طاقت کے نشے میں چور کسی بھی ملک کے لیے جنگ کی دلدل میں کود جانا بہت آسان، لیکن اس سے جان بچاکر واپس نکلنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ہر حملہ آور کی طرح اب امریکا بھی ’مقبوضہ‘ افغانستان سے نکلنے کی راہیں تلاش کررہا ہے۔ گذشتہ صدی کے اختتام پر ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روسی سلطنت اور ۱۹ویں صدی کے دوران ۱۸۴۲ء میں برطانیا بھی اسی انجام کو پہنچا تھا۔ اشتراکی روس تو اپنے الحادی نظریات سمیت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے فنا کے گھاٹ اتر گیا۔ باقی ماندہ روس کو نہ صرف وسطی ایشیا کو بھی آزاد کرنا پڑا، بلکہ مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک کو اپنی ’نظریاتی‘ اور سیاسی غلامی سے آزادی دینا پڑی۔ برطانیا جس کے راج میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا، اپنے جزیرے تک محدود رہ گیا۔ اب اس کی تقریباً آدھی آبادی کا خیال ہے کہ وہ یورپی یونین میں باقی رہے تو باقی ماندہ استقلال و امتیازی مقام بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ آدھے برطانوی شہری سمجھتے ہیں کہ یورپی یونین سے نکلے تو شدید اقتصادی بحرانوں میں گھر جائیں گے۔
امریکا، افغانستان میں وہی غلطیاں کرنے پر تلا ہوا ہے، جن کا ارتکاب افغانستان پر قبضے کے آخری اَدوار میں تباہی کا نوشتۂ دیوار پڑھ لینے کے باوجود، برطانیا اور اشتراکی روس نے کیا تھا۔ گذشتہ دونوں عالمی طاقتوں کی طرح اب امریکا بھی اسی انجام سے دوچار ہوا چاہتا ہے۔ اوّل الذکر دونوں وہاں سے نکلنا چاہتے تھے، لیکن وہاں اپنا قبضہ بھی باقی رکھنا چاہتے تھے۔ دونوں نے اپنے بعد وہاں اپنی کٹھ پتلی حکومتیں باقی رکھنے پر اصرار کیا۔ اب تیسرا طالع آزما امریکا بھی وہاں اپنے مضبوط فوجی اڈے باقی رکھنے کی ضد پر اڑا ہوا ہے، اور وہاں سے جانے کے بعد افغانستان کی حکومت اور نظام بھی من مرضی کا چاہتا ہے۔
بظاہر تو افغانستان پر امریکی حملے کی فوری وجہ نائن الیون کے واقعات بنے، لیکن اس کی خواہش و تیاریاں گذشتہ کئی عشروں سے جاری تھیں۔ اشتراکی روس کے خلاف جنگ میں افغان عوام کی مدد کرکے ایک ہدف حاصل کرنا یقینا اس کے پیش نظر تھا۔ افغانستان اور وسطی ایشیا کے وسیع تر قدرتی وسائل تک رسائی بھی غیر علانیہ، مگر بڑا واضح ہدف تھا۔ اشتراکی روسی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں کوئی مستحکم حکومت نہ بننے دینا بھی اسی امریکی ہدف کی تکمیل کی راہ ہموار کرنے کے لیے تھا۔ مختلف افغان دھڑوں اور جنگی سرداروں کے اختلافات اور لڑائیوں کی آگ پر مسلسل تیل چھڑکتے رہنا بھی انھی مقاصد کے حصول کے لیے تھا۔ لیکن آخر کار قرآن کریم کا اصول ایک اٹل حقیقت کی صورت میں سامنے آگیا:
وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ ط(الفاطر۳۵: ۴۳)، اور بُری چالیں اپنے چلنے والوں ہی کو لے بیٹھتی ہیں۔
