فروری ۲۰۱۹

فہرست مضامین

اسلام کی نظر میں عورت

حسن البنا شہیدؒ | فروری ۲۰۱۹ | اسلامی معاشرت

Responsive image Responsive image

مجھے ایک فاضل دوست نے خط کے ذریعے متوجہ کیا ہے کہ مَیں عورت اور معاشرے کے حوالے سے، مرد و عورت کے مقام اور ان کے باہمی تعلق کے بارے میں کچھ عرض کروں کہ اسلام نے اس سلسلے میں کیا احکام دیے ہیں، اور لوگوں کو اس پر اُبھاروں کہ وہ ان احکام پر مضبوطی سے عمل کریں۔
میں اس حقیقت سے واقف ہوں کہ اس طرح کے موضوع پر لکھنا کس قدر اہم ہے ،اور نہ اس سے بے خبر ہوں کہ عورت کے حال کی درستی و شیرازہ بندی اُمت کی فلاح و بہبود کے لیے  کس قدر ضروری ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عورت ملت ِ اسلامیہ کی نصف آبادی پر مشتمل ہے، بلکہ یہ وہ نصف حصہ ہے جو اُمت کی زندگی پر بہت زیادہ اثرانداز ہوتا ہے کہ عورت ہی وہ پہلا مدرسہ ہے جو گروہوں کی تشکیل کرتا اور نئی پود کو ڈھالتا ہے۔ بچہ جس انداز سے تربیت پاتا ہے اسی پر قوم اور ملّت کی زندگی کے رُخ کا انحصار ہوتا ہے۔ پھر بچپن ہی نہیں بلکہ اس کے بعد بھی نوجوانوں اور مردوں کی زندگی میں عورت ہی مؤثر حیثیت رکھتی ہے۔
میں ان میں سے کسی چیز سے بے خبر نہیں ہوں اور نہ دینِ حنیف نے اس معاملے کو واضح کیے بغیر یونہی چھوڑ دیا ہے۔ چوں کہ اسلام تمام انسانوں کے لیے نور اور ہدایت بن کر آیا ہے اور اس نے انسانی زندگی کی پوری باریک بینی کے ساتھ بہترین بنیادوں اور اصولوں پر تنظیم کی ہے۔ ہاں، دینِ حنیف نے یقینا اس معاملے کو واضح کیے بغیر نہیں چھوڑ دیا ہے کہ لوگ اِدھر اُدھر حیران و سرگرداں مارے مارے پھریں، بلکہ ان کے لیے اس قدر وضاحت سے بیان کیا ہے کہ مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔
درحقیقت یہ بات کچھ زیادہ اہم نہیں ہے کہ عورت اور مرد اور ان کے باہمی تعلقات و فرائض کے سلسلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کا ہمیں علم ہو، کیوںکہ یہ علم قریب قریب ہرشخص کو ہے، البتہ جو چیز اہم ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا ہم اسلام کے احکام کے آگے سرجھکانے کو تیار ہیں؟
واقعہ یہ ہے کہ اس ملک، نیز دوسرے مسلم ممالک پر تقلید ِ مغرب کا شغف تیزو تند سیلاب کی طرح چھا گیا ہے اور لوگ اس میں ٹھوڑیوں تک غرق ہیں۔ پھر کچھ لوگ اسی پر بس نہیں کرتے کہ یورپ کی تقلید میں اس طرح ڈوب جائیں، بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام کو ان مغربی خواہشات اور مغربی تہذیب کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو دھوکا دے لیں، اور اس دین کی سہولت اور اس کے احکام کی نرمی کو ناجائز طور پر استعمال کرکے اور ان کی اسلامی صورت ختم کر کے انھیں ایسے نظاموں کی شکل دے دیں، جن کا دین سے کسی طرح کا جوڑ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اسلامی شریعت کی روح اور بہت سی نصوص کو جو ان کی خواہشات کے مطابق نہیں ہیں نظرانداز کردیں۔
فی الحقیقت یہ دوچند ہلاکت ہے، کیونکہ یہ لوگ صرف مخالفت پر بس نہیں کرتے بلکہ اس مخالفت کے لیے خودساختہ قانونی حیلے ڈھونڈتے ہیں اور ان کو جواز اور حلّت کا رنگ دیتے ہیں، تاکہ اس سے توبہ کرنے یا کسی دن اس سے باز آجانے کی نوبت ہی نہ آئے۔
پس، درحقیقت اب کرنے کا کام یہ ہے کہ ہم اسلامی احکام پر ایسی نظر ڈالیں جو ہواے نفس سے پاک ہو اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے قبول کرنے پر آمادہ کریں، خصوصاً اس معاملے میں،جو موجودہ ترقی و بیداری کے دور میں بنیادی و اساسی خیال کیا جاتا ہے۔

