی مذہبی جماعت بن کر رہ گئے ہیں۔ داعی کے طور پر کارکن کا کردار بڑھانے کے لیے کام کرنا ہوگا۔ ہم اقامت دین کا کام کرنا چاہیں تو دعوتِ دین کے کام کو بہت زیادہ مستحکم اور متحرک کرنا ہوگا۔ اسے ہمہ گیر اور ہمہ جہت بنانا ہوگا۔
ماننا ہوگا کہ داعیانہ کردار کو ٹریڈ یونین کے سے انداز نے گہنا دیا ہے۔
سیاسی جماعتوں سے رابطوں کی عدم موجودگی نے مخاصمت کا تاثر گہرا کیا ہے۔ ان کے حوالے سے لوگ واضح اور ٹھوس موقف چاہتے ہیں۔
اجنبیت کی دیوار گرانے کے یہ چند پیمانے ہیں۔ ان کے بیان میں متبادل انداز بھی اختیار کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں خیر خواہوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ نیکی اور خیر خواہی کے جذبے سے عوام سے ملنا ہوگا۔ جب یہ جذبہ عام آدمی کی ضرورت بنے گا، تب ہم کہہ سکیں گے کہ ہماری بات سنی جا رہی ہے۔