اس الٰہی سنت کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔ افغانستان اور عراق میں ہونے والے نقصانات کا شمار کرنے کے لیے ایک امریکی باشندے کی بنائی ہوئی پیشہ ورانہ ویب سائٹ icasualties.org کے مطابق افغانستان اور عراق میں گذشتہ ۱۸ برسوں کے دوران امریکا اور اس کی حلیف فوجوں کے۸ہزار ۴سو ۵۰ فوجی قتل اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ ان میں سے صرف امریکا کے جہنم واصل ہونے والے فوجی ۶ہزار ۹سو ۸۵ تھے۔ بعض دیگر آزاد ذرائع مرنے والے حملہ آور فوجیوں کی تعداد کہیں زیادہ بتاتے ہیں۔ امریکا کی اس مسلط کردہ افغان جنگ کی آگ میں بھسم ہونے والے امریکی مالی وسائل ۳ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔ اب بھی ہر آنے والا دن ان مالی و جانی نقصانات میں مسلسل اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ ایک وقت تھا کہ عراق میں موجود ایک لاکھ ۳۵ہزار فوجیوں پر ایک ہفتے میں ایک ارب ڈالر خرچ ہورہے تھے۔ آخرکار ، امریکی مسلح افواج کی بڑی تعداد وہاں سے نکالنا پڑی، لیکن مداخلت و قبضہ اب بھی دو طرفہ نقصانات و تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
ایک امریکی دانش وَر اور جان ہاپکنز یونی ورسٹی کے استاد ڈاکٹر جوئل اینڈریس نے اس امریکی جنگی جنون کے بارے میں اپنی کتاب Addicted To War (’جنگی جنون‘ ترجمہ: محمد ابراہیم خان) میں ان امریکی جنگوں اور امریکا پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۹۱ء میں لکھی گئی تھی۔ افغانستان پر امریکی فوج کشی کے بعد نئے اضافوں کے ساتھ ۲۰۰۲ء میں دوبارہ شائع ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں:
امریکا میں جنگی جنون پانچ عشروں سے بھی زائد مدت سے پروان چڑھتا آیا ہے۔ امریکا نے اپنی جنگی مشین کو برقرار رکھنے اور دنیا کو وقتا فوقتاً اپنی بھرپور طاقت دکھاتے رہنے پر کم و بیش ۱۵ ہزار ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ جنگی جنون نے امریکاکو کس قدر نقصان پہنچایا ہے؟ اس کااندازہ لگانے کے لیے یہی دیکھ لینا کافی ہے کہ عوام کی محنت کی کمائی سے وصول کیے ہوئے ٹیکسوں کی مدد سے فوج اور اسلحہ خانے کو جو کچھ دیا جاتا رہا ہے اس کی مالیت ملک کے تمام اثاثوں کی مجموعی مالیت سے بھی زیادہ ہے۔ ماہرین کا کہناہے کہ امریکا میں جتنے پُل، سڑکیں، واٹر سسٹم، اسکول، ہسپتال، اسٹیڈیم، مکانات، شاپنگ مال، گھریلو آلات، سرکاری مشینری، گاڑیاں اور دوسری بہت سی چیزیں ہیں ان کی مجموعی مالیت بھی اس خطیر رقم سے زیادہ ہے، جو اَب تک فوج پر خرچ کی جاچکی ہے .... تمام فوجی تنصیبات، فوجی حملے اور سابق فوجیوں کی بہبود کے کھاتے میں جو کچھ خرچ کیاجاتا ہے وہ سالانہ ۸۰ ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ صرف اس ایک مد میں ایک منٹ میں ۱۰ لاکھ ڈالر خرچ ہورہے ہیں… امریکا کی جنگی مشین متحرک رکھنے کے لیے بہت کچھ درکار ہے۔ اس وقت امریکاکے پاس ۱۲ طیارہ بردار بیڑے ہیں۔ ایک طیارہ بردار بحری جہاز کم و بیش ایک ارب ڈالر کا پڑتا ہے… امریکا نے چھے عشروں کے دوران جوہری تجربات کے ذریعے کم و بیش ۴لاکھ ۸۰ ہزار فوجیوں کو ایٹمی تابکاری مواد کے سامنے کھڑا کیاہے۔ ان میں سے بہت سوں کی صحت کے لیے انتہائی پیچیدہ مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ ہزاروں امریکی فوجی سرطان میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں۔