عورت کا مقام و دائرہ کار

اس لیے بے جا نہ ہوگا اگر ہم اس ضمن کے ان احکام کو بھی بیان کریں جن کا لوگوں کو علم ہے، اور ان کو بھی جن کا ان کے لیے جاننا ضروری ہے:
۱- سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسلام عورت کی قیمت و وقعت کو زیادہ کرتا ہے اور حقوق و فرائض میں اسے مرد کا شریک ٹھیراتا ہے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا صحیح و واقعی ہونا مسلّم ہے، کیوں کہ اسلام نے عورت کو اعلیٰ مقام بخشا اور اس کا مرتبہ بلند کیا اور اسے مرد کی بہن اور اسے اس کا ایسا شریکِ حیات ٹھیرایا، گویا وہ ایک دوسرے کا جزو ہیں، بَعْضُکُمْ مِنْ بَعْضٍ۔ نیز اسلام نے عورت کے کامل شخصی حقوق، کامل تمدنی حقوق، کامل سیاسی حقوق کا اعتراف کیا ہے اور اس کے ساتھ اس حیثیت سے معاملہ کیا ہے کہ وہ ایک کامل الانسانیت ہستی ہے، جس کے کچھ حقوق ہیں اور اس پر کچھ فرائض ہیں۔ جب وہ اپنے فرائض ادا کرے گی تو مستحقِ شکرگزاری ہوگی اور جو اس کے حقوق ہیں ان کی ادایگی ضروری و لازم ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں ایسی نصوص بہت ہیں جن سے اس بات کی تائید و توضیح ہوتی ہے۔
۲- مرد اور عورت کے حقوق میں تفریق ان فطری و طبعی اختلافات کی بنا پر ہے جن سے مرد و عورت کو کوئی مفر نہیں، نیز یہ تفریق اس ذمہ داری کے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے جو وہ دونوں انجام دیتے ہیں اور یہ ان حقوق کی حفاظت کے لیے ہے جو ہردو کو بخشے گئے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ: ’’اسلام نے مرد اور عورت میں بہت سے حالات و ظروف میں فرق کیا ہے اور ان میں کامل مساوات نہیں رکھی ہے‘‘۔ بظاہر یہ بات درست لگتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر عورت کا حق ایک گوشے میں کچھ کم کیا گیا ہے تو اس سے بہتر حق اس کو دوسرے گوشے میں دے دیا گیا ہے یا حقوق کی یہ کمی پہلے اس کے فائدے اور بھلائی کے لیے ہے اور پھر کسی اور کے لیے۔ علاوہ بریں کیا کوئی بھی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عورت کی جسمانی و روحانی ساخت مرد کی جسمانی و روحانی ساخت کے بالکل مساوی ہے؟ یا کیا یہ دعویٰ ممکن ہے کہ عورت کو اپنی زندگی میں جو کردار ادا کرنا ضروری ہے کیا وہ بعینہٖ وہی ہے جو مرد کے لیے ضروری ہے؟ جب تک ہم مادریت و پدریت پر یقین رکھتے ہیں، اس وقت تک اس طرح کا دعویٰ کیسے کیا جاسکتا ہے!
میرا یقین یہ ہے کہ عورت اور مرد کی ساخت مختلف ہے اور اسی طرح دونوں کے فرائض بھی مختلف ہیں، اور اس فرق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان دونوں سے متعلق نظمِ زندگی میں بھی اختلاف ہو۔ اسلام نے عورت اور مرد کے حقوق و واجبات میں جو فرق و امتیاز روا رکھا ہے، اس  کا راز یہی ہے۔
۳- عورت اور مرد میں ایک دوسرے کی طرف قوی فطری جاذبیت ہے اور یہی ان کے باہمی تعلق کی پہلی بنیاد ہے۔ اس جاذبیت کا حاصل اگرچہ یہ بھی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے قربت اور تمتع کرتے ہیں، مگر اس کی اوّلین غایت و غرض یہ ہے کہ حفظ نوعِ انسانی اور مشکلاتِ زندگی کی برداشت میں باہمی تعاون پیدا ہو۔
اسلام نے اس نفسانی میلان کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کو پاک کرکے حیوانیت سے روحانیت کی طرف عمدگی کے ساتھ موڑ دیا ہے۔ اس کو باعتبارغرض و مقصود مقامِ بلند عطا کیا ہے اور اسے محض جنسی تمتع کی پستی سے نکال کر کامل تعاون کی صورت بخش دی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ مِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّ رَحْمَۃً ط(الروم ۳۰:۲۱)اور اس کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے پیدا کیں تمھارے لیے خود تمھاری جنس سے تمھاری بیویاں، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو اور تم میں باہم مودّت و رحمت پیدا کی۔
یہی وہ اصول ہیں، جن کو اسلام نے عورت کی حیثیت متعین کرتے وقت ملحوظ رکھا ہے اور انھی پر اسلام کی اس حکیمانہ قانون سازی کی بنیاد ہے، جو دونوں جنسوں کے درمیان باہم تعاون کی پختہ بنیاد فراہم کرتی ہے کہ دونوں سے ایک دوسرے سے سماجی سطح پر پورا فائدہ اُٹھا سکیں اور مسائلِ حیات میں ایک دوسرے کے معاون بن سکیں۔