اسی کتاب میں ڈاکٹر جوئیل اینڈریس ان جنگی اخراجات کی وجہ سے پورے امریکی معاشرے پر روز بروز مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں، جنھیں دیکھ کر ہر صاحبِ عقل امریکی ذمہ دار کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہوجانا چاہیے تھا، لیکن صدافسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے دسمبر ۲۰۱۸ء میں یہ اعلان تو کردیا کہ: ’’امریکا، افغانستان میں اپنے باقی ماندہ ۱۴ ہزار فوجیوں میں آدھے فوری طور پر نکال رہا ہے‘‘، اوراس سے ایک دن قبل انھوں نے اسی طرح کا اعلان شام سے اپنی فوجیں نکالنے کے حوالے سے بھی کیا تھا۔ لیکن یہ اعلانات اس الل ٹپ انداز سے کیے گئے کہ خود امریکی انتظامیہ بھی اس کے لیے تیار نہ تھی۔ وزیردفاع اس پر احتجاج کرتے ہوئے مستعفی ہوگئے۔ افغانستان میں موجود امریکی عسکری قیادت نے ایسے بیان دے دیے کہ جو اسی امریکی جنگی جنون کو جاری رکھے جانے کا اعلان ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ سٹاف جنرل جوزف ڈنفرڈ نے وضاحت کی: ’’افغانستان میں امریکی کارروائیاں منصوبے کے مطابق جاری رہیں گی‘‘۔ ناٹو افواج کے کمانڈر جنرل سکاٹ ملر بولے: ’’ہمیں افغانستان سے فوجیں نکالنے کے کوئی احکام موصول نہیں ہوئے‘‘۔
دوسری جانب دیکھیں تو خطے میں مختلف امریکی نمایندگان اور ذمہ داران حکومت کی ’شٹل ڈپلومیسی‘ (متحرک سفارت کاری) عروج پر ہے۔افغان نژاد خصوصی امریکی ایلچی زلمے خلیل زاد پاکستان، افغانستان، خلیجی ریاستوں اور چین میں بھاگ دوڑ کررہے ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ گذشتہ کئی ماہ سے جاری مذاکرات کے نئے دور منعقد ہو رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ یہ مذاکرات کئی بار تعطل کا شکار ہوئے اور آخرکار طالبان کی یہ شرط قبول کرلینے کے بعد ۲۱ جنوری ۲۰۱۹ء کو دوبارہ شروع ہوئے کہ:’’ امریکا افغانستان سے مکمل انخلا کا ٹائم ٹیبل فراہم کرے گا‘‘۔ امریکا نے شرط تسلیم کرتے ہوئے اضافہ کیا کہ: ’’افغانستان کو کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا‘‘۔ مذاکرات دو روزہ تھے، لیکن کئی دن جاری رہے۔ کابل میں قائم افغان حکومت کی شدید خواہش اور کوشش تھی کہ اسے بھی مذاکرات میں شریک کیا جائے، لیکن طالبان نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا۔