عورت کی تربیت کے تقاضے

اسلامی نظریے کے مطابق معاشرے میں عورت کا مقام کیا ہے، مختصر طور پر دو نکات میں اسے بیان کیا جاسکتا ہے:
پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسلام اس بات کو ضروری و لازم قرار دیتا ہے کہ ابتدا ہی سے عورت کے اخلاق کی درستی و پاکیزگی کی کوشش کی جائے اور اس کی تربیت اس طرح کی جائے کہ وہ فضائل و کمالات کی حامل بن سکے۔ اسلام والدین اور لڑکیوں کے سرپرستوں کو اس تربیت پر اُبھارتا ہے اور اس پر اللہ کی جانب سے اجرِعظیم کا وعدہ کرتا ہے اور اگر وہ ا س میں کوتاہی کریں تو سزا کی دھمکی دیتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَيْہَا مَلٰۗىِٕكَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ۝۶ (تحریم ۶۶:۶) اے ایمان والو! بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت اور متشدد فرشتے متعین ہیں، جو اللہ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے اور جن باتوں کا انھیں حکم دیا جاتا ہے، اس کی تعمیل میں مصروف رہتے ہیں۔
اور حدیث صحیح میں ہے:
تم میں سے ہرشخص ذمّہ دار ہے اور ہرشخص سے اس کی ذمہ داری میں دی ہوئی چیز کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ امیرالمومنین ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعیّت کے بارے میں سوال ہوگا ، آدمی اپنے اہل و عیال کا ذمہ دار ہے اور اسے ان کے بارے میں جواب دہی کرنی ہوگی، عورت اپنے شوہر کے گھر کی ذمّہ دار ہے اور اس سے اس سلسلے میں پوچھ گچھ ہوگی، اور نوکر اپنے آقا کے مال کا ذمہ دار ہے اور اس سے اس سلسلے میں سوال ہوگا، غرض تم میں سے ہرشخص ذمہ دار ہے اور اسے اپنی ذمہ داری کی جواب دہی کرنی ہے۔[  مسلم، کتاب الامارۃ، حدیث: ۳۴۹۶]
حضرت ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس مسلمان کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے ساتھ رہیں یا وہ ان کے ساتھ رہے، ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا رہے تووہ اسے جنّت میں پہنچانے کا باعث بنیں گی۔[ ابن   حبّان،کتاب البروالاحسان، حدیث:۴۴۷]
اور ابوسعید خدریؓ راوی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہے اور ان کے معاملے میں خداترسی کی روش اختیار کرے، تو وہ جنت کا مستحق ہے۔ [ترمذی، ابواب البّر والصلۃ، حدیث : ۱۸۸۸]
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظِ حدیث انھی کے ہیں اور امام ابوداؤد نے بھی اسے روایت کیا، مگر ان کے الفاظ یہ ہیں کہ اس نے ان کو تربیت دی اور ان سے حُسنِ سلوک کیا اور ان کی شادی کرا دی تو اس کے لیے جنّت ہے۔
عورت کی حُسنِ تربیت کا ایک جزو یہ بھی ہے کہ اس کو ان چیزوں کی تعلیم دی جائے جو  اس کے لیے ناگزیر ہیں اور جن کی ضرورت اسے اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں پڑتی ہے، جیسے: لکھنا پڑھنا، حساب کتاب، دینی تعلیم، سلف صالح مردوں اور عورتوں دونوں کی تاریخ، تدبیر منزل، حفظانِ صحت، مبادی تربیت، اُمور ِ اَطفال اور وہ تمام اُمور جن کی ایک ماں کو گھر کے نظم اور بچوں کی نگہداشت کے سلسلے میں ضرورت پڑتی ہے۔
 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں، انھیں دین میں بصیرت و تفقہ حاصل کرنے میں شرم مانع نہیں آتی۔[ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، حدیث:۲۷۳]
چنانچہ سلف میں بہت سی عورتیں علم و فضل اور بصیرتِ دین میں بہت اُونچا مقام رکھتی تھیں۔ رہے وہ علوم جن کی عورت کو ضرورت نہیں تو ان پر زور دینا فضول و بے فائدہ ہے کیوںکہ عورت کو ان کی کوئی حاجت نہیں اور اس کے لیے بہتر یہی ہے کہ اپنا وقت کسی مفید اور نفع بخش کام میں لگائے۔ چنانچہ عورت کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ اسے مختلف زبانوں میں تبحّر حاصل ہو اور نہ اسے خصوصی فنی معلومات کی ضرورت ہےکیوں کہ جیساکہ عنقریب معلوم ہوگا کہ عورت اوّل و آخر گھر ہی کے لیے ہے، نہ عورت کو اس کی حاجت ہے کہ اسے قانون میں مہارت حاصل ہو، بس اس کو قانون کا اتنا علم کافی ہے جس کی عام طور پر لوگوں کو ضرورت پڑتی ہے۔ 
مشہور قدیم عربی شاعر ابوالعلا المعری عورتوں کے بارے میں کہتا تھا:
ان کو کاتنا اور بُننا سکھائو اور نوشت و خواند چھوڑ دو۔ کیوںکہ ’حمد‘ اور ’اخلاص‘ کے ساتھ لڑکی کا نماز پڑھنا کافی ہے اور ’یونس‘ اور ’براءت‘ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن ہم اس حد پر ٹھیرنے کا ہرگز ارادہ نہیں رکھتے، مگر ہم وہ بھی نہیں چاہتے جو یہ غالی اور افراط پسند لوگ چاہتے ہیں کہ عورت پر ان علوم و فنون کو لاد دیں جن کی اس کو کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے برعکس ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت کو وہ تعلیم دو جس کی اسے اپنی ان ذمہ داریوں اور خدمات کی ادایگی کے سلسلے میں ضرورت ہے جن کے لیے اللہ نے اسے پیدا کیا ہے، یعنی تدبیرمنزل اور بچّے کی نگہداشت و تربیت۔

مخلوط کے بجاے جداگانہ معاشرت

دوسرا پہلو :عورت اور مرد میں دُوری ___ اسلام عورت اور مرد کے اختلاط میں حقیقی خطرات محسوس کرتا ہے۔ اس لیے نکاح کی شکل کے علاوہ وہ دونوں کو ایک دوسرے سے دُور دُور رکھتا ہے۔ اس بناپر اسلامی سوسائٹی مخلوط سوسائٹی ہونے کے بجاے غیرمخلوط سوسائٹی ہے۔
اختلاطِ مرد و زن کے علَم بردار کہیں گے کہ عدمِ اختلاط میں دونوں جنسیں ملنے جلنے کی لذت اور انس کی اس شیرینی سے محروم ہوجائیں گی، جسے ان میں سے ہر ایک دوسرے سے سکون حاصل کرنے میں پاتا ہے اور جس سے ان کا شعور اُجاگر ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سے اجتماعی اخلاق پیدا ہوتے ہیں، مثلاً ملاطفت، حُسنِ معاشرت، شائستگی کلام اور نرم خُوئی وغیرہ وغیرہ۔  اسی طرح ملتے رہنے سے ایک دوسرے کی طرف میلان بڑھتا ہے۔
یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں اور ان کی باتوں پر بہت سے نوجوان فریفتہ ہوجاتے ہیں، بالخصوص اس لیے کہ یہ طرزِفکر خواہشات و شہواتِ نفس کے عین موافق ہے۔ ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں کہ باوجود یہ کہ ہم اس دلیل کو تسلیم نہیں کرتے، جو تم نے سب سے پہلے بیان کی ہے۔ ہم تم سے کہتے ہیں کہ اس لذتِ اجتماع اور حلاوتِ شہوت کے نتیجے میں جو آبروئوں کی بربادی، نیتوں کی خباثت، دلوں کا فساد، گھروں کی ویرانی، خاندانوں کی تباہی اور جرائم کی وبا رُونما ہوتی ہے، اور پھر اس اختلاط کے نتیجے میں اخلاق میں جو لوچ اور کردار میں جو ضُعف پیدا ہوجاتا ہے، اس کے نتیجے میں مردوں اور عورتوں کی فطرتیں تک تبدیل ہوجاتی ہیں۔ یہ سب نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، جس کا انکار کوئی ضدی اور ہٹ دھرم انسان ہی کرسکتا ہے۔
اختلاط کے یہ تمام بُرے نتائج،ان کے متوقع فوائد سے ہزار درجے بڑھ کر ہیں اور اگر کسی شے میں مصالح و مفاسد کے دو متعارض پہلو موجود ہوں تو مفاسد کا دُور کرنا مصالح حاصل کرنے سے زیادہ بہتر ہے، خصوصاً اس وقت، جب کہ مفاسد کے مقابلے میں مصالح بالکل بے وزن و حقیر ہوں۔
اسی طرح دوسری دلیل بھی صحیح نہیں کہ اختلاطِ مرد و زن سے ایک دوسرے کی جانب میلان اور بھی بڑھتا ہے۔ ایک قدیم ضرب المثل ہے کہ کھانا بھوک کی خواہش بڑھاتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ عمر بھر رہتا ہے، مگر اس کے باوجود وہ اس کی طرف ہمیشہ نیامیلان پاتا ہے، جب کہ جو عورتیں مردوں سے اختلاط رکھتی ہیں، وہ قسم قسم کی آرایش و زیبایش کی نمایش میں نئے نئے انداز اختیار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتی ہیں اور اسی وقت راضی و خوش ہوتی ہیں، جب اس طرح وہ مردوں کی نگاہوں میں پسندیدہ قرار پاجائیں۔ اس مشق کا ایک بُرا اقتصادی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آرایش و نمایش میں حد سے تجاوز اور فضول خرچی کی وجہ سے افلاس، بربادی اور فقروفاقہ تک نوبت پہنچتی ہے۔