امریکا اور طالبان کے مابین حالیہ مذاکرات کا نتیجہ جو بھی نکلے، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہونے کو ہے۔ ایسے ہر نازک موڑ کی طرح اس موقعے پر تمام اطراف کو انتہائی احتیاط، حکمت، انصاف، حقیقت پسندی اور وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ افغان عوام نے گذشتہ ۱۸ سال کے دوران بدترین امریکی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ ان ۱۸برسوں کے دوران میں امریکی سربراہی میں نیٹو افواج نے قتل و غارت کے کیا کیا نئے ریکارڈ قائم نہیں کیے۔ مدارس میں حفظ قرآن کی اسناد وصول کرتے ہوئے سیکڑوں ہونہار پھولوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ شادی کی تقریبات میں جمع خاندانوں اور جنازوں میں جانے والے سوگواروں کے چیتھڑے اڑا دیے گئے۔ ہسپتالوں، تعلیمی اداروں اور معصوم عوام سے بھرے بازاروں کو راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا۔ پورے کے پورے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ دس سالہ سوویت جنگ کے دوران (۲۵ دسمبر ۱۹۷۹ء سے لے کر ۲ فروری ۱۹۸۹ء تک) ۲۰ لاکھ سے زائد بے گناہ افغان شہری شہید کردیے گئے تھے۔ حالیہ امریکی جنگ میں بھی مزید لاکھوں شہری پیوند خاک کیے جاچکے ہیں۔ اسلحے اور بارود کی بارش نے پورا ملک تباہ کرکے رکھ دیا۔ اس ساری تباہی و بربادی کے باوجود آخرکار امریکا اپنی تاریخ کی یہ سب سے طویل جنگ ختم کرنے پر مجبور ہورہا ہے۔ آغاز میں ان حملہ آور فوجیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے متجاوز تھی۔ صدر اوباما نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق ۲۰۱۴ میں بڑی تعداد میں فوج واپس نکال لی تھی اور صرف ۱۰ ہزار باقی رہ گئے تھے۔ ٹرمپ نے بھی انتخابی مہم میں یہی وعدہ دُہرایا تھا، لیکن انتخاب میں کامیابی حاصل کرتے ہی چار ہزار مزید فوجی بھیج دیے۔اب اسے بھی گھٹنے ٹیکنے پڑرہے ہیں۔
اس نازک ترین مرحلے پر تمام افغان اطراف کو اپنے تمام گذشتہ تلخ تجربات کو یاد رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔
اُمت مسلمہ کی تاریخ میں کئی بار یہ سانحہ ہوا کہ میدان جنگ میں جیتی ہوئی لڑائی، جنگ ختم ہونے کے بعد ہار دی گئی۔ ۱۹۸۹ء میں اشتراکی روس کا آخری فوجی بھی افغانستان سے نکل گیا تو اُمید پیدا ہوئی کہ خونِ شہداء سے سیراب اس سرزمین کو اب سکون و سلامتی اور تعمیر و ترقی کے دن دیکھنا نصیب ہوں گے۔ لیکن روسی سلطنت نے اپنے انخلا کے بعد اپنی قائم کردہ کٹھ پتلی نجیب اللہ حکومت کو باقی رکھا۔ نتیجتاً جنگ اسی طرح جاری رہی۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے یہ جنگ افغان عوام اور روسی فوج کے درمیان تھی، روس نکل گیا تو اب یہ جنگ براہِ راست افغان دھڑوں کی جنگ بن گئی۔ ایک جانب بالواسطہ روسی سرپرستی کا حامل صدر نجیب اللہ اور دوسری جانب روسیوں کے خلاف جہاد و مزاحمت کرنے والے تمام افغان دھڑے۔ اپریل ۱۹۹۲ء میں بالآخر صدر نجیب کی کٹھ پتلی حکومت بھی زمیں بوس ہوگئی۔ افغانستان میںوہ نازک ترین لمحہ آگیا،جس سے بچنے کے لیے ساری دنیاکی اسلامی تحریکیں اور مخلص رہنما مسلسل کوششیں کرتے رہے تھے،مگر پھر تاریخ نے ۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۶ء تک خود افغان مجاہدین کے مابین خوں ریزی کا بدنما دور دیکھا۔