اس لیے ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ، بے مہار اور غیرقانونی مخلوط میل ملاپ کا معاشرہ نہیں ہے۔ اس میں مردوں کے لیے مردوں کا معاشرہ ہے اور عورتوں کے لیے عورتوں کا۔ چنانچہ اسلام نے عورتوں کے لیے عیدگاہ میں جانا اور جماعت میں شامل ہونا اور ضرورت پڑنے پر میدانِ جنگ تک میں پہنچنا جائز قرار دیا ہے، مگر اسلام اسی حد پر رُک گیا ہے اور اس کے لیے بھی اس نے سخت شرطیں لگائی ہیں، مثلاً یہ کہ عورت آرایش و زیبایش کے تمام مظاہر سے دُور رہے، ستر کا لحاظ رکھے اور اپنے جسم کو کپڑوں سے اس طرح ڈھانک لے کہ نہ تو جسم نمایاں ہو، نہ جھلکتا ہو اور کسی اجنبی کے ساتھ وہ تنہا نہ رہے خواہ کیسے ہی حالات ہوں، اور اسی طرح کی دوسری شرائط بھی۔
واضح اسلامی تعلیمات کی رُو سے یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ مرد کسی ایسی عورت کے ساتھ جو اس کی محرم نہ ہو،تنہائی میں رہے۔ چنانچہ اسلام نے دونوں جنسوں کے باہم اختلاط کے ضمن میں نہایت قوی اور محکم احکام دیے ہیں۔ چنانچہ اسلام کے آداب میں سے ایک بات یہ ہے کہ لباس میں ستر کو ملحوظ رکھا جائے، نیز احکامِ دین میں سے ایک حکم یہ ہے کہ اجنبی کے ساتھ تنہائی میں رہنا حرام ہے۔ اسی طرح اللہ کے دین نے اس بات کو ضروری قرار دیا ہے کہ نگاہیں نیچی رکھی جائیں۔ نیز یہ چیز اسلامی شعائر میں داخل ہے کہ عورتیں گھروں کے اندر رہیں، حتیٰ کہ نماز بھی گھروں ہی میں پڑھیں۔ اسی طرح اللہ کی مقرر کردہ حدوں میں سے ایک حد یہ ہے کہ بات یا اشارے کے ذریعے دوسروں کے جذبات کو مشتعل کرنے، نیز آرایش و زیبایش کے تمام مظاہر سے دُور رہا جائے بالخصوص باہر نکلتے وقت اور ان سب احکام کا مقصد یہ ہے کہ مرد اور عورت کے فتنے سے بچیں۔ چنانچہ آیات و احادیث میں یہ سب باتیں وضاحت سے بیان ہوئی ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سورئہ نُور میں فرماتا ہے:
 (اے نبیؐ) اہلِ ایمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی   شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہی روش ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ یقینا اللہ ان تمام کاموں سے باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں اور اہلِ ایمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی زیبایش ظاہر نہ کریں مگر وہ جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے دوپٹوں کو اپنے گریبانوں پر ڈال لیں اور اپنی زیبایش ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں، اپنے باپوں ، اپنے خسروں، اپنے بیٹوں، اپنے شوہروں کے بیٹوں، اپنے بھائیوں، اپنے بھتیجوں، اپنے بھانجوں، اپنی عورتوں، اپنے غلاموں یا ماتحت مردوں کے سامنے جو عورتوں کی ضرورت نہیں رکھتے یا ان بچوں کے سامنے جو ابھی عورتوں کی پوشیدہ باتوں پر مطلع نہیں ہوئے اور اپنے پائوں نہ ماریں کہ جو زیبایش وہ چھپائے ہوئے ہیں اس کا علم ہوجائے اور اے مومنو! اللہ کی طرف تم سب پلٹو تاکہ تم فلاح پائو۔(النور ۲۴: ۳۰-۳۱)
اور سورئہ اَحزاب میں ہے:
اے نبیؐ! کہہ دیجیے اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہ لٹکا لیں اپنے اُوپر اپنی بڑی چادریں، اس طرح زیادہ آسانی سے وہ پہچان لی جائیں گی اور انھیں چھیڑا نہ جائے گا۔(الاحزاب۳۳:۵۹) 

حیا اسلامی معاشرت کا شعار

اسی طرح احادیث میں کثرت سے اس سلسلے کے احکام موجود ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کے اس ارشاد کو نقل فرمایا:
غیرمحرم پر نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک مسموم تیر ہے، تو جو کوئی میرے خوف سے اسے ترک کر دے، تو میں اس کے بدلے میں اسے ایمان کی حلاوت بخشوں گا جسے وہ اپنے دل میں محسوس کرے گا۔[مسند الشھاب القضاعی ،حدیث:۲۸۳]
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
تمھیں اپنی نظریں ضرور نیچی رکھنی چاہییں اور اپنی شرم گاہوں کی ضرور حفاظت کرنی چاہیے، ورنہ اللہ تمھارے چہروں کو مسخ کردے گا۔[المعجم الکبیر للطبرانی، باب مااسند ابوامامۃ،حدیث: ۷۷۰۴]
حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
ہرصبح دوفرشتے ندا دیتے ہیں: ہلاکت ہو ان مردوں پر جو عورتوں کے چکّر میں پھنسے ہوں، اور ہلاکت ہو ان عورتوں پرجو مردوں کے چکّر میں پھنسی ہوئی ہوں۔(ابن ماجہ،  حاکم، کتاب الفتن، حدیث: ۳۹۹۷]
حضرت عقبہ بن عامرؓ راوی ہیں کہ اللہ کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
عورتوں کے پاس ہرگز نہ جائوتو انصار میں سے ایک شخص نے پوچھا: کیا خیال ہے آپ کا دیور کے بارے میں؟ (کہ وہ بھابی کے پاس جائے) تو آپؐ نے فرمایا: دیور تو موت ہے۔ [بخاری،کتاب النکاح، حدیث: ۴۹۳۸،  مسلم،کتاب السلام، حدیث:۴۱۳۲]
اس حدیث میں دیور کے پاس جانے سے مراد تنہائی میں جانا ہے جیساکہ دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں جاتا ہے تو شیطان ان کا تیسرا ہوتا ہے۔[صحیح ابن حبان، کتاب السیّر، حدیث:۴۶۴۶]
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ رہے مگر ا س وقت، جب کہ اس کا کوئی محرم بھی موجود ہو۔[بخاری، کتاب النکاح، حدیث: ۴۹۳۹]
حضرت معقل بن یسارؓ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
تم میں سے کسی شخص کے سر میں لوہے کی سلاخ چبھو دی جائے تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہوگا کہ وہ کسی ایسی عورت کو چھوئے جو اس کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔ [طبرانی، حدیث: ۱۷۲۸۴]
حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورتوں سے تنہائی میں ملنے سے بچو کیوںکہ اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! جب بھی کوئی شخص کسی عورت سے تنہائی میں ملتا ہے تو شیطان ان دونوں کے درمیان میں داخل ہوجاتا ہے۔  کسی انسان کی کسی ایسے سور سے رگڑ لگ جائے جو گارے یا کیچڑ میں لت پت ہو، یہ اس سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے کسی ایسی عورت کے کندھوں سے رگڑ کھائیں جو اس کے لیے حلال نہیں ہے‘‘۔[الطبرانی، باب الصاد، حدیث: ۷۶۹۴]
حضرت ابوموسیٰؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ہرآنکھ زانی ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر کسی مجلس سے گزرے تو وہ بھی زانی ہے‘‘(ترمذی،باب الادب، حدیث:۲۷۸۱]۔اسی حدیث کو نسائی، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: ’’جو عورت معطر ہوکر مردوں کے پاس سے اس لیے گزرے کہ وہ اس کی خوشبو پالیں، تو وہ زانیہ ہے اور ہر آنکھ زانیہ ہے‘‘۔’’ہر آنکھ زانیہ ہے‘‘ سے مراد وہ آنکھ ہے جو عورت کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھے۔