اشتراکی روس کے خلاف جہاد پر پوری افغان قوم ہی نہیں، پورا عالم اسلام متفق تھا۔لیکن پورا عالم اسلام مل کر بھی جہاد کی قیادت کرنے والے رہنماؤں کو متحد نہ کرسکا۔ پروفیسر برہان الدین ربانی (مرحوم) اور انجینیر گل بدین حکمت یار کے مابین آرا کا اختلاف پہلے دن سے موجود تھا۔ پروفیسر ربانی صاحب اشتراکی روسی مداخلت کا مقابلہ صرف سیاسی میدان میں کرنے کے قائل تھے، جب کہ حکمت یار صاحب مسلح جہاد ضروری سمجھتے تھے۔ بالآخر سب رہنما جہاد پر تو مجتمع ہوگئے، لیکن دس برس کے دوران کئی معاہدوں اور لاتعداد مصالحتی کوششوں کے باوجود اپنے باہمی اختلافات کی خلیج ختم نہ کرسکے۔ نجیب حکومت بھی رخصت ہوئی توکابل کے ایک کنارے پر احمد شاہ مسعود اپنے مسلح دستوں کے ساتھ موجود تھے اور دوسرے کنارے پر گلبدین حکمت یار۔ دونوںرہنما افغان جہاد میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنی اپنی جگہ دونوں کا خیال تھا کہ: ’’میری قوت اور صلاحیت زیادہ ہے‘‘۔ بدقسمتی سے دونوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان تھا اور اسی کمزور پہلو کو سب دشمن قوتیں استعمال کرنا چاہتی تھیں۔
آج بھی جمعۃ المبارک کی وہ خوش گوار صبح ایک ایک تفصیل کے ساتھ یاد ہے۔ پشاور میں ساری دنیا سے آئے ہوئے اہم مسلمان رہنما اور اسلامی تحریکوں کی قیادت جمع تھی۔ اس سے پہلی شب مصالحتی مذاکرات کے مختلف ادوار چلتے رہے۔ جن میں طے پایا تھا کہ انجینئر حکمت یار اور انجینئر احمد شاہ مسعود کے مابین براہِ راست بات چیت کروائی جائے گی۔ یہ ذمہ داری محترم قاضی حسین احمد صاحب کو سونپی گئی۔ صبح ہی صبح ہم پشاور میں واقع برہان الدین ربانی صاحب کے مرکز پہنچ گئے۔ ربانی صاحب ہمارا استقبال کرنے کے بعد ایک دوسری جگہ جمع مختلف افغان، عرب اور پاکستانی رہنماؤں کے اجلاس میں چلے گئے۔کافی انتظار اور کوششوں کے بعد یہ تین جہتی وائرلیس رابطہ قائم ہوسکا۔
کابل کے دونوں کناروں پر بیٹھے افغان رہنما اور پشاور میں محترم قاضی حسین احمد صاحب، تینوں کے درمیان ایک طویل مکالمہ ہوا۔ اس میں شکوے بھی تھے، دھمکیاں بھی تھیں اور ڈانٹ بھی، لیکن آخر میں یہ واضح تھا کہ باہم اتفاق راے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس براہِ راست رابطے کے بعد موہوم اطمینان کے ساتھ ہم نماز جمعہ ادا کرنے قریبی مسجد پہنچے۔ دیگر سب رہنما بھی پہنچنا شروع ہوگئے۔ نماز ختم ہوتے ہی پروفیسر عبدالرب رسول سیاف صاحب کھڑے ہوئے اور سب کو مبارک باد دیتے ہوئے اعلان کرنے لگے کہ:’’سب افغان رہنما ایک فارمولے پر متفق ہوگئے ہیں جس کے تحت پہلے چار ماہ صبغۃ اللہ مجددی صدر ہوں گے۔ ان کے بعد چھےماہ کے لیے برہان الدین ربانی صاحب صدر ہوں گے۔ وزارت عظمیٰ حزب اسلامی (حکمت یار) کو دی جائے گی اور پھر انتخابات ہوں گے‘‘۔