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت کی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں، اور ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کی مشابہت اختیار کرتی ہیں‘‘۔(بخاری، ، کتاب اللباس، حدیث: ۵۵۵۴]
حضرت ابن عباسؓ ہی سے روایت ہے کہ ایک بار ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے کمان لگائے ہوئے گزری تو آپؐ نے فرمایا: اللہ نے ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے جو مردوں کے ساتھ تشبّہ کرتی ہیں اور اسی طرح ان مردوں پر جو عورتوں کے ساتھ تشبّہ کرتے ہیں‘‘۔[المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث: ۴۰۹۷]
حضرت ابن مسعودؓ نے ایک بار فرمایا: ’’اللہ لعنت بھیجے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں اور خوب صورتی کے لیے بال نوچنے والیوں اور دانتوں میں خلا پیدا کرنے والیوں پر، جو اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو بگاڑتی ہیں‘‘۔[مسلم، کتاب اللباس والزینۃ، حدیث: ۲۱۲۵]
اس پر ایک عورت نے ان پر اعتراض کیا تو انھوں نے فرمایا: ’’جس پر اللہ کے رسولؐ نے لعنت بھیجی اس پر میں کیوں نہ لعنت بھیجوں، جب کہ اللہ کی کتاب میں اللہ کا فرمان موجود ہے: ’’رسولؐ جو تم کو دیں اسے لے لو اور جس سے منع کردیں اس سے رُک جائو‘‘۔ (بخاری ،کتاب اللباس، حدیث: ۵۶۰۲]
حضرت ابوہریرہؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نقل فرمایا ہے کہ: ’’اہلِ دوزخ میں سے دو گروہوں کو مَیں نے نہیں دیکھا۔ ایک وہ گروہ کہ جس کے ساتھ گائے کی دُم کے مانند کوڑے ہوں گے اور ان سے وہ لوگوں کو پیٹتے ہوں گے۔ اور ایک وہ عورتیں جو پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی، اپنی طرف دوسروں کو مائل کرنے والی اور ناز و اَدا سے چلنے والی ہوں گی، ان کے سر اُونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے۔ وہ جنّت میں داخل نہ ہوں گی، اور نہ اس کی خوشبو پاسکیں گی حالانکہ اس کی خوشبو بہت دُور سے سونگھنے میں آتی ہے۔[مسلم، کتاب اللباس، حدیث: ۴۰۶۵]
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ اسماءؓ بنت ابی بکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح آئیں کہ وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا: اے اسماءؓ، جب عورت بالغ ہوجائے تو اس کے جسم میں سے سواے اِس اور اِس کے___اور آپؐ نے چہرے اور ہتھیلی کی طرف اشارہ کیا___ اور کچھ نظر نہ آنا چاہے‘‘۔[الترغیب والترھیب، المنذری، حدیث: ۲۰۴۵]
نیز ابوحمید ساعدیؓ کی زوجہ اُمِ حمیدؓ فرماتی ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: ’’اے اللہ کے رسولؐ ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتی ہوں‘‘۔ تو آپؐ نے فرمایا: ’’مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہو مگر تمھارے لیے کوٹھڑی میں نماز پڑھنا اس سے بہترہے کہ کمرے میں پڑھو اور کمرے کی نماز گھر کی نماز سے بہتر ہے اور گھر کی نماز تمھارے لیے محلے کی مسجد کی نماز سے بہتر ہے اور محلے کی مسجد میں تمھارا نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘۔[مصنف ابن ابن شیبہ، کتاب صلاۃ التطوع، حدیث:۷۵۰۳]
 اس پر اُمِ حمیدؓ نے اپنے لیے اپنے گھر کے آخری اور تاریک ترین حصے میں مسجد بنوالی اور اس میں نماز پڑھتی رہیں یہاں تک کہ وہ اللہ سے جاملیں۔(احمد، ابن خزیمہ، ابن حبان)