ان کا اعلان ختم ہوتے ہی قاضی صاحب نے سیاف صاحب کو مسجد کے ایک گوشے میں لے جاکر پوچھا، اس فارمولے پر: ’’کیا حکمت یار بھی متفق ہوگئے ہیں؟‘‘
وہ کہنے لگے کہ: ’’نہیں، انھیں آپ اس پر راضی کریں گے‘‘۔
قاضی صاحب نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا: ’’کاش! آپ اس قبل از وقت یک طرفہ اور ناقابل عمل فارمولے کا اعلان نہ کرتے۔ افغان بحران کا اصل حل دونوں مرکزی قوتوں کو یک جا کرنے سے ہی ممکن ہوسکتا ہے‘‘۔
اس ضمن میں درجنوں بلکہ سیکڑوں مصالحتی کاوشوں میں سے ایک کا ذکر اس لیے کیا کہ خرابی کی اصل جڑ واضح ہوسکے۔ پورے دور جہاد کے دوران مختلف اندرونی و بیرونی قوتوں نے کسی نہ کسی افغان جماعت کو غالب اور کسی کو نظر انداز و کمزور کرنے کی روش اپنائے رکھی۔ کبھی مالی و عسکری امداد کی غیرمنصفانہ تقسیم کے ذریعے، کبھی سیاسی شعبدہ بازی کے ذریعے اور کبھی نسلی و مذہبی تعصب کی آگ بھڑکا کر۔
اس تقسیم کا اصل مقصد اور نتیجہ یہی تھا کہ افغانستان میں عوام کی کوئی حقیقی نمایندہ اور مستحکم حکومت نہ بن سکے اور اگر بنے بھی تو تقسیم کرنے والوں کی تابع فرمان ہو۔ آج بھی افغانستان پر قابض اور افغان عوام میں نفوذ رکھنے والی قوتوں کا بنیادی ہدف یہی ہے۔ امریکا نے اپنے ۱۸ سالہ جنگ و جدل کے دوران مختلف افغان اطراف میں بھی گہرا نفوذ حاصل کیا ہے۔ طالبان حکومت کے خلاف عسکری کارروائی کرتے ہوئے ’شمالی اتحاد‘ کا تعاون حاصل کیا گیا۔ طالبان مخالف ازبک اور ہزارہ گروپوں کو بھی سنہرے خواب دکھاکر ساتھ ملالیا گیا۔ لیکن جب حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی کانفرنس کے ذریعے حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسے چہرے سامنے لے آئے گئے۔ بون کانفرنس میں عبوری صدارت کے لیے تین نام پیش ہوئے تھے: عبدالستار سیرت، حامد کرزئی اور امین ارسلا۔ ابتدائی راے دہی ہوئی تو عبدالستار سیرت کو گیارہ، حامد کرزئی کو دو اور امین ارسلا کو ایک ووٹ ملا۔ پھر مذاکرات نے مزید طول کھینچا۔ امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد (جنھیں کئی افغان رہنما امریکی ’وائسرائے‘ کا طعنہ دیتے تھے) اور اقوام متحدہ کے خصوصی نمایندہ الاخضر الابراہیمی نے حامد کرزئی کی خصوصی وکالت و اعانت کی۔ بالآخر وہ عبوری اور پھر ’منتخب‘ صدر بنادیے گئے۔
زلمے خلیل زاد حالیہ دنوں میں بھی خصوصی امریکی ایلچی کی حیثیت سے مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔ ان کی شخصیت کا مختصر تعارف آج اور کل کا پورا منظرنامہ سمجھنے میں معاون ہوگا۔ وہ ۱۹۵۱ء میں شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف میں پیدا ہوئے۔ ماں باپ دونوں پشتون تھے۔ بعدازاں مزارشریف سے کابل منتقل ہوگئے، جہاں ’غازی‘ سکول میں انٹر کیا۔ انگریزی بہتر کی اور امریکن یونی ورسٹی، بیروت(لبنان) میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وظیفہ حاصل کرلیا۔ وہاں سے فراغت کے بعد امریکا کی شکاگو یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۷۹ء میں پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کی۔ اسی دوران آسٹریا کی شیرل بینرڈ سے شادی کرلی۔ دونوں میاں بیوی نے عالم اسلام کے بارے میں کئی اہم مقالے اور سفارشات لکھیں۔ ۱۹۸۴ء میں امریکی شہریت مل گئی۔ امریکی صدور: جمی کارٹر، رونالڈ ریگن اور جارج بش (سینیئر) کے ادوار میں کئی اہم مشاورتی و پالیسی ساز ذمہ داریوں پر فائز رہے، یہاں تک کہ افغان اُمور پر امریکا میں سب سے نمایاں نام بن گئے۔ صدر کلنٹن نے ذمہ داریوں سے فارغ کیا تو اہم امریکی تھنک ٹینک ’رینڈ کارپوریشن‘ میں ملازمت مل گئی۔ یہاں انھوں نے عالم اسلام اور اسلام کے بارے میں کئی سفارشات پیش کیں۔ اسی زمانے میں امریکی تیل کمپنی یونوکال (Unocal) کے مشیر کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ کمپنی افغانستان اور پڑوسی ممالک میں تیل و گیس کی تلاش اور اسے پائپ لائن کے ذریعے بحر ہند تک پہنچانے کے منصوبے پر کام کررہی تھی۔ اس وقت حامد کرزئی بھی یونوکال کے مشیر کی حیثیت سے ملازمت کررہے تھے۔ وہ بھی امریکی یونی ورسٹی بیروت سے فارغ تھے۔ دونوں کی دوستی مزید گہری ہوگئی جو بالآخر افغان صدارت پر منتج ہوئی۔
حامد کرزئی اور زلمے خلیل زاد ہی نہیں، امریکی یونی ورسٹی لبنان سے فارغ التحصیل کئی مشترکہ دوست افغانستان کے مدار المہام قرار پائے۔ ان میں سے ایک نام جناب اشرف غنی احمدزئی کا ہے۔ وہ ورلڈ بنک کے لیے خدمات انجام دیتے رہے اور انتہائی وفادار قرار پائے۔ افغان وزارت خزانہ ان کے سپرد کردی گئی۔ انھی ہم جولیوں میں ڈاکٹر شریف فائز(وزیر براے اعلیٰ تعلیم)، یوسف پشتون (وزیر بہبود دیہی آبادی) اور خالد پشتون (گورنر قندھار) کے نام بھی شامل ہیں۔ وزارتوں اور عہدوں سے زیادہ ان حضرات کا ہدف مغربی تہذیب سے ہم آہنگ افغان معاشرے کی تشکیل نو تھی۔
افغانستان دوراہے پر!
حالیہ افغان تاریخ کے دوراہے پر ایک بار پھر بون کانفرنس کے اصل کردار فعال تر ہیں۔ لیکن ایک حقیقت سب اطراف کو یاد رکھنا ہوگی کہ نومبر ۲۰۰۱ میں وہ کانفرنس امریکی حملے اور جزوی فتح کے تناظر میں منعقد ہوئی تھی۔ آج بظاہر امریکا، افغانستان سے نکلنے کے لیے کسی معقول راستے کی تلاش میں ہے۔ لیکن اگر گذشتہ ۱۸ سال کی ناکامیوں اور تباہی سے سبق نہ سیکھا گیا، تو شاید رہا سہا وقار بھی خاک میں مل جائے گا۔
تاریخ افغانستان کے اس نازک موڑ پر ایک انتہائی اہم فریضہ خود افغان طالبان کو بھی انجام دینا ہوگا۔ انھیں اپنے سابقہ دور حکومت اور اس کے بعد رُوپذیر تمام واقعات کا بے لاگ جائزہ لیتے ہوئے اپنے رویے پر بھی سنجیدہ نظرثانی کرناہوگی۔