موجودہ روش اور اسلام

اس وضاحت کے بعد کسی وضاحت کی ضرورت نہیں اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ہماری جو روش ہے اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، چنانچہ ہمارے مردوں اور عورتوں میں یہ کھلا ہوا اختلاط جو مدرسوں، اداروں، مجمعوں اور عام محفلوں میں ہوتا ہے اور عورتوں کا یہ کھیل کود کے مقامات اور ہوٹلوں اور پارکوں کی سیر کرنا اور یہ بازاری پن اور یہ آرایش و زیبایش جو ننگ پن اور حیافروشی کی حد تک پہنچ گئی ہیں، اسلام سے ان کا کوئی جوڑ نہیں لگایا جاسکتا،نیز اس کے بدترین نتائج ہماری اجتماعی زندگی میں رُونما ہورہے ہیں۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اسلام نے پبلک معاملات میں حصہ لینا عورت پر حرام نہیں کیا ہے اور کوئی بھی نص ایسی موجود نہیں ہے جس کا یہ مفہوم ہو،اگر ہے تو ایسی کوئی نص لائو جس میں اس کی حُرمت کی صراحت ہو؟ ان لوگوں کا حال اس شخص کی مانند ہے جو یہ کہے کہ والدین کو پیٹنا جائز ہے کیونکہ آیت میں صرف ’اُف‘کہنے سے منع کیا گیا ہے اور پیٹنے کے ممنوع ہونے پر کوئی نص نہیں۔
اسلام نے عورت کے لیے یہ بات حرام ٹھیرائی ہے کہ وہ اپنے بدن کا کوئی حصہ کھولے یا کسی غیر کے ساتھ تنہائی میں رہے اور اس سے ملے جلے اور اس کے لیے یہ بات پسندیدہ قرار دی ہے کہ وہ نماز اپنے گھر میں پڑھے۔ پھر اسلام غیرمحرم پر نظر ڈالنے کو ابلیس کے تیروں میں سے ایک تیر خیال کرتا ہے اور عورت کو اس بات پر بھی ٹوکتا ہے کہ وہ مردوں کی مشابہت اختیار کرتے ہوئے کمان کو بھی لٹکائے۔ کیا اس کے بعد بھی کہا جائے گا کہ اسلام نے اس بات کی صراحت نہیں کی ہے کہ عورت کے لیے پبلک اُمور میں حصہ لینا جائز نہیں ہے۔ 
اسلام کے نزدیک عورت کی فطری و بنیادی ڈیوٹی گھر اور بچے کی ہے۔وہ ایک لڑکی ہے جسے اپنے گھریلو مستقبل کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ وہ ایک بیوی ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے گھر کے لیے وقف ہوجائے۔ وہ ایک ماں ہے جس کا اپنے شوہر اور اپنی اولاد اور گھر کے لیے فارغ ہونا ضروری ہے۔ مختصر یہ کہ وہ گھر کی مالک، منتظم اور ملکہ ہے اور اگر یہ صحیح ہے تو پھر وہ کسی اور ذمہ داری کو کس طرح سنبھال سکتی ہے کیونکہ وہ گھر کے فرائض سے کب فارغ ہوسکتی ہے؟ لیکن اگر اجتماعی ضروریات مجبور کریں کہ اس فطری ڈیوٹی کے ماسوا عورت کوئی اور کام بھی کرے تو عورت کو لازم ہے کہ اُن تمام شرائط کا پوری طرح لحاظ رکھے، جو اسلام نے اس لیے مقرر کی ہیں کہ عورت مرد کے فتنے سے دُور رہے اور مرد عورت کے فتنے سے۔ پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اس کا یہ عمل بقدر ِ ضرورت ہی ہو، نہ یہ کہ یہ کوئی عام قاعدہ یا چلن ہو، جس کے مطابق عمل کرنا ہرعورت کا حق ہو___ لیکن اس معاملے کے بہت سے گوشے ہیں جو طویل بحث و تمحیص کے طالب ہیں، بالخصوص یہ پہلو کہ اس ’میکانکی و مادی‘ دور میں بے روزگاری اور مردوں کی بے کاری ہر قوم اور ہرحکومت کی مشکل ترین گتھی ہے۔