افغانستان میں اشتراکی روس کی آمد کے بعد سے لے کر آج تک جتنی ناکامی اور تباہی ہوئی ہے، حملہ آور جارح قوتوں اور کئی غیرملکی خفیہ ایجنسیوں کے بعد، اس کی سب سے زیادہ ذمہ داری خود افغان بھائیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اپنے سوا باقی سب کو قابل گردن زدنی قرار دینے سے کسی بھی ملک اور معاشرے میں کبھی امن و سکون نہیں آسکتا۔ افغان طالبان کی ویب سائٹ پر آج بھی اکثر افغان احزاب اور ان کے رہنماؤں کو امریکا اور روس جیسا دشمن ہی قرار دیا جارہا ہے۔ ۲۱ جنوری ۲۰۱۹ء کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کا دور شروع ہوا اور اسی صبح وردگ میں افغان فوج کے تربیتی سنٹر پر خود کش حملہ کرکے ۱۰۰ سے زائد افغان شہری موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ جس طرح ایسا کوئی حل ناقابلِ عمل اور تباہ کن ہوگا کہ افغانستان سے نکلتے ہوئے، بون کانفرنس جیسا کوئی اور حل مسلط کردیا جائے، طالبان پر دہشت گردی کا لیبل لگا کر طالبان اور افغان فوج کو جنگ کی کسی نئی جہنم میں جھونک دیا جائے، خدانخواستہ افغانستان میں کسی نئی خانہ جنگی کا آتش فشاں لاوا اگلنے لگے، تباہی، مہاجرت اور خوں ریزی مسلط ہوجائیں۔ اسی طرح یہ راستہ بھی تباہ کن ہوگا کہ آنکھیں بند کرکے سابقہ غلطیوں کو دہرایا جانے لگے۔ ملک و قوم کے کسی بھی حصے کو اپنے جسم سے کاٹ پھینکا جانے لگے۔
افغانستان پر قبضے کے علاوہ امریکی افواج اور اس کے زیراثر حکومت نے وہاں جن کئی دیگر حماقتوں کا ارتکاب کیا، ان میں افغانستان کے پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کے خلاف نفرت کی اونچی دیواریں کھڑی کرنا بھی شامل ہے۔
اشتراکی روس کی یلغار سے لے کر آج تک افغان اور پاکستانی قوم عملاً یک جان دو قالب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکی موجودگی میں وہاں بھارت کو گہرا اثرونفوذ حاصل کرنے کے خصوصی مواقع دیے گئے۔ ذرائع ابلاغ سے پاکستان کے خلاف انتہائی زہریلا پروپیگنڈا کرتے ہوئے نفرت کے زہریلے بیج بوئے گئے۔ بعض ناراض پاکستانی قبائل سرداروں کو مزید متنفر کرتے ہوئے انھیں پاکستان سے علیحدگی اور دشمنی کے الاؤ بھڑکانے پر اکسایا گیا۔ افغان فوج کو ٹریننگ دیتے ہوئے پاکستان کو دشمن کے طور پر پیش کیا گیا۔
ایک پُرامن افغانستان کے قیام کے لیے ان تمام منفی اقدامات کی نفی کرتے ہوئے تمام پڑوسی ممالک کو دوستی اور بھائی چارے کا پیغام دینا ہوگا۔ پاکستان ایران، وسط ایشیائی ریاستوں، چین، روس اور بھارت سمیت تمام علاقائی ممالک کو بھی اپنے مفادات کے بجاے افغان امن و استحکام کو ترجیح اول بنانا ہوگا۔ صرف افغان عوام اور ان کے تمام حقیقی رہنماؤں کو پرامن مذاکرات کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا موقع دینا ہوگا۔ افغانستان کا امن و استحکام یقینا تمام پڑوسی ممالک کے لیے بھی مثبت نتائج پیدا کرسکے گا۔
علامہ محمد اقبال آج سے تقریباً ایک صدی پہلے دنیا کو خبردار کرگئے تھے کہ:
آسیا یک پیکرِ آب و گل است
ملّتِ افغاں در آں پیکر دل است
از فسادِ او فسادِ آسیا
در کشادِ او کشادِ آسیا
ایشیا آب و خاک سے بنا ایک جسم ہے، جس میں ملتِ افغان دل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کی تباہی پورے ایشیا کی تباہی اور اس کی تعمیر و خوش حالی پورے ایشیا کی خوش حالی ہوگی۔